تخلیقی فن، مسرت اور بصیرت کا سرچشمہ ہوتا ہے ۔جمالیاتی تسکین مسرت کا سبب ہوتی ہے،کوئی ضروری نہیں کہ ہر وہ تخلیق جو مسرت بہم پہنچائے،بصیرت افروز بھی ہو اور اس حقیقت کی بھی تردید مشکل ہے کہ افکار و نظریات پر مشتمل ہر بیانیہ فنکارانہ حسن کا متحمل نہیں ہوتا،اس سلسلے میں سارتر کے ناول Nausea(متلی) کو حوالہ بنایا جا سکتا ہے اور اردو میں انور سجاد کے ناول”خوشیوں کا باغ”اہم مثال ہے۔ ایسی صورت میں تخلیقی فن لمحاتی سرور و انبساط کی وجہ تو ہوسکتا ہے تادیر اپنا اثر قائم نہیں رکھ سکتا ۔اس کے برعکس بعض تخلیقی نگارشات فنکار کی تخلیقی ہنرمندی کی بناء پر ناقابل فراموش ہوجاتی ہیں ۔
اس پس منظر میں محسن خان کے ناول”اللہ میاں کا کارخانہ’کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے،یہ ناول جہاں تخلیقی طور پر جمالیاتی آسودگی فراہم کرتاہے وہیں بیانیہ فکری و معنوی طور پر دو آتشہ ہے،بیانیہ کی پہلی سطح پر بکھری ہوئی کہانیاں بالکل عام نہج کی ہیں،اگر ترقی پسند عہد میں یہ ناول منظر عام پر آتا تو مارکسی نظریات نہ ہونے کے باوجود اس ناول کو سرفہرست رکھا جاتا کہ اس زمانے میں غربت،بھوک،آنسو،دکھ،مصیبت پر مبنی ہر تخلیق اعلی درجے کی ہوا کرتی تھی لیکن اکیسویں صدی میں فکشن کا رویہ بدلا ہے۔
زیر مطالعہ ناول کی فکری و فنی ثروت مندی یہ ہے کہ یہ اردو کی پہلی استعاراتی تمثیل ہے جو بچوں کی نفسیاتی گرہوں کو فنکارانہ مہارت سے اجاگر کرنے پر اصرار کرتی ہے۔
ناول نگار نے تقلیدی کے بجائے اجتہادی رویہ اختیار کیا ہے،یہ نہیں کہا جا سکتا محسن خان نے مغربی اور مشرقی ناولوں سے خوشہ چینی کی ہے،یہی وجہ ہے کہ عصری ہنگامی وقوعوں،سیاسی ریشہ دوانیوں،اقدار کی زوال آمادگی اور سانحہ شہادت جیسے صحافتی موضوعات سے ناول کا بیانیہ ہمرشتہ نہیں۔
ایسی بات نہیں کہ مصنف عصری حسیت اور زعفرانی سیاست سے بالکل نابلد ہے بلکہ سوشل میڈیا نے سماجی اور سیاسی صورتحال کے ہر ہر لمحے کو گھر گھر پہنچا دیا ہے،اب تو ناخواندہ خواتین بھی فلسفیانہ مباحث میں خود کو شامل کرنے لگی ہیں،ان مباحث کو ناول میں شامل کرنے سے محسن خان بھلا کیسے چوک جاتے؟انہوں نے شعوری طور پر تخلیقی عمل کے لیے جمالیاتی حسن اور بصیرت افروزی کے دوسرے علاقوں کا انتخاب کیا ہے۔
بچوں کی نفسیات سے متعلق زیادہ تر افسانے لکھے گئے ہیں، ناول میں اس جانب توجہ کم کم دی گئی ہے۔منٹو کے افسانے’پھاہا’ اور’دھواں’ بیدی کا افسانہ ‘بھولا’ سید محمد اشرف کا افسانہ ‘دعا’وغیرہ یاد گار تخلیقی نگارشات ہیں۔ چند معاصر ناول نگاروں نے اپنے ناولوں کے چند اوراق بچوں کی نفسیات کو اجاگر کرنے کے لیے وقف کیے ہیں اور کمال ہنرمندی کا ثبوت بھی فراہم کیا ہے۔مثلا ناول’آخری سواریاں’کا پہلا حصہ بچوں کی نفسیات کو نمایاں کرتا ہے،جمو(جمیلہ) اور ناول کے راوی کے بچپن کے واقعات گاؤں اور قصبوں سے وابستہ قارئین کو متوجہ کرتے ہیں ۔اشرف صاحب کا تیز مشاہدہ اور پرلطف انداز پیشکش تادیر اپنا اثر قائم رکھتا ہے۔
