مولانا عبدالسلام ندوی(۱۸۸۳۔۱۹۳۶) بیسویں صدی عیسوی کی علمی وادبی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں۔ عہد مذکور کا علم، ادب اور تنقید سے متعلق کوئی بھی تذکرہ ان کے بغیر نامکمل رہے گا۔ انھوں نے اردو نثر کی مختلف اصناف میں جو ورثہ چھوڑا ہے وہ نئی نسل کے لیے مشعل راہ ہے۔ اس کے آئینے میں اپنی تہذیب وثقافت کے سرمایے کو بہ سہولت دیکھا اور حرز جاں بنایا جاسکتا ہے۔ ان کی تصانیف کو علم و ادب کی دنیا میں جو پذیرائی اور اعتبار حاصل ہے اس کی مثال نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہے۔اگرچہ ان کی شخصیت اور علمی و ادبی فتوحات سے متعلق جامعات میں متعدد مقالے لکھے گئے ہیں تاہم تلاش و جستجو کا حق ابھی ادا نہیں ہوسکا ہے۔ضرورت ہے کہ ان کی زندگی کے تمام گوشوں کا نہایت سنجیدگی اور گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرکے ان کی تعیین قدر کی جائے۔یہ کام مکمل اور وقیع اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب کہ کسی مسندی یا اداراتی ضرورت سے بلند ہوکر کیا جائے۔
اقبال کامل (اشاعت: 1948) کا شمار مطالعہ اقبال کی ابتدائی اور بنیادی کتابوں میں ہوتا ہے۔اگرچہ یہ کتاب علامہ کے انتقال کی پہلی دہائی میں منظر عام پر آئی لیکن اس کا خاکہ مولانا کے ذہن میں بہت پہلے تیار ہوگیاتھا۔چنانچہ مولانا نے عبدالماجد دریا آبادی کے نام اپنے ایک خط میں لکھا ہے :
میں اقبال پر ایک نہایت جامع اور مفصل کتاب لکھنا چاہتا ہوں اور اس غرض سے اقبال کے کلام کے علاوہ ان تمام تصانیف اور مضامین اور لٹریچر کو پڑھنا چاہتا ہوں جو اقبال کے متعلق اردو اور انگریزی میں فراہم ہوگیا ہے۔‘‘(/5اکتوبر 1944)
ڈاکٹر سید عبداللہ کے نام ایک خط میں مولانا نے لکھا ہے کہ ’ڈاکٹر اقبال پر جو کتاب لکھ رہا ہو وہ انشائ اللہ دسمبر 1945میں ختم ہوجائے گی‘۔انھیں کے نام ایک اور خط میں کتاب کے نام اور دیگر تفصیلات کے متعلق لکھا
اس کتاب کا نام مکمل اقبال ہوگا اور اس نام سے ظاہر ہے کہ میں نے ان کی زندگی ،شاعری، فلسفہ، سیاست ،وطنیت اور ہر چیز کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔(نقوش لاہور:مکاتیب نمبر جلد دوم 1957، ص771)
خط میں مولانا نے کتاب کانام ’مکمل اقبال‘ لکھا ہے مگر سید سلیمان ندوی کے مشورے کے بعد کتاب کا نام ’اقبال کامل‘ کردیا۔اور اسی نام سے کتاب شائع ہوئی۔
کتاب کا پہلا حصہ علامہ اقبال کی سوانح اور شخصی احوال و کوائف پر مشتمل ہے۔کتاب کے دیباچے میں مولانانے اعتراف کیاہے کہ اس حصے پر میں نے بہت زیادہ محنت نہیں کی ہے۔بلکہ عام طور پر جو مواد رسائل سے حاصل ہوا اس کو تقریباً انھی کے الفاظ و عبارت میں مناسب ترتیب کے ساتھ ایک جگہ جمع کردیا ہے۔ (دیباچہ اقبال کامل )مولانا کے اس اعتراف سے واضح ہوتا ہے کہ انھوں نے اقبال کے سوانحی حالات بہت زیادہ توجہ نہیں فرمائی اس سلسلے میں قطعیت کے ساتھ یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ اس عدم توجہ کی وجہ مطلوبہ لوازمے کی فراہمی تھی یا کچھ اور البتہ ذہن اس طرف بھی جاتا ہے کہ غالباً مولانا کے پیش نظر اقبال کی شاعری کو متعارف کرانا تھا شاید اسی لیے انھوں نے حالات زندگی پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی۔اقبال کی شخصیت کی جو جہت ان کی شاعری کی وساطت سے نمایاں ہوتی ہے اس نے لوگوں کے دلوں میں غیر معمولی عقیدت و محبت ڈال رکھی ہے۔اس لیے ان کے حالات زندگی پر لکھنے والے بہت سوچ سمجھ کر اور رک رک کر لکھتے ہیں۔تاکہ علامہ کی ’’برگزیدہ‘‘شخصیت کے خلاف کوئی لفظ نہ نکل جائے۔ترقی پسند تحریک کے معمار سجاد ظہیر نے ’’روشنائی ‘‘ میں لکھا ہے کہ جب ان لوگوں کا وفد علامہ سے ملنے گیا تو وہ بہت خوش ہوئے اور کہا کہ مجھے آپ لوگوں سے محبت ہے ملتے رہا کیجیے۔
کتاب کی دوسری بات علامہ اقبال کی اردوشاعری سے متعلق ہے۔ اس حصے میں علامہ کی شاعری کا آغاز، مشاعروں میں ان کی شرکت اور شاعری کی شہرت جیسی ذیلی سرخیوں کو موضوع گفتگو بنایا گیا ہے۔شیخ عبدالقادر نے علامہ اقبال کی شاعری کے چار ادوار مقرر کیے تھے۔اقبال کامل میں انھیں ادوار کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔مولانا عبدالسلام ندوی نے اقبال کامل کی اردو شاعری کا مطالعہ صنف اور موضوع دونوں کے اعتبار سے کیا ہے۔مولانا عبدالسلام ندوی نے دیباچے میں لکھا ہے
البتہ ڈاکٹر صاحب کی شاعری اور فلسفہ پر جو کچھ لکھا گیا ہے اس پر مجھ کو بہت کچھ اضافے کی ضرورت معلوم ہوئی اور اس کتاب میں میں نے جو کچھ دماغی کاوش کی ہے ،وہ صرف اسی حصے کے ساتھ تعلق رکھتی ہے ۔(اقبال کامل ص ۱۰)
مولانا عبدالسلام ندوی نے یہ بھی لکھا ہے :
ان (اقبال) کی تمام حیثیتوں پر شاعرانہ حیثیت کو تقدم حاصل ہے ہم کو اس موقع پر اس حیثیت کو پیش نظر رکھنا اور نمایاں کرنا چاہیے لیکن ڈاکٹر صاحب پر جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں ان کی شاعرانہ حیثیت کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ ( اقبال کامل ص ۱۰)
دیکھا جائے تو دیباچے کا یہ جملہ بہت کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔علامہ اقبال کے انتقال کی پہلی دہائی تک مطالعہ اقبال کی جس صورت کی طرف مولانا عبدالسلام ندوی نے اشارہ کیا ہے بدقسمتی سے یہ صورت آج بھی باقی ہے۔کیونکہ علامہ اقبال آج شاعر مشرق،حکیم الامت اور ایک مملکت کے نظریاتی امام اور ملت اسلامیہ کے شارح و ترجمان تو ہیں اور اگر کچھ نہیں ہیں تو شاعر۔ ایک شاعر اور فن کار کی حیثیت سے علامہ اقبال کے ایسے مطالعہ کی ضرورت باقی ہے جس میں ایک فن کار کے طور پر ان کے کلام کا تجزیہ کیا جائے ۔عقیدت و محبت میں کتابوں کی ایک طویل فہرست تیار کردی گئی ہے مگر ایسی کوئی کتاب آپ کو بمشکل ہی ملے گی جس میں ایک شاعر کی حیثیت سے علمی و معروضی انداز میں کلام اقبال کامطالعہ کیا گیا ہو۔ جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا ہے ’اقبال کامل‘ مطالعہ اقبال کی ابتدائی کاوشوں میں سے ایک ہے۔مولانا نے شاعر اقبال کو دریافت کرنے اور ان کے کلام کی صوری و معنوی خوبیوں سے آگاہ کرنے کا جو کارنامہ انجام دیا ہے وہ بلا شبہ قابل قدر ہے البتہ شاعری والے حصے کے مطالعہ کے دوران یہ احساس ضرور ہوتاہے کہ یہ کوئی اقبال کامداح ہے جو احترام و عقیدت میں ڈاکٹر صاحب کے کلام کی خوبیاں بیان کررہا ہے۔اقبال کامل کے پہلے صفحے پر کتاب کے نام کے نیچے لکھا ہوا ہے :
’’ڈاکٹر اقبال کے مفصل سوانح حیات ان کی تصنیفات ان کے فلسفے اور شاعری پر نقد و تبصرہ ‘‘
سوانحی پہلو کا احوال تو خود مولانا نے دیباچہ میں رقم کردیا ہے البتہ شعری حصے میں معروضی مطالعہ کو اہمیت نہیں دی گئی ہے اور اس وقت جبکہ علامہ کی وفات کو زیادہ عرصہ گذرا نہیں تھا شایدممکن نہ تھا ۔اس زمانے کے عام رواج کے مطابق ہی غزل کی سرخی کے تحت مولانا ندوی نے اقبال کی شاعری پر داغ ،میر اور غالب کے اثرات کو دکھایا ہے۔قبال کی غزل گوئی کا دوسرا دور قیام یورپ کے ز مانے سے شروع ہوا۔ اقبال بال جبرئیل کی غزلوں کی بنا پر اپنی امتیازی شناخت رکھتے ہیں۔یہ بات اگرچہ صحیح ہے کہ اقبال نے ذوق،داغ دہلوی،اور امیر مینائی وغیرہ کے رنگ میں بھی کچھ غزلیں کہیں وہ بھی بانگ درا میں شامل ہیں لیکن ان غزلوں سے اقبال کی شناخت قائم نہیں ہوتی۔بال جبرئیل میں غزلوں کو جن مضامین اور اندازو اسلوب بالخصو ص الفاظ وتراکیب کے ساتھ اقبال نے برتا ہے اس کی کوئی واضح مثال ہماری کلاسیکی غزل کی روایت میں نہیں ملتی اور اسی بنا پر بال جبرئیل کی غزلیہ شاعری اردو غزل کی جدید روایت میں اقبال کا بہت بڑا کارنامہ ہے لیکن بال جبرئیل کی اسی شاعری کے بارے میں مولانا عبدالسلام ندوی لکھتے ہیں :
’’ڈاکٹر صاحب کی چند غزلیں بال جبرئیل کے شروع میں بھی ہیں اور یہ ان کی غزل گوئی کا چوتھا دور ہے لیکن زبان اور مضمون دونوں حیثیتوں سے ہم ان کو بمشکل غزل کہہ سکتے ہیں، غزل کی ایک خاص زبان ہے جو نرم ،لطیف،شیریں،خوش گوار اور لوچ دار ہوتی ہے لیکن ان غزلوں کی زبان ان اوصاف سے بالکل خالی ہے ۔ڈ اکٹر صاحب بھی اس نکتے سے واقف ہیں ۔اس لیے بطور معذرت کے فرماتے ہیں ۔
مری نوا میں نہیں ہے ادائے محبوبی
کہ بانگ صور اسرافیل دل نواز نہیں
(اقبال کامل ص ۱۴۵)
آگے لکھتے ہیں :
الفاظ بالکل خیال کے تابع ہوتے ہیں۔اور غزل کی یہ زبان قدرتی طور پر اس لیے پیدا ہوگئی ہے کہ غزل میں جو مضامین بیان کیے جاتے ہیں وہ خود بھی نہایت لطیف و نازک ہوتے ہیں اور ڈ اکٹر صاحب کی یہ غزلیں اس قسم کے لطیف مضامین سے خالی ہیں۔(اقبال کامل ص ۱۴۵)
مولانا کا یہ اقتباس تفصیل اور وضاحت کا تقاضہ کرتا ہے۔ان سطروں میں مولانا نے غزل کی جس خاص زبان کی طرف اشارہ کیا ہے یعنی ’نرم، لطیف شریں اور خوش گوار وغیرہ غالبا یہ نکتہ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے شروع میں حالی محمد حسین آزاد کے خیالات اور اس زمانے کے مروج مغربی تصورات کے زیر اثر غزل کے بارے میں یہ خیالات پیدا ہوئے۔ورنہ اگرہم فارسی کو چھوڑ ہی دیں اور محض اردو میں غزل کی پوری روایت پر نظر ڈالیں تو ہمیں اس میں اتنے رنگ اور انداز و اسلوب میں اتنا تنوع نظر آتا ہے کہ اسی کے پیش نظر غزل کے بارے میں مولانا کے مذکورہ بالا خیالات پوری طرح درست نہیں ٹھہرتے۔ ہماری اردو غزل کی روایت میں میر شاہ مبارک آبرو مرزا مظہر جان جاناں شاہ نصیر ناسخ آتش انشا اور غالب وغیرہ کی غزلوں ہی کو اگر سامنے رکھیں تو یہ ہر گز نہیں کہا جاسکتا کہ غزل ایک خاص زبان کی حامل نہیں ہوتی یا اس میں نرم لطیف شیریں خوش گوار اور لوچ دار الفاظ ہوتے ہیں۔
غزل کے عبوری دور یعنی حسرت ،فانی اور جگر کے زمانے میں یہ تصور زیادہ مقبول ہوا۔محمد حسین آزاد ،حالی اور اس عہد کے دیگر نقادوں نے اس خیال کو رائج کیا ورنہ اس سے قبل غزل یا دیگر اصناف سخن کی زبان کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔
غزل کے بارے میں جو عام بات مشہور ہے کہ دل سے نکلے اور دل ہی میں اترے اسی کو عام طور پر لوگوں نے بنیاد بنالیا اور کیفیت ہی کو غزل کا صحیح اور سچاطرز لیا گیا جس کا اندازہ مولانا کے مذکورہ بالا اقتباس سے کیا جاسکتا ہے۔’’الفاظ خیال کے تابع ہوتے ہیں ‘‘اس جملے کو پڑھتے وقت موازنہ انیس و دبیر کی یا دآتی ہے جہاں شبلی نے لکھا ہے کہ ہر لفظ اپنی جگہ اہم ہوتا ہے اس ذیل میں انھوں نے شبنم اور اوس کی مثال پیش کی۔کھا کھا کے اوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا ۔
شبلی نے لکھا ہے کہ مذکورہ بالا مصرع میں اگر اوس کی جگہ شبنم کردیا جاے تو پورا مصرعہ غارت ہوجاے گا۔ملحوظ رہے کہ اوس کھانا محاورہ ہے شبلی کا اصول تو درست ہے البتہ مثال کو ہم درست نہیں کہہ سکتے کیونکہ مذکورہ مصرعہ میں اوس کھانا بطور محاورہ استعمال ہوا ہے جبکہ اس کی جگہ شبنم کااستعمال شبلی بطور اسم کرتے ہیں۔الفاظ کااستعمال مضامین کی مناسبت سے ہوتا ہے چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوئی لفظ کسی مضمون کے بیان کے لیے مناسب ہے یا غیر مناسب۔ اس طرح کے بہت سے نئے اصول جن کا نہ تذکروں میں وجود میں اور نہ قدیم تنقیدی کتابوں میں۔البتہ مولوی محمد حسین آزاد کی آب حیات میں اس طرح کے بہت سے نئے اصول و ضوابط کو نہ صرف فروغ دیا بلکہ کتاب کی جادوئی زبان نے ان ضوابط کو خوشبو کے پر لگا دیے۔علامہ شبلی نے آزاد کے انتقال پر سچ ہی کہا تھاکہ آج وہ شخص دنیاسے چلاگیا جو گپ بھی ہانکتا تھا تو وحی معلوم ہوتی۔
کلام اقبال کی ادبی خوبیوں کے تحت عبدالسلام ندوی نے اس میں رمزیت اور معنویت کلاسیکت حسن الفاظ لب و لہجہ اور صنعتوں کو اجاگر کیا ہے۔حسن الفاظ کے تحت مولانالکھتے ہیں :
’’ڈاکٹر صاحب کے کلام میں اگرچہ لفظی صناعیاں بہت کم ہیں تاہم بعض موقعوں پر الفاظ کی تکرار جو ایک لفظی صنعت ہے عجیب حسن پیدا کردیتی ہے۔‘‘( ص : ۱۹۷ )
تکرار الفاظ کی جو مثالیں کتاب میں پیش کی گئی ہیں، وہ سب غیر معمولی ہیں اقبال کے کلام میں لفظی صناعیاں بہت کم ہیں اس سے پوری طرح اتفاق نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بالعموم اقبا کے فکری ابعاد کو ہی تنقید نگاروں نے موضوع بنایاں ہے اقبال کا کلام فنی اعتبار سے سب سے زیادہ لائق توجہ ہے اور اسی پر سب سے کم دھیان دیا گیا ایک تو سبب وہی کہ ان کی فکر ہی موضوع گفتگو بنی رہی اور دوسری فنی خوبیوں پر اس وجہ سے بھی توجہ نہیں دی گئی کہ اقبال پنجابی تھے۔اقبال کے کلام میں زبان و بیان کی غلطیوں پر کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔شمس الرحمن فاروقی نے اقبال کو مناسبت لفظی کا ماہر قرار دیا ہے اور ان کے بارے یہاں تک لکھا ہے کہ :
اقبال کا کلام رعایت لفظی سے تقریباً اتنا ہی مملو ہے جتناکہ غالب کا کلام ہے ۔لیکن بوجوہ نقادوں کی نگاہ اس نکتے پر نہیں پڑی۔واقعہ یہ ہے کہ اقبال کلام اپنی انفرادیت کے باوجود اجنبیت کا تاثر اسی وجہ سے نہیں پیدا کرتا کہ وہ اردو شاعری کی بہترین لفظیاتی روایت کا روشن نمونہ ہے ۔(خورشید کا سامان سفر ]شعر اقبال پر کچھ تحریریں[۔ص ۵۲)
’’اقبال کامل ‘‘میں اغلاط کا بھی ایک باب قائم کیاگیا ہے۔اقبال کے کلام میں جہاں تک زبان و بیان کی غلطیوں کی نشان دہی کاتعلق ہے تو اس سلسلے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ لوگوں نے اقبال کے ساتھ وہی معاملہ کیا جو کسی بھی عام شاعر کے ساتھ عموماً روا رکھا جاتا ہے پہلی بات تو یہ کہ اقبال فن شعر کی جس بلندی پرفائز ہوئے اور جو عظمت انھیں حاصل ہے اس منزل پر پہنچنے کے بعد شاعر کو یہ حق حاصل ہوتاہے کہ وہ زبان و بیان کی سطح پر کچھ ایسے تصرف بھی کرے جو فنی وتخلیقی کارگزاری کے لیے بعض اوقات ناگزیر ہوجاتے ہیں جس طرح میر اور غالب کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ زبان کے ساتھ خلاقانہ انداز میں ایسے تصرفات کریں جو فن کے لیے ضروری ہیں اسی طرح اقبال بھی ایسے ہی تصرفات کے حق دار کیو ں نہ ہوں؟ہم صرف یہ کہہ کر آگے نہیں بڑھ سکتے کہ اردو اقبال کی مادری زبان نہیں تھی اس لیے انھیں زبان میں تصرف کرنے کا حق نہیں ہے پھر یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جہاں جہاں اقبال نے معترضین کے بقول ’’غلط زبان‘‘استعمال کی ہے وہاں وہ مخصو ص استعمال اقبال کی لاعملی کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اۡن مخصوص استعمالات کے ذریعے کوئی نہ کوئی فنی اور تخلیقی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔زبان کی غلطی مثلا تذکیر و تانیث وغیرہ سے متعلق اعتراضات عموماً زبان کے محدود تصور کی بنا پر ہی کیے جاتے رہیں ہیں۔اور ان غلطیوں سے باز رہنے کا تقاضا عموما عام شعرائ سے کیاجاتا ہے لیکن جب ہمارا معاملہ میر ،انیس،غالب اور اقبال جیسے بڑے شاعروں سے ہو تو یہی تقاضے خو دہماری اپنی کوتاہ بینی پر دلالت کرنے لگتے ہیں۔
یہاں ان غلطیوں کے جواز کا کوئی وسیلہ تلاش نہیں کیا جارہا ہے بلکہ عرض مدعا یہ ہے کہ وہ شعرا جن کی مادری زبان اردو نہیں تھی روایتیں ان کے لیے زنجیر پا ثابت نہیں ہوتیں ایسے شعرائ کو دوسروں کے مقابل میں شناخت جلد ملتی ہے کیونکہ لفظوں کوبرتنے میں روایت کے احساس اور شعور کے باوجود اس کاخوف ان کے دلوں میں نہیں ہوتا۔اقبال فیض، ظفر اقبال، احمد مشتاق، محمد علوی اور منچندا بانی ایسے شعرائ میں جن کو عام لوگوں کے مقابلے میں جلد اعتبار حاصل ہوااور یہ وہ شعرا ہیں جن کی مادری زبان اردو نہیں۔اس صورت حال کادرست اندازہ شمس الرحمن فاروقی کے اس اقتباس کیا جاسکتا ہے ۔وہ لکھتے ہیں :
اقبال کا کلمہ پڑھنے والی قوم نے ان کو نسیم بھرت پوری ،شوق نیموی اور جلیل مانک پوری کے برابر بھی مستند نہ مانا ۔اقبال کو ترجمان حقیقت ،لسان القوم ،حکیم الامت ،شاعر مشرق ،فلسفہ طراز خودی ،معمار پاکستان ،ہندستانی قومیت کا پیغمبر ،انقلاب کی روح ،فلسفہ اور علم کا نچوڑ سب کچھ کہہ دیا گیا لیکن انھیں شاعر نہ تسلیم کیا گیا ۔آج بھی یہ عالم ہے کہ اگر میں آپ سے کسی لفظ کے بارے میں سند مانگوں تو آپ ڈھونڈ ڈھانڈ کر کسی مجہول لکھنوی یا مہمل دہلوی کا شعر نکال لائیں گے لیکن فیض ،راشد،میرا جی اور ظفر اقبال کیا ،شاعر مشرق حکیم الامت ،ترجمان حقیقت علامہ ڈاکٹر سر محمد ابقال رحمتہ اللہ علیہ کا شعرپیش کرنے کا تصور آپ کے خواب وخیال میں بھی نہ آئے گا ۔(ایضاً ص ۱۰۱)
اس موقع پر شمس الرحمن فاروقی نے تاجور نجیب آبادی کا واقعہ بھی نقل کیا ہے کہ انھوں نے کس طرح جگن ناتھ آزاد کو یہ تلقین کی تھی کہ اقبال بڑے شاعر ضرور ہیں مگر زبان وبیان میں انھیں استناد کا درجہ نہیں حاصل ہے ۔
ادبی خوبیوں کے تحت مولانا نے ایک طرح سے کلام کی ہیئتی خوبیوں کو اور خاص طور پر تشبیہ و استعارہ کو زیادہ اجاگر کیا ہے۔البتہ کلام اقبال کی تفہیم کے حوالے سے کتا ب میں کوئی کلیدی بات نہیں کہی گئی ہے حیرت ہوتی ہے کہ بال جبرئیل کی پہلی غزل کے ان اشعار سے مولانا چپ چاپ گذر جاتے ہیں۔
اگر کجرو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا
اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی
خطا کس کی ہے یارب لامکاں تیرا ہے یا میرا
اسے صبح ازل انکار کی جرأت ہوئی کییونکر
مجھے معلوم کیا وہ راز داں تیرا ہے یا میرا
محمد بھی ترا جبرئیل بھی قرآن بھی تیرا
مگر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا
اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوال آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا
ان اشعار کے سلسلے میں مولانا نے صرف ایک جملہ لکھا ہے :
’’اس قسم کی ردیفیں جہاں سوالیہ جملے کی صورت اختیار کرلیتی ہیں وہاں اور بھی لطافت پیدا ہوجاتی ہے۔‘‘ (۶)
علامہ اقبال نے کس جرأت اور فنی کمال و جمال کے ساتھ خدا سے مکالمہ کیا ہے اس کی انتہائی صورت ان کی نظم جبرئیل و ابلیس میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔بندہ اپنے خدا سے کلام کرنے میں نہ تو خوف محسوس کررہا ہے اور نہ اسے کسی ہچکچاہٹ یا تردد کا احساس ہے مگر اقبال کے حضور اس طرح کے مکالمے یا مناقشے کے لیے ہمارے تنقید نگار اب تک ہمت نہیں کرسکے ہیں۔اس سلسلے میں عقیدت و محبت کے ایک ایسے پیکر میں کلام اقبال پر گفتگو کی جاتی ہے جہاں نہ تو پیکر ہی شرابور ہوتا ہے اور نہ عقیدت و محبت کو ہی کمال حاصل ہوتا ہے۔عقیدت ومحبت کے بجائے کلام اقبال کے پورے سرماے سے دست و گریباں ہونے کی ضرورت ہے۔
کتابیات :
۱۔اقبال کامل ،مولانا عبدالسلام ندوی ،دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ ۲۰۱۴
۲۔خور شید کا سامان سفر (شعر اقبال پر کچھ تحریریں ،شمس الرحمن فاروقی ۔آکسفورڈ پریس کراچی ۔۲۰۰۷
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |