Adbi Miras
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

      کتاب کی بات

      ظ ایک شخص تھا – ڈاکٹر نسیم احمد…

      جنوری 23, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تراجم

      مکتی/ منو بھنڈاری – ترجمہ: ڈاکٹرفیضان حسن ضیائی

      جنوری 21, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خبر نامہ

      مارچ 15, 2025

      خبر نامہ

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

      خصوصی مضامین

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      متفرقات

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
مقبول ترین
تدوین متن کا معروضی جائزہ – نثار علی...
ترجمہ کا فن :اہمیت اور مسائل – سیدہ...
تحقیق: معنی و مفہوم ۔ شاذیہ بتول
سر سید کی  ادبی خدمات – ڈاکٹر احمد...
حالیؔ کی حالات زندگی اور ان کی خدمات...
ثقافت اور اس کے تشکیلی عناصر – نثار...
تحقیق کیا ہے؟ – صائمہ پروین
منٹو کی افسانہ نگاری- ڈاکٹر نوشاد عالم
منیرؔنیازی کی شاعری کے بنیادی فکری وفنی مباحث...
آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری (سلور کنگ...
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

      کتاب کی بات

      ظ ایک شخص تھا – ڈاکٹر نسیم احمد…

      جنوری 23, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تراجم

      مکتی/ منو بھنڈاری – ترجمہ: ڈاکٹرفیضان حسن ضیائی

      جنوری 21, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خبر نامہ

      مارچ 15, 2025

      خبر نامہ

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

      خصوصی مضامین

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      متفرقات

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
Adbi Miras
تحقیق و تنقیدنصابی مواد

محمد حسن کا مضمون ’سچی جدیدیت، نئی ترقی پسندی‘  بازدید- پروفیسر کوثر مظہری

by adbimiras ستمبر 26, 2020
by adbimiras ستمبر 26, 2020 1 comment

محمد حسن اردو ادب کا ایک اہم اور معروف نام ہے۔ ایک زمانے میں ان کا یہ مضمون بحث کا موضوع بنا ہوا تھا۔ انھوں نے یہ مضمون 1968 میں تحریر کیا تھا۔ ظاہر ہے اس وقت جدیدیت (سچی یا جھوٹی) ترقی پسند تحریک کی شدّت کو ماند کرچکی تھی۔ ترقی پسند تحریک کی جکڑبندیوں میں شعر و ادب کا عمل تنفس ناہموار ہوگیا تھا۔ نئی پیڑھی کھُلی فضاؤں میں سانس لینے کی دھن میں نئی روشنی اور نئے نظریات لے کر آئی۔ سماجی شعور کو جس قدر فروغ حاصل ہوا تھا اور سماجی سروکار کو جس درجہ مرکزیت حاصل تھی، جدیدیت نے اسے بے دخل کرنا شروع کردیا لیکن یہاں نئے پن اور نئی فضاؤں میں پرواز کرنے کی دھن میں نئی پیڑھی فیشن پرستی کا شکار بھی ہوئی۔ شمس الرحمن فاروقی نے اپنے رسالے ’شب خون‘ کو جدیدیت کو فروغ دینے کے لیے وقف کردیا لیکن اپنی فکر اور تمام تر تخلیقی و تنقیدی صلاحیتوں کو کلاسکی شعر و ادب کی تفہیم میں لگادیا۔ یہ تھی ذہانت و فطانت!

محمد حسن ایک ترقی پسند ادیب ہیں۔ انھوں نے محسوس کیا کہ جس کا نام جدیدیت ہے دراصل وہ ترقی پسندی ہی کی شکل ہے جسے نئی ترقی پسندی سے موسوم کیا جاسکتا ہے۔ وحید اختر نے جدیدیت کو ترقی پسندی کی توسیع قرار دیا تھا۔ محمدحسن 1936 سے قبل کے اردو ادب میں اقبال اور پریم چند کے حقیقت پسندانہ رجحانات کو نظرانداز کردیے جانے کے بعد رومانی جذباتیت کے رنگ کو غالب تصور کرتے ہیں۔ یہاں، ظاہر ہے کہ انسان کے اندر نجی آرزومندی کی تکمیل پیش نظر ہوتی ہے۔ ترقی پسندی کا نتیجہ یہ ہوا کہ:

’’کچھ ہی عرصے بعد ترقی پسندانہ تصورات کے زیراثر کچھ اس کے چلن سے قبل ہی رومانی شاعر اور انشاپرداز رومانی گھن گرج، طرزِبیان کی آراستگی اور شعریت اور انفرادیت کے بھرپور اظہار کو تھوڑا بہت سماجی رنگ بھی دینے لگے یعنی ادیبوں میں جذباتی بغاوت شروع ہوئی۔‘‘

(جدید اردو ادب، 1975، مکتبہ جامعہ دہلی، ص202)

ہر زمانے میں سماجی شعور اور ترقی پسند تصورات کارفرما رہے ہیں۔ محمد حسن نے مذکورہ بالا اقتباس میں رومانی گھن گرج، طرزِبیان کی آراستگی کو سماجی رنگ دیے جانے کی بات کی ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ترقی پسند تصورات کا چلن قائم نہیں ہوا تھا۔ بے چارے شاعر مشرق اقبال بھی اسی لیے ترقی پسندی کی چپیٹ میں آگئے تھے کہ انھوں نے بھی اپنے بالیدہ اور مثبت سماجی شعور کی بنا پر کہہ دیا تھا:

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی

اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

اٹھّو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو

کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو

یا یہ کہ:

گیا دور سرمایہ داری گیا

تماشہ دکھا کر مداری گیا

محمد حسن نے یہاں قاضی عبدالغفار کے ’لیلیٰ کے خطوط‘ کو مثال کے طور پر پیش کیا ہے جس میں بقول محمد حسن وہ رومانی سرمستی اور جوش کو سماجی اصلاح کا رنگ دیتے نظر آتے ہیں۔ جوشؔ مناظر فطرت سے آگے بڑھ کر انقلاب کے زمزمے گانے لگے اور اختر شیرانی جیسا خالص رومانی شاعر بھی تلقین کرنے لگا ’’اٹھ ساقی اٹھ تلوار اٹھا‘‘

میرا ماننا یہ ہے کہ جس دور میں جو تبدیلی رونما ہوتی ہے، اس کے اثرات شاعروں اور ادیبوں پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ پھر یہ کہ آغاز سے اب تک کوئی شاعر یا ادیب ایسا نہیں ہوگا جس کے پاس اس کا اپنا سماجی شعور نہ ہو۔ اگر ایسا نہیں تو پھر وہ سماجی جانور (Social animal) کے بجائے صرف جانور ہوگا۔ ہم ایک دوسرے کے دکھ درد میں شامل اسی سماجی شعور کے سبب ہوتے ہیں۔ جوش نے مناظر فطرت کی عکاسی ترک نہیں کردی تھی۔ ان کا انقلاب، سماجی شعور سے زیادہ ان کے ڈکشن کے گھن گرج کے سبب نظر آتا ہے۔ ’لیلیٰ کے خطوط‘ کے کردار کا تقاضا تھا، بے چارے اختر شیرانی سے غلطی سرزد ہوگئی تھی۔ ’’اُٹھ ساقی اٹھ تلوار اٹھا‘‘۔ ہوسکتا ہے یہ مکالمہ میکدے میں ہوا ہو جس میں کوئی سنجیدگی نہ ہو۔

محمد حسن نے آگے لکھا ہے کہ اس جذباتی بغاوت کے پیچھے جاگیردارانہ نظام کی دقیانوسیت اور فرسودگی کے شکنجوں کو توڑ کر آگے نکل جانے کا جذبہ کارفرما تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ترقی پسند تحریک کے بانی سجاد ظہیر نے کچھ اچھے ذہنوں کو جمع کرلیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس گروہ میں بہت جلد ٹوٹ پھوٹ شروع ہوگئی۔ اس گروہ میں مذہب بیزاری، جنسی آزادی، فحاشی، عریانی کے عناصر بھرگئے۔ لہٰذا اس گروہ کے خلاف فطری طور پر اعتراضات شروع ہوگئے۔ ’انگارے‘ کی ضبطی بھی بقول محمد حسن مذہب کی تضحیک اور فحاشی کی بنا پر عمل میں آئی تھی۔ محمد حسن نے راشد، میراجی، منٹو اور حسن عسکری کے حوالے سے لکھا ہے:

’’ابتدا میں راشد، میراجی، منٹو، حسن عسکری بھی اپنے کو اسی گروہ سے متعلق سمجھتے تھے کیوں کہ وہ ترقی پسندوں کے مثبت نظریوں سے متفق نہ ہوتے ہوئے بھی ان کی بت شکنی، باغیانہ مزاج، جاگیردارانہ دقیانوسیت سے ٹکراؤ اور سماجی تبدیلی کی زبردست خواہش سے ضرور متفق تھے۔ گویا وہ سماجی تبدیلی کے موئد تھے مگر سماجی تبدیلی کی سمت کے بارے میں اختلاف رکھتے تھے۔‘‘  (ص203)

محمد حسن نے چاروں اہم نام لیے ہیں۔ یہ لوگ ترقی پسندوں کے مثبت نظریوں سے متفق نہیں تھے تو پھر کس بات پر متفق تھے؟ بت شکنی، باغیانہ مزاج اور سماجی تبدیلی کی زبردست خواہش سے متفق تھے، تو کیا یہ سب باتیں منفی تھیں؟  جب کوئی آدمی کسی تنظیم یا شخص کے نظریے سے اتفاق کرتا ہے تو کہیں نہ کہیں ذہنی ہم آہنگی اور قدر مشترک کے طور پر کوئی عنصر ضرور موجود ہوتا ہے۔ یہ ایک آفاقی، نفسیاتی اور فطری کلیہ ہے۔ غور کیا جائے تو خود یہ چاروں ادبی شخصیات اپنے طور پر اپنی اپنی تخلیقی کائنات میں باغیانہ مزاج اور رویے کے ساتھ سرگرم عمل تھیں۔ ہوسکتا ہے یہی باغیانہ مزاج ترقی پسندوں اور ان شخصیات کے درمیان ہم آہنگی کا سبب بن گیا ہو۔ دیکھا جائے تو یہ چاروں شاعری، فکشن اور تنقید کے میدان میں شہرت کی بلندیوں تک گئے۔ بے شک سماجی تبدیلیوں کی طرف ان کی نگاہیں تھیں لیکن اس کے لیے یہ لوگ شعری اور فنی صفات کا خون کرنا نہیں چاہتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان چاروں ادبی شخصیات کے نقوش پا اب بھی تابندہ ہیں۔  ترقی پسندوں کی تخلیقات میں جو سطحیت اور خامیاں تھیں انھیں خود محمد حسن نے قبول کیا ہے اور سجاد ظہیر نے بھی لکھا ہے۔ محمد حسن  نے یہ بھی ذکر کیاہے کہ کرشن چندر، مجاز، مخدوم، سردار، جاں نثار اختر اور ساحر کی تخلیقات رومانیت سے ترقی پسندی تک آئی تھیں۔ ان کے لہجے کا رنگ رومانی اور جذباتی تھا۔ ظاہر ہے کہ ایسے میں جذباتیت اور رومانیت سے حقیقت مدھم پڑجاتی ہے۔ محمد حسن نے ترقی پسند گروہ کے سب سے اہم اور معروف و مقبول شاعر فیض کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ توجہ طلب ہے:

’’انتہا یہ ہے کہ خود فیض بھی جو ہمارے ترقی پسند شعرا میں سب سے کامیاب کہے جاسکتے ہیں، خیال اور جذبے کے براہِ راست اظہار میں شعریت پیدا نہیں کرسکے اور خیال کی باطنی (Intrinsic) رعنائی کے بجائے غزل کی امیجری اور عشقیہ رنگ و آہنگ سے سجا بنا کر اپنی باتیں اشعار میں پیش کرتے رہے۔‘‘

(ص204)

ترقی پسند حقائق کی جس برہنہ گفتاری اور راست بیانی پر زور دیتے تھے، فیض اس طرزِ ادا کے موئد نہیں تھے۔ محمدحسن صاحب نے خیال کی جس باطنی (Intrinsic) رعنائی کی بات کی ہے وہ قدرے Undefined ہے۔ یہ ایک مجرد صفت ہے جو کم و بیش کیف و آہنگ سے قریب  ہوجاتی ہے اور ذرا آگے بڑھیے تو یہ کیف و آہنگ یا باطنی رعنائی غزل کی امیجری اور عشقیہ رنگ و آہنگ میں سج سنور کر زیادہ پرکشش اور بامعنی ہوجاتی ہے۔ لہٰذا فیض کی تخلیقی بصیرت نے اپنی فکری اساس اور شعری آہنگ کو جس رنگ و آہنگ اور امیجری کے ساتھ پیش کیا، وہ اردو شاعری میں لائق توجہ بن گئی۔ امیجری کوئی آسان اور چلتی پھرتی شے نہیں کہ اسے ہر شاعر بخوبی نبھا سکے۔

آگے چل کر محمدحسن نے اس مضمون میں ہندوستان کی سیاسی اور معاشی تبدیلی کا ذکر کیا ہے، جس سے ترقی پسندوں کا رشتہ خاصا مضبوط تھا۔ اس تبدیلی کے سبب یہاں کی تہذیبی و معاشی صورتِ حال میں واضح تبدیلی پیدا ہوئی اور بقول محمد حسن بڑے بڑے کارخانے اور بند بنے، زمین داری ختم ہوئی، سرمایہ داری نظام کی نشو و نما ہوئی، پنج سالہ منصوبے بنے، غیرملکی امداد حاصل کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پندرہ سال میں ہندوستان برطانیہ ا مریکہ یورپی ممالک کے مقابلے میں غیرترقی یافتہ ہونے کے باوجود ایشیا میں جاپان کے بعد صنعتی طور پر سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک بن گیا۔ (ص206)

یہ جو نیا نظام اور سماج بنا اس کے منفی پہلو یہ سامنے آئے کہ رشوت خوری، جمع خوری، کینہ پروری، لسانی تعصب اور دوسرے طرح کے کرپشن سامنے آگئے۔ اگر آج کے عہد میں دیکھا جائے تو اُس وقت کے بدلتے ہوئے/ بدلے ہوئے سماج میں جو کرپشن تھا، وہ آج بھی رائج ہے بلکہ اس میں بے حیائی اور نااہلی نے بھی اپنے پنجے گاڑے ہیں۔ معاشرے کے کسی طبقے میں آدرش یا اخلاقی قدریں تقریباً ناپید ہوگئی ہیں۔ محمد حسن نے یہ بھی یاد دلایا ہے کہ شہر کی ترقی اور چکاچوند سے متاثر ہوکر تعلیم اور حصول روزگار کی غرض سے کسانوں کے بچے بھی شہر کی طرف آنے لگے۔ انھوں نے بجاطور پر اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ تقریباً سارے ذرائع ابلاغ و اظہار ریڈیو، ٹی وی، اخبارات، رسائل، مطابع، ادبی جماعتیں، ساہتیہ اکاڈمیاں حکومت یا بڑے سرمایہ داروں کے قبضے میں جاچکے ہیں۔ لہٰذا شاعروں اور ادیبوں کے لیے اظہار رائے کی آزادی تقریباً ختم ہوگئی۔ اگر آج کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج بھی سرمایہ داری کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ خواہ وہ پرنٹ میڈیا ہو، الیکٹرانک میڈیا ہو یا ملٹی نیشنل کمپنیاں۔ آج بھی جو موچی تھا اس کی اولادیں موچی ہی ہیں، جس کے پاس عمارتیں ہیں تو ہیں، جس کے پاس پھوس کا مکان ہے اس کے پاس پھوس ہی ہے۔ آج بھی فٹ پاتھ پر سونے والوں اور سرد راتوں میں ٹھنڈک سے ٹھٹھر کر مرنے والوں کی تعداد کم نہیں۔ بات بات پر قتل اور سیاسی اقتدار کے حصول کے لیے فسادات اور انسانی خون کا کاروبار آج پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ ادیبوں کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ فرق یہ ہوا ہے کہ آج کے دور میں بہت سے شاعر ادیب بھی دنیاداری اور کالابازاری، جمع خوری اور سیاسی چال بازیوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔ وہ بھی خرید و فروخت میں لگ گئے ہیں۔ پتہ  نہیں یہ وقت کا جبر ہے کہ ان کے باطن کی فطری تبدیلی۔ گویا جس دور میں ترقی پسندوں نے جو کچھ محسوس کیا تھا آج صورتِ حال اُس سے کہیں زیادہ بدتر ہے۔ آج بھی طاقت، اقتداراور معیشت انہی لوگوں کی جاگیریں ہیں جن کی طرف محمد حسن صاحب نے اشارہ کیا ہے۔

یہ مضمون 1968 کا لکھا ہوا ہے جب جدیدیت شباب پر تھی۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ترقی پسند تحریک اور اس کے منفی رویوں کے ردعمل میں جدیدیت وقوع پذیر ہوئی تھی۔ دونوں کے دعوے روشن خیالی کے تھے۔ اپنے اپنے زمانے کی گھٹن اور تاریکی سے لوہا لینے کا عزم دونوں میں تھا۔ محمد حسن صاحب نے اس زمانے کی گھٹن اور بڑھی ہوئی بے یقینی، تشکیک اور Cynicism کا ذکر کرتے ہوئے فٹ نوٹ میں سردار جعفری کے حوالے سے لکھا ہے:

’ایک خواب اور‘ کا دیباچہ ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے:

’’خواب اور شکست خواب اس دور کا مقدر ہے‘‘

اور پہلی نظم کا ایک شعر ہے:

دربدر ٹھوکریں کھاتے ہوئے پھرتے ہیں سوال

اور مجرم کی طرح ان سے گریزاں ہے جواب‘‘  (ص210)

اوپر جس گھٹن، بیزاری اور تشکیک کی فضا کاذکر کیا ہے، اُس صورت حال میں کسی عوامی انقلابی تحریک کی غیرموجودگی میں فن کاروں اور دانشوروں میں چار گروہ پیدا ہوگئے۔ یہ بات یہاں سمجھ میں نہیں آئی کہ جس تشکیک اور بیزاری یا Cynicism کا ذکر وہ کررہے تھے وہ ترقی پسندی کے حوالے سے تھا یا جدیدیت کے۔

اگر یہ سب ترقی پسند کے حوالے سے تھا تو پھر یہ تشکیک اور بیزاری تو جدیدیت کی تسبیحات میں سے ہیں اور اگر جدیدیت کے حوالے سے یہ تشکیک اور بیزاری تھی تو فٹ نوٹ میں سردار جعفری کا حوالہ چہ معنی دارد؟ بہرحال!

پہلے گروہ کے بارے میں محمد حسن کا خیال یہ ہے کہ یہ ادیب، اقتدار سے کچھ مشروط یا غیر مشروط سمجھوتہ کرکے حاشیہ نشینوں میں شریک ہوگئے۔ قومیت، وطن دوستی، یک جہتی وغیرہ کو انھوں نے اوڑھ لیا اور مطمئن ہوگئے۔ میرا ماننا ہے کہ یہ گروہ ترقی پسند یا جدیدیت تک ہی محدود نہیں، بلکہ آج بھی ایسے حاشیہ بردار اور چاپلوس شعرا و ادباء موجود ہیں جو ارباب اقتدار سے اپنی تقدیر لکھواتے ہیں۔ یہ مجہول گروہ پہلے بھی مجہول تھا اور آج بھی ہے۔ ایسے لوگ ادب میں بھی محض حاشیے پہ رہ جاتے ہیں۔ دوسرے گروہ کے بارے میں محمد حسن کا خیال ہے کہ ان کے نزدیک ترقی پسندی سماجی تبدیلی کی ایک ایسی مثبت آگہی کا نام تھا جو فرد اور جماعت کے صحت مند استحصال پر مبنی موجودہ نظام کو تبدیل کرنے کی خواہش پیدا کرسکے۔ آگے لکھتے ہیں کہ البتہ انھوں نے اپنے ان خیالات اور جذبات کو مخصوص موضوعات کے سہارے ظاہر کرنے کے بجائے واردات کی شکل میں ذاتی تجربہ بنا کر پیش کیا اور پرانے براہِ راست خطیبانہ طریقے کے بجائے، مختلف تکنیک اور ڈکشن کے تجربے کیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ محمد حسن یہاں نئی ترقی پسندی کی بات کررہے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ اس عہد میں یعنی ۶۰ء کے بعد انفرادی شعور اور واردات کے ذاتی تجربے کی شکل میں پیش کش پر زور دیا جارہا تھا جو جدیدیت کا طریقہ تھا۔ لہٰذا محمد حسن نے اسے نئی ترقی پسندی کہا۔ ساتھ ہی اس مضمون کے عنوان میں اسے سچی جدیدیت سے مشروط بھی کردیا۔ پہلے انھوں نے فیض کے شعری طریقہ کار میں حقیقت کی براہ راست پیش کش کے فقدان کا شکوہ کیا پھر انھوں نے لکھا:

’’یہ بات قابل لحاظ ہے کہ خود ترقی پسند شعرا اور افسانہ نگاروں کا ڈکشن، ان کے موضوعات اور تکنیک کلیتاً یکساں نہیں رہی ہے۔ فیض کا انداز سردار جعفری سے مختلف رہا ہے… یہی فرق کرشن چندر اور بیدی کے افسانوں میں ہے۔ اس کے علاوہ فیض پہلے شاعر ہیں جو اردو میں Transferred Epithet کا استعمال کرکے اثر لکھنوی کے ہدف ملامت بنے۔                 (ص211)

اثر لکھنوی کے ہدف ملامت بننے کے بعد بھی فیض کے شعری وقار پر کوئی حرف نہ آیا۔ برہنہ گفتاری اور راست بیانی کے برخلاف خود محمد حسن نے فیض کی نظم ’دریچے‘، ’ہم کہ تاریک راہوں میں مارے گئے‘ اور’ اے روشنیوں کے شہر‘ میں     نئی امیجری اور تکنیک کے تنوع کی بات کی ہے۔ اسی گروہ میں اخترالایمان کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے بھی خطیبانہ یا راست طرز اظہار میں اپنے تصورِ حیات کوپیش نہیں کیا۔ یہاں ذرا آگے چل کر محمد حسن نے جو نام گنوائے ہیں وہ اس طرح ہیں: جذبی، مجاز، فیض، مخدوم، اخترالایمان، خورشید الاسلام، مجید امجد، عمیق حنفی، وحید اختر، شہاب جعفری، شاذ تمکنت، شہریار، سجاد ظہیر، راشد آذر۔ یہاں نام کی ترتیب Chronological نہیں ہے اور محمد حسن نے یہی ترتیب رکھی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں جدیدیت اور نئی ترقی پسندی کی سرحدیں ہم آمیز ہوتی نظر آتی ہیں۔ اوپر کی فہرست سے اگر بے دردی کے ساتھ کچھ نام نکالنا چاہیں جو ترقی پسند نہیں تو مجید امجد، عمیق حنفی، شہریار، شہاب جعفری، راشد آذر کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ خالص ترقی پسندوں میں جذبی، مجاز، فیض، مخدوم، خورشید الاسلام، سجاد ظہیر کو رکھ سکتے ہیں۔ اخترالایمان، وحید اختر، شاذ تمکنت کے معاملات قدرے مختلف ہیں۔ یہ سب صحت مند زندگی اور روشن مستقبل حیات کے خواہاں ہیں جن کی  پیش کش ان کی شاعری میں نظر آتی ہیں۔ کچھ ترقی پسند تو بعد میں چل کر جدیدیت یا نئے زمانے سے متاثر ہوئے جس کی طرف عمیق حنفی نے اپنے ایک مضمون (شاعر، دسمبر1966) میں اشارہ کیا اور جس کا حوالہ محمد حسن نے اسی مضمون میں دیا بھی ہے:

’’ترقی پسند تحریک اور ترقی پسند ادیبوں کی بغاوت، جدت، ندرت اور تجربات کی تاریخی اہمیت سے انکار کرنا میرے لیے ناممکن ہے۔ فیض، ندیمؔ، سردار جعفری، جاں نثار اختر، مخدوم وغیرہ کی بیشتر نظمیں اور غزلیں نئی شاعری کے ضمن میں آجاتی ہیں اور انھیں پڑھ کر آنکھوں میں نور اور دل میں سرور آجاتا ہے۔

(ص213)

اسی طرح وحید اختر نے جب شہریار کے مجموعہ کلام، اسم اعظم کا دیباچہ تحریر کیا تو جدیدیت اور ترقی پسندی کے   نقطۂ اتصال کی طرف اس طرح اشارہ کیا:

’’جدید شاعروں کو بھی سیاسی اور سماجی مسائل کا شعور ہے لیکن وہ اس شعور کو اپنی ذات سے ہم آہنگ کرکے شاعری میں ظاہر کرتے ہیں۔ اسی لیے اس کی لے بلند نہیں ہوپاتی۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر بہتر زندگی کی آرزو اور اس کو پانے کے لیے حوصلہ، ایسی باتیں کسی بیمار اور شکست خوردہ ذہن کی پیداوار نہیں ہوتا۔‘‘

(ص212)

محمد حسن نے عمیق حنفی کے اور بھی طویل اقتباسات نقل کیے ہیں اور پھر جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ ملاحظہ کیجیے:

’’پوری بحث کا لب لباب یہ ہے کہ جدیدیت مختلف الخیال اور مختلف العقائد شعرا سے عبارت ہے اور کم سے کم ان میں بعض شاعر ایسے ضرور ہیں اور وہ اچھے اور سچے جدید شاعر ہیں جو مشرقی پسند نفس مضمون کو صرف نئے اور مختلف ڈکشن کے ساتھ نظم کرتے ہیں اور منفرد پیرایۂ اظہار اختیار کرتے ہیں۔ پیرایۂ اظہار کے اختلاف کو انداز نظر کا اختلاف قرار دینا صحیح نہیں اور اس اعتبار سے یہ شعرا بے شک نئی ترقی پسندی کا ہراول دستہ کہے جاسکتے ہیں۔‘‘ (ص213)

ایک زمانے میں نئے ادب، جدید ادب، نئی ترقی پسندی کی بحث بہت شدت سے چلی تھی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ترقی پسند تحریک کے خلاف ایک کتاب جناب فرقت کاکوروی نے ’مداوا‘ کے نام سے مرتب کی تھی۔ اکتوبر 1944 کے ’عالمگیر‘ میں مولوی سید اختر علی تلہری نے نئے ادیب اور ادب کی فروگذاشتوں کی گرفت کی۔ ’ترقی پسند ادب‘ کے عنوان سے پروفیسر رشید احمد صدیقی نے بھی آج کل، دلی میں ایک مقالہ سپرد قلم کیا تھا جس کے جواب کے طورپر پروفیسر احتشام حسین نے اُسی رسالے میں ایک مضمون تحریر کیا۔ انھوں نے لکھا:

’’موصوف (رشید احمد صدیقی) فرماتے ہیں کہ نیا ادب جن حالات و حوادث کے ماتحت وجود میں آیا، جن تیلیوں پر اس کا ڈھانچہ قائم ہے جس روپ میں اور جن لوگوں کی معرفت وہ ہم تک پہنچا وہ تمام تر بدیسی ہیں… ترقی پسندی کے فلسفے کا کسی مغربی فلسفے پر مبنی ہونا اس کے بدیسی ہونے کی دلیل نہیں، کیوں کہ علوم سارے انسانوں کی ملک ہیں، اگر وہ ان سے فائدہ اٹھا سکیں… ترقی پسند ادب نہ تو بدیسی ہے، نہ فحاشی اور عریانی کی حمایت کرتا ہے، نہ مذہب سے بیزاری یا خدا کی توہین اس کے مسلک میں شامل ہے۔‘‘

(بحوالہ:  جدید ادب، منظر اور پس منظر، مرتب: جعفر عسکری، ص: 34،35 اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ، 1996)

اس طرح یہ نئے ادب، جدیدیت اور نئی ترقی پسندی کی بحث پرانی ہے۔ پروفیسر احتشام حسین نے فرقت کاکوروی کی مرتب کردہ کتاب کے مضامین کا جواب دیا، مولوی اختر تلہری کا جواب دیا اور پروفیسر رشید احمد صدیقی کے خیالات پر خامہ فرسائی کی۔ محمد حسن نے بھی ظاہر ہے کہ ترقی پسند ادب کے نئے رنگ روپ کو دیکھ کر یا یوں کہہ لیں جدید لب و لہجے کے شعری اور نثری فن پارے کو دیکھ اور پڑھ کر یہ بات محسوس کی کہ جو سچی جدیدیت ہے، دراصل وہ ایک طرح کی نئی ترقی پسندی ہے۔ انھوں نے اس کی توثیق کے لیے وحید اختر اور عمیق حنفی کے خیالات بھی پیش کیے۔

اپنے اس مضمون میں تیسرے گروہ کا ذکر کیا ہے۔ اس میں انھوں نے کسی بھی شاعر یا فکشن نگار کا حوالہ نہیں دیا ہے جب کہ اس سے پہلے جس گروہ کا ذکر کیا تھا اس میں حوالے موجود تھے۔ لکھتے ہیں:

’’ان میں وہ لوگ ملیں گے جن کے سامنے سماجی تبدیلی کی کوئی واضح سمت تو نہیں ہے، مگر سماجی تبدیلی کی زبردست خواہش اور موجودہ صورتِ حال اور اس سے پیدا شدہ گھٹن، تشنج اور مفادپرستی کی اندھی دوڑ سے بے پناہ نفرت کا جذبہ البتہ موجود ہے۔‘‘

——

اسی طرح مشینی اور صنعتی دور کایہ فن کار سرمایہ دارانہ ڈسپلن اور ضابطہ بندی سے اس قدر عاجز آچکا ہوتا ہے کہ سماجی شعور اور مجلسی ذمہ داری ہی سے نہیں، ترسیل اور اظہار تک سے منکر ہوجاتا ہے۔ اپنے اس مقاطعے کو انفرادی آزادی سمجھتا ہے…یہ بھول جاتا ہے کہ اس نظام کی بیماریوں کا علاج انفرادی مقاطعے سے نہیں، اجتماعی انقلاب ہی سے ممکن ہے اور اس کے لیے مزاج نہیں بلکہ بہتر ضابطہ اور بہتر ڈسپلن ضروری ہے اور انفرادیت کی توسیع اور اس کا اجتماعی آہنگ سے ہم آواز ہونا لازمی ہے۔‘‘

(ص: 214،215)

گرچہ محمد حسن نے اس گروہ کے نام نہیں کھولے ہیں، لیکن یہاں Salient features کے طور پر جو نکات پیش کے گئے ہیں اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ جدیدیت کے شاعراور ادیب ان کے مخاطَب ہیں۔ ترسیل اور اظہار کا منکر ہونا یا انفرادی مقاطعے کی بات کرنا، گھٹن اور مزاج کا ذکر کرنا جدیدیت کے بہت ہی مضبوط حوالے ہیں۔ محمد حسن کا خیال ہے کہ موجودہ سماجی انتشار اور نظام اقتدار سے یہ گروہ بھی بیزار اور بدظن ہے۔ اس کے لیے وہ انفرادی مقاطعے کے بجائے اجتماعی انقلاب کو اس کا مداوا تصور کرتے ہیں۔ یہ تو خیر ۱۹۷۰ء کے دَہے کی بات تھی، اگر آج کے تناظر (۲۰۰۰ء کے بعد) میں دیکھا جائے تو ہم جس سائبر اسپیس (Cyber Space) میں جی رہے ہیں، وہاں یہ انفرادیت اور اجتماعیت کا تصور ہی تقریباً ختم ہوگیا ہے۔ آج کمپیوٹر اسکرین بلکہ موبائیل اسکرین پر پوری دنیا انٹر نیٹ کے ذریعہ ایک شخص کے سامنے موجود ہوتی ہے۔ ہر شخص اپنا معاشرہ خود ہی ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں انسانی قدروں کی پامالی جس قدر ہورہی ہے، اس پر گفتگو کرنا بھی بے سود معلوم ہوتا ہے۔ یہ زوال آمادہ سائبر اسپیس اپنی تمام تر تابانیوں اور رونقوں کے ساتھ بڑی تیز رفتاری کے ساتھ کہیں قعر ضلالت (Black hole) کی طرف چلی جارہی ہے۔ ایسے میں نئی ترقی پسندی یا جدیدیت کی بحث بھی کھوسٹ بڑھیا کے جھریوں بھرے چہرے کی طرح ہے، جہاں صرف ماضی کی شکن آلود آرزوئیں اور ناکام تمنائیں سورہی ہوتی ہیں۔ محمد حسن کے زمانے میں اس بحث کی گنجائش تھی۔ انھوں نے بجا طور پر یہ لکھا ہے کہ یہ خواہش بے حد مضطرب اور جاندار ہوتے ہوئے بھی ادھوری اور ناکافی ہے کیوں کہ یہ خود اپنی آگ کی خس و خاشاک بن کر رہ جاتی ہے اور قابل نفرت نظام کی توڑ پھوڑ کرنے کے بجائے خود اپنی توڑپھوڑ میں لگ جاتی ہے۔ اگر اس قول کی روشنی میں افتخار جالب اور ظفراقبال اور احمد ہمیش وغیرہ کی تخلیقات کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوجائے گا کہ یہ توڑ پھوڑ بے معنی تھی۔ بلکہ فیشن پرستی کے شکار دوسرے کئی شعراء بھی ہوئے۔ اس توڑپھوڑ اور جدیدیت کی فیشن پرستی کو فروغ دینے میں ’شب خون‘ نے جو رول ادا کیا وہ اظہرمن الشمس ہے۔ لیکن خود جدیدیت کے بانی کہے جانے والے فاروقی نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو کلاسک کی چھان پھٹک اور تشریح و تعبیر میں لگا دیا۔ یہاں تک کہ بعد میں جو کہانیاں آئیں یا ناول منظرعام پر آیا وہ بھی قدیم تہذیبی تناظر میں تحریر کیا گیا۔ پوری نسل اس وقت کی ’شب خون‘ کی چھتری تلے آگئی اور چھتری بردار اپنا منہ پھیرے داستانی اور میرکی چھتری کی طرف دیکھ رہا تھا۔ کاش کچھ اچھے ذہین تخلیق کاروں کو یہ بات سمجھ میں آگئی ہوتی۔ حد تو یہ ہے کہ آج بھی ہماری پیڑھی کے بہت سے ذہن فاروقی کی چھتری تلے رواں دواں ہیں، یہ جانے بغیر کہ جدیدیت کا بگل بجا کر خود فاروقی کدھر چلے گئے تھے۔ خیر یہ ایک ضمنی مگر متعلق بات تھی، اس لیے ذکر آگیا۔

محمد حسن نے ایک چوتھے گروپ کا ذکر کیا ہے اور یہاں بھی کسی نام کا ذکر نہیں کیا ہے کہ آسانی سے ہم وہاں پہنچ جائیں۔ اس گروہ سے سچے آرٹ اور ترقی پسندی دونوں کو خطرہ ہے۔ یہ لوگ انقلاب کی کوشش کو بے کار تصور کرتے ہیں۔ ظالم اور مظلوم کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے۔ ایک طرف تو یہ لوگ انسانی ترقی کی ناکامیوں کا ذکر بھی کرتے ہیں لیکن دوسری طرف سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی کو باطل بھی قرار دیتے ہیں۔ محمد حسن کے مطابق یہ گروہ عقل پر یقین نہیں رکھتا۔ انھوں نے لکھا ہے:

’’ان سب کا مقصد صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ انسانی بصیرت کو انقلابی جدوجہد سے دور کرایا جائے اور اس کا رشتہ عقل اور سائنس سے جوڑنے کے بجائے احساس محض اندھے جذبے یا کسی رجعت پسندانہ مذہبی، اساطیری یا ماورائی فلسفے سے ملادینے کی کوشش کی جائے… ان رجعت پسند فلسفہ طرازی کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘                                 (ص217)

یہ کون لوگ تھے؟ کاش محمد حسن اُن فلسفہ طرازوں میں سے کچھ کے نام بتا دیتے۔ یہ پروفیسر گوپی چند نارنگ تھے یا شمس الرحمن فاروقی، وہاب اشرفی تھے یا شمیم حنفی، وزیر آغا تھے یا ممتاز حسین؟ حالاں کہ 1968 میں ان میں سے شہرت کم ہی کو نصیب ہوپائی تھی۔ سب کے سب لکھ ضرور رہے تھے۔ فلسفہ طرازی کا زمانہ بھی جدیدیت کا زمانہ تھا جہاں کرکے گار، ڈیکارٹ، سارتر وغیرہ کے نظریات چمک رہے تھے۔ نطشے، کانٹ، ہائیڈیگر وغیرہ کی فلسفہ طرازی اردو میں در آئی تھی۔ 80ء کے بعد اردو میں مابعد جدید دور شروع ہوگیا جو کشادہ روی اور کسی ازم سے انکار کی صورت میں سامنے آیا۔ اس میں انفرادی اور اجتماعی تصورات ایک ساتھ آگئے۔اس کے حوالے تہذیبی و ثقافتی مدلولات طے پائے۔ یہاں بھی چارلس جنکس، لیوتار، دریدا، فوکو، جولیا کرسٹیوا، اسٹینلے فیش، ایزر (Iser) وغیرہ نے نئے فلسفوں کی روشنی میں معاشرے اور ادب کے رشتے کو سمجھنے کی کوشش کی۔ معلوم ہوا کہ متن میں جو کچھ بھی ہے یا متن خود بھی معاشرے کی ملک ہے ایسے میں قاری کی اہمیت بڑھ گئی۔

(یہ بھی پڑھیں اردو لسانیاتی  مطالعات کی تاریخ -ڈاکٹر رئیس احمد مغل )

ترقی پسند کے آغاز میں جو فلسفہ یا تصورِ حیات کام کررہا تھا، وہ 1968 (اس مضمون کے وجود میں آنے کے وقت) میں بدل گیا۔ لہٰذا محمد حسن نے اس تبدیلی کی روشنی میں ترقی پسندی پر نظرثانی کی۔ اب وہ یہ لکھنے پرمجبور ہوگئے:

’’آج کی ترقی پسندی کے لیے نہ خطابت لازمی ہے نہ براہِ راست پیرایۂ اظہار ضروری ہے۔ نہ پرانی باتوں اور قدیم بندھے ٹکے موضوعات پر طبع آزمائی شرط ہے۔ آج کی ترقی پسندانہ بصیرت مختلف ہوگی، لیکن مختلف ہونے کے باوجود اور اسی بنا پر نئے دور کی ترقی پسندی ہوگی۔‘‘ (ص217)

خطابت اور براہ راست پیرایۂ اظہار کے بغیر اردو میں ترقی پسندی کا تصور نہیں کیا جاسکتا ؛کیوں کہ جو شعرا بھی اس دور میں اس سے الگ ہوئے وہ مورد الزام ٹھہرائے گئے۔ فیض اور اختر الایمان کی مثالیں موجود ہیں۔ اسی طرح فکشن میں بیدی اور منٹو موجود ہیں۔ مذکورہ بالا اقتباس کی روشنی میں مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ بلا وجہ ہر زمانے تک ترقی پسندی کو کھینچ کر لانا ضروری نہیں ہے۔ ایسے میں فطری طور پر غیرمنطقی تاویلات اور لچر توضیحات و توجیہات کا سہارا لینا پڑتا ہے۔    بے شک ہر زمانے کی اپنی ترقی پسندی ہوتی ہے۔ ترقی پسندی تو ہر نظریے کے بطن میں ہوتی ہے، یہ خود کوئی نظریہ نہیں۔

احتشام حسین کو مولوی اختر علی تلہری نے اپنے مضمون سے اور ’مداوا‘ (1944) سے کافی پریشان کردیا تھا۔ وہ اکثر گھوم پھر کر ترقی پسندی کی تعریف پوچھ لیا کرتے تھے یا پھر یہ کہ ترقی پسند ابھی کچھ دنوں پہلے تک ترقی پسند ادب کے لیے نئے ادب کا استعمال کیا کرتے تھے لیکن مداوا کے شائع ہونے کے بعد اسی کے مضامین سے ترقی پسند کے عیوب ظاہر ہوگئے۔ چنانچہ اب وہ ’نئے ادب‘ سے اختلاف کرنے لگے۔ احتشام حسین نے مولوی اختر علی کا جواب بہت ہی متانت (جو ان کی شخصیت کا ناگزیر حصہ تھی) اور دیانت داری سے دیا۔ انھوں نے ترقی پسندی کے حوالے سے ’عالمگیر‘ کے مدیر کو مولوی اختر علی کا جواب لکھا جس میں ترقی پسندی کی تعریف کے حوالے سے لکھا تھا کہ:

’’میں نے ترقی پسندی کی تعریف کے سلسلے میں اپنی بے بضاعتی کا اظہار کیا تھا بلکہ اس کی جگہ ترقی پسندی کی توضیح و تشریح اچھی طرح کردی تھی لیکن مولانا تعریف پر مصر ہیں۔ میں نے کہا تھا کہ ہر شخص کے شعور اس کے مذہبی، اخلاقی، سیاسی اور جمالیاتی تصورات کی تعریف آسان نہیں۔ مولانا فرماتے ہیں ہاں یہ تو ٹھیک ہے لیکن پھر بھی آپ تعریف کیجیے… میں اپنی بصیرت کے لیے موصوف سے استدعا کروں گا کہ وہ شعر، ادب، غزل اور اسی قسم کے اور اصناف کی منطقی تعریف فرمادیں تو نہ صرف مجھ پر بلکہ ساری ادبی دنیا پر احسان ہوگا۔‘‘

(جدید ادب، منظر اور پس منظر، مرتب: جعفر عسکری، ص: 50، 1996)

کچھ لوگ ادب کو الجبرا یا Trigonometryکا فارمولہ سمجھتے ہیں یا پھر Organic Chemistryکا اسٹکچرل فارمولا جس میں آپ بتادیں کہ میتھین (Methane) میں ایک کاربن اور چار ہائیڈروجن ہوتے ہیں وغیرہ۔ مولوی اختر علی نے احتشام صاحب یا اس وقت جو ترقی پسندی کے لواحقین تھے، ان کے بخیے ادھیڑنے میں لگے ہوئے تھے۔ یہ کام ہر زمانے میں ہوا ہے۔ تعریف تو مابعد جدیدیت کی بھی نہیں ہے۔ مغرب کے سارے مفکروں نے موٹی موٹی کتابیں تصنیف کردیں لیکن دو سطروں کی تعریف پیش نہیں کی۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ سب معذور تھے، بلکہ انھیں یہ پتہ تھا کہ ادب کی تفہیم کے لیے کسی فارمولے کی ضرورت نہیں بلکہ Perception اور ادراک یا بالیدہ شعور کی ضرورت ہوتی ہے۔ محمد حسن صاحب نے موجودہ صورتِ حال (1968) کو 1936 ہی کو سماجی تبدیلی کی خواہش سے جوڑا ہے اور نئی ترقی پسندی کے امکانات پر روشنی ڈالتے ہوئے مضمون یوں ختم کیا ہے:

’’موجودہ رومانی اضطراب اور سماجی تبدیلی کی خواہش کو پھر حقیقت نگاری اور سائنٹفک بنیاد پر استوار کرنے کا سوال درپیش ہے اور نئی ترقی پسندی کے سارے امکانات اور پیچیدگیوں کو پرکھنے اور پہچاننے کی ضرورت ہے جس کے بغیر ادب عصر حاضر کا عکاس اور راہبر نہیں بن سکتا۔‘‘ (ص218)

محمد حسن کا ایک مضمون ’جدید اور ترقی پسند ادب کی مشترک اقدار‘ کے عنوان سے ہے جس پر سال اشاعت درج نہیں۔ البتہ یہ مضمون زیربحث مضمون کے بعد اسی کتاب ’جدید اردو ادب‘ میں شامل ہے۔ اس میں بھی اس تاثر کو دوسرے انداز میں پیش کیا گیا ہے:

’’ترقی پسندی، ادب کی اقدار کو اضافی مانتی ہے۔ یعنی ہر دور کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے پیش نظر ترقی پسندی کا تصور بھی بدلتا رہتا ہے۔‘‘       (ص219)

ادب کی قدریں اضافی قطعی نہیں ہوتیں البتہ اطلاقی صورتِ حال بدل جاتی ہے۔ یہ بات بار بار کہی جاتی ہے کہ ہر دور کے تقاضوں کے پیش نظر ترقی پسندی کا تصور بھی بدلتا رہتا ہے۔ کیوں بدلتا رہتا ہے؟ اگر یہ تصور اس قدر کمزور، لچر یا Fragile ہے تو پھر اس پر اصرار کی ضرورت ہی کیا ہے؟ جس دور میں جو رویہ یا نظریہ ہے، وہ تصور اسی میںضم کیوں نہیں ہوجاتا؟ ادب میں کچھ بھی بدل سکتا ہے، لیکن اس کی بنیادی قدریں اس کی جڑوں میں موجود ہوتی ہیں۔ محمد حسن اسے اضافی تصور کرتے ہیں۔ بہرحال انھوں نے ترقی پسندی کو جدیدیت کے عہد میں بدلتے ہوئے ادبی معیارات، Norms اور نئے تہذیبی تناظر میں ازسر نو پرکھنے اور سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی، یہ اہم بات ہے۔ یہ اس وقت کا تقاضا تھا۔ آج کی نسل کو چاہیے کہ وہ آج کے سائبر اسپیس میں نئی فکری و تہذیبی اساس پر ترقی پسندی، جدیدیت، مابعد جدیدیت، خود جوازیت اور دوسری فکری و فنی جہات کو سمجھے اور سمجھائے۔ محمد حسن نے جس رویے، ادبی صورتِ حال اور اس کے امکانات پر روشنی ڈالتے ہوئے نئی ترقی پسندی کو عصر حاضر کا عکاس اور راہبر بنائے جانے کی بات کی ہے، ہمیں چاہیے کہ اس پر غور کریں اور دیکھیں کہ کیا واقعی آج کے عہد میں حقیقت نگاری کی پیش کش کے وہی Tools کارگر ہوسکتے ہیں جو ترقی پسندی یا جدیدیت کے تھے؟

 

نوٹ: مضمون نگار شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ہیں۔

 

 

ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com  پر بھیجنے کی زحمت کریں۔

 

ادبی میراثجدیدیتمابعد جدیدیت
1 comment
0
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail
adbimiras

پچھلی پوسٹ
زرد کتا – انتظار حسین
اگلی پوسٹ

یہ بھی پڑھیں

دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –...

جولائی 10, 2025

جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

جون 20, 2025

شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

دسمبر 5, 2024

کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –...

نومبر 19, 2024

کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر...

نومبر 17, 2024

کوثرمظہری کا زاویۂ تنقید – محمد اکرام

نومبر 3, 2024

علامت کی پہچان – شمس الرحمن فاروقی

مئی 27, 2024

رولاں بارتھ،غالب  اور شمس الرحمان فاروقی – ڈاکٹر...

فروری 25, 2024

مابعد جدیدیت، اردو کے تناظر میں – پروفیسر...

نومبر 19, 2023

اقبالیاتی تنقید کے رجحانات – عمیر یاسر شاہین

نومبر 4, 2023

1 comment

- Adbi Miras اکتوبر 7, 2020 - 5:15 شام

[…] تحقیق و تنقید […]

Reply

تبصرہ کریں Cancel Reply

اپنا نام، ای میل اور ویبسائٹ اگلے تبصرہ کے لئے اس براؤزر میں محفوظ کریں

زمرہ جات

  • آج کا شعر (59)
  • اداریہ (6)
  • اسلامیات (182)
    • قرآن مجید (آڈیو) (3)
  • اشتہار (2)
  • پسندیدہ شعر (1)
  • تاریخِ تہذیب و ثقافت (12)
  • تحقیق و تنقید (117)
  • تخلیقی ادب (592)
    • افسانچہ (29)
    • افسانہ (200)
    • انشائیہ (18)
    • خاکہ (35)
    • رباعی (1)
    • غزل (141)
    • قصیدہ (3)
    • گلہائے عقیدت (28)
    • مرثیہ (6)
    • نظم (127)
  • تربیت (32)
  • تنقیدات (1,037)
    • ڈرامہ (14)
    • شاعری (531)
      • تجزیے (13)
      • شاعری کے مختلف رنگ (217)
      • غزل شناسی (203)
      • مثنوی کی تفہیم (7)
      • مرثیہ تنقید (7)
      • نظم فہمی (88)
    • صحافت (46)
    • طب (18)
    • فکشن (401)
      • افسانچے (3)
      • افسانہ کی تفہیم (213)
      • فکشن تنقید (13)
      • فکشن کے رنگ (24)
      • ناول شناسی (148)
    • قصیدہ کی تفہیم (15)
  • جامعاتی نصاب (12)
    • پی ڈی ایف (PDF) (6)
      • کتابیں (3)
    • ویڈیو (5)
  • روبرو (انٹرویو) (46)
  • کتاب کی بات (473)
  • گوشہ خواتین و اطفال (97)
    • پکوان (2)
  • متفرقات (2,127)
    • ادب کا مستقبل (112)
    • ادبی میراث کے بارے میں (9)
    • ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف (21)
    • تحفظ مادری زبان (24)
    • تراجم (32)
    • تعلیم (33)
    • خبر نامہ (894)
    • خصوصی مضامین (126)
    • سماجی اور سیاسی مضامین (228)
    • فکر و عمل (119)
    • نوشاد منظر Naushad Manzar (68)
  • مقابلہ جاتی امتحان (1)
  • نصابی مواد (256)
    • ویڈیو تدریس (7)

ہمیں فالو کریں

Facebook

ہمیں فالو کریں

Facebook

Follow Me

Facebook
Speed up your social site in 15 minutes, Free website transfer and script installation
  • Facebook
  • Twitter
  • Instagram
  • Youtube
  • Email
  • سر ورق
  • ہمارے بارے میں
  • ہم سے رابطہ

All Right Reserved. Designed and Developed by The Web Haat


اوپر جائیں