صارفیت کا اثر ادب و آرٹ پر بھی پڑا ہے،یعنی انسانی دنیا کی سب سے نفیس اور اعلیٰ ترین تخلیقی صلاحیتوں کے مظاہر پر۔دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اس اثر کی نوعیت کیا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے تھوڑا سا پس منظر میں جانا پڑے گا۔ یہ بات مارکس و اینگلز نے ’کمیونسٹ مینی فیسٹو‘ میں لکھی تھی کہ سرمایہ داریت کے پیدا کردہ بورژوازی طبقے نے ’’طبیب، قانون دان، پادری ،شاعر ،سائنس دان کو تنخواہ دار مزدور میں بدل دیا ہے‘‘۔یعنی انھیں صرف تخیل کی آزادی اور قبل جدید عہد کے پرشکوہ ،مابعد الطبیعیاتی مرتبے ہی سے محروم نہیں کیاگیا، ایک نیا کردار بھی تفویض کیا گیاہے۔ وہ اب تخلیق کار(Creator)کے بجائے،پیش کار (Producer) ہیںاور وہ جوکچھ پیش کرتا ہے وہ ، پراڈکٹ ، کموڈیٹی یا شے ہے۔ گویا صنعتی سرمایہ داریت کے آغاز ہی سے ادب ، شے میں بدلنے لگا تھا ۔ مارکس نے نہ صرف اس امر کی نشان دہی کی ،بلکہ ادب کے ’پیداوار ‘ ہونے کو قبول بھی کیا۔ بعد کے مارکسی مفکرین خصوصاً والٹر بنجامین، برٹولٹ بریخت ، التھیوسے ، ماشرے اور ٹیری ایگلٹن نے ادب کے ’پیداوار‘، شے ، کموڈیٹی ہونے کے سلسلے میں کچھ نئے نکتے ابھارے۔ مثلاً ٹیری ایگلٹن کہتے ہیں کہ اگرچہ ادب سماجی شعور کی پیداوار ہے ، مگر اس کے ساتھ وہ ایک صنعت بھی ہے۔ کتابیں صرف معنی کی ساخت نہیں ہیں، بلکہ وہ اشیا (commodities)بھی ہیںجنھیں پبلشر تیار کرتے ہیں اور مارکیٹ میں منافع پر بیچتے ہیں ۔بجا کہ ادبی کتابوں کی اشاعت ایک میکانکی ومشینی عمل ہے جو مسلسل نئی نئی جدتوں سے نموکرتا اور ترقی پاتاہے ، نیز انھیں بازار میں منافع کی غرض ہی سے بیچا جاتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ادب میں معنی کی جو ساخت ہے ، کیا وہ بھی شے ہے ؟دوسرے لفظوں میں کیا ادبی کتابیں، ایک طرف کتابوں کے اس زمرے میں شامل کی جاسکتی ہیں جو مفید، عملی، درسی ، مقبول عام ہوتی ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں شایع ہوتی ہیں، اور دوسری طرف انھیں(ادبی کتب کو) اسی طرح صَرف کیا جاتا ہے جس طرح کسی دوسری شے کو؟ صنعتی عہد کا سرمایہ دار ہو یا عالمگیریت کے زمانے کا ایم ۔ڈی یا سی ای او، وہ ہر طرح کی کتابوں کو محض قابل ِ فروخت اور قابلِ صَرف شے سمجھتا ہے،اور انھیں شایع کرنے سے پہلے مارکیٹ میں ان کی طلب اور اپنے منافع کی شرح کو اولیت دیتا ہے۔اسے ادبی کتاب کی معنی کی ساخت سے بذاتہٖ دل چسپی نہیں ہوتی، البتہ اس کے زیادہ سے زیادہ قابلِ فروخت یعنی مقبول ہونے سے سروکارہوتا ہے۔یعنی وہ کتاب اور اس کے مندرجات دونوں کو کموڈیٹی سمجھتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بڑے پبلشر ہر طرح کی کتابیں چھاپتے ہیں( مخصوص موضوعات کی قید کے بغیر)، بالکل ایسے ہی جیسے بڑی کمپنیاں ہر طرح کی اشیا تیار کرتی ہیں۔ چوں کہ کموڈیٹی سمجھتا ہے ،اس لیے وہ ان کی ’ذاتی قدر‘ اور ‘نشانیاتی قدر‘کی بجائے ’تبادلے کی قدر‘ کو اہمیت دیتا ہے۔کسی شے کی ذاتی قدر کا تعین ،خود شے کرتی ہے ۔قلم لکھنے کے کام آتا ہے ،یہ اس کی ذاتی قدر ہے؛ کتاب سے علم ، مسرت، بصیرت ، دانائی حاصل ہوتی ہے،یہ اس کی ذاتی قدر ہے۔اشیا ثقافتی نظام میں کس معنویت ، قدر کی حامل ہیں، یہ ان کی علامتی و نشانیاتی قدر ہے۔ کوئی چیز کتنا منافع دیتی ہے، یہ اس کے تبادلے کی قدر ہے جس کا تعین مارکیٹ کرتی ہے۔ صنعتی سرمایہ داریت ، اشیا کی تبادلے کی قدر ہی کو اہمیت دیتی تھی، مگر عالمگیریت نے اشیا کی دوسری اقدار کو بھی اپنے معاشی محیط میں لینا شروع کردیا ہے۔ اب کلچر، تاریخی ورثہ ، ادب کا معنی بھی براے فروخت ہے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ اس کے پس منظر میں سرد جنگ اور بعض مارکسی تصورات کارفرما ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد شروع ہونے والی سرد جنگ ، ثقافتی جنگ بھی تھی۔ بہ ظاہر یہ اشتراکیت اور سرمایہ داریت کے درمیان تھی ، مگر دونوں ثقافت کو کموٖڈیٹی کا درجہ دیتے تھے اور اسے تیسری دنیا کے ممالک کی منڈیوں میں، مقابلے کی فضا پیدا کرکے ’بیچتے‘تھے ۔تب اکثر(سب نہیں) شاعر وادیب ، ثقافتی جنگ کے سپاہی و مزدور بنائے گئے ۔سرد جنگ کا خاتمہ تاریخ کا خاتمہ نہیں، مگر کبیری نظریات کے اثر کے دم توڑنے کی شہادت ضرور دیتی ہے۔ کبیری نظریات یعنی دائیں اور بائیں بازو کے نظریات میں جب تک مجادلے کی کیفیت تھی ، ادب اور ادیب مرکز میں تھے؛ ان کے خیالات ، ان کے مئوقف ادبی بحثوں کا مرکز تھے ،اور یہ بات ادب کو محض کموڈیٹی ہونے سے بچاتی تھی ،حالاں کہ امریکا و سابق سوویت یونین اپنے اپنے ادب و کلچر کو کموڈیٹی کے طور پر ہی پیش کرتے تھے۔پاکستان بھی سرد جنگ کا میدان بنا ہوا تھا۔یہاں صرف امریکی اسلحہ ہی نہیں بکتا تھا ،امریکی ادب ، امریکا کا بنایا ہوا نصاب تعلیم ، روسی ادب اور روسی اشیا بھی فروخت ہوتی تھیں۔ اس صورتِ حال کی انتہا افغانستان میں روسی مداخلت سے شروع ہونے والی جنگ تھی ،جس میں پاکستان امریکی حلیف بنا۔روس پہلے افغانستان میں ہارا، پھر اشتراکیت کوہارا۔سرد جنگ ختم ہوئی ۔پاکستان میں بھی دائیں اور بائیں بازو کی کشا کش ختم ہوئی، نتیجہ دائیں بازو کی شدت پسندانہ فکر (سیاست نہیں ) کے قوی ہونے کی شکل میں برآمد ہوا۔(ترقی پسندانہ فکرزیر زمین ہوگی،برسر زمین نئے دایاں بازو کے مقابل دکھائی نہیں دیتی) عالمگیریت نے صرف اشیا کی بلا روک ٹوک کی ہر جگہ ترسیل کو ممکن نہیں بنایا،(سوشل میڈیا کے ذریعے خصوصاً) خیالات کی ہمہ گیر ترسیل کی راہ بھی ہموار کی ہے،مگر پاکستان سمیت کئی ملکوں میںدائیں بازو کی حمایت بڑھی ہے اور ہمارے سماج کے، ادب سمیت سب شعبوں کے علما و ماہرین ومتعلقین میں ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں جن کے خیالات میں ایک یا دوسری طرح کی شدت پسندی دیکھی جاسکتی ہے۔یہ الگ بات کہ یہ ایک نیا دایاں بازو ہے جسے کسی بھی” اساس”( نسل ، تاریخ، مذہب وغیرہ) کو استعارہ بنانے اور پھر اسے "زندہ حقیقت” تصور کرکے ایک فلسفہ تراشنے میں مہارت حاصل ہے۔اس کا ایک نتیجہ "اساسی تصورات ” اور ان سے متعلق کسی بھی واقعے، لفظ، تعبیر کے سلسلے میں حد درجہ حساسیت کا پیدا ہونا ہے جس سے وہ اساسی تصور مع متعلقات انسانی فکری دنیا کا ایک ایسا موضوع نہیں رہ جاتا جس پر آپ پوری ذہنی دیانت داری کے ساتھ گفتگو کرسکیں ۔آدمی کو لکھتے اور بولتے ہوئےاس خدشات سے بھری احتیاط سے کام لینا پڑتاہے، جیسے وہ کسی بارودی سرنگ پر سے گزررہا ہو۔یہ استعارہ نہیں ،حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا پر بارودی سرنگیں سب سے زیادہ ہیں!نئے دائیں بازو کا عالمگیریت کے معاشی و ثقافتی معاملات سےکتنا ، کس نوع کا تعلق ہے یا اس سے الگ کوئی مظہر ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے!
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
2 comments
[…] تحقیق و تنقید […]
[…] تحقیق و تنقید […]