ناول’قبض زماں'( شمس الرحمن فاروقی )کا پہلا باب بھی گاؤں کے مناظر پر مشتمل ہے،نعیم صاحب جب خواب میں اپنے بچپن کا سفر کر تے ہیں تو قارئین بھی ان کے ساتھ ہولیتے ہیں ،بچپن میں شام ہوتے ہی سنسان راستوں پر چلتے ہوئے چڑیل اور بھوت کے ڈر سے خوفزدہ ہونا کسے یاد نہیں ،باغیچوں کی رکھوالی کے دوران بھوت پریت کا خوف اور مولوی صاحب سے تعویذ لکھوانا ،بھری دوپہر میں گرگٹ اور آموں کے درختوں پر پتھر مارنا ہم گاؤں والے تو نہیں بھول سکتے۔
بچوں کی نفسیاتی گرہوں کو انتظار حسین نے بھی اپنی بعض تخلیقی نگارشات میں منور کیا ہے لیکن کسی فکشن نگار نے بچوں کی نفسیات پر مشتمل مکمل ناول تخلیق نہیں کیا۔’اللہ میاں کا کارخانہ’اردو کا پہلا ناول ہے جو بچوں کی دلچسپ نفسیات کو محیط ہے۔
ناول اپنے عنوان سے ہی قاری کو گرفت میں لے لیتا ہے۔’جبران کی مناجات’ جبران کی اللہ سے فریاد’ ‘دکھ ہی دکھ’ وغیرہ وغیرہ بھی عنوان رکھا جا سکتا تھا لیکن ناول نگار نے لفظ’کارخانہ’کو اہمیت دی ہے۔ظاہر ہے لفظ ‘کارخانہ ‘کائنات کا کا مترادف ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ اس کارخانہ میں انسان بنائے جاتے ہیں جس کو بنانے والا اللہ ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ کارخانہ میں تیار ہونے والی چیزیں یکساں نہیں ہوتیں،بلکہ عمدہ سے عمدہ چیزیں بھی تیار ہوتی ہیں اور کچھ چیزیں ڈائس کی خرابی کی وجہ سے ٹیڑھی میڑھی بھی بن جاتی ہیں،ناول نگار کی نگاہ انہی ٹیڑھی میڑھی اور شکستہ چیزوں (مخلوقات) پر ہے۔ جن کی آس و امید صرف اللہ اور اسکے احکامات پر عمل درآمد کرنا ہے۔
ناول کا مرکزی کردار جبران ہے جو دس سالہ ایک ذہین بچہ ہے جس کی زبانی ساری کہانی کہی گئی ہے۔والدین اور بہن نصرت پر مشتمل جبران کا کنبہ،اسکے چچا اور چچی کا کنبہ اور گاؤں کے مدرسے کے حافی جی کے شب و روز،ان کی نفسیات اور ان کے گزران کو موضوع بنایا گیا ہے۔ناول نگار نے سوچی سمجھی تھیم کے تحت ناول کا بیانیہ خلق نہیں کیا ہے بلکہ ایک ترنگ میں مسلم معاشرت کے پیش نظر محزوں خیالات کو نامیاتی ربط کے ساتھ ہمرشتہ کیا ہے۔زیر مطالعہ ناول میں قلم کی باغبانی کیا ہوتی ہے،اس فنکارانہ جہت کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔تخلیقی فن محسوسات کا ہی منبع ہوتا ہے، اصلاح معاشرہ فنکار کا وتیرہ نہیں بلکہ صحافیانہ طرز اظہار ہے۔
ناول سے متعلق درجنوں تحریریں لکھی جاچکی ہیں گرچہ زیادہ تر ادبی محتسبوں نے بیانیہ کی ظاہری ساخت پر تیرنے والے واقعات اور چھوٹے موٹے سانحات کا ہی ذکر کیا ہے کہ جبران کو گھر،رشتے دار اور مدرسہ میں کیا کیا صعوبتیں جھیلنا پڑیں،نصرت نے کس ہمدردی سے بھائی کا خیال رکھا،جبران کے والد ولید میاں کو تبلیغ اسلام کی سزا کے طور پر گجرات کے جیل میں قید کرلیا گیا، پارچون کی دکان سے ان کے کنبے کو ہاتھ دھونا پڑا۔ ،والدہ نے مصائب کا حل احکام خداوندی اور صوم و صلوۃ میں تلاش کیا،
چچی نے ایک ننگی تصویر دیکھنے کے جرم میں جبران کو کس اذیت سے گذرنے پر مجبور کیا،حافی جی گو کہ سخت گیر موقف لے کر ناول میں داخل ہوتے ہیں لیکن ان کی رحم دلی اور جبران کے ساتھ پدرانہ شفقت نے انہیں اہم کردار بنا ڈالا،بہت کم محتسبوں نے ایک لمحاتی کردار رام سیوک کو اہمیت دی ہے جبکہ یہ کردار ناول کی فکری و معنوی فضا کو مزید گہرا کرتا ہوا نظر آتا ہے جب وہ کہتا ہے۔
