امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد رحمتہ اللہ علیہ کا پورا نام غلام محی الدین احمد اور قلمی نام آزاد تھا۔آپ 11نومبر 1888ء مطابق 7ربیع الاول 1306ھ بروز یک شنبہ کو ارض وحی مکہ مکرمہ، حجاز، سلطنت عثمانیہ میں مبعوث ہوئے۔ اور 22 / فروری 1958ء کو وفات ہوئی۔ جامع مسجد دہلی کے نزد مدفون ہوئے
ابتدائی تعلیم:
مولانا کا بچپن مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں گذار ابتدائی تعلیم والد بزرگوار خیرالدین حسینی سے حاصل کی،آپ کے والد ماجد ایک قابل عالم دیں، ایک درجن دینی کتب کے مصنف اور صوفی منش افغانی نسل کے شخص تھے۔مولانا آزاد نے اپنے والد اور مختلف اساتذہ سے تعلیم حاصل کی اور بہت ہی کم عمری میں عربی،فارسی،اور اردو زبان وادب میں کافی عبور حاصل کیا۔آپ کی والدہ ماجدہ کا تعلق مدینہ منورہ سے تھا سلسلہ نسب شیخ جمال الدین افغانی سے ملتا ہے جو اکبر اعظم کے عہد میں ہندوستان آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔
مضمون نویسی:
مولانا آزاد کو بچپن ہی سے مضمون نویسی اور شاعری کا شوق تھا۔1908ء میں مولانا نے ایران اور مصر کا دورہ کیا۔اعلی تعلیم کے لئے آپ نے جامعہ ازہر مصر میں داخل ہوئے۔ چودہ سال کی عمر میں علوم مشرقی کا تمام نصاب مکمل کرلیا تھا مولانا کی ذہنی صلاحیتوں کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں ماہوار جریدہ لسان الصدق جاری کیا۔جس کی مولانا الطاف حسین حالی نے بھی بڑی تعریف کی۔ 1914ء میں الہلال نکالا یہ اپنی طرز کا پہلا پرچہ تھا۔ترقی پسند سیاسی تخیلات اور عقل پرپوری اترنے والی مذہبی ہدایت کا گہوارہ اور بلند پایہ سنجیدہ ادب کا نمونہ تھا۔
انشاپردازی:
مولانا ابوالکلام آزاد ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔یہ بہ یک وقت ایک بلند خیال صحافی،عالم دین،مفسر قرآن، ماہر تعلیم، دور اندیش سیاست داں، مجاہد آزادی اور ایک عدیم المثال صاحب طرز ادیب بھی تھے۔ مولانا آزاد بیسویں صدی کے ایک عظیم صحافی اور نامور صاحب طرز انشا پرداز گزرے ہیں۔ان کی انشاپردازی کی جھلک ان کی تحریروں اور خاص طور سے ان کی مکتوب نگاری میں جھلکتی ہے۔مولانا کی انہیں خصوصیات سے متاثر ہوکر مولانا حسرت موہانی نے کہاکہ:
جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر
نظم حسرت میں کچھ مزانہ رہا
مولانا آزاد کی نثری صلاحیت پر روشنی ڈالتے ہوئے حقانی القاسمی لکھتے ہیں کہ:
"یہ مولانا حسرت موہانی کا اعتراف حقیقت ہےاور مولانا آزاد کو سچا خراج عقیدت بھی۔مولانا آزاد کے معاصرین میں میرو غالب بھی ہوتے تو ان کی سوچ مولانا حسرت موہانی سے مختلف نہ ہوتی۔سچ یہی ہے کہ مولانا آزاد کی نثر میں ایک مقناطیسیت،کشش اور قوت ہےکہ اس کے سامنے شاعری کی شمع ماند پڑ جاتی ہے۔”
(روزنامہ اودھ نامہ 10/نومبر 2018)
مولانا آزاد کی نثر کا جادو ہی ہےکہ سجاد انصاری رقم طراز ہیں کہ:
"میرا عقیدہ ہےکہ اگر قرآن نازل نہ ہوچکا ہوتا تو مولانا ابوالکلام کی نثر اس کیلئے منتخب کی جاتی”
(محشر خیال)
مولانا ابوالکلام آزاد کی جامع الصفات شخصیت میں مقرر،مدبر،فلسفی،اور انشائیہ نگاری اپنی اپنی مسندوں پر جلوہ افروز نظر آتے ہیں۔مولانا نے میدان ادب میں اپنی انفرادیت کے نقوش ثبت کئے اور اعلی ذوق سے زبان وادب کی آبیاری کی مولانا کی مدبرانہ عالمانہ خطابت میں جس علمی پیغام جذباتی وارفگتی اور ادبیت کا مرقع ہے اس میں روایتی ناصحین کا اندازہ اور طرز پیسوست نہیں بلکہ ایک محقق اور مدبر کا انداز فکر اور حساس ادیب دوررس، دور اندیش آفاقی شاعر کے لب و لہجہ کی رعنائیاں موجود ہیں۔نثر نگاری میں بھی ان کا یہی نمایاں اسلوب ہے۔لطیف جذبات و احساسات کے اظہار کی بدولت غبار خاطر کے خطوط میں انشائیہ کی جھلکیاں نظر آتی ہے۔
غبار خاطر میں انشائیہ کی جھلکیاں:
”غبار خاطر“ مولانا آزاد کے خطوط کا مجموعہ ہے۔ یہ تمام خطوط نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی رئیس بھیکم پور ضلع علی گڑھ کے نام لکھے گئے۔ یہ خطوط قلعہ احمد نگر میں 1942ء تا 1945ء کے درمیان میں زمانہ اسیری میں لکھے گئے۔ مولانا کی زندگی کا ایک بڑا حصہ قید و بند میں گذرا مگر اس بار قلعہ احمد نگر کی اسیری ہر بار سے سخت تھی کیونکہ اس بار نہ کسی سے ملاقات کی اجازت تھی اور نہ کسی سے خط کتابت کرنے کی۔ اس لیے مولانا نے دل کا غبار نکالنے کا ایک راستہ ڈھونڈنکالا۔ اور خطوط لکھ کر اپنے پاس محفوظ کرنا شروع کر دیے۔ مولانا نے خود اسی مناسبت سے ان خطوط کو غبار خاطر کا نام دیا ہے اور ”خط غبار من است این غبار خاطر“ سے اسے تعبیر کیا ہے۔ ایک خط میں شروانی صاحب کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں : ” جانتا ہوں کہ میری صدائیں آپ تک نہیں پہنچ سکیں گی۔ تاہم طبع ِ نالہ سنج کو کیا کروں کہ فریاد و شیون کے بغیر رہ نہیں سکتی۔ آ پ سن رہے ہوں یا نہ رہے ہوں میری ذوق مخاطبت کے لیے یہ خیال بس کرتا ہے کہ روئے سخن آپ کی طرف ہے۔ “
(ویکیپیڈیا)
مولانا آزاد کی انشاپردازی کاکمال یہ ہے کہ ان کی تحریر کے انداز ایک سے زیادہ ہیں۔وہ متعدد اسالیب نثر پر قدرت رکھتے ہیں۔ اور حسب ضرورت انہیں کامیابی کے ساتھ برتتے ہیں۔الہلال و البلاغ کے اداریے اور مضامین گھن گرج اور پرشکوہ انداز بیان کے متقاضی تھے۔
غبار خاطر کہنے کو تو خطوط کا مجموعہ ہے لیکن اس کی طرزنگارش سے بعض لوگوں نے اسے مضامین کا دفتر کہا کسی نے ان خطوط میں روزنامچہ کی خصوصیات پائیں لیکن چونکہ خود صاحب تحریر مولانا آزاد نے انہیں خطوط قرار دیا تو یہ خطوط کہلائیں گے چاہے ان میں اردو نثر کی کسی صنف کی کچھ خصوصیات پائی جائیں۔تاہم غبار خاطر کے خطوط میں پائی جانے والی انشاپردازانہ صفات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہےکہ یہ خطوط کم اور انشائیے زیادہ ہیں۔انشائیہ کی تعریف میں یہ بھی بات ملتی ہےکہ کسی بھی موضوع پر سہل انداز میں لکھی ہوئی تحریر انشائیہ کہلائے گی جس میں صاحب تحریر کی جذبات اور اس کے اسلوب نگارش کی جھلک دکھائی دے۔اس لحاظ سے غبار خاطر کے خطوط اردو انشائیوں کے بہترین نمونے قرار پاتے ہیں۔
غبار خاطر میں مولانا آزاد نے تقریبا دودرجن شعراء کے ایک سودس اشعار اور مصرعے استعمال کئے۔جن میں غالب کے سب سے زیادہ اشعار ہیں۔ان خطوط میں مولانا آزاد نے تاریخ نگاری بھی کی اور قلعہ احمد نگر کی تاریخ اور صلیبی جنگوں کے احوال بھی تفصیلی باتیں بھی ان خطوط کا حصہ ہیں۔مولانا آزاد کا جس قدر گہرا مطالعہ تھا اسی قدر اشارے ان مکاتیب کی انشائیہ نما تحریروں میں پائے جاتے ہیں۔یہ خطوط مولانا آزاد کے وسیع تر مطالعے ان کی فکر اور ان کے مخصوص طرزنگارش کو نچوڑ ہیں۔مولانا کی خطوط میں انشائیہ کی بھی جھلک پائی جاتی ہے جس میں انہوں نے زندگی سے متعلق مختلف موضوعات پر اظہار خیال کیا ہے۔11/اگست 1942ء کو لکھے مکتوب میں آزاد لکھتے ہیں:
’’صدیق مکرم۔ قید و بند کی زندگی کا یہ چھٹا تجربہ ہے ۔۔ پچھلی پانچ گرفتاریوں کی اگر مجموعی مدت شمار کی جائے تو سات برس آٹھ مہینے سے زیادہ نہیں ہوگی۔ عمر کے ترپن برس جو گذر چکے ہیں۔ ان سے یہ مدت وضع کرتا ہوں تو ساتویں حصے کے قریب پڑتی ہے۔ گویا زندگی کے ہر سات دن میں ایک دن قید خانے کے اندر گزرا۔ تورات کے احکام عشرہ میں ایک حکم سبت لئے بھی تھا۔یعنی ہفتہ کا ساتواں دن تعطیل کا مقدس دن سمجھا جائے۔ مسیحیت اور اسلام نے بھی یہ تعطیل قائم رکھی۔ سو ہمارے حصہ میں بھی سبت کا دن آیا مگر ہماری تعطیلیں اس طرح بسر ہوئیں ۔ ۔۔ زندگی میں جتنے جرم کئے اور ان سزائیں پائیں سوچتا ہوں تو ان سے کہیں زیادہ تعداد ان جرموں کی تھی جو نہ کر سکے اور جن کے کرنے کی حسرت دل میں رہ گئی۔ یہاں کردہ جرموں کی سزائیں تو مل جاتی ہیں لیکن ناکردہ جرموں کی حسرتوں کا صلہ کس سے مانگیں‘‘
( غبار خاطر۔ از مولانا ابولکلام آزاد۔ طبع اول۔ آزاد ہند پبلیکیشنز لاہور۔ ص۵۸۔۶۰ )
عبدالقوی دسنوی مولانا کی مکتوب نگاری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"یہ حقیقت ہے کہ غبار خاطر مولانا آزاد کے خطوط کا نہ صرف خوبصورت مجموعہ ہے بلکہ اردو ادب میں ایک قیمتی اضافہ ہے۔جس کے مطالعے سے ہندوستان کے ایک فرزند جلیل جنگ آزادی کے بہت بڑے مجاہد اور اردو ادب کے منفرد نثر نگار کی زندگی شخصیت ماحول فن وفکر سے سب سے زیادہ آگہی ہوتی ہے۔اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اگر مولانا آزاد اردو ادب میں ان کو نمایاں مقام ملتا ہے۔
(عبدالقوی دسنوی۔مطالعہ غبار خاطر۔ص۔164)
مولانا آزاد کے غبار خاطر میں شامل مکاتیب اردو انشاپردازی کے شاہکار ہیں۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو کے قدیم ادب کی بازیافت کی جائے اور اسے نئی نسل سے روشناس کیا جائے۔
اسلم رحمانی
متعلم: بی اے اردو،نتیشور کالج، مظفرپور
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
| ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ | 
Home Page

