عشاء کی اذانیں ہو چکی تھی ۔ اندھیرا بھی آسمان پر کالے چادر کی طرح پھیل چکا تھا۔ ٹھٹھرتی رات تھی ۔ امبر اپنے مالکوں کے گھر سے اپنے گھر کی طرف روانہ تھی ۔ اس کا گھر پاس ہی تھا۔ لیکن وہ سوچوں میں اتنی غرق تھی کہ اپنے گھر سے آگے نکل گئی تھی ۔ یا شائد وہاں جانا نہیں چاہتی تھی ۔ ہر طرف اندھیرا تھا راستے میں کتوں اور بلیوں کے سوا کوئی نہیں تھا ۔ جسم پسینے میں شرابور خوف سے کانپ رہا تھا ۔ وہ سوچ رہی تھی کہ میرے پاس تو عزت کے سوا کچھ نہ تھا۔ میرا باپ جو مالکوں کی غلامی کرکے ہر وقت مجھے اپنے عصمت کی حفاظت کی تاکید کرتا ہے کہ ” بیٹی اپنی عزت کا خیال رکھنا ۔ میں ۔۔۔۔ میں نے کیا کیا؟ اس کی زبان رک سی گئی ۔ بے شک ہمارے گھر کی چار دیواری اتنی اونچی نہیں ہے ، جتنی اونچی حویلی میں رہنے والے لوگوں کی ہے” ۔ وہ چلتے جارہی تھی اور اس رات کو یاد کررہی تھی, جب اس کی بڑی بی بی فریحہ اپنے کسی لڑکے دوست کے ساتھ حویلی میں گاڑی سے اتر کر آئی اور بھائی نے اس ڈانٹا اور مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا تو اس نے کتنا شور مچایا تھا اور کس طرح باپ نے فریحہ کا ساتھ دے کر اس کو چھوٹے صاحب بچایا تھا ۔ جسم دربل تھا۔ لیکن وہ چل رہی تھی ۔ آج اسے اپنا آپ ایک گناہ محسوس ہو رہا تھا ” کہ کیوں ہم پیسے پیسے کے لئے ترستے ہیں؟ کیوں ہم ایک خوشحال زندگی نہیں گزار سکتے؟ کیوں ہم سائیں کے ٹکڑوں پر پل رہے ہیں ؟ کیوں ہم تڑپ رہے ہیں؟ کیوں ہم خوار ہورہے ہیں؟؟ کیوں ہماری تزلیل ہوتی ہے ؟ کیوں ہماری عزت ک۔۔۔سی ۔۔۔۔ ک۔۔۔و امبر کے خلق میں بات اٹک گئی اور اوپر اسمان کی طرف دیکھنے لگی اسے محسوس ہورہا تھا کہ اس سنسان راستے میں کوئی ہے اوپر جو اسے سن رہا ہے ۔ آنکھوں سے آنسوں ٹپ ٹپ جاری تھیں ۔ خنکی بہت تھی لیکن امبر کے اندر کا غبار اتنا تھا کہ اسے اس ٹھٹھرتی رات میں سردی کے بجائے گرمی محسوس ہورہی تھی اسے ایسا لگ رہا کہ گرمی کے موسم میں دوپہر کو کسی نے اسے سورج کے سامنے کھڑا کیا ہو۔ وہ یاد کررہی تھی اپنی ماں کی بیماری کو کہ وہ کتنی بیمار ہے اور اس بیماری کے علاج کے لیے اس کا والد مالکوں کے گھر روز خوار اور بے عزت ہوتا ہے۔
اج وہ خدا کے سامنے عدالت لگا کر اپنے عصمت کا جنگ لڑ رہی تھی جو وہ آج چھوٹے مالک کی درندگی کا نشانہ بن کر ہار چکی تھی۔ وہ آج خدا کو اپنے اندر کا سب غبار نکال نکال کر بتا رہی تھی۔ کہ "خدایا آج جس نے میری عصمت کو تار تار کیا یہ وہی ہے ۔ جس نے معمولی سی بات پر میرے اکلوتے جوان بھائی کو قتل کیا تھا ۔ خدایا ہم پھر بھی اس ظالم کی درندگی اور وحشیانہ پن سہہ گئے۔ خدایا یہ وہی ہے، جس کے ظلم کا نشانہ بن کر میرا اکلوتا جوان بھائی زمین پر درد اور تکلیف کے مارے رقص بسمل کر رہا تھا ۔ اور اسی تکلیف میں دم توڑ گیا ۔ خدایا تو الرحمن بھی ہے اور رحیم بھی ، قہار بھی اور جبار بھی تو تو دیکھ رہا ہے کہ آج اسی درندے نے مجھے اپنے ہوس کا نشانہ بنا کر سارے زمانے میں زلیل و رسوا کیا ۔ میرے پاس اور کیا تھا اس عصمت کے سوا۔۔۔۔ وہ رو رہی تھی اور رو رو کر خلق سے سسکیوں میں آواز نکال کر شکوہ کر رہی تھی کہ” خدایا یہ کیسی کائنات ہیں ؟ کیسی دنیا ہیں؟ جو ایک ہی آدم کے اولاد ہمیں زمانے میں زلیل و رسوا کر رہے ہیں ۔ ”
وہ اپنے چادر سے اپنا ناک پونچھ رہی تھی ۔ چادر میں موجود سراخ کو آسمان کی طرف دکھا کر بتانے لگی کہ خدایا یہ دیکھ یہ ہے تمہارے کائنات میں ہم غریبوں کا حال۔
آج امبر کا درد اس کے بھائی کے موت سے زیادہ تھا۔ کیوں کہ آج اس کے پاس عصمت جو ہر باحیاء عورت کا زیور ہوتا ہے وہ نہیں رہا تھا وہ خدا کو بتا رہی تھی کہ ” آج تک میں نے سب کچھ سہا ہر ظلم برداشت کیا۔ لیکن آج بات میری عصمت کی ہے۔ ٹھیک ہے میں پٹا پرانہ پہن لوں گی، لیکن کوئی میری عزت کو جب چاہے ،جدھر چاہے خراب کرے یہ کہا کا انصاف ہے ۔ ”
” خدایا تمہیں تو صبر کرنے والے بہت پسند ہے ۔ میں نے تو ہر خواب ،ہر ارمان تمہارے ہی رضا کے لئے ختم کیا۔ ”
وہ کچھ دیر کے لئے رک گئی تھی۔ اس کے اعصاب صحیح طرح کام نہیں کر رہے تھے ۔
دوسری طرف اس کا بوڑھا باپ اسے در بدر ڈھونڈ رہا تھا ۔ کیوں کہ مالکوں کے گھر سے اسے معلوم ہوگیا تھا کہ "وہ تو چار پانچ گھنٹے پہلے وہاں سے نکل چکی ہے۔” امبر کی ماں کی طبیعت بھی مزید خراب ہوگئی تھی کھانس کھانس کر خون توک رہی تھی ۔ نہ پاس کوئی دوا تھا نہ دلاسہ دینے والا کوئی ہاتھ بیٹی اس کی عصمت ہار کر خدا سے عدالت لگائے بیٹھی تھی اور شوہر اس کا بیٹی کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹک رہا تھا۔
امبر خدا کو سب غبار نکال نکال کر بتا رہی تھی اسے اپنا کیس کمزور محسوس ہورہا تھا اسے لگ رہا تھا کہ یہاں بھی ہم غریبوں کی نہیں بلکہ اونچے ذات کی سنی جاتی ہیں ۔ وہ مایوس ہوکر ٹھنڈا بے سکت جسم لے کر خدا جانے کہاں روانہ ہوگئی وہ اب بلکل خاموش تھی آنسوں سوکھ گئے تھے ۔ بس چلتے جا رہی تھی۔
امبر کا باپ بھی بیٹی کی تلاش میں خوار دربدر بھٹک رہا تھا۔ سردی کی رات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔ گلیوں میں اس کے ہمراہ صرف کتے بلیاں تھی جو بھونک بھونک کر اسے اپنے موجودگی کا احساس دلا رہے تھے۔
ہر محلہ ،ہر جگہ تلاش کیا ۔ سب کے دروازیں بند تھے۔ راستے سنسان صرف حشرات کی بھن بھن سنائی دے رہی تھی۔ امبر ک باپ بے آرام تھا اسے ایک حدشہ لاحق تھا کہ پتہ نہیں کل کا سورج میرے لئے کیا پیغام لے کر آئے گا ۔” کیا امبر میرے تمام عمر کی محبت اور شفقت کا صلہ اس طرح دے گی ۔ ؟” پریشانی میں غرق بوڑھے باپ کی تلاش ختم نہ ہوئی اور صبح کی اذانیں شروع ہوئی ۔ کھیتوں کی طرف جاتے ہوئے کچھ لوگوں نے ان سے پریشانی اور صبح کے اس پہر راستے میں پھرنے کی وجہ پوچھی جس پر امبر کے والد نے بتایا کہ ” یہاں سے تو کسی لڑکی کو گزرتے ہوئے نہیں دیکھا ہوگا۔ ؟” جس پر انہوں نے بتایا کہ آتے وقت ہم نے چادر اوڑھے ایک لڑکی کو دیکھا تھا دریا کے کنارے جاتے ہوئے ۔ ہم نے آواز لگانا چاہا لیکن پھر سوچا کہ ایسا نہ ہو کوئی جن وغیرہ ہو ۔ ہم نے مڑ کر تب دیکھا جب دریا سے ایک شور آیا ایسا لگا کہ کسی نے کھود کر جان دی ہو۔ ”
یہ بات سنتے ہی امبر کا والد دریا کی طرف دوڑا۔
ادھر امبر کی ماں بھی غربت سے ہار کر کھانستے کھانستے خون توکتے توکتے بے یار و مددگار پڑی ہوئی بیماری سے لڑتے ابدی نیند سو گئ۔ شاید اسے بھی پتہ چل گیا تھا کہ ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ اب کھو گیا ہے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں، ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page