ترجمہ کی روایت اتنی ہی پرانی ہے،جتنی خود انسان کی۔اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اردو میں ترجمہ کی روایت زبان کے ابتدائی دنوں سے ساتھ ہے۔انسان جیسے جیسے آگے بڑھتا جا رہا ہے،اسے ہر طرح کے علوم سے واقفیت بھی بڑھتی جارہی ہے۔اس کی واضح مثال’گوگل ٹرانسلیشن‘کے روپ میں دیکھی جاسکتی ہے۔گو کہ’گوگل ٹرانسلیشن‘ابھی اپنے ابتدائی دور میں ہے،لیکن اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔تر جمہ کسی بھی علوم کا ہو،اور کسی زمانے میں ہو کبھی بھی آسان نہیں رہا۔کیونکہ ترجمہ کرتے وقت صرف ان دونوں زبانوں سے واقفیت ہی ضروری نہیں ہے،بلکہ لفظوں کو اس کی تہذیبی روایت کے ساتھ جاننا بھی ضروری ہے۔ترجمہ کرتے وقت ایک لفظ کے کئی معنی ذہن میں آتے ہیں،لیکن کون سا لفظ زیادہ مناسب ہوگا،یہ تبھی ممکن ہے،جب مترجم دونوں زبانوں کی تہذیب سے اچھی طرح واقف ہو۔ مثلاًبنگالی زبان کے کسی فن پارے کا ترجمہ کرتے وقت ذہن میں یہ ہونا چاہیے کہ Rice کے معنی چاول کریں ،پلاؤ کریں یا بھات۔یہ تبھی ممکن ہے جب مترجم اس زبان کی لفظیات سے اچھی طرح واقف ہو۔ترجمہ تو بہت لوگ کرتے ہیں،اور بہت سے لوگوں نے کیا بھی ہے،لیکن بحیثیت مترجم کچھ ہی لوگ معروف ہوتے ہیں۔اس کی یہی بنیادی وجہ ہے۔ادب پارے کا ترجمہ کرنا کسی قدر آسان ہوتا ہے،بالمقابل سائنس اور دیگر علوم کے۔کیونکہ ان علوم میں اصطلاحات کا وضع یک بڑا مسئلہ ہے۔اس لیے ان اصطلاحات کا ترجمہ کرنا دشوار کام ہے۔طبی ترجمہ نگاری ان دشواریوں سے الگ نہیں ہے۔اردوطبی تراجم کی دنیا میں کام کرنے والوں کو جب تک عربی،فارسی،انگریزی اور اردو پر مکمل دسترس نہیںہوگی،واس میدان میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ویسے طب کے حوالے سے اردو میں جو کتابیں موجود ہیں وہ عام طور پر ترجمہ ہی ہیں۔البتہ ترجمے تو کچھ بہت اچھے ہیں،اور کچھ زبان کے حوالے سے کمزور بھی ہیں۔لیکن سمجھنے سمجھانے کے لیے اس کی اہمیت سے انکار نہیںکیا جا سکتا۔
طبی ترجمہ نگاری میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔کیونکہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جہاں انسانی زندگی بالواسطہ طور پر شامل ہوتی ہے۔اصطلاح کے علاوہ اور دیگر چیزیں ہیں،جنہیںقریب سے جاننے کی ضرورت ہے۔کوئی بھی چیز جتنی آسان دکھتی ہے ،بسا اوقات معاملہ اس کے بالکل خلاف ہوتا ہے۔کہیں کہیں زبان کا استعمال اس طرح کیا جاتا ہے کہ وہ مضحکہ خیز معلوم ہونے لگتا ہے۔اس کی مثال ملاحظہ ہو:
’’تھرمسبس[Thrombosis] یعنی منجمد خون کا قتلہ عموما رگ دل کے کسی تنگ حصے میں ہی بنتا ہے رگ کی یہ تنگی اتھیرواسکلیروسس[Athero sclerosis] کا سبب ہوتی ہے۔یہ ایک عمل ہے جس میں آہستہ آہستہ طویل مدت میں چربی کی چھوٹی اور باریک تہیں رگوں کی اندرونی دیواروںپر جم جاتی ہیں۔جب رگ دل 70 فی صد ی سے زیادہ تنگ ہوجا تی ہے تو قلبی عضلے یا پٹھے کو آکسیجن کافی نہیں پہنچ پاتی۔جسمانی ورزش یا دماغی محنت یا زور کی کیفیت میں جب دل کو معمول سے زیادہ محنت کرنی ہوتی ہے تو آ کسیجن کی ضرورت نسبتا زیادہ ہوتی ہے۔‘‘
(اپنے دل کی حفاظت کیجیے۔مترجم:نذیر احمد مینائی۔مکتبہ جامعہ،لمیٹڈ،نئی دہلی۔ 1992۔ ص،13)
درج بالا اقتباس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مترجم نے بہت احتیاط سے کام نہیں لیا۔ورنہ انگلش کے الفاط اردو رسم الخط میں نہیں لکھتے۔ویسے انگریزی کو اسی کے رسم خط میں لکھنے کا ایک بنیادی فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اسے آسانی سے پڑھا جا سکتا ہے۔اور نہ آنے کی صورت میں لغت سے رجوع بھی کیا جا سکتا ہے ۔ایسے میں دشواری یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس کا تلفظ کیسے ادا کیا جائے۔مترجم نے لکھا ہے’چربی کی چھوٹی اور باریک تہیں رگوں کی اندرونی دیواروں پر جم جاتی ہیں۔‘یہاں پر لفظ’اندرونی دیواروں‘ کا استعمال کسی بھی صورت مناسب نہیں۔کیونکہ دیوار کا جو تصور ہے،اور جس معنی میں استعمال ہوتا،وہ انسانی جسم کے لیے کیونکر ممکن ہے۔البتہ اگر مترجم ’رگوں کے اندرونی حصے،لکھتے تو زیادہ مناسب ہوتا۔کیونکہ اصل سے قریب ترین یہی ہے نہ کی ’دیوار‘۔ طبی تراجم میںیہ نہ صرف اہم مسئلہ ہے،بلکہ ترجمہ نگاری کے لیے از حد ضروری ہے،جہاں زیادہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔شاید اسی لیے ترجمہ کو دو دھاری تلوار سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
عبد الباری فلاحی نے فخرالدین محمد بن ابی نصر الخجندی کی کتاب’التلویح الی اسرار التنقیح‘کا اسی نام سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔270 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو کل پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔عبدالباری فلاحی نے کئی طبی اور متعلقات طبی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔جن میں ایک اہم کتاب ذکر بالابھی ہے۔عبدالباری فلاحی کو بیک وقت عربی،فارسی،انگلش اور اردوپر دسترس حاصل ہے۔اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے عربی،فارسی اور انگریزی زبان کی طبی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔البتہ ان کے اردو ترجمے کے ایسے بہت سے حصے ہیں،جسے پڑھ کر اجنبیت کا احساس ہوتا ہے۔ان کی تحریر میں وہ سلاست اور روانی نہیںملتی،جس کی وجہ سے وہ قاری کو بہت دیر تک اپنی گرفت میں لینے سے قاصر ہوتے ہیں۔اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو:
’’جب بچہ نیند سے بیدار ہو تو اسے گرم پانی سے غسل دینا چاہیے،پھر ایک گھنٹے تک کھیل کود سے روکے رکھنا چاہیے،پھر تھوڑا بہت کھانا کھلا کر لمبا کھیل کھیلنے کے لیے چھوڑ دینا چاہیے،پھر غذا دینی چاہیے، تاہم میٹھی چیزوں سے بازرہنا چاہیے،کھانے کے دوران پانی بھی نہیں دینا چاہیے،بلکہ جب کھانا کھا چکے تب پانی پلانا چاہیے۔کھانے کے دوران پانی پینا نقصان سے خالی نہیں،اس کی اخلاقی تربیت پر توجہ مبذول کرنی چاہیے۔جب وہ چھ سال کا ہو جائے تو بتدریج ادب سکھانا چاہیے،اور کچھ زیادہ ورزش کرانی چاہیے۔خاص طور سے کھانے سے پہلے۔جب سن بلوغت کو پہنچ جائے تو اس میں کمی کر دینا چاہیے اور اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔‘‘ (التلویح الی اسرار التنقیح۔مترجم:عبدالباری فلاحی۔جامعہ ہمدرد،نئی دہلی۔ 2013۔ ص، 195)
درج بالا اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مترجم لفظی ترجمہ کر کے اپنی ذمہ داری سے بری ہو گیا۔’لمبا کھیل کھیلنا‘ایسا لگتا ہے کہ کھیل کا کوئی نام ہے۔’تا دیر کھیلنے کے لیے چھوڑ دینا‘یہ لمبا کھیل سے کہیں زیادہ مناسب ہے۔عربی میں لفظ’طویل‘رہا ہوگا۔اسی سے مترجم نے لمبالکھ دیا۔طویل تو وقفے کے معنی میں بھی ہوتا ہے۔اس پورے اقتباس میں ’پھر‘اور’ چاہیے‘کی تکرار سے پورا پیرا گراف بوجھل ہو گیا ہے۔مترجم کی سب سے بڑ ی ذمہ داری یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ ترجمے کے ذریعہ مصنف کے خیال کو اچھے پیرائے میں لوگوں کے سامنے پیش کرے۔درج بالا اقتباس میں بہت سے حصے مبہم سے معلوم ہوتے ہیں،اگر ان کی حاشیہ میں وضاحت کردی جاتی تو اس کی اہمیت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا۔ ’تحفۃ الصفویہ‘حکیم شفائی خاں کی کتاب ہے۔اس کا اردو ترجمہ عبدالباری فلاحی ہی نے کیا ہے۔اس کتاب میں بحیثیت مترجم عبدالباری فلاحی نے ترجمہ کرتے وقت زبان اور اس کی سلاست کو مد نظر رکھا،اس لیے یہ کتاب زیادہ بہتر نظر آرہی ہے۔مثلاکابوس کے تعلق سے لکھا ہے:
’’اس مرض میں انسان خواب میں دیکھتا ہے کہ کوئی اس کے سینہ پر بیٹھ گیا ہے جس سے سانس رک گئی ہے،ہلنے کی طاقت ختم ہو گئی ہے اور آواز بھی نہیں نکل رہی ہے۔اس کی حالت بالکل ویسی ہی ہوتی ہے جیسے اس شخص کی،جس کا گلا دبا دیا گیا ہو۔اس بیماری کا ذکر مرض صرع کے مقدمہ میں ہے۔کابوس اخلاط باردہ کی وجہ سے سینہ پر بخارات کے جمع ہونے کے سبب ہوتا ہے۔بسا اوقات بسبب خون بھی ہوتا ہے۔‘‘
(تحفۃ الصفویہ[دستورالعمل]مترجم:عبدالباری فلاحی۔جامعہ ہمدرد،نئی دہلی۔ 2013۔ ص45)
درج بالا اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مترجم نے کسی حد تک احتیاط سے کام لیا ہے۔بلند خوانی سے ایک فائدہ تو ضرور ہوتا ہے کہ بسا اوقات ایسی غلطیاں گرفت میں آجاتی ہیں،جسے نظر عام طور پر چھوڑ دیتی ہے۔خود با آواز بلند پڑھ لیا جائے یا کسی اور سے اسے پڑھا لیا جائے تو بہت سی غلطیوں سے بچا جا سکتا ہے۔علم ایسا معاملہ ہے کہ اگر کوئی بات غلط طریقے سے لکھ دی گئی ہو،اور اسے ایسا شخص پڑھے،جو تحقیق نہ کرے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا،تو اس کے لیے وہی لکھی ہوئی بات صحیح معلوم ہوگی۔کیونکہ ایسے بہت سے لوگ ہوتے ہیں کہ وہ پڑھنے پر اس قدر بھروسہ کر لیتے ہیں کہ اگر کوئی کہے کہ آپ کی معلومات غلط ہے تو کسی بھی صورت میںاسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے ۔اس لیے مصنف ہو یا مترجم اسے بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔نذیر احمد نے ورزش کے تعلق سے لکھا ہے:
’’سیدھی سادی ورزش آپ کے دل کے لیے بہت مفید ہے۔ورزش شروع کرنے سے پہلے آپ اپنے ڈاکٹرسے مشورہ ضرور کیجیے۔ٹہلنا بہترین ورزش ہے۔آپ ہاتھوں،ٹانگوںاور کمر کی ورزش بھی کر سکتے ہیں۔بہتر ہے اگر کوئی ایسی ورزش نہ کریں جس میں آپ کو کسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے۔‘‘
(اپنے دل کی حفاظت کیجیے۔مترجم:نذیر احمد مینائی۔ص64-65)
درج بالا اقتباس میں ہاتھوں اور ٹانگوں کی جگہ ہاتھ پیر استعمال کیا جاتا تو زیادہ رواں عبارت ہوجاتی،ہاتھوں اور ٹانگوں سے زیادہ بہتر اور مناسب معلوم ہوتا ہے۔اس اقتباس میں مترجم نے کسی حد تک زبان کی باریکیوں کو سمجھنے کی کوشش کی،لیکن چند الفاظ کے استعمال میں زبان کی باریکی کے بجائے اصل لفظ کا ترجمہ کیاگیا۔باوجود اس کے کہا جا سکتا ہے کہ مترجم نے اپنی طرف سے خوب سے خوب تر کرنے کی کوشش کی ہے۔حکیم اب عام طور پر مدرسے کے فارغین ہی ہوتے ہیں۔جب کہ زبان کا جاننا ایک الگ مسئلہ ہے،اور اس کے رموز اوقاف سے واقفیت دوسرا معاملہ ہے۔عام طور پر لوگ زبان جاننے والے ہوتے ہیں،زبان پر عبور رکھنے والے کم ہوتے ہیں۔اسی لیے ترجمے میں اس طرح کی دشواری پیش آتی ہے۔
بحیثیت مجموعی کہا جا سکتا ہے کہ اردو طبی تراجم میں ابھی بہت غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔زبان کے حوالے سے عام طور پر طبی تراجم ناقص ہیں۔کیونکہ زبان کے اپنے مطالبات ہوتے ہیں۔لکھنا پڑھنا ابتدائی چیز ہے۔اس کی لفظیات سے واقفیت ایک مشکل امر ہے۔اور جب تک کسی بھی زبان کی لفظیات سے واقفیت حاصل نہیں ہوگی،تب تک اس طرح کی غلطیوں سے پاک ہونا ممکن نہیںہوگا۔اس لیے ضروری ہے کہ ایسے مترجم جو طبی کتابوں کا ترجمہ کررہے ہیں،ان کو زبان کی باریکیوں سے روشناس کرایا جائے۔اس کے لیے مختلف اکیڈمی اپنے پروگرام میں اس حصے کو بھی شامل کریں۔تاکہ طبی تراجم کا معیار زبان کے اعتبار سے بہتر کیا جاسکے۔
نوٹ۔ مضمون نگار نے شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ہے
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |