Adbi Miras
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

      کتاب کی بات

      ظ ایک شخص تھا – ڈاکٹر نسیم احمد…

      جنوری 23, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تراجم

      مکتی/ منو بھنڈاری – ترجمہ: ڈاکٹرفیضان حسن ضیائی

      جنوری 21, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خبر نامہ

      مارچ 15, 2025

      خبر نامہ

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

      خصوصی مضامین

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      متفرقات

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
مقبول ترین
تدوین متن کا معروضی جائزہ – نثار علی...
ترجمہ کا فن :اہمیت اور مسائل – سیدہ...
تحقیق: معنی و مفہوم ۔ شاذیہ بتول
سر سید کی  ادبی خدمات – ڈاکٹر احمد...
حالیؔ کی حالات زندگی اور ان کی خدمات...
ثقافت اور اس کے تشکیلی عناصر – نثار...
تحقیق کیا ہے؟ – صائمہ پروین
منٹو کی افسانہ نگاری- ڈاکٹر نوشاد عالم
منیرؔنیازی کی شاعری کے بنیادی فکری وفنی مباحث...
آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری (سلور کنگ...
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

      کتاب کی بات

      ظ ایک شخص تھا – ڈاکٹر نسیم احمد…

      جنوری 23, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تراجم

      مکتی/ منو بھنڈاری – ترجمہ: ڈاکٹرفیضان حسن ضیائی

      جنوری 21, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خبر نامہ

      مارچ 15, 2025

      خبر نامہ

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

      خصوصی مضامین

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      متفرقات

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
Adbi Miras
تحقیق و تنقید

شمس الرحمن فاروقی کا مضمون ’کیا نظریاتی تنقیدممکن ہے؟‘- پروفیسر کوثر مظہری

by adbimiras اکتوبر 15, 2020
by adbimiras اکتوبر 15, 2020 2 comments

شمس الرحمن فاروقی اردو تنقید کا ایک بڑا نام ہے۔ انھوں نے اردو شعروادب کو بہت کچھ دیا ہے۔ شعر شور انگیز، ساحری، شاہی، صاحب قرانی، شعر،غیرشعراور نثر، داستانِ امیرحمزہ، زبانی بیانیہ بیان کنندہ، اردو کا ابتدائی زمانہ، لغات روزمرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ مضامین کے مجموعے تنقیدی افکار، اثبات ونفی، لفظ ومعنی، اندازگفتگو کیا ہے وغیرہ۔ ’’تنقیدی افکار‘‘ بھی ایک طرح سے یک موضوعی کتاب کہی جاسکتی ہے۔ زیرمطالعہ مضمون اسی کتاب سے ماخوذ ہے۔ فاروقی نے ہمیشہ نظری مباحث سے سروکار زیادہ رکھاہے۔ یہ کتاب 1983 میں پہلی بار شائع ہوئی تھی جس پر 1983 میں ساہتیہ اکادمی انعام دیا گیا۔ کسی تنقیدی کتاب پر غالباً یہ پہلا انعام تھا۔ اضافہ شدہ اڈیشن جنوری 2004 میں قومی کونسل نے شائع کیا۔خود فاروقی نے دیباچے میں لکھاہے کہ ایک مضمون کے سوا اس کے سارے محتویات ادب کی نظری تنقید، نظریہ تنقید اور مشرق ومغرب کی شعریات سے متعلق یا ان پر مبنی ہیں۔

فاروقی نظری تنقید پر جس طرح بحث کرتے ہیں اس سے ان کے تبحر علمی اور موضوع کے تئیں ان کی نکتہ رسی کا بخوبی اندازہ ہوتاہے۔ ان کے سارے مضامین میں بلکہ میں ذرا آگے بڑھ کر کہنا چاہتا ہوں کہ ان کی تمام تحریروں میں نظریاتی تنقید کے عناصر ملتے ہیں تو غلط نہ ہوگا ان کا تجزیہ یا ان کی بحث کا طریقہ فن وکالت(Advocacy)سے بہت قریب ہے۔ وکالت آسان نہیں۔ نظری مباحث میں ذہانت وفطانت کی بہت ضرورت ہوتی ہے اور یہ وصف فاروقی میں موجود ہے۔ وکالت میں کبھی کبھی وکیل کے دلائل یا استدلالانہ طرزگفتگو سے پیچیدگی بھی پیدا ہوتی ہے۔ یہ بات فاروقی کی تنقید میں بھی کہیں کہیں نظر آتی ہے۔ ’تنقیدی افکار‘ کے پہلے پہلا مضمون ’کیا نظریاتی تنقید ممکن ہے؟‘ میں وہ لکھتے ہیں:

’’غیرقطعی اور گول مول بات کہنا نقاد کے منصب کے منافی ہے۔ تنقید کا مقصد معلومات میں اضافہ کرنا نہیں بلکہ علم میں اضافہ کرنا ہے۔۔۔ لیکن علم سے مراد یہ بھی ہے کہ کسی شے کے بارے میں آگاہی حاصل ہو۔۔۔ بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ کسی چیز کا صحیح بیان اس کی صحیح آگاہی فراہم کرتاہے۔‘‘ (ص1)

فاروقی کی تنقیدی بصیرت کی داد نہ دینا بددیانتی ہوگی۔ لیکن جہاں تضادات اور ژولیدہ بیانی ہوگی وہاں گنجائش پیدا ہوتی ہے کہ گفتگو کی جائے۔ ابھی اوپر جو اقتباس نقل کیا گیا اس پر غور کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ انھوں نے علم،معلوم اور آگاہی کی تثلیثی صورت گری میں خود کو کچھ اتنا مصروف کرلیا ہے کہ ان کی گفتگو کا نقطۂ ارتکاز تقریباً معدوم ہوگیا ہے۔ بڑی خوبصورتی سے وہ اپنی ہی بات کو رد کردیتے ہیں اور قاری دم بخود دیکھتا رہ جاتا ہے یا پھر باربار سرکھجاتا ہے کہ شاید اس کی قوت تفہیم ہی مشکوک ہے، خود میرا بھی حال یہی ہے۔ جب کوئی آدمی آپ سے پوچھتا ہے کہ بھئی آپ کو جامعہ ملیہ کا راستہ معلوم ہے؟ توآپ اس کے جواب کئی طرح سے دے سکتے ہیں:نہیں، مجھے معلوم نہیں یا معاف کیجیے مجھے اس کا علم نہیں یا پھر یہ کہ مجھے اس کا پتہ نہیں ہے، وغیرہ۔ سوال بھی کئی طرح سے پوچھے جاسکتے تھے۔ جیسے کیا آپ کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کا پتہ معلوم ہے؟ کیا آپ کو علم ہے کہ جامعہ کی تعطیل شروع ہوگئی ہے؟ کیا آپ کو پتہ ہے کہ یہ بس جامعہ جاتی ہے؟ وغیرہ۔ ہاں، البتہ یہاں آگاہ یا آگاہی کو کھپانا میری معلومات یا میرے ناقص علم کی حد تک قدرے مشکل ہے۔ فاروقی غالباً علم سے مراد تبحر علمی (scholarship)لیتے ہیں اور ’معلومات‘ سے معمولی اور سطحی علم تصور کرتے ہیں۔ اس حد تک یہ بات قدرے درست بھی معلوم ہوتی ہے کہ تنقید، شعور کی بالیدگی اور علم کی گہرائی کے بغیر ادب پارے کی صحیح تفہیم وتعبیر سے تقریباً قاصر ہوتی ہے۔ البتہ میں دست بستہ یہ عرض کرنا ضرور چاہوں گا کہ تبحر علمی کی عینک شفاف نہ ہوتو تنقید شاید بصیرت افروزی کے بجائے علم کے پیغامبر یا محض ایک استاد (پروفیسرقطعی نہیں) کا فریضہ ادا کرتی ہے اور ظاہر ہے ایسے میں ادب پارہ قاری کے لیے مزید مشکل پیدا کرتاہے۔ علوم کی فراوانی ہمیں وارث علوی کے یہاں بھی ملتی ہے لیکن ان کی تنقید میں علوم Assimilatedمعلوم ہوتے ہیں، اس لیے ادب پارے کی تفہیم کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ فاروقی کی تمام تنقیدی تحریریں ایسی نہیں ہیں۔ انھوں نے جہاں کہیں مختلف النوع علوم سے صرف نظر کیا ہے وہاں ادب پارے کی معنوی پرتیں کھلتی گئی ہیں۔ صرف نظر سے مراد یہ نہیں ہے کہ علوم کو قطعاً چھوڑ دیا ہے بلکہ انھوں نے ان علوم کی روشنی میں ادب پارے کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں فاروقی کے یہاں ادعائیت کی کارفرمائی ملتی بھی ہے اور نہیں بھی۔ وہ لکھتے ہیں:

’’مغربی شعریات ہمارے کام میں معاون ضرور ہوسکتی ہے۔ بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ مغربی شعریات سے معاونت حاصل کرنا ہمارے لیے ناگزیر ہے۔ لیکن شعریات اکیلی ہمارے مقصد کے لیے کافی نہیں۔‘‘

(شعرشورانگیز،جلداول،ص18)

وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ مغربی شعریات میں نتائج اخذ کرنا گم راہ کن بھی ہوسکتا ہے۔ بلکہ وہ دوٹوک انداز میں کلاسکی ادب (صرف یہی کیوں؟) کی تفہیم کے لیے مشرقی شعریات کو مغربی شعریات پر مقدم جانتے ہیں۔ شاید آپ یہ سوچ رہیں ہوں گے علم یا علوم کی بات کرتے کرتے مغربی شعریات کا ذکر کہاں سے چھڑ گیا۔ دراصل مغربی شعریات (میں یہاں مغربی نظریات رکھ کر دیکھتا اور پڑھتاہوں، اگرآپ بھی ایسا ہی کریں تو غور وخوض کا تناظر وسیع تر ہوجائے گا) آج کی تنقیدی میزان میں بٹخرے کی مانند ہے۔

فاروقی سابقہ تنقید کی مزعوماتی اور ادعائی فضا کی جگہ آزادخیالی کی فضا کو پسند کرتے ہیں جو جدید تنقید کا وصف ہے (ص4) فاروقی کی یہ خوبی ہے کہ وہ تجزیاتی نوعیت کی تنقید کوپسند کرتے ہیں۔ موضو ع کا اچھا ہونا اچھے ادب پارے کا ضامن نہیں ہوسکتا۔ بہت سے لوگوں کی نظر میں مسدس حالی اگر دل کوچھوتی ہے تو اس کی اول وجہ یہ ہے کہ اس سے جذباتی طور پر ہمارا رشتہ اپنے ماضی اور ماضی کی عظمت سے استوار ہوجاتاہے۔ حالانکہ اس سے حالی کی شاعری کمزور ہوجاتی ہے۔ محاسن کا دارومدار موضوع پر بھی ہوسکتا ہے لیکن بالکلیہ نہیں۔ فاروقی نے بجاطور پر ایسے نقادوں کی گرفت کی ہے اور اپنی بحث کوآگے بڑھاتے ہوئے لکھا ہے:

’’چنانچہ اسلوب احمدانصاری جیسے شخص نے لکھا کہ ان کے نزدیک اقبال کی عظمت کا تعین ان کے عشق رسول کودھیان میں لائے بغیرنہیں ہوسکتا۔‘‘                                                  (ص6)

عقیدے اورجذبات نے شاعری کوعظیم کیسے اور کہاں بنایاہے، یہ بھی ایک بحث طلب موضوع ہے لیکن فاروقی کا جونظریۂ شعرہے اس کی رو سے دیکھیں تواسلوب صاحب اقبال کی شاعرانہ عظمت کو ثانوی حیثیت دیتے نظرآتے ہیں۔ یعنی اقبال کی شاعری بڑی یا عظیم ہے تو اس لیے کہ اس کا موضوع عشق رسول ہے۔ لیکن ایسی بہت سی مثالیں ہیں جن کے موضوعات مذہبی یا اسی نوعیت کے رہے ہیں۔ لیکن ان کی قدروقیمت ویسی نہیں رہی جیسی اقبال کی۔ اس لیے شعری محاسن کوپس پشت ڈال کر ایسی باتیں کرنا اقبال کی شعری وفنی خوبیوں کوگڈھے میں ڈال دینے کے مترادف ہے۔ حضرت کلیم الدین احمدنے بھی بے چارے اقبال کوپیغامبر کہہ، کر ان کی شعری بساط الٹ دی تھی اور پھر ایک قافلہ اقبال کو شاعر ثابت کرنے کی تیاری میں جٹ گیا اور دوسرا قافلہ انھیں فلسفی پیغامبر ثابت کرنے میں منہمک ہوگیا۔ بھائی لوگوں نے اچھی خاصی بیوقوفیاں کیں۔ لیکن اقبال کی شاعری اوران کا پیغام اپنی جگہ رہا۔ یہ ہوسکتا تھا کہ اقبال کی شاعری پرگفتگو کرتے ہوئے تناظر وسیاق کو سمجھنے کے لیے دینی جمالیات کو زیربحث لایا جاتا۔ دینی جمالیات، جس کی توانائی اورحسن افزوں کی سحر طرازی کوفاروقی بھی تسلیم کریں گے، موضوع سخن ہوسکتا تھا جس پر قدرے دقت نظری سے چندایک نقادان اقبال نے روشنی ڈالی بھی ہے۔ فاروقی نے پروفیسر اسلوب احمدانصاری صاحب کو اقبال فہمی کے ضمن میں جس نظریے کے لیے موردِالزام ٹھہرایا ہے، اس میں اُن کا بہت زیادہ قصور بھی نہیں ہے۔ ایک دو لوگ اگراس نہج پر سوچتے رہیں گے تو اقبال کی مقصدیت بھی اپنی جگہ قائم رہے گی اور مفاسد شعر سے ادب محفوظ بھی رہے گا۔ افلاطون نے بھی اپنی مشہور تصنیف Republicمیں دیوتاؤں کی حمدوثنا اور مشاہیر کی تعریف پیش کرنے کے علاوہ کسی دوسرے نوع کی شاعری سے منع کردیا تھا۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اس کے بعد بھی فساد شعر برپا رہا۔تجزیاتی تنقید میں لسانیاتی زاویہ مطالعہ اہم ہوتاہے۔محض جذبات واحساسات شعری نمونے کوعظمت عطا نہیں کرسکتے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اقبال کی شاعری میں مذہبی افکار (جوہمارے عقیدے اورجذبات سے گہرا رشتہ رکھتے ہیں) سے ہی عظمت پیدا ہوئی ہے؟

رچرڈزنے یہ بات کہی تھی کہ نقاد ابہام (Ambiguity)کی مدد سے زبان کو ایک نئی صورت عطا کرتاہے۔ آگے چل کر اس کے شاگرد ولیم ایمپسن(William Empson)نے اسے اپنے تنقیدی نقطہ نظر کی اساس بناتے ہوئے ابہام کی سات قسمیں تلاش کرلیں اور پھر 1930 میں اس نے Seven types of ambiguityنام کی کتاب تحریر کی جس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ بہرحال بات فاروقی کے نظریہ نقد کی ہورہی ہے۔ ان کا زور بھی تجزیاتی طریقہ تنقید پر ہے اور وہ بھی ولیم ایمپسن کی طرح ابہام کوضروری تصور کرتے ہیں۔ ’’ترسیل کی ناکامی کا المیہ‘‘ (مضمون ماخوذ ازلفظ ومعنی) میں بھی ابہام پربحث کی گئی ہے۔ فاروقی نے بڑے ہی شدومد کے ساتھ اوربجاطور پر اس نقطۂ نظر کی نفی کی ہے کہ خوبصورت موضوع سے ہی خوبصورت ادب تخلیق پاتاہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’جدید نقاد کو صرف اس بات سے انکار ہے کہ محض موضوع کی خوبصورتی یا درستگی سے ادب بھی خوبصورت یادرست ہوجائے گا۔‘‘            (ص8)

موضوع کی خوبصورتی یا بدصورتی کی بات میں نہیں کروں گا البتہ لفظ اور معنی؍نظریہ کی بات کی جاسکتی ہے۔ عبارت یعنی Textکیا چیز ہے، اس کی بھی تو اہمیت ہوگی آخر؟ الفاظ بہت حد تک عبارت یا طرز اظہار یا طرز بیان کو ابہام کے قریب لاتے ہیں، بلکہ الفاظ کے پیرہن سے ہی معانی پرابہام کی پرتیں پڑتی ہیں۔ اس کی کرید اور چھان پھٹک ضروری ہے۔ میرے خیال سے فاروقی اس نقطہ نظر سے انکار نہیں کریں گے۔ ایک اہم مغربی ناقد Terry Eagletonنے اپنے ایک مضمون Criticism & Ideologyمیں لکھا ہے کہ

The text is a tissue of meanings

ٹیری ایگلٹن ضرور سائنس کا آدمی ہوگا۔ورنہ یوں برمحل tissueکا استعمال نہیں کرسکتا۔ سائنس والے جانتے ہیں کہ group of cellsکو tissueکہا جاتا ہے۔ گویا ایک عبارت؍متن (Text)میں معنیات کی دنیا آباد ہوتی ہے۔ آج کی جدید تنقید اس ٹیری ایگلٹن کو گلاپچاکر اور طرح سے بھی بیان کرتی ہے۔ اس کا عکس فاروقی کے یہاں بھی ملتا ہے۔ اس مضمون میں وہ لکھتے ہیں:

’’جدیدنقاد کا کہنا ہے کہ موضوع ہیئت سے الگ نہیں ہے، معنی لفظ سے الگ نہیں ہے۔ لفظ کو چھوڑ دینا اور مجرد نفس موضوع سے بحث کرنا، اس مفروضے میں یقین رکھنا ہے کہ جوہر، عرض سے الگ بھی کوئی چیز ہوتی ہے اور مراہوابدن اس لیے مردہ ہے کہ روح اس میں سے نکل گئی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ مادہ اتنا مرئی ہے جتنا کہ فرض کیا جاتاہے اور نہ روح اتنی غیرمرئی ہے جتنی لوگ سمجھتے ہیں۔‘‘                             (ص8)

یہ بات صاف ہوگئی کہ معنی لفظ سے الگ کوئی شے نہیں اور لفظ کو چھوڑ کر مجرد نفس موضوع پر بحث کرنا بھی درست نہیں۔مشرقی شعریات کے حوالے سے اگر گفتگو کی جائے تو عربی میں ابن قتیبہ (متوفی276ھ)، جاحظ(متوفی255ھ)، عبداللہ ابن معتز (متوفی 296ھ)، قدامہ بن جعفر (متوفی337ھ)، ابن رشیق، عبدالقاہر جرجانی اور ابن خلدون(732-808ھ) کے نام اہم ہیں۔ فارسی میں رشیدالدین محمدعمری، ابوالحسن علی فرخی، نظامی عروضی سمرقندی، امیر عنصرالمعالی کیکاؤس، محمد بن قیس رازی، محمد عوفی وغیرہ کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔ ان علماء شعروادب نے فن پارے کے معائب ومحاسن نیز اس کے لفظ ومعنی کی اہمیت سے متعلق بحثیں کیں اور اپنے اپنے نظریات پیش کیے۔ تفصیلی بحث اگر دیکھنی ہو تو مراۃ الشعر، شعرالہند، شعرالعجم، اسلوب، البدیع، البیان، مشرقی شعریات اور اردو تنقید کی روایت، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ فاروقی مذکورہ بالا اقتباس میں مادہ،ر وح اور بدن کا ذکر چھیڑکر فاروقی نے معاملہ ذرا پیچیدہ کردیا۔ پھر یہ کہ مادہ کو ’اتنا مرئی‘ کہنا اور پھر روح کو ’’اتنی غیرمرئی‘‘ کہنا مبہم ہے۔ یہ ’اتنا‘ اور ’اتنی ‘کیاہے؟ پھر وہی بات آتی ہے کہ قطعی طور پر کیوں نہ کہا گیا۔ مناسب ہوگا کہ اسی مضمون کے شروع کی تیسری سطر دہرائی جائے۔ فاروقی لکھتے ہیں:

’’غیرقطعی اور گول مول بات کہنا نقاد کے منصب کے منافی ہے۔‘‘

مرا ہوابدن اس لیے مردہ ہے کہ روح اس میں سے نکل گئی، یہ بات فاروقی کے نزدیک درست نہیں۔ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ آخر مرا ہوا بدن روح کے نکل جانے سے مردہ نہیں ہے تو کس چیز کے مفقود ہونے سے مردہ ہے؟ مجھ جیسے بہت سے لوگوں کو تو شاید یہی معلوم ہے۔ لیکن معلومات چونکہ علم نہیں اس لیے اس معلوم نظریے کی بنیاد پر گفتگو نہیں کی جاسکتی ہے۔ پھر یہ کہ روح غیرمرئی ہے تو ہے، یہ ’اتنی غیرمرئی‘ سے یکسر مبرا وماورا ہے۔ بدن بھی جتنی مرئی ہے وہ سب کے سامنے ہے اس میں ’اتنا مرئی‘ کی گنجائش نہیں۔ بلکہ فاروقی نے بدن اورروح کے مسئلے پر نظریے کو چھیڑ کر یا چھوکر وحدت الشہود اور وحدت الوجود والوں کے لیے بڑا مسئلہ؍قضیہ کھڑا کردیا ہے۔ یہاں قرآن کی رو سے اگر بحث کی جائے تو پھر روح اور جان کو سمجھنا ضروری ہوگا۔ دونوں میں کیا اجتماع ضدین ہے اوران کے بارے میں کیا کیا لطیف اشارے ہیں۔ اسے یہیں چھوڑتاہوں اور فارقی یا جدید تنقید کے اس نظریے کو تسلیم کرتے ہوئے کہ معنی لفظ سے الگ نہیں ہے، اپنی بات آگے بڑھاتا ہوں۔

معنی لفظ سے الگ نہیں، یہ بحث طلب بھی ہے اور نہیں بھی۔ میرا تو ماننا ہے کہ یہ رشتہ گوشت اور ناخن والا ہے۔ اگر گوشت سے ناخن کو جدا کیا جائے تو یہ ایک طرح سے ایذارسانی کا عمل ہوگا۔ اس تکلیف کو مرزا غالب نے بھی محسوس کیا تھا اور ازرا پاؤنڈ نے بھی۔ غالب کا احساس ملاحظہ کیجیے:

دل سے مٹنا تری انگشت حنائی کا خیال

ہوگیا گوشت سے ناخن کا جدا ہوجانا

غالب کا تنقیدی شعور محبوب کی انگشت حنائی سے ہم آمیز ہوگیا۔ جبکہ ازرا پاؤنڈ کا تنقیدی شعور نظریہ بن گیا۔ زبان اور معنی کے حوالے سے پاؤنڈ لکھتا ہے:

"Great literature is simply language charged with meaning to the utmost possible degree.” (New Criticism,The ABC of Reading)

میں اگراس زبان؍لفظ اور معنی کے رشتے کو Infissibleقرار دیتے ہوئے شاعری میں اس کی ہیئتی وقوع پذیری کو اہمیت دینا چاہوں تو شاید کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔ ہیئت کا تصور بھی لفظ کے بغیر ممکن نہیں جس طرح لفظ کے بغیر زبان نامتصورات میں سے ہے۔

آسکروائلڈ نے تواسے مزید اہمیت دیتے ہوئے یہاں تک کہا تھا کہ:

"Form is a myth, it is a secret of life.”

فاروقی نے بھی لکھا ہے کہ جدیدنقاد کا کہنا ہے کہ موضوع ہیئت سے الگ نہیں، معنی لفظ سے الگ نہیں ہے۔ (ص8) یہ باتیں ظاہر ہے کہ فاروقی نے مغربی نقادوں سے اخذ کی ہیں۔لیکن ان کے سامنے مشرقی شعریات بھی ہے بلکہ وہ اسے مقدم تصور کرتے ہیں۔ لفظ اور معنی پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ یہاں تک کہ میلوپوئیا (Melopoeia)، فینوپوئیا (Phanopoeia)  اور لوگوپوئیا (Logopoeia) جیسی شاعری کی تین قسمیں بھی سامنے آگئیں۔ ایذرا پاؤنڈ نے اپنی کتاب ABC of Reading  (1934) میں اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ یہ بحث ضروری اور اہم ہے۔ کسی بھی فن پارے میں لفظ ہی معنی بردار ہوتاہے۔ معنی کا ہی صحت مند ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ معنی بردار یعنی لفظ کا صحت مند ہونا بھی ضروری ہے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ دونوں میں سے کس کا صحت مند ہونا زیادہ ضروری ہے۔ جہاں تک میں غور کرپایا ہوں اس کی بنیاد پر یہی کہہ سکتا ہوں کہ دونوں کی صحت پر ہی ایک اچھوتے فن پارے کا دارومدار ہے۔ الفاظ کی اپنی صوتی کیفیت ہوتی ہے جسے میلو پوئیا سے موسوم کیا گیا۔ الفاظ کی محاکاتی صورت حال کو فینوپوئیاکہتے ہیں اور الفاظ کے مابین فنکار کے ذہن کا ارتعاش یا رقص ہے، جس کا اپنا ایک فکری آہنگ بھی ہوتاہے جسے لوگوپوئیاکہا گیاہے۔ اس بات کو بھی ذہن میں رکھا جاسکتا ہے کہ لفظ، ہیئت یعنی Formاور ساخت یعنی Structureشعری اظہار میں بہت ہی اہم عوامل ہوتے ہیں کیوں کہ اسی کے ذیل میں ہم Ambiguityاور Polysemy، بلاغت (Rhetoric)اور اسلوب (Style)کا مطالعہ بھی کرتے ہیں۔یہاں جمالیاتی جہتوں کو بھی اسی صف میں رکھنا چاہیے۔ لفظ کی اہمیت یوںبھی سمجھی جاسکتی ہے کہ جب ہم ’’قلم‘‘ لکھتے اور بولتے ہیں تو یہ محض ایک لفظ کی ادائیگی نہیں ہوتی بلکہ قلم مصور ہوکر ہمارے سامنے آجاتاہے۔ قلم کئی طرح کے ہوسکتے ہیں لیکن اس کا مرکزی تصور کبھی نہیں بدل سکتا کہ قلم لکھنے کا ایک آلہ ہے۔ سارتر (Sartre) کا نظریہ بھی یہی ہے جس سے مجھے اتفاق ہے۔ یہاں ساسیور اور دریدا کے معنی نما اور معنی سے بحث کرنا مقصود نہیں ہے۔ سارتر کے بقول:

’’شاعری کا ہر لفظ ایک عالم صغیر ہوتاہے۔ جب شاعر اس طرح کے چند عالم صغیر ایک جگہ جمع کرتا ہے تو وہ محض ایک نئی ترکیب ہی وضع نہیں کرتا بلکہ ایک نئی چیز خلق کرتاہے۔‘‘     (مغربی شعریات، ہادی حسین، ص421)

فاروقی نے اپنے اس مضمون میں نظریاتی تنقید پرہر زوایے سے نظر ڈالی ہے۔ ٹی ایس ایلیٹ کے حوالے سے انھوںنے لکھاہے کہ ایلیٹ نے تلقین کی ہے کہ لوگوں کو عیسائی ادب پڑھنا چاہیے کیوں کہ وہی عظیم ترین ادب ہے۔ اسی صفحے پر انھوں نے اس مطمح نظر کا اظہار بھی کیا ہے کہ بقول ایلیٹ شاعری، مذہب یا فلسفہ یا دینیات کا بدل نہیں ہے۔ (ص7)

مجھے یہ بات تسلیم کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ مذہب، مذہب ہے اور ادب، ادب۔ اگر کوئی فن پارہ کسی مذہب کا پرچار کرنے لگ جائے تو وہ شاید مذہب کے طریقہ تدریس وترسیل سے ہم آہنگ ہوگا۔ فاروقی نے Eugene lonescoکے حوالے سے یہ بات کہی ہے کہ اگر کوئی فن پارہ کسی نظریے(Ideology)یا فلسفے کو پیش کرنے لگے تو اس فن پارے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اس قول پر فاروقی کی وضاحت ملاحظہ کیجیے:

’’میرا خیال ہے کہ جو لوگ شعر کے ذریعے فلسفہ یا نظریہ سیکھنا چاہتے ہیں وہ درحقیقت ذہنی طور پر کم کوش اور بے ہمت ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ فلسفے کی ادق کتابیں کون پڑھے، لاؤ سستی ہلکی شاعری سے وہی باتیں تھوڑی بہت سیکھ لیں تاکہ بات چیت میں ہم جاہل نہ ٹھہریں۔‘‘            (ص7)

فاروقی کا خیال کچھ حد تک درست بھی ہے کہ شعر کے ذریعہ فلسفہ یا نظریہ سیکھنا درست نہیں یا ممکن نہیں۔ لیکن انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ سستی ہلکی شاعری سے نظریہ یا فلسفہ سیکھنے کے لیے لوگ تیار رہتے ہیں۔ کوئی بھی شخص، میرے خیال سے یہ نہیں سمجھتا کہ سستی اور ہلکی شاعری سے نظریہ یافلسفہ بھی سیکھا جاسکتا ہے۔ نظریہ یا فلسفہ سیکھنے کے لیے جب بھی کسی نے خدا نخواستہ اگر رجوع کیا بھی ہوگا تو محمداقبال اور دوسرے نمبر پرغالب سے رجوع کیا ہوگا، میر تو خیرنظریے یا کسی بھی نظریے میں سماتے ہی نہیں۔

ایک سوال اور پیدا ہوتاہے جو فاروقی کے اس قول سے الگ ہے کہ ایک آدمی جو مذہبی بھی ہے اور شاعر بھی، وہ کرے کیا؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ اس کی شاعری یا ادب پارے میں مذہبی عناصر گاہے گاہے آتے رہیں؟ یہ الگ بات ہے کہ اس سے کسی طرح کے نظریے یا فلسفے کا وضع ہونا دورازقیاس ہے۔ اقبال کی پوری شاعری مذہب اسلام کے نچوڑ کو بہ شکل ’’خودی‘‘ پیش کرتی ہے تو کیا یہ کہا جائے گا کہ اس فن پارے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ظاہر ہے جو صرف شعر وادب سے واقف ہیں اور اقبال کی پوری شاعری کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن مذہبی امور اور نظریات سے واقفیت بہت ہی معمولی ہے، تو کیا ممکن نہیں کہ وہ اقبال کے خلق کردہ شعری فن پارے سے اکتساب کرکے اسلامی نظریات اور فلسفۂ حیات انسانی کو سمجھنے کی کوشش کرے؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کوئی قباحت نہیں۔ ہاں یہ نہیں ہوسکتا کہ تمام شاعروں سے یہ کہا جائے کہ اقبال ہی کی طرح فن پارے خلق کرے، اور لوگوں سے بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ ان فن پاروں سے اسلامی نظریات کا درس لیں۔ یہ سراسر ادبی سروکار اوراس کی معنوی جہات سے اعراض کی صورت ہوگی۔ یا اگر ان کااشارہ مارکسی نظریے کی اساس پرہورہی کمزور شاعری کی طرف ہے تو میں ان کا ہم نواہوں یعنی تائید کرتا ہوں۔

فاروقی نے بجاطورپر لکھا ہے کہ جو لوگ شعر کے ذریعہ فلسفہ یا نظریہ سیکھنا چاہتے ہیں وہ درحقیقت ذہنی طور پر کم کوش اور بے ہمت ہیں۔ (ص7) یہ درست بھی ہے کہ شعر یا کسی فن پارے سے نظریہ، فلسفہ، نقطۂ نظر سیکھنا اور سمجھنا ممکن نہیں اور اگر کچھ سیکھا جاسکتا ہے جب بھی، یہ کلیہ نہیں بن سکتا۔ کیونکہ فن پارے کی تفہیم ہر ایک قاری اپنے اپنے طور پر کرتا ہے، اور ظاہرہے کہ اس میں کسی طرح کا جبر بھی نہیں ہوسکتا۔اگر ادب پوری زندگی کو حاوی ہے تو اس کی تفہیم کے لیے وضع کردہ نظریے بھی زندگی سے الگ نہیں ہوسکتے۔ شاید اسی لیے (Jonathan Cullers)نے لکھا ہے:

”The genere of theory includes works of anthropology, art, history, film studies, gender studies, linguistics, philosophy, political theory, psychoanalysis, science studies, social and intellectual history and sociology.”

