لڑکپن کی ناگہانی جدائی کا غم اور نوجوانی کی لمبی فراق راتوں کو گذارنے کے بعد آج جوانی کی ایک ساعت مجھ پر مہربان ہو گئی تھی۔ برسوں جدائی کا درد لیے شہروں شہروں پھرنے کے بعد آج ایک بار پھر میں گنگا کے کنارے سے ہم کنار ہونے پر یاگ راج چلا آیا تھا۔ جھوسی اسٹیشن کے سامنے سے دھیرے دھیرے کھسکتی ہماری ٹرین ایک دم کے لیے ٹھہری ہی تھی کہ میں جھٹ سے نیچے اتر آیا۔ اسٹیشن کے چاروں طرف کمبھ میلے کی باقیات اور لوٹ گئے سردھالؤں کے نشانات میرے دل پر گنگا کی عظمت اور چاہت کے نئے مہر لگا رہے تھے۔ امید کے بر خلاف ملن کی اس آن گھڑی نے مجھے ایک دم سے باولا بنا دیا۔ آج ایک بار پھر مجھے اس لذت آشنائی میں کافر ہونے کا موقع ملنے والا تھا جس نے برسوں پہلے مجھے کفر پر اکسایا تھا۔ میں اس مبارک گھڑی پر پھولے نہ سما رہا تھا۔ دوپہر کے اس سوئے ہوئے اسٹیشن پر میں نے کپڑے بدلے ہاتھ منھ دھویا۔ اٹھے ہوئے بالوں کو پانی کی تھپکی دے کر ہاتھوں سے سلانے کے بعد کندھے پر بیگ ڈال کر دریا بر آر کے ویرانوں میں اتر گیا۔ ساحل کی کھوج میں ممکنہ سمت کی طرف تیزی سے چل پڑا۔ دور دور تک ریت بالو نے میئ کی گرم دھوپ کھاکر ندی کی ربوبیت سے انکار کر دیا تھا اور اونچے اونچے ٹیلوں کی شکل میں قلعے بناکر اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا تھا۔ ان چمکتے اور تپتے ریتوں نے میرے ساتھ بھی معاندانہ رویہ اپنا رکھا تھا۔ گرم اور بھر بھرے بالو میرا راستہ روک رہے تھے۔ سورج کی تیز روشنی میں سراب بن کر کبھی گنگا کے پاس اور کبھی دور ہونے کا پتہ دے کر مجھے بھٹکانے کی کوشش کر رہے تھے۔ شاید صحرا کی اسی رقیبانہ روش نے مجنوں کو لیلیٰ کی تلاش میں صحرا نوردبنا دیا تھا۔ مجھے ان آبی ریتوں کی اس وصف صحرائی پر حیرت ہوئی۔ مجھے چلتے چلتے کافی دیر ہو چکی تھی۔ جھوسی اسٹیشن نظروں سے اوجھل ہو رہا تھا۔ شہر آہستہ آہستہ قریب آرہاتھا۔ ا ب تک گنگاکو دِکھ جانا چاہئے تھا لیکن ابھی تو صرف دریا کے آثار ہی دِکھ رہے تھے۔ میں ان آثار کے سہارے آگے کی طرف بڑھتا رہا۔ شہر کافی قریب آگیا تھا۔ اس کے مکانوں کے رنگ و روغن آنکھوں میں دھندلانے لگے تھے۔ لیکن ابھی تک گنگا کا کنارا دیکھائی نہیں دیا تھا۔ نگاہیں با ربار اس کی تلاش میں بے صبری کے ساتھ آگے کی طرف پھیل پھیل کر مایوس لوٹ رہی تھیں۔ بے چینی بڑھنے لگی تھی اداسی چھانے لگی تھی۔ گنگا کی وسعت و عظمت میری آنکھوں میں تھی۔ شاید میں غلط راہ پر آگیا تھا۔ یہ دریابرآر گنگا کی نہیں مٹتی گھٹتی جمنا کی ہوگی جو پچھلے برسات کے دنوں میں بارش کے سہارے دور دور تک پھیل گئی ہوگی اور اب شہر کے پہلو میں سمٹ کرگَندے نالوں کے سہارے بہتی ہوگی جو کچھ دور آگے جاکر کبھی اسی شہر میں کل کل بہتی ہوئی یہ پو ترندی اپنے اوپر اپنے کنارے بسنے والوں کی زیادتی اور ظلم کی داستان سناتے سناتے گنگا کے پوتراور صاف پانی میں تحلیل ہو کر مکتی حاصل کرلے گی۔ تھوڑی دیر بعد میرے ان خیالوں کی عکاسی کرتی ہوئی ندی دکھائی دے گئی۔ مجھے اپنے غلط سمت میں آجانے کا یقین ہو گیا۔ میں مایوس ہو گیا۔ ایک آدمی تیزی سے ندی کی طرف سے آرہاتھا میں اس کی طرف لپکا۔۔۔۔بھائی صاحب! بھائی صاحب! وہ ٹھہر گیا۔بھائی صاحب گنگا کدھر ہے؟ یہی سامنے۔۔۔‘ کدھر۔۔۔؟ ارے یہی آگے۔ نہیں بھائی صاحب مذاق مت کیجئے یہ تو جمنا ہے۔ مجھے گنگا بتائیے۔ اس تک پہنچنے کا راستہ دیکھائیے۔ اس کی نگاہیں مجھ پر مرکوز ہو گئیں وہ مجھ میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔ ناکامی کے بعد اس نے پوچھا اے بھائی آپ کو جانا کہاں ہے؟ جی مجھے جانا تو سنگم پر ہے لیکن گنگا کے کنارے کے ساتھ ساتھ۔۔۔۔ اچھا تو سنگم آگے کی طرف ہے۔آپ ان تٹوں کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے بھی سنگم تک جا سکتے ہیں۔ نہیں بھائی صاحب مجھے گنگا بتائیے مجھے گنگا کے ساحل کے ساتھ ساتھ سنگم تک جانا ہے وہ میری ہٹ پر جھنجھلا گیا۔ کہہ تو رہاہوں یہی گنگا ہے! کیا۔۔۔۔؟ یہ گنگا ہے؟ میرے منہ سے لگ بھگ چیخ نکلی۔ میرے اعصاب پر ایک جھٹکالگا۔ ہاں یہ گنگا جی ہیں۔ سامنے آگے جانے پر سنگم ہے جہاں دائیں طرف سے جمناجی آکر انہیں ملتی ہیں۔ گنگاجی، جمناجی، جی، جی۔۔۔ جی کا پاور بڑھ گیا چوٹ کی شدت میں اضافہ ہوگیا۔ ٹیسیں سہن کے قابل نہ رہیں تھکان عود کر مجھ پر چھائی گئی۔میں وہیں اسی کنارے پسر گیا۔ گنگا اپنی نظریں چرائے دھیرے دھیرے میرے سامنے سے سرک جانا چاہ رہی تھی۔ میں نے دیکھا سامنے اس کے سینے کو بانس بلّوں سے جکڑ دیا گیا تھا لوگ اس پر سے آجارہے تھے۔ فضا میں ایک سرانڈ تھی۔ اتنی کمزور اتنی مجبور۔۔۔نہیں نہیں یہ گنگا نہیں ہو سکتی۔ یہ میری گنگا نہیں ہے۔ میری گنگا کی عظمت و ہیبت کے آگے انسانوں کی عقل پست ہو جاتی ہے۔ دل دہل جاتا ہے۔ بھلا اس بے جان بدبودار ندّی سے میری گنگا کا کیا رشتہ۔ بدبوکا ایک ریلا آیا۔ طبیعت میں مالش پیدا ہوئی۔ چکّرآیا میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ بیٹھتے ہی ہول آنے لگا۔ میں قیئ کرنے لگا۔ قئے اور ہول سے حالت خراب ہونے لگی۔ اٹھو بھاگو، مجھ سے اٹھا نہیں گیا۔ میں وہیں سینے کو دبائے ابکائیاں لیتا رہا۔ اچانک ایک ہاتھ میرے سر اور پیٹھ کو سہلانے لگا۔ آرام مل گیا جی کو قرار آگیا۔ ابکائیاں ختم ہو گئیں۔تیری طبیعت ٹھیک نہیں ہے پتر۔۔۔ تو ادھر کیسے آگیا لو پانی لو کلی کر و۔ ایک سن رسیدہ بوڑھا سادھو میرے پاس تھا۔ بابا گنگا دیکھنے آیاتھا۔ کیا یہ گنگا ہے؟ اس اچانک سوال پر بوڑھا چکراگیا۔ اس کے چہرے پر ایک عجیب سی رنگت پیدا ہوئی۔ وہ کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ پتہ نہیں کس سوچ میں۔ وہ کافی دیر تک کھویا ہوا کھڑا رہا۔ پھر بولا لیکن پتر تو کون ہے؟ گنگا جی سے تیرا کیا سنبندھ ہے؟ کیا سروکار ہے تجھے گنگا میّا سے۔ آ میرے ساتھ آ اپنی کتھا سنا اپنے من کی وتھا سنا۔ میں اپنی کہانی سنانے لگا۔
بابااجودھیا سے جنک پور کے راستے میں ایک چنور پڑتا ہے۔ رام جی کی برات اسی چنور سے ہوکر گذری تھی۔ چنور میں پہنچتے پہنچتے کافی رات ہو چکی تھی۔ باراتی تھک چکے تھے۔ بھوک پیاس سے نڈھال آگے بڑھنا محال ہو رہا تھا۔ رام جی کی برات اسی چنور میں ٹک گئی۔ پانی کی تلاش ہوئی۔ آس پاس کہیں پانی کا نام و نشان نہیں تھا۔ لکشمن نے اپنی تیر سے دھرتی کا سینہ چھید ڈالا۔ دھرتی سے پانی کا چشمہ ابل پڑا۔ باراتیوں نے پیاس بجھائی۔ صبح کو رانگی کی تیاری ہونے لگی۔ دھرتی سے لگاتار ابلتا پانی رام جی کے پاؤں پڑ گیا۔ بھگون مجھے راستہ دیجئے۔ رہنے کا گھر دیجئے۔ رام جی کی نظر ایک بھاگتے ہوئے سیار پر پڑی۔ ”جاتو اس سیار کے پیچھے لگ جا۔ تجھے یہ راستہ دے گا۔ تجھے تیرے گھر پہنچا دے گا“۔پانی سیار کے پیچھے لگ گیا۔ اپنے پیچھے پانی آتا دیکھ سیار تیزی سے بھاگنے لگا۔ تیڑھا تیڑھی، اوبر کھابڑ، پورب، پچھّم، اتردکھن لیکن پانی نے سیار کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ سیار بھاگتے بھاگتے سیسون گھاٹ(ضلع سیوان، بہار) کے پاس سریو ندّی میں چھلانگ لگا دیا۔ اس طرح لکشمن جی کی یہ تخلیق رام جی کے سریو میں سماگئی اپنے کنارے سینکڑوں گاؤں بسا گئی۔ میں بھی رام لکشمن کی اس نرائنیاندّی (داہا ندّی) کے کنارے بسے ایک چھوٹے سے گاؤں نرائن پور میں ایک کسان کے گھر پیدا ہوا۔ہمارے گاؤں کی یہ ندّی بغیر سن و عمر میں تمیز کئے ہر بچے کو اپنی طرف کھینچتی اور ہر بچہ اس کی راہ لگ جاتا۔ مائیں اپنے چھوٹے بچوں کے ڈوب جانے کے ڈر سے انہیں راستے سے پکڑ کر لے جاتیں اور بچہ اس طرح مچل جاتا جیسے اس سے اس کی کوئی عزیز ترین شئے چھین لی گئی ہو۔ ندّی کی اس مقنا طیسی قوت نے ہمیں بھی چھوٹی عمر میں ہی اپنی طرف کھینچ لیاتھا۔ ہم ہر روز بلا ناغہ ندّی کے گھاٹ پر جا پہنچتے۔ اس کے ہولے ہولے بہتا پانی ہمارے دل میں ایک لہر پیدا کر دیتاپھر بدن سے کپڑے اترتے اور ندی کی گہرائیوں میں ہم سما جاتے۔ اس کے پانی میں دوستوں کے ساتھ دھما چوکڑی کرتے۔ ندی کے ٹھنڈے ٹھنڈے پانی میں نہاکر ہم بچے کنول کی مانند کھل اٹھتے۔ بدن ترو تازہ ہو جانا۔ دوستوں کے ساتھ پانی میں لُکا چھپی کا کھیل کھیلتے۔ ندی کے کنارے سفید چمکتے تھوڑے سے گرم بالو پر آکر آرام کرتے۔ ریت پر اپنے ننگے جسم کو چھپکاکر دیر تک لیٹے رہتے۔ ریت پر ابھر آئی اپنے ننگے اعضا کی تصویر دیکھ ایک جانی انجانی کیفیت سے سرشار ہوتے پھر کپڑے پہنتے اور کل پھر آنے کے وعدے ارادے کے ساتھ اپنے اپنے باپ داداؤں کی طرف چل پڑتے جو اسی ندّی کے کنارے رہٹ لگا کر کھیتوں کو سینچ رہے ہوتے۔ وقت تیزی سے گذر تا گیا۔ ہم ندّی کے آب دوش پر کھیلتے کھیلتے جوان ہو گئے۔ پھر ایک دن ہمیں شہر جانے والی ٹرین میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے جانے کے لیے بیٹھا دیا گیا۔ ہم اپنی ندّی سے جدائی کا غم لیے شہر آگئے۔ یہ ایک بڑا شہر تھا۔ اس کے کنارے ایک بڑی ندّی بہہ رہی تھی۔ نہیں دریاؤ بہہ رہا تھا۔ ندّی کی للک پیدا ہوئی اور میں اس کے کنارے جا پہنچا۔ باپ رے باپ اس کی عظمت و وسعت دیکھ کر میں ہیبت زدہ ہو گیا۔ میری ہمت جواب دے گئی۔ آرزوئیں مچل کر رہ گئیں اور میں سہمی مگر للچائی نظروں سے اس ندّی کو نہارنے لگا۔نہارتے نہارتے میری آنکھیں بھینگنے لگی۔ڈر کم ہونے لگا۔ میں اپنی آنکھوں کے ذریعے دھیرے دھیرے دریاؤ کے پانی میں اتر گیا۔ رات کے خواب میں دریاؤ مجھے ڈراتا رہا دھمکاتا رہالیکن میں ندّی کا شیدائی دوسری شام پھر اس کے کنارے جاپہنچا اور اپنی آنکھوں کے ذریعے دریا کے وسط میں پہنچنے کو کوشش کرنے لگا۔ گنگا پر پل بن چکا تھا۔ اسٹیمریں بیکار ہو کر کے پٹنہ کے مہیندرو گھاٹ کے کنارے لگے ہوئے تھے۔ ان کی قطار آپس میں ملتی گنگا کی بیچ تک جا پہنچی تھی۔ ایک شام انہیں اسٹیمروں سے ہوتے ہوئے میں اس آخر اسٹیمر تک جا پہنچا جو بالکل گنگا کے وسط میں کھڑا تھا۔ چاروں طرف پانی ہی پانی تھا۔ اونچی اٹھتی لہروں کا شور اور میں تن تنہا کھڑا گنگا کے سریلے سروں سے منتر مگدھ دنیا جہاں سے بے خبر ہو چکاتھا۔اس رات میرا خواب سہانا تاتھا۔ اب میں ہر شام اس آخری اسٹیمر پر جا پہنچتا۔ پانی کو چھوتا چہرے بھیگوتا اور پیر لٹکاکر پانی میں ہلکورے لگاتا۔ رات کو واپس آتا کھانا کھاتا اور سو جاتا۔ گہری نیند میں ندّی کے سپنے دیکھتا۔
ایک دن بارش سے دھلی ہوئی شام کو میں اکیلے اسٹیمر کی ریلنگ سے لگاہوا گنگا کی وسیع جہان میں کھویا ہواتھا۔ کسان اپنی سبزیوں کو بیچ کر تھوڑے تھوڑے وقفے سے اپنے موٹر بوٹوں سے گذرتے۔ موٹر بوٹوں کی آواز رہ رہ کر فضا کی سکوت کو توڑ دیتی پرندے پھڑ پھڑا کر ایکدم سے آسمان کی طرف اڑ پڑتے۔ کچھ دیر کے لیے میں گنگا کی جہان سے نکل کر اپنے آپ میں لوٹ آتا۔ شام ڈھلتے ہی گھروں کے بلب روشن ہوگئے تھے گنگا کے کنارے یہ بسے ہوئے گھر روشنی کے عکس میں گنگا کے پانی میں اتر آئے تھے اور جل ترنگ کے ساتھ ہچکولے کھارہے تھے۔ میرے نیچے ہر ہر سر سر کرتی ہوئی گنگا بہہ رہی تھی میرے سامنے ایک بھنور بن رہا تھا مجھے لگا یہ گنگا کے نیچے اترنے کا راستہ بنا رہا ہے کیا مجھے گنگا بلارہی ہے ہاں ہاں کی آواز بھنور سے پیدا ہو رہی تھی۔ میں نے اپنے ایک پیر کو اسٹیمر کی ریلنگ پر رکھ کر بھنور میں کودنے ہی والا تھا کہ کسی نے مجھے پیچھے کی طرف کھینچ لیا اور تباتوڑ دو چار تھپڑ گالوں پر جڑ دیا پھر مجھے دھکا دیتا ہوئے باہر لایا بولا ارے مرنے کا شوق ہے وہ بھی اس عمر میں کسی سے عشق لگا ہے کیا جاکسی اور جگہ سے مر یہاں سے مر کر ہمیں مروا ئے گا۔ کمر پر ایک لات جڑ دیا۔ میں گالوں کو سہلاتے گھر کی طرف چل پڑا۔
بابا اس شہر میں گنگا سے آشنائی کی وہ آخری رات تھی۔ صبح کو میں نے شہر چھوڑ دی۔ برسوں برسوں اِدھر اُدھر پھرتا رہا لیکن ندی کی محبت اور گنگا کی چاہت میرے دل میں کبھی کم نہیں ہوئی۔ آج جب وقت تھوڑی دیر کے لیے مجھ پر مہربان ہو اتو میں گنگا سے ملنے اس شہر کو چلا آیا۔ لیکن بابا اس پوتر شہر میں میری گنگا کی پوتر تاکوکیا ہو گیا۔ ابھی تھوڑے سمے ہی پہلے کمبھ کے اوثر پر لاکھوں سردھالو اس کے پوتر پانی میں نہاکر اپنی سردھاسمن ارپت کرنے یہاں آئے تھے۔ پھر بابا یہ اتنی اپوتر کیسے ہوگئی۔ کیا یہ گنگا ہے میری گنگا۔۔۔ سورگ سے اتری ہوئی گنگا؟ بابا کہیں کھو گیا تھا اس کے چہرے پر چنتا کی لکیریں ابھر آئی تھیں وہ بے حد بے چین لگ رہا تھا اس نے میرا ہاتھ پکڑا ”چلو چلتے ہیں“۔ کہاں؟”کیلاش پربت“۔ ”وہاں کیوں بابا؟“ ”بولا وہیں مہادیو رہتے ہیں۔ چلو چلتے ہیں چل کے کہتے ہیں۔ انہیں سے تیرے پرشن کی اتر پوچھتے ہیں“۔
ڈاکٹر محمد ساجد حسین
شعبۂ اردو، دیال سنگھ ایوننگ کالج،
لودھی روڈ، نئی دہلی