کرم دین جو چماروں کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور یہی اس کا پیشہ بھی اس کی آمدن قلیل اور اخراجات زیادہ تھے۔کبھی کبھار دن میں اچھے خاصے پیسے کما لیتا اور بعض اوقات کئی دن کام کی تلاش ہی میں گزر جاتے۔یہ وہ دور تھا جب ہندو مسلم فسادات اور جلسے زوروں پر تھےلوگ نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیتےبلکہ حصولِ آزادی کی خاطر خون کا آخری قطرہ بہادینے کاعہدکرتے۔لیکن ایک ایسا طبقہ بھی تھا جو اس چکر میں پڑنے کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا ان کے لیے روزی روٹی کا مسلۂ ہی سب سے اہم تھا۔۔۔کرم دین عرف کرمو ں کا شمار بھی انہی قسم کے لوگوں میں ہوتا تھا۔اول تو وہ اس جھنجھٹ میں پڑنا ہی نہیں چاہتا تھا کہ فضولیات ہیں لیکن اگر کوئیاس پر ذکر چھیڑ دیتا تو اَن پڑھ کرموں دانش ورکا روپ دھار کر عالمانہ انداز میں تبصرہ وتجزیہ کرنے لگتا۔۔جس کا مطلب یہ ہوتا کہ آج کل جو یہ فسادات اٹھ رہے ہیں اور ہند ومسلم جوآپس میں گھتم گھتا ہیں دراصل یہ کافر انگریز کی چال ہے ورنہ ہم سب توآپس میں بھائی بھائی ہیں جو صدیوں سے امن وسکون کی زندگی بسرکررہے تھے۔یہ تمام معاملات تب ہی سے رونماہورہے ہیں جب سےانگریز یہاں آئے۔اس کا یہ نقطۂ نظر سن کر کئی لوگ داددینے والے موجودہوتے۔۔اور وہ ”اندھوں میں کانا راجا”کے مثل مزید سینہ چوڑاکرکے کئی خود ساختہ تبصرے،قصے اور مثالیں دے ڈالتا۔۔۔۔
اسی کے پڑوسی ماسٹر برکت علی تھے جو بہت شفیق استاد ہونے کے ساتھ ساتھ تحریکِ پاکستان کے زبردست حامی تھے۔ان کے نزدیک موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لیے الگ مملکت کا قیام ناگزیز تھا اور اس کے حصول کی جدوجہد میں ہمیں ہرممکن صلاحیت بروئے کار لانی چاہئے۔وہ اپنےپاس زیرِ تدریس طالب علموں کو دو قومی نظریے کا درس دیتے اور اس کے پرچار کی تلقین بھی کرتے۔۔۔یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی جلسہ وغیرہ ہوتا تو ان کے ساتھ بھاری تعداد میں نوجوان بھی حصہ لیتے اور اپنے رہنماؤں کی ہمت بندھاتے۔
تیسرےوہ ہندو بھی تھے جن کا مقصدصرف مسلمانوں کو اذیت دینا اور مزید حالات خراب کرنا تھا۔رام لعل انہی میں سے ایک تھا ویسے تو تانگے والا تھا لیکن اس کا روزمرہ معمول سواریوں کے بہانے خبریں اکھٹی کرنا،جہاں بھی مسلمان اکھٹے ہوئے یا کوئی جلسہ جلوس ہوا وہاں اپنے ساتھیوں کے ساتھ دھاوا بول دینا اور کئی زندگیوں کے چراغ گل کردینا وہ اپنا فرضِ عین سمجھتا تھا۔۔۔۔بقول رام لعل کہ ہندوستان ہمارا ہے اور یہ سرزمین ہمیشہ ہماری ہی رہے گی ہم نہ تو یہاں کسی کا قانون مانیں گے اور نہ ہی ملک کو دو حصوں میں بانٹیں گے کہ مسلمان ہمیشہ ہمارے ہی تابع رہیں گے۔۔۔۔۔
لیکن اگر مسلمانوں کی بات کریں تو وہ اقبال اور قائد کی نگرانی میں نہ صرف اپنی منزل کا تعین اور عزم کر چکے تھے بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کا ایمان مزید مضبوط اور جوش بڑھتا جارہا تھا۔
کئی ماسٹر برکت علی نئی نسل کا خون گرمانے میں مصروف تھے۔ادھر کرموں کے دن بھی پھر گئے اسے کئی جگہ کام ملنے لگا کبھی مزدوری تو کبھی کچھ
اور۔۔۔۔وہ حالات سے بے نیاز پیسہ کمانے میں مصروف تھا یہاں تک کہ ہر جائز وناجائز کام بھی کر گزرتا۔لیکن اب اس کے ہاں خوشحالی بہت تھی۔وہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہا رتھا چاہے اس کے لیے وہ ”امن کے دشمنوں”(مسلمانوں)پر ہی گولیاں داغ دیتا اور حیرت کی بات یہ کہ اسے ذرہ برابربھی ملال نہ ہوتا تھا۔نیا گھر تعمیر ہوگیا تھا،بچوں کے بیاہ کی عمر آگئی تھی اور وہ بیٹے بیٹی کی شادی کی تیاریوں میں مصروف تھااردگرد کی خبروں سے لاپرواکہ بٹوارے کاوقت آچکا ہے کبھی بھی ہجرت کا اعلان ہوسکتا ہے مسلمانوں کو ہندوستان سے اور ہندوؤں ،سکھوں کو نوزئیدہ ملک پاکستان سےہندوستان منتقل ہوناہوگا۔وہ اسے دیوانے کا خواب سمجھتا اور اسی کی طرح کئی اور لوگ بھی ۔۔۔لیکن آنکھ تب کھلی جب عین بچوں کی شادی کے دن ہر طرف گولیوں کی جھنکار سنائی دی اور دھواں ہی دھواں تھاکچھ لوگ تو اسی وقت گولیوں سے اڑادیےگے،نوجوان بچیوں دلہن سمیت اغواء کیا گیا باپ کے سامنے بیٹیوں کو بےآبرو کردیا گیا اور وہ صرف اس لیے روتی سسکتی رہیں کہ ہمارے باپ اور بھائی زندہ رہیں انہیں کچھ نہ ہو ۔۔ جب کرموں سےکہا گیا یہاں سے جاؤاپنےنئے ملک پاکستان میں تو وہ بے یقینی سےسپاہیوں کو اور کبھی اپنے گھر کو دیکھ رہا تھا کچھ لمحوں بعد گویا ہوا کہ یہی تو میرا ملک ہے ہندوستان میں کہیں نہیں جاؤں گا کسی پاکستان نہیں۔۔۔۔ یہ کہنے دیر تھی کہ گولی کی ایک آواز آئی اور اس کادھڑ بے جان ہوچکا تھا سپاہی اسے روندتےآگے جاچکے تھے۔۔۔۔
ماسٹر برکت علی بہت خوش تھے وہ جنہوں نے اپنا خون پسینہ،وقت،پیسہ ہر چیز وطن پر لٹا دی گھر بار چھوڑ بیٹی کو ساتھ لے کر نئے وطن پاکستان کو چل دیے۔یہ آدھی رات کا وقت تھا جب وہ اپنی بیوی بیٹے کو قبر میں تنہا چھوڑے،آنکھوں میں آنسو اور نئے وطن میں خوشحالی کے خواب لیے سہمے سہمے جارہے تھے کہ کسی طرح اس سرحد کو عبور کرجائیں تو پھر وہ محفوظ ہیں لیکن ایسا ہوا کچھ نہیں۔۔۔۔۔
وہ پاکستانکو جانے والی ٹرین میں بیٹھےخدا کا شکر ادا کیا لیکن ابھی کچھ ہی لمحے گزرے تھے کہ شدت پسند ہندوؤں اور سکھوں نے حملہ کردیا جو اپنے دشمنوں کو مارنے کے لیے قریب ہی جھاڑیوں میں چھپے ہوئے تھے۔بڑے بوڑوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ہر طرف آہ و بکا تھی لیکن سننے والاکوئی نہیں۔۔۔ماسٹر صاحب کی بیٹی سمیت کئی نازک کلیاں جیتے جی مسل دی گئیں ۔۔۔ ٹرین میں ایک نومولود بچی جس کی ماں کو قتل کردیا گیا حسرت ویاس آنکھوں میں لیے،خون میں لتھڑیماں کے جسم کو ٹانگیں مار مار کر جگانے لگی۔اس کی دلدوز چیخیں پورے ماحول پر طاری تھیں لیکن جس ابدی نیند اس کی ماں سورہی تھی اس سے بیدار کرنےکے پھر بھی ناکافی۔۔۔۔۔۔
ادھر پاکستان کے مقرر کردہ حدود سے لوگ جو ہجرت کرنے لگے تو کم وبیش یہی سلوک ان کے ساتھ بھی ہوا مسلمان اپنی سرحد پار مسلمان بہنوں،ماؤں ،بیٹوں کا بدلہ دشمن کی ماؤں،بہنوں اور بیٹوں سے لینے لگے اور یہ ایک خونی منظر تھا لیکن ایک بات قابلِ توجہ ہے کہ ادھر سے پاکستانیوں نے وہ حد پار نہ کی جو سرحد پار رہ جانے والی مسلم عورتوں کو برہنہ کرکے جلسے کے چکر لگوائے گئے اور سرِ عام بناتِ حوّا کو ذلیل ورسوا کیا گیا۔۔۔
کرموں کی طرح کئی لوگ جواپنی جائیداد اور دھن دولت چھوڑنے سے گریزاں تھے اور پھر مٹی کی محبت بھی اپنی جگہ تھی۔۔وہ آج بھی اپنے وہاں رہ جانے پر پچھتا اور مسلمان ہونے کی قیمت چکارہے اور شاید تاقیامت چکاتے رہیں۔۔۔۔
ماسٹر برکت علی اور ان جیسے کئی افراد جو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اپنا گھر،دھن،دولت رشتے ناطے ہر چیز چھوڑ دی پھر بھی راستے میں موت کا نشانہ بنے لیکن وہ اس بات پر مطمئن تھے کہ ان کی آنے والی نسلیں سکون سے زندگی بسر کرسکیں گی،ایک ایسا ملک جہاں انہیں نماز ادا کرنے پر کوئی روک ٹوک نہ ہوگی ،اپنے تہوار منا سکیں گے،جہاں وہ آزادی سے سانس لے سکیں گے،جسے وہ اپنا کہہ سکیں گے۔۔۔۔وہ اس بات پر متفخر تھے کہ ان کی جان اس ملکِ عظیم کی راہ میں قربان ہوئی جس کا قیام اب ناگزیز تھا،جس کے بغیر ان کی سانس لینا بھی دوبھر تھا لیکن وہ سب مرتے دم تک مسکر ارہے تھے اور ان کی کھلی آنکھیں، بریدہ جسم،خون میں لَت پَت لاشیں صرف یہی کہہ رہی تھیں ”آزادی مبارک“۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page