"رام سیوک نے میری بکری کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا’کیا تمہاری بکری مسلمان ہے؟’
میں نے کہا’کیا تم بیوقوف ہو،بکری بھی کہیں ہندو اور مسلمان ہوتی ہے’
رام سیوک نے کہا’اگر مسلمان نہیں ہے تو پھر اس کی داڑھی کیوں ہے’
میں نے کہا’گائے تو ہندو ہوتی ہی ہے اسی لیے تو ہم لوگ اسے گئوماتا کہتے ہیں,
رام سیوک نے کہا’تم لوگ کہتے ہوگے جانور تو بس جانور ہوتے ہیں’
رام سیوک نے کہا’تم لوگ کٹوے ہوتے ہو اسی لیے ہماری گئوماتا کو جانور سمجھتے ہو”(صفحہ:186)
رام سیوک کا مختصر مکالمہ ملک میں چھتنار درخت کی صورت پھیلنے والے ایک زہریلے نظریہ کو نمایاں کرتا ہے۔
ناول نگار سے شکایت کی جاسکتی ہے کہ بیانیہ کی زیریں لہروں میں جس طرح مسلمانوں کی صورت حال کو ظاہر کیا گیا ہے اس طرح اکثریتی طبقے کے نشانات مفقود کیوں ہیں جبکہ گاؤں میں مشترکہ تہذیب و ثقافت محوسفر ہوتی ہے،صبح کی اذان کے ساتھ مندر کی گھنٹیاں بھی سنائی دیتی ہیں۔جہاں جبران کا کنبہ اور اس کے رشتے داروں کے افلاس اور کسمپرسی کے مناظر بیان کئے گئے ہیں وہیں کوئی اکثریتی فرقہ کا کنبہ بھی کہانی میں شریک ہوتا تو اثر آگیں ہوتا۔ناول کے اختتام پر اس کمی کا ناول نگار کو ہوا ہے ۔اس پس منظر میں رام سیوک کا کردار معنی خیز ہوجاتا ہے اور ناول نگار کو ایک فرقہ کو درشانے کے جرم سے آزاد کیا جا سکتا ہے۔رام سیوک گو کہ پوری اکثریتی طبقے کا نمائندہ نہیں بلکہ ایک خاص ذہنیت کو منکشف کرتا ہے جسے ہم آئے دن اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں۔
محسن خان کی تخلیقی ندرت کا احساس یوں بھی ہوتا ہے کہ ناول کا بیانیہ آنسوؤں سے تر ہے لیکن مجال ہے کہ مصنف اشکبار ہو یا قاری کی آنکھیں نم ہوں،کرشن چندر کہانیاں لکھتے وقت اور ہم پڑھتے ہوئے اشکبار ہوجایا کرتے تھے، اس گلوگیر فطرت سے محسن خان آزاد نظر آتے ہیں،جیسے وہ مزہ لے لے کر ایک قوم کے ضمیر کے دروازے پر پڑے قفل کو کھول رہے ہیں،مثلا ولید میاں جب پاکستانی ایجنسی کے اجینٹ قرار دئیے جانے کے بعد گجرات کے حوالاجات میں بند ہوتے ہیں تو ناول نگار کی آنکھیں ذرا بھی نہیں بھیگتیں اور نہ ہی حکومت اور سیاسی صورتحال کے خلاف زوردار مکالمہ قائم کیا جاتا ہے،ترقی پسند افسانہ نگار تو ایسی صورت حال میں لفظوں کے تیر سے حکومت کے پرخچے اڑا دیتا لیکن محس خان بڑی خاموشی سے ایک وقوعے کی جھلکیاں دکھا کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔
ناول نگار کا منشا ملک میں پھیلنے والے کمیونلزم کو ظاہر کرنا قطعی نہیں ان کا مقصد ایک مخصوص قوم کی محدود سوچ پر کاری ضرب لگانا ہے۔ناول میں بھلے ہی چند مسلمان کرداروں کو متحرک دکھایا گیا ہے لیکن یہ سارے کردار عصر حاضر میں مسلمانوں کی صورت حال کی روشنی میں استعاراتی تمثیل ہیں۔
درج بالا سطور کہا گیا کہ بیانیہ فکری و معنوی طور پر دوآتشہ ہے اس اجمال کی تفصیل خالد جاوید کے درج ذیل اقتباس میں تلاش کی جا سکتی ہے۔
"جہاں تک میرا سوال ہے،میں
استعارہ تک کو خاطر میں نہیں لاتا،خود کوئی تخلیق بطور اکائی استعارہ بن جاتی ہے تو میں خوش دلی سے اسے قبول کر لیتا ہوں ورنہ زبان میں استعاراتی عمل فطری طور پر بقول نطشے ( Nietzche Friedrich) شامل ہی رہتا ہے۔اس لئے میں آج تک سمجھ نہیں پایا کہ زبان کے فطری استعاراتی عمل سے کٹ کر کوئی ادیب استعارے کیسے بنا سکتا ہے اور اپنے متن میں انھیں ٹھونس سکتا ہے”
(اثبات شمارہ نمبر 35صفحہ 29)
‘خود کوئی تخلیق بطور اکائی استعارہ بن جاتی ہے’تک رسائی کے لیے اس اقتباس کا حوالہ دیا گیا،محسن خان نے شعوری طور پر استعارہ سازی کی طرف توجہ صرف نہیں کی ہے بلکہ بیانیہ کا Totality of effect استعاراتی تفاعل کی طرف قاری کو متوجہ کرتا ہے۔مسلمانوں کی سوچ کی محدودیت کتنے جبران جیسی ذہانت کی قاتل ہے؟،اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا،”ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں سائنس "سرسید کے اس خیال کو مزید تقویت دی جاتی تو شاید جبران ،خلیل جبران کی سطح تک جانے کی سوچ سکتا تھا،ناول نگار نے ہلکا سا اشارہ بھی کیا ہے کہ دین کے ساتھ دنیاوی تعلیم بھی ضروری ہے۔
بیانیہ کی زیریں لہروں میں دو سزایافتہ کرداروں کی کہانی ناول کا مرکزی تھیم ہے،سزا و جزا کا تصور ہر مذہب میں موجود ہے، سزایافتہ کردار ‘ولید’ اور’جبران’کا تعلق اسلام سے ہے۔ولید کی سزا پر ناول نگار کو حیرت نہیں ہوتی گویا کہنا چاہتا ہو کہ تم جیسے نکموں کا انجام یہی ہونا چاہیے،ڈیجیٹل عہد میں تبلیغ کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن جبران کی ذہانت اور معصومیت کا گلا گھونٹنے والی مذہبی معاشرت ناول نگار نے فنکارانہ مہارت سے بے نقاب کیا ہے ،اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں سے متعلق جبران نے ڈھیر سارے سوالات قائم کئے ہیں،مثلا بلی اگر مرغی کی جان لے سکتی ہے تو اللہ نے بلی کو پیدا ہی کیوں کیا؟ یعنی کمزور کے ساتھ مضبوط کا کیا رشتہ ہے،جبران نے لاشعوری طور اللہ کے جبر کو درشایا ہے،گرچہ جبران کا سارا کنبہ اللہ کے احکامات کا مطیع ہے پھر بھی اتنے دکھ کیوں؟
ناول نگار نے چپکے سے دکھتی رگ پہ انگلی رکھ دی ہے۔
ناول نگار نے مذہبی معاشرت میں ظہور پذیر تضادات کو بیان کرنے کے لیے جبران کی معصومیت کا سہارا لیا ہے۔ناول سے متعلق شافع قدوائی کا یہ خیال کہ
"سزا کا تصور انسانی معاشرے کی بقاء کے لیے ضروری ہونے کے باوجود اپنی اصل میں دوسروں کو مغلوب کرنے کی ازلی انسانی خواہش کا استعارہ ہے”
مبنی بر حقیقت ہے۔
بین السطور میں ایک نوع کی مغموم فضا بندی کا احساس ہوتا ہے،گو کہ یہ فضا بندی ایک ،دو کنبوں کے افراد اور حافی جی کی گفتگو تک محدود نظر آتی ہے لیکن اس کاانسلاک برصغیر میں موجود مسلم معاشرت سے قائم کیا جاسکتا ہے اسں تناظر میں شافع قدوائی نے شیکسپیئر کے ایک جملے کی روشنی میں اس معاشرے کی علامتی تشبیہ کی صورت کو نمایاں کیا ہے۔وہ جملہ آپ بھی ملاحظہ کریں۔
London was a non-stop theatre of punishment.
ناول کی ظاہری ساخت کچھ اور ہی نظارہ پیش کرتی ہے۔ بیانیہ کی بنت کاری میں زبان و بیان میں شگفتگی اور ربط نے ناول کو غیر معمولی بنا دیا ہے۔ بچوں کی نفسیاتی سوچ کے دھاروں پر شاید اتنی گہری نظر اردو فکشن میں کم کم دکھائی دیتی ہے۔
غربت کی انتہا جب ہوتی ہے تو بچوں کی سوچ بھی عام نہج سے ہٹ کر ہوتی ہےکیتھرین ۔مینسفیلڈ کی کہانی ‘The Dolls House میں اپر کلاس اور لور کلاس کی ذہنیت کو فنکارانہ سطح پر منکشف کیا گیا ہے،ایزابیل ،کیزیا اور لوٹی اپر کلاس کی بچیاں ہیں اور ایلس اور لل دھوبن کی بچیاں ہیں جنہیں Kelevy Sisters کہا گیا ہے،امیر زادی لڑکیوں نے اپنے خوبصورت ڈولس ہاؤس دیکھنے کے لیے اسکول کی سہیلیوں کو دعوت دی تو یہ غریب بچیاں بھی پھٹے پرانے کپڑوں میں ڈولس ہاؤس دیکھنے پہنچ گئیں،لیکن ان کو گھر کے اندر جانا نصیب نہ ہوا،دونوں بہنیں مایوس لوٹ رہی تھیں کہ اچٹتی سی نگاہ ڈولس ہاؤس کے اندر جلتی بجھتی شمع پر پڑ گئی اور راستے میں دونوں بہنیں مسرت کا اظہار کررہی تھیں کہ انہوں نے بھی ڈولس ہاؤس کی خوبصورتی کو دیکھ لیا۔اعلی سماج کی ٹھکرائی ہوئی بچیوں کی نفسیات پر مبنی یہ عمدہ کہانی ہے،اسی طرح کے احساسات کی جھلکیاں محسن خان کے ہاں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔یہ منظر دیکھیں۔
"اس دن مدرسے پہنچ کر میں (جبران)نے اپنی چپلیں دوسرے بچوں کے جوتوں چپلوں کی اگلی صف میں اتاریں اور دونوں کو برابر کر دیا تاکہ اور اچھی لگیں”(صفحہ:97)
برسوں میں ایک جوڑی نئی چپلوں کو پاکر ایک عسرت میں زندگی گذارنے والے بچے کی نفسیاتی سوچ کیا ہوسکتی ہے،اسے محسوس کیا جاسکتا ہے۔
محسن خان نے مزاح کے پہلوؤں کا دامن کس کر پکڑا ہے،کہیں کہیں تو بے ساختہ ہنسی چھوٹ جاتی ہے،یہ منظر دیکھیں۔
"جیسے ہی میں نے پتنگوں کی طرف دیکھا تو انہوں نے میری آواز کی نقل کرتے ہوئے منمنا کے کہا’مسٹر چھانٹو! آج زیادہ چھان پھٹک مت کیجیے گا۔دور سے دیکھ کر ایک ہی اٹھائیے گا اور پتلی گلی سے نکل جائیے گا”(صفحہ:98)
جبران اور دیگر بچوں کی شرارتیں اپنے شباب پر ہیں،پورے ناول میں جبران کی معصومیت سے پر شرارتیں نہایت ہی دلچسپ ہیں،ایک مقام پر جبران اور خالد نے گدھے کی دم میں پیپا باندھ دیا ۔ اس کے بعد کے مناظر آنکھوں کے سامنے خود تیرنے لگتے ہیں۔دوسرے دن مدرسے میں حافی جی کا لہجہ ایک عجیب سا لطف دیتا ہے،ذرا ملاحظہ کریں۔
"ہاں بھئی یہ بتاؤ کہ وہ مرد مجاہد کون ہیں، جنہوں نے کل ایک گدھے کی دم میں پیپا باندھ کر اسے دوڑانے کا عظیم الشان کارنامہ انجام دیا تھا۔’
میں(جبران)نے کنکھیوں سے خالد کی طرف دیکھا۔خالد میری طرف اس طرح دیکھنے لگا جیسے اسے بھی اس بات سے حیرت ہورہی ہو کہ حافی جی کو یہ بات کیسے معلوم ہوگئی،حافی جی کچھ دیر تک ہمارے جواب کا انتظار کرتے رہے،اس کے بعد انہوں نے کہا’عزت مآب عالی جناب خلیل جبران صاحب! کیا آپ ذرا دیر کے لیے میرے پاس آنے کی زحمت گوارہ کریں گے؟”(صفحہ:91)
اس طرح کے چھوٹے چھوٹے،دلچسپ اور اثر آفریں بہت سارے مکالمے قاری کو باندھے رکھتے ہیں۔
محسن خان نے جہاں جزیات نگاری کا لوہا منوایا ہے وہیں ہوبہو شکلوں کی تصویریں بھی لفظوں کے ذریعے آنک دیا ہے۔مدرسے میں حافی جی کی صورت کا نظارہ آپ بھی دیکھیں ۔
"ہم لوگوں کو حافی جی کی خدمت کرکے بڑی خوشی کا احساس ہوتا تھا۔سر اور پاؤں دبواتے وقت ان کی آنکھیں اس جانور یا پرندے کی طرح بند ہوجاتی تھیں جس کا سر سہلایا جارہا ہو،منھ اس طرح ٹیڑھا ہوجاتا جیسے لقوہ ہو گیا ہو اور ٹیڑھے منھ سے بھانت بھانت کے خراٹے نکلنے لگتے تھے،کبھی تھٹ پھٹی سی آوازیں نکلتیں اور کبھی لگتا کہ جیسے سائیکل کے ٹائر میں پنکچر ہوگیا ہو”(صفحہ:24)
اس طرح کی لفظی پینٹنگز اردو فکشن میں خال خال ملتی ہے،
قلم کی باغبانی کا ذکر درج بالا سطور میں کیا گیا ہے،پورے ناول میں اس وصف کا احساس ہوتا ہے۔
گاوں ،ںہات میں توہم پرستی آج بھی قائم ہے،بعض مقامات پر اس کی جھلکیاں بھی موجود ہیں۔مثلا
"عادل کی ممانی عادل کے چھوٹے ماموں کے چپٹ گئیں اور رو رو کے کہنے لگیں،تمہارے بھائی کی زندگی اب تھوڑی رہ گئی ہے’
‘ہواکیا ہے’عادل کے چھوٹے ماموں نے پوچھا تو عادل کی ممانی نے کہا’ان کے سر کوا بیٹھ گیا ہے”(صفحہ:75)
اسی تناظر میں ایک مثال اور دیکھیں۔
"تو گھڑی چرا کر لایا ہے؟”اماں نے مجھ (جبران)سے پوچھا۔
گھڑی نہیں چرائی ہے” میں نے روتے ہوئے کہا
"میں (جبران کی والدہ )حافی جی سے انڈا کٹواؤں گی تب پتہ چلے گا تم نے چرائی ہے کہ نہیں چرائی ہے”(صفحہ:103)
نطشے نے غالباً اسی طرح کے خوفزدہ لوگوں کے لیے خدا کی موت کا اعلان کیا ہوگا،دوسری حقیقت یہ تھی کہ چرچ کے پادری خدائی خدمتگار کے طور پر لوگوں کو ڈرا ڈرا کر ان کا استحصال کررہے تھے،مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی مولویوں کے جھانسے میں آتی رہی ہے جس کی طرف ناول نگار نےگاہ بہ گاہ اشارہ کیا ہے۔
یہ طنزیہ مکالمہ ملاحظہ کریں
"تم سے کس نے کہا کہ وہ مجذوب ہیں؟”
میں نے کہا۔ایسے ہزاروں پاگل دنیا میں گھوم رہے ہیں۔کوئی لنگوٹی والا بابا ہے ،کوئی گدڑی والا بابا ہے تو کوئی ننگ دھڑنگ بابا ہے۔کم علم لوگ انہیں مجذوب سمجھ لیتے ہیں”(صفحہ:74)
ناول میں ایسے بہت سارے مقامات ہیں جہاں مصنف نے مذہب کے نام پرجاری گمراہیوں کو منور کیا ہے۔
تخلیقی فنکار فلسفی نہیں ہوتا لیکن گہرے افکار و تصورات بیان کرنے پر قادر ہوتا ہے،ناول کا آخری حصہ گہرے افکار و خیالات کے وصف سے متصف ہے۔خصوصی طورپر قبروں پر لگائے جانے کتبوں پر بصیرت افروزجملے قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ کتبوں پر تحریر کردہ ایک دو جملے آپ بھی پڑھیں۔
"وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا۔پرندہ جب زندہ ہوتا ہے تو چیونٹیوں کو کھا جاتا ہے مگر جب مر جاتا ہے تو وہی چیونٹیاں اسے کھا جاتی ہیں”(صفحہ:196)
"اچھے لوگ مرنے کے بعد اپنی لایبریری (بہ معنی وراثت) میں اچھی کتابیں چھوڑ جاتے ہیں”(صفج:196)
مصنف نے ابواب طے نہیں کئے ہیں لیکن گاہ گاہ مختلف خیالات کے مجموعی مفاہیم کے اظہار کے لیے چند جملے تحریر کئے ہیں۔مثلا کتبوں سے متعلق مصنف کے معنی خیز یہ جملے ملاحظہ کریں۔
"قبر کے کتبے پر اچھی اچھی باتیں لکھ دینے سے مردے کے اعمال اچھے نہیں ہوجاتے”(صفحہ:199)
ناول کے متعدد صفحات پر اس طرح کے گہرے افکار و خیالات پر مبنی جملے بیانیہ کی فکری و معنوی سطح کو مزید بلند کرتے ہیں۔چند صفحات پر تحریر کردہ جملوں کی فکری وسعت سے آپ بھی حظ اُٹھائیں۔
"یہ دنیا ایک تماشا گاہ ہے،یہاں کوئی تماشا دکھا رہا ہے تو کوئی تماشا دیکھ رہا ہے”(ناول کا آغاز)
"چیزیں ویسی ہی دکھائی دیتی ہیں جیسا تم انہیں دیکھنا چاہتے ہو”(صفحہ:69)
"تم جہاں سے بھاگتے ہو ،وقت اکثر تم کو وہیں پہنچا دیتا ہے”(صفحہ:171)
"ہم جتنی تیزی سے دنیا کی طرف دوڑتے ہیں دنیا اتنی ہی تیزی سے پیچھے چھوٹتی جاتی ہے”(صفحہ231)
درج بالا اقوال زریں سفر حیات و کائنات کو سمجھنے میں کسی نہ کسی طور مہمیز لگاتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
فن ناول نگاری میں افکار و خیالات کی بلندی اتنی اہمیت نہیں رکھتی بلکہ کسی ناول کو اہم بنانے میں ٹریٹمنٹ،تیکنک اور اسلوب اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اردو میں اب تک جتنے اہم ناول موجود ہیں ان میں مذکورہ فنی عناصر کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا،بعض ناول تو ٹریٹمنٹ اور تیکنک کی وجہ سے ہی اہم تصور کئے جاتے ہیں،مثلا سید محمد اشرف کا ناول”آخری سواریاں”
ناول سہہ بیانیہ ہے لیکن فنکار کا ٹریٹمنٹ اسے سالمیت اور جمالیاتی حسن عطا کرتا ہے،خالد جاوید کے ناول "موت کی کتاب”اور”ارسلان اور بہزاد”ٹریٹمنٹ اور تیکنک کی وجہ سے اہم کہے جاسکتے ہیں۔ان کے ناولوں کے بیانیوں کی تنی ہوئی چھتری سے تیکنک کے کمان کھینچ لئے جایئں تو ناولوں کی فنکارانہ حدیں سکڑ جائیں گی۔رحمن عباس نے فنکارانہ مہارت کے ساتھ ناول’زندیق’میں مختلف تیکنکوں سے مدد لی ہے،
ناول”اللہ میاں کا کارخانہ’ کا بیانیہ تیکنیکی عناصر سے کوسوں دور ہے پھر بھی ناول کافی متاثر کن ہے،سوال قائم کیا جاسکتا ہے،کیوں؟
اسلوب پر فنکار کی مضبوط گرفت اور ٹریٹمنٹ پر گہری نظر نے ناول کو اہم بنادیا ہے۔ ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے والے کاٹون صرف بچوں کو ہی نہیں،بڑوں کو بھی اپنی گرفت میں رکھنے میں کامیاب نظر آتے ہیں،اس کی خاص وجہ وائس آرٹسٹ (Voice Artist )کی میلوڈیس آوازیں اور مکالمے ہوتے ہیں ۔زیر مطالعہ ناول کے ٹریٹمنٹ میں اسی Voice Artist کی ہنرمندی دیکھی جا سکتی ہے۔ہر کردار پورے آب و تاب سے قاری کی آنکھوں کے سامنے اپنی جھلکیاں دکھانے لگتا ہے،اس عمل کو وارث علوی ‘حاضراتی بیانیہ’سے تعبیر کیا کرتے تھے۔کرداروں کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ معنوی لحاظ سے ایک نوع کےاتار چڑھاؤ رکھتے ہیں،بچے،جوان،بوڑھے،تعلیم یافتہ،ناخواندہ،مولوی وغیرہ سب کی بولیاں ایک خاص لہجہ رکھتی ہیں،محسن خان نےاس جانب خاص توجہ دی ہے۔مکالموں سے سچویشن نمایاں ہونے لگتا ہے۔ بیانیہ کی بنت کاری "چاول پر قل اللہ لکھنا” جیسے محاورے کا احساس دلاتی ہے۔
مثال کے طور پر درج ذیل اقتباسات کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔
"اسی وقت نیلے سفید پروں والی ایک تتلی کہیں سے آئی اور لہرا لہرا کے آنگن میں اڑنے لگی،مرغی نے تتلی کو دیکھا تو اچھل اچھل کر پکڑنے کی کوشش کرنے لگی،مرغی کے ساتھ ساتھ چوزے بھی اچھلنے لگے”(صفحہ:106)
"بکری کی میں میں اور حافی جی کے خراٹوں کی آوازیں بہت پریشان کرتی ہیں۔بار بار ذہن بھٹک جاتا ہے،معلوم نہیں آدمی خراٹے کیوں لیتا ہے،اور یہ بکری پیٹ بھر کے گھاس چرنے کے باوجود ہوں ہوں ہوں ہوں کیوں کرتی ہے”(صفحہ:95)
"اب میرے پاس اتنی ڈور رہ گئی تھی کہ میں اس سے چھتم پارہ یا لنگڑ پیچ ہی لڑا سکتا تھا۔پتنگ کے کٹنے کے بعد کھنچتے وقت گھاس میں پھنس کر اور میرے ہاتھوں میں الجھ کر ڈور کئی جگہ سے ٹوٹ بھی گئی تھی”(صفحہ:67)
حاضراتی بیانیہ کی درجنوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں،
ناول نگار کی تخلیقی انفرادیت بیانات کی نرم آثاری اور شگفتگی سے قائم ہوتی ہے،ناول کا اسلوب Charles Dickens کی معروف تخلیق David Copperfield اور جوناتھن سویفٹ کے گلیور ٹراویلس کی یاد تازہ کرتاہے،محسن خان کا تقابل مذکورہ مصنفین سے قطعی نہیں کیا جا سکتا لیکن زیر مطالعہ ناول کا بیانیہ عرصہ اتنا گٹھا ہوا ہے کہ کہیں بھی Raptureکا احساس نہیں ہوتا،بعض ناولوں کا بیانیہ عرصہ فکری و معنوی لحاظ سے کافی بلند ہوتا ہے لیکن بیانیہ عرصہ کے بعض گوشے Rapture سے مملو ہوتے ہیں جہاں قاری دوران قرأت معلق ہوجاتا ہے صرف بیانات کی جگالی کرتا ہے کچھ لے نہیں پاتا،
اس تناظر میں محسن خان نے کافی محتاط رویہ اختیار کیا ہے۔بیانیہ میں کہیں کوئی گھن گرج نہیں پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کے موسم گرما میں سرد ہوائیں چل رہی ہیں اور قاری کسی گھنے درخت کے سائے میں بیٹھ کر جمالیاتی آسودگی حاصل کر رہا ہے۔بیانیہ کی دلکشی اور شگفتگی کی وجہ سے محسن خان کی انفرادیت اپنی مثال آپ ہے۔
*********
مقصود دانش،کولکاتہ
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |