انسان خواہشوں کا پتلا ہے اور اس میں کچھ برائی بھی نہیں۔یہ سچ ہے کہ انسان کے دل کی خواہشیں کبھی کسی مقام آکر نہیں ٹھہرتیں اور یہی اس کی تکالیف کا باعث بھی ہوتی ہیں تو ساتھ ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ یہ خواہشیں زندگی کی گاڑی کو چلاتی ہیں ورنہ یہ متحرک دنیا کے رنگ بدلتے نظارے وقت کے سرد خانے میں پڑے رہتے۔یہ الگ بات ہےکہ ان خواہشات کی نوعیت الگ الگ ہوتی ہیں۔کبھی یہ خواہشیں حد سے تجاوز کر جاتی ہیں اور وبال جان بن جاتی ہیں،پر ایک غریب کی اور کسی چیز تک رسائی ہو نہ ہو خوابوں تک تو رسائی ہوتی ہے اور اسکے کشادہ دل میں ڈھیروں آرزوئیں مچلتی رہتی ہیں۔ہزاروں خواب بے قراری کے عالم میں کروٹیں بدلتے ہیں۔اس لئے غالب کہتے ہیں۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
اردو ادب میں یقیناً غزل کو جو اعتبار اور شہرت حاصل ہے وہ کسی دوسرے صنف کو کم کم ہی حاصل ہوئی اس میں ایک صنف جس نے اردو ادب میں ہئیت،رمزیت،اشاریت،معنویت،علامت کے نئے نئے دریچے وا کئے وہ نظم نگاری ہی ہے۔اردو ادب کی سب سے فعال تحریک ترقی پسند تحریک نے اردو ادب پر وہ اثرات مرتب کئے ہیں جو شائد کسی اور تحریک سے ممکن نہ ہو سکی۔اس تحریک نے اجتماعیت پر ذیادہ زور دیا جو اس وقت مناسب بھی تھی لیکن ادیبوں شاعروں کو کسی مخصوص مکتب فکر کے زیر اثر اپنے فکر کے اظہار کرنے میں دشواریاں پیش آنے لگی لہذا اس کے ردعمل میں جدیدیت کو فروغ حاصل ہوا جس میں انفرادیت کو اولیت حاصل رہی۔میرا جی اس جدیدیت کے علمبرداروں میں سب سے اہم نام ہے۔ میرا جی کے یہاں ایک بغاوتی لہجہ ملتا ہے وہ پنے اس پاس کے مناظر سے دل برداشتہ ہیں۔وہ اس کا مداوا ڈھونڈتے ہیں،اپنے نظرئے سے بکھری چیزوں کو سمیٹنے کی ارادی کوشش کرتے ہیں۔میرا جی کی شاعری اور انکی شخصیت ایک سکے کے دو پہلو ہیں وہ جیسے تھے ویسی ہی شاعری کی۔کسی نظرئے کی پابندی نہیں کی نہ زندگی میں نہ شاعری میں ۔اپنی مرضی کی زندگی پھی کی اور اپنی مرضی کی شاعری بھی۔ان کے یہاں زندگی کا ایک الگ ڈھنگ ملتا ہے،کہیں وہ جنسیات کی طرف بھاگتے دکھائی دیتے ہیں کہیں وہ غیر مساوات کے خلاف علم بلند کرتے نظر آتے ہیں ،بے خوف،نڈر ،بے پرواہ نہ کچھ کھونے کا غم نہ کچھ پانےکی شدید طلب۔حد تو یہ ہے کہ انہوں نے جن موضوعات کو شاعری کا نقطہ فکر بنایا اس پر کبھی نادم بھی نہ ہوئے ظاہر ہے ایسا انہوں نے شعوری طور پر کیا تھا۔زمانے کی روش سے ہٹ کر چلنا ان کا ذاتی شوق تھا وہ زندگی کو اپنی آنکھوں کے مشاہدے کی روشنی میں یش کرتے تھے۔اپنی شاعری کے متعلق ان کا کہنا ہے۔
"اکثریت کی نظمیں الگ ہیں میری نظمیں الگ اور چونکہ زندگی کا اصول ہے کہ دنیا کی ہر بات ہر شخص کےلئے نہیں ہوتی اس لئے یوں سمجھئے کہ میری نظمیں بھی صرف انہی لوگوں لیے ہیں جو انہیں سمجھنے کے اہل ہوں یا سمجھنا چاہتے ہوں اور اس کےلئے کوشش کرتے ہوں۔”
