دیہات اور قصبوں سے بڑے شہروں کی طرف ہجرت، اس کے نتیجے میں ایک نئے شہری مڈل کلاس کا ظہور، پیچھے چھوڑ آئے کی کسک اور نئے میں رچ جانے کی جد و جہد۔۔پچھلی کچھ دہائیوں میں ہماری سماجی زندگی کا سب سے بڑا حادثہ بن گیا ہے۔ اس ہجرت کی بہت سی وجوہات رہیں جیسے اعلی تعلیم کا حصول، بہتر وسائل زندگی کی تلاش یا پھر دیہی علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کا فقدان۔ دیہات اور قصبات ہی نہیں چھوٹے شہروں سے بھی بڑے شہروں کی طرف ہجرت معمول ٹھہری۔ اس صورتحال نے بڑے شہروں میں ایک نیا مڈل کلاس پیدا کر دیا۔ اس طبقے میں مالی طور پر کمزور اور نسبتا کھاتے پیتے دونوں ہی گروہ شامل ہیں البتہ ان کی گنتی مڈل کلاس میں ہی ہوتی ہے۔ اپنے گاؤں گلیارے چھوڑ کر آنے والوں کو ہجرت اور بڑے شہروں میں خود کو ایڈجسٹ کرنے کے ساتھ ساتھ ایک اور عذاب سے بھی گذرنا پڑا جوکہ دو تہذیبوں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کے تذبذب کی شکل میں تھا۔ ایک کلچر وہ تھا جس میں ان کی پرورش ہوئی تھی اور ایک تہذیب وہ تھی جس سے بڑے شہر میں قدم دھرتے ہی ان کی مدبھیڑ ہوئی۔ گویا یہ دوہرے کردار نبھانے کا عذاب بھی اس طبقے کی تقدیر میں لکھ دیا گیا۔
یہ مسائل سب کی نظر میں آئے تو بھلا فنکاروں سے کیونکر چھپے رہ سکتے تھے اس لئے بھارتی سنیما میں بڑے غضب کی فلمیں بنیں جنہوں نے اس صورتحال کو موضوع بنایا۔ فکشن میں بھی اس پر اچھا کام ہوا لیکن جدید غزل میں تشنگی رہ گئی۔ یہ بات اس لئے بھی حیرتناک ہے کہ جدید لب و لہجہ کے شعرا کی اکثریت خود ہجرت اور اس کے لوازمات کا ذائقہ چکھ چکی ہے لیکن انہوں نے بھی اس بھرپور موضوع پر ذرا بہت سی توجہ ہی دی۔ جدید غزل میں ایک شاعر ہے جس نے اس موضوع کا حق ادا کیا، وہ ہیں شکیل جمالی۔ ( یہ بھی پڑھیں شدت احساس کا شاعر: شکیل جمالی (’’کٹورے میں چاند‘‘ کی روشنی میں) – پروفیسر خالد محمود )
شکیل جمالی چاندپور کے ہیں۔ مغربی یوپی کا نیم شہری قصبہ، جس میں پرانی تہذیب کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ نئی ہواؤں کے جھکڑ چلنے کے باوجود درخت کا زمین سے رشتہ کٹا نہیں ہے۔ مجھے اس قصبے کا اس لئے بھی پتہ ہے کہ یہ میرے قصبے سے بمشکل بیس کلومیٹر دور ہے۔ بچپن میں کتنی ہی بار بجنور یا مظفرنگر جاتے ہوئے وہاں سے گزرنا ہوا۔
شکیل جمالی چاند پور سے دلی آئے اور یہیں بس گئے لیکن جب کبھی چاندپور جاتے ہیں اور وہاں دوستوں کے ساتھ دھوپ میں کرسیاں ڈال کر بیٹھتے ہیں تو اس کی تصاویر سوشل میڈیا پر یوں شیئر کرتے ہیں جیسے کوئی اپنے رازدار کو اپنی محبوبہ کی تصویر سرشاری کے ساتھ دکھائے۔ یہ سرشاری ان کے اشعار میں بھی جابجا ہے۔
اسی دنیا کے اسی دور کے ہیں
ہم تو دلی میں بھی بجنور کے ہیں
—
ناراض ہے مجھ سے میرے بجنور کی مٹی
دلی میں گذارے ہوئے لمحات کو لیکر
شکیل جمالی نے اپنی شاعری میں ہجرت کا وہ نوحہ لکھا ہے جو مجھ جیسے کتنے ہی لوگوں کا نجی واقعہ ہے۔ دہلی آنے کے پندرہ برس بعد اور بظاہر بقیہ زندگی اسی شہر میں کاٹ دینے کے فیصلے کے باوجود میں یہ متعین کرنے سے قاصر ہوں کہ میں دہلی کا ہوں یا اپنی بستی کا؟۔ ممکن ہے سانس کی آمد و شد ختم ہونے تک اس مقدمہ کا فیصلہ ہی نہ ہو سکے۔ واقعہ یہ ہے کہ تذبذب اور اضطراب کے باوجود انہیں بڑے شہروں میں ہمیں بھی رِل جانا ہے۔ اس کو شکیل جمالی نے یوں کہا:
جینا ہے تو بن جائیے اس بھیڑ کا حصہ
ورنہ یونہی بیٹھے رہو جذبات کو لے کر
ہماری ہجرتوں کا عذاب دوہرا ہے کہ اس میں ہم ہی آزردہ نہیں بلکہ وہ ماں باپ جن کو ہم پیچھے چھوڑ آئے ان کے دلوں کے زخم ہم سے بھی گہرے ہیں۔ یہ بات دیگر ہے کہ ہمارے بہتر مستقبل کی خاطر ہماری مائیں اپنے سینوں پر سِل رکھ لیتی ہیں یا ہمارے باپ اس ایک آدھ دن کی تمنا میں مہینے اور برس کاٹ دیتے ہیں کہ ہم چھٹی ملتے ہی گھر آئیں گے۔ شکیل جمالی ان کیفیات کو کیا غضب باندھتے ہیں۔
سفر سے لوٹ جانا چاہتا ہے
پرندہ آشیانہ چاہتا ہے
—
کیا بتائیں نوکری نے باندھ کر بیٹھا لیا ہے
سال بھر سے گاؤں جانے کا ارادہ کر رہے ہیں
—
میں اکثر جھوٹ لکھ دیتا ہوں گھر پر
کہ اب کے آ رہا ہوں چھٹیوں میں
—
چھٹیوں میں جون کی گھر رونقوں سے بھر گیا
اور ہماری خاندانی کار چھوٹی پڑ گئی
یہاں شہر سے گھر جانے کی سبیل ہی امتحان نہیں بلکہ اس سے بڑا کرب اس دو چار دن کی گھرواپسی کے بعد دوبارہ پردیس کوچ کرنے کی دل شکستہ کیفیت سے گذرنا بھی ہے۔ شکیل جمالی اس موقع پر بھی کام آ گئے۔
چاند ستارے گود میں آکر بیٹھ گئے
سوچا یہ تھا پہلی بس سے نکلیں گے
ہجرت اور فرقت کے جذبات کی مار کے بعد ایک اور مرحلہ ہے جو درپیش ہوتا ہے۔ بڑے شہروں میں خود کو کھڑا کرنے کی جد و جہد۔ یہ وہ منزل ہے جب پیچھے رہ گئی زندگی کی آسانیوں کا ناسٹیلجیا گھائل کرنے لگتا ہے۔رونق اور ویرانی کے مفہوم بدلنے لگتے ہیں اور تذبذب کی ایک زودار لہر تھپیڑا بن کر ٹکراتی ہے۔ شکیل جمالی نے اس ادھیڑ بن کو اشعار کی صورت دے دی۔
اسی دنیا کے سپنے دیکھتے تھے
یہ دنیا جو عذابوں سے بھری ہے
—
ایک طرح کی گرماہٹ تھی رشتوں میں
ایک طرح کی رونق تھی ویرانی میں
—
کتنی ظالم ہے مہذب دنیا
گھر سے نکلو تو پتہ چلتا ہے
—
چہروں پہ کوئی رنگ سکوں نام کا نئیں ہے
یہ شہر بڑا ہے مگر آرام کا نئیں ہے
—
پڑوسی پڑوسی سے ہے بے خبر
مگر سب کے ہاتھوں میں اخبار ہے
شہروں کی رنگا رنگی بھی عجب ہے کہ یہ کسی کے لئے سامان عیش ہے تو کسی کے دکھوں میں اضافے کا سبب ہے۔ محدود وسائل والوں کے لئے سجے ہوئے بازار سے گذرنا خوشگوار تجربہ ہو ہی نہیں سکتا۔ جگمگاتی دکانیں پکار پکار کر اس شخص کو اس کی حیثیت بھی بتایا کرتی ہیں۔ یہی وہ حالت ہے جس کا شہری مڈل کلاس کو آئے دن سامنا ہوتا ہے۔ یہ طبقہ اس شہر کی آبائی آبادی بھی ہو سکتی ہے لیکن ان میں کثرت انہیں آوارہ وطن افراد کی ہوتی ہے جو چھوٹے شہر سے بڑی دنیا میں آئے تھے۔ شہری مڈل کلاس کی اس مستقل اذیت کو شکیل جمالی نے غزلوں کا زیور بنا دیا۔
یہ کیسے علاقے میں ہم آ بسے
گھروں سے نکلتے ہی بازار ہے
—
نگاہ ڈھونڈ رہی ہے پسند کی چیزیں
خریدنے کے لئے کچھ نہیں دکانوں میں
—
میری محنت کا جو پھل تھا وہ ہواؤں میں گیا
اس مہینہ جو کمایا تھا دواؤں میں گیا
—
کچھ طبیعت میں قناعت کی ادا بھی پائی جائے
کیا ضروری ہے کہ جو شئے اچھی لگے گھر لائی جائے
—
رعایتوں کی دل آویز تختیوں پہ نہ جا
دوکاندار کسی کا سگا نہیں ہوتا
شکیل جمالی کے بارے میں یہ بات اعتماد سے کہی جا سکتی ہے کہ جدید غزل میں شہری مڈل کلاس کے مسائل اور احساسات کو انہوں نے سب سے منفرد ڈھنگ سے جگہ دی ہے۔ اس طبقے کی روزانہ کی تگ و دو اور زندگی سے جوجھنے کے مستقل عذاب پر جتنے اشعار ان کے یہاں ملتے ہیں اتنے کم از کم میرے مطالعے کی حد تک کسی اور شاعر کے یہاں نہیں ہیں۔
قصبے چھوڑ کے آنے والوں تیز چلو
شہر میں دھیرے چلنے والا گرتا ہے
—
جی تو کہتا ہے کہ بستر سے نہ اتروں کئی روز
گھر میں سامان تو ہو بیٹھ کے کھانے کے لئے
—
کچھ طریقے بھی پرانے ہیں میرے
کچھ مسائل بھی نئے دور کے ہیں
—
کبھی قمیص کے آدھے بٹن لگاتے تھے
اور اب بدن سے لبادہ نہیں اترتا ہے
—
یہ چھٹی کا دن ہم سے مت چھیننا
یہی ہم غریبوں کا تہوار ہے
—
گھر کو جاتے ہوئے شرم آتی ہے
رات کا ایک بجا چاہتا ہے
—
میرے ہاتھوں میں نہیں ہے کوئی فرصت کی لکیر
میری تقدیر میں اتوار نہیں ہو سکتا
—
رات ہمارے گھرجلدی آ جایا کر
ہمیں سویرے کام پہ جانا ہوتا ہے
—
میرے بچوں کے مستقبل کے آگے
حمیت کیا، تشخص کیا، انا کیا
—
جانے کب یہ دوڑ تھمے گی سانسوں کی
جانے کب پیروں سے جوتے نکلیں گے
زندگی سے شہری مڈل کلاس کی یہ ہر گھڑی کی پنجہ آزمائی جس مقصد کے لئے ہے اسے شکیل جمالی ایک شعر میں بیان کر دیتے ہیں۔
اپنے خون سے اتنی تو امیدیں ہیں
اپنے بچے بھیڑ سے آگے نکلیں گے
بس یہی وہ آس ہے جس کی وجہ سے سب کچھ گوارہ کیا جاتا رہا ہے۔ شہروں میں انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندروں کا بس یہی ایک ساحل ہے۔ یہی وہ منزل ہے جس کی طرف سب دوڑے جا رہے ہیں، ایک دوسرے کو دھکیلتے اور کھوے سے کھوا رگڑتے ہوئے۔ شکیل جمالی نے یہ تصویر بھی کھینچ دی۔
رینگتی کاریں، ابلتی بھیڑ، بے بس راستے
کل مجھے گھر تک پہنچنے میں زمانے لگ گئے
ایسے میں یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان کبھی کبھی مایوس بھی ہو جاتا ہے اور حالات سے عاجز آکر پچھلی دنیا کی طرف جانے کا ارادہ بھی کرنے لگتا ہے۔ بقول شکیل جمالی:
میری قسمت مجھے پردیس سے گھر لوٹ جانے دے
یہ کھانا ہوٹلوں کا واقعی بیمار کرتا ہے
لیکن پھر وہی زندگی کی امیدیں اور خواب پاؤں کی زنجیر بن جاتے ہیں۔ اسی جد و جہد، اضطراب اور کرب کو جب ایک پیکر مل جائے وہ شہری مڈل کلاس کی زندگی بن جاتی ہے۔ شکیل جمالی اس پیکر کو اشعار کا پیراہن دیتے ہیں۔ بہت سے لوگوں بالخصوص شہری اشرافیہ کے لئے یہ باتیں ایک کورا جذباتی نوحہ ہو سکتی ہیں لیکن شہری متوسط طبقہ کے لئے یہ زندگی کی سب سے سنگین واردات ہیں۔ اس کے احساس کے لئے ان جوتوں میں پیر ڈالنا شرط ہے جو شہری متوسط زندگی اور چھوٹی آبادیوں سے ہجرت کرکے آنے والوں کا ابدی مقدر ہوتے ہیں۔ شکیل جمالی کے ہی ایک شعر میں اسے یوں کہا گیا:
ہوا کے زور کو کمرے کا بلب کیا جانے
یہ درد طاق میں رکھا دیا سمجھتا ہے
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |