ناول نگاری اور نظم گوئی میں آیک بڑآ آمتیاز یہ ہے کہ نظم نگاری میں شعر گوئی کا طبعی میلان ہونا چاہیے.اس کے علاوہ اپنی شعری تاریخ اور شعر گوی کے فنی لوازمات سے آگہی بھی ورنہ بے کار اور لغو شاعری سے دیوان کے دیوان بھرے پڑے ہیں. مگر ناول نگار کے لیے محض اتنا ہی کافی نہیں.ناول نگاری کا کینوس کافی بڑآ آور وسیع ہے.ناول نگار کی نظر بہت ہی زیادہ گہری ہونی چاہیے ایسی کہ وہ جزیات کو بھی نظر انداز نہ کر پاے. کیمرہ کی آنکھ محض ظآہر کو دیکھتی اور دکھآتی ہے جبکہ ناول نگار کو فن کی سرحدوں کو چھونے کے لیے ظآہر سے بہت آگے جانا چاہیے. چاہے وہ کرداروں کا باطن ہو کہ دنیا کے رسم و رواج.علاوہ ازیں ناول نگار کو اپنے عہد اپنے سماج اور اسکے کرداروں کے ساتھ ساتھ آپنے موضوع پر بھی بھر پور گرفت ہونی چاہیے. یہ ہنر بڑے جبر کا ہے.اورہر کسی کے بس کی بات نہیں.ایک اور چیز جو ناول نگار کے لیے ضروری ہے وہ ہے صبر و تحمل. جہاں صبروتحمل اس کے ہاتھ سے چھوٹے گا وہ
قرۃ آلعین حیدر کی طرح ادھر ادھر بھٹکتا پھرے گا یا پھر سعادت حسن منٹو کی طرح اپنی تحریر کو چونکا دینی والی بنانے کے لیے اسے مصنوعی موڑ دیکر ختم کرنے کی کوشش کرے گا.یہ سواے نفسیاتی حربہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے.اور ادب کی تاریخ میں آچھی تحریروں کا حصہ نہیں,آپ موزیل کھول دو اور ٹھنڈآ گوشت کو لے لیں.موزیل کے اختتام میں ترلوچن کا اپنی پگڑی کھول کر موزیل کی ننگی لاش پر ڈالنا کھول دو میں ازار بند کا کھولنا اور پھر ٹھنڈآ گوشت میں ہمبستری سے قبل ٹھنڈے گوشت کا پتہ چلنا ادبی چال بازی نہیں تو پھر کیا ہے.
ناول نگار محض فوٹو گرافر نہیں ہے نہ ہی کسی خاص موضوع پر فلسفہ طرازی کرنے والا.ناول نگار کی تحریر کو تشریحی بھی نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اپنے محبوب مو ضوع پر اپنے تعصبات اور افکار کی بارش کردے. جیسا کہ ہمارے عہد کے کچھ نام نہاد لکھنے والوں نے کیا ہے.مثآل کے طور پر موت کے استعارے کو لیجیے تذکرۃالاولیا کے پیش لفظ میں مصنف نے فرید الدین عطار کی زندگی کے بارے میں لکھتے ہوے کہا ہے کہ عطار ایک متمول عطر فروش تھے.ایک دن دکان میں بیٹھے ہوے تھے کہ ایک فقیر آیا اور عطار کی شان کو دیکھتے ہوے یہ فقرہ کسا کہ اس طرح جیتے ہو تو مروگے کیسے. اس پر عطار کو غصہ آیا اور انہوں نے کہا "کیسے مرونگا جیسے تم مروگے” اس جواب پر فقیر نے کہا "تم میری طرح کیا مروگے” یہ کہتے ہوے زمین پر لیٹ کر کشکول اپنے سرہانے رکھآ لا الہ الا اللہ کہا اور جا ں بہ حق ہوگیا.اس واقعہ سے عطار اس قدر متاثر ہوے کہ انہوں نے اپنی ساری دولت غریبوں میں لٹآدی اور تلاش علم و حق میں نکل گے.موت کی.اس سے بہتر کیا تشریح ہوسکتی ہے. اسی طرح فریدالدین عطار کی شہادت کاواقعہ بھی بڑآ معنی خیز ہے.کہا گیا ہے کہ جب تاتاریوں نے عراق پر حملہ کیا تو کچھ سپاہیوں نے عطار کو گرفتا ر کرلیا. گرفتار کرکے جب وہ انہیں لے جانے لگے تو راستہ میں کچھ خریدار ملے جو غلام خریدنا چاہتے تھے اور انہوں نے جب کچھ دینار میں عطار کو خریدنا چاہا تو عطار نے سپاہیوں سے کہا کہ ان کی قیمت اس سے کہیں ژیادہ ہے اور یوں سپاہی انہیں لیکرآگے نکل پڑے. راستہ میں کچھ آور گاہک ملے جو ایک بڑی رقم میں عطار کو خرینا چاہتے تھے تب عطارنے انہیں کہا کہ وہ اتنے دام میں آنہیں نہ خریدیں کیونکہ انکی قیمیت ایک گھآس کی گٹھڑی سے بھی کم ہے, اس پر سپاہیوں کو غصہ آیا اور انہوں نے وہیں چھرا بھونک کر عطار کو شہید کردیا.یہ بھی ایک طرح سے موت کی تفسیر ہے.کچھ لوگ میری اس بات پر اعتراض کرسکتے ہیں کہ بھی یہ تو صوفیا کی بات ہے.ادیب و شاعر اس سے جدا ہیں میں انکے جواب کے طور پر یہ عرض کرنا چاہوںگا کہ موت پر یا کسی موضوع پرلمبے چوڑے تخلیقی بیانات نہ دوستو وسکی کے کسی ناول میں نظر آتے ہیں نہ ہی فرانز کافکا کے Metamorphosis میں جب جھینگر سمجھ کر.ہیرو کو مارا جارہا ہے تب بھی نہیں کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ناول کے بیانیہ میں واقعات کا تا نا بانا اور کرداروں کے.حقایق ایسی آمیزش کے تحت ہوں جیسے آٹے میں نمک ورنہ پھیکے آٹے کی پکی.روٹی پر نمک چھڑک کر کھآنے سے کھآنے کا مزہ کر کرا ہوجاتا ہے.
محسن.خان کے ناول "اللہ میاں کا کارخآنہ” میں خدا کے فضل و کرم.اور اولیا اللہ کی دعاوں.سے.آپکو کوی ایسی بات نظر نہیں آے گی ا پ صحیح معنوں میں ناول پڑھنے کا لطف اٹھآ یں گے.یہ صحیح ہےکہہ اس لطف میں آستعجاب کی کیفیت نہیں ہے نہ ہی کسی قیاس آرایء کی گنجایش.سیدھے سادے حقایق کی ایک رو ہے کہ جس میں اپ بہتے جاتے ہیں دریا کس موڑ پر مڑے گا آپکو پتہ نہیں کنارا کہاں ملے گا آپکو خبر نہیں یہ ہماری روزمرہ زندگی کا آینہ ہے کہ جسے عام آدمی اور خصوصی طور پر متوسط سے نیچے کی سطح کا آدمی جیتا ہے.جینے کی دھن میں آسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ زندگی کب گزرگی اور کہاں سے کہاں سے نکلی. اس حقیقت کو بیان کرنے میں محسن خان سو فی صد سے زیادہ کامیاب ہیں.
عنوان ” اللہ میاں کا کارخانہ” بڑآ معنی خیز ہے. گوکہ یہ مسلمانوں کے متوسط سے ڈرا نیچے کے طبقے سے متعلق ہے مگر میری نظر میں کسی بھی قوم اور کسی بھی طبقے کے متعلق ہوسکتا ہے.یہ ناول ایک فاضل ادیب کے اس قول سے منا سبت نہیں رکھتا کہ یہ کسی بچے کی آنکھ سے حقایق کو دیکھنے کے مماثل ہے. بلکہ یہ تو قدرت کے نظآم پرمصنف کا ایک بڑآ گہرا طنز کا تیر ہے. ناول کے تمام واقعات یہی ظاہر کرتے ہیں,آیسے واقعات جن میں انسان کی کوی اہمیت نہیں نہ ہی اسے ان کی کوی پیش آگہی ہے. کسی نہ کسی بہانے کردار خختم.ہو تے جاتے ہیں کبھی پیٹ سے ہونے کے دوران کبھی فالج سے تو کبھی بخار سے یہی حال جانوروں کا بھی .مرغی کو بلی پکڑ کر لیجاتی ہے تو کبھی وہ بھوکے پڑوسیوں کی غذآ بن جاتی ہے صرف کچرے کے ڈھیر می پر باقی رہ جاتے ہیں. آس پر مصنف جبران کے منہ سے استعجابیہ سوالات بھی اٹھآتا ہے یہ استعجاب قدرت کی کارفر مایوں پر ہے یعنی مرغی بنای تو بلی کیوں بنای! وغیرہ وغیرہ اس ناول کی.خوبی یہ ہے کہ شروع آخرمصنف کی.
موضوع پر پکڑ آتنی مضبوط ہے کہ کہیں بھی وہ تحریرکو ٹس سے مس ہونے نہی دیتا. اور موضوع کی سیدھی لکیر کے راستے پر کہ جو دراصل زندگی یا پھر حقیقت ہے ناول آگے بڑھتا جاتا ہے.میں اسے تحریری استقلال کا نام دونگا اس میں
دل سے شوق رخ نکو نہ گیا
تانکنا جھانکنا کبھو نہ گیا
والی کوی بات نہیں ہے جو کہ بہت نیک فال ہے.یہی احساس مجھے گستاف فلابیر کے ناول مادم باویری پڑھنے کے دوران ہوا تھآ,
خوشی.اور فخر کی بات یہ بھی ہے کہ مصنف نے زندگی کے پورے نظآم پر اتنا بڑآ طنز بھی کردیا اور اس کے غیر مری گال پر طمانچہ بھی رسید کر دیا مگر کوی آواز بھی نہ آی.یہی اس ناول کی معراج ہے. یعنی عرش پر چلے بھی گے خدا سے مکالمہ بھی کرلیا احکام بھی لے آے اوربستر ابھی گرم بھی ہے.
محسن خان نے اس ناول میں وہی کام کیا ہے جو ہر فنکار کو کرنا چاہیے یعنی قدرت یا پھر کسی اورحقیقت پر ایک سوالیہ نشان بنانا اور دکھآنا کہ باوجود اشرف الا مخلوقات ہونے کے انسان کس قدر معصوم و مجبور ہے اور زندگی کتنی لایعنی.یہ صحیح ہے کہ اس ناول میں رجایت کا کوی پہلو نہیں ہے یہ ناول دراصل میر کے شعر
ناحق ہم مجبوروں کی تفسیر ہے. یہ ایکالمیہ سے مشابہ ہے جس سے ہر انسان کو گزرنا پڑتا ہے,غیر راست طور پر اس ناول میں یہ بھیدکھآیا گیا ہے کہ کس طرح ہماری عبادتیں بے معنی ہیں آور ہمارے وظآیف او ر اوراد لغو نہ سہی بے کار ہیں. آپنی تمام تر سادگی کے باوجود اس ناول میں آیک باغیانہ اور انقلابی جوہر کی چنگاریاں پوشیدہ ہیں کہ جنہیں تلاش کرنے میں قاری کو کوی دشواری پیش نہیں اتی.نقادوں کو اس ناول کو کھلی آنکھ سے پڑھنا چاہیے نہ کہ حوالوں کی عینک یا پھر مآضی کی کتب کی.دور بین کی مدد سے.
خلیل مامون
31/12/2022
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page