اکیسویں صدی کی اولین دو دہائیوں میں صوبہ بہار کے جن شعراء نے مملکت شعر وادب میں اپنی شناخت قائم کی ہے اور اپنی جانب لوگوں کو متوجہ کیا ہے ان میں بدر محمدی کا نام نمایاں ہے۔ ایک خوش فکر شاعر اور صاحب طرز نثر نگار کی حیثیت سے ادبی دنیا میں انہوں نے بڑی تیزی کے ساتھ اپنی جگہ بنائی ہے۔ بقول رؤف خیر ”شمال سے دکن تک بے شمار رسائل و جرائد میں بدر محمدی کی تخلیقات بار پاتی رہتی ہیں۔“ ضلع ویشالی کی ایک دور افتادہ اردو آبادی سے تعلق رکھنے والے اس شاعر کے دل میں جہان غزل کا ایک خوبصورت شہر آباد ہے۔ جہاں پیرایہئ اظہار کی ایک نئی صورت اور تخیل کی نئی وسعتوں کا سراغ ملتا ہے۔
بدر محمدی کا مطالعہ وسیع ہے۔ اپنی وسعت مطالعہ سے وہ جہا ن شعروسخن میں استفادہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ غزلوں کے ذریعہ اپنے جذبات و احساسات کی ترجمانی منفرد لب و لہجہ میں کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں ایک فطری بہاؤ ہے۔ جو دریا کے پانی کی طرح مسلسل رواں دواں ہے۔ اس روانی میں توانائی اور نیرنگی واضح طور پر جھلکتی ہے۔ بدر کی غزلوں کے مطالعہ سے قاری احساس فرحت سے سرشار ہوتا ہے۔ وہ کسی ذہنی کثرت اور تناؤ کاشکار ہوئے بغیراپنے مراحل طے کر لیتا ہے۔
ناصر کاظمی نے غزل کو جس خالص شعری تجربے اور وسعت سے ہمکنار کیا تھا اور کفایت لفظی سے کام لیا تھا۔ بدر ؔمحمدی اس شعری روایت کے امین نظر آتے ہیں۔ غزل کا اچھا شاعر اس اصول پر مضبوطی کے ساتھ عمل پیرا ہوتا ہے کہ کسی مضمون یا خیال کو سیدھے طور پر نہ بیان کیا جائے بلکہ اشارے سے کام لیا جائے۔ ایمائیت غزل کا خاص وصف ہے۔ ”خوشبو کے حوالے“ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بدرؔ کا رشتہ غزل کے اس وصف خاص سے بہت گہرا ہے ؎
ہو جاؤں گا بے رشتہ سیاہی سے میں اک دن
آنے دو سفیدی سے مرے بال کے اندر
دل کی مسجد میں آکے بیٹھ ذرا
کیا ہے اس اعتکاف سے بہتر
مرے ہر گام پہ ہے عزم سفر کا سجدہ
چاہے قدموں کی جبیں، راہ گذر کی مسجد
دونوں پلکیں ہیں دو ورق اس کے
جانئے آنکھ کو اگر نامہ
ہم جلا کے شمع پڑھتے ہیں کتاب شب تجھے
یوں نظر آتا ہمیں باب سحر کوئی نہیں
”خوشبو کے حوالے“ بدر محمدی کا تازہ ترین مجموعہئ غزل ہے جس میں ۱۱۱(ایک سو گیارہ) غزلیں شامل ہیں۔ تمام غزلیں سلاست و روانی، زبان و بیان کی پرکاری، برجستگی، شگفتگی جیسی خوبیوں سے مملو ہیں۔ ان کی غزلوں کی ایک خاص خوبی یہ ہے کہ وہ بوجھل تراکیب اور ایہام سے پاک ہیں۔ اس کے باوجود ان میں شعریت اور جاذبیت ہے۔ کہیں بھی فرسودگی کا احساس نہیں ہوتا۔ سہل ممتنع میں عمدہ اشعار پیش کرنے کے لئے ”انداز بیاں اور“ کی صورت اختیار کی گئی ہے ؎ (یہ بھی پڑھیں تحریکِ آزادی اور اردو غزل – پروفیسر کوثر مظہری )
نہ تھا علاج تو اچھی تھی خیریت اپنی
مریض ہم کو بنا کے دوا نے رکھا ہے
سچ ایک بار بول کے نقصان بھی اٹھا
ہر بار جھوٹ بول کے مت فائدہ نکال
اتنا سلاؤ بستر لب پر بھی مت اسے
دکھلاؤ اپنی چپ کو کبھی خواب گفتگو
آرزو میری ابھی مصر کے بازار میں ہے
یہ زلیخہ نہ کہیں یوسف ثانی مانگے
رہنے دو دشمنوں سے ہمیں اب تو بے خبر
اپنے ہی دوستوں سے خبردار ہوگئے
بدرؔ محمدی کی غزلوں سے حظ اٹھا کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے باطن میں ڈوب کر انسانی تجربوں کی بازیافت کرتے ہیں۔ پھر ان تجربوں اور مشاہدوں کی بنیاد پر اپنے اسلوب کی تشکیل کرتے ہیں۔ ذہانت اور متانت کی بدولت وہ اپنے اشعار کو معنی خیز بناتے ہیں۔ ان کی نظر کلاسکیت پر مرکوز ہے۔ اس لئے جدیدیت کے آہنگ سے لبریز ہونے کے باوجود ان کا اسلوب روایت کے شعور سے مزین ہے۔ وہ اپنے اشعار میں کم سے کم الفاظ سے زیادہ سے زیادہ معنوی وسعت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بدر محمدی کے یہاں زندگی، موت، زمین، آسمان، پیڑ، چھاؤں، آنگن، دھوپ، سورج اور چاند وغیرہ کا ایک خوبصورت معنوی نظام ہے۔ جس میں آج کی باتیں آمیزہئ فکر و فن کے ساتھ پیش کی گئی ہیں۔ ”خوشبو کے حوالے“ کی غزلیں اس بات کی گواہ ہیں کہ بدرؔ کی نگاہ انسانی رشتوں سے لے آکر اس کائنات میں پیدا ہونے والے ہنگاموں اور تماشوں تک ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
زمانہ دیکھتا سنتا ہے ایک مدت سے
تماشہ کم نہیں بازی گری کی دنیا میں
تمام عمر ہوئی زندگی گنوانے میں
کہ موت آتی نہیں زیست کے زیاں کے بغیر
میرے پیچھے یوں پڑا سورج کہ لے آیا سحر
رات بھر میں نے کیا تھا چاندنی کا سامنا
آنگن کی دھوپ اپنے لئے ہم رہے مگر
اوروں کے حق میں سایہئ دیوار ہوگئے
ہے وہ سورج کہ لئے دھوپ سفر کرتا ہے
مت اسے کہنا کبھی پیڑ کے نیچے بیٹھو
حسن و عشق غزل کا خاص موضوع ہے۔ ہر شاعر غزل کے توسط سے اپنے عشقیہ جذبات و احساسات کی ترجمانی اپنے طور پر کرتا ہے۔ بدرؔ محمدی نے بھی اپنی غزلوں میں بیان زلف و رخسار اور ذکر اضطراب و بے طابی کے حوالے سے عشقیہ معاملات کی ترجمانی کی ہے۔ ان کے عشقیہ مضامین کی بہتات نہیں مگر جو ہیں وہ قوی اور توانا ہیں۔ بدر محمدی نے جہان دل کے تئیں اپنے احساسات و جذبات کو شعری پیکر عطا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ؎
ہماری آنکھوں میں اس طرح سے وہ آنے لگے
پرندہ جھیل میں جیسے کوئی نہانے لگے
میرے ہی خواب جیسا جمیل و حسیں ہے وہ
مجھ کو یہ وہم ہے کہ سراپا یقیں ہے وہ
جہان حسن میں بس صاحب نصاب ہے تو
ترا وصولنا مجھ سے لگان الٹا ہے
اپنی آنکھوں میں مجھے یوں بھی ڈبو کر دیکھو
عکس آئینے میں جس طرح ابھر آتا ہے
کیوں نگاہ حسرت دل یوں ہے للچائی نہ پوچھ
اس بت ناز و ادا کی حسن آرائی نہ پوچھ
عشق مجازی کے بعد غزل کا اہم موضوع عشق حقیقی اور تصوف ہے۔ ولیؔ دکنی سے لے کر آج تک کے ہر غزل گو نے تصوف کو اپنی شاعری کا حصہ بنا یا ہے۔ خواہ وہ برائے شعر گفتن خوب است ہو کہ واقعتا۔ بدر محمدی کی غزلوں میں بھی تصوف کی جھلک ملتی ہے لیکن بقول قیصر شمیم، بدر محمدی کی غزلوں میں تصوف کی جھلک ان کی پوری شاعری پر حاوی نہیں ہے اور بقول پروفیسر کوثر مظہری ”بدر محمدی کے شعری امتیازات میں ان کا ایک حاوی امتیاز دینی جمالیات بھی ہے۔“ بہر کیف اس نوعیت سے علاقہ رکھنے والے بدر محمدی کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎ (یہ بھی پڑھیں حرف و رنگ کی شاعرہ: صوفیہ انجم تاج – ڈاکٹر وصیہ عرفانہ )
وہ تجھے وجہ دگر سے دور لگتا ہے مگر
اور کوئی بھی نہیں نزد گلو اس کی طرح
نظر ہماری سر کوہ طور آجائے
دیار دل میں ذرا اس کا نور آجائے
کتاب اک ایسی ہم کھولے ہوئے ہیں
ہمارے دو بدو رب بولتا ہے
افسوس سے غرض نہ کوئی خوف ہے اسے
وہ آدمی ہے کیسی کرامت لئے ہوئے
کہاں نہیں ہے تو جلوہ نما خدا میرے
یہ لامکانی تری ہر مکاں سے بہتر ہے
بدر محمدی کے اندر کا شاعر بولتا ہوا ہے۔ ان کا شعری شعور بیدار ہے۔ ان کی طاقت ان کا قلم ہے۔ انہوں نے اپنی انگلیاں خون دل میں ڈبورکھی ہیں۔زمین سے باتیں کرتی غزلوں کا یہ شاعر زندگی کو قریب سے دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اور پھر قوت متخیلہ سے کام لیتا ہے۔ ایک استعاراتی کائنات کی تخلیق کرتا ہے۔ بدر محمدی کا شعری تجربہ فطری طور پر کاغذ پر اترنے لگتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو ان کی غزلوں کو ایک خاص قسم کی خوشبو سے معطر کئے ہوئے ہے، جس کا احساس ایک باذوق قاری کو ہوجاتا ہے۔ ”خوشبو کے حوالے“ بدر محمدی کا دوسرا مجموعۂ غزل ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ مجموعۂ غزل اولین مجموعہ ”بنت فنون کا رشتہ“سے زیادہ داد و تحسین حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا کیونکہ یہ نقش ثانی ہے اور اس میں درج ذیل طرح کے شگفتہ اور دیدہ زیب اشعار موجود ہیں ؎
ٹھہرا ہے کچھ غبار سا آنکھوں کے روبرو
اے چرخ تیری سمت ہے بیکار دیکھنا
میری حمایتوں میں ہیں اوراق دوسرے
میں بیچ کا ورق ہوں کتاب ضخیم کا
اپنی کتاب زیست کے پلٹا کئے ورق
اس اشتیاق میں کہ نیا باب آئے گا
ہو جائے نذر دھند کی تیری مسافرت
راہ حیات میں نہ اڑا یوں غبار شوق
آخری کوشش سمجھ کر پہلی کوشش کیجئے
ابتدا ہی انتہا ہے آج کی تاریخ میں
رابطہ:9572319476
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
| ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ | 

