صوبۂ بہار قدیم زمانہ میں شعر و سخن کا اہم ترین مرکز رہ چکاہے اور اب تک اس نے اپنی قدیم عظمت کو قائم رکھا ہے۔ اس خطے میں شعر و سخن نے جن اسباب سے ترقی کی ان میں ایک بڑا سبب یہ ہے کہ یہ صوبہ ہمیشہ سے تصوف کا گہوارہ رہا ہے۔ یہ مسلم حقیقت ہے کہ تصوف کا ذوق اکثر شعر و شاعری کی قالب میں ظاہر ہوتا ہے۔بہار میں اردو کی صوفیانہ شاعری کے مصنف محمد طیّب ابدالی لکھتے ہیں کہ:
"شمالی ہند میں صوبہ بہار کی بھی خاص اہمیت ہے۔یہاں کے صوفیائے کرام نے بھی اردو زبان وادب کی آبیاری میں ابتدا ہی سے حصہ لیا ہے۔چنانچہ صوبہ بہار کے عظیم عظیم المرتبت صوفی بزرگ حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین یحیٰ منیری ؒ کے مقولے، دوہے، کنج مندرے،فالنامے وغیرہ مشہور ہیں اور اس میں تصوف کے نکات بھی ہیں۔ آپ کے ملفوظ "معد المانی” میں وہ جوابی ٹکڑا "دیس بھلا پردور” ایک مرید کے مقولے "باٹ بھلی پر سانکری دیس بھلا پردور” یعنی راستہ(راہ سلوک) تو اچھا ہے لیکن تنگ(دشوار گزار) دوسرے فقرے کا مفہوم یہ ہے کہ دیس(منزل مقصود) بہتر تو ہے لیکن بہت دور ہے۔ اس کے علاوہ فالنامے مخدوم جہاں مخطوطہ 1097ھ میں بھی تصوف کے نکات ملتے ہیں۔آپ کے مرید و جانشیں حضرت مولانا مظفر بلخی ؒ (متوفی 803ھ) کے مکاتیب میں بھی مختلف دوہے ملتے ہیں۔
حضرت مخدوم جہاں کے خالہ زاد بھائی حضرت مخدوم احمد چرم پوش ؒ (متوفی 776ھ) سلسلہ سہروردیہ کے مشہور بزرگ ہیں۔آپ فارسی کے صوفی شاعر بھی تھے۔”
(بہار میں اردو کی صوفیانہ شاعری، ص: 96/ باراوّل 1988ء طابع: اسرار کریمی پریس الہ آباد)
اس صوفیانہ ذوق کا نہایت عمدہ نتیجہ یہ نکلا کہ بہار کے علماء و مشائخ نے شاعری کی طرف توجہ کی. مضطر مظفرپوری اس کی بہترین مثال ہیں۔ مضطر مظفرپوری کے تاریخی پس منظر اور ابتدائی حالات زندگی کو بیان کرتے ہوئے تاریخ ادب اردو کے مصنف وہاب اشرفی لکھتے ہیں کہ:
سید عبد المجید نام۔ مضطر تخلص۔ مولود مسکن محلّہ چندوارہ، مظفرپور، حضرت سید شاہ عبد العزیز ؒ بن سید شاہ احمد اللہ علیہ الرحمتہ کے فرزند ارجمند۔ یہ بھی حضرت سید شاہ علاء الحق قدس سرہ، پنڈوہ شریف( بنگال ) کی اولاد اور بانی مدرسہ جامع العلوم مظفرپور حضرت حافظ رحمت اللہ احقؔر مظفرپوری کے چچازاد بھائی تھے۔
جناب مضطؔر کی پیدائش اپنے آبائی مکان واقع مظفرپور میں (1881ء) ہوئی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد فارسی وعربی کی تعلیم بھی مکان پر ہی اپنے بزرگوں سے حاصل کی۔ حفظ کلام پاک فرمایا، پھر بنارس تشریف لے گئے اور حافظ جمن صاحب مرحوم کی خدمت میں رہ کر حفظ کلام پاک میں پختگی حاصل کی۔ اس کے بعد 1330ھ/1911ء میں لکھنؤ کے مدرسہ فرقانیہ میں داخل ہوئے۔فن تجوید و قرآت کی مشق کی۔ معقول و منقول کی درسی کتابیں تمام کیں۔ حصول سند و دستار بندی کے بعد مظفرپور لوٹ آئے۔ مدرسہ جامع العلوم مظفرپور میں دینی خدمات انجام دینے لگے۔ ساتھ ساتھ خاندانی سلسلہ رشد وہدایت بھی قائم رکھا۔ اطراف واکناف میں سلسلۂ ارادت پھیلا ہواہے۔ دو بار حج بیت اللہ اور زیارت حرمین شریفین کی سعادت بھی حاصل کر چکے تھے۔ ایک مرتبہ 1337ھ/ 1918ء میں اور دوسری بار 1375ھ/ 1950ء میں مشرف ہوئے۔
حضرت مضطر نے دو تین دنوں کی قلیل علالت کے بعد 1375ھ/ 1950ء میں انتقال فرمایا اور یہ مشکوۃ ادب ہمیشہ کےلئے گل ہوگیا۔
(تاریخ ادب اردو، ص:2139/ جلد چہارم، سنہ اشاعت اوّل:2017 مطبع:روشان پرنٹرس دہلی۔6)
بیسویں صدی سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ نظموں کے ساتھ غزل بھی کئی فکری سانچے میں ڈھل رہی تھی۔اس دور کے شعراء زندگی کے مسائل کو صوفیانہ شاعری، فلسفہ، منطق، تاریخ اور سماجی سائنس کی روشنی میں اپنے مافی ضمیر کو ادا کرتے تھے۔ انہیں میں سے ایک مضطر مظفرپوری تھے۔ بقول مولانا عبدالسلام ندوی:
صوفی مشرب عالم جس کی تمام زندگی حفظ قرآن، مشق فن تجوید و قرآت تحصیل علوم عربیہ اور خدمات دینیہ میں گزری ایک صاحب دیوان شاعر کی صورت میں نمایاں ہوا۔جو بظاہر اگر چہ کسی قدر تعجب انگیز ہو لیکن درحقیقت تعجب انگیز نہیں کیوں کہ ان کے بڑے بھائی جناب مولانا حافظ شاہ رحمت اللہ احقؔر مظفرپوری شعر و شاعری کا نہایت عمدہ ذوق رکھتے تھے اور داغ کے شاگرد تھے۔ ان کا یہ شعر دیکھیں
کہتے ہیں کیا رو رہے ہو دل گیا
ہم جو تم سے مل گئے سب مل گیا
(احقؔر مظفرپوری )
ان کی صحبت میں دن رات شعر و شاعری کا چرچا رہتا تھا۔ اور شب و روز بزم سخن گرم رہتی تھی، اس لئے قدرتی طور پر ان کے دل میں بھی شعر و شاعری کا ذوق پیدا ہوا،اور 1315ھ میں مخفی طور پر ایک غزل لکھی لیکن رفتہ رفتہ رفتہ راز کھل گیا۔ اور مولانا حافظ شاہ رحمت اللہ مرحوم نے غزل دیکھ کر اصلاح کردی، اس حوصلہ افزائی کے بعد برسوں اسی طرح غزل لکھتے اور اپنے بھائی سے اصلاح لیتے رہے۔
(دیوان مضطر موسم بہ ریاض فردوس 1361ھ ص:3/ مطبوعہ معارف پریس اعظم گڑھ، یوپی )
آپ کو بچپن ہی سے شعروسخن کا شوق تھا انہوں نے جب آنکھ کھولی تو گھر میں شعر و سخن کا ماحول پایا آپ کی ابتدائی غزل گوئی کا ذکر کرتے ہوئے دیوان مضطر کی تقریظ میں داغ دہلوی کے شاگرد ریاض حسن خاں خیال رئیس مظفرپور لکھتے ہیں کہ:
شعر و سخن کا ذوق صغر سن کے زمانے سےتھا۔چنانچہ خود ایک مقطع میں فرماتے ہیں
نہیں مضطؔر نئی یہ بیماری
ہے لڑکپن سے شاعری کا مرض
اوّل اوّل جو قاری صاحب( مضطر مظفرپوری)سے میری ملاقات ہوئی اس وقت قاری صاحب کی عمر گیارہ بارہ سال کی تھی۔ پہلی ہی ملاقات میں معلوم ہوا کہ یہ شعر کہتے ہیں۔اصرار پر انہوں نے چند اشعار پڑھیں
تیغ ابرو دیکھا بؔرتر کو
بے چھری وہ حلال کر بیٹھے
اس عمر میں ایسا صاف شعر کہنا ان کے فطری ذوق سلیم کی بیّن دلیل ہے۔پہلے بؔرتر تخلص تھا۔ جو بعد کو مضطر ہوگیا۔جب اکتساب تجوید و قرآت اور تحصیل علوم کے لیے لکھنؤ تشریف لےگئے تو وہاں شاعری کا جوش اور بڑھا،جناب آرزو لکھنوی سے تلمذ اختیار کیا۔اور ایک عرصہ تک انہی کے صالح مشوروں سے استفادہ کرتے رہے۔
(ایضا )
شاعرانہ مناسبتوں کی پابندی:
مضطر مظفرپوری ایک ممتاز عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صاحب طرز ادیب شاعر بھی تھے۔ان کے ہم عصر شعراء ان کے اشعار کو قدر کی نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ ان کے کلام میں لسانی شگفتگی کے ساتھ گہری معنویت پائی جاتی ہے۔ مضطر کے کلام میں ندرت ہے، ان کے اشعار میں سادگی ہے، انہیں قدیم رنگ سے والہانہ محبت تھی۔ اس رنگ میں سیدھے سادے اشعار کہنا اور وہ بھی بھرپور انداز سے کہنا ان کی خصوصیت تھی۔ انہوں نے غزل کے علاوہ کئی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن اردو شاعری کی روح صنف غزل کو اپنے لئے مخصوص فرمایا۔ دیوان مضطر کے مقدمہ میں مولانا عبد السلام ندوی رقمطراز ہیں کہ:
وہ قدیم رنگ میں کہنے والے تھے،کیوں کہ ان کی شاعری کی ابتداء جس زمانہ میں ہوئی، اس میں جدید رنگ پیدا نہیں ہواتھا۔اس کے ساتھ ان کی صحبتیں جن شعراء سے رہیں،وہ سب کے سب قدیم رنگ میں کہنے والے تھے۔ لیکن با ینہمہ ان کے کلام میں قدیم لکھنوی رنگ کے وہ معائب نہیں پائے جاتے جو ناسخ اور متبعین ناسخ کے کلام میں موجود ہیں، کیوں کہ اولا تو انہوں نے اپنے بھائی سے اصلاح لی تھی جو داغ کے شاگرد تھے۔ دوسرے مولانا احسن مرحوم اور حفیظ جنوپوری کی صحبتیں ان کو میسر آئیں۔ اور یہ دونوں داغ کے رنگ میں کہتے تھے،تیسرے انہوں نے چند غزلوں کی اصلاح جلال کے مشہور شاگرد سید انور حسین آرزو لکھنوی سے لی اور یہ وہ خاندان ہے جس نے لکھنؤ کی قدیم شاعری کی تجدید و اصلاح کی ہے،اس لئے قدرتی طور پر ان کا کلام لکھنؤ کے متبزل رنگ سے متاثر نہیں ہوا۔ان کے کلام میں غزل کے تمام اصول و قواعد، زبان و محاروہ اور شاعرانہ مناسبتوں کی پابندی پائی جاتی ہے۔
(ایضا)
درج ذیل اشعار دیکھیں
دل کے بہلانے کو فرقت میں اٹھائی جو کتاب
وائے تقدیر کہ وہ درد کا دیواں نکلا
جان کہ شیشۂ دل ہم نے اٹھایا تو مگر
کسی بد عہد کا ٹوٹا ہوا پیماں نکلا
پوچھتے ہو رنگ و بو کا کیف دیوانے سے کیا
غنچۂ و گل کی مہک آئے گی ویرانے سے کیا
_________________________
آپ اور جور و جفاء، بالکل غلط
لب پہ بھولے سے شکایت آگئی
قہر ہے مضطؔر سے ان کا پوچھنا
سچ کہو کس پر طبیعت آگئی
غزل گو شاعر کی کائنات جتنی وسیع اور پر ثروت ہوگی،اس میں جتنی متنوع کیفیات سمائی ہوں گی اتنی ہی معنویتوں کا اس کے یہاں پتہ چلے گے۔ غزل گو شاعر کی درج بالا فنی خصوصیات کو سامنے رکھ کر مضطر مظفرپوری کے زیر نظر اشعار پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا کلام ظاہری اور معنوی خوبیوں سے آراستہ و پیراستہ ہے۔پیچیدہ ترکیبوں سے مبرّا اغلاق سے پاک و صاف اور جذبات سے مملو ہے،طرز ادا سادہ اور باوجود سادگی کے دلکش و دل آویز ہے۔
مضطؔر کی شاعری سید سلیمان ندوی کی نظروں میں
فکر و معنی، ترکیبات و تعبیرات ہیت و ساخت، فنی تحفظات و تنوعات جس زاویہ سے بھی دیکھا جائے ان کا کلام بیسویں صدی کے بلند پایہ شعراء کے درمیان ایک انفرادیت اور معنویت رکھتاہے۔ مضطر مظفرپوری کی شاعرانہ عظمت اور ان سے اپنے دیرینہ مراسم کا ذکر کرتے ہوئے سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ:
میری جوانی کا آغاز تھا اپنی تعلیم کے آخری سال میں تھا 1905ھ میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے طالب علموں کی امدادی انجمن معین الندوہ کی طرف سے طالب علموں کے وفد ملک کے مختلف گوشوں میں دورے کو نکلے تھے۔ان میں سے ایک وفد صوبہ بہار بھی گیا تھا۔ اس بہاری وفد میں بہار ہی کے چند طالب علم شریک تھے۔ جس میں سے ایک میں اور ایک حکیم مولوی رکن الدین صاحب دانا سہسرامی تھے۔ اس وفد کے دائرہ میں مظفرپور بھی تھا، اس شہر میں علمی و مذہبی اثر کے لحاظ سے مولانا رحمت اللہ صاحب مرحوم(احقر مظفرپوری) ممتاز حیثیت رکھتے تھے، ندوہ اور دارالعلوم کے ہمدردوں میں بھی تھے۔ اسلئے انہی کے فضیلت کدہ پر قیام ہوا۔ اس حسن اتفاق سے ان حضرات مضطر سے جو اس زمانے میں میری ہی طرح نوجوان تھے۔ ملاقات کا اتفاق ہوا، ہمسنی اور عربی تعلیم کی ہم پیشگی کے سبب سے بہت جلد ان سے بے تکلفی ہوگئی اور اس بے تکلفی کا مظاہرہ شعر و سخن کے مشاعرہ سے ہوا، انہوں نے اپنی کئی غزلیں سنائیں اور سب ہی اپنی اپنی جگہ پر اچھی اور تعریف کے قابل تھیں،مگر بقول امیر مینائی مرحوم
وہی رہ جاتے ہیں زبانوں پر
شعر جو انتخاب ہوتے ہیں
انہوں نے پٹنہ کے ایک مشاعرہ کی طرح سنائی
پر جھاڑتے ہیں مرغ سحر بولتے نہیں
اس مصرع پر جو مصرع انہوں نے لگایا تھا۔ وہ سنا تو طبیعت پھڑک گئی۔اور جی بھر کر ان کو داددی اور وہ اب تک یاد ہے
باقی ابھی ہے رات نہ گھبرائیے حضور
پر جھاڑتے ہیں مرغ سحر بولتے نہیں
اس واقعہ پر سالہا سال گزر گئے، واقعہ کو بھول گیا، شاعر کو بھول گیا مگر یہ شعر حافظہ کے خزانے میں ہمیشہ محفوظ رہا۔
(ایضا)
دیوان مضطر موسم بہ ریاض فردوس
مضطر مظفرپوری ایک انسانیت دوست اور صاحب نسبت بزرگ تھے۔ وہ ایک صاحب قلم اور علم دوست شاعر تھے۔ آپ ایک صاحب دیوان شاعر تھے۔ وہاب اشرفی لکھتے ہیں کہ:
دیوان مضطر موسم بہ ‘ریاض فردوس’ 160 صفحات پر مشتمل ان کی حیات ہی میں معارف پریس اعظم گڑھ میں باہتمام حضرت مولانا مسعود عالم ندوی 1362ھ/1943ء میں زیور طباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پہ آچکا ہے۔ جس میں تعارف حضرت مولانا سید سلیمان ندوی نے اور مقدمہ مولانا عبدالسلام ندوی نے لکھا ہے اور تقریظوں میں ایک جناب سید ریاض حسن خاں خیال مظفرپوری اور دوسری حضرت علامہ ریاض علی وحشت کلکتوی کی ہے۔
(تاریخ ادب اردو، ص:2140/ جلد چہارم، سنہ اشاعت اوّل 2017 مطبع:روشان پرنٹرس دہلی)
ان کے کلام میں بے پناہ تخلیقی و فور اور کیفیت تحیر ہے۔ مضطر مظفرپوری کو زبان پر بہت قدرت حاصل تھی۔ وہ زبان کی صحت کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ اور اپنی بات کو زیادہ سے زیادہ قابل فہم بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔بقول حقانی القاسمی:
مضطر مظفر پوری کے اشعار میں کیسی کیسی موجیں ہیں کہ حیرتوں کے دروا ہو جاتے ہیں۔ ایسی ایسی ندرتیں اورایسی جدت طرازیاں کہ گویا کلاسیکی شاعری کا باب کھل گیا ہو
(ماہنامہ بزم سہارا اکتوبر، 2011،ص: 74)
چند اشعار بطور مثال ملاحظہ فرمائیں
پوچھا کہ پائوں کیوں نہیں پڑتے زمین پر
بولی صبا کہ آتے ہیں ان کی گلی سے ہم
اف نگاہِ نیم بسمل کا اثر
دور تک روتا ہوا قاتل گیا
سر بھی قاتل کا دل بھی قاتل کا
ہائے کوئی نہیں ہے بسمل کا
مٹی نصیب ہو نہ سکی کوئے یار کی
آخر اٹھا دیے گئے ان کی گلی سے ہم
اٹھ گیا قیس اٹھ گئی لیلیٰ
پردہ اب تک اٹھا نہ محمل کا
تڑپ رہی ہے جو ابر سیاہ میں بجلی
فراق میں یہی نقشہ تھا ہو بہ ہو میرا
شعر و سخن کی آبیاری
اردو زبان و ادب کے فروغ میں مظفرپور کا نمایاں کردار رہا ہے۔ یہاں اردو ادب شعر و سخن کی پرورش و پرداخت میں بلکہ اردو کی بقاء اور اس کی لطافت و پاکیزگی، شیرنی و چاشنی، دلکشی و جاذبیت سحر انگیزی و نزاکت میں بھی انہوں نے ایک جہت عطاء کی۔ جن کی قادر الکلامی کی وددیعت نسلا بعد نسل مظفرپور کے شعراء کےلئے باعث تحریک ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک چشمہ فیض تھے۔ کتنے تشنگان ادب اس چشمہ آب بقا سے حیات دوام حاصل کر گئے۔ مظفرپور میں اردو ادب کی آبیاری کےلئے انہوں نے بزم سخن کی بنیاد ڈالی، ان کی فکری ہیت اور تخیلاتی نہج کی بلند پروازی سے کئی تلامذہ نے دنیائے شعر و سخن میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ انہیں میں سے ایک حافظ عبد العزیز خوشتر ان کے جانشین تھے۔بقول وہاب اشرفی:
اپنی ذات میں وہ بذات خود ایک انجمن تھے۔ مظفرپور میں’ بزم سخن’ کا قیام اور اس کی دیرینہ سرپرستی اس کی شہادت کےلئے کافی ہے۔
(تاریخ ادب اردو، ص:2140/ جلد چہارم،سنہ اشاعت اوّل 2017 مطبع: روشان پرنٹرس دہلی)
مختصر یہ کہ مضطؔر مظفرپوری کی غزلیں فکر وفلسفہ ،پیغامِ ہدایت،گہری بصیرت،درسِ اخوت اور نکتہ ہائے دقیق ہی کی حامل نہیں بلکہ ان کی غزلوں میں وہ تمام فنی نزاکتیں ، شعری حسن لطافت وپاکیزگی اور زیبائی ورعنائی بھی ہے جو اعلیٰ درجے کی شاعری کے اجزائے لازمہ سمجھے جاتے ہیں۔حسن فطرت کی مصوری کے اعتبار سے بھی مضطؔر کی غزلیں بے مثال اور انتہائی حسین ہیں۔انہوں نے تہذیبی اور روایتی اقدار کے ساتھ ساتھ تحقیقی اور لسانی سطح پر قابل فخر اور قابل تقلید بڑا ادبی سرمایا چھوڑاہے۔ مظفرپور کی ادبی تاریخ ان کے ذکر کےبغیر ادھوری رہے گی۔
اسلم رحمانی
بی اے اردو آنرس، نتیشور کالج، مظفرپور، بہار
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page