آتشِ رفتہ کا سراغ(اداریے) -/ ڈاکٹر حسن رضا- ڈاکٹر ابراہیم افسر
اداریہ کسی بھی رسالے یا اخبار کی سب سے جان دار تحریر یا روح سمجھی جاتی ہے۔اداریے میں مدیر اپنے رسالے یا اخبار کی پالیسی سے قارئین کی واقفیت کراتا ہے ۔اداریہ پڑھ کر کوئی بھی با ذوق قاری رسالے یا اخبار کی پالیسی سے با خبر ہوجاتا ہے۔اُردو زبان و ادب میں ابتدا سے ہی اداریہ لکھنے کا رواج رہا ہے۔آزادی سے قبل تو اداریہ نگاری نے ذہن سازی کا کام بہ خوبی انجام دیا ہے۔بات چاہے سر سید تحریک کے آرگن ’’تہذیب الاخلاق ‘‘کے اداریوں کی ہویا ترقی پسند تحریک سے وابستہ افراد کے رسائل و جرائد کے اداریوں کی۔انھیں اداریوں کو پڑھ کر نئی نسل نے تحریکوں کے رجحان و افکار سے اپنے کو ہم کنار کیا۔تقسیمِ ہندکے بعد ہندوستان میں اسلامی نظریات کے حامی ادیبوں اور شاعروں نے اس بات پر زور دیا کہ ان کے نظریات کی تشہیر و ترویج کے لیے ملک گیر پیمانے پر ایک ایسے مجلہ یا اخبار کی بنیاد ڈالی جائے جس میں اسلامی نظریات اور ادب کو فروغ دیا جا سکے۔1953میں انھیں خیالات کو بنیاد بنا کر چند نوجوانوں نے حقیقت اور تعمیری قدروں کی پامالی کے لیے تعمیری ادب اور اسلامی ادب کے نام سے انجمن بنانے کا فیصلہ کیا۔ہندوستان میں جہاں ترقی پسند تحریک اپنے زوال کی جانب گامزن تھی اور جدیدیت کی تحریک نے اپنا سر اُٹھانا شروع کر دیا تھاتو ایسے ماحول میں اسلامی ادب کا نظریہ کسی معجزے سے کم نہ تھا ۔آج ہندوستان کے مختلف شہروں میں اسلامی ادب کے فروغ کے لیے شاخیں قائم کی گئی ہیں اور اس کا نام بدل کر ادارۂ ادبِ اسلامی ہندکر دیا گیا ہے۔در اصل ادب اسلامی جماعتِ اسلامی(ہند) سے وابستہ ادیبوں اور شاعروں کی تنظیم ہے۔اس ادارے میں تحقیق،تنقید،فکشن اور نان فکشن وغیرہ ادب میں اسلامی روایات کی تشہیر کو فوقیت دی جاتی ہے۔
زیر تبصرہ کتاب ’’آتش رفتہ کا سراغ ‘‘ادارۂ ادب اسلامی کے مجلے’ پیش رفت‘کے سابق مدیر ڈاکٹر حسن رضا کے اُن اداریوں کا مجموعہ ہے جو انھوں نے پیش رفت میںبہ حیثیت مدیر کام کرتے ہوئے دسمبر2013سے مئی 2017تک تحریر کیے تھے۔بقول مرتب ساجد انصاری ندوی اس کتاب میں 38اداریوں کے علاوہ ایک مضمون اور انٹرویو ز بھی شمال کر دیے گئے ہیں۔ڈاکٹر حسن رضا کی شناخت بنیادی طور پر ایک معلم کی رہی ہے۔انھوں نے تین دہائیوں تک رانچی یونی ورسٹی کے شعبہ اُردو میں تدریسی خدمت انجام دی ہے۔فی الوقت موصوف اسلامی اکیڈمی دہلی کے چیرمین ہیں اور اس ادارے کے زیر نگرانی چلنے والے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز کے سربراہ کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ساجد انصاری ندوی نے ’عرضِ مرتب ‘کے تحت اس کتاب کی غرض و غائیت ،اغراض و مقاصد ،افادیت و اہمیت اور اکیسویں صدی میں اسلامی ادب کے سامنے در پیش مسائل اور تقاضوں کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے تحریر کیا:
’’اس کتاب کے ذریعے ادب اسلامی کی شناخت ،مسائل،اس کے اپروچ اور تخلیقی قالب میں فکر اسلامی کے جمالیاتی اظہار پر زور دیا گیا ہے ۔نو خیز ذہنوں میں ادب اسلامی کے حوالے سے پیدا ہونے والے سوالات کو چھیڑا گیا ہے اور ان کے جوابات دیے گئے ہیں ۔ادب اسلامی کی تعریف،اس کی حدود اربعہ،اس کی تاریخ،اس کے سفر میں دھوپ چھاؤں اور اُتار چڑھاؤ کا بے لاگ تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ڈاکٹر حسن رضا ان لوگوں میں نہیں ہیں جو اپنوں کی ادنیٰ سی کاوش پر پھولے نہ سمائیں اور اغیار کی ہر لغزسِ پا آنکھ کا کانٹا بن کر چھبتی رہے۔بلکہ آپ محسوس کریں گے کہ ترقی پسند ی،نسائیت،جدیدیت و مابعد جدیدت جیسے ادب اسلامی کے مقابل ادبی تحریکات کے ذکر میں بھی ایک توازن اور فنی رچاؤ پایا جاتا ہے۔جب کہ وابستگان ِ ادب اسلامی کے احتساب اور ان کی تنقید سے ذرا چشم پوشی نہیں کرتے۔ادب برائے زندگی اور زندگی برائے بندگی کے آپ نقیب ہیں۔یہ اداریے اسی کے ترجمان ہیں۔ان اداریوں کی سب سے بڑی سچائی یہی ہے کہ کہ یہ اسلامی زاویہ نظر سے لکھے گئے ہیں اور انھوں نے زاویہ نظر کو مخصوص اسلوب دید بھی بخشا ہے۔اس لیے کہ کہ اسلام کے تصور حسن کے دیکھنے کے لیے وہ حسن نظر کے قائل ہی نہیں اس پر زور بھی دیتے ہیں۔‘‘
بے شک، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ زندگی کو دیکھنے اور اسے برتنے کا نظریہ اسلام میں دوسرے مذاہب کے مقابلے میں کافی وسیع ہے۔ان تمام باتوں کے درمیان یہاں سوال یہ قائم ہوتا ہے کیا ادب اسلامی نے صرف اُن لوگوں کے ادب کو اپنا ادب تسلیم کیا جو محض جماعت اسلامی ہند کے کارکن یا اس کے نظریات کے حامی تھے یا ہیں؟ادب اسلامی اس بات کو بھی واضح کر دیتی کہ تبلیغی جماعت،اہلِ حدیث،شیعہ حضرات،بریلوی مسلک،دارالعلوم دیو بند،ندووہ،دارالمصنفین اعظم گڑھ اور ان جیسے نہ جانے کتنے ہی اداروں اور تنظیموں میںنہ صرف اسلامی نظریات کے فروغ کے لیے رات دن کام رہے ہیں بلکہ ان کے یہاں ادب بھی تخلیق کیا جارہا ہے ،کو بھی اسلامی ادب کے دائرے میں شامل کیا ہے یا نہیں؟اگر مذکورہ ادارے بھی اسلامی ادب کا حصہ ہیں تو ان اداروں اور تنظیموں کے ادیبوں کے نام اور کام کوڈاکٹرحسن رضا نے اپنے اداریوں میں کیوں جگہ نہیں دی ؟ڈاکٹر حسن رضاکے اداریوں میں ڈاکٹر اقبال اور مولانا مودودی کو اسلامی ادب کا روحِ رواں قارا دیا گیا ہے۔میرا اس ضمن میں ماننا ہے کہ ڈاکٹر اقبال سے قبل بھی اسلامی نظریات کی شاعری ہوتی رہی ہے اور مولانا مودودی کے ہم عصر لوگوں نے بھی اسلامی نظریات کو فروغ دیا ہے۔اس تعلق سے اگر کہا جائے کہ ڈاکٹر حسن رضا نے اعتدال پسندی کا رویہ ترک کیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔جب نظریات میں شدت آ جاتی ہے تو وہاں پر جانب داری کا چشمہ چڑھ جاتا ہے ۔ترقی پسند تحریک کو اسلامی ادب کے مد مقابل ٹھہرانا کوئی عقل مندی کی بات نہیں۔یہاں پر یہ بات واضح ہونی چاہیے تھی کہ جب ترقی پسند تحریک کو عروج حاصل ہو رہا تھا تو اسلامی ادب کے وہ کون سے ادیب تھے جو اس تحریک کے خلاف یا اسلامی ا دب کے لیے ادب تخلیق کر رہے تھے۔ڈاکٹر حسن رضا اُردو ادب کے اُستاذ رہے ہیں وہ بھی اس بات سے بہ خوبی واقف رہے ہوں گے کہ اُردو ادب میں سر سید تحریک،ترقی پسند تحریک ،حلقہ اربابِ ذوق ،جدیدیت کی تحریک ،مابعد جدیدیت کے نظریے اور ساختیات ،پس ساختیات وغیرہ نے اُردو ادب کو مالامال ہی کیا ہے۔میرا یہا ں یہ بھی ماننا ہے کہ ادیب کسی بھی نظریے کا حامی ہو لیکن اس کا تخلیق کردہ ادب تمام انسانوں کی میراث ہوتا ہے۔خود داکٹر حسن رضا نے اپنے اداریوں میں میرؔ،غالبؔ اور فیضؔ کے اشعار کو کتنی ہی بار کوڈ کیا ہے۔یہاں قارئین کے ذہن میں یہ بات سرایت کر سکتی ہے کہ موصوف نے علامہ اقبال اور حفیظ میرٹھی کے اشعار کو کیوں کوڈ نہیں کیا؟اس بات کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ ادب دنیا کے کسی بھی حصے میں لکھا جائے وہ دنیا کے مسائل اور حقیقت کا ترجمان ہوتا ہیے۔کیا مولانا مودودی نے جو ادب تخلیق کیا اس پر صرف اور صرف جماعت اسلامی کے کارکنوں کا ہی حق ہے یا علامہ اقبال کی شاعری کو پڑھنے کا حق صرف اُن لوگوں کو ہے جو اسلامی ادب کے فروغ میں ہم تن مصروف ہیں؟تو اس کا جواب نفی میں ہوگا۔ڈاکٹر حسن رضا نے اپنے اداریوں میں قرآن کریم کو دنیا کے لوگوں کے لیے بہترین ادب قرار دیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کے لوگوں کے لیے قرآن سے بڑھ کر کوئی ادب ہو ہی نہیں سکتا۔ڈاکٹر حسن رضا سے میری گزارش یہ ہے کہ اگر وہ وسرے نظریات کے لوگوں کو بٹھا کر ان کے سامنے اپنا نقطۂ نظر واضح کرتے کہ اسلامی ادب اور دوسرے ادب میںکیا فرق نمایاں ہیں تو بہتر ہوتا۔یا نئی نسل کے نمایندہ ادیبوں کے سامنے اپنی باتوں کو واضح کرتے یا اُردو ادب کے علاوہ دنیا کی تمام زبانوں میں جو ادب تخلیق ہو رہا ہے ان کی خامیوں اور اچھائیوں کو سب کے سامنے پیش کرتے تو بہتر تھا۔یہاں پر یہ بھی نکات سامنے رکھنا چاہیے تھا کہ جن لوگوں نے کسی بھی تحریک سے وابستہ ہوئے بغیر ادبی میدان میں کار ہائے نمایا ں انجام دیے ہیں ان کے بارے میں ادب اسلامی کا رویہ کیا ہے۔بہر!کیف ،ڈاکٹر حسن رضا کے یہ اداریے اسلامی ادب اور اسلامی تحریک کو سمجھنے میں قارئین کے لیے معاون و مددگار ثابت ہوئے ہیں۔ہندوستان میں جن لوگوں نے اس تحریک کو اپنے خونِ جگر سے سینچا ہے ان کے کارناموں سے بھی قارئین واقفیت حاصل کر سکتے ہیں۔اداریے کی اس کتاب کے علاوہ ادارہ ادب اسلامی کو چاہیے کہ وہ اس ادارے وابستہ شاعروں، افسانہ نگاروں،ناول نگاروں ،نقادوں، محققین اور مدونین کے مونوگراف بھی شائع کرے تاکہ عام قاری تک اس ادارے کی ادبی سرگرمیاں آسانی سے پہنچ سکیں۔ہندوستان میںدوسری تحریکوں کے یہاں جو بہترین ادب تخلیق کیا گیا ہے، کا بھی ایک انتخاب تیار کر اسے ادارہ ادب اسلامی شائع کر سکتا ہے۔اس طرح کی ادبی کاوشوںسے ادبی توازن کو برقرار رکھا جا سکتا ہے اور نئے سرے سے ایک دوسرے کو سمجھنے میں یہ مشق مفید اور کار آمد ثابت ہو سکتی ہے اور تبھی صحیح معنوں میں ’آتش رفتہ کا سراغ‘ کے ساتھ’ کھوئے ہوؤں کی جستجو‘کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔
نام کتاب:آتشِ رفتہ کا سراغ(اداریے) -/ ڈاکٹر حسن رضا
مرتب:ساجد انصاری ندوی
زیر نگرانی:ڈاکٹر محمد نعیم فلاحی
ضخامت:255صفحات،قیمت:300روپے،سنِ اشاعت:اپریل2019
ناشر:ادارۂ ادب اسلامی ہند،نئی دہلی،D.321،ابوالفضل انکلیو،جامعہ نگر،نئی دہلی۔25
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
3 comments
السلام علیکم محترم
ادبی میراث کے تمام منتظمین کو دِل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آپ نے بہترین انداز میں نکال رہے ہیں۔…..
919059488400+
السلام علیکم محترم
ادبی میراث کے تمام منتظمین کو دِل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آپ نے بہترین انداز میں ادبی خدمات انجام دے رہے ہیں.
919059488400+
وعلیکم السلام جناب
شکریہ، جزاک اللہ ۔۔۔