"اتنی آسانی سے کب اہل ہنر ملتے ہیں ۔
ڈوب کر گہرے سمندر میں گُہر ملتے ہیں ۔”
اردو فکشن اور نظم نگاری کے حوالے سے ڈاکٹر پرویز شہر یار صاحب کا نام ادبی دنیا میں آفتاب کے مانند اپنی رعنائیاں اور رنگینیاں لٹا رہا ہے ۔پرویز صاحب کا تعلق جمشید پور سے ہے۔وہی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کا ذوق ان کو دہلی لے آیا ۔جہاں جواہر لال نہرو یونورسٹی سے”ایم ۔فل کی ڈگری حاصل کی ۔ 2009″میں” راجندر سنگھ بیدی کے افسانوی ادب کا تنقیدی مطالعہ "کے عنوان پر دہلی یونورسٹی سے اپنا تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
اردو زبان کے علاوہ انگریزی زبان پر آپ گہری گرفت رکھتے ہیں ۔نیشنل کونسل آف ایجو کیشنل ریسرچ اینڈ ٹرینگ نئی دہلی میں اب تک کئی نصابی کتابوں کے انگریزی سے اردو میں ترجمے کیے ہیں ۔فی الحال این ۔سی ۔آر۔ ٹی ۔نئی دہلی میں ایڈیٹر جنرل کی حثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔
پرویز شہر یار صاحب نے اپنی ادبی زندگی کا اغاز 1980میں افسانہ "چنبل کی دسویں رانی "لکھ کر کیا ۔
1986 میں رسالہ” شب خون "میں ان کا افسانہ "سایہ سایہ جنگل”” شائع ہوا ۔جس پر موجودہ نقاد شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے حوصلہ افزا ئی کی۔۔۔
"”پرویز شہر یار جمشید پور کے نئے افسانہ نگار ہیں "””۔
اور یہ بات بلکل صحیع ثابت ہوئی۔ آج اردو فکشن پرویز شہر یار صاحب کا لوہا مانتا ہے ۔
کئی درسی کتابوں کے تراجیم کے علاوہ اب تک ان کی چھہ کتابیں شائع ہو کر داد تحسین حاصل کر چکی ہیں ۔جس میں ان کا
پہلا افسانوی مجموعہ "”بڑے شہر کا خواب "”سن اشاعت (2006)جس میں 23 افسانے شامل ہیں ۔
اور دوسرافسانوی مجموعہ””” شجرممنوعہ کی چاہ میں "””سن اشاعت( 2014) منظر عام پر آیا ۔جس کو کافی پزیرائی حاصل ہوئی ۔
دو تحقیقی وتنقیدی کتابیں "منٹو اور عصمت کے افسانوں میں عورت کا تصور””سن اشاعت (2009) دوسری تحقیقی کتاب "”راجند سنگھ بیدی کی ناول نگاری "”سن اشاعت (2017)میں شائع ہوئی۔ جس پر اتر پردیش اردو اکادمی نے انعام و اکرام سے سرفراز کیا ۔
فکشن کے علاوہ پرویز شہر یار صاحب اردو نظم نگاری سے بھی سغف رکھتے ہیں ۔انھوں نے اپنے احساسات کو پیش کرنے کے لئے نثری نظم کا انتخاب کیا ہے ۔اور ان کی نظموں کے دو مجموعے شائع ہو کر قبولیت کی صند حاصل کر چکے ہیں ۔
اولین نظموں کا مجموعہ "””بڑا شہر اور تنہا آدمی "””سن اشاعت( 2011) جس میں 52 نظمیں شامل ہیں ۔جس پر اترپردیش اردو اکادمی نے حوصلہ افزائی کی ۔
دوسرا ثانوی نظموں کا مجموعہ ” بھوک کی حمایت میں "”سن اشاعت( 2018)میں منظر عام پر آیا ۔
ہماری گفتگو کا موضوع ان کی نظموں کا مجموء "”بھوک کی حمایت "”میں ہے ۔جس میں 45 نثری نظمیں شامل ہیں ۔
وسیع المطالعہ,وسیع الفکر اور وسیع المشاہدہ ڈاکٹر پرویز شہر یار صاحب اردو نظم میں ن۔م۔راشد ,میراجی ,اخترالایمان, فیض احمد فیض ,علامہ اقبال اور پروفیسر شہر یار صاحب سے حد درجہ متاثر نظر آتے ہیں ۔
مجموعہ "بھوک کی حمایت "”میں اکثر نظمیں ان کے رنگ میں نظر آتی ہیں ۔یہاں تک کہ مجموعہ” بھوک کی حمایت میں "” کا انتساب ن۔م۔راشد کے نام کیا ہے۔
گفتنی کے حوالے سے مجموعہ میں موصوف نے اپنی شخصیت پر روشنی ڈالی ہے ۔جس میں نظم نگار پیغام دیتے ہوئے کہتے ہیں ۔
"”کہانی ,قصے,شعرو شاعری کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہونا چاہئے ۔مقصد جتنا مقبول عام اور اعلٰی ہوگا فن پارہ بھی اتنا ہی پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جائے گا ۔””۔۔
آگے لکھتے ہیں ۔۔۔
"””ادیب و شاعر معاشرے کے بہت حساس افراد ہوتے ہیں ۔ادیب اور شاعر اپنے معاشرے کے نباض شناس ہوتے ہیں "””۔۔۔۔
گفتنی پڑھ کر ایک حوصلہ افزا کیفیت طاری ہوتی ہے ۔قاری کافی متاثر ہوتا ہے ۔اس کی دلچسپی بڑھتی ہے ۔اورقاری مجموعہ کو پڑھے بغیر رہ ہی نہیں سکتا ۔
مجموعہ میں شامل پرویز شہر یار صاحب کی اکثر نظمیں پیغام سے پُر ہوتی ہیں ۔مجموعہ "بھوک کی حمایت میں "”کو پڑھ کر ایک بات جو شدت کے ساتھ محسوس ہوتی ہے کہ۔ فاضل نظم نگار نے اپنی نظموں میں اسلامی تاریخ کو جس خوبصورتی سے برتا ہے ۔اس کی مثال بہت مشکل سے ملتی ہے ۔یہ ان کا اسلامی آئین پر گرفت کا ثبوت ہے ۔ اسلامی اساطیر میں "حضرت آدم علیہ السلام”” اور” بی بی حوا” کا حوالہ اکثر نظموں میں دیتے ہیں ۔جو دلچسپی پیدا کرتا ہے ۔جس پر موصوف کو کافی ناز بھی ہے لکھتے ہیں ۔۔
"””مجھے بذات خود اپنی نظموں میں مستعمل تلمحیات پر بڑا ناز ہے ۔”””
علامہ اقبال کے باد اردو نظم میں اگر کسی نے تلمحیات کا استعمال کیا ہے ۔تو وہ پرویز شہر یار صاحب ہیں ۔
مجموعے کا سرورق جس نے ہمیں سب سے زیادہ متاثر کیا ۔جس میں فاضل نظم نگار بھوک کی حمایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
مجموعے میں شامل سب سے پہلی نظم "””بھوک کی حمایت میں "”” ہے ۔بھوک ہر مخلوق میں ایک ایسا جزبہ ہوتا ہے۔جب وہ شدت پکڑتا ہے۔ تو انسان میں بھلے برے کا فرق نہیں رہتا ۔جب اس پر بھوک کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو , اسے کچھ بھی خیال نہیں رہتا ہے ۔ بھوک کو مٹانے کے لئے با شعور انسان بھی باغی بن سکتا ہے ۔ بھوک ہی انسان کو غلط کام کی طرف رغبت دلاتی ہے ۔ اب چاہے بھوک جسمانی ہو ,یا روحانی ۔کہتے ہیں کہ
"بھوک ناف کے اوپر کی ہو یا ناف کے نیچے کی جب وہ شدت پکڑتی ہے تو انسان باغی ہوجاتا ہے ۔
اس وقت تہزیب ثقاوت کا کچھ احساس نہیں ہوتا ۔صرف بھوک کو بجھانا ہی مقصد ہوتا ہے ۔بھوک پیٹ کی ہو یا جسم کی ۔ اس خیال کو وہ نظم میں الفاظ عطا کرتے ہیں ۔اپنی بات کو واضح طور پر پیش کرنے میں وہ مارکس ,فرائیڈ ,اور آدم و حوا کی بھوک کے ساتھ قابیل و ہابیل کی بھوک جہاں ایک بے چہرہ سی لڑکی کی خاطر قابل نے ہابیل کا خون کر دیا تھا۔ اسی بھوک سے آج تک دنیا میں خونہ ریزی اور فساد پھیلا ہوا ہے ۔ جس تلمیع کو فاضل نظم نگار نے اپنی نظم میں پیش کیا ہے ۔لکھتے ہیں ۔۔
اپنے پرائے کا فرق بھی نہیں کر پاتا ہے انساں ۔
ایک بے چہرہ سی لڑکی کی خاطر ۔
"قابیل نے کر دیا تھا ہابیل کا خون ۔”
بھوک تو بھوک ہے ۔
بھوک لگتی ہے تو ,
آدمی باغی ہو جاتا ہے ۔
آدم کے جنت سے نکالے جانے کے سفر کو بیان کرتے ہیں ۔۔
گندم سے آسودہ ہوتے ہی آدمی
ناف کی نشی وادیوں میں
اتر جاتا ہے
محو سفر ہو جاتا ہے ۔”
یہ تلمحیات ہی نظم کے حسن کو دوبالا کر دیتی ہیں ۔جو قاری پر اپنے گہرے اثرات چھوڑ جاتی ہے ۔۔۔
مجموعے میں شامل دوسری نظم "”شجرہ ممنوء سے پرے "”ہے ۔یہ دنیا ایک فریب ہے۔ جہاں سب دھوکہ ہے ,,مکاری ہے,,وہ اس ستم رشید دنیا سے تنگ آکر بی بی حوا سے پھر سے ایک ایسا گھر بنانے کی خواہش ظاہر کرتےہیں ۔جہاں امن و امان ہو جہاں شیاطین اپنے وسوسہ نہ ڈال سکے ۔ جس میں لکھتے ہیں ۔۔
اے بی بی حوا ۔۔۔
تجھ سے بچھڑ کے بھٹکے رہے ہیں ۔
ہر لمحہ اس الجھی بھول بھلیوں سی دنیا میں ۔
جی رہے ہیں ۔۔۔
پرویز صاحب اپنی ہر نظم کے ذریعے ایک پیغام دینا چاہتے ہیں ۔اور مجموعے میں شامل تیسری نظم "””گردش "”ایک حوصلہ بخش نظم ہے ۔جس میں ذات سے کائنات تک کا سفر کراتے ہیں ۔
ایک روتے ہوئے بچچے کو خاموش کرانے کے لئے طرح طرح کے بہانے پیش کئے جاتے ہیں ۔اس کو ڈھیروں مثالیں دی جاتی ہیں ۔نظم "گردش”” بھی ایسی ہی کیفیت پیش کرتی ہے۔ جس کو پڑھ کر قاری خود بخود گردش سےبہار نکل آتا ہے ۔اس میں ایک حوصلہ پیدا ہوتا ہے ۔وہ کہتے ہیں ۔۔
حرکت ہی دراصل زندگی ہے !
یہ حرکت اگر نہ ہوتی تو
زندگی کیسی ہوتی ؟
وہ نظم میں سوال کرتے ہیں۔ اور خود ہی اس کا جواب بھی پیش کرتے ہیں ۔۔۔۔
لیکن ,اے ہمدمو!
اس غم کا کوئی مداوا ,کوئی حل ہے ۔؟
کوئی خاتمہ بھی ہے ؟
پرویز صاحب نے اپنی نظموں میں جہاں اسلامی اساطیر کو پیش کیا ہے ۔وہی ہندو اساطیر پر بھی دسترس رکھتے ہیں ۔اور ہندو میتھلوجی کی بہت خوبصورت مثال اپنی نظموں میں پیش کرتے ہیں ۔نظم "”صندل کی خوشبو اور سانپ "میں ۔شنکر کی زلف سے مثال پیش کرتے ہوئے ۔لکھتے ہیں ۔۔۔۔
"تیری زلف کوئی شنکر کی جٹا بھی نہیں ۔
پھر کیوں یہ افعی ۔۔۔
تیری گردن ,تیرے ناف تن میں حائل ہونا چاہتا ہے ۔
بار بار!”۔
ان کی نظموں کا ایک ایک لفظ ایک کہانی بیان کرتا ہے ۔یہ ان وسیع المطالعہ ہی ہے ۔
"”اس کے علاوہ, مجموعیےمیں کچھ رومانی نظمیں بھی شامل ہیں۔
نظم ,,خواہش ہے ,,بھی کافی متاثر کن نظم ہے۔انسان کی خواہشات کی کچھ حد نہیں ہوتی وہی خواہشات ظاہر کرتےہوئے۔لکھتے ہیں ۔
ارادہ ہے ۔۔۔
تیری جھیل سی آنکھوں میں اک دن ۔
اتر کرکے دیکھوں ۔۔۔
مجموعے میں شامل چھٹی نظم”” بڑا شہر اور تنہا آدمی "”ہے جو خود پرویز صاحب کی ترجمانی معلوم ہوتی ہے ۔ نظم میں دہلی شہر, اس کی رونقیں اس کی خوبصورتی , دور دراز سے آیا ہوا تنہا آدمی جس کو اس رنگ و ماحول میں ڈھلنے کے لئے کن کن مشکلات کا سامنا کرنا ہوتا ہے ۔اس الجھن کو پیش کرنے میں وہ پوری طرح کامیاب نظر آتے ہیں ۔
اس کے ساتھ ہی مجموعے میں اٹھویں نظم "”بڑے شہر کا خواب "”طنزیہ نظم ہے ۔وہ بڑے شہر کو بے ایمانوں,کی ڈگر بد عنوانوں کا نگر کہتے ہیں ۔چونکہ چھوٹے شہر سے اگر کوئی شخص بڑے شہر کا رخ کرتا ہے ۔تو اس کو جن مشکلات سے دو چار ہونا پڑتا ہے ۔جس کی روداد بڑا شہر اور تنہا آدمی میں نظر آتی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ ۔۔۔
”
"بڑے شہر کی چاہ میں جانے کتنے تباہ ہوئے۔
بڑے شہر کی چاہ میں آدمی کو مشکلات سے گزنا لازمی ہے چونکہ وہ تنہا ہوتا ہے۔ جہاں ,اس کے ساتھ چلنے والا کوئی نہیں ہوتا ۔ان احساسات کو بہت خوبصورتی کے ساتھ الفاظ کا جامہ پہنایا گیا ہے ۔
نظم””ناخدا کوئی نہیں "”میں وہ خدا وند قدوس کی شفاعت پر ,اس کی حق گوئی پر بھروسہ کر خود کو اس رنگ میں ڈھلنے کے منتظر نظر آتے ہیں ۔خدا پر ان کو کامل یقین ہے ۔یہ ہی احساس وہ قاری کے دل میں پیدا کرنا چہاتے ہیں ۔یہ جزبہ اگر انسان میں پیدا ہو جائے تو اس کو بڑی سے بڑی طاقت نہیں ڈرا سکتی ۔لکھتے ہیں ۔
مجھ کو کوئی طوفان ڈرا سکتا نہیں ۔
کیو نکہ میرا ایمان ہے ۔
کہ مجھ کو بچا لے گا مشکل کشا میرا ۔
"ہیں خواب میں ہنوز "”میں وہ کہتے ہیں کہ صرف خواب کے سہارے منزل تک نہیں پہنچا جا سکتا ۔اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مشقت کرنی ہوتی ہے۔ اپنی بات کو پیش کرنے میں وہ علامہ اقبال کے شاہن پرندے سے تشبہہ دیتے ہیں ۔
مجموعے میں شامل دسویں نظم جس میں موصوف اس ظلم وستم کی دنیا سے تنگ آ کر ایک ایسی دنیا بسانے کی بات کرتے ہیں ۔جہاں دشت امکاں کو ایک نقش پا بنا سکے۔جس طرح علامہ اقبال اپنی نظم "”نیا شوالہ”” میں ایک ایسی عبادت گاہ بنانے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں جہاں مزہب وملت کا جھگڑا نہ ہو ۔جہاں سب آ جا سکے ۔وہی کیفیت پرویز صاحب پر بھی طاری ہے ۔
وہ کہتے ہیں۔
ایک دنیا ہو جہاں ہومن بم کا کچھ خطرہ نہیں ہو ۔چونکہ ۔
یہاں انسانیت پامال ہے ۔
یہاں ہر طرف مایا جال ہے ۔
اور وہ ایک ایسی نئی دنیا کی خواہش ظاہر کرتے ہیں ۔۔
"آمیری اُنگلی تھام لے ,لےچل مجھے یہاں سے ۔
اس نئی زیست کی منزل امکاں پر جہاں ۔
میں اپنی ایک نئی دنیا بسا سکو۔
دشت امکاں کو ایک نقش پا بنا سکوں۔۔۔””
جہاں ایک طرف دنیا کی بے التفاتی کج روی سے تنگ آکر ایک نئی دنیا بنانے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں , وہی دسوری طرف مجموعے میں شامل نظم "”اچھا لگتا ہے””میں انٹر نیٹ اور ٹکنالوجی کے سبب ہوئی ترقی سے خوش نظر آتے ہیں ۔ان کو اس بات کی بے حد خوشی ہے کہ انٹرنیٹ کے سبب پوری دنیا ایک پلٹ فارم پر جما ہو کر ترقی کے منازل آسانی سے طے کر سکتی ہے ۔وہ کہتے ہیں ۔
"”آؤ مل کر گائیں خوشی کے ترانہ , اچھا لگتا ہے ۔””
پرویز صاحب نے جا بجا اپنی نظموں میں دہلی جیسے بڑے شہر کے طور پر دہلی کی تعریف بھی کی ہے ۔دہلی کو میر وغالب کا شہر کہتے ہیں ۔ لکین وہی موجودہ دور میں آج وہاں انسان کی شکل میں زہریلیں سانپ چھپے بیٹھے ہیں ۔ جو انسان کو ڈسنےکے فراق میں رہتے ہیں ۔جس کی شکایت نظم”” یہ کون سا شہر ہے””میں کرتے ہیں ۔نظم میں موجود حالت پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔۔۔۔
"سوچتا ہوں ۔۔۔
میرو غالب کی دلّی کبھی ایسی تو نہ تھی۔,
نظم "یہ سفر جاری ہے "”میں بھی وہ انسان کو انسانیت, حق اور باطل کا درس دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
جیسا کہ ہم اوپر کہتے آئے ہیں کہ پرویز شہر یار صاحب کی عموماً نظمیں پیغام دیتی ہیں ۔ان کی نظم "”فلسطینی بچے کا گیت””جس میں بچچا اپنی ماں سے کہتا ہے کہ ” ماں مجھے اب پریوں کی کہانیاں نہیں سننی ہیں ۔چونکہ میں اب ایسی کہانیاں سننے کا خواہش مند ہوں جس سے دشمنوں پر اثر پڑے۔ کیوں کہ اب ہمیں ان کے ظلم و وستم کے خلاف آواز بلند کرنی ہے ۔
جو آواز ہے ۔آج کی نوجوان پیڑی کی۔۔
مجموعے میں شامل پندرویں نظم” ایشیا جاگ ذرا "ہے جو کافی متاثر کن نظم ہے۔ چونکہ اس موضوع پر اردومیں شاید ہی کوئی اتنی خوبصورت نظم لکھی گئی ہو۔جس میں موجودہ دور کے صورت حال اس کی پریشانیوں کی طرف رغبت دلاتے ہیں ۔گلوبل وارمنگ , پلویشن ,اور بڑتی آبادی کی مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔وہی پرویز صاحب اسلامی تلمحیات جو ان کی نظموں کا زیور ہے ۔نظم "”ایشیا جاگ ذرا”۔ میں وہ یاجوج ماجوج کا ذکر کرتے ہیں ۔اور ہندو میتھلوجی۔ہندو مزہب کے ستارے راہو کیتو کا ذکر بھی کرتے ہیں ۔کہتے ہیں ۔
اس سے پہلے کہ ۔۔۔
اس زمین کا اسماں سے بیر ہو جائے ۔
اس سے پہلے کہ ۔۔۔
یاجوج ماجوج اپنا کام کر جائیں ۔۔۔
"”۔
وہی موجدہ ہندوستان کی صورت حال کی طرف بھی نظم میں رغبت دلاتے ہیں ۔۔۔۔
"”اس سے پہلے کہ آبادی کا راکھسش بیدار ہو جائے ۔
اور دھرتی کے انچل سے بندھا سارا اناج کھا جائے۔” ۔
ذرا سوچوں ۔۔
وہ کہتے ہیں کہ مغرب اس گلوبل وارمنگ کی پریشانی کو برداشت کر رہا ۔وقت رہتے اگر ایشیا نے اس طرف قدم نہیں اٹھائے تو , ہو سکتا ہے سب ختم ہو جائے ۔ چونکہ وہ فکر مند ہیں۔ اس لئے وہ ایشیا سے اس طرف قدم اٹھانے کی اپیل کرتے ہیں ۔ کہتے ہیں ۔
ہمیں قبل از وقت انتظام کرنا ہوگا ۔
ہاں! ایشیا کو ہی ,
بڑھ کر یہ کام کرنا ہوگا ۔
جس کے لئے قران حدیث کی روشنی میں خوبصورت مثالیں پیش کرتے ہیں ۔
” اپنے نفس سے لڑنا ہوگا !
ہاں ! ایشیا کو آگے بڑھنا ہوگا ۔”
"تعاقب اپنے ہمزاد کا "نظم میں وہ اخترالایمان کی نظم” ایک لڑکا "کی طرح اپنے خیالات بیان کرتے ہیں "۔کتنے راون "میں انسان کی شکل میں گھوم رہے راونوں پر طنز کرتے ہیں ۔نظم” تشکیک "میں اس پہلو کو اُٹھایا ہے کہ تجسس یعنی جستجو سے انسان سمندر جیسی تشکیک سے بھی نکل سکتا ہے ۔تشکیک تجسس کی جننی ہے ۔
مجموعے میں شامل نظم "مکان "”جو پرویز صاحب نے اردو کو””مکان "” اور” پلیتہ” جیسے ناول دینےوالے "پیغام آفاقی”صاحب کی وفات پر ان کو خارج عقیدت پیش کرنےکی غرض سے لکھی ہے ۔اور موضوع بھی ان کے ناول مکان سے مستعار لیا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ حقیقی مکان ابدی مکان ہوتا ہے ۔جو اعمال سے تعمیر کیا جاتا ہے ۔پیغام آفاقی صاحب کے لئے دعا گو ہیں کہ ۔
ہم سب مل کر دعا کریں ۔
غرقہ جنّت کی ٹھنڈی ہوائیں ,
اس کی لحد پر چلا کریں "”
عورت جس کو آدم کی بائیں پسلی سے پیداکیا گیا ہے ۔وہ ماں , بیٹی , بہن , اور بیوی ہے ۔یو جنّت میں عورت کا وجود آدم کی تنہائی کو دور کرنے کے لئے کیا گیا تھا ۔ اس لئے مرد کا اس پر حق بنتا ہے ۔مجموعے میں عورت پر بہت سی نظمیں ہیں ۔جس میں عورت کی اہمیت و افادیت کو ذہن نشین کراتے ہیں ۔چونکہ وہ عورت کی ذات سے بخوبی واقف ہیں ۔ان کی تحقیق کا موضوع "منٹو اور عصمت کے افسانوں میں عورت کا تصور رہا ہے ۔ نظم "مٹی کی عورت” میں وہ ان ہی خیالات کا اظہار کرتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ سارا نظام عورت سے ہی ہے , ساری کائنات اسی سے ہے ۔بی بی حوا سےتشبہ دیتے ہیں کہ ۔
وہ ساراپا نور ہے , صنف نازک جس کی جنّت ۔
چونکہ صنف نازک پر مرد کا حق ہے ۔وہ اپنی نظم "قصّہ تیری چاھت کا ” میں فرماتے ہیں ۔
قصّہ تیری چاہت کا ۔
رشتہ ہے ۔پیراہن وجاں کا۔
اک رابطہ ہے تیرو کماں کا ,
جو کبھی خم نہ ہوگا !
جو کبھی کم نہ ہوگا!
نظم "محبت کے بیکراں سفر میں ” بھی متاثر کن نظم ہے ۔جس میں ہندو میتھلوجی کو بہت خوبصورتی کے ساتھ برتا ہے ۔ہندؤ دیو مالاؤں , جاتھک کھتاؤں , ہندو آشرم ترتیبی اور مشہور ہندو خواتین کا حوالہ ذات جس خوبوصورتی سے نظم میں پیش کرتے ہیں ۔یہ ان کے ہندؤ میتھولجی پر گرفت کا ہی ثبوت ہے ۔جس پر موصوف نے کافی تحقیق بھی صرف کی ہے ۔
"”یہ دنیا بھی تجھ ہی سے نمودار ہے۔
گرہست جیون کا آشرم ہے تجھ سے تابندہ۔,,
نظم محبت کےاس بیکراں سفر میں "ایک اور اہم پہلو عورت ہے۔جو ماں,بہن ,بیٹی ,بیوی ہر شکل میں رتبہ الشان ہے ۔چاہے سیتا,ساوتری ,رادھا,میرا,مینکا اور مریم کے علاوہ, زوجہ ذکریاَ, کے حوالہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں عورت ہر شکل میں ,ہر روپ میں سچچی جانشی ہوتی ہے ۔
تیرے ہی دم سے رنگ و بوئے کائنات ۔
ازا ز ل تا ابد آدم کی تو ہے شریک حیات۔
نظم” بنت حوا سے خطاب "”میں وہ عورت کے حسن و جمال کی اس کی خوبصورتی کو پیش کرتے ہیں ۔نظم” تم نہیں سمجھوگی "”میں وہ عورت کے لئے مرد کے خیالات کو زبان عطا کرتے ہیں ۔کہتے ہیں ۔
"گھوڑا کتنا بھی کبر سنی کو پہنچ جائے ۔
ہنہناتا ضرور ہے ۔
مرد بھی اپنے ہمزاد کی افرائش کا بہانہ
بناتا ضرور ہے ۔
مجموعے میں شامل عورت کے موضوع پر لکھی اخری نظم "جسم کے انڈیکس سے پرے "میں بہت خوبورت تاثرات بیان کرتے ہیں ۔عورت صرف ظاہری طور پر ہی دلبستگی کا سامان نہیں ۔اصل چیز اس کی ممتا ہے ۔یعنی صرف عورت کے ظاہر نہیں باطنی حسن سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ۔
اس بات کو بہت خوبصورت اشعار میں پیش کرتے ہیں ۔
سمندر کی اندرونی تہو میں پڑے ہوتے ہیں گم صم ۔
ان گمنام موتیوں کو پانے کے لیے ۔
سیپیوں کے لب کھلنے تک کرنا ہوتا ہےانتظار ۔
عورت کو اگر جاننا ہے تو اس کے دل میں اتر کر ہی اسے جانا جا سکتا ہے ۔
"اس کے نہاں خانہ دل میں اترنا ہوگا ۔”
ان کے خیالات کے مطابق عورت کوئی بازار میں بکنے والا سامان نہیں ۔لکھتے ہیں ۔
عورت سامانِ تعش نہیں ,
بازار کا جنس نہیں ,
جسم بھی نہیں ہے ۔
عورت کا اسمِ ثانی ,
محبت ہے , محبت ہے ,
محبت ہی ہے !۔۔۔۔
مجموعے میں شامل نظم”” محنت کشوں کے نام "میں نظم نگار محنت کشوں , مزدورں کی بے بسی , بے کشی کو بیان کرتے ہیں ۔مزدور پیٹ کی آگ کی خاطر سب کچھ برداشت کرتا ہے ۔ سب سہتا ہے ۔اور بوجھ اٹھا کر سر پر پھرتا ہے ۔اس کی مجبوری اس کو سب سہنے کے لئے اکساتی ہے ۔اس کے علاوہ نظم "راجستھان کی ایک نظم ” میں بھی نظم نگار اسی کیفیت کو راجستھانی مزدور کی مشکلات کو بیان کرتےہیں ۔
نظم "بزدل قوموں کے آقاؤں کے نام "میں وہ موجودہ حکمراں پر طنز کرتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ اگلے وقتوں میں حکمراں زنداں دل ہوا کرتے تھے ۔اب بادشاہت ختم ہو چکی ہے ۔حکومت ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے ۔جن کا میدان جنگ سے کبھی سابقہ ہی نہیں ہوا۔وہ کہتے ہیں ۔
سچ ہے۔ موجودہ صدی ,
بزدل قوموں کے آقاؤں کی صدی ہے۔۔
نظم "گم ہو گئی ہے کوئی شئے”” بھی عمدہ خیالات کو پیش کرتی ہے ۔
"تخلیق کا وہ لمحہ "نظم میں فاضل نظم نگار ایک تخلیق کار کے ذہن میں اٹھنے والے خیالات کو موثر انداز میں بیان کرتے ہیں ۔چونکہ وہ خود نظم نگار کے ذہن میں اٹھنے والے جزبات ہیں ۔جس کو خوبصورت الفاظ میں بیان کرتے ہیں ۔
نظم” "بس ایک آخری سوال ہے” جس میں موصوف زندگی کی تلخ حقیقتوں کا مزاہ چھکنے کےبعد اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ زندگی میں جو کچھ بھی ملا ہے ۔اس کا خاتمہ ہونا ضروری ہے ۔ جس شخص نے اپنی محنت سے سب کچھ حاصل کر لیا ہے۔کیا اس کا بھی ختمہ ہو جائے گا۔اس لئےوہ نظم میں سوال کرتے ہیں۔
زندگی تونے اتنا کچھ دیا مجھ کو ,
بس اک آخری سوال ہے ۔
کیا یہ لازمی ہے ۔؟
کہ ہر اِک عروج کا زوال ہے ۔
اس کے علاوہ نظم”” فقطہ ایک نقطہ””میں مرد مومن کی طرح کہتے ہیں کہ ۔فقطہ ایک نقطہ بڑے سے بڑے اعمال کرنے کے لئے ساز گار ثابت ہوتا ہے ۔
خدا کے ایک کن سے کیا چیز دشوار ہے لکھتے ہیں ۔
,,کن فیکن ہی وہ حرف شریں ہے کہ جو ۔
عشق کو قلب مومن میں جگا دیتا ہے ۔
خالق و مخلوق و تخلیق کو پھر سے۔
ایک نقطے میں سما دیتا ہے ۔
مجموعہ "بھوک کی حمایت میں "”پرویز صاحب نے "ایک نظم گلزار کے نام”عنوان سے لکھی ہے ۔ جو انھوں نے جشن ریختہ کے تناظر میں لکھی ہے ۔اردو دنیا اور فلم سنسار سب گلزار صاحب کا لوہا مانتے ہیں۔جنھوں نے مرزا کی حویلی تعمیر کرائی تھی ۔پرویز صاحب قصائدی طور پر نظم کو پیش کرتے ہیں ۔
تشکیل نو ہو ۔
غالب کی حویلی
یا ہو ذوق کا تجدید مزار
ہر گام پر بڑھایا ہے تو نے
اہل اردو کا وقار۔
تیرےہی دم سے ہے ۔
آج باغ اردو میں بہار ۔
جی حضوری ایک خوددار انسان کی فطرت نہیں ہوتی ۔چونکہ وہ خدا کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتا ۔جس کو نظم "عاقبت کا توشہ” میں ظاہر کرتے ہیں ۔جس میں خود پرویز صاحب کی ذات جھلکتی ہے ۔
خدا کے در کے سوا ۔
میرا سر کہیں جھکتا نہیں ۔
میرا سر قلم ہو سکتا تو ہے ,لکین ,,,,,
میرا سر خم ہو سکتا نہیں ۔۔!
اس کے علاوہ مجموعہ میں شامل "ایک نظم امیر خسر کےنام” عنوان سے لکھی گئی ہے ۔یہ بھی قصائدی طور پر لکھی گئی نظم ہے ۔نظم میں طوطی ہند کی سب خصوصیات راگ راگنی ,موسیقی ,رقص , پہیلیاں اور سب سے بڑھ کر طوطی ہند امیر خسرو نے زبان ہندی کی بنیاد ڈالی ۔وہ لکھتے ہیں ۔
"گنگا جمنی تہزیب کا امین خسرو ۔
ہندو مسلم ایکتا کا نقیب خسرو۔
اے طوطی ہند ۔۔۔,,,,,,
زندگی محض محبوب کے دلنشی خوابوں میں بشر کرنے کا نام نہیں ہے ۔بلکہ اس میں حقیقت تو کچھ بھی نہیں ۔اصل۔زندگی ابدی زندگی کی تیاری کا نام ہے۔وہ ,,حاصل سیر جہاں ,,نظم میں کہتے ہیں کہ زندگی کی حقیقت ہمیشہ رہنے والی زندگی کےلئے کوشاں رہنا ہی ہے۔وہی اصل زندگی کا مقصد ہے ۔
,,وجود کا چقماق,,نظم میں کہتے ہیں کہ اگر انسان کا ضمیر جاگ جائے ۔اس میں انسانیت بیدار ہو جائے ۔تو پھر انسان غلط راستے پر جا ہی نہیں سکتا ۔اس کا ضمیر خود اس کو روکتا ہے , ٹوکتا ہے ۔انسان خود صحیح اور غلط کا امتیاز کرتا ہے ۔اس کا وجود ہی چقمق کا کام کرتا ہے ۔
ہر چیز کو اس کے کام کا صلاح ملنا ضروری ہوتا ہے ۔اس سےتخلیق کار کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔ساتھ ہی ساتھ لوگوں کو اس سے فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے ۔ایک قلم کار جو محنت صرف کرکے اپنے جزبات کو۔الفاظ کا جامہ پہنا کرسامعین کے سامنے پیش کرتا ۔تو ظاہر ہے سامعین سے اپنی محنت کا صلہ طلب کرے ۔ پرویز صاحب بھی اپنی نظم ۔,,نظم اپنی خوبصورتی کا صلہ چاہتی ہے ,,میں کہتے ہیں کہ ۔نظم اپنی خوبصورتی کا صلہ چاہتی ہے ,,اس کو خوبصورت قاری مل جائے ۔ جو اس کو اسی احساس میں سمجھ سکے جو کہ تخلیق کار اس کو ذہنشی کرانا چاہتا ہے۔ اور یہ بات ایک قلم کار ہی بخوبی نہیں سمجھ سکتا ہے بلکہ ہر شعبے میں اس کی اہمیت سمجھی جا سکتی ہے ۔
انسان اپنی زندگی کی جدوجہد سے تنگ آکر گوشہ نشین ہونے کا ارادہ کرلینا چہاتا ہے ۔تاکہ خدا کی راہ میں اس کو کچھ راحت مل سکے ۔فاضل نظم نگار خدایا! ,, ایسی کوئی تدبیر کر ,,میں دعا گو ہیں کہ یا خدا تو لوح محفوظ پر ہماری ایسی تقدیر لکھ کہ جس سے اس دنیا سے برائی کا نام و نشاں مٹ جائے ۔زندگی میں اتنے غم نہیں ہو کہ انسان ٹوٹ جائے ۔وہ کہتے ہیں ۔۔
یا الہی !دعاؤں میں میری ۔
ایسی تو تاثیر کر ۔۔۔
خدایا !ایسی کوئی تدبیر کر ۔۔
مجموعے میں شامل نظم ,,,گوا کے ساحل پر لیٹی ہوئی دوپہر ,, میں وہ کشمکش بھر ی زندگی سے پر سکون شام کے منتظر نظر آتے ہیں ۔
جیسا کہ ہم اوپر کہہ آئے ہیں۔کہ پرویز صاحب کی عموماَ٘ نظمیں پیغام دیتی ہیں اور نظم ,,خرد جنوں کے درمیان ,,میں وہ اللہ کی واحد ذات اور اس کے جاہ جلال کا ذکر کرتے ہوئے ۔احساس خودی کا پیغام دیتے ہیں ۔وہی نظم ,,اللّہ اکبر ,,میں کہتے ہیں کہ آج انسانوں میں خدا کا خوف ختم ہو چکا ہے ۔اس لئے وہ زوال آمدہ ہیں۔اگر اس دنیا سے نجات کا ذریعہ تلاش کرنا ہے ۔تو وہ صرف مالکِ کائنات کے راہ حق کے ذریعے ہی کیا جابسکتا ہے ۔وہ عملی طور پر ہماری رہنمائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
نظم نگار نے اپنی اکثر نظمیں علامہ کے رنگ لکھی ہیں۔
مجموعے میں شامل نظم ,,,ابلیس دور کھڑا تماشائی ہے ۔جو کافی مشہور ومقبول نظم ہے ۔جس میں موصوف انسانیت پر طنز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ابلیس جس نے انسانوں کے ذہنوں کو برگلانے کی قسم کھائی ہے ۔جس پر وہ آج بھی کمر بستہ ہے ۔لکین دور حاضر میں اس کو اس کام کے لئے زیادہ محنت مسقّت نہیں کرنی ہوتی۔ چونکہ آج خود انسان اس کے اس کام پر کامزن ہے ۔وہ تو محض تماشائی بنا ہوا ہے ۔اور پرویز صاحب نے بہت خوبصورتی کے ساتھ اپنے ان جزبات کو نظم کے ذرئعے پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔چونکہ ان کی تخلیقات کا کچھ نہ کچھ مقصد ہوتا ہے ۔لکھتے ہیں ۔
,,ساری دنیا میں ابلیس ہمہ وقت جنگ کی فراق میں رہتا ہے ۔
کیونکہ اس نے آدمیت سے ,انسانیت کی قسم کھائی ہے ۔
جنگ میں اصلاً ,دشمن بھائی کا بھائی ہے ۔
ابلس تو دور کھڑا محض تما شائی ہے ۔,,,
نظموں میں جہاں ایک طرف اسلامی تاریخ کی پوری حقیقت پیش کرتے ہیں۔ وہی دوسری طرف معاشی بدحالی کو بھی پیش کرتے ہیں ۔یہ ان کے وسیع المطالعہ, اورذہین نظر کا ہی ثبوت ہے ۔ نظم ,,۔جاگوں کسان جاگو !,,,جس میں ملک ہندوستان کی معاشی بدحالی کو پیش کرتے ہوئے کسانوں کو پیغام دیتے ہیں ۔یہ ایک اصلاحی نظم ہے ۔ہندوستان جس کی%60فیصدی آبادی مزدری کرتی ہے لکین موجدہ مشکلات کے سبب کسانوں, کو مزدورں کو ان کی محنت کا حصہ بھی نہیں مل پا رہا ہے ۔جس سبب کسان آتم ہتیہ کر رہے ہیں ۔لکھتے ہیں ۔
ندوستان جو کبھی کہلاتا تھا ۔
سونے کی چڑیا ۔
کرشی پردھان دیش تھا ۔
اسے آج عالمی سیاست کے جبر نے ۔
بازار واد کے قہر نے ۔
اس قدر کر دیا ہے مجبور ۔
کہ آتم ہتیہ کر رہے ہیں کسان یہاں ,
اور بھوکے مر رہے ہیں مزدور۔
وہ کسانوں میں ایک جوش پیدا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کسانوں اب آپ جاگ جاؤ ۔چونکہ انقلابی دور کا آغاز ہو چکا ہے ۔اب کسی کےبھی حق کی حق تلفی نہیں کی جائے گی ۔
مجموعے شامل آخری نظم,, دو قدم ,,میں کہتے ہیں کہ اگر انسان مستقبل میں عروج حاصل کرنا چاہتا ہے ۔اور اس میں آگے بڑھنے کا جزبہ ہے ۔ تو اسے خود ہی پہل کرنی ہوگی ۔یعنی تاریخیوں کو مٹانے کے لئے دو قدم اور چلنا ہوگا , آگے بڑھنا ہوگا ۔اور بڑھنے کا یہ جزبہ ہی آپ کو منزل پر پہنچا سکتا ہے ۔
اس طرح ہم دیکتھے ہیں کہ مجموعہ,, بھوک کی حمایت میں ,, میں شامل سب ہی نظمیں کلاسکل اور سنجیدہ ہیں ۔ جوموضوع ۔زبان و بیان اور فصاحت کے اعتبار سے کافی متوجہ کرتی ہیں ۔اشعار میں ایک روانی ہے ۔جس میں ایک طرف اسلامی اساطیر ہیں تووہی ہندو راؤ کیتو بھی ہیں ۔ شنکر کا ذکر ہے۔ تو قابیل اور ہابیل بھی نظر اتے ہیں ۔ ہندوستانی زندگی کی جھلکیاں ہیں تو وہی زندگی کی تلخیاں بھی ہیں ۔محنت کا جزبہ ہے ۔بڑے شہر کی تنہائیاں ہیں ۔اور بے نقاب ہوتی انسانیت وہی دوسری طرف عورت کی اہمیت۔ محنت کشوں کی روداد اور سب سے بڑ کر بھوک کی شدت جو نظم نگار کا پیش نظر رہا ہے ۔بھوک انسان سے کیا کچھ نہیں کرا سکتی ۔بھوک کی کیفیت انسان کو باغی بننے پر مجبور کر دتی ہے ۔
غرض یہ کہ مجموعے میں شامل سب ہی موضوعات ہمارے اپنے ہیں جو ماحول کی عکاشی کرتے ہیں ۔ جوعملی زنگی میں ہماری رہنمائی اور اصلاح کرتے ہیں ۔
جس بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ پرویز شہر یار صاحب ادب کے سچچے رہنما ہیں ۔ان کی نظموں میں یہ کچھ کر گزرنے کا جزبہ ہی ان کو ادب کا سچچا جانشیں بننے کے لئے اُکساتا ہے ۔ جن سے آئندہ بھی ادب کے گیشؤ سنوارنے کی امید کی جا سکتی ہے ۔,,مجموعہ بھوک کی حمایت میں,, اپنی نویت کی کتاب آپ ہے ۔جو ادب میں گرنقدر اضافہ کرتی ہے ۔جس کےلئے نظم نگار کو ڈھیر ساری دعائیں اور مبارک باد ۔۔۔۔۔
MEHMOODA QURESHI
22/78DHOLI KHAR MANTOLA AGRA FORT AGRA U.P.INDIA
pincode 282003
7417912943
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page