اسلوب احمد انصاری، شمس الرحمن فاروقی، گوپی چند نارنگ، فضیل جعفری اور شمیم حنفی وغیرہ کے بعد اردو ادیبو ںکی جو نسل اپنے سنجیدہ ادبی و تنقیدی سروکار کے توسّط سے اعتبار و استناد تک پہنچی، ان میں ایک اہم اور ممتازنام ابوالکلام قاسمی کا بھی ہے۔ ادبی تنقید سے ان کے ذہنی شغف اور شوق کا سلسلہ گزشتہ تقریباً چار دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ پی ایچ۔ڈی مقالے پر مبنی کتاب ’مشرقی شعریات اور اردو تنقید کی روایت‘ کے علاوہ زیادہ تر مضامین لکھ کر انھوں نے اپنی شناخت قائم کی ہے۔ ان کی ایک خوبی جو کم لوگوں میں ملتی ہے اس کا تعلق ان کی اس صلاحیت سے ہے جب متعلقہ موضوع کے بارے میں تقریباً تمام تفصیلات ان کے ذہن میں واضح ہوجاتی ہیں تو وہ منصوبہ بند طریقہ پر مرحلہ وار اپنے مقدمات پیش کرتے اور آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ اس کے کئی فوائد ہیں۔ اوّل یہ تکرار خیال سے بچتے ہیں دوم زیر بحث مسئلہ الجھنے کے بجائے ایک منطقی انجام تک اس طرح پہنچتا ہے کہ قاری کو تشنگی کے بجائے ایک تشفی کا احساس ہوتا ہے۔ مضمون لکھنے کا یہ ایسا آرٹ ہے جو بغیر مشق اور ریاضت کے ہاتھ نہیں آتا۔ مغرب میں یہ ایک مضبوط روایت رہی ہے جس کی پیروی مشرق میں کم ہی کی جاسکی۔ ابوالکلام قاسمی نہ صرف اس روایت پر کامیابی کے ساتھ گامزن ہیں بلکہ وہ آل احمد سرور اور خلیل الرحمن اعظمی کی مانند تنقید کی زبان کے بنیادی فرائض سے پہلوتہی کیے بغیر اور مباحث کو ضروری حد تک فلسفیانہ تفکر کی سطح تک لے جانے کے
باوجود اس کے ادبی اور جمالیاتی تقاضوں کو بھی کم ہی نظر انداز کرتے ہیں۔ شاید یہی خوبی ہے جو قاسمی کو اپنے ہم عصروں میں زیادہ توجہ کے قابل اور لائق مطالعہ بناتی ہے۔(یہ بھی پڑھیں تانیثیت کے بنیادی مقدمات – پروفیسر ابو الکلام قاسمی )
مختلف النوع مضامین پر مشتمل قاسمی کی تازہ ترین کتاب ’کثرتِ تعبیر‘ کے مطالعہ سے بھی ان کے مذکورہ تنقیدی طرزِ عمل کی ہی توثیق ہوتی ہے جس کے سبب اِس تصنیف کے بیش تر مضامین جہاں نقاد کی دیدہ وری اور وسعت مطالعہ کے غماز ہیں، زبان کی تازہ کاری اور حلاوت کا بھی… وافر ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ متعدد ادبی اصناف اور اشخاص کی اس کہکشاں میں انھوں نے غالبؔ، اقبال اور اخترالایمان پر بھی خاطرخواہ توجہ دی ہے۔
غالب اور اقبال پر اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان کے فکر و فن کے تعلق سے کوئی نئی بات یا کسی نئے پہلو کا انکشاف تقریباً ناممکن ہے، تاہم قاسمی صاحب کا شمار ان اہل نظر لوگوں میں ہوتا ہے جو کوئی مضمون رواداری یا محض خانہ پری کے لیے نہیں لکھتے، چنانچہ انھوں نے اپنے مطالعات غالب اور اقبال میں بھی تعبیر کی نئی جہتیں دریافت کرنے کی کوشش کی ہے جو یقینا توجہ کے قابل ہے۔ کلامِ غالب میں تصور عشق کی ثنویت، کے سیاق میں پیش پا افتادہ خیالات سے گریز کرتے ہوئے انھوں نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ غالب کی منفرد خلاقانہ شخصیت وادیٔ عشق میں بھی حواس باختہ ہوتی ہے اور نہ خود سپردگی اور نفیٔ ذات کی سزاوار ہونا پسند کرتی ہے۔ چنانچہ کلام غالب سے مختلف مثالوں کے ذریعہ واضح کرتے ہیں کہ اکثر و بیش تر شاعر غالب اور عاشق غالب، دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوجاتے ہیں، جسے غالب اپنا غیر بنا کر پیش کرتے ہیں۔ قاسمی نے غالب کی مزاجی کیفیات کے تعلق سے ایک اہم نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کا خیال ہے کہ غالب نے زندگی کے عام معمولات، معاملات اور تفصیلات کو اپنے مکتوب میں بیان کیا، تاہم ذہنی رویوں تصوراتی اور ماورائی زندگی کی تشکیل شاعری کے لیے مخصوص کی، اس طرح شعری عمل ان کی فکری آزادی کا وسیلہ اور شاعری ان کی پناہ گاہ بن گئی۔ غالب کے عشقیہ واردات کے ضمن میں یہ وہ حقائق ہیں جن کی طرف قاسمی نے اشارہ کرکے بڑی باریک بینی کا ثبوت دیاہے۔ بعینہٖ نوآبادیاتی صورت حال پر اقبال کے ردعمل کے ضمن میں انھوں نے بعض بڑے پتے کی باتیں کہی ہیں۔ نوآبادیاتی ڈسکورس کے سیاق میں مضمون کے آغاز میں جو باتیں کی گئی ہیں ان سے انکار ناممکن ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ اقبال بیسویں صدی کے ان معدودے چند شاعروں میں ہیں جنھوں نے اپنی فہم و فراست سے مغربی تہذیب میں مضمر تضادات اور اس کے عیب و ہنرکو بخوبی سمجھا تھا جس کا برملا اظہار ان کی شاعری اور نثری تحریروں میں موجود ہے بلکہ جیسا کہ قاسمی نے بتایا ہے خود مغرب کے بعض اہل نظر، مثلاً کالرج، بلیک اور ورڈس ورتھ وغیرہ بھی حد سے متجاوز عقل پرستی کے حق میں نہ تھے۔ قاسمی کا یہ موقف بھی درست ہے کہ اقبال مغرب کے سخت محاسب اور ناقد ہونے کے باوجود مشرق کی مجہولیت اور بے عملی کے پس منظر میں مغرب میں موجود حرکت و عمل کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے دکھاتے تھے، بلکہ یہاں پائی جانے والی بے ربطیٔ افکار اور صلابت کے فقدان کو بھی نقصان دہ اور ہلاکت خیز تصور کرتے تھے۔ نوآبادیاتی تہذیبی اقدار اور اعمال کی نقش گری کے لیے اقبال نے جس طریقہ سے موثر تخلیقی حربے اور شعری تدابیر استعمال ہیں ان کو نشان زد کرنے کا فریضہ بھی قاسمی نے بڑی باریک بینی سے ادا کیا ہے، چنانچہ ان کا یہ کہنا کہ فرنگ، دور حاضر، تہذیب حاضر، دانش حاضر اور کلیسا وغیرہ جیسی اصطلاحات اقبال نے مغربی تہذیب کے مترادف یا متبادل کے طور پر استعمال کی ہیں۔ علاوہ ازیں اقبال کے نظام فکر میں مغرب کہیں طاقت اور جلال کی نمائندگی کرتا ہے تو مشرق نرمی اور جمال کی۔ ایک دوسرا پہلو جس کی طرف قاسمی نے اشارہ کیا ہے اس کا تعلق مغرب کے تصور وطن سے ہے جو اقبال کے نزدیک علاحدگی اور جغرافیائی تقسیم کے مترادف ہے جس میں نسلی تفریق کے جراثیم موجود ہیں۔ یہاں قاسمی نے اقبال کے معروف شعر:
تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
کے حوالہ سے فکر اقبال کی اس کش مکش کی طرف صحیح اشارہ کیا ہے کہ تہران میں جمعیت اقوام مشرق جیسی کوئی تنظیم ہوتی تو اہل مشرق اپنے مسائل یہاں مل کر حل کرسکتے تھے۔ تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ تہران کی مرکزیت کے پس پشت شیعہ سنی مسئلہ کا تصفیہ بھی اقبال کے پیش نظر رہاہو، جو اتحاد و اتفاق کی صورت میں ایک بڑی طاقت بن کر ابھر سکتے تھے، جس کی طرف قاسمی نے دھیان نہیں دیا۔ اس سے قطعاً اختلاف نہیں ہوسکتا کہ مذہب ایک بہت بڑی اخلاقی قوت ہے جس کی مقناطیسی جذب پزیری بھی تسلیم شدہ ہے، تاہم اس وقت تمام عالم اسلام خصوصاً پاکستان میں اسلام اور مسلمانوں کا جو حال ہے مذہب اور ریاست کی تطبیق اقبال جیسے بڑے مفکر کا محض ایک آئیڈیل یا خوابناک تصور ہی کہا جاسکتا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں ابو الکلام قاسمی: بیسویں صدی سے آگے کا آدمی – پروفیسر غضنفر)
فکر اقبال کے ایک اور نہایت اہم پہلو بازار حصص اور نجی کاری سے وابستہ موجودہ سنگین صورتِ حال جس میں اہل مغرب اور اس کے پیرو بری طرح گرفتار ہوچکے ہیں جس کا انتباہ اقبال نے واضح طور پر کیا تھا:
ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات
اس وقت مہذب دنیا کے لیے شاید سب سے بڑا چیلنج ہے۔
قاسمی نے ذیل کے اشعار:
افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج
ملّا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
اہل حرم سے ان کی روایات چھین لو
آہو کو مرغزار ختن سے نکال دو
کے سیاق میں دانش اقبال پر روشنی ڈالتے ہوئے اہل مغرب کی کئی صدیوں پرانی اسلام اور مسلم دشمنی کی جانب بجا طور پر اشارہ کیا ہے، تاہم اقبال کی حددرجہ ثنا خوانی میں وہ یہ بھول گئے کہ عظیم اخلاقی و انسانی اقدار و روایات کی جستجو میں اقبال کی غیرمعمولی ماضی پرستی اور اس کے پراسرار دھندلکوں سے رومانی شیفتگی نے مسلمان نوجوانوں کے ذہنوں پر نہ صرف مغرب اور مغربیت بلکہ بحیثیت مجموعی جدید سائنسی علوم اور تحقیق و جستجو کی برکات سے بھی اِس درجہ برگشتہ کردیا کہ وہ جیتے جی افسانہ اور نمونۂ عبرت بن گئے جس کی بدترین مثال موجودہ افغانستان ہے۔
ماضی پرست تو ٹیگور بھی تھے جنھوں نے مغربی ثقافت پر سخت تنقید کی اور اپنی قومی حمیت و انفرادیت پر ہمیشہ اصرار کیا لیکن ان کی شاعری کا جادو شاید اتنا تیز اثر نہ تھا جتنا اقبال کی صہبائے دو آتشہ کا نشہ تھا جو اترا نہ اس سے نجات کی صورت ہی نکل پائی۔ قاسمی کے مطالعات میں اردو کے ایک البیلے شاعر اور نئی اردو نظم کے اہم ترین نمائندہ اخترالایمان کے شعری امتیازات پر بھی ایک مضمون شامل ہے جو اس لحاظ سے بھی خیرمقدم کیے جانے کے قابل ہے کہ اخترالایمان پر بہت کم توجہ دی گئی اور ان کی فطری اور خداداد صلاحیتوں کی زائیدہ غیرمعمولی تخلیقی اپج اور فنّی امکانات کا عرفان و ادراک بہت کم کیا جاسکا۔
قاسمی نے اس مضمون میں اخترالایمان کی مختلف چھوٹی بڑی نظموں میں پوشیدہ فنی اور تخلیقی ندرت اور نزاکتِ احساس کو جس خوبی اور باریک بینی سے نشان زد کیا ہے اس کی جس قدر ستائش ہو کم ہے۔ قاسمی نے اخترالایمان کی نظموں کی قرأت اور تفہیم کے لیے بجاطور پر یہ شرط عائد کی ہے کہ ان کا تصور کائنات ان کے تہذیبی رویوں میں اس درجہ پیوست ہے کہ دونوں کو علاحدہ کرکے کسی نتیجہ تک پہنچنا دشوار ہے، حد یہ کہ ان کے فنّی لوازم، طنز ، قول محال، مکالمہ اور خودکلامی وغیرہ کے متحرک کردار کو بھی مذکورہ آمیزش کی نوعیت کو سمجھے بغیر قابل فہم نہیں بنایا جاسکتا۔ ( یہ بھی پڑھیں میراتنقیدی موقف – پروفیسر ابو الکلام قاسمی )
اخترالایمان کی مجموعی فنی کارکردگی کا احاطہ کرتے ہوئے قاسمی نے بعض بڑی اہم اور قابل توجہ باتیں کہی ہیں جس سے ان کے مشاہدہ اور تنقیدی بصیرت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ:
’’اخترالایمان کے موضوعات اور طرزِاظہار میں جو مناسبت اور ہم آہنگی ہے اس میں تجربے کی بدلی ہوئی نوعیت کے تقاضے کے مطابق ہیئت کی داخلی ساخت میں تبدیلی کا بڑا اہم رول ہے۔ اخترالایمان نے کبھی بھی چونکانے والے ہیئتی تجربے نہیں کیے۔ ان کی زیادہ تر نظمیں معرّیٰ کی ہیئت میں ہیں۔ مگر وہ بھی داخلی ٹکنیکی تنوع کے ذریعہ ہیئتی تجربے کا بدل پیش کرتی ہیں۔ ان کے ہاں فضا آفرینی پر خاص توجہ ملتی ہے اور موضوع کی مناسبت سے نظم کی فضا اور اس کا غیررسمی آہنگ و ابلاغ کے اہم وسیلے کا کردار ادا کرتا ہے۔ اخترالایمان خیال کے تسلسل پر قوافی کی موجودگی میں بھی قوافی کی قدغن عاید نہیں ہونے دیتے۔ کبھی کبھی مصرعوں کو درمیان سے منقسم کرکے آہنگ کو اپنی سوچ کی لے کا تابع بنا لیتے ہیںاور کبھی کبھی اس انداز کے برخلاف وہ مصرع کو دوسرے مصرعوں سے اس طرح پیوست کرتے ہیں کہ آہنگ کا تاثر دیر تک قائم رہے۔‘‘
اس نسبتاً طویل اقتباس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ابوالکلام قاسمی نے اخترالایمان کی شعری کائنات کی مختلف جہتوں کا کس دقّتِ نظر، توجہ اور ذہانت سے مطالعہ کیاہے اور اس عظیم شاعر کے تخلیقی کارناموں کی اصل وقعت اور قدر و قیمت کا راز منکشف کرنے کی سعیٔ مشکور کی ہے۔
ابوالکلام قاسمی کی تصنیف ’کثرت تعبیر‘ میں شامل اکثر مضامین سے ان کی غیرمعمولی تنقیدی سوجھ بوجھ، انفرادیت اور سرمایۂ علم و دانش سے حیرت انگیز باخبری کا سراغ ملتا ہے جو زبان و بیان کی شگفتگی اور دلآویزی سے آمیز ہوکر قاری کے ذہن میں دیر تک بازگشت کرتے رہتے ہیں۔ ( یہ بھی پڑھیں اردو شاعری کی کلاسیکی شعریات – پروفیسر ابو الکلام قاسمی )
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
| ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |


2 comments
[…] تحقیق و تنقید […]
[…] تحقیق و تنقید […]