اردو کے مشہور ادیب وشاعر، معروف فلمی نغمہ نگارمقتدا حسن نداؔفاضلی کی پیدائش ۱۲؍اکتوبر ۱۹۳۸ء کو دہلی میں ہوئی۔ آزادی ِ ہندوستان کے وقت ان کی عمر محض نو سال کی تھی۔ بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح ندا ؔکے لیے بھی آزادی کا یہ اجالا داغ داغ تھا، اس کی سحر شب گزیدہ تھی، کیوں کہ اس جشن آزادی کے جام میں تقسیم کے کرب کا آمیزہ جن لوگوں کو نوش فرمانا پڑا ان میں ندافاضلی بھی تھے۔تقسیم ملک نے ان کے خونی رشتوں کا بنٹوارہ کر دیا تھا۔ ان کے والدین اور افراد خانہ پاکستان ہجرت کر گئے اور نداؔ اپنے دل میں اپنے عزیز مہاجروں کی محبت کا ٹیس اور ان کے بچھڑنے کا چبھن لیے ہندوستان ہی میں صبر کے ساتھ مقیم رہے۔یہ باتیں میں آپ کو اس لیے بتا رہا ہوں تاکہ جب ان کے کلام میں رشتوں کی لگاوٹ، زمین سے جڑاؤ، انسانیت سے ہمدردی، بچوں سے محبت،گنگا جمنی تہذیب سے پیار، مطلب پرستوں، ظاہرداروں، فسادیوں، مکار سیاست دانوں، مذہبی ٹھیکیداروںاور فرقہ پرستوں سے نفرت کے پھول اور کانٹے دکھانے لگوں تو آپ کو اس کے پنپنے کے محرکات کا بآسانی اندازہ ہو سکے۔
جب ترقی پسندوں کی سانسیں اکھڑ چکی تھیں اور جدیدیوں کی پہلی کھیپ شاعری کے میدان میں اپنے جوہر دکھانے آ ئی ،اسی کے ساتھ نداؔ فاضلی کابھی ظہور ہوا۔تقریباً ۷۸؍ سال کی عمر پائی ۔ ان کا انتقال ۸؍ فروری ۲۰۱۶ء کو ممبئی میں ہوا۔ زندگی کے اس سفر میں انھوں نے سات مجموعے یادگار چھوڑے۔لفظوںکا پل، مور ناچ، آنکھ اور خواب کے درمیان، کھویا ہوا سا کچھ، شہر میرے ساتھ چل تو، زندگی کی طرف اورکچھ اور۔ ان ست رنگی قوس قزح سے ایک کلیات’’شہر میں گاؤں‘‘ نامی تیار ہو ا۔ اس میں نظموں، غزلوں، گیتوں، دوہوں اورمراثیکا پنچ میل سجا ہوا ہے۔ اس طرح ان کا شعری کینوس اتنا وسیع ہے کہ ایک مضمون میں سب پر گفتگو کرنا انتہائی مشکل ہے لیکن تمام شعری اصناف میں ایک بات جو قدرمشترک ہے اور یہ مضمون جس کا حامل ہے وہ ہے ان کی ’’آشنا اراضی‘‘۔
نداؔ کے کلیات پر ایک سرسری نظر ڈالنے والا بھی ان کے آشنا اراضی کو محسوس کر سکتا ہے۔ ندا ؔفاضلی نے اپنے تخیل سے جس سماج،سیاست، تہذیب، تمدن ، گاؤں، گھراور عوام کا نقشہ اکیرا ہے اور جس لب و لہجہ اور زبان و بیان کے سہارے اس کی فضابندی کی ہے، اسی کو میں نے آشنا اراضی سے موسوم کیا ہے۔منشی پریم چند کے نثرپارے میں نہارتا گاؤں ،عادات و اطواراور رکھ رکھاؤ نداؔ کے نظم پارے میںبھی جھانکتے نظر آتے ہیں۔نداؔ نے بڑے سلیقے سے یہ آشنا اراضی تیار کیا ہے۔آس پاس کے اس ماحول و فضا کو جسے ہم جیتے اورجانتے،پہچانتے ہیں ،اسے شاعری کا حصہ بناکر نداؔ نے ایک سچا، شناسااورخوبصورت Landscapeتعمیر کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔اس آشنا اراضی میں انھوں نے مختلف جذبات و احساسات اور نوع بہ نوع موضوعات کی فصل اگائی ہے۔ جن کا ذکر ہم آگے کریںگے۔پہلے ان کی تمام اصناف شاعری سے ان کے آشنا اراضی کے کچھ نمونے ملاحظہ ہو ؎
نظم:چھوٹے شہر کی رات:
فٹ پاتھوں پہ اونگھ رہی ہیں تھکی تھکائی گائیں
پیڑوں میں دبکی بیٹھی ہیں چنچل سائیں سائیں
بیڑی میں گانجا بھرنے بیٹھی ادھ ننگی سردی
منہ ہی منہ میں گالی دیتی گزری خاکی وردی
ہوٹل کا تختہ گاؤں میں جامن توڑ رہا ہے
مندر کا پچھواڑا اکھڑی سانسیں چھوڑ رہا ہے
چوراہے کے حلوائی کی بھٹی بھونک رہی ہے
کمبل اوڑھے ایک اکیلی لاٹھی چونک رہی ہے
نظم:کچی دیواریں:
میری ماں؍ ہر دن اپنے بوڑھے ہاتھوں سے؍ ادھر ادھر کی مٹی لاکر؍ گھر کی کچی دیواروں کے زخموں کو بھرتی رہتی ہے
تیز ہواؤں کے جھونکوں سے؍ بے چاری کتنا ڈرتی ہے
برسوں کی سیلی دیواریں؍ چھوٹے موٹے پیوندوں سے؍ آخر کب تک رک پائیں گی
جب کوئی بادل گرجے گا؍ ہر ہر کرتی ڈھے جائیں گی
نظم:
بیسن کی سوندھی روٹی پر کھٹی چٹنی جیسی ماں
یاد آتی ہے چوکا باسن چمٹا پھکنی جیسی ماں
بانس کی کھری کھاٹ کے اوپر ہر آہٹ پر کان دھرے
آدھی سوئی آدھی جاگی تھکی دوپہری جیسی ماں
چڑیوں کی چہکار میں گونجے رادھا موہن علی علی
مرغے کی آواز سے بجتی گھر کی کنڈی جیسی ماں
بیوی بیٹی بہن پڑوسن تھوڑی تھوڑی سی سب میں
دن بھر اک رسی کے اوپرچلتی نٹنی جیسی ماں
بانٹ کے اپنا چہرہ ماتھا آنکھیں جانے کہاں گئی
پھٹے پرانے اک البم میں چنچل لڑکی جیسی ماں
غزل ( منتخب اشعار):
گھر کی دہلیز سے گیہوں کے کھیت تک
چلتا پھرتا کوئی کاروبار آدمی
آنگن آنگن بیٹیاں چھانٹی بانٹی جائیں
جیسے بالی گیہوں کی پکے تو کاٹی جائیں
بہن چڑیاں دھوپ کی دور گگن سے آئیں
ہر آنگن مہمان سی پکڑو تو اڑ جائیں
پردیسی سونی آنکھوں میں شعلے سے لہراتے ہیں
بھابھی کی چھیڑوں سے بادل، آپا کی چٹکی سا چاند
میرے کمہار ہو جو اجازت تو میں کہوں
پھر سے مجھے بنا نئے سانچے میں ڈھال کر
گیت:
بادل میرے گاؤں بھی آؤ
پگڑی ٹانگو؍پیپل نیچے؍ اونٹ بٹھاؤ
مسجد پیچھے؍ سوکھ رہے ہیں تال تلاؤ؍ پھر ان کو بھر جاؤ
بادل میرے گاؤں بھی آؤ؍ چوپالوں میں کتھا سناؤ
پنجرے کی مینا سے بولو؍ بنیاڈنڈی مار رہا ہے؍ دال نمک ؍ اچھے سے تولو
کھول کے اپنی مہنگی گٹھری؍ سستی ہاٹ لگاؤ
بادل۔۔۔۔۔
نیم کی میٹھی کرونبولی؍ سلگاؤ ٹھنڈے چولہوں کو
میدانوں سے دھوپ اٹھاکر؍ پینگیں بھرنے دو جھولوں کو
چپ چپ ہیں؍ بیجوں میں انکُر؍ آلہا اودل گاؤ
بادلمیرے ۔۔۔۔۔۔۔
پگڈنڈی پر گھاس بچھاؤ
دودھ چڑھاؤ گائے کے تھن میں؍ پھاڑ کے مکھیا کے کھاتے کو؍ چین لکھو گھر کے آنگن میں
پیاسی ہے؍ ندیا بے چاری؍ شیتل جل برساؤ؍ بادل میرے گاؤں بھی آؤ
دوہے:
تالا، چابی، چٹخنی، دروازہ، دیوار
ایک دوجے کے خوف سے، بنا ہے یہ سنسار
اب مل میں کس کام کے، بُنکر ماتادین
سو چرخوں کی روئی کو، کاتے ایک مشین
ندیا اوپر پُل بنا، جڑا نگر سے گاؤں
چڑیاں گونگی ہو گئیں، اندھی ہو گئی چھاؤں
سیتا، راون، رام کا، کرے وبھاجن لوگ
ایک ہی تن میں دیکھیے تینوں کا سنجوگ
پھوٹی کرن اذان کی، جاگے پنچھی ڈھور
چڑیوں کی چہکار میں، کرے تلاوت بھور
نظمیں تو جہاں سے جی چاہے اٹھا لیجیے آپ کو میری بات سے انحراف کا کوئی جواز نہیں ملے گا۔ جس آشنا اراضی کی بات میں نے کی ہے اس کی تصدیق کلیات کی وہ نظم بھی کرے گی جو آپ کو بند آنکھوں سے کھولے جانے پر نظر آئے گی۔ میں نے اوپر وہی نظمیں درج کی ہیں جو کلیات کا ورق پلٹنے پر میرے سامنے آگئیں۔ البتہ غزلوں کے لیے مجھے انتخاب کی ضرورت پیش آئی۔ رہی بات گیتوں اور دوہوں کی تو آپ جانتے ہیں ان کا رنگ ہر جگہ دیسی ہی ہوتا ہے، اسے کبیر و نظیر کہیںیا عالیؔ و نداؔ۔ اس کی بڑی وجہ ان اصناف کا خالص ہندوستانی ہونا ہے۔
ان کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے پاس سنانے کے لیے بہت سے قصے ہیں۔ بتانے کے لیے بہت سی باتیں ہیں۔ دکھانے کے لیے بہت سے مناظر ہیں۔ اور تعجب اس پر ہوتا ہے کہ وہ اپنے مشاہدے میں آئے ہر قصے کو سنانا، تجربے میں آئی ہر بات کو بتانا اور دیکھے گئے ہر ایک منظر کو ہمیں بھی دکھانا چاہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کے موضوعات خاص اور اہم ہونے کے علاوہ کچھ عام اور معمولی بھی ہیں۔مثال کے طور پر ان کی نظم ’انتشار‘’کتنے دن بعد‘ ’کچی دیواریں‘’پہلا پانی‘’سردی‘’ایک بات‘’بس یوں ہی جیتے رہو‘’فقط چند لمحے‘ وغیرہ ملاحظہ کیجیے۔ لیکن ان نظموں کے معمولی مواد کو بھی انھوں نے اتنی ہنرمندی سے برتا ہے کہ کہیں ان کا فن مجروح نہیں ہونے پایا ہے۔ قدامہ ابن جعفر کی طرح میرابھی ماننا ہے کہ موضوع کی خوبی کا شعر کی خوبی سے کوئی تعلق نہیں۔اور بھلا اسے کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ W.B. Yeats نے لیڈا (Leda) اور ہنس جیسے معمولی موضوع پر لافانی نظم تخلیق کیا ہے۔لیکن معمولی موضوعات کی نظموںمیں بھی انداز اور مواد دیکھ کر ہی اس کے درجے کا تعین کیا جا سکتاہے۔اس طرح نداؔ کی مذکورہ نظمیں اوسط درجے کوبھی بمشکل پہنچ پاتی ہیں۔ آپ اوپر پیش کردہ نظم ’’کچی دیواریں‘‘ پڑھ کر دیکھ لیں۔ چونکہ کچھ لوگوں کو میری یہ بات بمشکل ہضم ہوگی اس لییاپنی بات کی مزیدوضاحت کے لیے میں یہاں ان کی ایسی ایک اورنظم پیش کرتا ہوں ؎
فقط چند لمحے :
بہت دیر ہے؍ بس کے آنے میں؍ آؤ؍ کہیں پاس کی لان پر بیٹھ جائیں
چٹختا ہے میری بھی رگ رگ میں سورج؍ بہت دیر سے تم بھی چپ چپ کھڑی ہو
نہ میں تم سے واقف؍ نہ تم مجھ سے واقف
نئی ساری باتیں، نئے سارے قصے؍ چمکتے ہوئے لفظ، چمکیلے لہجے
فقط چند گھڑیاں ؍ فقط چند لمحے
نہ میں اپنے دکھ درد کی بات چھیڑوں؍ نہ تم اپنے گھر کی کہانی سناؤ
میں موسم بنوں ؍ تم فضائیں جگاؤ۔
مذکورہ بالا نظم کو پڑھ کر کیا ایسا نہیں لگتا کہ یہ ہماری روزمرہ کا ایک معمولی واقعہ ہے؟ بس اسٹاپ پر جانے کتنے اجنبی چہرے بس کے انتظار میں گھڑیاں گن رہے ہوتے ہیں۔ سب کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ بس آئے اور انھیں منزل مقصود کی طرف لے جائے۔ انتظار کے اس وقفے کو (جس کا کوئی اندازہ نہیں کہ مختصر ہویا طویل)کسی اجنبی صورت کو شناسا بنانے میں گزارنے کی خواہش بہت سے دلوں میں پلتی ہے۔ اگر وہ اجنبی صورت کسی صنف نازک کی ہو تواس غیر معین مختصر سے لمحے میں دل فقط دل کی باتیں ہی کرنا چاہتا ہے ۔اس طرح شناسائی نہ بھی ہو تو وقت گزاری تو ہو ہی جاتی ہے، اس لیے لوگ ایک دوسرے سے یوں ہی کوئی بات چیت کرنے لگتے ہیں۔کچھ خاموش بھی رہتے ہیںکہ وہ خاموش طبع ہوتے ہیں۔لیکن اتنا تو طے ہے کہ یہ روزانہ وقوع پزیر ہونے والا معمولی واقعہ ہے اور نظم بھی اوسط درجے سے اوپر نہیں اٹھ سکی ہے۔ مگراس معمولی واقعے کو شاعری کا موضوع بنانا ہی اولاً بڑی ہمت کا کام ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کے باوجود پیش کش میں فنی جھول کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ ان کے شاعرانہ اسلوب اورتخلیقی رچاؤ کا اندازہ اس مصرع سے لگائیے ۔’’ چٹختا ہے میری بھی رگ رگ میں سورج‘‘۔ دل میں گفتگو کی خواہش کے انگڑائی لینے کو کتنی عمدگی سے اس مصرعے میں بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح نظم کے اختتام پر جب سیدھے لگاوٹ کی بات کرنے کوکہناہوتا ہے تو شاعر کہتا ہے ’’میں موسم بنوں؍ تم فضائیں جگاؤ۔‘‘یہ ان کی فنی پختگی کا ثبوت ہے کہ اس کے بغیر ایسا کہہ پانا ممکن نہیں۔
نداؔ کی تمام نظموں کے مطالعے سے یہ احساس ہوتا ہے کہ انھیں ایک خیالی ترتیب کا روپ دیا جا سکتا ہے۔ اس طرح ان کے چار زمرے بنیں گے۔ اول سماج میں رونما ہو رہے واقعات و حادثات کی جوں کی توں تصویر کشی کا عمل، دوم جذبات کی کیتھارسس کا عمل ، سوم بدلاؤ کی طرف مائل کرنے کا عملاورچہارم مایوس ہونے کے بجائیسب کچھ اچھا ہونے کی امیداور حوصلہ دلانے کا عمل۔مثال کے طور پرمذکورہ بالا نظم’’چھوٹے شہر کی رات ‘‘ کو پڑھیے ، اس میںآپ کو سماجی حقیقت کی جوں کی توں عکاسی نظر آئے گی۔اسی طرح کی ایک نظم ’کیمرے کے سامنے‘بھی ہے۔’چوتھا آدمی‘’ فرق اگر ہے تو اتنا ہے‘’ خدا کا گھر نہیں‘اور’ پیدائش‘وغیرہ میں کیتھارسس کا عمل ہے۔’ مرمت کی ضرورت ‘میں بدلاؤ کی بات ہے۔’سنا ہے میں نے‘ امیدو حوصلہ دلانے والی نظم ہے۔کمال کی بات یہ ہے کہ نداؔ مذکورہ کوئی بھی عمل کرتے ہوئے لسانی سطح پرکبھی بھی جھنجھلاہٹ کے شکار نہیںہوتے بلکہ نرم روی اور شیریں انداز بیان ہی اختیار کیے رہتے ہیں۔ یہ انداز ان کی پوری شاعری میں ابتداتا انتہا برقرار رہتا ہے۔ہاں لیکن یہ واضح رہے کہجب وہ انارکیت سے سماجی موضوعات کی طرف مڑے تو شروع شروع میںسماجی ناہمواری و خلفشار اور حالات کی ستم ظریفی کے سبب ناراضگی و جھلاہٹ کے سمندرمیں غوطہ زن ہو گئے۔ یہ ناراضگی موضوعاتی سطح پر ان کی شاعری کا حصہ بھی بنتی ہے۔ مثال کے طور پر ان کی نظم ’’ممبئی‘‘کو پڑھ لیجیے۔ لیکن جلد ہی وہ اس سمندر کے اچھے پیراک بن جاتے ہیںاور اپنی ناراضگی و جھلاہٹ پر قابو پا لیتے ہیںاسی لییاسے ان کا محض ایک جزوقتی پڑاؤ ہی سمجھنا چاہیے۔
اس عمل میںنداؔ اشیاء کو کہیں انسانی تشخص عطا کرتے ہیں جیسے ’دو کھڑکیاں‘اور کہیں تشبیہی تشخص جیسے ’ماں‘(ردیف والی غزل نما نظم)۔کہیں انقلابی رنگ اختیار کرتے ہیں جیسے ان کی غزل :
’’ہر ایک گھر میں دیا بھی جلے اناج بھی ہو
اگر نہ ہو کہیں ایسا تو احتجاج بھی ہو‘‘
یا پھر یہ شعر:
’’ہر ایک بات کو چپ چاپ کیوں سنا جائے
کبھی تو حوصلہ کرکے نہیں کہا جائے‘‘
تو کہیں نیچری جیسے ان کا دوہا:
’’ندیا سینچے کھیت کو، توتا کترے آم
سورج ٹھیکیدار سا، سب کو بانٹے کام‘‘
کہیں علاماتی انداز اختیار کر لیتے ہیں جیسے ان کا یہ شعر دیکھیں ؎
’’سورج کو چونچ میں لیے مرغا کھڑا رہا
کھڑکی کے پردے کھینچ دیے رات ہو گئی‘‘
یا پھر ’رنگ محل‘’سانپ تالی بجا رہا ہے‘اور’ستمبر ۱۹۶۵ء‘ وغیرہ نظموں کوپڑھ لیں۔ان کی بہت سی نظمیں ایسی ہیں جوہندی کویتاؤں کا سا انداز لیے ہوئے ہیںجیسے’ رخصت ہوتے وقت‘’سچائی‘’سماجی شعور‘وغیرہ۔ کچھ ایسی نظمیں بھیہیں جومحض منظرکشی پر اپنے تان توڑتی ہیںمثلاً ’بھور‘’سردی‘’پہلا پانی‘ ’سحر‘ ’دوپہر‘ اور ’شام‘وغیرہ۔ یہ الگ بات ہے کہ منظر کشی عمدہ تخلیقیت لیے ہوتی ہے۔ان کی کئی نظمیں مختصرمگر جامع کی عمدہ مثال ہیں مثلاً ’جب تلک وہ جیا‘’روتا بچہ‘’کھیلتا بچہ‘’محبت‘’کامیاب آدمی‘’اتفاق‘ ’فرصت‘’فاتحہ‘اور’سلیقہ‘ وغیرہ۔ بطور مثال آپ اوپر مذکور ماں ردیف والی نظم پڑھ کراندازہ لگاسکتے ہیں۔اس طرح کی ان کی ایک نظم ’بوڑھا‘ بھی ہے، جس کے شروع اور آخر میںایک سفاک و کربناک ٹکڑا ہے ؎
’ہر ماں اپنی کوکھ سے اپنا شوہر ہی پیدا کرتی ہے‘
ان کی بیشتر نظمیں معاشرے کے ایسے سلگتے مسائل کو اپنا محور بناتی ہیں، جن پر اکثر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔یوں سمجھیے کہ نداؔبھی منٹو کی طرح گندگی پر مٹی ڈالنے کے قائل نہیںبلکہ اس کو عیاں کرنا اپنا فریضہ سمجھتیہیں۔بس فرق اتنا ہے کہ منٹو گندگی کو کریدکر اس کی بدبو پھیلانے کے خواہاں ہوتے ہیں اور ہو بھی کیوں نہ کہ وہ نثر نگار ہیں جبکہ نداؔ شاعرہیںاور شاعری اس کی متحمل نہیں اس لیے وہ گندگی کا ہوبہو نقشہ کھینچنے کی تمنا رکھتے ہیں۔
’موڈس‘’پگھلتا دھواں‘’پھر یوں ہوا‘لفظوں کا پُل‘’بجھ گئے نیل گگن‘’نیا روگ‘’لاپتا‘جیب کٹنے کے بعد‘اور ’گھُٹن‘ جیسی نداؔ کی نہ جانے کتنی نظمیں ایسی ہیں جس میں ایک قسم کا کرب موجزن ہے۔نظم ’کھلونے‘اور’کھیل‘دونوں الگ الگ مجموعوں میں مختلف ناموں سے مندرج ایک ہی نظم ہے۔یہ نظم گنگا جمنی تہذیب کی بہترین عکاسی کرتی ہے۔ اسی طرحنظم’’ سمجھدار لوگوں سے کہہ دو‘‘ مذہبی ٹھیکیداروں کے سفاک چہرے کو بے نقاب کرتی ہے۔’ستمبر ۱۹۶۵ء‘’ قومی یکجہتی‘ اور’خودکشی‘جیسی نظمیں فرقہ پرستوں، مکار سیاست دانوں اور مذہبی ٹھیکیداروں کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے۔نداؔ کی شاعری وہاں معراج حاصل کر لیتی ہے جہاں لطافت ِاحساس میں شدتِ کرب موجزن ہو۔مثال کے طور پر ان کی نظم ’’والد کی وفات پر‘‘ پڑھیے۔ایک بیٹا کس قدر جذباتی طور پر اپنے باپ سے جڑا ہوتا ہے کہ اپنے والدکی وفات کی سچی خبرکو بھی اس کا دل جھٹلا دینا چاہتا ہے کیوں کہ والد کی جدائی پربیٹا اپنی زندگی میں جس خلاکو محسوس کرتا ہے اس کی لطافت کا اندازہ کوئی باپ کھونے والا شخص ہی لگا سکتا ہے۔غرض یہ کہ اس نظم کو پڑھ کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ شاعر نے اس میں لطافت احساس اورکرب کی شدت دونوں کا حسین امتزاج پیدا کر دیا ہے اور مزید یہ کہ دونوں کا توازن بھی برقرار رکھا ہے۔ میں یہاں اس نظم کے آغاز و اختتام سے کچھ ٹکڑے پیش کرتا ہوں ؎
تمہاری قبر پر؍ میں فاتحہ پڑھنے نہیں آیا؍ مجھے معلوم تھا؍ تم مر نہیں سکتے؍ تمہاری موت کی سچی خبر جس نے اڑائی تھی وہ جھوٹا تھا۔
تمہاری قبر پر جس نے تمہارا نام لکھا ہے ؍ وہ جھوٹا ہے؍ تمہاری قبر میں میں دفن ہوں؍ تم مجھ میں زندہ ہو؍ کبھی فرصت ملے تو فاتحہ پڑھنے چلے آنا۔
اب ان کی غزلوں سے بھی چند اشعاربطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں ؎
یہی ہے زندگی کچھ خواب چند امیدیں
انہیں کھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو
کسی کے واسطے راہیں کہاں بدلتی ہیں
تم اپنے آپ کو خود ہی بدل سکو تو چلو
اب خوشی ہے نہ کوئی درد زمانے والا
ہم نے اپنا لیا ہر رنگ زمانے والا
جیسی ہونی چاہیے تھی ویسی تو دنیا نہیں
دنیا داری بھی ضرورت ہے چلو یوں ہی سہی
کوئی ملا تو ہاتھ ملایا کہیں گئے تو باتیں کیں
گھر سے باہر جب بھی نکلے دن بھر بوجھ اٹھایا ہے
ہر گھڑی خود سے الجھنا ہے مقدر میرا
میں ہی کشتی ہوں مجھی میں ہے سمندر میرا
مذکورہ اشعار کے مطالعے سے نداؔ کی نفسیاتی کیفیت کو سمجھنے کا راستہ بھی استوار ہو جاتا ہے۔ عصر حاضر کے سلگتے ہوئے مسائل نے ان کے دل کو جلا ڈالا ہے۔ ایک سوختہ دل انسان کے لیے خواب اور امید محض دل بہلانے کے کھلونے ہوتے ہیں۔ جب ان کھلونوں سے اس کا دل نہیں بہلتا تو وہ اکتاکر زمانے والا رنگ اپنا لیتا ہے یعنی خود کو بدل لیتا ہے۔ کیوں کہ اسے لگنے لگتا ہے کہ دنیاداری بھی ایک ضرورت ہے۔ ایسے میں باہرنکلنے پر اس کے جو بھی خیرخواہ یا بدخواہ اس سے ہاتھ ملانا ،باتیں کرنا چاہتے ہیں وہ بلا تفریق ان سے ہاتھ ملاتا اور باتیں کرتا ہے۔ لیکن کیا ایسا کرنے سے اس کے دل کو سکون مل جاتاہے،اسے راحت میسر آ جاتی ہے؟ نہیں بلکہ جلد ہی اسے احساس ہو جاتا ہے کہ اپنے خیر خواہوں کے ساتھ ساتھ بدخواہوں سے بھی ملناایک بوجھ ہے اوروہ کہہ اٹھتا ہے ؎
کچھ لوگ یوں ہی شہر میں ہم سے بھی خفا ہیں
ہر ایک سے اپنی بھی طبیعت نہیں ملتی
ایسا شخص الجھنوں کا شکار ہو جاتا ہے پھر جب وہ کلام کرتا ہے تو اس کے کلام پر ایک نفسیاتی پرت چڑھی ہوتی ہے۔ جب تک ہم اس پرت کو اتار کر اس کی شاعری کا مطالعہ نہیں کرتے ، ہم صحیح معنی تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔
ان کے موضوعات کا دائرہ بے حد وسیع ہے۔ وہ نہ تو سماج کے عصری مسائل سے جی چراتے ہیں، نہ ہی عشقیہ معاملات سے دامن بچاتے ہیں۔ وہ سیاست کے سفاک چہرے کو بھی بے نقاب کرتے ہیں اور انقلاب و بغاوت کے سر بھی الاپتے ہیں۔ وہ جذبات و احساسات کی ترجمانی بھی خوب کرتے ہیں۔ وہ کبھی گھر کے اندر جھانکتے ہیں کبھی گاؤں اور شہر کا دورہ کرنے لگتے ہیں پر ان کا دائرہ اپنے ملک تک سمٹا سمٹایا ہوا نہیں رہتا بلکہ عالمی وسعت اختیار کر لیتا ہے۔انھیںان سے چڑھ ہوتی ہے جن کی کتھنی اور کرنی میں فرق ہو۔جن کے جذبے میں خلوص نہ ہو۔جن کے رشتے میں سچائی نہ ہو۔ آج انسان اس قدر سنگ دل ہو چکا ہے کہ بھائی اپنے سگے بھائی سے عید پر بھی گلے نہیں ملتا۔ ایک دوسرے سے نگاہیں چراکر اور راستہ بدل کر نکل جانا تو عام بات ہو چکی ہے ۔ دوستی کی بنیاد بھی خود غرضی اور مصلحت پسندی پر رکھی ہوتی ہے۔اسی کو شاعر اس طرح بیان کرتا ہے ؎
میلے ہو جاتے ہیں رشتے بھی لباسوں کی طرح
دوستی ہر دن کی محنت ہے چلو یوں ہی سہی
کچے بخیے کی طرح رشتے ادھڑ جاتے ہیں
لوگ ملتے ہیں مگر مل کے بچھڑ جاتے ہیں
جس طرف دیکھیے پیار، خلوص اور وفاداری کے جذبات کا فقدان ہے۔ ریاکاری اور منافقت جزو ایمان بن چکی ہے۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ دوست کا ایک برا لفظ دشمن کی ہزار تلوار کی کاٹ سے زیادہ گھاؤ کرتا ہے۔ پھر بھی آج لوگ اس کی پرواہ نہیں کرتے نہ ہی منافقت سے باز آتے ہیں۔ یہ دوگلے لوگ جوآپ سے ہمیشہ مسکراکر ملتے ہیںوہ ایسی جگہ ڈستے ہیں جہاں آپ کواس کی توقع بھی نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے ندؔا فاضلی مشورہ دیتے ہیں ؎
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
آج کا دور مطلب پرستی کا دور ہے۔ ہر شخص اپنے مفاد کی خاطر ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ منہ میں رام بغل میں چھری کے مصداق ان کے دل میں کچھ اور زبان پر کچھ ہوتا ہے۔دل ملے یا نہ ملے، ہم رائے و ہم زباں ہو یا نظریاتی اختلاف رکھتے ہوں،وہ ایک دوسرے سے تب تک ہاتھ ملاتے رہتے ہیں جب تک ان کی مراد پوری نہیں ہو جاتی۔یعنی صرف مطلب پورا ہونے تک یہ رشتہ برقرار رہتا ہے ۔ مطلب نکلتے ہی اس تعلق کو لا ت مار دیا جاتا ہے۔اس کا احساس ندؔا کو ہوتا ہے تو وہ یوں کہتے ہیں ؎
دعا سلام میں لپٹی ضرورتیں مانگے
قدم قدم پہ یہ بستی تجارتیں مانگے
اس رشتے کی تجارت کا احساس ہونے کے باوجود وہ یہ بھی کہتے ہیں ؎
دشمنی لاکھ سہی ختم نہ کیجے رشتہ
دل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملاتے رہیے
آپ کو لگے گا کہ سب کچھ کے باوجود وہ قطع تعلقی کو ناپسندکرتے ہیں۔ بباطن کچھ بھی ہو ،ظاہری طور پر وہ ملتے ملاتے رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔جبکہ مجھے ایسا نہیں لگتا۔ مجھے لگتا ہے کہ معاشرے کا جو رویہ ان کے مشاہدے میں ہے وہی ان کے کلام کا حصہ بنا ہے۔ایسا کرنے پر اکسانا ان کی منشاء نہیں بلکہ ایسا ہو رہا ہے یہ بتانا ان کا مقصد ہے۔ ان کا ڈکشن بالکل الگ ہوتا ہے ۔ جو ان کے ڈکشن کو نہیں سمجھتا وہ ان کے اشعار کا صحیح ادراک بھی نہیں کر سکتا۔ مثال کے طور پر ان کا ایک شعر ہے ؎
گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کر لیں
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے
اس شعر کی روشنی میں انھیں دہریہ اور کمیونسٹ تک قرار دے دیا گیا۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کو بھی ایسا ہی لگے۔ دراصل ان کے یہاں جو دکھائی دیتا ہے وہ ہوتا نہیں۔ اوپر میں نے بتایا ہے کہ ان کے اشعار پرایک نفسیاتی پرت چڑھی ہوتی ہے۔دراصل نداؔ ایمان کے کھوکھلے پن اور مذہبیت کے دکھاوے سے خار کھاتے ہیں۔ وہ مذہب کے پیور فارم کی جستجو میں ہوتے ہیں ۔ انھیں پتہ ہے کہ مذہب انسان کے اندرانسانیت کے جذبے کی پرورش کرتا ہے، چھوٹوں سے شفقت اور بڑوں کا احترام سکھاتا ہے۔ جن کا ایمان مضبوط اوررب و رسول پرگہرا یقین ہووہ ان چیزوں کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔لیکن سماج کا کاہل طبقہ یہ نہیں جانتا کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں ضروری ہیں۔ ایک کو نظر انداز کرنا اور دوسرے پر عمل کرنا کسی بھی طرح مبنی بر انصاف نہیں ہو سکتا۔اسی کاہل طبقے کے عمل در آمد کے خوبصورت بہانے کو اس شعر میں دکھلایا گیا ہے۔ یہ کاہل طبقہ پہلے حقوق اللہ کو حقوق العباد کے بہانے ترک کرتا ہے پھر حقوق العباد کو حقوق اللہ کے بہانے چھوڑتا ہے۔ اس طرح وہ دونوں میں سے کسی بھی حق کو پورا نہیں کرتا۔یعنی نہ مسجد جاتا ہے نہ بچہ کھلاتا ہے۔ بس ایک کو دوسرے کے بہانے ٹال دیتا ہے۔ اس شعر میں کاہل طبقے کی بس پہلی والی کیفیت یعنی حقوق اللہ کو حقوق العباد کے بہانے ٹالنے کو بڑے عمدہ طریقے سے دکھایا گیا ہے۔میں یہاں اس سلسلے میں بذات خود نداؔ کی رائے درج کردینا مناسب سمجھتا ہوں:
’’میرے یہاں شعری ابعاد کائنات میں تصور خدا سے عبارت ہے۔ خدا کا ایک مذہبی تصور ہے۔ جو مذہب کے شارحین و مفسرین نے محدود کر دیا ہے۔ دوسرا اس کا روپ سیاست کے بازاروں میںدیکھنے کو ملتا ہے۔ تیسری صورت میں وہ مختلف مذاہب کے تصورات کے مطابق الگ الگ عبادت گاہوں میں منقسم ہے۔ اس منقسم خدا کو میں نے صوفی سنتوں کے ملفوظات سے جوڑکر اس کو رب العالمین کی اصطلاح میں جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ وہ وحدہ لا شریک ہے۔ وہ پتھروں سے بنے مکانوں میں غیر محفوظ تھا۔ صوفی سنتوں نے اسے دل میں بساکر مقدس حفاظت فراہم کی۔ میں نے اسی خدا کا رشتہ اس کی تخلیق یعنی بندہ سے راست کرنے کی سعی کی ہے۔ جس میں ملتیں جب ختم ہو جاتی ہیں تو اجزائے ایمان میں ڈھل جاتی ہیں۔ کشمیر کی شیو بھگت لل وید(للشیوری) کے مطابق شیو ہر جیو میں واس کرتا ہے۔ جو عقائد کی تفریق سے اوپر اٹھ کر خالق کائنات بن جاتا ہے۔ غالبؔ نے اسے آدمی کے انسان بننے سے تعبیر کیا ہے۔ میں نے تصور خدا کو شر کی دنیا میں خیر سے تعبیر کیا ہے۔ ‘‘
اپنی اس رائے کے اظہار کے فوراً بعد انھوں نے وہی مذکورہ شعر درج کیا ہے۔ اور اس اقتباس سے پیشتر یہ شعر مندرج ہے؎
عربی آیتیں مقدس ہیں
ان کو اردو میں بھی پڑھو صاحب
اس کی روشنی میں آپ نداؔ کے ذہنی رویے کوہی نہیں بلکہ ان کی طبیعت کے میلان کا بھی بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ان کی خواہش یہ ہے کہ لوگ قرآن کی صرف قرأت نہ کریں بلکہ اس کے معانی و مفاہیم کو بھی سمجھیں تاکہ انھیں پتہ چلے کہ ان کے رب نے ان سے کیا کچھ کہا ہے۔ خیربات کو زیادہ طول نہ دیتے ہوئے یہاں مجھے بس اتنا کہنا ہے کہ مذکورہ بالا اقتباس میرے اخذ شدہ مفہوم کی تصدیق کرتا ہے۔اب ذرا اس شعر کو بھی دیکھیں ؎
دعا کے ہاتھ پتھر ہو گئے ہیں
خدا ہر ذہن میں ٹوٹا پڑا ہے
پہلی نظر میں تو ایسا لگتا ہے کہ بذات خود شاعر کا اللہ پر سے بھروسہ اٹھ چکا ہے۔ مگرنداؔ کو سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ شاعر نے یہاں صرف سماج کی ایک قنوطی کیفیت کی عکاسی کی ہے۔ وہ ذات جو علیم بذات الصدور ہے وہ مذہبی دکھاوے اور نمائشی عبادت والے لوگوں کی دعائیں بھلا کیوں قبول کرے اور ایسے جلدبازوں اور ناشکروں کی دعائیں جب بارگاہ ایزدی سے مسترد کر دی جاتی ہیں تو وہ اپنی تکلیف پر صبر کرنے کے بجائے مایوسی میں گھرکراپنے ایمان کا پیالہ توڑدیتے ہیں۔ ایک طرف تولوگ عبادت کریں اور دوسری طرف ان سے دنیاوی معاملات میں بے ایمانی بھی سرزد ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مومن و مخلص نہیں ہیں۔ اور جو ایسا نہیں نداؔ اس کو نشانہ بنانے کے بجائے اس کے دعوے کو نشانہ بناتے ہیں تاکہ زیادہ پراثر ہو۔ یہی ان کا اسٹائل ہے۔جیسے ان کا یہ شعر دیکھیں ؎
بچوں کے چھوٹے ہاتھوں کو چاند ستارے چھونے دو
چار کتابیں پڑھ کر یہ بھی ہم جیسے ہو جائیں گے
کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس کے ذریعے شاعر تعلیم سے دوری کا درس دے رہا ہے؟ دراصل زیادہ پراثر بنانے والاوہی طریقہیہاں بھی استعمال ہواہے جس کاذکر اوپرکیا گیا ہے۔تعلیم کا زیور لوگوں کو مہذب و شائستہ بناتا ہے،ان کے اندر عاجزی و خاکساری پیدا کرتا ہے۔ لیکن جب یہ خصلتیںتعلیم یافتہ افرادمیںجلوہ گرنہ ہو توانھیں نشانہ بنانے کے بجائے ان کے کھوکھلے دعوے کو اپنی زد پہ لے لیتے ہیں۔اسی لیے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وہ دعویداروں کے حمایتی ہیں اور دعویٰ کے دشمن۔کیا کیجیے سب کااپنا اپنا طریقہ ہوتا ہے اور نداؔ کا یہی طریقہ ہے۔ ان کے شعری طریقۂ کار سے آگاہی کے بعد آپ منددرجہ ذیل اشعار کو پڑھیں۔ آپ کو یقین ہو جائے گا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ صرف سماجی صورت حال پر ایک شاعر کے طنز و تلملاہٹ سے اُپجی وہ فصل ہے جو پکنے کے بعد اپنی صورت بدل لیتی ہے۔ ان کی نفسیات کو سمجھ کر ہی ان کی مراد تک پہنچا جا سکتا ہے۔ اشعار ملاحظہ ہو ؎
اچھی صورت والے سارے پتھر دل ہوں ممکن ہے
ہم تو اس دن رائے دیں گے جس دن دھوکا کھائیں گے
کٹھ پتلی ہے یا جیون ہے جیتے جاؤ سوچو مت
سوچ سے ہی ساری الجھن ہے جیتے جاؤ سوچو مت
اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں
رخ ہواؤں کا جدھر کا ہے ادھر کے ہم ہیں
شرافت آدمیت دردمندی
بڑے شہروں میں بیماری سے بچئے
دھوکا کھانے کے بعد رائے دینا، سوچنے سے منع کرنا، ہواؤں کے رخ پر چلنا اور شرافت ، آدمیت، دردمندی سے پرہیز کرنے کی ترغیب بھلاکوئی کیوں دے گا؟ اسے نفسیات کے سہارے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے اس لیے بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ۔
آج کے دور کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ انسان کا یقین دوسرے انسانوں پر سے بالکل اٹھ گیا ہے۔ وہ دوسراانسان ان کا اپنا کوئی سگا ہو، دوست ہو یا رشتہ دار، بھروسہ کسی پر بھی نہیں رہا۔ آج رشتوں کی وہ معنویت نہیں رہی جو پہلے کبھی ہوا کرتی تھی۔قریبی رشتوں میں دوری کس طرح پیدا ہوتی جا رہی ہے اسے ان کی ایک نظم ’’دور کا ستارہ‘‘ میں بڑی عمدگی اور سچائی سے دکھایا گیا ہے۔ جیسا کہ ان کی غزل کے ایک شعر میں بھی اس کا کرب محسوس کر سکتے ہیں ؎
پہلے ہر چیز تھی اپنی مگر اب لگتا ہے
اپنے ہی گھر میں کسی دوسرے گھر کے ہم ہیں
آج عام انسانی زندگی لاچار و بے سہارا نظر آتی ہے۔ غیر انسانی رویوں کی وجہ سے انسانیت مجروح ہوتی جا رہی ہے۔ ہر طرف ظلم و بربریت کا بازار گرم ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے انسانی بستی پر بھیڑیے کی حکومت ہو اور چاروں طرف درندے آکر بس گئے ہوں۔ شہر جو کبھی تہذیب کی علامت سمجھا جاتا تھااب بیابان بن چکا ہے ۔ اس حقیقت کی عکاسی بھی نداؔ کی شاعری کرتی ہے۔ اشعار دیکھیں ؎
بدل رہے ہیں کئی آدمی درندوں میں
مرض پرانا ہے اس کا نیا علاج بھی ہو
خوں خوار درندوں کے فقط نام الگ ہے
ہر شہر بیابان یہاں بھی ہے وہاں بھی
یہاں بھی اور وہاں بھی سے مراد ہندوستان و پاکستان ہے لیکن اس کی معنوی وسعت صرف انھیں دو ملکوں تک محدود نہیںبلکہ عالمی وسعت اس میں سما گئیہے۔مذکورہ درندگی کی وجہ سے حساس اور حق پرست انسان محفل میں ہونے کے باوجود خود کو تنہا محسوس کرنے لگا ہے۔ یہ تنہائی محض اسی وجہ سے نہیںآئی بلکہ انسانی قدروں کے کھونے، مطلب پرستوں سے گھرے ہونے اور اخلاص وایمانداری کے فقدان سے پیدا ہوئی ہے۔اس تنہائی کے عذاب میں وہ نیک و شریف لوگ اکثر مبتلا ہوتے ہیں جن کے پاس دردمند دل ہوتا ہے۔اس موضوع پر نداؔ کے بے شمار اشعارہیں جن میں سے چندبطور نمونہ یہاں پیش کیے جاتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں ؎
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمیں کہیں آسماں نہیں ملتا
تمام شہر میں ایسا نہیں خلوص نہ ہو
جہاں امید ہو اس کی وہاں نہیں ملتا
یہ کیا عذاب ہے سب اپنے آپ میں گم ہیں
زباں ملی ہے مگر ہم زباں نہیں ملتا
ہر طرف ہر جگہ بے شمار آدمی
پھر بھی تنہائیوں کا شکار آدمی
اس کے دشمن ہیں بہت آدمی اچھا ہوگا
وہ بھی میری ہی طرح شہر میں تنہا ہوگا
ایک محفل میں کئی محفلیں ہوتی ہیں شریک
جس کو بھی پاس سے دیکھوگے اکیلا ہوگا
سماج کے سلگتے اور عام انسانوں کے چیختے مسائل کی عکاسی ان کے دوہوں میں بھی کی گئی ہے۔ نمونے کے طور پر ایک دو دوہے دیکھیے ؎
نقشہ لے کر ہاتھ میں، بچہ ہے حیران
کیسے دیمک کھا گئی اس کا ہندوستان
منشی دھنپت رائے تو ٹنگے ہیں بن کے یاد
سننے والا کون ہے، ہوری کی فریاد
یہ بچہ بھارت ماں کا سپوت ہے ۔ وہ اپنی ماں کی ناقدری پر رنجیدہ نہیںبلکہ اس پر حیران ہے کہ اس کی قدر دانی کا نغمہ گانے والے مذہبی و سیاسی رہنماہی کیسے دیمک کی طرح اس کے ملک سے چمٹ کر اسے کھوکھلا کرتے جا رہے ہیں۔ اس طرح منشی پریم چندکے شاہکار ناول گئودان کے اہم کردار’’ہوری‘‘ کی حالت آج بھی ویسی ہی ہے جیسی کل کے جاگیردارانہ اور انگریزوں کے غلامانہ نظام میں تھی۔ وہ کل بھی بدحال تھا اور آج بھی ہے۔ نہ کل اس کی فریاد سنی گئی تھی اور نہ آج سنی جا رہی ہے۔ یہاں ندا ؔنے کردار اور اس کے عوامل کا استعمال ضرور کیامگر تناظر وہی پرانا ہی رہنے دیا۔ انھوں نے تناظر بدلنے پر اپنی محنت صرف کرنے کے بجائے پورے ناول کے کرب اور اس کی محزونی کیفیت کو دوہے کے ایک شعر میں سمونے کی کوشش کی ہے۔
ندا ؔ نے محبت کے نغمے بھی گائے ہیں۔ ان کی شاعری میں رومانی احساسات و کیفیات کے مختلف شیڈس نظر آتے ہیں۔چند اشعار ملاحظہ ہو ؎
ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے
عشق کیجے پھر سمجھیے زندگی کیا چیز ہے
ہم لبوں سے کہہ نہ پائے ان سے حال دل کبھی
اور وہ سمجھے نہیں یہ خاموشی کیا چیز ہے
برسات کا بادل تو دیوانہ ہے کیا جانے
کس راہ سے بچنا ہے کس چھت کو بھگونا ہے
کھول کے کھڑکی چاند ہنسا پھر چاند نے دونوں ہاتھوں سے
رنگ اڑائے پھول کھلائے چڑیوں کو آزاد کیا
جھکتی ہوئی نظر ہو کہ سمٹا ہوا بدن
ہر رس بھری گھٹا کو برس جانا چاہیے
ان کا عشق روایتی ہے نہ عاشق و معشوق۔یہاں لیلیٰ مجنوں والا ایثار نہیں کہ زندگی بھر بس ایک دوسرے کا ہوکر رہ جائیں۔ نداؔ کے یہاں آج کا عشق جلوہ گرہے۔جہاںعاشق کو عشق میں کچھ دنوں مزہ ملتا ہے پھر عاشق و معشوق دونوں کسی اور کو اپنے لیے تلاش لیتے ہیں۔ دور حاضر میں عشق جذبہ ٔ ایثارکا نام نہیں بلکہ لطف اندوزی کا متبادل ہے اور یہی عشق نداؔ کے کلام کا حصہ بنا ہے۔ اشعار دیکھیے ؎
عشق کرکے دیکھیے اپنا تو یہ ہے تجربہ
گھر محلہ شہر سب پہلے سے اچھا ہو گیا
کچھ دنوں تو شہر سارا اجنبی سا ہو گیا
پھر ہوا یوں وہ کسی کا میں کسی کا ہو گیا
جو ہو اک بار وہ ہر بار ہو ایسا نہیں ہوتا
ہمیشہ ایک ہی سے پیار ہو ایسا نہیں ہوتا
آنی جانی ہر محبت ہے چلو یوں ہی سہی
جب تلک ہے خوبصورت ہے چلو یوں ہی سہی
یہ الگ بات کہ اس نام نہاد عشق کے لیے بھی کوشش کرنی پڑتی ہے، جرأت دکھانی پڑتی ہے۔پھر محبوب کے پانے اور کچھ دنوں کاساتھ نبھانے کے بعد جب جدائی واقع ہوتی ہے تو ہجر کی وہ روایتی کیفیت بھی نہیں ہوتی ، جس میں عاشق کو نیند نہ آئے اوروہ رات آنکھوں میں جاگ کرکاٹے یا سارا کام التوا میں ڈال کر بس محبوب کی یادوں میں کھویا رہے۔ یہاں تو فرصت ملنے پر محبوب کو یاد کیا جاتا ہے۔اشعار ملاحظہ ہو ؎
دل میں نہ ہو جرأت تو محبت نہیں ملتی
خیرات میں اتنی بڑی دولت نہیں ملتی
آج ذرا فرصت پائی تھی آج اسے پھر یاد کیا
بند گلی کے آخری گھر کو کھول کے پھر آباد کیا
یہاں عاشق صابر نظر آتا ہے نہ معشوق ظالم۔ یہاںعشق کا رشتہ جذبات کے فیویکولسے مضبوط نہیںچپکا ہوتا بلکہ میلان کے سستے گوند سے ہلکاسا ٹکا ہوتا ہے جس کے سبب ایک چھوٹی سی ضد بھی دونوں میں علیحد گی پیدا کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے ؎
بات بہت معمولی سی تھی الجھ گئی تکراروں میں
ایک ذرا سی ضد نے آخر دونوں کو برباد کیا
آج Arranged marriage کی بجائے Love marriageکا دور ہے۔ شادی سے پہلے Affiar کا ہونا عام بات ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ Arranged Marriageہو یا Love Marriage یا Live in Relationship ہو،ایک دوسرے پر وہ بھروسہ اور یقین نہیں ، رشتے میں وہ گہرائی نہیں جو پہلے کبھی ہوا کرتی تھی۔ اس میں مردوزن دونوں کی کمی ہے۔ آج کامرد عورت کو صرف اپنی ضرورت پوری کرنے کا سامان سمجھتا ہے اور خاتون صرف شاپنگ و ٹور کے لیے سجتی سنورتی ہیں ، اپنے مردوں کے لیے سنورنا ماضی کا حصہ بن چکا ہے ۔ شام کو کام سے گھر واپس لوٹنے پر اپنی عورتوں کو سجا دیکھنا مردوں کے دل کی حسرت محض رہ گئی ہے۔نداؔ کے اشعار میں یہ چیزیں واضح طور پر ابھرکر آئی ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں ؎
ہم کہاں کے دیوتا ہیں بے وفا وہ ہیں تو کیا
گھر میں کوئی گھر کی زینت ہے چلو یوں ہی سہی
دیکھو یہ شہر ہے عجب دل بھی نہیں ہے کم غضب
شام کو گھر جو آؤں میں تھوڑا سا سج لیا کرو
ان کے دوہوں میں بھی عشقیہ مضامین کہیں کہیں دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ دو ایک دوہے یہاں بطور مثال پیش کیے جاتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں ؎
دکھ تو مجھ کو بھی ہوا ملا نہ تیرا سات
شاید تجھ میں بھی نہ ہو، تیرے جیسی بات
آنکھوں سے آنکھوں تلک رستہ ہے ہم وار
دل سے دل کا فاصلہ لیکن ہے دشوار
ان کے نزدیک انسانیت کا رشتہ سب سے بڑا رشتہ ہے۔ انسانی اقدار و روایات سے انحراف کرنا انھیں قطعی گوارا نہیں۔ وہ انسانی قدروں کی پامالی پر تلملا اٹھتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ آدمی میں کم سے کم آدمیت تو ہو۔ موجودہ دور میں مذہبی اور سیاسی ٹھیکیدارمذہب اور سیاست کو ایک حربہ کے طور پر استعمال کرتے ہیںاورپیار ومحبت بانٹنے کے بجائے نفرت اور خوف کی تجارت کرتے ہیں۔ جس سے سماج میں نہ ہی امن ہے نہ انصاف۔ اصل اور مستحق لوگوں کا کھلے عام استحصال ہو رہا ہے۔ملکی معیشت کا تیسرا حصہ مٹھی بھر لوگوں کے قبضے میں ہے۔ ایسے میںمساوات کہاں سے ہو؟اب عام انسانوں کے لیے خوشحالی محض ایک خواب ہے،جس کی تعبیر ممکن نہیں۔ وہ جس جگہ بھی رہتا ہو پریشان ہی رہتا ہے۔اس قبیل کے چند اشعار ملاحظہ ہو ؎
انسان میں حیوان یہاں بھی ہیں وہاں بھی
اللہ نگہبان یہاں بھی ہے وہاں بھی
ہندو بھی سکوں سے ہے مسلماں بھی سکوں سے
انسان پریشان یہاں بھی ہے وہاں بھی
بھول تھی اپنی فرشتہ آدمی میں ڈھونڈنا
آدمی میں آدمیت ہے چلو یوں ہی سہی
مٹھی بھر لوگوں کے ہاتھوں میں لاکھوں کی تقدیریں ہیں
جدا جدا ہیں دھرم علاقے ایک سی لیکن زنجیریں ہیں
اس موضوع کی عکاسی ان کے دوہوں اور نظموں کے ذریعے بھی ہوتی ہے۔ ان کی نظم ’ایک قومی رہنما کے نام‘ یا پھر’سماجی شعور ‘ کو پڑھیے۔ایسا بارہا سننے میں آیا کہ کسی مسلم لڑکے سے کسی بھیڑنے’ جیے شری رام‘ بولنے کی زبردستی کی اور انکار کرنے پر اس کی ماب لینچنگ کر دی گئی۔’ایک قومی رہنما کے نام‘ والی نظم کا آخری ٹکڑا ملاحظہ فرمائیں ؎
تمہارا دھرم!
صدیوں سے تجارت تھا ؍تجارت ہے
مجھے معلوم ہے لیکن ؍ تمہیں!مجرم کہوں کیسے
عدالت میں؍ تمہارے جرم کو ثابت کروں کیسے
تمہاری جیب میں خنجر؍ نہ ہاتھوں میں کوئی بم تھا
تمہارے رتھ پہ تو؍ مریادا پرشوتم کا پرچم تھا
انسان جسے ہوموسیپینس کا خطاب عطا ہوا ہے وہمذہبی اور سیاسی منافرت میں پڑکر انسانی قدروں کو کھوتے جا رہا ہے۔ نداؔ کی حساس طبیعت اس سے تڑپ اٹھتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ انسانی قدروں کی پرزور وکالت کرتے ہیں اور ہر فرقے کے مذہب و سیاست کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔ان کے عقیدے کے مطابق بھوکے کے لیے کھانا اور مزدور کے رہنے کی خاطر کسی چھت کا انتظام بھی عبادت ہے اور اس عبادت کو مندر میں چڑھاوے اور عالی شان مسجد بنانے پر فوقیت حاصل ہے۔آج ہر طرف ایسی لوٹ مچی ہوئی ہے کہ ایک ادنی طبقے کا انسان اپنے دو وقت کی روٹی کا انتظام بھی بمشکل کر سکتاہے ۔ بازار میں سودا خریدنے جائے تو بیوپاری قیمت اتنی مہنگی بتاتاہے جیسے وہ بیچنے نہیں بلکہ گاہک و خریدار کو لوٹنے بیٹھا ہو۔ان تمام جذبات و احساسات کو ان کے درج ذیل دوہوں میں ملاحظہ فرمائیں ؎
سودا لینے ہاٹ میں ، کیسے جائے نار
چاقو لے کے ہات میں، بیٹھا ہے بازار
بچہ بولا دیکھ کر مسجد عالی شان
اللہ تیرے ایک کو اتنا بڑا مکان
اندر مورت پر چڑھے، گھی ، پوری ، لوبان
مندر کے باہر کھڑا، ایشور مانگے دان
چاہے گیتا باچیے یا پڑھیے قرآن
میرا تیرا پیار ہی، ہر پستک کا گیان
عیسیٰ اللہ ایشور سارے منتر سیکھ
جانے کب کس نام سے ملے زیادہ بھیک
نداؔاسی مضمون کو غزل کے ایک شعرمیں اس طرح باندھتے ہیں ؎
مولویوں کا سجدہ ، پنڈت کی پوجا
مزدوروں کی ہیاّ ہیاّ ، اللہ ہُو
نداؔ مذہبی ہم آہنگی کے قائل ہیں۔مذکورہ غزل کے ایک شعر میں وہ رادھا اور کرشن کو اللہ ہو میں اس طرح مرکب کرتے ہیں کہ اس سے مذہبی ہم آہنگی کا ایک بااثرمعجون تیار ہو جاتا ہے۔ان کو لگتا ہے کہ جب تک لوگوں کو مذہبی ہم آہنگی کا معجون نہ کھلایا جائے وہ آپس میں ایک دوسرے کویوںہی کاٹتے مارتے رہیں گے اور دھرم و راج نیتی کے بیوپاریوںکا کاروبار کامیابی سے چلتا رہے گا۔اسی لیے وہ ان ٹٹ پنجیوں سے اپنا بھگوان نئے سرے سے تلاشنے کو کہتے ہیں ، کیوں کہ ان کو پتہ ہے کہ اپنے خدا کو بھی اپنے مفاد کی خاطر بیچ کھانے والے یہ مذہبی بازی گر ایک نمبر کے جھوٹے اور مکار ہیں۔ اس لیے ان کے چکر میں نہ پڑ کراپنا آپسی بھائی چارا بنائے رکھنا چاہیے۔ اشعار ملاحظہ ہوں ؎
نئے سرے سے تلاش کیجیے!
خدا جہاں تھا وہاں نہیں ہے
یہ شیخ و برہمن ہمیں اچھے نہیں لگتے
ہم جتنے ہیں یہ اتنے بھی سچے نہیں لگتے
بندرابن کے کرشن کنہیا اللہ ہُو
بنسی، رادھا، گیتا، گیاّ، اللہ ہُو
اچھی بات یہ ہے کہ سماجی کھیت میں سارے مسائل، منافرت، منافقت، مطلب پرستی، تعصب ، بے وفائی، بے ایمانی ،بہیمیت، دھوکہ دھڑی، دغابازی، چال بازی، ظلم و جبر اورانسانی اقدار و حقوق کی پامالی وغیرہ کے بیج بودیے جانے کے باوجود وہ ہار نہیں مانتے، حوصلہ نہیں ہارتے، قنوطیت کے شکار نہیں ہوتے۔ الجھنوں کے شکار ضرور ہوتے ہیں لیکن رجائیت کا دامن نہیں چھوڑتے ۔ ان کا ایمان اس بات پر ہے کہ ؎
دریا ہو یا پہاڑ ہو ٹکرانا چاہیے
جب تک نہ سانس ٹوٹے جیے جانا چاہیے
دراصل وہ تمام سماجیبداعمالیوںاور کجرویوںسے آگاہ ہیںلیکن اس کے باوجودوہ بزدلوں کی طرح بیٹھ کرسب کچھ گنوانا نہیں چاہتے ۔ وہ حقیقت جانتے ہوئے بھی آگے بڑھتے ہیں اوریہی بات ہم سے بھی کہتے ہیں کہ ؎
سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو
سبھی ہیں بھیڑ میں تم بھی نکل سکو تو چلو
یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا
مجھے گرا کے اگر تم سنبھل سکو تو چلو
سکھا دیتی ہیں چلنا ٹھوکریں بھی راہ گیروں کو
کوئی رستہ سدا دشوار ہو ایسا نہیں ہوتا
ندا ؔچاہتے ہیں کہ پہلے تو ہم اس بات سے آگاہ ہو ں کہ زمانے کی یہی ریت ہے۔ ہر طرف ہوڑ ہے، یہ مقابلے کا دور ہے اور زمانے والے مطلبی، ظالم اور خودغرض ہیں، وہ اپنا کام بنانے کے لیے ہمارے کاندھے پر بندوق رکھ کر چلائیں گے، اپنی منزل پانے کے لیے ہمیں دھکا مارکر نکل جائیں گے۔ اب اگر یہ حقیقت جاننے کے بعد بھی ہم میں آگے بڑھنے کی ہمت اورچاہت ہو تو پھرہم قدم بڑھائیںاور اپنی منزل پائیں۔ یہ جان لیں کہ راستے کی ٹھوکریں ہمیںتجربہ کار بناتی ہیں، مشکلیں اور رکاوٹیں آج ہمارے راستے میں حائل ہوسکتی ہیں لیکن اگر ہم چلنے کا حوصلہ رکھیں اورہمت نہ ہاریں تو وہ ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں ۔اس طرح یہ اشعارہمارے حوصلے کو مہمیز کرتے ہیں۔
ان کو پڑھتے ہوئے فکری الجھاؤ دامن گیر ہوتی ہے نہ ہی پیچیدہ اسلوب ہماری سمجھ کا راستہ روکتا ہے۔ان کی زبان زیادہ تر بول چال کی ہندی اور اردو سے مشابہ ہوتی ہے۔اسی کو انھوں نے اپنے انداز میں وضاحت کے ساتھ اس طرح کہا ہے :
’’۔۔۔میں نے اسی زبان کا استعمال کیا ہے جو نہ پنڈتانہ ہندی ہے نہ مولویانہ اردو ہے۔ اسے اگر کوئی نام دیا جا سکتا ہے تو وہ عام آدمی کی اردو بھی ہو سکتا ہے اور پچھلی قطار والے کی ہندی بھی کہا جا سکتا ہے۔ گاندھی اسے دو رسم الخطوں میں ہندوستانی کہتے تھے۔ اس شعری زبان پر ایرانی اثرات کی جگہ وہ اثرات زیادہ نمایاں ہیں جو امیر خسرو کی عوامی زبان اور گولکنڈہ کی دکھنی آمیز زبان میں اپنی ابتدائی صورت میں ملتے ہیں۔ اور جس میں رسم الخط کے علاوہ ہندی اردو کا فرق نہیں ہے۔ یہ وہ زبان ہے جو گلی کوچوں میں اپنے پیروں سے چلتی ہے اور جذبات و احساسات کے ساتھ اپنا مزاج بدلتی ہے ۔ ترقی پسندوں کے یہاں عوامی موضوعات کو اشرافیہ کی زبان میں بیان کیا جاتا ہے۔ میں نے عام آدمی کی ترجمانی عام زبان میں کرنے کا تجربہ کیا ہے۔‘‘
اپنی شعری زبان کے سلسلے میںانہی کا ایک اور قول ملاحظہ فرمائیں:
’’میری شاعری نہ صرف ادب اور اس کے قارئین کے رشتے کو ضروری مانتی ہے بلکہ اس کے معاشرتی سیاق کو اپنا معیار بھی بناتی ہے۔ میری شاعری بند کمروں سے باہر نکل کر چلتی پھرتی زندگی کا ساتھ نبھاتی ہے۔ ان حلقوں میں جانے سے بھی نہیں ہچکچاتی جہاں روشنی بھی مشکل سے پہنچ پاتی ہے۔ میں اپنی زبان تلاش کرنے ، سڑکوں پر، گلیوں میں، جہاں شریف لوگ جانے سے کتراتے ہیں، وہاں جاکر اپنی زبان لیتا ہوںجیسے میر، کبیر اور رحیم کی زبانیں۔ میری زبان نہ چہرہ پر داڑھی بڑھاتی ہے اور نہ پیشانی پر تلک لگاتی ہے۔‘‘
ان کا اسلوب اکثر سیدھا اوربے تکلفانہ ہوتا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ اس میں یک رنگی ہو بلکہتخلیقی ضرورت کے مطابق ان کا اسلوب بدل بھی جایا کرتا ہے۔وارث علوی کے لفظوں میں کہیں تو:
’’ نداؔ کے یہاں اسلوب شعر اندرونی تخلیقی اپج اور موضوع کے مطابق تشکیل پاتا ہے۔‘‘
(حوالہ: ناخن کا قرض، وارث علوی،مکتبہ جدید دہلی، ۲۰۰۳، ص:۹۶)
نداؔ نے زبان و بیان پر عربی ، فارسی کا لیپ لگایا ہے نہ ہی اپنے شعری کینوس پر غیر ملکی رسوم وتہذیب آویزہ کیا ہے۔ اس لیے ان کے قاری کو کہیں بھی اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔وہی پھول پودے جیسے آم، جامن، پیپل، نیم، کرونبولی، گلاب،گیہوں، اس کی بالی وغیرہ۔ وہی چرند و پرندجیسے مرغا،توتا،سانپ، گائے، اونٹ وغیرہ۔ وہی ندیاں، تال، تلاؤ اوروہی کھیت کھلیان ، غرض یہ کہ قدرت کے وہی مناظر و مظاہرہمیں ان کی شاعری میں دکھائی دیتے ہیں، جن سے ہم بخوبی واقف و آشنا ہیں۔کردار بھی وہی ملتے ہیں جن سے ہمارا دعا، سلام، علیک ، سلیک ہوتا رہتا ہے۔مثلاً ماں، باپ، بھائی، بہن،بھابھی، بیٹی،بچہ(روتا، کھیلتا)، کام والی بائی، کاشت کار،بُنکر، مزدور، ہوری، دھنپت رائے، ماتادین،پپو، سانولی لڑکی،بنیا، حلوائی، چوکیدار،کمہار، مداری، ڈنڈا والا پولس کانسٹیبل،بیڑی بناتی عورتیں، گانجا پیتے مرد، جھگڑتی پڑوسن، گالی بکتا افسر، لٹیرا لیڈر، مولوی، پجاری وغیرہ۔تہذیب و تمدن کا وہی جانا پہچانا رنگ مثلاًمٹی کی کچی دیواریں، چوپال، آنگن، الاؤ، داڑھی، ٹوپی، تلک،چوٹی، پگڑی، اوڑھنی، دوپٹا، چولی، گھاگھرا، بیسن کی روٹی،چٹنی،چوکا، باسن، چمٹا، پھکنی،بانس کی کھری کھاٹ ، دال، نمک وغیرہ۔ اور سیاست و معاشرت کا وہی دیکھا بھالا ڈھنگ۔مختصراً یہ کہ نداؔ کی شعری کائنات میں موجود تمام اشیاء دیسی و ارضی خصلت، واقف شکل و صورت اورشناساعادات و اطوارکی متحمل ہوتی ہیں۔ اس لیے نداؔ کو آشنا اراضی کا شاعر کہنا حق بجانب ہوگا۔
٭٭٭
ڈاکٹرمصطفی علی
جونیٔر پروجیکٹ فیلو،ڈپارٹمنٹ آف ایجوکیشن اِن لینگویجز، این سی ای آر ٹی، نئی دہلی۔110016
8299535742
mustafaaliias@gmail.com
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page