میرا جی کے یہاں جو روایت شکنی ملتی ہے وہ یہ کہ عام لوگ جس بات کو کہنے میں عار محسوس کرتے ہیں میرا جی اس کو اپنے ساتھ جوڑ کر کہتے ہیں یہ جنونی کیفیت ان کی نظموں میں موسیقیت تو نہیں بھرتی مگر ان کو اپنے خیال کے بیان میں تقویت ضرور بھر دیتی ہے۔میرا جی کی نظمیں اسلوب و آہنگ کی بنا پر اپنی منفرد شناخت رکھتی ہیں۔ان کی بیشتر نظموں میں موضوعات کی کمی کھٹکتی ہے پر ان کا تیور اور ان کا بغاوتی نقطہ نظر ان کو انفرادیت عطا کرتا ہے۔میرا جی کی نظموں میں ابہام پایا جاتا ہے اور علامتیں اتنی مشکل ہوتی ہیں کہ شاعر کے نقطہ فکر،مقصد تخلیق کو سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے مگر وزیر آغا میراجی کی شاعری کو سراہتے ہویے کہتے ہیں۔
"میراجی کی یہاں ابہام حض نئی علامتوں کے استعمال کی حد تک ہے۔اگر ان علامتوں کو سمجھ لیا جائے اور پس منظر کا بھی احاطہ کر لیا جائے جو میراجی کا ہےتو یہ نظمیں بڑی حد تک واضح ہوجاتی ہیں۔”
میراجی کی شاعری اردو شاعری میں انفرادیت رکھتی ہے اور اس لحاظ سے بھی ان کا قد دوسرے جدید شعراء میں نمایاں ہے۔میراجی کی نظم "کلرک کا نغمۂ محبت”بھی ایک احتجاجی نظم ہے سماج کے غیر مساوی تقسیم زر اور تقسیم زندگی کے خلاف۔
سب کی زندگی یکساں نہیں ہے کسی کسی کو زندگی تحفے کے طور پر ملتی ہے تو کوئی پل پل زندگی کے ٹکڑے بٹورتا پھرتا ہے۔
شاعر بحیثیت ایک کلرک خود کو پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اسکی پوری رات خواب دیکھتے گزرتی ہے اور صبح وہ اٹھتے ہی آدھی بچی ڈبل روٹی کھا لیتا ہے۔ باقی بچی ڈبل روٹی کا کھانا، اس کی غربت کو دکھاتا ہے۔شاعر کی جب نظر اس کے پڑوس میں گھومتی ہے تو وہ اپنی حالت کا موازنہ ان لوگوں سے کرتا ہے جو اس جیسے ہوتے ہوئے بھی بڑے خوش قسمت واقع ہوئے ہیں۔اس کے سامنے رہنے والےکے گھر میں ایک گھر والی ہے،دائیں طرف ایک خالی مکان ہے بائیں جانب ایک عیاش ایک داشتہ کے ساتھ جی رہا ہے۔شاعر کف افسوس ملتا ہے کہ اسے یہ عیش و عشرت نصیب نہیں وہ دفتر کی راہ لیتا ہے۔شاعر چونکہ ایک معمولی کلرک ہے اس لئے اسے دفتر پیدل جانا ہوتا ہے جبکہ شہر کی سڑکوں پر کاریں دوڑتی ہیں۔تانگے چل رہے ہیں۔شاعر کو یہ احساس ہے کہ یہ کرامات سب دولت کی ہیں۔اس جیسے مغموم بھی ہیں جو پیدل چلتے ہیں۔وہ سوچتا ہے کہ قدرت کے دل میں ترحیم ہے سوائے اس کے محبوب کے ہر چیز موجود ہے وہ اس کم نصیبی پر دو آنسوں بھی نہیں بہا سکتا کیونکہ وہ اتنا شکستہ ہو گیا ہے کہ رونے کی بھی ہمت نہیں ۔ان سب باتوں کو سوچتا ہوا وہ دفتر کو آتا ہے اور اپنے من کو کام میں لگانے کی سعی کرتا ہے اور دل کو سمجھانے میں وہ کامیاب ہو جاتا ہے کیونکہ دل شاعر کے مطابق ایک مورکھ بچہ ہے وہ دن بھر کام کرتا رہتا ہے آدھا دن ڈھلنے پر افسر آتا ہےاور اسے چپراسی کے ذریعہ بلوا تا ہے اور دس طرح کے احکامات دے دیتا ہے۔ شاعر کو اس افسر کا دیر سے آنا بہت کھٹکتا ہے جب کہ وہ وقت پر دفتر میں حاضر ہوجا تا ہے،یہاں زندگی کی کشمکش عیاں ہے۔شاعر کا افسر سے موزانہ بحیثیت انسان غلط نہیں وہ بھی انسان ہے، یہ وقت کی ستم ظریفی اس کی سمجھ میں تو آتی ہے پر گلے کے نیچے نہیں اترتی ۔شاعر افسر کے احکام سےتھک جاتا ہے اور اس کے دل میں پھر یہ خیال آتا ہے کہ اگر وہ بھی ایک افسر ہوتا تو اس کی حالت اتنی غیر نہ ہوتی اس پر کوئی رعب نہ دکھاتا اور وہ بھی شان و شوکت کی زندگی جیتا۔اس کا بھی شہر کی گندگی اور شور شرابے سے دور ایک آشیانہ ہوتا مگر ایسا ممکن نہیں۔شاعر تو ایک منشی ہے اور اس کی محبوبہ ایک اونچے گھر کی رانی ہے۔شاعر ہر انجام سے بے نیاز ہوکر اس کا اعتراف کرتا ہے کہ یہ اس کی پریم کہانی ہے اور اس کی محبت کی کہانی دھرتی سے بھی پرانی ہے۔ نظم کا یہ بند ملاحظہ فرمائیں ۔
جب آدھا دن ڈھل جاتا ہے تو گھر سے افسر آتا ہے
اور اپنے کمرے میں مجھ کو چپراسی سے بلواتا ہے
یوں کہتا ہے ووں کہتا ہے لیکن بے کار ہی رہتا ہے
میں اس کی ایسی باتوں سے تھک جاتا ہوں تھک جاتا ہوں
پل بھر کے لیے اپنے کمرے کو فائل لینے آتا ہوں
اور دل میں آگ سلگتی ہے میں بھی جو کوئی افسر ہوتا
اس شہر کی دھول اور گلیوں سے کچھ دور مرا پھر گھر ہوتا
اور تو ہوتی
لیکن میں تو اک منشی ہوں تو اونچے گھر کی رانی ہے
یہ میری پریم کہانی ہے اور دھرتی سے بھی پرانی ہے
اس نظم میں کرب کا نیا انداز نہیں ہے لیکن اظہار کی بے باکی،نیا اسلوب متاثر کرتا ہے۔یہاں شاعر کا نظریہ احتراز بالکل واضح ہے۔ثناء اللہ ڈار نے دل کے ڈر کو ڈرایا ہے اور اپنی کیفیت کا اظہار کھلے لفظوں میں کیا ہے بغیر اسکی پرواہ کئے کہ کون پسند کرے کون نا پسند۔میرا جی کی ذاتی زندگی جیسی بھی رہی ہو بطور شاعر اپنی انفرادیت اور اپنا مقام انہوں نے اپنے دم پر بنایا ہے۔اس نظم کا خاتمہ شاعر کے اس حقیقی احساس کے ساتھ ہوتا ہے کہ انکی محبت دولت کی دیوار نہیں گرا سکتی ان کا یہ اعتراف کہ وہ کوئی افسر بھی نہیں،شہر سے دور ان کا اپنا کوئی گھر بھی نہیں اور ان کا محبوب بھی ان کے ساتھ نہیں کیونکہ وہ ایک معمولی کلرک ہیں یہ اعتراف ان کی حقیقت پسندی کو دیکھاتا ہے اور وہ اس حقیقت کو بہ خوشی قبول بھی کرتے ہیں۔
میراجی کی شاعری میں شاعری کی اعلیٰ درجے کی صفات پائی جاتی ہوں یا نہیں مگر ان کی شاعری میں انفرادیت کا دبدبہ ہے۔
نظم کا بیانیہ لہجہ نغمگی سے عاری ہے پر کیفیت سے پر ہے۔ایسا نہیں کہ ایسی صورتحال صرف ان کے عہد میں تھی بلکہ غریبی ہر عہد میں ماتم کناں رہتی ہے۔دنیا کے تمام رنگ اور نور غالباً دولت کے انبار کے نیچے دبے ہوتے ہیں۔ولی نے کیا خوب کہا ہے۔
مفلسی سب بہار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے
نسیم اشک
ہولڈنگ نمبر10/9گلی نمبر3
جگتدل 24 پرگنہ مغربی بنگال
فون۔9339966398
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page
1 comment
ماشاء اللہ ۔۔۔۔۔بہت عمدہ مضمون۔۔۔۔بہت خوصورت انداز ۔