اختر الایمان کی زندگی کا بڑا حصہ اگر ناقدری میں نہیں تو نقادوں کی توجہ کے فقدان میں گذرا۔ سنہ ۱۹۴۰ اور اس کے آس پاس کے تمام نوجوانوں کی طرح اخترالایمان بھی شروع میں ترقی پسند، یا یوں کہیں کہ ترقی پسندوں کے ساتھ تھے۔اس زمانے کی نظموں میں بھی اخترالایمان کے یہاں ’سماجی شعور‘، ’طبقاتی کشمکش‘ یا ’انقلاب‘ وغیرہ کا بہت ذکر نہیں ملتا۔لیکن جلد ہی انھوں نے محسوس کر لیا کہ ان کا مزاج، یا شاعری ہی کا مزاج، اس طرح کے پروگرام زدہ انداز سخن کو نہیں قبو ل کرتا۔فیض کو وہ بہت پسند کرتے تھے، لیکن راشد کا اثر ان کے یہاں زیادہ تھا (اگرچہ انھیں راشد کے یہاں ایک طرح کی ’بلند آہنگی‘انھیں پسند نہ تھی، کیوں کہ خود ان کے کلام میں تقریباً شروع سے گفتگو اور خود کلامی کا رنگ نمایاں تھا۔)پھر، فیض کے مقابلے میں راشد اور میرا جی کے وہ زیادہ قائل تھے۔
بیدار بخت نے ’باقیات اخترالایمان‘ کے نام سے اختر الایمان کی نثرو نظم کے بہت سارے بھولے بسرے نمونے شائع کردئیے ہیں۔ان میں ڈائری کے کئی ورق بھی ہیں۔ یہ ڈائری انھوں نے بہت کم لکھی اور اکثر اندراجات کے درمیان کئی کئی برس کا وقفہ ہے۔ زیادہ تر ذاتی اور فلم اسٹاروں کی باتیں ہیں،لیکن کہیں اختر الایمان شاعر بھی جھلک اٹھتا ہے۔فیض کے بارے میں اوکتاویو پاز (Octavio Paz)کے حوالے سے ایک بات اختر الایمان نے اپنی ڈائری کے اندراج مورخہ ۱۱ نومبر ۱۹۶۸ میں لکھی ہے اور فیض کی شاعری پر خود بھی بڑے نکتے کی باتیں لکھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
]شام لال کے گھر ایک ملاقات کے دوران[آکٹیویو پاز…نے کہا کہ فیض کی شاعری اٹھارویں صدی] کی[ شاعری معلوم ہوتی ہے، جو کہ ہے بھی۔فیض کے لوازمات شاعری تمام غزل کے ہیں اور لب و لہجہ حافظ کا ہے۔چونکہ غزل کی شاعری بہت جلد سمجھ میں آجاتی ہے،ایک تو اس وجہ سے، دوسرے انداز ہے بھی شگفتہ اور رومانی۔
اختر الایمان بہت جلد ہی ترقی پسند تصورات ادب سے دور ہو گئے۔بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ درست ہو گا کہ وہ اپنے زمانے کی تمام مروج شاعری سے نالاں ہو گئے۔۶ مارچ ۱۹۴۶ کے اندراج میں یہ عبارت بھی ہے:
گھر آن کر کچھ دیر ’ساقی‘ پڑھتا رہا۔پرچے میں جو نظمیں نظر سے گذریں،سب کی سب لچر تھیں۔یہ ہماری شاعری کو کیا ہوتا جارہا ہے۔دماغی اعتبار سے سب کھوکھلے معلوم ہوتے ہیں۔
اخترایمان کو اس بات کا احساس تھا کہ ادب سے جو تقاضاوہ کرتے ہیں وہ دوسروں کی توقعات اور ادب سے دوسروں کے تقاضے سے بالکل مختلف ہیں۔ہمارے یہاں کے ترقی پسند نظریہ ساز ہر چند کہ اس بات پر اصرار کرتے تھے کہ’ادبیت‘کو ’مقصدیت‘ پر قربان نہ کیا جائے، لیکن ’ادبیت‘ اور ’مقصدیت‘ میں وہ خوشگوار تواز ن کیونکر پیدا ہو کہ بہترین نتائج پیدا ہوں،اس باب میں ان کا کوئی مشورہ، کوئی نسخہ نہ تھا۔ ادھر اخترالایمان کو شروع سے تلاش تھی کہ شاعر کو اپنی بات کہنے کے لئے پورا اورکھلا ہوا میدان ملنا چاہیئے۔وہ غزل کے مخالف تھے اور تمام عمر غزل کے مخالف رہے، اور اس کے وجوہ بھی انھوں نے اکثر بیان کئے۔ لیکن ان کے تمام دلائل کی تہ میں بات یہی تھی کہ غزل کی کچھ مجبوریاں ہیں جن کی بنا پر غزل کے شاعر کو اپنی بات پوری طرح، اور اپنے داخلی تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ نہیں بیان کر سکتا۔ اوپر ہم ان کا یہ بیان بھی دیکھ چکے ہیں کہ غزل کی شاعری بہت جلد سمجھ میں آجاتی ہے۔
غزل کے بارے میں اخترالایمان کی رائے سے مجھے اتفاق نہیں، شاید کسی کو بھی نہ ہوگا۔ لیکن ضروری ہے کہ ہم ان باتوں کو اخترالایمان کے نظریہئ شعر کی روشنی میں رکھ کر دیکھیں۔ پھر ہم یہ سمجھ سکیں گے کہ غزل سے ان کاا ختلاف زیادہ تر اس وجہ سے تھا کہ غزل کے مضامین سب مانوس اور جانے پہچانے ہیں، اس لئے جلد سمجھ میں آجاتے ہیں۔ شاعر کو اپنی بات کہنے کا موقع کم ملتا ہے۔غزل کی دوسری کمزوری در اصل اسی سے پیدا ہوتی ہے،کہ اگر بات کو شاعر کے عندیے کے مطابق پوری وسعت دے کر کہا جائے تو وہاں نظم کا سہارا لئے بغیر بات نہیں بن سکتی۔
اخترالایمان اگر ایک نظم کو مکمل کرنے میں مدت مدید لگا سکتے اور اسے پھر بھی مسترد کرسکتے تھے تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے خیال میں وہ نظم ان تمام باتوں کواس وسعت کے ساتھ نہیں ادا کر سکی تھی جو ان کا منشا تھا۔ انھیں اس بات کی پروا نہیں تھی کہ وہ جلد از جلد ایسا کلام دنیا کے سامنے پیش کر سکیں جسے قبول عام کی سند مل جائے۔ان کے مزاج میں کچھ بے نیازی تھی تو اس سے زیادہ خود اعتمادی تھی۔ انھیں اس بات کی فکر نہ تھی کہ کوئی ان کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ بیدار بخت سے ان کی ایک گفتگو جو ان کے انتقال کے بعد ’شب خون‘ میں شائع ہوئی، اس لحاظ سے بہت توجہ انگیز ہے کہ اس میں انھوں نے اپنے بارے میں بہت سی باتیں کہی ہیں جنھیں وہ عام طورظاہر کرنا، یا بیان کر نا پسند نہ کرتے تھے۔ (شاید اسی وجہ سے انھوں نے بیدار بخت سے اس کی اشاعت کی مناہی کردی تھی۔ان کے انتقال کے بعد میرے اصرار اور بیگم سلطانہ ایمان کی اجازت سے ’شب خون‘ میں وہ گفتگو شائع ہوئی اور اب ’باقیات اخترالایمان‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔)ایک جگہ اختر الایمان نے کہا:
چالیس پچاس برس تک ادب میں کسی نے میرا نام بھی نہیں لیا۔میں نے تو کسی کو گالی نہیں دی…ارے بھئی اگر گالی دینی ہوتی تو اس وقت دیتا جب جوان تھا،جب خون زیادہ گرم تھا۔گالی دینا تو میرے مزاج میں ہے ہی نہیں۔
یہ محض سلیم الطبعی نہیں، چھچھورے پن سے اجتناب بھی ہے۔اور اس کی بڑی وجہ خود پر اعتماد ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ مجھے کیا کرنا چاہیئے۔ اور میں وہ کام اپنی بساط بھر خوبی سے کررہا ہوں۔ لوگ جو بھی کہنا چاہیں کہیں۔یا نہ کہنا چاہیں، نہ کہیں۔بیدل ؎
گفتم سخنے لیک پس از کسب کمال
خواہی فہمید چوں نہ خواہی فہمید
سنہ ۱۹۹۴ میں ماہنامہ ’آجکل‘ (مدیر محبوب الرحمٰن فاروقی)کے اخترالایمان نمبر کے لئے ان کا انتخاب تیار کرتے وقت میں نے چند باتیں کہی تھیں۔ انھیں یہاں دہرانا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
اختر الایمان کی مدت شعر گوئی کو دیکھتے ہوئے ان کا کلام بہت زیادہ نہیں۔اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ اختر الایمان جتنا کہتے ہیں اس سے بہت کم دنیا کے سامنے لاتے ہیں۔انھوں نے بیدار بخت سے بیان کیا کہ پہلے مجموعے ”گرداب“ میں صرف تیئیس نظمیں شامل ہیں، حالانکہ اس وقت ان کے پاس ڈیڑھ سو نظمیں تھیں۔انھوں نے بیدار بخت سے یہ بھی کہا کہ ”ایک لڑکا“ کو مکمل کرنے میں انھوں نے اٹھارہ سال لگائے۔لیکن پھر بھی، ان کا موجودہ کلام اتنا کم بھی نہیں کہ دو تین دن میں اسے بغور پڑھ کراس کا انتخاب تیار کرنا ممکن ہو۔یہ بات بھی ہے کہ اختر الا یمان کے کلام میں تفکر اور تامل کا عنصر غالب ہونے کے باعث ان کی اکثر نظمیں بار بار پڑھی جانے کاتقاضا کرتی ہیں۔بلکہ اکثر تو یہ بھی ہوتا ہے کہ اختر الا یمان کے بظاہر سرسری،غیر تکلفاتی لہجے سے دھوکا کھا کر ہم ان کی بعض اہم نظموں کو بھی سرسری گذر جانے کے لائق سمجھ لیتے ہیں اور اصل صورت حال یہ ہو تی ہے کہ نظم کو رک رک کر،سوچ سوچ کر پڑھیں تواس میں گہرائیاں دریافت ہوں۔اختر الایمان کو اکثر یہ شکایت بھی رہی کہ لوگ ان کا کلام توجہ سے نہیں پڑھتے۔میرا خیال ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے اخترالایمان”روایتی“، ”شگفتہ“ اور ”نفیس“ زبان سے پرہیز کرتے ہیں۔یہ احتراز ان کے عام قاری کو فوری طور پر ان سے برگشتہ کر دیتا ہے۔
ان سب باتوں کی بنا پراختر الایمان کا انتخاب بنانا مجھے بہت مشکل معلوم ہوا۔موجودہ انتخاب کے سلسلے میں جگہ کا مسئلہ بھی تھا کہ طویل نظموں کی گنجائش نہ تھی۔اختر الایمان اگر چہ مختصر نظم میں کمال رکھتے ہیں،لیکن وہ ہمارے زمانے کے ان معدودے چند شعرا میں سے ہیں جو نسبتاً طویل نظم میں بھی اپنی قوت برقرار رکھتے ہیں۔(کیوں نہ ہو، جب وہ ایک ہی طویل نظم پر اٹھارہ برس صرف کر سکتے ہیں۔)جگہ کی تنگی کے پیش نظر میں نے متوسط طوالت کی صرف دونظمیں انتخاب میں رکھی ہیں، لہٰذا یہ انتخاب طویل نظموں کی حد تک نامکمل ہے۔ بعض لوگوں کو ”ایک لڑکا“ کی عدم موجودگی شاق گذرے گی۔لیکن اس نظم کی غیر معمولی شہرت کے پیش نظر مجھے یہ بہتر معلوم ہواکہ اس کی جگہ دو چار مختصر نظمیں شامل کر لی جائیں۔میرا خیال ہے کہ اکثر لوگوں کو ”ایک لڑکا“اگر پوری نہ سہی تو کہیں کہیں سے ضرور یاد ہو گی،جب کہ اس انتخاب میں شامل بعض مختصر نظمیں ان کے حافظے یا نظر میں شاید نہ ہوں۔
اختر الایمان نے ”سر و سامان“کے بعد ۱۹۹۰ کے آغاز تک جو کہا ہے وہ ”زمین زمین“ نامی مجموعے میں شامل ہو چکا ہے۔یہ مجموعہ ابھی بہت کم لوگوں کی نظر سے گذرا ہوگا۔لیکن جگہ کی تنگی نے مجھے اس کی صرف تین نظموں پر اکتفا کرنے پر مجبور کیا۔”زمین زمین“ کے بعد بھی اختر الایمان کا کچھ کلام ادھر ادھر شائع ہوا۔ میں نے متفرق جگہوں پر مطبوعہ کلام کا انتخاب میں نہیں رکھا ہے، ورنہ ”عزم“جیسی نظم شاید ضرور شامل ہوتی۔اگر مزید نظمیں شامل کرناممکن ہوتا تو میں ایک متوسط طویل نظم ”اپاہج گاڑی کا آدمی“ اس انتخاب میں ضرور رکھتا۔اس نظم پر ۱۹۸۹ کی تاریخ پڑی ہے،اور لہجے کے حاکمانہ رنگ، آواز کی صلابت،مصرعوں کے در وبست،ان کے توازن، لفظیات میں تکلف یا ”شاعرانہ زبان“ کے التزام کے بجاے تقریباً شاہانہ بے پروائی،اور معاصر دنیا کی سطحیت، خامی اور خام کاری اور مادہ پرستی پر احتجاج اور برہمی، یہ سب باتیں ثابت کرتی ہیں کہ پچھتر برس کی عمرمیں اختر الایمان کی شاعری نہ صرف یہ کہ زوال آمادہ نہیں ہے،بلکہ اس میں نئی قوت کا امکان پیدا ہورہا ہے۔ ”نئی قوت“ سے میری مراد اختر الایمان کے رنگ کلام میں طنز کے ساتھ، جو پہلے سے موجود رہاہے،تحقیر کا عنصر شامل ہورہا ہے۔ایک طرح کا پیغمبرانہ لہجہ ہے جس میں زمانہ اور ابناے زمانہ کے کھوکھلے پن سے ہمدردی یا اس پررنج کے بجاے عدم دلچسپی کا دھوکا ہوتا ہے کہ جو ہو رہا ہے،وہ ان لوگوں کی حماقتوں اور خود غرضیوں کا کڑوا پھل ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ میں وہ پھل کھانے پر مجبور نہیں ہوں۔
اس طرح کی عدم تعلقی صرف رشیوں،منیوں اور تارک الدنیا فقیروں کو نصیب ہوتی ہے۔”اپاہج گاڑی کا آدمی“ کا آغازملاحظہ ہو:
کچھ ایسے ہیں جو زندگی کو مہ و سال سے ناپتے ہیں
گوشت سے،ساگ سے،دال سے ناپتے ہیں
خد و خال سے، گیسوؤں کی مہک، چال سے ناپتے ہیں
صعوبت سے،جنجال سے ناپتے ہیں
یا اپنے اعمال سے ناپتے ہیں
مگر ہم اسے عزم پامال سے ناپتے ہیں
ایک لمحے کے لئے گمان ہوتا ہے کہ نظم کا بنیادی وزن بحر متقارب کے سالم رکن فعولن سے عبارت ہے۔لیکن کچھ ہی دور چلنے پر پتہ چلتا ہے کہ بنیادی وزن بحر متدارک کا سالم رکن فاعلن ہے۔بحر کوئی بھی مقرر کی جائے، جگہ جگہ شروع یا آخر میں ایک دو حرف کم یا زیادہ ہونے کا احساس ہوتا ہے۔لیکن یہ اختر الایمان کے تسامحات نہیں ہیں، اور نہ عجز نظم کا ثبوت ہیں۔یہ اسی لاپروائی،اسی تحقیر، اسی عدم دلچسپی کا اظہارکر رہے ہیں میں نے جس کا اوپر ذکر کیا۔ دنیا اور دنیا والے اب متکلم کی سطح سے اس قدر نیچے ہیں کہ وہ ان کے چھوٹے موٹے ضوابط کی پروا نہیں کرتا۔ آج کوئی نہیں جو اختر الایمان کی طرح کثیر الصوت لہجے میں نظم شروع کر سکے۔ مندرجہ بالا اقتباس کا ہر مصرع مختلف انداز رکھتا ہے۔ہر مصرعے میں طنز اور ہمدردی مختلف تناسب سے ملائے گئے ہیں۔آخری مصرعے میں طنز کے اوپر تلخی اور تلخی کے اوپر المیہ وقار حاوی آگئے ہیں۔ مجموعی تاثر بیان کنندہ یا متکلم کے دل میں موج زن تحقیرکی لہر کا ہے۔دوسرے مصرعے کا غیر تکلفاتی انداز، استعارے اور پیکر کا غیر متوقع گہرا رنگ، طنز پر تحقیر کی بالا دستی،ان سب چیزوں نے ان مصرعوں کے بظاہر سپاٹ بیان کو اٹھا کر آسمان پر پہنچا دیا ہے۔
”اپاہج گاڑی کا آدمی“ اور اس نوع کی دوسری نظمیں اختر الایمان کی غیر معمولی انفرادیت کی دلیل ہیں۔ان نظموں کی پہلی قوت اس بات میں ہے کہ ان سے وہ نتیجے نہیں نکل سکتے جو متوقع، رسم بند اور سیدھی لکیر والے طریق کار کو کام میں لانے والی نظموں سے نکالے جاسکتے ہیں، یا نکل سکتے ہیں۔ فیض صاحب کی اکثر نظمیں اس طریق کارکی مثال ہیں۔اختر الایمان ہمیں چونکانے کی خاطر نظم نہیں کہتے، اور نہ وہ روز مرہ قسم کی ”تحیر خیزی“ کو کام میں لاتے ہیں۔ہر نظم میں ان کی فکر مختلف پیچ و خم سے گذرتی ہے اور قاری کو مجبور کرتی ہے کہ وہ ہر موڑ پر ٹھہر کر سوچے کہ اسے اس نظم کے بارے میں کیا رویہ اختیا کرنا ہے۔ مثلاً”اپاہج گاڑی کا آدمی“جونظم کے شروع میں زندگی کو عزم پامال سے ناپنے کی بات کر رہا تھا، تھوڑی دیر میں کچھ اور کہتا ہو اسنائی دیتا ہے:
میں اس زندگی کی بہت سی بہاریں غذا کی طرح کھا چکا ہوں
پہن اوڑھ کر پیرہن کی طرح پھاڑ دی ہیں
اب ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ اگر یہ بیان صحیح ہے تو شروع والے بیان کو کیا قیمت دی جائے؟یا ایسا تو نہیں کہ دو الگ الگ لوگ ہیں اور الگ الگ بات کہہ رہے ہیں؟نظم کے مختلف حصوں میں الگ الگ لہجے سنائی دیتے ہیں،لیکن بولنے والا شاید ایک ہی ہے۔ یا ایسا ہے کہ بولنے والا شاعر خود ہے اور وہ اپنے مختلف تجربات اور کیفیات کو اپنے اوپر منطبق کر کے ڈرامائی کردار کی طرح ہم سے (یا اپنے آپ سے؟) گفتگو کررہا ہے۔نظم ختم ہوتے ہوتے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ساری دنیا ہی اس کی متکلم ہے، نظم کا لہجہ جس تحقیر،عدم تعلق، اور دوری سے عبارت ہے، اس کا ہدف ہم سب ہیں۔ہم سب اپاہج گاڑی کے آدمی ہیں۔لیکن ایک فرق بھی ہے، اب شاعر/متکلم ہمیں یہ بھی جتاتا ہے کہ یہ دوری اور بے تعلقی در اصل نظام حیات کے چلانے والوں، یعنی کائنات کے کارکنان قضا و قدر میں اور متکلم/شاعر میں مشترک ہے۔ پھر اچانک یہ خیال بھی پیدا ہوتا ہے کہ مشینی طور پر،یا نباتات کی سطح پر زندہ رہنے کا یہ احساس کسی المیہ کیفیت کاآئینہ دار ہے، محض احتجاج کا نہیں۔نظم کے آخری مصرعے ہیں:
ہم بھی کیوں نہ خدا کی طرح یوں ہی چپ سادھ لیں
پیڑ پودوں کی مانند جیتے رہیں
ذبح ہوتے رہیں!
وہ دعائیں جوبارود کی بو میں بس کر
بھٹکتی ہوئی زیر عرش بریں پھر رہی ہیں
انھیں بھول جائیں
زندگی کو خدا کی عطا جان کر ذہن ماؤف کر لیں
یاوہ گوئی میں یا ذہنی ہذیان میں خودکو مصروف کرلیں
ان میں مل جائیں جو زندگی کو
گوشت سے، ساگ سے،دال سے ناپتے ہیں
مہ و سال سے ناپتے ہیں
اپنا ہی خون پینے لگے ہیں
چاک دامانیاں غم سے سینے لگے ہیں
لہجے کی ان پیچیدگیوں اور نظم کے ان غیر متوقع الجھاوؤں میں نظم سازی کی طرز گذاریاں یعنی Strategiesبھی شامل ہیں۔یعنی یہ سب یوں ہی نہیں ہوگیا،بلکہ شاعر کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے کہ نظم کو جتنی سطحوں پر تکلم میں لایا جاسکے،اتنا ہی اچھا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ نظم چکنی اور براہ راست نہ ہو، بلکہ کھردری، بالواسطہ اور تہ دار ہو۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page