ناول کفار مکّہ: فکشن کے راستے سیاست کی سوجھ بوجھ / عامر حسینی
آج کل جب عروس البلاد کراچی میں 13ویں عالمی اردو کانفرنس کا میلہ سجا ہوا، جس میں گزرے جمعہ کے دن ” اردو ناول کے سو سال” پر خصوصی سیشن ہوا اور وہاں ویڈیو لنک پر لاہور سے دانشور ضیاء الحسن نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے یہ کلیشے پیش کردیا: "سو سالوں میں اردو ناول نگار عظیم ناول لکھنے کے راز کو پا نہیں سکے اور یہ راز مغربی دنیا پاگئی کیونکہ وہ جاگیرداری سماج سے نکل کر سرمایہ داری سماج میں آگئے تھے۔ اور جاگیرداری سماج کی طرح مشترکہ خاندانی سسٹم ان کا فوکس نہیں تھا بلکہ فرد کی زندگی کا وسیع سرمایہ دارانہ دنیا کے وجود سے سامنا تھا۔ اور مغربی دنیا کے ناول نگاروں نے اسی کو پیش نظر رکھ کر ناول لکھے اور وہ بڑے ناول لکھنے کی کنجی پاگئے جبکہ اردو ناول نگاروں کے ہاں یہی چیز غائب ہے۔” مجھے یقین ہے درمیانے طبقے کے پیٹی بورژوازی سوچ سے مغلوب حاضرین کی بڑی تعداد نے اس پہ خوب تالیاں پیٹی ہوں گی۔ دیسی چمڑی کے ساتھ فرنگی ذہنیت کے ساتھ آنے والے لبرل نقادوں سے ہم اور کیا توقع کرسکتے ہیں؟ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ آج کی بیماری تھوڑی ہے، یہ بہت پرانی بیماری ہے۔ ابھی ہمارے ہاں رسمی نوآبادیاتی نظام قائم تھا تو دلّی سے ڈپٹی مولوی نذیر احمد کے پوتے شاہد دہلوی کی ادارت میں نکلنے والے ادبی رسالے میں جھلکیاں کے عنوان سے کالم لکھنے والے نقاد شہیر حسن عسکری نے لکھ دیا تھا کہ اردو کے ادیب کا ناول لکھنے کا اسٹیمنا بہت تھوڑا ہے اور سو صفحات لکھنے کے بعد اس کا سانس اکھڑنے لگتا ہے۔ ویسے حسن عسکری صاحب کی بات ہی کیا تھی۔ من موجی آدمی تھے۔ پاکستانی بننے کے کچھ عرصے بعد انھوں نے اردو ادب کی موت کا اعلان کردیا تھا۔ لیکن اردو ادب کی موت کے اعلان کے تیس سال بعد تک وہ اردو ادب کے بارے میں ہی لکھتے رہے۔ میں شرط لگا سکتا ہوں کہ دیسی چمڑی والے گوری نوآبادی سوچ کے مالک ان نقادوں کا یہ حقارت آمیز رویہ صرف اردو ناول سے ہی نہیں ہے بلکہ یہ یہی رویہ بلکہ اس سے بھی زیادہ برا رویہ برصغیر پاک و ہند کی دیگر زبانوں میں لکھے جانے والے ناول- ادب بارے ہوگا۔ ضیاء الحسن شاید بھول گئے کہ جسے تیسری دنیا کہتے ہیں، وہاں جو ناول لکھے گئے جن میں بہت بڑے بڑے ناول شامل ہیں وہ بھی تو مغرب کی طرح سرمایہ داری تبدیلی سے گزرنے کے بعد نہیں لکھے گئے تھے بلکہ وہاں کئی بڑے ناول پاک و ہند سے بھی کہیں زیادہ قبیل داری اور جآگیرداری سماج کے ہوتے ہوئے لکھے گئے تھے۔ خیر یہ تو یونہی درمیان میں بات آگئی جس پر مجھے تبصرہ کرنا پڑگیا اصل میں تو، میں اپنے پڑھنے والوں کو یہ خبر دینے جارہا ہوں کہ پاک و ہند میں اردو فکشن سے شغف رکھنے والوں کے لیے اس گزرتے سال کے اس آخری مہینے اور اگلے سال کے موسم بہار تک ایک کے بعد ایک کئی ایسے ناول پڑھنے کو دستیاب ہوں گے کہ جس سے اردو ادب میں سماجی حقیقت نگاری پر مبنی ادب مالا مال ہوجائے گی۔ ہمارے دوست علی اکبر ناطق کا ناول”کماری” چھپ کر آچکا ہے جس کا میں مطالعہ ابھی جاری رکھے ہوئے ہوں۔ نو لکھی کوٹھی جیسے شہرہ آفاق ناول کے بعد یہ ان کا دوسرا ناول ہے جس کی لینڈاسکیپ زیادہ تر گنجی بار ہے اور اس گنجی بار میں ایک گاؤں ہے جو ایک ایسے ضلع کا حصّہ ہے جس کے صدر مقام کو ان کو خصوصی حثیت دی ہے اور نجانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ یہ صدر مقام اوکاڑا شہر ہے جس کا انہوں نے کہیں نام نہیں لکھا لیکن ناول میں موجود شہر کے جن بازاروں اور سڑکوں کی طرف لیجاتے ہیں وہ مجھ جیسے آدمی کو بار بار اوکاڑا شہر لیجاتے ہیں اور خاص طور پر گول بازار کے اردگرد کا علاقہ ذہن میں آجاتا ہے۔ ناطق نے اپنے ناول کو کسی "مہابیانیہ” کے گرد تشکیل نہیں دیا ہے لیکن جگہ جگہ ایسے چھوٹے بیانیے حتمیت کے ساتھ ہمیں جگہ جگہ مل جاتے ہیں اور واحد متکلم انداز میں لکھا گیا ناول اس قدر دلچسپ ہے کہ دل تو کرتا ہے اسے بغیر وقفے سے دن رات ایک کرکے پڑھا جائے لیکن 82 ابواب پر مشتمل 638 صفحات کا یہ ناول بغیر وقفہ ڈالے پڑھنا کم از کم مجھ جیسے قاری کے لیے ممکن نہیں تھا۔
سماجی حقیقت نگاری کا شاہکار دوسرا ناول عباس زیدی کا لکھا ہے جس کا اردو ایڈیشن اس کے انگریزی ایڈیشن کے دو سال بعد ہمارے سامنے ہے۔ پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو قتل کے پس منظر میں لکھا گیا یہ ناول پاکستانی سماج کے المیے اور طربیے دونوں کو سمجھنے میں بڑا مددگار ہے۔ اس کے مرکزی کردار دارا شکوہ اور لالین ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہیں اور دارا کے ساتھ ٹریجڈی یہ ہے کہ اس کی ماں کا تعلق افغانستان اور پاکستان میں اپنی شناخت کے سبب مذہبی جنونیت اور پراکسی جنگوں کا سب سے بڑا ہدف ہے اور اس کے ساتھ طربیہ/ کامیڈی یہ ہے کہ اس کا باپ ایک تو جنرل ضیاء الحق کا جہاد افغانستان پروجیکٹ کے معماروں میں سے ہے اور اسی جہاد کے دوران وہ مجبور و محکوم ہزارہ قوم کی ایک بیٹی کو زبردستی نکاح میں لاتا ہے جس سے دارا کی پیدائش ہوتی ہے اور دوسرا وہ ضیاءالحق کے بعد اس کی باقیات کا مشن پورا کرنے پر مامور ہے اور اس کے باپ کے لیے کامیڈی یہ ہے کہ دارا ایک ایسے گروہ سے جڑ جاتا ہے جو ذوالفقار علی بھٹو اور اس کی بیٹی بے نظیر بھٹو کے انتہائی قریبی ساتھی پروفیسر عمر قادری کی سربراہی میں پاکستان میں وہ انقلاب لانے کا سودا سر میں سمائے ہے جسے کفر و ضلالت دارا کا باپ سمجھتا ہے۔ دارا کو اپنے کالج کی ایک ایسی لڑکی سے پیار ہوجاتا ہے جس کا نام لالین ہے۔ لالین کے ساتھ ٹریجڈی یہ ہے کہ ایک تو وہ ایک ایسی کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہے جو ریاست سے سندیافتہ مرتد برادری ہے اور اس پہ مستزاد یہ ہے کہ سیاسی طور پر وہ ایک ایسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہوجاتی ہے جس پہ اس کی کمیونٹی کے سرکردہ مذہبی لیڈر اور اس کے گھر والے اپنے مردود حرم ہونے کی ذمہ داری عائد کرتے ہیں۔ وہ ایسے سیاست دان کی بیٹی کو اپنا رہنماء بنالیتی ہے جس کا نام بھی اس کی کمیونٹی کے اکثر گھروں میں لینا گناہ عظیم سمجھا جاتا ہے۔ ان دو مرکزی کرداروں کے المیے اور طربیہ کے ساتھ کئی اور کردار ساتھ ساتھ چلتے ہیں جو اس سماج کے کچلے اور پسے ہوئے گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس ناول میں ہم ایسے سماج کو پاتے ہیں جن میں شناختیں عذاب ہی نہیں بنتیں بلکہ آپ کو جینے کے بنیادی حق سے محروم کردیتے ہیں اور شناخت مرنے کے بعد بھی آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتیں ، یہاں تک کہ مردود شناخت آپ کو اہل حرم کے ساتھ دفن ہونے کو جرم قرار دے ڈالتی ہے۔ پروفیسر عمر قادری جیسے لیجنڈ سیاسی کردار جنھوں نے ساری زندگی اس مملکت کو فلاحی مملکت میں بدلنے میں بتائی تو اس جرم میں وہ قتل ہوجانے کے بعد بھی معاف نہیں کیے جاتے اور اس کی بیوہ کو اپنے سورگ باشی شوہر کا صفائی نامہ تحریر کرنا پڑتا ہے۔ عباس زیدی نے اپنے ناول میں کہیں بھی ایسی ایک بھی سطر نہیں لکھی جسے فکشن کی سطح سے گرادیا جائے اور انھوں نے ان نقادوں کی تنقید پر طمانچہ رسید کیا جو سمجھتے ہیں سماجی حقیقت نگاری فکشن کے سوا سب کچھ ہوسکتی ہے۔
کولمبیا کی انقلابی مزاحمتی تحریک کے کمانڈنٹ مارکوس لارا (جو خود بھی شاعر اور فکشن نگار ہے) نے "ڈان کہوٹے” ناول کے بارے میں کہا تھا کہ میکبتھ اور ہملیٹ کے بعد ڈان کہوٹے سیاسی نظریہ کی بہترین کتاب ہے۔ یہ کتابیں میکسیکو کی المیہ و طربیہ سیاست کا سچا عکس ہیں اور کسی بھی سیاسی تجزیہ پر مبنی کالم سے کہیں زیادہ بہتر ہیں۔ تو مجھے بھی ایسے لگتا ہے کہ "کفّار مکّہ” ناول پاکستان کی سیاست کے المیے و طربیے دونوں کو فکشن کے راستے کسی کالم سے کہیں زیادہ سمجھا دیتا ہے۔