پیرِ طریقت ، رہبرِ شریعت ، نباضِ قوم و ملت ، شہبازِ خطابت ، استاذ الشعراء حضرت علامہ الحاج سید شاہ محمد اشتیاق عالم ضیاؔ شہبازی علیہ الرحمہ ( متوفیٰ : مئی ۲۰۱۱ ء ) سابق سجادہ نشیں خانقاہ عالیہ شہبازیہ ، ملّا چک ، بھاگل پور ، بہار کی پُر وقار شخصیت محتاجِ تعارف نہیں ۔ ایک ضیاؔ شہبازی کے طاقِ وجود میں میں فضل و کمال ، علم و عرفان ، شعر و ادب اور وعظ و خطابت کے بہت سارے چراغ روشن تھے ۔ علم و عمل ، عشق و وفا ، اذعان و یقین ، اخلاص و تقویٰ ، تدبر و تفکر اور متانت و سادگی کے پیکر تھے ۔ آپ کا مزاج قلندرانہ ، طرزِ حیات درویشانہ ، قلم ادیبانہ ، دماغ مفکرانہ اور دل صوفیانہ تھا ۔ آپ ادیبوں کی محفل میں ” ادیبِ اعظم ” ، شاعروں کی مجلس میں ” شاعرِ اعظم ” ، مفکروں کے جھرمٹ میں ” مفکرِ اعظم ” ، اور خطیبوں کی انجمن میں ” خطیبِ اعظم ” تھے ۔ ان کی ذہانت و طبّاعی قابلِ قدر اور بصیرت و دانائی لائقِ رشک تھی ۔ تصنیف و تالیف ، شعر و سخن اور خطابت کی دنیا کے بے تاج بادشاہ تھے ۔ رموزِ سلوک اور اسرارِ طریقت کے دانا و بینا تھے ۔ انہوں نے ” کائناتِ تصوف ” نامی کتاب کیا لکھی ، علمِ تصوف کے سمندر کو گویا کوزے میں بند کر دیا ۔ شادابیِ فکر اور رعنائیِ تحریر اس کے لفظ لفظ سے مترشح ہوتی ہے ۔ غرض کہ شہرِ بھاگل پور کی یہ عظیم المرتبت شخصیت صحیح معنوں میں ” در کفے جامِ شریعت ، در کفے سندانِ عشق ” کی مصداق تھی ۔
حضرت ضیاؔ شہبازی علیہ الرحمہ ایک عظیم الشان علمی و روحانی خانوادے کے چشم و چراغ تھے ۔ سلوک و تصوف اور شعر و ادب کی دولت وراثت میں پائی تھی ۔ آپ کے خاندانی بزرگوں نے شریعت و طریقت ، علوم و فنون ، تصوف و روحانیت اور شعر و ادب کی ترویج و اشاعت میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ۔ خانقاہ شہبازیہ بھاگل پور ، جس کے آپ سجادہ نشیں تھے ، گذشتہ پانچ صدیوں سے شریعت و طریقت کے فروغ کا مرکز اور شعر و ادب کی ترویج کا آرگن رہی ہے ۔ حضرت ضیاؔ شہبازی اپنے اسلاف کی عظمتوں کے حامل ، ان کی علمی روایات کے امین و ترجمان اور ” الولد سر لابیہ ” کے سچے مصداق تھے ۔ آپ نے جس ماحول میں پروش پائی تھی ، وہ خالص علمی و ادبی ماحول تھا ، جس کا اثر براہِ راست آپ کی فکر و شخصیت پر پڑا ۔ ایک با کمال خطیب اور شیریں مقال واعظ تھے ہی ، معمولی مشق و مزاولت کے بعد ایک عظیم شاعر اور با کمال نعت گو بن کر ابھرے اور دیکھتے ہی دیکھتے شعر و ادب کے افق پر چھا گئے ۔ آپ نے روایتی نہج سے ہٹ کر انفرادی نوعیت کی بڑی کامیاب شاعری فرمائی ہے ۔ تخیل کی بلندی ، فکر و خیال کی وسعت اور اسلوب کی جدت و ندرت آپ کی نعتیہ شاعری کے قابلِ قدر اجزا ہیں ۔ اردو کے علاوہ آپ نے متعدد فارسی کلام بھی لکھے ہیں ، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ فارسی زبان و ادب کے بھی رمز آشنا تھے ۔ ایک عظیم خطیب ، ایک مایۂ ناز ادیب کے ساتھ ایک قادر الکلام شاعر بھی ہو ، ایسا اجتماع و اتفاق بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے ، لیکن حضرت ضیاؔ شہبازی بیک وقت ان تینوں اوصاف ( خطابت و شعر گوئی و تصنیف و تالیف ) سے متصف تھے ۔
حضرت ضیاؔ شہبازی کی اردو نعتیہ شاعری پر بہت کچھ لکھا گیا ہے ۔ شعر و ادب کی قدر آور ہستیوں نے ان کے فکر و فن کو سراہتے ہوئے ان کی با کمال نعت گوئی کی تعریف کی ہے ۔ راقم الحروف نے بھی ” تذکرہ شعرائے بھاگل پور ” میں آپ کی شاعری و نعت گوئی پر روشنی ڈالی ہے ، یہاں آپ کی فارسی نظم گوئی ( فارسی منقبت نگاری ) پر اختصار کے ساتھ کچھ عرض کرنے کی جسارت کرتا ہے ۔ لیکن اس سے پہلے آپ کے ایک اہم اردو نعتیہ قصیدہ موسوم بہ ” قصیدۂ عنبر بمناسبتِ میلادِ معطر ” کے چند اشعار نذرِ قارئین ہیں ، تاکہ آپ کے علوئے فکر و تخیل ، ادبی عظمت ، فنی شوکت اور شاعرانہ مہارت کا اندازہ ہو سکے :
زلفِ شبگوں کا وہ گھنگھور امنڈتا بادل
اس طرح ٹوٹ کے برسا کہ ہوئی دھرتی جل تھل
چمن و کشت و بیاباں ، دمن و دشت و جبل
سب کے پیالوں میں لبالب ہیں بھرے امرت جل
لیلئی صبح کی آنکھوں میں لگا کر کاجل
ڈال کے سر پہ ردا چہرے پہ مَل کر صندل
حاصلِ حسن جہاں دیکھ کے جوبن جس کا
عالمِ ارض و سماوات میں پھیلی ہلچل
نازکی ، سادگی ، رعنائی ، حیا ، خندہ لبی
شوخ ، طناز ، حسین ، موہنی ، ہنس مکھ ، چنچل
۲۸ / اشعار پر مشتمل حضرت ضیاؔ شہبازی کے اس بلند پایہ قصیدے نے حضرت محسنؔ کاکوکوری کے مشہورِ زمانہ نعتیہ قصیدے کی یاد تازہ کر دی ہے :
سمتِ کاشی سے چلا جانبِ متھرا بادل
برق کے کاندھے پہ لاتی ہے صبا گنگا جَل
خبر اُڑتی ہُوئی آئی ہے مہابن میں ابھی
کہ چلے آتے ہیں تیرَتھ کو ہَوا پر بادل
تہ و بالا کئے دیتے ہیں ہَوا کے جھونکے
بیڑے بھادوں کے نکلتے ہیں بھرے گنگا جَل
کبھی ڈُوبی کبھی اچھلی مہِ نَو کی کشتی
بحرِ اخضر میں طلاطم سے پڑی ہے ہلچل
مجموعی اعتبار سے حضرت ضیاؔ شہبازی کی نعتوں میں ادبی محاسن اور فکری و فنی عناصر کی جو فراوانی ہے ، وہ ان کے ہم عصر نعت گو شعرا میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے اور جہاں تک مذکورہ نعتیہ قصیدہ کی بات ہے تو یہ محسن کاکوروی کے قصیدۂ نعت کے مثل لکھنوی طرزِ فکر کا آئینہ دار ہے ، جس میں صنائع و بدائع ، پُر شکوہ الفاظ ، تشبیہات و استعارات ، تخیل کی بلندی ، مضمون آفرینی ، تراکیب سازی اور رعایت لفظی پر زیادہ توجہ صرف کی گئی ہے ۔ بایں ہمہ معنوی لحاظ سے شعر و ادب کا ایک خوب صورت مرقع ہے ، جس میں فصاحت و بلاغت کا حسن بھی ہے اور اسلوب کی چاشنی بھی ، لفظیات کا فنکارانہ استعمال بھی ہے اور منفرد تراکیب کی طنازی و دل فریبی بھی ہے ۔ معنوی تہہ داری کے ساتھ عشق و وارفتگی کی دلکشی بھی ہے اور قرینۂ اظہار کا والہانہ انداز بھی ۔ سچ پوچھیے تو اس نعتیہ قصیدے میں ادبی و فنی محاسن کے اتنے گوشے ہیں کہ ان پر ایک مستقل مضمون تحریر کیا جا سکتا ہے ، لیکن عنوان اس کی اجازت نہیں دیتا ۔
فارسی شعر و ادب کی تاریخ میں ” شاہنامۂ فردوسی ” کو امتیازی شان اور انفرادی مقام حاصل ہے ۔ فردوسی کی وفات ۴۱۱ ھ میں ہوئی ۔ فردوسی نے ” شاہنامہ ” میں ایک باب ” در ستائش پیغمبر و یارانش ” کے نام سے قائم کیا ہے ۔ محققینِ ادب کے بیان کے مطابق فارسی شاعری میں نعت گوئی کا یہ نقطۂ آغاز ہے ۔ اس کے بعد فارسی نعت گوئی کی تاریخ میں بڑے بڑے نعت گو شعر پیدا ہوئے ، جن میں حکیم سنائی ، عرفی ، نظامی ، عطار ، خاقانی ، سعدی و جامی و غیرہ کے نام خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں ۔ اردو کے مشہور شعرا میں غالب و اقبال نے فارسی میں نعتیں کہی ہیں ۔ مذہبی طبقے سے تعلق رکھنے والوں میں فارسی نعت گو شعرا کی ایک کثیر تعداد موجود ہے ، حضرت ضیاؔ شہبازی ان خوش بخت افراد میں سے ایک ہیں ۔ مختلف بزرگانِ دین کی شان میں موزوں کیے گئے ضیاؔ شہبازی کے چند فارسی کلام کا تعارف و تجزیہ پیش خدمت ہے ۔
آپ کے نعتیہ مجموعہ ہائے کلام ” سبز حروف کے شجر ” اور ” برگِ ثنا حرف حرف ” پاک و ہند کے علمی و ادبی حلقے میں کافی مقبول ہوئے اور تحسین و اعتبار کی نظروں سے دیکھے گئے ، جس کی بنیادی وجہ آپ کا پُر کیف اندازِ بیان اور منفرد اسلوبِ نگارش ہے ۔ ” جلوۂ گل لفظ لفظ – نکہتِ فکر ” آپ کا غالباً تیسرا نعتیہ مجموعۂ کلام ہے ، جو صوری و معنوی لحاظ سے قابلِ قدر اور لائقِ مطالعہ ہے ۔ اس کے مدوّن و مرتّب آپ کے شہزادۂ والا تبار ، مخدوم گرامی ، مرشدِ طریقت حضرت علامہ الحاج سید شاہ انتخاب عالم عطاؔ شہبازی دامت برکاتہم العالیہ ( سجادہ نشیں خانقاہ عالیہ شہبازیہ ، ملا چک ، بھاگل پور ) ہیں ، جو اس وقت اپنے والدِ گرامی کے علمی و ادبی جانشیں بن کر علم و عرفان کی خیرات تقسیم فرما رہے ہیں ۔ حسنِ صورت کے ساتھ حسنِ سیرت کے جلوؤں سے آراستہ ہیں ۔ کم گو اور بسیار جو ہیں ۔ قادر الکلام شاعر اور تقریباً ایک درجن کتابوں کے مصنف و مؤلف ہیں ۔ راقم الحروف ان کے اعلیٰ فکر و تخیل اور جدت و ندرت سے لبریز ان کی بلند پایہ شاعری سے کافی متاثر ہے ۔ اللہ تعالیٰ آپ کی خدمات کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور آپ کا ظلِ ہمایوں ہم غلاموں پر تا دیر قائم رکھے ۔
” جلوۂ گل لفظ لفظ ” ایک اسم با مسمیٰ مجموعۂ کلام ہے ۔ اس میں مندرج سارے کلام اپنے اندر ادبی حسن ، فنی زیبائی اور شاعر کی جدت طراز فکر و طبیعت کی چھاپ رکھتے ہیں ۔ اس مجموعے میں حضرت ضیاؔ شہبازی کی متعدد فارسی نظمیں بہ شکلِ مناقب درج ہیں ۔ پہلی منقبت سلطان الاولیاء ، غوثِ اعظم حضرت سرکار سیدنا محی الدین عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی شان میں ہے اور زبان و بیان کے لحاظ سے ایک کامیاب نظم ہے ۔ عشق و وارفتگی اور ربودگی و شیفتگی کے ساتھ بعض مصرعوں سے ” تغزل ” کی چاشنی بھی مترشح ہوتی ہے ۔ اشعار ملاحظہ فرمائیں :
بادشاہِ مہ رخاں ، سلطانِ خوباں آمدی
نازِ کعبہ ، فخرِ قبلہ ، رشکِ ایماں آمدی
در ہجومِ گیسوئے شب ماہِ تاباں آمدی
اے خوشا وقتے کہ یادے روئے جاناں آمدی
چوں نقاب از رخ فگندی نعرہ زن شد کائنات
بہرِ تسکینِ دو عالم جانِ جاناں آمدی
اے ضیائے رو سیاہے شکر کن بر ایں عطا
مژدہ باد اندر سگانِ کوئے جیلاں آمدی
اسی طرح حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کی توصیف میں درج ذیل فارسی نظم ۸ / اشعار پر مشتمل ہے اور صوری و معنوی اعتبار سے حضرت ضیاؔ شہبازی کی فارسی نظم گوئی کی عمدہ مثال ہے ، چند اشعار پیشِ خدمت ہیں ، ملاحظہ کریں اور حضرت ضیاؔ شہبازی کی رعنائیِ طرز و فکر کا نمونہ دیکھیں :
سیدِ من ، مرشدِ من ، شاہِ من ، سلطانِ من
من بقربانت شوم اے یوسفِ کنعانِ من
ظاہراً درویش صورت یعنی مسکین و فقیر
باطناً رشکِ ملائک خسروِ خوبانِ من
لالہ رخ ، خندہ جبین و سرو قد ، غنچہ دہن
اے ملیحِ مصرِ من ، اے جانِ من ، جانانِ من
اے طبیبِ عاصیاں ، عیسیٰ نفس ، فریاد رس
درد را داروئے من ، ہمدردِ من ، درمانِ من
از نگاہِ لطف تو امید دارد اشتیاقؔ
بر غلامِ خویش چشمے مرکزِ چشمانِ من
مذکور بالا دونوں ﮐﻼﻡ ﻣﯿﮟ فصاحت و بلاغت ، سلاست و روانی اور صفائی و برجستگی کے علاوہ ﺷﻌﺮ ﮐﯽ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﺧﺼﻮﺻﯿﺎﺕ ﺳﺎﺩﮔﯽ ، ﺍﺻﻠﯿﺖ ﺍﻭﺭ ﺟﻮﺵ ﺑﮧ ﺩﺭﺟﮧٔ ﺍﺗﻢ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ ، ﺟﻮ ﺍﺱ بات کا بیّن ثبوت ہے کہ حضرت ضیاؔ شہبازی اردو کے علاوہ فارسی کے بھی ایک قادر الکلام شاعر ہیں ۔ الفاظ و تراکیب کے بر محل استعمال اور اپنے مافی الضمیر کی ادائیگی میں جمالیاتی اسلوب کی ایجاد پر وہ پوری قدرت رکھتے ہیں ۔
” تذکرہ اولیائے احمد آباد ” کے مطالعے سے امام العشاق ، فخر المحدثین حضرت علامہ شیخ سید یٰسین گجراتی علیہ الرحمہ کے علمی تبحر اور ان کے بلند و بالا مقامِ عرفان کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔ صوبۂ بہار میں علمِ حدیث کی ترویج و اشاعت میں جن عظیم المرتبت بزرگوں نے اہم کردار ادا کیا ہے ، ان میں حضرت شیخ یٰسین گجراتی بھی ہیں ۔ سلطان العارفین حضور سیدی و سندی شیخ شہباز محمد بھاگل پوری علیہ الرحمۃ نے ان سے حدیث کا درس لیا تھا ۔ اس لیے ہر شہبازی کے دل میں ان کی عقیدت و محبت کا چراغ روشن ہونا ، ایک فطری بات ہے ۔ مندرجہ ذیل منقبت اسی محبت کا عملی اظہار ہے :
کعبۂ عاشقاں شہِ یٰسین
قبلۂ عارفاں شہِ یٰسین
گلبنِ فاطمی و بوئے علی
وارثِ مرسلاں شہِ یٰسین
حالِ زارم ہمہ بہ چشمِ تو
چہ عیاں را بیاں شہِ یٰسین
اے ضیاؔ گر نجات می خواہی
ساز وردِ زباں شہِ یٰسین
سلطان العارفین حضور سیدنا شہباز محمد بھاگل پوری کی مدح میں کہی گئی مندرجہ ذیل منقبت فنی نقطۂ نظر سے کافی اہمیت کی حامل ہے ۔ صوری و معنوی لحاظ سے اس کا ہر شعر قابلِ قدر اور جمالیاتی قدروں کا حامل ہے ۔ فصاحت و بلاغت ، تشبیہ و استعارہ ، سلاست و روانی ، لسانی بانکپن ، صفائی و برجستگی ، جوش و ولولہ ، حسنِ تعبیر اور شیفتگی و گرویدگی لفظ لفظ سے مترشح ہے ۔
اے آفتابِ سروری ، خورشید چرخِ افسری
شہبازِ عرشِ برتری ، رشکِ شکوہِ قیصری
و اللہ اعلم نقشِ پاک ، شمعِ صراطِ اولیا
ہم خاکِ کویت سرورا ، نورِ نگاہِ خسروی
قطبِ زماں ، غوثِ جہاں ، دیباچۂ کون و مکاں
ہستی نشانِ بے نشاں اے مظہرِ پیغمبری
حسنش متاعِ دلبراں ، لطفش غرورِ عاصیاں
بر پائے تو سر می نہد جاہ و جلالِ اکبری
من بندگانِ کویتم ، داغِ غلامی می نہم
بکشا سوئے زنبیلِ ما دستِ عطائے حیدری
اسی طرح سرکار شہباز محمد بھاگل پوری علیہ الرحمہ کی توصیف میں نظم کردہ یہ منقبت سادگی و پر کاری کا عمدہ نمونہ اور ” سہلِ ممتنع ” کے زمرے میں شامل ہے ، جس سے شاعر کی شعری عظمت اور ادبی قدر و منزلت کا پتہ چلتا ہے ۔ اللہ رب العزت حضرت ضیاؔ شہبازی علیہ الرحمہ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور ان کے فکر و فن کی خیرات ہم غلاموں کو مرحمت فرمائے ۔ آمین !!!
معرفت آفتاب شہبازم
ہست سلطاں خطاب شہبازم
مست جام شراب شہبازم
تار چنگ و رباب شہبازم
عکسِ رخسارِ مصطفیٰ عارض
نکہتِ بو تراب شہبازم
مستیِ ساغرِ نگاہِ تو
کرد ما را خراب شہبازم
عمرِ ما بر درش بسر گردد
رشکِ فردوس باب شہبازم
مفتیِ میکشانِ بزمِ صفا
مصطفیٰ انتخاب شہبازم
اے خوشا تاج خسروی ضیاؔ
گرد پائے جناب شہبازم
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page