Adbi Miras
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      ستمبر 29, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تراجم

      مکتی/ منو بھنڈاری – ترجمہ: ڈاکٹرفیضان حسن ضیائی

      جنوری 21, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خبر نامہ

      مارچ 15, 2025

      خبر نامہ

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

      خصوصی مضامین

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      متفرقات

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
مقبول ترین
تدوین متن کا معروضی جائزہ – نثار علی...
ترجمہ کا فن :اہمیت اور مسائل – سیدہ...
تحقیق: معنی و مفہوم ۔ شاذیہ بتول
سر سید کی  ادبی خدمات – ڈاکٹر احمد...
حالیؔ کی حالات زندگی اور ان کی خدمات...
ثقافت اور اس کے تشکیلی عناصر – نثار...
تحقیق کیا ہے؟ – صائمہ پروین
منٹو کی افسانہ نگاری- ڈاکٹر نوشاد عالم
منیرؔنیازی کی شاعری کے بنیادی فکری وفنی مباحث...
آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری (سلور کنگ...
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      ستمبر 29, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تراجم

      مکتی/ منو بھنڈاری – ترجمہ: ڈاکٹرفیضان حسن ضیائی

      جنوری 21, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خبر نامہ

      مارچ 15, 2025

      خبر نامہ

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

      خصوصی مضامین

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      متفرقات

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
Adbi Miras
متفرقات

امریکہ میں اک بدیسی:کلیم عاجز – ڈاکٹرشاہ نواز فیاض

by adbimiras جنوری 10, 2021
by adbimiras جنوری 10, 2021 1 comment

کلیم احمدعاجز(1924-2015) کی عام شہرت و مقبولیت ایک شاعر کی حیثیت سے ہے۔لیکن اپنے احساس کی ترجمانی کے لیے انھوں نے صرف شاعری ہی کو نہیں اپنایا،بلکہ افسانوی ادب کا بھی سہارا لیا۔نثر میں انھوں نے بہت کچھ لکھاہے۔خود نوشت اور دو سفر ناموں کے علاوہ خطوط کا مجموعہ بھی ان کی نثر ی یادگار ہیں۔انھوں نے کچھ فرمائشی نظموں کے علاوہ شخصی مرثیے بھی لکھے ۔کلیم عاجز نے جو بھی اپنی یادگار چھوڑی ہیں،ان میں ان کی سادگی بدرجۂ اتم موجود ہے۔وہ کتنے سادہ مزاج تھے ،اس کا اندازہ ان کی تحریروں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔نظم ہو یا غزل،افسانہ ہو یا خط، واقعہ سفر کا ہو یاپھر حضر کا،بڑی خوش اسلوبی سے اپنی بات لوگوں تک پہنچائی ہے۔ اس سلسلے کی ایک کڑی ان کا وہ سفر نامہ ہے،جو انھوں نے امریکہ کا سفر کرنے کے بعد لکھا تھا۔اس سفر ِ امریکہ کی روداد انھوں نے اپنے سفر نامہ’’ایک دیس اک بدیسی‘‘  میں بیان کی ہے۔

کلیم عاجز نے یہ سفر نامہ کسی فنی نقطۂ نظر سے نہیں لکھا۔جیسا کہ انھوں نے خود لکھا ہے’’میں سفرنامے کے فن سے واقف نہیں۔‘‘انھوں نے اس سفرنامے میں اپنی یادوں کی بنیاد پر چیزوں کا ذکر کیا ہے۔/25ستمبر1979کو پٹنہ سے امریکہ کے لیے نکلے،اور اسی سال دسمبر میں امریکہ سے قاہرہ ہوتے ہوئے جدہ کے سفر کے لیے روانہ ہوگئے۔لیکن ہندوستان واپسی کا ذکر نہیں ہے۔یہ سفر نامہ وہیں ختم ہو جاتا ہے جہاں جہاز امریکہ سے قاہرہ کے لیے روانہ ہوتا ہے۔اس سفر نامے میں بہت سی ایسی چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے، جسے پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ ،جس جہاں میں جانوروں کو، بطور خاص کتوں کے ساتھ اتنا اچھا سلوک کیا جاتا ہے ،تو وہاں انسانوں کی قدر و منزلت کا کیا معیار ہوگا۔مگر افسوس کہ جانوروں کے ساتھ انسانوں کا سا برتاؤ،اور انسانوں کے ساتھ لوٹ مار،قتل وغارت گری۔کلیم عاجز نے ان تمام باتوں کو بہت موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ ( یہ بھی پڑھیں فاروقی کی افسانہ نگاری کے خلاف- رحمٰن عباس )

ایک زمانہ تھا جب برطانیہ کا بول بالا تھا۔اس کی اپنی طرز زندگی تھی۔دوسرے اس کی نقل کرتے تھے۔اس نے انسانوں کو بہت سی نئی چیزوں سے آشنا کرایا۔ یہی وجہ تھی کہ بہت سے شاعروں نے ان کی مدح میں قصیدے بھی لکھے۔برطانیہ کو اپنی طاقت پر اس قدر ناز تھا کہ وہ جو چاہتا تھا کرتا تھا۔لیکن زمانے نے کروٹ لی اور اس کی طاقت کسی اور کے سپرد کر دی گئی، جسے ہم امریکہ کے نام سے جانتے ہیں۔کلیم عاجز نے اپنے سفر نامے میں اس تعلق سے لکھا ہے:

’’امریکہ ایک نیا ملک ہے۔اس کی تاریخ نئی ہے ۔اس کی جوانی نئی ہے۔۔۔۔۔امریکہ کو خود بھی اپنی جوانی کا نشہ ہے اپنے شباب کی مستی ہے اور امریکہ کی جوانی پر سب لوگ لوٹ پوٹ ہیں۔۔۔۔۔ایک زمانہ برطانیہ کی جوانی کا تھا۔جس نے کتنوں کو ہوٹلوں کا چکر دلوایا اور اسپتالوں میں مروایا۔۔۔۔۔لیکن اب لندن کے چہرے پر جھریاں آگئیں۔۔۔۔۔اس کے آنچل کے سائے میں امریکہ کی نئی جوانی انگڑائیاں لیکر اٹھتی ہے۔‘‘

)ایک دیس اک بدیسی۔کلیم عاجز۔فوٹو افسیٹ پرنٹرز،تال بگان لین،کلکتہ۔1981 ص،3-4  (

یہ کلیم عاجز کا انداز ہے۔وہ اپنی باتبہت سادگی سے کر جاتے ہیں۔ان کی انھیں باتوں میں پوری تاریخ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔مندرجہ بالا جملوں کو بغور دیکھا جائے تو کہیں نہ کہیں ان کے ذہن میں غلام ہندوستان کا تصور بھی ابھرا ہوگا۔ اور جنگ آزادی میں جو بر بادیاں ہوئی تھیں،وہ بھی ان کے پیش نظر رہی ہوں گی۔اس لیے اس طرح کے جملے پڑھ کراحساس ہوتا ہے کہ بڑی سادگی سے انھوں نے برطانیہ پر طنز کیا ہے ۔کلیم عاجز چونکہ ایک تخلیق کار تھے،تخلیق کار کی نگاہیں وہ سب دیکھ لیتی ہیں،جو عام طور پر لوگ نہیں دیکھ پاتے یا دیکھتے ہیں، لیکن اظہار نہیں کر پاتے۔کلیم عاجز ہر چیز کو دیکھ لیتے ہیں اور اظہار کرنے کی بھر پور صلاحیت بھی رکھتے ہیں؛ان کی شاعری اور افسانے اس کی غماز ہیں۔ ان کے اس سفر نامے کو پڑھتے ہوئے احساس ہوا کہ ایسی کہانی پڑھی جا رہی ہے ،جو برسوں کے تجربے پر محیط ہے۔شگفتگی ان کے جملوں کی ،سلاست و روانی اس طرح سے جس طرح سے امریکہ کی سڑکوں پر گاڑی دوڑتی ہے۔کبھی ایسا لگتا ہے کہ کوئی نظم کا حصہ پڑھا جا رہا ہے۔ان کی تحریریں پڑھ کر محمد حسین آزاد کی تحریر یاد آ جاتی ہے۔جیسے انھوں نے نیویارک سے ہریسن برگ کا سفر کار سے طے کیا۔دونوں کے بیچ کا فاصلہ تقریباً چار سو میل کا ہے۔سڑکوں پر کار کی رفتار ،اور سڑک کے کنارے نئی نئی عمارتیں اور اس کے نقش و نگار ،ان کی تزئین اور ترتیب کو دیکھ کر لکھتے ہیں:

’’نئی جوانی کی امنگ اٹھتی ہے تو یہی ڈھنگ ہمیشہ رہے گا۔۔۔۔۔چال میں لچک آ ہی جاتی ہے،آواز میں کھنک آ ہی جاتی ہے، آنکھوں میں چمک آہی جاتی ہے،گالوں میںڈہک،زلفوں میں مہک ہونٹوں پہ لہک آہی جاتی ہے۔‘‘ (ایضاً۔ص،4 )

مندرجہ بالاجملے کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ایک شاعر نثر لکھتے لکھتے ،نظم میں کس طرح آجاتاہے۔کلیم عاجز کا تخلیقی وجدان اسی طرح سے بہت سی جگہوں پر جلوہ گر ہو جاتا ہے۔ان کی نثر میں بھی نظم کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔مختلف چیزوں سے تشبیہ دے کر انھوں نے چند جملوں میں اس پورے منظر کی کہانی بیان کردی،جو چار سو میل کے سفر میں نظر آیا۔انھوں نے اس سفر کی روداد لکھنے کا ارادہ شروع سے نہیں کیا تھا،ورنہ عام طور پر سفر نامے میں مسافر جس طرح سے منظم طریقے سے تاریخ ،دن،مہینہ اور سال کے ساتھ پوری تیاری سے اپنی بات کا ذکر کرتا ہے۔ایک ایک مقام کا ، خاص طور سے ان جگہوں کا جو مشہور ہیں،بہت دلکش انداز میں پیش کرتے ہیں۔لیکن کلیم عاجز نے ا س سفرمیںاسلام اور اپنی تہذیب(مشرقی تہذیب )کو جس روپ میں پایا بڑے سلیقے سے قلمبند کیاہے۔انھوں نے امریکہ میں بھی ہندوستان ڈھونڈا، اسلامی طور طریقے اور اپنی تہذیب کے قدر داں ڈھونڈے۔انسان کو اپنی شناخت کبھی نہیں کھونی چاہیے۔کلیم عاجزاپنی تہذیب اور اقدارکا دامن آخری عمر تک نہیں چھوڑا۔ وہ جہاں بھی رہے،ہندوستانی ہی رہے۔کلیم عاجز کی سادگی کا عالم یہ تھا کہ چاہے وہ جہاں بھی رہیں،انھیں ہر صورت میں اپنا ملک دکھتا تھا۔کیونکہ وہ جس طرح سے اپنے ملک میں ،اپنی دھن میں مست،اپنے خیالات میں مگن اور اپنے رنگ میں غرق چلتے پھرتے تھے،اسی طرح وہ امریکہ میں بھی اپنے خیالات میں گم،اور کسی بھی جگہ اس طرح سے سیر کے لیے نہیں گئے۔انھیں گھومنے پھرنے کی جگہوں میں جانے کے لیے پیسوں اور وقت کا زیاں معلوم ہوتا ہے۔اپنے وضع قطع میں وہ کس طرح کے تھے،انھیں کی زبانی ملاحظہ ہو:

’’۔۔۔۔۔ویسے ہی(ویسہی)امریکہ کے ماحول میں ،سیاہ پمپ جوتا،سفید موزہ تنگ مہری کے پاجامے گھٹنوں تک شیروانی ، ترچھی ٹوپی،خالص مشرقی داڑھی،وضع قطع چال ڈھال طرز و انداز کے ساتھ ان کے درمیان جھومتا جھامتا گزرتا۔جو شکل و صورت ،لباس پوشاک،نشست و برخواست میں ہمیشہ دنیا سے ایک قدم آگے رہنے کے جنون میں پاگل ہو رہے ہیں۔‘‘                                                (ایضاً،ص،6)

یہ ہے کلیم عاجز کی شکل و شباہت۔جہاں بھی رہے اسی طرح رہے۔چونکہ امریکہ میں وہ جہاں ٹھہرے ہوئے تھے،وہاں مسلم آبادی نہ کے برابر تھی۔لیکن جو بھی مسلم وہاں تھے ان کے گھرہی کے کسی حصہ میں نماز کے لیے جگہ مختص تھی۔ اس طرح سے کلیم عاجز کو نماز کے لیے گھر کے اندر کوئی دقت نہیں ہوتی تھی۔لیکن باہر ظاہر ہے کہ ہر جگہ نماز کی سہولت نہیں ہوگی، جہاں مسلم آبادی نہ کے برابر ہے ۔اس لیے وہ جہاں بھی جاتے تھے اپنا مصلی ساتھ لے کر جاتے تھے۔اور جیسے ہی نماز کا وقت ہوا ،جہاں بھی رہے،کسی معقول جگہ دیکھ کر مصلی بچھایا اور نماز پڑھ لی۔ان کے اس سفر نامے میں عام طور پر امریکہ اس طرح نظر نہیں آتا جس طرح سے اور لوگوں کے سفر نامے میں نظر آتا ہے۔ وہاں کی چکا چوند زندگی کلیم عاجز کو متاثر نہیں کر سکی۔تقریباً ڈھائی مہینے سے زائد عرصے تک وہ وہاں مقیم رہے۔اور اس درمیان مختلف پروگرام کے لیے دوسرے دوسرے شہروں کارخ بھی کیا۔لیکن انھوں نے ہر شہر میں اپنے ہی لوگوں کو ڈھونڈا،یا ایسے لوگوں سے ملے جو صوم و صلوۃکے پابند تھے۔ انھوں نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جو اپنے ملک میں اپنے مذہب سے بیزار تھے۔لیکن یہاں کی چکا چوند زندگی نے ایمانی طاقت کو ابھارا،جو اپنے ملک میں جمعہ بھی نہیں پڑھتے تھے ،وہ کس طرح سے نماز کے پابند ہوگئے۔ملاحظہ ہو کلیم عاجزکی زبانی:

’’یوروپ اور امریکہ میں بسنے والے مسلمان وہ ہیں جو دس پندرہ سال پہلے مال کمانے آئے تھے مال کماتے کماتے ایمان کمانے لگے لاکھوں روپئے کا مکان لاکھوں کے سامان میں رہ کر اب یہ سوچنے لگے ہیں کی جس نے مال دیا ہے مکان دیا ہے سامان دیا ہے وہ کیا ہم سے کچھ چاہتا بھی ہے؟اور یہ جان کر کہ اس کے بڑے تقاضے اور بڑے مطالبے ہیں ان تقاضوں اور مطالبوں کے ادا کرنے کے لیے اب فکر مند ہیں۔شکاگو میں دیکھا،ٹورنٹو میں دیکھا ،ونڈسر میں اور ڈیٹورائٹ میںدیکھا کہ ہندوستان اور پاکستان میں اپنے ہاتھوں سے اسلام کو ذبح کرنے والے اب اسلام کے لیے ذبح ہو رہے ہیں۔(ایضاً۔ص،41-42)

کلیم عاجزکے ان جملوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان جب کبھی اپنی چیزوں سے محروم ہوتایا اپنی چیزوں کو نہیں دیکھتا ہے تو اسے اس کا احساس ہوتا ہے۔امریکہ کے مختلف شہروں میں جو ہندوستان اور پاکستان سے گئے تھے،جب انھیں اسلام کی کوئی چیز نظر نہیں آئی تو انھیں اس کا شدت سے احساس ہوا۔ یہی احساس کی شدت نے انھیں اسلام سے قریب کر دیا۔جسے کل تک وہ اپنے لیے بوجھ سمجھتے تھے،اب وہی لوگ اس کی اہمیت سے آشنا ہو گئے۔اسی لیے اس کے آگے ساری چیزوں کو ہیچ جانا۔

کلیم عاجز چونکہ بہار کے رہنے والے تھے ،انھوں نے ہندوستان میں کھیتی کا طریقہ دیکھا تھا۔ وہی کھیتی جب امریکی کرتے ہیں تو وہاں اور یہاں کے ما بین کتنا فرق ہے اس کا اندازہ بھی کرنا مشکل ہے۔سب سے بڑی بات یہ کہ وہاں کے کھیت کا رقبہ یہاں کی طرح چھوٹا نہیں ہوتا ہے،بلکہ سو سو دو دو سو ایکڑ کا پلاٹ ہوتا ہے ۔البتہ وہاں کے کھیت یہاں کی طرح ہموار نہیں ہوتے ہیں،بلکہ اتار چڑھاؤہو تا ہے۔ وہاں ٹریکٹر سے جوت کر بیج ڈال دئے جاتے ہیں،جیسا کی ہمارے یہاں ہوتا ہے۔ہمارے یہاں آبپاشی کا معقول انتظام ہوتا ہے ،اور وہاں اس طرح کا کوئی بھی نظم کلیم عاجز نے نہیں دیکھا۔جوتنے اور بونے کے بعد وہاں کسانوں کا کام ختم ہو جاتا ہے ،اور ہمارے یہاں اس کے بعد کسانوں کی محنت شروع ہوتی ہے۔وہ بیج اس کھیت میں سڑتا رہتا ہے۔اسی بیچ برف باری ہو جاتی ہے۔ پورا کھیت سفید چادر میں ڈھک جاتا ہے۔یہی برف پگھل کر کھیتوں میں جذب ہو جاتی ہے،اسی سے ان کھیتوں میں جو اناج بویا گیا تھا،اس کے پودے لہلہانے لگتے ہیں۔پھلتے پھولتے ہیں۔یہا ں تک کہ فصل تیار ہو جاتی ہے۔فصل تیار ہونے کے بعد جو کچھ ہوتا ہے اس کے متعلق کلیم عاجز لکھتے ہیں:

’’۔۔۔۔۔اس کے بعد کاشتکار آتے ہیں مشینوں سے انھیں کاٹ لیتے ہیں اور اناج سے گھروں اور کھلیانوں کو بھر دیتے ہیں۔جتنا کھا سکتے ہیں رکھ لیتے ہیں،بقیہ سرکاری محکمہ کے ذریعہ باہر بھیج دیتے ہیں،اور جو بچتے ہیں اندرون ملک میں تقسیم کر دیتے ہیں بانٹ دیتے ہیں اس کے بعد بھی بچ جاتے ہیں تو سمندروں میں بہا دیتے ہیں یا زمین کھود کر دفن کر کے آگ لگا دیتے ہیں۔‘‘(ایضاً۔ص،46)

درج بالا اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکیوں کو اللہ نے کتنا نوازا ہے۔اور کب تک نوازتا رہے گایہ تو وہی جانتا ہے۔البتہ تاریخ کی ورق گردانی سے اندازہ ہوتا ہے کہ پہلے خدا اپنی نعمت کی بارش کرتا ہے ۔اگر اس کا شکریہ ادا کرتے رہے تو وہ دیتا رہے گا۔نا شکری کے بعد تو اللہ اپنی نعمتوں کی بارش کم کرنے لگتا ہے ۔اور ایسا زمانہ بھی آتا ہے کہ لوگ بھوک مری کے شکار ہونے لگتے ہیں۔

امریکہ کی سڑکوں پر کلیم عاجز کو سب سے زیادہ حیرانی جن چیزوں کو دیکھ کر تھی وہ یہ ہے کہ وہاں سڑکوں پر لوگ اس طرح نظر نہیں آتے تھے،جس طرح سے ہندوستان میں نظر آتے ہیں۔وہاں کلیم عاجز کو بینک کے نظام نے اپنی جانب مبذول کیا۔کیونکہ وہاں بینکوں کے اندر جانے کی ضرورت نہیں۔بلکہ ہر بینک کے کاؤنٹر کی کھڑکی سڑک سے لگی ہوئی ہوتی ہے۔انھیں کھڑکیوں سے متصل ایک ملازم رہتا ہے۔کھڑکی کے باہر مائکرو فون لگا ہے۔جو بھی پوچھنا ہے اپنی کار میں بیٹھے بیٹھے سارا کام چند منٹوں میں ختم کر کے آدمی وہاں سے روانہ ہو جاتا ہے ۔اس طرح کا نظام امریکہ میں پینتیس سال پہلے سے ہے،اور ہندوستان میں ابھی اس طرح کے نظام کا تصور بھی نہیں کیاجا سکتا۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان اور امریکہ میں ترقی کے تعلق سے کتنا فرق ہے ۔اسی طرح سے وہاں ٹیکسی کا نظام بھی بہت عمدہ ہے۔ترقی کے معاملہ میں جب امریکہ اب سے پینتیس سال پہلے اتنے آگے تھا تو اب کی صورت حال کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔جو وہاں پینتیس سال پہلے تھا، کچھ چیزیں اب ہمارے ملک میںآئی ہیں۔وہاں عام طور پر نقد نہیں دیا جاتا۔پیسے کی آدائیگی کے تعلق سے کلیم عاجز لکھتے ہیں:

’’عموماً وہاں نقد کوئی سودا نہیں کرتا۔ہر شہری چاہے وہ امریکن ہو یا غیر امریکن،جسے وہاں کی قومیت مل گئی ہے یا اقامہ مل گیا ہے ،اس کے پاس ایک کارڈ ہے جو اس کی حیثیت اس کی ملازمت کی نشان دہی کرتا ہے،اسی پر اس کا اکاؤنٹ نمبر بھی ہے اس کارڈ پر امریکہ کے اندر جس شہر میں جس وقت جتنی مقدار یا تعدادمیں جو چیز خریدنی ہو فوراً مل جائے گی۔اگر بینک میں جمع شدہ رقم سے زیادہ بھی ہے تو کوئی مضائقہ نہیں بینک آیندہ کی آمد پرآدائیگی کر دے گا۔‘‘(ایضاً۔ص،50 )

اس طرح کی سہولت ہندوستان میں کہاں میسر۔ایسی سہولتیں وہاں اتنے عرصے پہلے تھیں۔ لیکن یہاں ایسا کوئی تصور بھی نہیں ہے۔وہاں کی پولیس اور ڈرائیور گھر کے فرد کی طرح ہیں۔ یہاں ایک دشمن کی طرح۔یہاں کی تہذیب کے نام پر برا بھلا کہتے ہیں۔ممکن ہے کہ یہاں کے پولیس والوں کی یہ اپنی تہذیب ہو۔لیکن امریکہ میں پولیس والے ہر طرح سے عوام کے لیے معاون ہوتے ہیں۔اگر وہاں کوئی راستے میں بیمار ہو گیا تو پولیس امبولینس کا بندوبست کرے گی۔یہ صرف راستے کی بات نہیں ہے،اگر گھر میں تنہا کوئی ہے، تو بھی وہاں کی پولیس پوری مدد کرے گی ،مریض کے ساتھ جائے گی۔وہاں علاج کا پورا بندوبست کر کے، مریض کے رشتے داروں کو خبر کر کے پھر واپس ہوگی۔ اس کے برعکس ہندوستان کی پولیس کا تصور کیجیے، ایسا لگتا ہے کہ عوام کے لیے یہ عذاب ہیں ۔ تعاون کرنے کے بجائے دوسری طرح کا تعاون لیتے ہیں۔ یہ واقعہ اب سے پینتیس سال پہلے کا ہے۔ کیوں کہ یہ سارے واقعات کلیم عاجز نے اپنے دوران سفر کا بیان کیا ہے۔ ہندوستان میں ڈرائیور نئے لوگوں کو کس طرح سے پیسے کمانے کے چکر میں گھماتے ہیں، وہاں نئے لوگوں کو پولیس ہر طرح کی سہولت دیتی ہے۔ ٹیکسی بھی کرائے گی، اور ڈرائیور کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے، جب تک وہ مسافروں کو اپنے منزل مقصود تک نہیں پہنچا دیتا وہ مطمئن نہیں ہوتا۔ کرائے کے نام پر پریشان بھی نہیں کیا جاتا۔ ایسا اس لیے ہے کہ ہر چیز بڑے منظم طریقے سے ہے۔

ہندوستان میں جے پور کی خوبصورتی اس لیے بھی مشہور ہے کہ وہاں کی سڑکوں کے کنارے عمارت یکساں ہیں، تقریباً ہر لحاظ سے۔ اسی طرح سے ٹورینٹو جو کہ کناڈا کا بڑا شہر ہے اس کے تعلق سے بیان کیا ہے کہ کناڈا میں دنیا کے ہر حصے ، ہر نسل اور ہر مذہب کے لوگ ہیں۔ کلیم عاجز نے کناڈا کے شہر کو کلکتہ سے تعبیر کیا ہے۔ انھوں نے امریکہ اور کناڈا کے شہروں کی ساخت بالکل ایک بیان کی ہے۔لکھتے ہیں:

’’موسم عموماً معتدل یا سخت سردی کا ہے گرمی نہیں پڑتی۔ امریکہ اور کناڈا کے شہروں کی ساخت بالکل ایک ہے، ایک قسم کی سڑکیں، ایک انداز کے مکان، ایک انداز کی روشنی دونوں ملکوں میں سفر کی آزادی بھی ہے۔‘‘ (ایضاً، ص۔76)

اس میں کوئی شک نہیں کہ وہاں سردی بہت سخت پڑتی ہے۔ برف باری بھی ہوتی ہے۔ جو یقینا نظروں کو بہت خوش منظر لگتا ہے، اور سڑکوں کے کنارے جس طرح کے منظر کا ذکر کیا ہے، اس سے وہاں کی خوبصورتی کا اندازہ ہوتا ہے۔ چونکہ وہاں بسنے والوں کی تعداد بہت کم ہے ۔ اس لیے بہت ساری سہولتوں کے مواقع بھی میسر ہوتے ہیں۔ کلیم عاجز نے وہاں کا ایک بہت ہی دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے۔اوٹوا میں انھوں نے جمعہ کی نماز ادا کی ۔ انھوں نے اس کا منظر اس طرح بیا ن کیا ہے کہ مسلم ہونے پر رشک آتا ہے۔ انھوں نے جمعہ کی نماز کے بعد کا جو منظر بیان کیا ہے، وہ وہاں کے لوگوں کو اپنے دین سے لگاؤ  کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہاں جمعہ کی نماز کے بعد انتظامی امور کے بعد کچھ تقریریں ہوتی ہیں۔ وہاں مسجد کے عقب میں ایک بڑا ہال ہے۔ جو کہ بچوں اور کم عمروں کا مدرسہ ہے۔ یہاں سنیچر اور اتوار کو والدین اپنے بچوں کو لاتے ہیں اور کئی گھنٹے وہاں دینیات کی کلاس ہوتی ہے۔اور سب سے تعجب خیز بات یہ ہے کہ وہاں بچوں کے کلاس لینے والے الگ سے مدرس نہیں ہوتے ہیں۔ بلکہ ان ہی آنے والے لوگ اپنی صلاحیت اور ذوق کے اعتبار سے تعلیم و تدریس کی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔ کلیم عاجز کو یہ چیز اور بھی پسند آئی کہ امریکہ اور کناڈا میں کوئی بھی ایسی مسجد نہیں ملی ،جہاں پانچ وقت کی نماز با جماعت نہ ہوتی ہو۔اور کوئی ایسا شہر نہیں ملا جہاں پانچ وقت کی نماز کے ساتھ ساتھ جمعہ کی نماز نہ ہوتی ہو۔ انھیں اس طرح کا اسلامی منظر جہاں بھی دکھا اس کا بیان بہت دل کھول کر کیا ہے۔ اور اس تعلق سے ان کی خوشی کا اندازہ کرنا بھی بسا اوقات مشکل نظر آتا ہے۔ امریکیوں کے دل میں نماز کے تئیں جو احترام ہے اس کا اندازہ کلیم عاجز کے اس واقعہ سے ہوتا ہے:

’’۔۔۔۔۔گاڑیوں کے درمیان کشادہ جگہ تھی ، اپنا مصلیٰ بچھایا اور نماز شروع کردی۔ شروع کرتے ہی ترشح شروع ہوگیا اور ایک جوڑا امیریکن عورت اور مرد کا مارکٹنگ سے فارغ ہوکر اسی کار کو نکالنے آیا جس کے آگے میں نے نماز شروع کردی تھی، عورت کار میں داخل ہوگئی اور مرد نے اپنی چھتری کھول کر مجھ پر سایہ کرلیا۔۔۔۔۔ میں معذرت کرنے لگا کہ میری وجہ سے انھیں اپنی کار نکالنے میں تاخیر ہوئی، تکلیف ہوئی، مرد نے کہا آپ عبادت کر رہے تھے ؟ کیسی آسانی کیسی بے تکلفی اور کتنی سادگی ہے اس عبادت میں۔‘‘ (ایضاً، ص۔164)

ظاہر ہے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس پر مکمل عمل کیا جائے تو ہر کس و ناکس اس سے متاثر ہوتا ہے۔ اور ایسا ہی کچھ وہاں ہوا۔ اس منظر کو جس انداز سے کلیم عاجز نے بیان کیا ہے واقعی اس میں ایمان کی تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ شکاگو میں کلیم عاجز کو ایک ایسا منظر دکھا، جس پر وہ یقین نہیں کر پا رہے تھے۔ اور یقینا افسوس ہوتا ہے کہ جس جگہ انسان انسان کو نہیں پہچانتا، وہاں کتوں کی کتنی قدرو منزلت ہے۔ کلیم عاجز ایک پر فضا مقام سے گزر رہے تھے، ان سے دائیں طرف دیکھنے کوکہا گیا؛ کلیم عاجز نے جب دیکھا تو بڑی سادگی سے جواب دیا ہاں دیکھا، یہ توہندوستان میں بھی ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ یہاں پیسوں کی فراوانی ہے اور ہندوستان میں پیسوں کی ایسی بہتا ت نہیں ہے۔چونکہ وہ منظر ایک قبرستان کا تھا، جسے کلیم عاجز عیسائیوں کا سمجھ بیٹھے تھے۔ اس کا رقبہ بڑا حسین تھا ، شاندار کتبے تھے، باغ میں پھلواریاں تھیں، فوارے تھے۔ انھیں مال والوں کی قبریں تصور کر رہے تھے۔ جب انھیں پتہ چلا کہ یہ عیسائیوں کی قبریں نہیں ہیں، بلکہ عیسائیوں کے کتوں کی قبریں ہیں، ایک عجیب سے دھچکا لگا۔ حیرانی سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ ان کتوں کے قبرستان کا منظر انھیں کی زبانی ملاحظہ ہو:

’’اور دیکھا کہ نئی تہذیب کی دیوتا کی قبریں بالکل انسانی قبروں کی طرح قطار سے دور دور پھیلی ہوئی ہیں۔ جن کے ارد گرد رنگ برنگ کے خوش نما پھول کھل رہے ہیں۔ جھاڑیاں جھوم رہی ہیں مرمریں تعویذیں اور کتبے چمک رہے ہیں اور چند قبروں پر مرد عورت، بچے اور لڑکیاں، ہاتھ باندھے سر جھکائے ایسی عقیدت اور محبت سے کھڑی ہوئی ہیں جیسے بزرگوںکے مزاروں پر مسلمان مراقبے میں کھڑے ہوتے ہیں۔‘‘(ایضاً، ص۔125)

درج بالا اقتباس سے اندازہ ہوتاہے کہ جس شہر میں انسان انسان کو نہیں پہچانتا ہے، وہاں کتوں کا کیا مرتبہ ہے۔ ظاہر ہے کہ انسانوں میں پرستش کا جذبہ روز اول سے ہے ۔ جسے اس نے بڑا سمجھا، جس سے پیارکیا اس کے آگے سر جھکا دیا۔ چونکہ اللہ سب سے بڑا ہے، اور سب سے زیادہ پیار کے قابل ہے ، اس لیے انسان اس کے سامنے سر جھکا تا ہے۔ سب کا اپنا اپنا عقیدہ ہے اور اپنے اپنے عقیدے کے حساب سے انسان پرستش کرتا ہے۔ لیکن کتوں میں پرستش کا کیا جواز ۔ یہ ایسا واقعہ ہے جو سماج پر سب سے زیادہ چوٹ کرتا ہے کہ جو قدرو منزلت انسان کی ہونی چاہیے وہ کتوں کی ہوتی ہے۔اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے۔

کلیم عاجز نے اپنے سفر میں بہت سے مشاعروں اور شعری نشستو ںمیں شرکت کی۔ دراصل ان کے اس سفر کا سبب بھی یہی تھا ۔ انھوں نے اپنے اس سفر نامے میں بہت سے مشاعروں اور شعری نشستوں کاذکرکیا ہے۔ نہ صرف ذکر کیا ہے، بلکہ اپنی یاداشت کی بنیاد پر کچھ شاعروں کا نام اور ان کے نمونۂ کلام کو بھی درج کیا ہے۔ غرض یہ کہ کلیم عاجز نے اپنے سفر نامے میں بہت سے واقعات کو درج کیا ہے۔ آج سے تقریباً پینتیس سال پہلے کا امریکہ اور کناڈا ان کے سفر نامے کو پڑھ کر سامنے آگیا۔ وہاں کا ماحول ، وہاں کا انتظام ، رہن سہن اور مختلف چیزوں کا ذکر انھوں نے بڑی خوبصورتی سے کیا ہے۔ چونکہ ایک شاعر ہونے کی وجہ سے طبیعت میں احساس کا عنصر زیادہ غالب ہوتا ہے۔ اسی لیے انھوں نے اگر کسی خوش نما چیز کو دیکھا تو اس کا اظہار بہت دل کھول کر کیا ، اور اگر کسی ایسی چیز کو دیکھا جو دل کو نا موزوں لگی تو اس کا بھی برمحل اظہار کیا۔ ایک عام سفر نامے سے ہٹ کر اس سفر نامے میں وہاں کی سڑکیں، پہاڑ، خوبصورت عمارت اور دیگر چیزوں کا ذکر اس طرح سے نہیں ملے گا، البتہ انسانی اقدار کے بہت سے ایسے نمونے انھوں نے بیان کیے ہیں جو اپنے معاشرے میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ایک ایسے دیس میں بدیسی اپنے ملک کی عینک سے اس بدیسی ملک کا تجزیہ کرتا ہے، جو ہزاروں میل کے فاصلے پر ہے۔ ایسی صورت میں بھی اپنی خوشی کا ذریعہ ڈھونڈ لیتا ہے  ؎

دل کہتا ہے فصل جنوں کے آنے میں کچھ دیر نہیں

اب یہ ہوا چلنے ہی کو ہے صبح چلے یا شام چلے

٭٭٭

 

Dr Shahnewaz Faiyaz

Mob: +91 9891438766

Email: sanjujmi@gmail.com

 

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

 

 

 

ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com  پر بھیجنے کی زحمت کریں۔
adabi meerasadabi miraasadabi miraskalim ajizادبی میراثسفر نامہ
1 comment
0
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail
adbimiras

پچھلی پوسٹ
مفکر ملت مولانا محمد محفوظ الرحمن نامی ؒکا تجویز کردہ  ’’مسلمانوں کی فلاح کے لیے سہ نکاتی پروگرام‘‘ –  وصی اللہ قاسمی، بہرائچ
اگلی پوسٹ
اللہ میاں کا کارخانہ‘‘کے اوزار (فنی رسومیات کے حوالے سے)- محمد حنیف خان

یہ بھی پڑھیں

میں پٹاخے سے ہی مر جاؤں گا بم...

دسمبر 14, 2024

شبلی کا مشن اور یوم شبلی کی معنویت – محمد...

نومبر 24, 2024

تھوک بھی ایک نعمت ہے!! – عبدالودود انصاری

نومبر 19, 2024

اردو میں غیر زبانوں کے الفاظ  – شمس...

نومبر 9, 2024

غربت  و معاشی پسماندگی کا علاج اسلامی نقطہ...

مئی 6, 2024

اقبال ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

نومبر 7, 2023

طائر بامِ فکر و فن : ڈاکٹر دبیر...

نومبر 3, 2023

جدید معاشرے اور طلباء کے لیے ادب (...

ستمبر 28, 2023

موبائل فون ایڈکشن اور بچوں کا مستقبل –...

اگست 30, 2023

نیرنگِ خیال کی جلوہ نمائی شعر و ادب...

اگست 29, 2023

1 comment

M.Wasif Nafees Mazahifi جنوری 10, 2021 - 7:12 شام

ماشاءاللہ
علامہ کلیم عاجز صاحب کے سفر نامے کاتعٍارف بڑے دلکش اندازمیں کرایاہے اللہ تعالی زورقلم مزیدعطافرمائے آمین
عاجز صاحب مرحوم کی زندگی ھم سب کیلئے نمونہ ہے

Reply

تبصرہ کریں Cancel Reply

اپنا نام، ای میل اور ویبسائٹ اگلے تبصرہ کے لئے اس براؤزر میں محفوظ کریں

زمرہ جات

  • آج کا شعر (59)
  • اداریہ (6)
  • اسلامیات (182)
    • قرآن مجید (آڈیو) (3)
  • اشتہار (2)
  • پسندیدہ شعر (1)
  • تاریخِ تہذیب و ثقافت (12)
  • تحقیق و تنقید (117)
  • تخلیقی ادب (592)
    • افسانچہ (29)
    • افسانہ (200)
    • انشائیہ (18)
    • خاکہ (35)
    • رباعی (1)
    • غزل (141)
    • قصیدہ (3)
    • گلہائے عقیدت (28)
    • مرثیہ (6)
    • نظم (127)
  • تربیت (32)
  • تنقیدات (1,038)
    • ڈرامہ (14)
    • شاعری (532)
      • تجزیے (13)
      • شاعری کے مختلف رنگ (217)
      • غزل شناسی (204)
      • مثنوی کی تفہیم (7)
      • مرثیہ تنقید (7)
      • نظم فہمی (88)
    • صحافت (46)
    • طب (18)
    • فکشن (401)
      • افسانچے (3)
      • افسانہ کی تفہیم (213)
      • فکشن تنقید (13)
      • فکشن کے رنگ (24)
      • ناول شناسی (148)
    • قصیدہ کی تفہیم (15)
  • جامعاتی نصاب (12)
    • پی ڈی ایف (PDF) (6)
      • کتابیں (3)
    • ویڈیو (5)
  • روبرو (انٹرویو) (46)
  • کتاب کی بات (474)
  • گوشہ خواتین و اطفال (97)
    • پکوان (2)
  • متفرقات (2,127)
    • ادب کا مستقبل (112)
    • ادبی میراث کے بارے میں (9)
    • ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف (21)
    • تحفظ مادری زبان (24)
    • تراجم (32)
    • تعلیم (33)
    • خبر نامہ (894)
    • خصوصی مضامین (126)
    • سماجی اور سیاسی مضامین (228)
    • فکر و عمل (119)
    • نوشاد منظر Naushad Manzar (68)
  • مقابلہ جاتی امتحان (1)
  • نصابی مواد (256)
    • ویڈیو تدریس (7)

ہمیں فالو کریں

Facebook

ہمیں فالو کریں

Facebook

Follow Me

Facebook
Speed up your social site in 15 minutes, Free website transfer and script installation
  • Facebook
  • Twitter
  • Instagram
  • Youtube
  • Email
  • سر ورق
  • ہمارے بارے میں
  • ہم سے رابطہ

All Right Reserved. Designed and Developed by The Web Haat


اوپر جائیں