تنقید انسانی زندگی کے لیے جزو لا ینفک ہے۔ہر ذی روح اور ذی عقل میں یہ صلاحیت خدائے کی طرف سے ودیعت کی ہوئی ہے، اس لئے ہر ذوی العقول میں پسند اور نا پسند ،اچھائی اور برائی میں تمیز اور کھرے کھوٹے میں فرق کے اوصاف پائے جاتے ہیں۔انھیں اوصاف کے سبب انسان تنقیدی شعور سے متصف کہلاتا ہے۔نقاد جتنا زیادہ وسیع المطالعہ یا وسیع النظر ہوگا اس کا تنقیدی شعور بھی اسی قدر وسیع ہوگا۔ نقاد کو ہر طرح کے تعصبات اور جانبدارانہ رویوں سے حتی الامکان گریز کرنا چاہیے۔ذاتی مصلحتوں اور نظریاتی وابستگیوں سے قطع نظر نقاد کا سیدھا سروکار کسی بھی تخلیق کار کے فن اور متن کے حسن و قبح سے ہونا چاہیے نیزتنقید کے جتنے مدارج اوراس کے اصول اور طریقہ کار بتائے گئے ہیں ان سب سے کما حقہ واقف ہونا چاہیے۔اس کے علاوہ نقاد کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ تنقید کے تمام دبستانوں کے ساتھ تنقید کے بنیادی نظری و عملی مباحث سے بہم واقفیت رکھتا ہو ۔دیانت داری نقاد کا ایک بنیادی وصف ہے جسے کسی بھی فن پارے یا تخلیق پر تنقید کرتے وقت نہ صرف ذہن میں رکھنا چاہیے بلکہ اسے عملی طور پر برتنا بھی چاہیے۔ ان بنیادی باتوں کے علاوہ نقاد کی تحریر افراط وتفریط کے بجائے متوازن اور خیالی و قیاسی کے بجائے استدلالی ہونی چاہیے،نیز نظریاتی مباحث کو عملی طور پر مدلل انداز میں پیش کرنا چاہیے۔ ( یہ بھی پڑھیں اردو لسانیاتی مطالعات کی تاریخ -ڈاکٹر رئیس احمد مغل)
مذکورہ بالا تنقیدی اوصاف کی روشنی میں پروفیسر عنوان چشتی کی تنقیدی تحریریں زیر بحث آسکتی ہیں ۔ ان کی شخصیت ہمہ جہت ہے۔یہ بیک وقت نقاد،محقق،ماہر علم عروض،علم بدیع و بیان کے رمزشناس کے علاوہ ایک بے باک اور بے لاگ مبصر بھی ہیں۔ان سب کے علاوہ ان کی ایک اور حیثیت ایک اچھے شاعر کی بھی ہے ،یہ اور بات ہے کہ ان کی شہرت کا سارا دارو مدار ان کی شاعری پر نہیں بلکہ ان کی تحقیقی و تنقیدی خدمات پر ہے کیونکہ شعری مجموعوں میں ’نیم باز‘اور’ذوق جمال‘ کے علاوہ باقی ساری کتابیں تحقیق و تنقید سے متعلق ہیں۔عنوان چشتی کی تمام تنقیدی کتابوں کے مطالعے سے ان کے تخلیقی ذہن،تنقیدی نظریات،مثبت زاویہ فکر،غیر جانبدارنہ رویے اور استدلالی طرز بیان کا پتہ چلتا ہے۔وہ تنقید کے مروجہ دبستانوں میں سائنٹفک، تاثراتی، جمالیاتی، نفسیاتی ، مارکسی، عمرانی، تاریخی، ہیئتی اور کلاسیکی وغیرہ سے کما حقہ واقف تھے۔اس کا اجمالاً اظہارانھوں نے اپنی تنقیدی کتاب ’اردو میں کلاسیکی تنقید‘کے دیباچے میں کیا ہے جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ وہ تنقید کے جملہ دبستانوں کی تمام نظری و عملی مباحث سے اچھی طرح واقف تھے لیکن ان کی تنقید کا دائرہ ایک طرح سے سمٹا ہوا نظر آتا ہے ۔ وہ اس طرح سے کہ ان کی تنقید کا بیشتر حصہ شعری فن پاروں سے متعلق ہے اور نثری اصناف پر بہت زیادہ نہیں لکھا اس لئے ان کی تنقید کا دائرہ صرف شاعری تک محدود مانا جا سکتا ہے۔ان کے بیشتر مضامین علم عروض،علم ہیئت، اصلاح سخن اور نئے شعری تجربوں پر محیط ہیں اور اسی کی روشنی میں وہ تخلیق کاروں کی تخلیق کو پرکھتے ہیں اور اس کے حسن و قبح پر استدلالی بحث کرتے ہیں۔بہر کیف ہم نے عنوان چشتی کو ان کی تحریروں کی روشنی میں ایک ہیئت پرست ناقد کی حیثیت سے جاننے اور سمجھنے کی ادنی سی کوشش کی ہے اور یہ جاننے اور سمجھنے کی تحریک ان کی تحقیقی کتاب ’اردو شاعری میں ہیئت کے تجربے‘ کو پڑھتے ہوئے ملی۔جب ہم ادب کے تمام شعبوں پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جس طرح ہمارے ادب کے دوسرے شعبے مغربی افکار و نظریات سے متاثر ہیں اسی طرح ہماری تنقید نے بھی مغربی افکار و نظریات اور ان کی اقدار و روایات کا اثر قبول کیا مگر دونوں میں جو فرق ہے وہ یہ کہ مغربی تنقید سے متاثر ہونے والے اکثر اردو نقادوں نے اپنی زبان اور ادب کے کلاسیکی پیمانوں کو فراموش کر دیا لیکن کچھ نقاد ایسے ہیں جنھوں نے اپنی زبان و ادب کے کلاسیکی پیمانوں کو فراموش کرنے کے بجائے انھیں پیمانوں پر اپنی تنقید کی اساس رکھی ۔ایسے نقادوں میں عنوان چشتی کا نام سر فہرست رکھا جا سکتا ہے کیو نکہ مغربی تنقید کے رجحانوں اور نظریوں میں جنھیں خاص اہمیت حاصل ہے ان میں تشریحی،تاثراتی، جمالیاتی، عمرانی، سماجیاتی، مارکسی اور نفسیاتی تنقید قابل ذکر ہیں ۔ان سبھی تنقیدی دبستانوں میں ہمارے نقادوں نے کسی تخلیقی فن پارے کے زبان و بیان، لسانی دروبست اور عروضی و ہیئتی نظام سے جس طرح صرف نظر کیا ہے عنوان چشتی نے اس پر مدلل بحث کی ہے اور اس کی نشاندہی کی ہے کہ کہاں کہاں ہمارے نقادوں نے ہیئتی پہلوؤں سے صرف نظر کیا ہے مثلاً تشریحی تنقید کیا ہوتی ہے اس حوالے سے لکھا ہے کہ تشریحی تنقید اشعار کی شرح تک محدود ہے اس میں مغز نہیں چھلکا ہی چھلکا ہے،یہ افکار و اقدارکو پرکھتی ہے نہ زبان و بیان کے جمال آفریں عناصر کی جستجو کرتی ہے۔پھر بھی یہ انداز نقد شعر کی اعلا فہم کے لیے ذہن کو تیار کرتا ہے، کم و بیش یہی حال تاثراتی تنقید کا ہے ۔ تاثراتی تنقید،تاثرات کی باز آفرینی پر اکتفا کرتی ہے۔ایسا نقاد تنقید کے نام پر الفاظ و تاثرات کا ایک دلکش نگار خانہ سجا لیتا ہے اور وہ تخلیق سے جو اثر قبول کرتا ہے صرف اسی کے بیان پر اکتفا کرتا ہے اور اس کے فنی، فکری، لسانی اور ہیئتی پہلوؤں کو ایک طرح سے نظر انداز کر دیتا ہے۔اسی طرح جمالیاتی تنقید کا کام کسی بھی فن پارے میں جمالیاتی کیفیت اور جمالیاتی عناصر کی تلاش ہوتی ہے۔لیکن شعری جمالیات میں ہیئت کے عناصر کی خاص اہمیت ہے۔ جمالیاتی تنقید کے سامنے لسانی، فنی اور عروضی صحت کا کوئی متعین معیار نہیں،اس لئے یہ بھی جزوی طور پر زبان اور بیان کی اہمیت پر نظر ڈالتی ہے اور اس کوچے سے دبے پائوں گزر جاتی ہے جبکہ مارکسی تنقید کی اساس مارکس کا نظریہ ہے جسے جدلیاتی مادیت کہا جاتا ہے۔یہ بھی ادب اور سماج کی تبدیلیوں کی پیداوار اور طریقہ پیداوار کی تبدیلیوں سے وابستہ ہے۔ادب کو سماجی تبدیلی کا ایک حربہ تصور کرتی ہے اور ادب کو فرد کے تخلیقی اور ذاتی عمل سے زیادہ سماجی عمل خیال کرتی ہے۔یہ ادب و تنقید کی جمالیاتی اور ادبی اقدار پر اجتماعی،سماجی اور مقصدی افکار کو فوقیت دیتی ہے اور ادب کے فنی ، تکنیکی، لسانی اور ہیئتی پہلوئوں کو نظر انداز کردیتی ہے۔اسی طرح عمرانی تنقید بھی ہے جو قاری کو ادب کے نام پر ادب کے مضافات کی سیر کراتی ہے اور تخلیق کو ثانوی درجہ دیتی ہے ا ور اس کے فنی و خارجی دونوں پہلوؤں کو نظر انداز کر دیتی ہے ۔ اسی طرح نفسیاتی تنقید بھی ہے جو ادب کے فنی ،ہیئتی،لسانی اور اسلوبیاتی پہلوئوں سے صرف نظر کرتی ہے۔ مذکورہ بالا تنقیدی دبستانوں کے اجمالی جائزے سے اس بات کا اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ عنوان چشتی کا سارا زور ہیئتی تنقید پر ہے۔ان کی نظر میں تنقید کے تما م دبستانوں میں ہیئتی تنقید سب سے اہم ہے اس ضمن میں لکھتے ہیں:
’’ہیئتی تنقید کا کینوس بہت وسیع ہے ۔یہ ہیئت کے تمام عناصر کی تفہیم اور تجزیے پر مشتمل ہے۔ ہیئتی تنقید بنیادی طور پر ہر تخلیق کو ایک لسانی حقیقت قرار دیتی ہے۔اس لئے ہیئتی تنقید لفظ سے معنی کی طرف یعنی ظاہر سے باطن کی طرف سفر کرتی ہے۔قدیم اردو تنقید کا مزاج بنیادی طور پر ہیئتی تنقید سے ملتا جلتا ہے۔اگر مغرب کی ہیئتی تنقید اور اردو کی کلاسیکی تنقید کے اصولوں کو یکجا کر کے ان کا اطلاق فن پارے پر کیا جائے تو بعض دلچسپ مگر فکر انگیز نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں۔لیکن مغرب کی ہیئتی تنقید بھی ہیئت کے عناصر کی صحت اور عدم صحت سے واسطہ نہیں رکھتی۔یہ کام صرف اردو کی کلاسیکی تنقید انجام دیتی ہے۔اس لئے اس کا ایک منفرد اور ممتاز مقام ہے۔یہ اپنی جگہ خود مکتفی اور مکمل تنقیدی نظام ہے جو فن پارے کے لسانی ،فنی اور عروضی پہلو کو صحت اور حسن کی ضمانت عطا کرتی ہے۔‘‘(اردو میں کلاسیکی تنقید از عنوان چشتی ،ص:۹)
مذکورہ اقتباس سے عنوان چشتی کی ہیئتی تنقید سے ذہنی ہم آہنگی کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔اسی ذہنی ہم آہنگی نے انھیں اس میدان کا مرد مجاہد بنا دیا کیونکہ انھیں تنقید کے اس دبستان سے خصوصی شغف تھا ۔انھوں نے ہیئتی تنقید کو اردو میں فروغ دینے میں نمایاں کارنامہ انجام دیا ۔ چنانچہ یہی تنقید ان کو ان کے ہم عصروں سے ممتاز کرتی ہے۔ان کی تنقید نہ تو خشک ہے اور نہ ہی سطحیت کی شکار ہے،اس کی وجہ ان کا عمیق مطالعہ،دوربیں نگاہ، سخن فہمی اور تجزیاتی فکر ہے ۔جو ان کو اس منصب پر فائز کرتی ہے۔ان کی تنقید میں جارحانہ رویہ اور انتہا پسندی کا دوردور تک گزر نہیں۔معروضیت اور قطعیت ان کی تنقید کا بنیادی وصف ہے۔ان کے بیشتر تنقیدی مضامین ایسے ہیں جن میں ہیئتی اور عروضی نقطہ نظر سے ان پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ اس روشنی میں انھیں ایک ہیئت پرست ناقد کہا جا سکتا ہے۔
عنوان چشتی کے ہیئت پرست ناقد ہونے کا بین ثبوت ان کا وہ تحقیقی کارنامہ ہے جو انھوں نے ’اردو شاعری میں ہیئت کے تجربے‘ کے نام سے کیا ہے۔یہ کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے اردو میں پہلی باضابطہ تحقیقی و تنقیدی کتاب ہے جس میں مصنف نے اپنے موضوع سے متعلق تمام ممکنہ پہلوؤں کا محققانہ اور سائنٹفک انداز میں تجزیہ کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ ہماری جتنی بھی شعری اصناف مغرب سے مستعار ہیں ان کی اصل ہیئت کچھ اور ہیں جو کہ اردو میں آکر بدل گئی ہیں ۔ انگریزی کی اصل ہیئت اور اردو میں اس کی جو تبدیل شدہ صورت ہے ،اس کا بھر پور تقابلی تجزیہ کرکے دونوں میں مماثلت و افتراق کو واضح کرتے ہوئے انھوں نے تحقیق و تنقید کا حق ادا کردیا ہے۔ہمارے یہاں 1857کے بعد جو جدید شعری تجربے ہوئے وہ تجربے اردو شاعری میں کس حد تک کامیاب رہے،کامیابی اور ناکامی کے اسباب کیا تھے،ان سب کا سائنٹفک تجزیہ کیا ہے ۔مذکوہ کتاب کے ابتدائی دو ابواب میں نظریاتی بحث شامل ہے جس میں ہیئت کے مفہوم اور مترادفات سے لے کر فلسفے میں ہیئت کے تصورات ،ادبی تصور ہیئت،میکانکی اور عضوی ہیئت،مواد اور ہیئت کے علاوہ عضوی یا نامیاتی ہیئت کے تصور پر بحث کرتے ہوئے شعری تجربے اور ہیئت میں تبدیلیوں کے اسبا ب پر استدلالی بحث کی ہے اور بعد کے ابواب میں ان نظریاتی مباحث کو عملی طور پر تمام اصناف میں آنے والی ہیئتی تبدیلیوں کا تحقیقی تجزیہ پیش کیا ہے ۔نیز، مختلف علوم و فنون میں ہیئت کا جو تصور ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے اس کے اصل مفہوم تک رسائی حاصل کی ہے اور یہ نتیجہ نکالا ہے کہ:
’’یہ خالص شعری تجرید کا خارجی روپ ہوتی ہے اس میں تناسب،توازن اور ہم آہنگی ہوتی ہے اور ہر طرح مکمل ہوتی ہے۔ہیئت میں زبان ،اسلوب اور تکنیک کی خصوصی اہمیت ہے،ہیئت کی تبدیلیاں ان تمام سطحوں پر ہوتی ہیں‘‘(ص:31،اردو شاعری میں ہیئت کے تجربے از عنوان چشتی)
اس کے بعد شعری تجربہ اور ہیئت میں تبدیلیوں کے اسباب پر مفصل اور مدلل گفتگو کرتے ہوئے مختلف مشرقی و مغربی مفکرین کی تنقیدی و تجزیاتی آرا کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے:
’’کسی تخلیق میں تجربے اور تبدیلی کا ظہور محض ایک سطح پر نہیں ہوتا ۔شعری زبان،تکنیک اور ہیئت کی سطح پر ہوتا ہے۔تجربے اور تبدیلیوں کے بہت سے اسبا ب ہیں مگر ہیئت کا ہر تجربہ شعری تجربوں کے بطن سے نمودار ہوتا ہے اگر اس عمل سے نہیں گزرتا تو وہ اصل شعری تجربہ نہیں ہوتا۔‘‘(ص:55،اردو شاعری میں ہیئت کے تجربے از عنوان چشتی(
جیسا کہ اس سے قبل اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا کہ 1857میں ملک پر انگریزوں کے تسلط کے بعد ہمارے یہاں مغربی افکارو نظریات ،ان کے اسالیب بیان،طرز فکر وغیرہ کو بڑی تقویت ملی اور وہ تقویت انگریزی شاعری اور نثری تصانیف کے تراجم اور مغربی افکار و خیالات کے فروغ سے ملی۔اس ہنگامہ خیزی کے بعد جہاں سماجی ،معاشرتی اور اقداری سطح پر بہت ساری تبدیلیاں رونما ہوئیں، وہیں شعری و ادبی سطح پر بھی تبدیلیاں ہوئیں اور یہ تبدیلیاں ہمارے یہاں دو سطحوں پر ہوئیں، ایک جدید ہیئتوں اور نئی روایتوں کی شکل میں اور دوسری قدیم اصناف میں نئے تجربوں کی صورت میں۔پہلی سطح پر صوتی قوافی،مصرع کا نیا تصور،اوزان کا تنوع،استیزافارم کے تحت بندوں کی نئی تشکیل،نظم معرا،نیا تصور نظم، اور دیگر اثرات نمایاں ہیں۔دوسری سطح پر مثنوی، مرثیہ ،رباعی، اور غزل وغیرہ میں نئی ترتیب وتنظیم کی جھلک ملتی ہے۔عنوان چشتی نے کتاب کے تیسرے باب میں انھیں تبدیلیوں اور تجربوں کا بھر پور تجزیہ پیش کیا ہے ،اسی کے ساتھ ہندی اصناف و اسالیب میں عظمت اللہ خاں نے جس طرح کے مسلسل شعری تجربے کئے اور بقول عنوان چشتی’اپنے شعری نقطہ نظر کی بنیاد ہندی پنگل پر رکھی ہے اور ان تما م آزادیوں کو جائز کیا ہے جو پنگل کا طرئہ امتیاز ہے‘‘ اس طرح عظمت اللہ خاں نے نظریاتی اور عملی طور پر جس طرح اردو شاعری کو متاثر کیا اور ان کی شاعری میں ہندی کی جو ہیئتیں مثلاً پنگل،ماترائی چھند،بشرام،گت،ورنک چھند وغیرہ استعمال کرتے ہوئے اردو میں جو نیا شعری وہیئتی تجربہ کیا ہے، مصنف نے ان سب پر ،ان کی نظموں کی روشنی میںبھر پور اظہار خیال کیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ اردو شعرا پر ہندی ہیئتوں اور ہندی شعرا پر اردو ہیئتوں کا اثر کس حد تک ہے۔اس طرح عظمت اللہ خاں کی جد وجہد سے اردو شاعری پر ہندی چھندوں اور اسالیب کے امکانات واضح ہوئے اور دوسرے شعرا نے بھی اپنے ذوق و شعور کے مطابق ہندی سے استفادہ کیا۔اس طرح پہلی بار عنوان چشتی نے اردو شاعری میں ہندی کے چھندوں کی دریافت کر کے ان کے نام تجویز کئے ۔ ان میں سار چھند،سرسی چھند،ہر گیتا چھند، اور دوہا چھند قابل ذکر ہیں۔انھوں نے اپنے تحقیقی مضمون ’’نئی اردو ہندی غزل کا عروضی مطالعہ‘‘جو ان کی مشہور کتاب ’اردو میں کلاسیکی تنقید ‘میں شامل ہے، یہ ثابت کیا ہے کہ اردو شعرا نے چھندوں کو کس طرح سے اپنی شاعری میں برتا ہے اور ہندی کے کوِیوں نے کس طرح اردو کی بحروں کو اپنی کوِتا میں برتا ہے۔ان تمام مباحث سے عنوان چشتی نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ ملاحظہ کیجیے:
’’شروع سے ہی اردو شاعری پر ہندی شاعری کا اثر رہا ہے۔اردو شاعری نے ہندوستانی سنسکِرتی ،دیو مالا اور ہندو دھرم سے شکتی حاصل کی ہے۔اردو کی ابتدائی شاعری میں بھی ہندی شاعری کے چھندوں کا چلن ملتا ہے۔لوک گیتوں کی دُھنوں ،راگ راگنیوں اور روپوں (Forms)کا اثر بھی دکھائی دیتا ہے۔آدھونِک اردو غزل میں ،خاص طور پر پاکستان کی اردو غزل میں ہندی چھندوں کو اپنانے کا رجحان بہت تیز ہے۔اگر یہ لیَ اور تیز ہوئی اور دونوں زبانوں کے فنکاروں نے ایک دوسرے کے چھند شاستر یا عروض سے زیادہ فائدہ اٹھایاتو ہندی اور اردو غزل دونوں کو نئی طاقت،نئی دِشا اورنئی فضا ملے گی۔‘‘ (ص:40،اردو میں کلاسیکی تنقید از عنوان چشتی)
عنوان چشتی نے مذکورہ اقتباس میں اردو اور ہندی شعراسے جو امیدیں وابستہ کی تھیں وہ تو پوری نہیں ہوئیں، البتہ انھوں نے دونوں زبانوں کے شعرا کو اس جانب متوجہ کرنے میں ضرور کامیابی حاصل کی ہے۔اس طرح اگر کسی بھی شعری فن پارے کا عروضی ،صوتیاتی یا لسانی تجزیہ کیا جاتا ہے تو وہ ہیئتی تنقید کے ہی ذیل میں آتا ہے ۔ عنوان چشتی نے ’دیوان غالب کا عروضی تجزیہ ‘ ’اصغر کی شاعری کا عروضی تجزیہ‘اور ’مراثی دبیر کا عروضی جائزہ‘ پیش کر کے اپنی عروض دانی کا نہ صرف ثبوت پیش کیا بلکہ جن شعرا نے عروض اور اس کے فن سے انحراف کیا ان کی سخت گرفت بھی کی۔ان مضامین کے مطالعے سے عنوان چشتی کے قواعد،بلاغت، زبان و بیان، شعری صنائع بدائع،اور علم عروض وغیرہ پر کامل دسترس اور گرفت کا اندازہ ہوتا ہے۔ان کی مختلف طرح کی فنی ،عروضی، لسانی اور دیگر تنقیدی تحریروں میں تجزیاتی اور استدلالی وصف نمایاں نظر آتا ہے اور تنقیدی معروضیت اور تحقیقی صداقت کی جھلک صاف اور واضح نظر آتی ہے۔عنوان چشتی نے اردو گیت کی ہیئت پر بھی قدرے تفصیلی بحث کی ہے اور گیت اور گیت نما نظموں میں ہیئت کے اعتبار سے جو فرق ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’گیت اور گیت نما نظموں میں ہیئت کے اعتبار سے فرق ہے۔ گیت کو جو گیت بناتی ہے وہ ٹیک کی پنکتی اور اس کا مددگار مصرع ہے۔محض یہ دونوں چیزیں بھی کافی نہیں بلکہ اس میں غنائی شاعری کی داخلی خصوصیات بھی ہونی ضروری ہیں جن میں بول چال کی زبان ،لہجہ کی نسوانیت،عورت کی طرف سے اظہار محبت،جذبے کی شدت،داخلیت اور موسیقیت کے عناصر خاص اہمیت رکھتے ہیں۔‘‘(ص:158،اردو شاعری میں ہیئت کے تجربے از عنوان چشتی)
اس طرح سے عنوان چشتی نے اردو گیتوں پر ہندی گیتوں اور لوک گیتوں کے اثرات عشرت رحمانی،امانت،آغا حشر،عظمت اللہ خاں اختر شیرانی،حفیظ جالندھری اور دیگر شعرا کے کلام کے تجزیے سے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ کس کے گیت میں جدید گیت کی ہیئت استعمال کی گئی ہے اور کس میں نہیں۔مثلاًامانت اور آغا حشر کے گیتوں میں گیت کے دیگر لوازم تو موجود ہیں لیکن ان کی کوئی ہیئت متعین نہیں ہے۔البتہ گیت کی جدید ہیئت کا نقش اگر کسی کے گیتوں میں ملتا ہے تو وہ اختر شیرانی ہیں۔ بقول عنوان چشتی:
’’ان کے یہاں گیت کے تمام داخلی و خارجی عناصر ملتے ہیں۔گیت کی ہیئت کا جتنا گہرا شعور اختر شیرانی کو ہے ان سے قبل کسے دوسرے شاعر کو نہیں‘‘(ص:161،اردو شاعری میں ہیئت کے تجربے از عنوان چشتی)
اختر شیرانی کے بعد جن لوگوں نے اس روایت کو آگے بڑھایا اور کامیاب گیت لکھے ان میں حفیظ جالندھری قابل ذکر ہیں۔حفیظ جالندھری نے گیت کی جدید ہیئت کو بھر پور انداز میں برت کر اس صنف میں اپنی انفرادی شناخت قائم کی۔
اردو گیت کے بعد ہمارے یہاں جو نیا شعری تجربہ ہو ا اور جو نئی شعری ہیئتیں اردومیں وجود میں آئیں، وہ سب دوسری زبانوں سے مستعار ضرور ہیں لیکن اردو میں ان کی اپنی الگ صنفی شناخت ہے ۔ ہر عہد میں کچھ نہ کچھ شعری اصناف میں نئے نئے تجربے ہوتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔بہر کیف اردو میں جو جدید شعری تجربے ہوئے ان میں آزاد نظم ، نظم معرا، نثری نظم،سانیٹ ،ہائیکو اور ترائیلے وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ان تمام اصناف میں جو تجربے ہوئے وہ صرف صنفی سطح پر نہیں ہوئے بلکہ موضوع، اسلوب،اور ہیئت وغیرہ سبھی میں تجربے ہوئے۔انیسویں صدی کے نصف آخر میں اولاً آزاد اور حالی کے یہاں موضوعات کے تجربے ہوئے اور اس کے بعد شرر،نظم طباطبائی ،اور اسماعیل کے یہاں ہیئت کے تجربے ہوئے اور پھر بعد میں مغربی اصناف میں آزاد نظم اور نظم معرا میں تجربے ہوئے جو کہ کامیاب بھی رہے۔ لیکن کچھ اصناف یا ہیئتیں ایسی تھیں جنھیں اردو میں برتنے کی پوری کوشش کی گئی لیکن وہ ناکام ثابت ہوئیں ان میں سانیٹ،ہائیکو اور ترائیلے قابل ذکر ہیں۔اردو شعرو ادب میں ایسے تجربات بہت کم ہیں جو خالص اس کے اپنے ہوں کیونکہ بیشتر دوسری زبانوں سے مستعار ہیں۔جو تجربے فارسی ، عربی اور انگریزی زبان و ادب میں پہلے ہوچکے ہیں ہمارے شعرا نے انھیں ہیئتوں کو لے کر اردو زبان وادب میں تجربے کئے ہیں۔مثلاً آزاد نظم کی جو ہیئت انگریزی میں ہے وہ اردو میں نہیں ہے ۔ اس پر عنوان چشتی نے ’آزاد نظم کی ہیئت‘ کے تحت تنقیدی و تجزیاتی محاکمہ پیش کیا ہے جس سے انگریزی کے Free Verseاور اردو کے آزاد نظم کی ہیئت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اسی طرح ایک اور شعری اور ہیئتی تجربہ نظم معرا ہے جسے انگریزی میںBlank Verseکہتے ہیں ہمارے یہاں کیا گیا۔یہاں بھی آزاد نظم کی طرح انگریزی میں نظم معرا کی ہیئت کچھ اور ہے اور اردو میں کچھ اور ہے۔مثلاً انگریزی میں قافیہ کی بنیاد صوتی آہنگ پر ہے جب کہ اردو میں حروف و حرکات پر ہے۔انگریزی میں قافیے کا نظام اتنا سخت نہیں جتنا اردو میں ہے۔اردو میں نظم معرا نے انگریزی کے بلینک ورس کی ایک خصوصیت کو اپنایا اور دوسرے سے انحراف کیا۔جس خصوصیت کو اپنایا وہ قافیہ سے انحراف ہے اور جس کو نہیں اپنایا وہ ایک بحر کی پابندی ہے۔یہ دونوں شعری تجربے اردو میں کامیاب رہے، اگرچہ ان میں ہیئتی سطح پر تبدیلیاں بھی ہوئیں ۔عنوان چشتی نے اس پر تفصیلی بحث کر کے اس کے تمام تر خد و خال کو واضح کر دیا ہے ۔ ان مباحث کو پڑھتے ہوئے کسی طرح کی پیچیدگی یا دشواری پیش نہیں آتی ،اس کی وجہ یہ ہے کہ نقاد کا نصب العین بالکل واضح ہے۔
مذکورہ دونوں شعری ہیئتوں کے علاوہ کچھ اور جدید شعری ہیئتیں ہیں جن پر عنوان چشتی نے تفصیلی بحث کی ہے۔ ان میں ایک شعری ہیئت سانیٹ کی ہے۔یہ غنائی شاعری کی ایک مقبول ترین ہیئت ہے۔یہ اطالوی زبان سانیتو سے مشتق ہے جس کے معنی آواز کے ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی ہیئت ہے جس کے لئے چودہ مصرعوں کی حد اور ایک مخصوص بحر متعین ہے۔اس کے مصرعوں میں قوافی کی ترتیب ایک خاص مقررہ اسکیم کے تحت ہوتی ہے۔اس میں کسی ایک جذبے یا خیال کا اظہار کیا جاتا ہے۔غنائیت اس کا لازمی عنصر ہے۔لیکن یہاں بھی یہ بات قابل غور ہے کہ سانیٹ اگرچہ انگریزی کے توسط سے آیا ہے لیکن اردو میں اس کی ہیئت اور تکنیک وہ نہیں جو انگریزی میں ہے کیونکہ اردو میں سانیٹ کے لیے کوئی ایک بحر مقرر نہیں ہے جب کہ انگریزی میں اس کے لئے ایک بحر آئمبک پنٹا میٹر مخصوص ہے۔اس میں ہیئتی اور مو ضوعاتی دونوں سطح پر تجربے ہوئے اور کچھ حد تک کامیاب بھی رہے لیکن آج یہ تقریباً ختم ہوچکی ہے۔سانیٹ کے علاوہ جو دوسرا نیا شعری تجربہ ہوا وہ ’ہائیکو‘کا ہے۔یہ بھی ایک جاپانی شعری ہیئت ہے مگر اردو میں یہ بھی انگریزی کے ہی توسط سے داخل ہوئی ،یہ موضوع اور ہیئت دونوں اعتبار سے مختصر ترین ہے۔مختصر ترین اس لئے کہ اس میں صرف تین مصرعے ہوتے ہیں۔پہلے مصرع میں پانچ دوسرے میں سات اور تیسرے میں پانچ صوتی آہنگ ہوتے ہیں یعنی پوری نظم سترہ صوتی آہنگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔پہلا اور تیسرا مصرع برابر اوردوسرا یا درمیان کا مصرع بقدر صوتی ان سے بڑا ہوتا ہے۔گویا ہائیکو موضوع اور ہیئت دونوں اعتبار سے کچھ خاص شرائط کی پابند ہے۔یہ شعری تجربہ بھی اردو میں بہت زیادہ مقبول نہیں ہوا۔ایک تیسرا نیا شعری تجربہ جو اردو میں ہوا وہ ’ترائیلے‘ کی ہیئت ہے۔یہ ہیئت فرانسیسی شاعری کی ایک مقبول صنف ہے ۔ یہ بھی اردو میں انگریزی کے توسط سے ہی داخل ہوئی۔اس میں آٹھ مصرعے ہوتے ہیں جس میں صرف دو میں قوافی ہوتے ہیں جس کی ترتیب اس طرح سے ہے الف ب الف الف الف ب الف ب۔اس میں پہلا مصرع تین بار دوسرا مصرع دو بار دہرایا جاتا ہے یعنی پہلا چوتھا اور ساتواں مصرع ایک ہی ہوتا ہے اور دوسرے مصرعے کو آٹھواں مصرع بنا دیا جاتا ہے۔ اس طرح ترائیلے میں صرف پانچ مصرعوں کو ترتیب دے کر آٹھ مصرعوں کی نظم بنا دی جاتی ہے۔
مذکورہ تمام شعری ہیئتوں کے داخلی و خارجی دونوں پہلوؤں پر عنوان چشتی نے ہیئتی تنقید کی ہے لیکن بعض تحریریں ایسی بھی ہیں جن میں اپنے آپ کو صر ف خارجی پہلوئوں تک محدود رکھا ہے۔ اردو شاعری میں جو تجربے ہوئے اور ان تجربوں اور تبدیلیوں میں جو چیز سب سے پہلے متاثر ہوئی وہ موضوع ،مواد اور انداز فکر ہے۔ اس کے بعد شاعری کی ہیئت میں تبدیلی آئی ہے جس کا ذکر ماقبل صفحات میں کیا جا چکا ہے۔عنوان چشتی کی ہیئتی تنقید کا بہترین نمونہ ان کی معروف کتاب’حرف برہنہ‘کے مفصل اور مختصر تبصروں کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس میں انھوں نے اخترالایمان کے ’سروساماں‘ اوربشیر بدر کے شعری مجموعے ’آمد ‘پر ہیئتی نقطہ نظر سے روشنی ڈالی ہے۔یہ بات بدیہی ہے کہ جب بھی ادب اور فن پر کسی تجربے کا عمل ہوتا ہے تو اس کے اثرات پہلے افکار کی سطح پر محسوس ہوتے ہیں پھر اس کے موضوع و مواد کی باری آتی ہے۔اس کے بعد ہیئت میں تبدیلی کا عمل شروع ہوتا ہے۔اس لئے ہیئت کے تجربے کی جڑیں ایک طرف شاعر کے اپنے تخلیقی تجربے میں پیوست ہوتی ہیں اور دوسری طرف اس کے پس پردہ زبردست تہذیبی ،سماجی،نفسیاتی اور دیگر محرکات کار فرما ہوتے ہیں۔اسی روشنی میں عنوان چشتی نے اپنی تنقیدی آرا کو پیش کیا اور اخترالایمان کی نظموں کو پڑھ کر جو محسوس کیا وہی لکھا، ہیئتی اعتبار سے اخترالایمان کی نظمیں کیسی ہیں اس میں’نامیاتی ہیئت‘کی دریافت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’انھوں نے تجربہ برائے تجربہ کی غیر ادبی روایت پر عمل نہیں کیا بلکہ ان کی نظموں کی ہیئت ان کے جمالیاتی تجربوں اور زبردست خارجی محرکات کے دباؤ سے وجود میں آئی ہے۔ان کی بعض نظموں پر پابندی کا گمان ہوتا ہے ،مگر غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ نہ تو وہ کسی قدیم اردو ہیئت میں ہیں اور نہ ہی مغربی ادب سے اردو میں رواج پانے والی روایتی ہیئتوں میں۔بالکل یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ اکثر نظموں میں عروضی آہنگ کی روایت اور قوافی کے استعمال کے علاوہ سب کچھ غیر رسمی ہے اور اکثر اچھی نظموں کی تکنیک اسی سے شروع ہوتی ہے اور اسی پر ختم ہوتی ہے۔یہ اخترالایمان کی نظموں کی نامیاتی ہیئت کا جمالیاتی ثبوت ہے۔‘‘(ص:33-34،حرف برہنہ از عنوان چشتی)
اس طرح عنوان چشتی نے جہاں اختر الایمان کی نظموں میں’نامیاتی ہیئت ‘کی نشاندہی کی ہے وہیں انھوں نے ان کی نظموں اور کئی دیباچوں کی مدد سے انھیں بنیادی طور پر مذہب اور اس کے روحانی و معاشرتی انسلاکات سے وابستہ کر دیا ہے اور اس بات پر اصرار کیا ہے کہ ہر چند اختر الایمان اپنے مذہبی رجحان کا کھل کر اقرار نہیں کرتے ،لیکن ان کی شاعری کا در و بست اس کا غماز ہے۔ اور دلیل کے طور پر ان کی دو نظمیں ’مسجد‘اور ’کوزہ گر‘ پیش کی ہیں۔ٹھیک اسی طرح بشیر بدر کے شعری مجموعہ’آمد‘ پر جہاں جمالیاتی اور رومانی نقطہ نظر سے تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے اس کے شعری محاسن و معائب کی گرفت کی وہیں ہیئتی نقطہ نظر سے ان کی غزلوں کا محاکمہ کیا اور یہ بتایا کہ غزل کی جمالیات میں ہیئت کا خاص مقام ہے اس لئے غزل شعریات کی روشنی میں بھی غور کرنا چاہیے۔ہیئت کے دو پہلو ہیں ایک داخلی اور دوسرا خارجی۔ پہلا معنی اور اس کے متعلقات کی تمام سطحوں کو محیط ہے۔جبکہ دوسرا لسانی ،فنی اور عروضی پہلوؤں پر مشتمل ہے ۔اچھی اور سچی شاعری کے لیے مذکورہ دونوں پہلوؤں کا صحت مند،مسرت خیز اور بصیرت افروز ہونا ضروری ہے۔ وہ شاعر جو لسانی ،فنی اور عروضی نقطہ نظر سے صحیح شاعری نہیں کر سکتا وہ اپنے ذریعہ اظہارکو جھٹلاتا ہے۔جو شاعر اپنے میڈیم کا احترام نہیں کرتا وہ شاعری کیا خاک کر سکتا ہے۔اگر ’آمد ‘پر اس نقطہ نظر سے غور کیا جائے تو بہت ہیبت ناک صورتحال سامنے آتی ہے چنانچہ انھوں نے آمد کا لسانی، فنی اور عروضی تجزیہ کر کے بشیر بدر کے تمام کھوکھلے دعوؤں کی قلعی کھول دی اور ہیئتی اعتبار سے بشیر بدر کی شاعری میں’ایطا‘جو قافیہ کا بد ترین عیب ہے اور ’اجتماع ردیفین‘جو شاعر کے عجز بیان کو ظاہر کرتا ہے اور شعر کی ہیئت کے جمال کو تباہ کرتا ہے اور ’شکست ناروا‘جیسا عیب شعری ہیئت پر کس طرح منفی اثرات مرتب کرتا ہے ان سب پر استدلالی بحث کی ہے،نیز ’شترگربہ‘’سقوط حرف علت ‘’الفاظ کا غیر موزوں اور غلط استعمال‘نیز بحر سے خارج اشعار کی روشنی میںکلام کا تجزیہ کیا ہے مذکورہ عیوب کی نشاندہی کرتے ہوئے عنوان چشتی نے یہ لکھا کہ یہ سارے نقائص ان کی شاعری میں تواتر کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔آمد کا تفصیلی تجزیہ کرکے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ ملاحظہ کیجیے :
’’آمد کے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان کی شاعری میں کچے جذبوں کے غیر مہذب جھاگ ہیں،نابالغی کی نفسیات کا اثر ہے،ذہنی بلوغت اور رومانی صحت کا دور دور پتا نہیں۔البتہ ’آمد‘ میں چند اشعار ایسے ضرور ہیں جو کچی رومانیت کے ذیل میں آتے ہیں اور وہ ذوق سلیم کی شکست اور ذہنی کج روی کا شکار نہیں ہیں۔اگرچہ ان میں کوئی خاص تصور حسن و عشق یا رومانی قدر نہیں،مگر پھر بھی غنیمت ہیں۔لیکن آمد کا زیادہ حصہ سطحی جذباتیت،غیر مہذب رومانی افکار،اور نا پختہ ذہنی حالت کے آئینہ دار ہیں۔جہاں تک آمد کے ہیئتی یا خارجی پہلو کا تعلق ہے یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ بشیر بدر کی شاعری لسانی، فنی اور عروضی اغلاط کا اشتہار ہے۔‘‘(ص:71-72،حرف برہنہ از عنوان چشتی)
یہ ہے عنوان چشتی کی ہیئتی تنقید جو ان کو اپنے ہم عصروں سے ممتاز کرتی ہے۔ساجدہ زیدی کے لفظوں میں کہ انھوں نے اگر ایک طرف جمالیاتی پہلوئوں کا ادراک کیا ہے اور شعری محاسن و معائب کی نقاب کشائی کی ہے تو دوسری طرف شاعر کے مخصوص مفاہیم کی بازآفرینی کے ذریعہ شعری اور فکری جہتوں کا احاطہ بھی کیا ہے،اگر عروضی مسائل شد و مد سے اٹھائے ہیں تو اسی باریک بینی سے شاعر کے شعری رجحانات کی نشاندہی بھی کی ہے۔ایسی تنقیدوں میں عنوان چشتی کے اسلوب میں رچاؤ اور زبان میں شعری آہنگ نظر آتا ہے ساتھ ہی معروضیت اور توازن کی کار فرمائی بخوبی دیکھی جا سکتی ہے۔مذکورہ تمام مباحث کی روشنی میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ عنوان چشتی وہ ایک ہیئت پرست ناقد تھے کیونکہ انھوں نے فن پاروں کی ہیئت ،اس کی تکنیک،اس کے اسلوب اور زبان و بیان کا نہ صرف تجزیہ کیا ہے بلکہ فن پارے کی روح میں اتر کراس کی تشریح وتعبیر پیش کی ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
[…] تحقیق و تنقید […]