(Literary theory, P-4, 2000, Oxford University Press)

اگر مذکورہ بالا موقف کو سامنے رکھیں تو نظریاتی تنقید پوری زندگی کی تفہیم کا نام ہے۔ علم بشریات یا علم سیاسیات سے ہم صرف نظر نہیں کرسکتے۔ آج بہت سے ادیب وشاعرایسے ہیں جو سیاست پر یا سیاسیات کے موضوع پر گفتگو کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ یہ بھی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کو ادب میں کس طرح کھپایا جائے۔ ڈاکٹر مولا بخش اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:

’’ادبی نقاد سیاسی موضوعات سے اگر ناک بھوں سکڑاتا چلاجائے (جیسا کہ ادب برائے فن والے کرتے تھے) تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ سیاسی گلیاروں کے سیلانی من مانے ڈھنگ سے جو چاہیں کرتے چلے جائیں گے اس لیے ادبی نقاد کو اور ادیبوں اور شاعروں کو عملی اور نظری سیاست پرفن کارانہ نگاہ ڈالتے رہنا ہوگا۔‘‘

(کتاب نما، مارچ2006،ص6)

فاروقی نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ نظریات کا اپنا بھی کوئی وجود ہے یا اس کا وجود بھی فن پاروں کا رہین منت ہے۔ یہ سوال بہت ہی بنیادی ہے۔ بلکہ اگر اس کا صحیح جواب مل جائے تو مطلع بالکل صاف ہوسکتا ہے کہ نظریاتی تنقید ممکن ہے یا نہیں۔ لیکن اس کا جواب اتنا آسان بھی نہیں ہے۔

جدید تنقید میں نظریاتی تنقید کی اہمیت پر فاروقی نے اس وقت غور کرنا شروع کیا جب F. R. Leavisکا یہ قول پڑھا کہ نقاد کے لیے ایسے عمومی بیانات محض عیاشی ہیں، جن کو کسی مخصوص فن پارے سے متعلق نہ کیا جاسکے۔ (ص8) نظریہ، تصور،اصول، مفروضہ، تھیوری، آئیڈیالوجی،  Axiom، Hypothesis، فلسفہ، کلیہ وغیرہ ایسے الفاظ ہیں جو قریب المعانی بھی ہیں۔ جب ہم مارکسی نظریہ کہتے ہیں تو یہاں نظریہ، Ideologyکو ظاہر کرتا ہے۔ جب ہم Darwin’s Theory of evolutionکو اردو میں لکھتے یا بولتے ہیں تو اسے ڈارون کا نظریہ ارتقا یا اصول ارتقا دونوں استعمال کرتے ہیں۔ اصول انگریزی لفظ Principleکے لیے زیادہ استعمال ہوتاہے۔ اسی طرح انگریزی لفظ Ideologyکے لیے اصول ونظریات دونوں استعمال ہوتے ہیں۔ نظریاتی اختلاف کے لیے Difference of Principle, Ideological differenceہے۔ اس طرح مفروضہ اورانگریزی کے Axiomکا معاملہ بھی ہے۔ فلسفہ کو درمیان میں لانا خطرے سے خالی نہیں۔ فلسفہ کو ان الفاظ میں سے کسی کا ہم معنی یا مترادف تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ فلسفہ کے ذیل میں البتہ یہ چیزیں آسکتی ہیں۔ جس طرح نظریہ کے ذیل میں اصول آتے ہیں جیسا کہ فاروقی لکھتے ہیں:

’’سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ نظریاتی تنقید جن اصولوں کو وضع یا دریافت کرتی ہے۔۔۔‘‘                                                       (ص9)

فاروقی کے مضمون میں نظریہ/نظریاتTheoryاور Ideologyکو ساتھ ساتھ دیکھاجاسکتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ فلسفہ حیات میں بھی نظریے کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ کسی بھی فلسفے کی تشکیل بغیر کسی نظریے کے ممکن نہیں۔ میراماننا ہے کہ ہر ایک فن پارہ اپنا ایک نظریہ بھی رکھتا ہے، لیکن وہ نظریے کا درس نہیں دیتا۔ یہ نظریہ ازخود آتاہے۔ اگر نظریے کو شعوری طور پر فن پارے میں سمونے کی کوشش کی جائے تو یہ ایک غیرمنطقی عمل ہوگا۔ سوال اپنی جگہ ہر حال میں قائم رہتاہے کہ نظریے کا استخراج فن پارے سے ہوسکتا ہے یا نہیں؟ میرا جواب سیدھا ہے کہ ایسا ہوسکتا ہے، مگر فن کار اس کا پابند نہیں ہوتا۔ بلکہ کبھی کبھی اسے پتہ بھی نہیں ہوتا۔ لیکن نظریہ یا تصور اگرنہیں تو فن پارہ وجود میں نہیں آسکتا۔ فاروقی نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر نظریات فن پارے سے اخذ کیے جائیں تو فن پاروں کی سچائی اور تنقیدی نظریات کی سچائی ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہوجاتی ہے۔ فاروقی نے بہت صحیح لکھا ہے کہ اگر فن پارہ جھوٹا ہے تو اس سے وضع کردہ نظریات بھی جھوٹے ہوں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ فن پارے سے نظریات وضع کرنا ایسا ہی ہے جیسا چراغ کی لو سے تیل نکالنا۔ کچھ لوگوں کو میری یہ مثال دیہی پس منظر کی یاد دلائے گی۔ یہ اچھی بات ہے کہ آج کی نئی تنقید جس ڈسکورس کو زیربحث لاتی ہے وہاں بے مرکزیت کو ہی مرکزیت حاصل ہے۔ چھوٹی چھوٹی ثقافتوں نے نام نہاد ثقافتی مرکز کو یاتو کمزور کردیاہے یا دھندلاکردیا ہے یا بے دخل ہی کردیا ہے۔ ایسے میں Theoryکا وضع کیا جانا یا Ideologyکی تشکیل و ترتیب آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ آسان اس لیے کہ آزادی ہے اور مشکل اس لیے کہ فن پارے سے نظریہ وضع کیا جائے یا نظریہ وضع کرکے فن پارے پر اس کا اطلاق کیا جائے۔

زندگی بغیرنظریہ کے نہیں گزرتی۔ ہرآدمی کے جینے کا، اٹھے بیٹھنے کا، شادی بیاہ کا اپنا نظریہ ہوتاہے۔ یہاں بھی نظریہ کام کرتاہے۔ سماجی تشخص بھی تھیوری پر قائم ہے۔ ٹیری ایگلٹن کے حوالے سے گوپی چند نارنگ نے اپنی کتاب ساختیات پس ساختیات میں تفصیل سے بحث کی ہے او رکہا ہے کہ تھیوری کی یلغار بلاوجہ نہیں ہے۔ یہ دراصل موجودہ کرائسیس سے نپٹنے کے لیے انسانی آگہی کی ایک کوشش ہے۔یہ کرائسیس اتنا شدید نہ ہوتا تو تھیوری پر اتنی زیادہ توجہ بھی نہ ہوتی (ص502)۔ ٹیری ایگلٹن کرائسیس سے کچھ اتنا گھبرایا ہوا لگتا ہے کہ اس سے نبردآزما ہونے کے لیے تھیوری کو ناگزیر تصور کرنے لگتاہے۔ غور کریں تو کرائسیس یا مسائل کا حل نظریہ سازی میں نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ مسائل پر نظریہ پیش کرکے اور اس پر خوبصورت مباحث کے دروازے کھول دیے جائیں، لیکن یہ مسائل کو حل کرنے کے بجائے کبھی کبھی بلکہ زیادہ تر مواقع پر خالی خولی بحث وتمحیص اور دانشورانہ موشگافیوں کا نقطہ عروج بن کر ہواؤں میں سگریٹ کے مرغولے کی طرح پھر تحلیل ہو جاتاہے۔ یہ نظریہ کوئی Pain Killerنہیں کہ سرمیں، بدن میں درد ہو توفوراً ایک گولی حلق میں ڈالیے اور دفترکو نکل جائیے۔ التھوسے (Louis Althusser) نے گرچہ یہ لکھاہے کہ:we are all the subjects of ideology which summons us to take our places in the social structureمگر ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ:

Art is not simply an expression of ideology.

(The theory of criticism, Edited by Raman selden, page-455, Longman, 1990)

ٹیری ایگلٹن نے بھی آئیڈیالوجی کے حوالے سے اپنی مشہور کتاب Criticism & ideology میں یہ تسلیم کیا ہے کہ متن تاریخی حقائق کو پیش کرنے کے بجائے آئیڈیالوجی پر کام کرتاہے تاکہ حقائق کا اثر؍عکس ظاہر ہوسکے۔

ایگلٹن کی عبارت ہے:

Texts do not reflect historical reality but rather work upon ideology to produce the effect of the real.

اس کابرجستہ ترجمہ پروفیسر نارنگ نے جگہ جگہ اپنی کتاب ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات میں قدرے ردوبدل کے ساتھ کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

’’اصل مسئلہ ادب اور آئیڈیولوجی کے رشتے کا تعین ہے، کیونکہ ادب تاریخی حقیقت کا عکس پیش نہیں کرتا، بلکہ آئیڈیولوجی کے ساتھ عمل آرا(work upon)ہوکر حقیقت کا اثر(effect)پیدا کرتاہے۔‘‘              (ص263)

بہرحال میں نے جو ٹوٹا پھوٹا ترجمہ کیا ہے اس سے یانارنگ کے ترجمے سے آپ صورت حال کوسمجھ سکتے ہیں۔

پھربات وہیں پہنچ جاتی ہے جہاں فاروقی نے یہ بات اٹھائی تھی کہ ایسے میں اگر فن پارہ؍ متن جھوٹا ہوتو اس سے وضع کردہ Theoriesیا Ideologiesبھی جھوٹے ہوں گے۔ گھوم پھر کر بات مارکسی نظریہ کی طرف ہی جاتی ہے۔ سماج، معاشرہ، ادب، ادیب یا پھر ادب برائے زندگی۔ ان سب جدید نقادوں سے پہلے 18ویں صدی میں ہی De Bonaldنے یہ کہہ دیا تھا کہ

”Literature is the expression of society.”

سماج اور زندگی سے ادب مواد حاصل کرتاہے لیکن درمیان میں نظریہ کہاں سے گھس آتاہے؟ کسی ادب پارے کی تفہیم کے لیے نظریے کی مددلی جائے، یہ کوئی ضروری نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ تنقید کا منصب اگر ادب کی تفہیم ہے تو یہ کام نقاد اور فن پارے کے درمیان بغیر نظریے یا تھیوری اورآئیڈلوجی کے لائے بھی ہوسکتا ہے اور ہوبھی رہاہے۔

تنقیدی نظریات جھوٹے ہیں تو اس لیے کہ اس کا انحصارفن پارے پر ہے۔ یعنی بقول فاروقی نظریاتی تنقید محض عقلی گدا (15) ہے۔ تنقیدی شعور مقدم اس لیے ہے کہ اس کا وجود فن پارے کے ساتھ ساتھ ہے بلکہ پہلے سے ہی موجود ہے۔ تخلیقی عمل میں ہی تنقیدی شعور موجود ہوتا ہے۔ تنقیدی شعور کے ذریعہ ہی تصور یعنی Ideaسامنے آتا ہے اور اس کی چھان پھٹک ہوتی ہے۔ تنقیدی نظریہ اور نظریاتی تنقید دونوں دوچیزیں ہیں۔ فاروقی کا یہ جملہ پڑھ کر میں ذرا confuseہوگیا۔

’’۔۔۔ظاہر ہے کہ نظریاتی تنقید اس قسم کے بیانات نہیں وضع کرسکتی لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ تنقیدی نظریات میں فلسفیانہ قسم کی سچائی ہوتی ہے۔‘‘     (ص19)

ایسی تنقیدجس میں نظریہ حاوی ہو نظریاتی تنقید ہے اور ایسا نظریہ جس میں تنقید حاوی وہ تنقیدی نظریہ ہے۔ میرے خیال سے اس پر بحث کرنے سے پہلے ان دونوں کے درمیان خطِ امتیاز ضروری ہے ورنہ خلط مبحث کا اندیشہ غالب ہوگا۔ بہرحال فاروقی کا موضوع بحث نظریاتی تنقید ہے یعنی Theoretical Criticism۔

اگرہم کسی ’’فن پارہ‘‘ کی تفہیم کے لیے کسی نظریے کو Toolکی طرح استعمال کرتے ہیں تو اس میں دونوں صورتیں پیدا ہوسکتی ہیں۔ فن پارہ اپنا اصل معنی کھوبھی سکتا ہے اور اصل معنی تک رسائی ہو بھی سکتی ہے۔ اگر تخلیقی فن پارہ اور اس کا متن اپنا ایک جداگانہ مکمل، وجود رکھتا ہے توتنقیدبھی ایک آزادانہ وجود رکھتی ہے۔ مفروضہ اور نظریہ قاری کو کبھی کبھی فن پارے سے دور بھی کردیتا ہے۔ کسی شے پر یا اس کی حقیقت پر جس قدر غور کریں گے اس کے تلازمات سامنے آتے جائیں گے۔ یہاں تخلیق کے لیے جس طرح قوت متخیّلہ اہم ہے، اسی طرح تنقید کے لیے بھی ضروری ہوجاتی ہے۔ ہیزلٹ(Hazlitt)کا ماننا ہے کہ یہ متخیّلہ ہے جس کے سبب ہم نقل کو اصل کے مشابہ سمجھ کر کسی فن پارے سے محظوظ ہوتے ہیں۔ اگر اس نظریے کی روشنی میں کسی فن پارے کی تنقید کی جائے تو یہ نظریاتی تنقید ہوگی۔ لیکن یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ اگر نقل اصل کے مشابہ نہ ہوئی تو کیا فن پارہ بے معنی، لغو اور ازکار رفتہ ہوجائے گا؟ کیا، تھوڑی دیر کے لیے متخیّلہ سے اپنا پیچھا چھڑاکر عین معروضیت کے ساتھ فن پارے میں پیش کی گئی ٹھوس حقیقت تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی جاسکتی؟ کیا ہمیں اس فن پارے میں پوشیدہ معنی کے علاوہ کوئی ایسی چیز نہیں جو ہمارے جذبے اور ذوق سلیم کو محظوظ کرسکے یا اس سے ہم آہنگ ہوسکے؟ تھوڑی دیرکے لیے افلاطون کے اس نظریے کو سامنے رکھ کر دیکھیں کہ شاعری مخرب الاخلاق ہے۔ فاروقی نے اپنے اس مضمون میں لکھا ہے:

’’افلاطون کا اعتراض تھا کہ شاعری مخرب الاخلاق ہے۔ ترقی پسندوں نے جواب دیا کہ شاعری کو مصلح الاخلاق بنایا جاسکتا ہے۔ (حالی ان کے پیش رو تھے) ترقی پسندوں اور حالی نے کہا کہ اگر شاعری سے صحت مند اور تعمیری نتیجے مرتب ہوں تو وہ بری چیز نہیں۔۔۔ یہ کام تو شاعری سے بہت بہتر طریقے سے اُن علوم سے لیا جاسکتا ہے جو سراسر اخلاقی اور فلسفیانہ ہیں۔ ہرشخص اپنی اپنی پسند کا فلسفہ منتخب کرلے اور اس کے ذریعہ اپنی اصلاح کرتا رہے، شاعری کی ضرورت ہی کیا ہے؟‘‘                            (ص20)

فاروقی کے مذکورہ بالا اقتباس میں کئی باتیں ہیں جوزیر بحث آسکتی ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ تعمیری اور اصلاحی پہلو والی شاعری کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ کام دوسرے علوم سے لیا جاسکتا ہے اور وہ بھی بہتر طریقے سے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر دوسرے علوم کے ساتھ ساتھ شاعری میں غیردانستہ طور پر تعمیری واصلاحی عناصرآتے رہیں تو اس میں برائی کیاہے؟ فاروقی نے ترقی پسندوں کے پیش رو کے طور پر حالیؔ کا شمار کیاہے۔ حالی تو خیر بے چارے شریف النفس تھے، لیکن انھیں افلاطون کے تصور شاعری میں، معاشرے کی کچھ بھلائی سمجھ میں آئی ہوگی۔ اخلاقی تنزل کو شاعری سے فروغ حاصل ہوسکتا ہے لیکن دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ شاعری سے اخلاقی اقدار (Moral Values)، جرأت مندی، استقلال، جوش وولولہ بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ عربی شاعری میں محاذ جنگ پر پڑھی جانے والی شاعری یا تحریک آزادی سے متعلق کی جانے والی ہندوستانی شاعری کیا اپنے اندر تعمیری واصلاحی پہلو نہیں رکھتی اور اگر رکھتی ہے توکیا اسے اس لیے ادب باہر کردیا جانا چاہیے کیونکہ یہ کام دوسرے علوم سے ہوسکتا ہے؟ لیکن وہ کون سے علوم ہیں جن کی مدد سے تحریک آزادی کو فروغ حاصل ہوسکتا ہے یا محاذ جنگ پر سپاہیوں کے دلوں کو گرمایاجا سکتا ہے؟ جوش دلایاجاسکتا ہے؟ افلاطون کا یہ بھی ماننا تھا کہ شاعری صداقتوں کا سرچشمہ نہیں ہوسکتی۔ اس بات میں صداقت تو ہے لیکن اگر اس نظریے کو بالکلیہ تسلیم کرلیاجائے تو ہماری اردو شاعری میں مرثیے کی پوری روایت اورحمدونعت کا سرمایہ آخرکس خانے میں رکھا جائے گا؟ مرثیہ نگاری سے جس طرح حق وباطل کی جنگ اس کے پورے سیاق وسباق نیز عوامل وتناظر کے ساتھ ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ کیا دوسرے علوم میں سے کسی ایک میں (تاریخ محض تاریخ ہوتی ہے جہاں جذبہ انسانی مفقود ہوتاہے) یہ قدرت ہے کہ ہمارے ذہنوں اور دلوں کو مہمیز کرسکے؟ حالیؔ کے سامنے یہ سب روایتیں موجود تھیں۔ ہمارے ذہنوں میں اگر ان روایتوں کی سچی تصویریں ہیں تو افلاطون کے نظریے کو پوری طرح باطل قرار نہیں دیا جاسکتابلکہ اس نظریے میں دینی جمالیات کے رموز بھی پنہاں ہیں۔ افلاطون اپنی ریاست میں دیوتاؤں کی حمد اور مشاہیر کی ثناکے علاوہ کسی اور قسم کی شاعری کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر اس نظریے کی تردید کی جاتی ہے تو علامہ اقبال کی پوری شاعری رد ہوجاتی ہے، کیونکہ اس میں اسلامی افکار اور فلسفوں کے ساتھ ساتھ پیغمبراسلام کی تعلیمات کی کثرت ہے۔ بلکہ یہی اُن کی شاعری کا مغز(Pith) ہے۔ کیا ہمیں ایسی شاعری کو فروغ دینا چاہیے جس کے لیے حالی نے ’’عفونت میں سنڈاس سے بدتر‘‘ استعمال کیا؟ ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ اردو شاعری میں ایک قیمتی سرمایہ ایسی شاعری کا بھی ہے جو واقعتا انسانی ذہن کو مسرت اور حظ پہنچانے کے ساتھ ساتھ اس کی تربیت بھی کرتی ہے۔ کیا ہمیں اس سرمایہ سے دست بردار ہوجانا چاہیے؟ فاروقی شاعری سے تعمیری واصلاحی کام لینے کے حق میں نہیں ہیں۔ وہ بھی افلاطون کی طرح ’’دوسرے علوم جو سراسر اخلاقی اور فلسفیانہ ہیں، کو اہم تصور کرتے ہیں۔ افلاطون کی نظر میں بھی اپنے معاشرے کی خرابیوں اور بدعنوانیوں کا علاج فلسفہ کو صداقت اور اخلاقیات کا منبع تسلیم کرلینے میں تھا۔ دراصل اس کی نظر میں فنون لطیفہ اور افادی فنون میں ایک واضح فرق تھا۔ اب اگر آج کے تہذیبی تناظر میں غورکیا جائے تویہ بات سامنے آسکتی ہے کہ ادب کا افادی پہلو اگر کوئی ہوتا ہے تو کیا یہ افادی پہلو وہی ہے جو افلاطون کا تھا۔ اس کی نظر میں تو زراعت اور طب پر لکھی گئی کتابوں کی افادیت تھی، لیکن اگر آج ادب میں ہمارے معاشرے کی اتھل پتھل، ستم ظریفی، فسادات اور سیاسی بحران کو پیش کیاجاتاہے تو کیا یہ بھی ادب کے افادی پہلو کے ذیل میں نہیں آتا؟ خود فاروقی  کی کہانیاں یا پھرحال ہی میں شائع شدہ ناول ’’کئی چاند تھے سرآسماں‘‘ (شہرزاد، کراچی، صفحات830) کی تہذیبی تاریخ اپنا کوئی افادی پہلو اور جواز نہیں رکھتی؟ میرا ماننا ہے کہ ہر ایک فن پارے کا ایک افادی پہلو ضرور ہوتاہے جو اس کے ہونے اور زندہ رہنے کا جواز بھی پیدا کرتاہے۔

مذکورہ بالا بحثوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ہر ایک ادب پارہ اپنا کوئی نہ کوئی افادی پہلو ضرور رکھتا ہے۔ کچھ لوگ اگرادب کو صرف تفنن طبع کا سامان تصور کرتے ہیں تو یہ بھی ایک طرح کی انتہا پسندی ہے، اور ادب کامحض سماج کا عکاس ہونا بھی نامناسب نظریہ ہے۔ نظریاتی تنقید اگران دونوں انتہاپسند رویوں کی روشنی میں کی جاتی ہے تو کسی بھی ادب پارہ کی تفہیم وتعبیر تشنہ ہوگی، جس میں انتہاپسندی بھی ہوگی۔ اس لیے میرا ماننا ہے کہ ادب پارہ میں افادی پہلو کے ساتھ ساتھ اس کا جمالیاتی وتفریحی پہلو بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے۔ اگر اس بات کا خیال رکھا جائے تو فاروقی کے عنوان ’’کیا نظریاتی تنقید ممکن ہے۔‘‘ کا جواب اثبات میں دیا جاسکتا ہے ورنہ۔۔۔؟؟ فاروقی تنقیدی نظریات کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’اگرتنقیدی نظریات میں کسی قسم کی فلسفیانہ سچائی ثابت کرناہے تو یہ کہنا پڑے گا کہ یہ نظریات اس تجربے کے حوالے سے ہی مدون کیے جائیں گے جس سے ہم فن پارے کے ذریعہ دوچار ہوتے ہیں۔‘‘           (ص27)

فاروقی نے تجربے Experienceاور Experimentکے حوالے سے لمبی بحث کی ہے۔ دھوپ، گرمی، توپ اور گولے کی مدد سے تفاعل اور لازمیت کو سمجھانے کی کوشش کی ہے اور بہت حد تک اس پیچیدہ مسئلے کو حل بھی کرنے کی کوشش کی ہے ۔ بحث کا لب لباب یہ ہے کہ ہر فن پارہ ہمیں ایک تجربے سے روشناس کراتاہے۔ حالانکہ آئندہ کے صفحے پر پھر وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ہم نے یہ کیوں فرض کرلیا کہ تمام تحریریں ہمیں کسی نہ کسی طرح کے تجربے سے روشناس کرتی ہی ہوں گی؟ (ص29) اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر تحریر ہمیں تجربے سے روشناس نہیں کراتی۔ میرا مطلب نئے تجربے سے ہے۔ ممکن ہے کسی تحریر میں جس تجربے کا بیان ہو ہم اس تجربے سے پہلے ہی سے واقف ہوں۔ لہٰذا ہمارے لیے اس کی معنویت اور اہمیت فطری طور پر کم ہوجائے گی۔ یہیں پر سوال اٹھتا ہے کہ تو کیا اس تحریر یا اس فن پارہ کی کوئی ادبی حیثیت نہیں رہ جاتی جس میں ایک قاری کے لیے کوئی نیا تجربہ پیش نہ ہوا ہو؟یہ بہت بڑا سوال ہے۔ شاید ایک بہت ہی commonتجربہ پیش کرنے والا فن پارہ بھی اپنی بڑی ادبی حیثیت رکھتا ہو، یہ الگ بات ہے کہ جس فن پارے میں نیا اور انوکھا تجربہ ہوگا اس کی ادبی حیثیت بھی اسی قدر بڑی ہوگی۔ ادبی حیثیت کے لیے صرف تجربے کا ہونا ہی ضروری نہیں۔ اس امر کو بھی ہمیشہ پیش نظر رکھا جانا چاہیے کہ ہر فن پارے میں کوئی نہ کوئی تجربہ پوشیدہ ضرور ہوتا ہے۔ معمولی اور غیرمعمولی دونوں طرح کے تجربہ پر گفتگو کرتے کرتے فاروقی ’علم‘ کی طرف آجاتے ہیں جس کا ذکر مضمون کے شروع میں بھی ہوا۔ لکھتے ہیں:

’’Experienceہمارے علم میں اضافہ نہیں کرتا، Experimentاور مشاہدہ ہمارے علم میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ فرض کیجیے میں نے پہلی بار پہاڑ دیکھا اور مجھ پر ہیبت طاری ہوگئی۔ اس سے مجھے یہ تو معلوم ہوگیا کہ پہلی بار پہاڑ دیکھنے سے مجھ پر ہیبت طاری ہوئی۔۔۔ ان باتوں سے میرے وجود کے ابعاد میں اضافہ ہوا، علم میں نہیں۔ علم میں اضافہ تو تب ہوتا جب میں تجربہ یا مشاہدہ کرکے یہ معلوم کرتا کہ تمام انسانوں کے لیے وہ پہاڑ ہیبت انگیز ہے۔‘‘                                                      (ص29)

کبھی کبھی ایک آدمی کا تجربہ علم کا ضامن بن جاتاہے۔ فاروقی نے Experimentسے علم میں اضافے کی بات کہی ہے۔ یہ بالکل درست ہے۔ لیکن آرک میڈیس جب غسل کررہاتھا اور جب وہ پانی کے اندر ڈوبتا تو کوئی طاقت اُسے اوپر کی طرف دھکا دیتی۔ یہ اس کا Experienceتھا وہ بھی پہلاExperienceنہ کہ Experiment۔ اسی تجربے سے آرک میڈیس نے Law of buoyancy پیش کیا، پھر ایک نئے علم سے ہم سب واقف ہوئے۔ نیوٹن پیڑ کے نیچے بیٹھا یا سورہا تھا۔ سیب ٹوٹ کرجب نیچے گرا تو اُسے خیال آیا کہ یہ سیب آخر اوپر نہ جاکر نیچے ہی کیوں آیا؟ ا س پر غور کرنے سے ایک نئے علم کا اضافہ ہوا جسے قوت کشش یعنی Gravitational forceکہتے ہیں۔ یہاں آرک میڈیس یا نیوٹن نے کوئی Experiment نہیں کیا تھا، بلکہ یہ نئی باتیں ان کے تجربے میں آگئیں۔ Experimentکے لیے ہمیں پہلے نظریہ یا تھیوری کی ضرورت پڑتی ہے لیکن Experienceکے لیے نہیں۔ جہاں تک پہاڑ دیکھ کر ہیبت طاری ہونے کا سوال ہے تو اُس ہیبت زدہ شخص کے لیے اس وقت تک یہ تجربہ علم بنا رہتا ہے جب تک بار بار پہاڑ دیکھنے کے بعد اس کا خوف ختم نہ ہوجائے ورنہ اس کے لیے یقینا یہ علم ہے کہ جب بھی وہ پہاڑ دیکھے گا اس پر ہیبت طاری ہوجائے گی۔ چونکہ یہ بات اس کے مشاہدے میں آچکی ہے اور فاروقی بھی یہ مانتے ہیں کہ مشاہدہ ہمارے علم میں اضافہ کرتا ہے۔ فاروقی کے اوپر پیش کیے گئے اقتباس میں یہ بات آچکی ہے۔ وجود کے ابعاد میں اضافے کو فاروقی علم میں اضافہ تصور نہیں کرتے۔حالانکہ جسمانی وجود اور ذہنی وجود کسی نہ کسی کے ابعاد میں ’’علم‘‘ بھی آتا ہے۔ ’’علم‘‘کا وجود بھی ’’وجودانسانی‘‘ سے ماورا قطعی نہیں۔ ایک شرط فاروقی کی یہ بھی ہے کہ علم کے لیے کارآمدگی یعنی عملی مصرف ضروری ہے۔ یہ موقف بھی تضاد بھراہے۔ علم بے شک وہی ہے جس پر عمل کیا جاسکے بلکہ جس کا مصرف انسان کے حق میں ہو۔ ایسا علم بھی ہے جو منفی کارآمدگی کواپنے جلو میں لے کر آتاہے۔ مجھے علم ہے کہ گھر دیر سے پہنچوں گا تو ابو سے پٹائی کھانا پڑے گی لیکن اگر میں اس علم کے مطابق عمل نہیں کرتا تو وجود علم منسوخ نہیں ہوجاتا۔ فاروقی لکھتے ہیں:

’’نظریاتی تنقید کا اگر کوئی جواز ہے تو یہی ہے کہ وہ فن پارے کے اصل وجود سے بحث کرتی ہے۔‘‘                                          (ص31)

نظریاتی تنقید(Theoretical Criticism)اور تنقیدی نظریات (Critical Theories) میں مماثلت کے باوجود تفریق بھی ہے۔ ایسی تنقید جو نظریات پر استوار ہو وہ نظریاتی تنقید ہے اور ایسے نظریات جن کی اساس تنقید پر قائم ہو وہ تنقیدی نظریات ہیں۔ ایسے نظریات بھی ہوسکتے ہیں جوتنقیدی نہ ہوں، اسی طرح ایسی تنقید ممکن ہے جو نظریاتی نہ ہو، لیکن فاروقی نے اپنے اس مضمون میں جا بہ جا دونوں کو مترادف کے بطور استعمال کیا ہے۔ خیر اس تضاد سے قطع نظر اوپر پیش کیے گئے اقتباس پر غورکریں تو معلوم ہوگا کہ نظریاتی تنقید کا کام ہے کہ وہ فن پارے کے اصل وجود سے بحث کرے۔ ’’اصل وجود‘‘ توجہ طلب ہے۔ فن پارے کے اصل وجود میں پھر وہی لفظ ومعنی کی بحث آجاتی ہے۔ یہ بحث متنازعہ ہونے کے ساتھ ساتھ مفید بھی رہی ہے۔ فاروقی مانتے ہیں کہ حالی کے بعدنظریے کی اہمیت کا احساس کبھی غائب تو کبھی موجود رہا۔ وہ ترقی پسندوں کو اس بات کے لیے سراہتے ہیں کہ انھوں نے اس جانب توجہ کی لیکن کوئی واضح نقشہ نہیں بن سکا۔ دراصل ترقی پسندوں نے نظریوں کو Digestکرنے کے بجائے خارجی طورپر زبردستی پوری زندگی پر ان کا اطلاق شروع کردیا۔ بھئی جس کا پاجامہ ہووہی پہنے یا کم از کم اسی قد کا شخص پہنے۔ اردو میں صرف ترقی پسندوں پر ہی یہ الزام عائد نہیں ہوتا بلکہ جدیدیوں اور مابعد جدیدنظریہ سازوں پر بھی ہوتاہے۔ ’’زندگی‘‘ کو سمجھنے کے بجائے زندگی کو نظریوں کے درمیان رکھ کر اسے سینڈوچ بنانے کی کوشش کی گئی۔ میں پوچھتا ہوں کہ جب ہم کسی ٹھوس حقیقت کے بجائے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں تو نظریات کو ان پرہم آنکھ بند کرمنطبق نہیں کرسکتے۔ حسی تصورات نظریات کے رہین منت نہیں ہوتے۔ ادبی فن پارے کی چھان پھٹک میں نقاد کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ نظریات کے بجائے فن پارے میں پیش کردہ جذبات یا حسیات کو ملحوظ رکھے۔ غالب کا یہ شعر سامنے رکھیے:

ہم نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد

سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا

اگر ہم آپ اپنے سروں کو دیوار سے ٹکرائیں تب بھی یہ ضروری نہیں کہ اس کی تفہیم وتعبیر کے لیے کسی نظریے کو لازمی قرار دیں۔ لیکن اگر نظریاتی تنقید بقول فاروقی ’’فن پارے کے اصل وجود‘‘ سے بحث کرتی ہے تو تقریباً مطلع صاف ہوجاتاہے۔ آگے چل کر انھوںنے اس بارے میں مزید وضاحت کی ہے کہ نقاد کے ذہن میں فن پاروں کے وجود کا شعور ایک مستقل پس منظر کی طرح رہنا چاہیے (ص40) فاروقی نے جب شعرشورانگیز تصنیف کی ہوگی یا تفہیم غالب، تومیر اور غالب کے فن پاروں کے وجود کا شعور ان کے ذہن میں بھی رہا ہوگا۔ لیکن ایک شبہ یہاں بھی رہتا ہے کہ فن پارے کا وجود اگر نقاد کے ذہن کا مستقل پس منظر بن جائے تو بددیانتی کی صورتیں بھی کبھی دانستہ اور کبھی نادانستہ طور پر پیدا ہوجاتی ہیں۔ ترقی پسند نقادوں کے ذہنوں میں فن پارے کے وجود کا شعور اس کے خاص سماجی پس منظر کے ساتھ رہتا ہے۔ ترقی پسند فن پارے کا سروکار بھی حاوی طور پر سماجی ہی رہا کرتا ہے۔ یہاں پر یہ بات تسلیم کی جانی چاہیے کہ فن پارے کے تجزیے میں اگر نظریات حاوی ہوں گے تو ادبی تنقید کے نقوش ابھر کر آئیں گے ضرور، لیکن یک رخے ہوں گے۔ میرا ماننا ہے کہ فن پارے کا وجود نقاد کے ذہن میں پس منظر کے طور پر رہے مگر نقاد اس فن پارے کی تعبیر وتشریح کے لیے صرف اسی پس منظر کا محتاج ہوکر نہ رہ جائے۔

متن کی تفہیم میں ایک نظریہ منشائے مصنف کا بھی رہاہے۔ اس پر فاروقی نے شعرشورانگیز جلددوم میں بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے ومزٹ(Wimsatt)، بیرڈسلی (Berdsley)، ایلیٹ اور گیڈمر(Gadamer)کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔ متن کی سچی تعبیر کے لیے کئی ایک نقاد منشائے مصنف کو لازمی تصور کرتے ہیں۔ ایک متن؍فن پارہ میں مصنف یا تخلیق کار کا منشا (بمعنی مفہوم ومعنی) کیا رہاہے، اگر اس کی چھان پھٹک کی جائے تو اس میں کبھی کامیابی ملے گی اور کبھی ناکامی۔ دوسرا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ متن یا فن پارہ کا ایک معنی متعین ہوکر رہ جائے گا۔ اس معنی (منشائے مصنف کے مطابق) کے علاوہ اس متن کے جتنے معنوی وتعبیری ابعاد وجہات ہوسکتے ہیں، وہ سب مشکوک ومنسوخ ہوکر رہ جائیں گے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ متن بالکل اکہرے معنی پر مرکوز ہوکر رہ جائے گا، اور یہ رویہ کسی بھی فن پارہ کی معنوی جہات کو محدود کرنے کے لیے کافی ہے۔ مصنف کو مزید خوشی اس وقت ہوتی ہے جب اس کے متن کی کئی معنوی جہتیں اور تعبیریں پیش کی جاتی ہیں۔ لہٰذا نظریات کی اساس پر ادب پارے کو پرکھتے ہوئے مذکورہ بالا باتوں کوبھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ عملی تنقید بھی کامیاب تبھی ہوگی جب نظریاتی طورپر فن پارہ تک اور اس کے باطن تک اترنے میں قباحت پیدا نہ ہو۔ پروفیسر احتشام حسین نے اپنے ایک مضمون ’تنقید نظریہ اور عمل‘ میں لکھتے ہیں:

’’عملی تنقید نظریات تنقید کا استعمال ہے، شعروادب کے نمونوں کے جانچنے کے لیے۔ یہ نظریہ شعروادب کے جانچنے اور پرکھنے ہی کے دوران میں پیدا ہوئے ہیں، اور کہیں سے بن کر نہیں آئے ہیں۔‘‘                                                         (تنقیدی نظریات، جلداول، ص149)

احتشام حسین نے اپنے اس موقف میں ایک پتے کی بات یہ کہی ہے کہ یہ نظریے شعروادب کے جانچنے کے دوران پیدا ہوئے ہیں کہیں باہر سے نہیں آئے ہیں۔ اس جملے سے بڑی طمانیت پیدا ہوئی کہ چلو کم سے کم Imposeکرنے کا معاملہ ٹل گیا۔ لیکن اگر ان کی تنقیدی تحریروں کا یا کسی اور ترقی پسندنقاد کی تحریروں کا بغائر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر فن پارہ کے جانچنے میں سماجی سروکار ضرور سامنے آگئے ہیں۔ یعنی نظریے باہر سے ہی آئے ہیں۔ انھوں نے ٹھیک ہی لکھاہے کہ جانچتے وقت خود ہی یہ نظریے پیدا ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے جب پہلے سے ہی فن پارہ کے اندرون میں نظریے انڈیلے جاچکے ہیں تو الگ سے نظریے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ وہاں سماجی سروکار والے نظریات توازخود آہی جائیں گے۔ اگر ان کے اس موقف کو ترقی پسندی سے الگ کرکے دیکھیں تو ایک متوازن اور کارآمد نقطہ نظر ہے۔ ایسا ہی ہونا چاہیے تاکہ فن پارہ کی تفہیم آسان ہو۔

سیدمجتبیٰ حسین نے اپنے ایک مضمون ’’نقاد‘‘ میں لکھا ہے:

’’نظریاتی تنقید ادب کو زندگی کا ایک بہت اہم مظہر سمجھ کر قبول کرتی ہے۔ اس لیے یہ ان تمام ادبی محرکات کا انتہائی سنجیدگی سے جائزہ لیتی ہے جوادب کی تخلیق کا باعث ہوتے ہیں۔ اس کی سمیٹ میں مذہب،فلسفہ، عمرانیات، معاشیات، جنسیات، نفسیات، سائنس اور سیاست سبھی چیزیں آجاتی ہیں۔‘‘

(ماخوذ از تنقیدی نظریات مرتبہ احشام حسین،جلددوم،ص137)

فاروقی کا مضمون بھی اسی کے آس پاس(1977)  کا لکھا ہوا ہے۔ تنقیدی نظریات جلددوم، دوسری بار 1980 میں چھپی تھی۔ مجتبیٰ حسین کی کتاب ’ادب وآگہی‘ (جس سے ان کا مضمون ’نقاد‘ماخوذ ہے) اس سے پہلے1964میں شائع ہوئی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس موضوع پر وہ پہلے سے ہی سوچ رہے تھے، یہ الگ بات ہے کہ فاروقی نے پہلی مرتبہ نظریاتی تنقید پرتفصیل سے گفتگو کی۔ نظریاتی تنقید کو ادبی جمالیات(Literary aesthetics)سے بھی موسم کیا جاتاہے۔ سلیم اختر نے اپنی کتاب ’’تنقیدی دبستان‘‘ میں رچرڈڈیلز کی کتاب De Poetica (1773) کو نظریاتی تنقید کے میدان میں اولین کوشش قرار دیا ہے (ص23) اس سے بھی پہلے سڈنی کے زمانے میں 1570 میں نظریاتی تنقید کا ظہور ہوا۔ اس کے بعد توجدید نظریہ سازوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ کولرج، میتھیوآرنلڈ، آئی اے رچرڈز، ڈیکارٹ، سارتر، دریدا، جونتھن کولر، ٹیری ایگلٹن لاکاں، فوکوٹی ایس ایلیٹ وغیرہ۔

تھیوری (نظریہ) پرنئی تنقید میں گفتگو خوب ہورہی ہے۔ اردو میں پروفیسر نارنگ، شمس الرحمن فاروقی، حامدی کاشمیری، وزیرآغا، فہیم اعظمی، وہاب اشرفی،عتیق اللہ، ابوالکلام قاسمی وغیرہ نے نظریات کے حوالے سے اپنی تنقیدی تحریروں میں بھرپور گفتگو کی ہے۔ متن کے معنوی اکتشاف پر حامدی کاشمیری نے باضابطہ کام کیا ہے۔ اپنی کتاب ’’معاصر تنقید-ایک نئے تناظر میں‘‘ (1992)  میں تفصیل سے انھوںنے مغربی تنقیدی نظریات کے حوالے سے اردو میں تنقیدی روش پر روشنی ڈالی۔ اکتشافی تنقید کے وہ بانی علم بردار ہیں۔ نظریہ سازی کے تحت انھوںنے پوری کتاب ’’اکتشافی تنقید کی شعریات‘‘ (نومبر1999) تصنیف کی۔ اس کے علاوہ ’’تجربہ اور معنی‘‘ (اکتوبر 2003) میں ’’تھیوری کیوں؟‘‘، مصنف،متن، نقاد اور قاری، متن میں معنی کا عمل، تین ایسے مقالے تحریر فرمائے جن سے متن کی تفہیم میں نظریہ کی اہمیت اور غرض وغایت کا اندازہ ہوتاہے۔ میرے خیال سے انھوںنے اس ضمن میں بہت سوچا ہے۔ ان کی کتاب تجربہ اور معنی سے دواقتباسات ملاحظہ کیجیے:

n     موجودہ عہد میں جبکہ زندگی تیز رفتار تبدیلیوں کی زد میں ہے، مختلف علوم وفنون کی طرح ادب اور تنقید بھی نئے نظریات کی تشکیل اور عمل آوری کی ضرورت کو پوری قوت سے منوا رہے ہیں۔                                            (ص15)

n     جدید ادبی تھیوری جہاں ادب کی ماہیئت کی تفہیم کے لیے اصول سازی کرتی ہے، وہاں یہ وہ ضوابط بھی وضع کرتی ہے جو ادبی متن، مصنف سے اس کے رشتے، مصنف کے منشا، اس کے عقائد اور متن اورقاری کے مابین عمل اور ردعمل کی توضیح وتعیین کرتے ہیں۔                                                    (ص20)

نظریاتی تنقید اگر زندگی اور فن پارے کے درمیان پُل کا کام کرے تو بہتر ہے۔ مورے کریگر(Murray Krieger)نے تھیوری اور فن پارے کے درمیان تطابق پر اپنا ایک متوازن موقف پیش کرتے ہوئے لکھا ہے:

A theory must be flexible enough to accommodate the assault of the next poetic experience, and yet it must be tight enough to provide the norms by means of which that new experience can be perceived and sustainded.

(Theory of Criticism, A tradition and its system, 1976, P-7)

زندگی کو سمجھنے کے لیے بھی اکثر نظریوں کا سہارا لیا گیا ہے۔ علم سیاسیات، علم النجوم، علم حیاتیات، علم البشریات، علم الادویات سب کے سب علوم کا کام زندگی کی تفہیم اور ایک طرح کی معاونت ہی ہے۔ پروفیسر گوپی چندنارنگ کے مغربی نظریوں کو اردو میں بڑے ہی شدومد کے ساتھ پیش کیا۔ مابعدجدیدتھیوری اور ساختیات پس ساختیات، تشکیل، رد تشکیل کے حوالے سے نارنگ نے سب سے زیادہ اردو میں سوچا وِچارا ہے۔ اپنی کتاب ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات کے آخری باب ’’صورت حال، مسائل اور امکانات میں تھیوری کی ضرورت اور فن پارے میں اس کے اثر ونفوذ پر شرح وبسط کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ ٹیری ایگلٹن کے حوالے سے انھوں نے لکھا ہے کہ’’ ادبی تھیوری غور وفکر کرتی ہے ادبی تنقید کے بارے میں، اور ادبی تنقید غور وفکر کرتی ہے ادب کے بارے میں اور ادب غور کرتا ہے زندگی کے بارے میں۔ چنانچہ تھیوری ہو یا ادبی تھیوری، معاملہ کی تہہ میں جو مسئلہ ہے وہ زندگی ہی کا ہے۔ نارنگ لکھتے ہیں: ’’تھیوری کا مطلب ہے مسائل کو نظریانا، ان کے بارے میں کچھ نہ کچھ موقف اختیار کرنا۔‘‘ (ص:500)

یہ سچی بات ہے کہ ادب اور زندگی کا رشتہ بہت ہی گہرا ہے۔ لیکن بالکل ویسا بھی نہیں جیسا کہ ترقی پسند ادیبوں نے سمجھ لیا تھا۔ ادب خلا میں تخلیق نہیں ہوتا، یہ ہم سب سمجھتے ہیں۔ اگر ادب کو صرف سیاسی نظریے یامذہبی یا محض سماجی نقطۂ نظر سے پرکھنے کی کوشش کریں تو تفہیم ادب کی جو بھی جہت ہوگی وہ یک رخی ہوگی۔ اس طرف ڈاکٹر عصمت جاوید نے بھی اپنے طویل مضمون ’’ادب اورنظریہ‘‘ میں توجہ کی ہے۔ لکھتے ہیں:

’’۔۔۔لیکن نظریہ حقیقت کے صرف ایک پہلو پر توجہ مرکوز کرکے اُسے مخصوص کرلیتا ہے۔ اختصاص بڑے کام کی چیز ہے لیکن اس کا دائرئہ عمل محدود ہوتاہے۔‘‘                                  (وجدان،1979،ص25)

اسی طرح عتیق اللہ نے بھی نظریہ سازوں اور نظریہ سازی سے متعلق اپنے کئی مضامین میں بحث کی۔ انھوں نے متن اور قاری کی کشمکش، مابعدجدیدتصورنقد:ردتشکیل، وہاب اشرفی کا کرئہ نقد، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، تنقید در تنقید:درباب فاروقی، حامدی کاشمیری کی تنقیدی تھیوری، ثانیثیت ایک تنقیدی تھیوری اور دوسرے کئی مضامین میں نظریوں کی بنیادی ضرورت، ادب اور نظریے کی تفہیم پر روشنی ڈالی ہے۔

سچی بات تویہ ہے کہ فن پارہ کے بطن میں جو بھی معانی ہیں ان تک رسائی حاصل کرنے میں اگرنظریات تنقید میں معاون ہوں تو مناسب ہے ورنہ نقادوں کو نظریوں کوToolsبنانے میں محتاط رہنا چاہیے۔

(سہ ماہی ’مباحثہ‘، پٹنہ، جلد8، شمارہ30، 2008)

 

 

 

نوٹ: مضمون نگار شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ہیں ۔

 

 

ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com  پر بھیجنے کی زحمت کریں۔

 

ادبی میراثتنقیدشمس الرحمن فاروقینظریاتی تنقید
2 comments
0
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail
adbimiras

پچھلی پوسٹ
مکان :ٹوٹنے کے بعد کی کہانی – پروفیسر غضنفر علی
اگلی پوسٹ
گلیشیئر ٹوٹ رہے تھے اورمیں خواب کی زمین پر چل رہا تھا- مشرف عالم ذوقی

یہ بھی پڑھیں

دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –...

جولائی 10, 2025

جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

جون 20, 2025

شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

دسمبر 5, 2024

کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –...

نومبر 19, 2024

کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر...

نومبر 17, 2024

کوثرمظہری کا زاویۂ تنقید – محمد اکرام

نومبر 3, 2024

علامت کی پہچان – شمس الرحمن فاروقی

مئی 27, 2024

رولاں بارتھ،غالب  اور شمس الرحمان فاروقی – ڈاکٹر...

فروری 25, 2024

مابعد جدیدیت، اردو کے تناظر میں – پروفیسر...

نومبر 19, 2023

اقبالیاتی تنقید کے رجحانات – عمیر یاسر شاہین

نومبر 4, 2023

2 comments

- Adbi Miras اکتوبر 25, 2020 - 8:28 شام

[…] تحقیق و تنقید […]

Reply
ادب ،معنی اور معنویت - ڈاکٹر ناصر عباس نیّر - Adbi Miras نومبر 25, 2020 - 10:31 صبح

[…] تحقیق و تنقید […]

Reply

تبصرہ کریں Cancel Reply

اپنا نام، ای میل اور ویبسائٹ اگلے تبصرہ کے لئے اس براؤزر میں محفوظ کریں

زمرہ جات

  • آج کا شعر (59)
  • اداریہ (6)
  • اسلامیات (182)
    • قرآن مجید (آڈیو) (3)
  • اشتہار (2)
  • پسندیدہ شعر (1)
  • تاریخِ تہذیب و ثقافت (12)
  • تحقیق و تنقید (117)
  • تخلیقی ادب (592)
    • افسانچہ (29)
    • افسانہ (200)
    • انشائیہ (18)
    • خاکہ (35)
    • رباعی (1)
    • غزل (141)
    • قصیدہ (3)
    • گلہائے عقیدت (28)
    • مرثیہ (6)
    • نظم (127)
  • تربیت (32)
  • تنقیدات (1,037)
    • ڈرامہ (14)
    • شاعری (531)
      • تجزیے (13)
      • شاعری کے مختلف رنگ (217)
      • غزل شناسی (203)
      • مثنوی کی تفہیم (7)
      • مرثیہ تنقید (7)
      • نظم فہمی (88)
    • صحافت (46)
    • طب (18)
    • فکشن (401)
      • افسانچے (3)
      • افسانہ کی تفہیم (213)
      • فکشن تنقید (13)
      • فکشن کے رنگ (24)
      • ناول شناسی (148)
    • قصیدہ کی تفہیم (15)
  • جامعاتی نصاب (12)
    • پی ڈی ایف (PDF) (6)
      • کتابیں (3)
    • ویڈیو (5)
  • روبرو (انٹرویو) (46)
  • کتاب کی بات (473)
  • گوشہ خواتین و اطفال (97)
    • پکوان (2)
  • متفرقات (2,127)
    • ادب کا مستقبل (112)
    • ادبی میراث کے بارے میں (9)
    • ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف (21)
    • تحفظ مادری زبان (24)
    • تراجم (32)
    • تعلیم (33)
    • خبر نامہ (894)
    • خصوصی مضامین (126)
    • سماجی اور سیاسی مضامین (228)
    • فکر و عمل (119)
    • نوشاد منظر Naushad Manzar (68)
  • مقابلہ جاتی امتحان (1)
  • نصابی مواد (256)
    • ویڈیو تدریس (7)

ہمیں فالو کریں

Facebook

ہمیں فالو کریں

Facebook

Follow Me

Facebook
Speed up your social site in 15 minutes, Free website transfer and script installation
  • Facebook
  • Twitter
  • Instagram
  • Youtube
  • Email
  • سر ورق
  • ہمارے بارے میں
  • ہم سے رابطہ

All Right Reserved. Designed and Developed by The Web Haat


اوپر جائیں