سوال:
کہا جاتاہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی کو خوش کرنے کے لیے جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب یہ بات عجیب سی لگتی ہے ۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟
بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں ۔
جواب:
جھوٹ بولنا ، یعنی خلافِ حقیقت کوئی بات کہنا اسلامی شریعت میں اصولی طور پر ایک ناپسندیدہ اور مذموم خصلت ہے ۔ قرآن وحدیث میں اس سے منع کیا گیا ہے ، اسے ایمان کے منافی عمل قرار دیاگیا ہے اور اس پر اخروی سزا کی وعید سنائی گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
اِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاٰيٰتِ اللہِ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْكٰذِبُوْنَ (النحل:105)
’’جھوٹ وہ لوگ گھڑتے ہیں جو اللہ کی آیات کو نہیں مانتے ۔ وہی حقیقت میں جھوٹے ہیں ۔‘‘
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے :
اِیَّاکُمْ وَالْکَذِبَ فَاِنَّ الْکَذِبَ یَھْدِیْ اِلٰی الْفُجُوْرِ وَاِنَّ الْفُجُوْرَ یَھْدِیْ اِلٰی النَّارِ۔ (بخاری:6094، مسلم:2607)
’’جھوٹ بولنے سے بچو ، اس لیے کہ جھوٹ برائی تک پہنچاتا ہے اور برائی جہنم تک لے جاتی ہے ۔‘‘
لیکن صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مخصوص مواقع پر بڑی مصلحت کے پیش نظر جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے ۔ ان میں سے ایک وہ حدیث ہے جس کی طرف اوپر سوال میں اشارہ کیا گیا ہے ۔
حضرت اسماء بنت یزیدؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لَا یَحِلُّ الْکَذِبُ الّا فِی ثَلَاثٍ: کَذِبُ الرَّجُل اِمْرَأتَہٗ لِیُرْضِیْھَا وَالْکَذِبُ فِی الْحَرْبِ وَالْکَذِبُ لِیُصْلِحَ بَیْنَ النَّاسِ ۔(ترمذی :1939)
’’جھوٹ بولنا جائز نہیں ہے ، مگر صرف تین مواقع پر : آدمی کا اپنی بیوی سے جھوٹ بولنا ، اس کو خوش رکھنے کے لیے ، دورانِ جنگ جھوٹ بولنا اور لوگوں کے درمیان مصالحت کرانے کے لیے جھوٹ بولنا ۔‘‘
امام ترمذی نے اس حدیث کو ’حسن‘ قرار دیا ہے ۔ علامہ البانی فرماتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے ، سوائے لفظ ’لیرضیھا‘ کے کہ وہ ثابت نہیں ہے _)
اسی مضمون کی ایک حدیث حضرت اُم کلثوم بنت عقبہؓ سے بھی مروی ہے ۔ فرماتی ہیں : ’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا کہ آپ کبھی جھوٹ بولنے کی اجازت دیتے ہوں ، مگر تین مواقع پر (آپؐ نے اس کی اجازت دی ہے) آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں ایسے شخص کو جھوٹا نہیں مانتا : (۱) جو لوگوں میں مصالحت کرانے کے لیے ایسا کرے _ (۲) جو دورانِ جنگ ایسا کرے اور (۳) جو بیوی سے گفتگو کے دوران ایسا کرے(اسی طرح بیوی شوہر سے گفتگو کے درمیان ایسا کرے) ۔‘‘(ابوداؤد : 4921 ، صحیح مسلم : 2605 )
(یہ بھی پڑھیں اسلام میں شرم و حیا کا تصور – محمد رمضان رضا ماتریدی )
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹ بولنے کی اجازت عام حالات میں نہیں دی گئی ہے ۔ جن تین مواقع کا تذکرہ احادیثِ بالا میں ہے وہ مخصوص اور استثنائی صورتیں ہیں ۔ دورانِ جنگ جھوٹ بولنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ایسی باتیں کرے جن سے مسلم فوج کا طاقت ور ہونا معلوم ہو ، اس کا حوصلہ بڑھے اور دشمن دھوکے میں پڑجائے ۔ اس چیز کو ایک حدیث میں اَلْحَرْبُ خُدْعَۃً (جنگ تو دھوکے کا نام ہے) سے تعبیر کیاگیا ہے۔(بخاری : 3030 ، مسلم: 1739) لوگوں کے درمیان مصالحت کے لیے جھوٹ بولنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک شخص کی طرف سے دوسرے تک ایسی بات پہنچائے جس سے ان کے درمیان پائی جانے والی تلخیاں دُور ہوں اور ان کے تعلقات میں خوش گواری آئے ، چاہے وہ بات اس نے اس شخص سے نہ سنی ہو ۔ اور بیوی سے جھوٹ بولنے کا مطلب یہ ہے کہ شوہر اس سے زیادہ سے زیادہ محبت اور تعلقِ خاطر کا اظہار کرے ، خواہ وہ اپنے دل میں اس سے اتنی محبت نہ پاتا ہو ۔ اس کا مقصد ازدواجی تعلقات میں خوش گواری پیدا کرنا اور اس کو جاری رکھنا ہے ۔
شارحِ بخاری حافظ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں : ’’علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ شوہر کا بیوی سے یا بیوی کا شوہر سے جھوٹ بولنا صرف اسی وقت جائز ہوسکتا ہے جب ان میں سے کسی کی حق تلفی نہ ہوتی ہو ، یا کوئی ایسی چیز نہ وصول کررہا ہو جس کا اسے حق نہ ہو ۔ ‘‘ (فتح الباری، دارالمعرفۃ ، بیروت 1379ھ ، 300/5)
اور شارح مسلمِ امام نوویؒ نے لکھا ہے: ’’شوہر کا بیوی سے یا بیوی کا شوہر سے جھوٹ بولنےکامطلب یہ ہے کہ وہ اظہارِ محبت کے معاملے میں ایسا کریں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فرائض کی عدمِ ادائیگی یا ناحق کے حصول میں وہ ایک دوسرے کو دھوکہ دیں ۔ اس لیے کہ یہ بالاتفاق حرام ہے ۔ ‘‘ (شرح صحیح مسلم، دارالکتاب العربی ، بیروت ، 1407ھ ، 157/8)
مروی ہےکہ حضرت عمر بن خطابؓ کے عہد میں ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا : ’’ اللہ کی قسم کھا کر کہو : کیا تم کو مجھ سے محبت ہے؟ عورت نے جواب دیا : تم نے قسم دلاکر پوچھا ہے تو میں صحیح بات کہوں گی ۔ مجھے تم سے ذرا بھی محبت نہیں ہے ۔ اس شخص نے غصہ میں آکر طلاق دے دی ۔ حضرت عمرؓ نے اس عورت کو بلایا اور اس سے دریافت کیا : کیا تم نے اپنے شوہر سے کہا تھا کہ تمہیں اس سے محبت نہیں ہے؟ اس نے جواب دیا : اے امیر المؤمنین! اس نے مجھ سے قسم دلاکر پوچھا تھا ، پھر میں جھوٹ کیسے بولتی؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا : اس موقع پر تم کو جھوٹ بولنا چاہیے تھا ۔ انہوں نے مزید فرمایا : ’’ تمام خاندانوں کی بنیاد محبت پر نہیں قائم ہوتی ہے ، لیکن لوگ اسلامی تعلیمات اور خاندانی روابط کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں ۔ ‘‘
حضرت عمربن خطابؓ کے مذکورہ بالا قول میں بڑی حکمت و دانائی پائی جاتی ہے ۔ وہ جوڑے بڑے خوش قسمت ہیں جن کے درمیان بھرپور سچی محبت ہو ، ورنہ بہت سے جوڑے ایسے ہوتے ہیں جن کے درمیان مزاجی ہم آہنگی نہیں ہوتی ، سرپرستوں کے ذریعے وہ نکاح کے بندھن میں باندھ دیے جاتے ہیں اور کافی عرصہ ایک ساتھ رہنے کے باوجود ان کے درمیان محبت پروان نہیں چڑھتی ، بلکہ ایک دوسرے سے تنافر باقی رہتاہے ۔ قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ زوجین میں سے کوئی ایک اگر دوسرے کو ناپسند کرتاہو تو بھی اسے اظہارِ ناپسندیدگی سے اجتناب کرناچاہیے اور خوش گوار تعلق رکھناچاہئے ۔ کیوں کہ اگر اس میں ناپسندیدگی کی ایک وجہ ہوگی تو عین ممکن ہے کہ ساتھ ہی خیر کے بہت سے پہلو بھی ہوں ۔ اس نے شوہروں کو مخاطب کرکے حکم دیا ہے :
وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ فَاِنْ كَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَہُوْا شَـيْــــًٔـا وَّيَجْعَلَ اللہُ فِيْہِ خَيْرًا كَثِيْرًا۔(النساء: 19)
’’ان (یعنی بیویوں) کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو ۔ اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو ، مگر اللہ نے اُسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو ۔ ‘‘
(یہ بھی پڑھیں عورتیں تو کھیتی کے مثل ہیں – ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی )
ازدواجی تعلقات میں خوش گواری کی بنیاد باہم اعتمادپر ہے ۔ اگر کبھی اس میں دراڑ پڑجائے تو پوری زندگی اسے بحال کرنا ممکن نہ ہوسکے گا ۔ حدیث میں بیوی سے جھوٹ بولنے کی اجازت اظہارِ محبت کے معاملے میں دی گئی ہے ۔ اگر شوہر اس کو مستقل اپنا وتیرہ بنالے تو قوی اندیشہ ہے کہ بیوی پر جلد یا بدیر اس کی حقیقت منکشف ہوجائے گی اور وہ اس کا اعتماد کھودے گا۔ اس لیے دانائی اسی میں ہے کہ ازدواجی زندگی کے عام معاملات میں جھوٹ بولنے سے احتراز کیا جائے ۔
[ زندگی کے عام فقہی مسائل ، جلد اوّل ، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی ]
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
2 comments
[…] اسلامیات […]
[…] اسلامیات […]