Adbi Miras
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      ستمبر 29, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تراجم

      مکتی/ منو بھنڈاری – ترجمہ: ڈاکٹرفیضان حسن ضیائی

      جنوری 21, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خبر نامہ

      مارچ 15, 2025

      خبر نامہ

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

      خصوصی مضامین

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      متفرقات

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
مقبول ترین
تدوین متن کا معروضی جائزہ – نثار علی...
ترجمہ کا فن :اہمیت اور مسائل – سیدہ...
تحقیق: معنی و مفہوم ۔ شاذیہ بتول
سر سید کی  ادبی خدمات – ڈاکٹر احمد...
حالیؔ کی حالات زندگی اور ان کی خدمات...
ثقافت اور اس کے تشکیلی عناصر – نثار...
تحقیق کیا ہے؟ – صائمہ پروین
منٹو کی افسانہ نگاری- ڈاکٹر نوشاد عالم
منیرؔنیازی کی شاعری کے بنیادی فکری وفنی مباحث...
آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری (سلور کنگ...
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      ستمبر 29, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تراجم

      مکتی/ منو بھنڈاری – ترجمہ: ڈاکٹرفیضان حسن ضیائی

      جنوری 21, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خبر نامہ

      مارچ 15, 2025

      خبر نامہ

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

      خصوصی مضامین

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      متفرقات

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
Adbi Miras
متفرقاتنوشاد منظر Naushad Manzar

باقیات اختر الایمان: ایک جائزہ – ڈاکٹر نوشاد منظر

by adbimiras اکتوبر 26, 2020
by adbimiras اکتوبر 26, 2020 2 comments

اختر الایمان کا شمار اردو کے نمائندہ نظم گو شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی شاعری کے سات مجموعے تاریک سیارہ(۱۹۴۳)، گردآب (۱۹۴۶)، آب جو(۱۹۵۹)، یادیں(۱۹۶۱)، بنت لمحات(۱۹۶۹)، نیا آہنگ(۱۹۷۷) سرو سامان(۱۹۸۳) شائع  ہوئے،بادوجود  اس کے ان کی بہت سی نظمیں شائع ہونے سے رہ گئیں بلکہ دوسرے لفظوں میں اختر الایمان نے اسے اشاعت کے قابل نہیں سمجھا۔بیدار بخت نے اختر الایمان کی ان نظموں اور دیگر نگارشات جو شائع ہونے سے رہ گئیں کو یکجا کر کے ’’باقیات اختر الایمان:تحریریں جو مطبوعہ کتاب میں نہیں ہیں‘‘ کے عنوان سے شائع کیا۔ اس کتاب میں اختر الایمان سے بیدار بخت کی گفتگو (شب خون میں شائع شدہ) کے علاوہ بائیس نظمیں،دس افسانے،ایک ڈرامہ،چار تنقیدی مضامین کے علاوہ چیخوف کے ایک افسانے کا ترجمہ اور ان کی ڈائری سے چند اقتباسات شامل ہیں۔

اخترالایمان فہمی میں بیدار بخت کا نام کافی اہمیت کا حامل ہے۔ باقیات اخترالایمان سے قبل بیدار بخت نے ’کلیات اختر الایمان‘  کے نام سے ان کے شعری کائنات کو شائع کیا۔ بیدار بخت کے تعلق سے یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ بیدار بخت نے اختر الایمان کو ادب کی دنیا میں نئے سرے سے روشناس کرایا۔ اختر الایمان پر ان کی خدمات کا اعتراف اس لیے بھی ضروری ہے۔

’’باقیات اختر الایمان‘‘ میں بیدار بخت نے ’’توقیت اختر الایمان‘‘ کے عنوان سے اخترالایمان کا سوانحی خاکہ پیش کیا ہے جس میں ان کی پیدائش ،تعلیم و تربیت سے لے شعر و شاعری سے ان کی دلچسپی وغیرہ کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔اس کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں بیدار بخت لکھتے ہیں:

’’اس کتاب کا جواز فاروقی صاحب کا یہی جملہ ہے کہ اخترالایمان جیسے شاعر کی تو لانڈری لسٹ بھی شائع ہونی چاہیے۔اس میں کچھ ایسی تحریریں بھی ہیں جنھیں شاید وہ ادبی اثاثے میں خود شامل نہ کرتے، مگر جن سے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔‘‘

(دیباچہ۔ باقیات اختر الایمان۔ ص ۷)

اختر الایمان ہی نہیں ہر بڑے شاعر کی وہ تمام تحریرں جسے اس تخلیقار نے شائع نہیں کیا اس لیے بھی شائع ہونی چاہیے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ ان کے نزدیک کسی فن پارے کو ردّ کرنے کا جواز کیا ہے، وہ کن بنیادوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی ہی تخلیقات کا نا قابل اشاعت سمجھ کر رد کر دیتے ہیں؟اختر الایمان کی متروک تخلیقات کو شائع کرنے کا ایک جواز یہ بھی بنتا ہے کہ ہم تخلیق کار کو مجموعی شکل میںدیکھنا بے حد اہم ہے۔

اختر الایمان بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے حالانکہ ابتدائی دنوں میں انہوں نے کچھ غزلیں بھی کہی مگر ان کی دلچسپی نظموں میں رہی بلکہ وہ غزل گوئی کو بہت زیادہ پسند بھی نہیں کرتے ان کاخیال ہے اختصار تو دوہے میں ہوتا ہے کیونکہ وہاں بھی سیاق و سباق کی ضرورت نہیں ہوتی۔ان کا خیال ہے کہ’ غزل اپنے saturation point پر پہنچ چکی ہے۔‘(ص۱۴)۔Saturation poin سے ان کی کیا مراد ہے؟ آخراخترالایمان نے کن بنیادوں کے پیش نظر غزل کی سیرابی(Saturation) مکمل ہونے کی بات کی ہے؟یہ ممکن ہے کہ ان کے نزدیک غزل اپنے سنہری دور گزار چکا ہے اور انہیں شاید اپنے معاصرین کے یہاں دہرائے جانے کا عمل نظر آتا ہو۔ مگر اہم سوال یہ بھی قائم ہوتا ہے کہ کیا سچ میں غزل میں اب کچھ نیا کہنے کی گنجائش باقی نہیں رہی؟یا ان کی نظر ترقی پسند تحریک کی شاعری کا و حصہ تھا جس میں موضوع اور فن دونوں ہی لحاظ سے تقلید کا غلبہ نظر آتا ہے؟حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں بھی جب پورے ادب پر ترقی پسند تحریک کا اثر تھا اور شعرا ایک منشور کے تحت شاعری کررہے تھے بلکہ ایک دوسرے کی تقلید اور اپنے آپ کو دہرا رہے تھے اس دور میں بھی ہمارے شعرا نے نئے مزاج نئے موضوعات کو اپنی شاعری میں پیش کیا ہے۔اختر الایمان کے یہاں غزل سے اختلاف کی وہ صورت تو نظر نہیں آتی جو عظمت اللہ خاں اور کلیم الدین احمد کے یہاں نظر آتی ہے ہاں وہ اپنے جذبات و احساسات کی ترجمانی کے لیے نظم گوئی کو غزل گوئی پر فوقیت دیتے ہیں۔ بیدار بخت کو دیے انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں:

’’جب آپ ادب سے وابستہ ہوتے ہیں تو یہ دیکھنا ضروری ہوجاتا ہے کہ آیا یہ موضوع غزل کا ہے یا نظم کا۔ ہم کسی بات کو کہہ کر نکل جانا چاہتے ہیں یا اس پر ٹھہر کر اتنی تفصیل سے کہنا چاہتے ہیں کہ وہRegisterہو ہمارے ذہنوں تک پہنچے۔ میرا کہنا تھا کہ نظم میں وسعت آتی ہے، گہرائی آتی ہے۔‘‘

(باقیات اخترالایمان ۔ بیدار بخت ۔ص ۱۴)

یہ سچ ہے کہ موضوع ہی طے کرتا ہے کہ اس کے لیے طوالت درکار ہے یا اختصار، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اختصار سے کی گئی گفتگو بھی لوگوں کو پسند آتی ہے اور یہی غزل کی ایک اہم خوبی بھی ہے ۔ غزل کا فن دریا کو کوزے میں سمیٹ دینے کا ہنر ہے، دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ چونکہ غزل میں اختصار ہوتا ہے اور کسی بھی واقعے ، جذبات و احساسات کو دو مصرعوں میں ایسے پیش کیا جاتا ہے کہ بات مکمل ہوجائے، شاید یہی وجہ ہے کہ نظموں کے مقابلے غزل کے اشعار کو یاد کرنا اور یاد رکھنا آسان ہوتا ہے۔ ( یہ بھی پڑھیں  سرسید احمد خان اور تہذیب الاخلاق- ڈاکٹر نوشاد منظر)

بیدار بخت سے گفتگو کرتے ہوئے اخترالایمان نے تخلیق کار اور قارئین کے درمیان کے رشتے کو بھی واضح کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ کسی بھی فن پارے کی تکمیل کرتے ہوئے تخلیق کار کے ذہن میں کوئی واقعہ کوئی منظر ہوتا ہے جس کو پیش نظر رکھتے ہوئے وہ فن پارہ تخلیق کرتا ہے۔ تخلیق کار کا یہ کام تو نہیں ہے کہ وہ قارئین کو یہ بتائے کہ کسی بھی فن پارے کے وجود میں آنے کی کیا وجوہات ہیں، دوسرے لفظوں میں مفہوم تک رسائی خود قارئین کی ذمہ داری ہوتی ہے، مگر اختر الایمان اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اگر قاری کسی فن پارے کا تجزیہ کرنے میں کوئی غلطی کرتا ہے یا اس کی رسائی صحیح مفہوم تک نہیں ہوتی ہے تو ایسے وقت میں تخلیق کار کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کی رہنمائی کرے۔اختر الایمان نے اپنے انٹرویو میں میراجی ، جوش اور ساقی فاروقی وغیرہ سے اپنے تعلقات اور ان کے ادبی مقام کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔جوش کے متعلق ان کا خیال ہے کہ ان کی انقلابی شاعری دوئم درجے کی شاعری ہے، جس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ،مگر وہ جوش کی رباعیوں کے شیدائی ضرور نظر آتے ہیں۔اختر الایمان کی شکایت ہے کہ ان کی باتوں کا ان کے ناقدین نے غلط مفہوم اخذ کیا ہے۔انہیں اپنے ناقدین سے بڑی شکایت بھی رہی۔ اختر الایمان پر یہ اعتراض بھی تھا کہ انھوں نے اپنے معاصرین کو دوئم درجے کا شاعر بتایا ہے۔ ساقی فاروقی کے تعلق سے بھی اختر الایمان پر اسی قسم کا اعتراض تھا ۔ بیدار بخت کے سوال کا جواب دیتے ہوئے اختر الایمان کہتے ہیں:

’’ساقی فاروقی والی بات یہ ہے کہ یہ تو طے شدہ بات ہے کہ اچھا کہتے ہیں۔ اور جہاں میں نے ان کا ذکر کیا ہے، وہاں کا بھی یہی ہے کہ ذہین آدمی ہیں، صاحب فہم ہیں۔ لیکن ابھی تک ایسا مقام نہیں آیا کہ جہاں یہ کہا جاسکے کہ انھوں نے اپنا سفر طے کرلیا۔ He is in the makingابھی تو وہ لکھ رہے ہیں۔ ‘‘

(باقیات اختر الایمان ۔ بیدار بخت۔ص ۱۹)

اختر الایمان کے بیان کو مثبت انداز میں دیکھنا اور سمجھنا چاہیے۔آج کے نئے ناقدین میں یہ چلن بہت عام ہے کہ وہ ہر چھوٹے بڑے شاعر و ادیب کے لیے عظیم اور عظیم ترین جیسے الفاظ استعمال کرنے لگا ہے۔ یہ رویہ ادبی تنقید کو اپنے منصب سے دور کررہا ہے۔اگر کوئی نیا شاعر یا ادیب اچھا ہے تو اس کی پذیرائی ضرور ہونی چاہیے مگرجیسا کہ اختر الایمان نے فرمایا ہے جب تک اس تخلیق کار کے تعلق سے یہ بات واضح نہ ہوجائے کہ اس نے اپنا ادبی سفر پورا کرلیا ہے اس کے بارے میں مجموعی تاثر قائم کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔کسی بھی شاعر و ادیب پر مجموعی تاثر دینے کا سب سے مناسب وقت تو اس کے انتقال کے بعد کا زمانہ ہے کیونکہ اس کا پورا ادبی سرمایہ قاری کے پیش نظر ہوتا ہے یا پھر عمر کے جس پراؤ کا ذکر اختر الایمان نے کیا ہے۔

’’باقیات اختر الایمان ‘‘میں اختر الایمان کی بائیس نظمیں شامل ہیں۔ان نظموں سے بیشتر نظمیں اینگلو عربک کالج، دہلی کے رسالے میں شائع ہوئیں تھیں، ان نظموں میں شاعر کے نام کے طور پر محمد اختر الایمان اور بعض مقامات پر محمد اختر الایمان انجم  درج ہے۔ظاہر ہے یہ نظمیں اختر الایمان کے ابتدائی دنوں کی ہیں یعنی جب وہ کالج میں طالب علم ہوا کرتے تھے۔ باقیات میں شامل نظموں میںکچھ کا تعلق ترقی پسند تحریک سے بھی ہے اور بعض نظمیں حسن و عشق کے معاملات بندی پر بھی شامل ہیں۔ ایک نظم بابائے ترک ’کمال مصطفی اتاترک کی وفات پر’چند آنسو‘ کے عنوان سے کہا گیا جو اس کتاب میں شامل ہے۔ اس نظم سے چند اشعارملاحظہ ہو:

کچھ درد سوا آج ہے اے دیدۂ خونبار

میں دیکھ چلا جاتا ہوں اے آہ شرر بار

جب نقش وفا مٹ  ہی گیا روئے زمیں سے

بے سود در کعبہ کو ٹکرائیں جبیں سے

اب طاقت پرواز نہیں میرے بدن میں

کچھ لطف نہیں جینے کا بے لطف چمن میں

کمال مصطفی اتاترک جدید ترکی کے بابائے آدم کہلاتے ہیں، انہوں ترکی کو دنیا کے منظر نامے پر ایک الگ شناخت دلائی۔اختر الایمان نے یہ نظم کمال اتاترک کے انتقال پر یہ نظم لکھی تھی۔ اختر الایمان نے کمال اتاترک سے اپنی محبت اور عقیدت مندی کا ثبوت دیا ہے۔متکلم کمال اتاترک کے انتقال کو قوم و ملت کے لئے ایک بڑا خسارہ سمجھتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ جب ’نقش وفا‘ مٹ گیا یعنی کمال اتاترک کا انتقال کی موت ہوگئی تو بھلا اب کعبہ سے سر ٹکرانے کا کیا فائدہ؟متکلم اس موت سے اس قدر رنجیدہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اب زندگی جینے کا لطف اور چمن کی شادابی ہی ختم ہوگئی۔ نظم کا اختتام اس شعر کے ساتھ ہوتا ہے:

ہر دیدۂ خونبار کا دل توڑ گیا ہے

دنیا کے لیے درس عمل چھوڑ گیا ہے

باقیات اخترالایمان میں ایک نظم ’’سرمایہ دار اور مزدور‘‘ ہے۔اس نظم میں چار بند ہیں۔ یہ ایک ترقی پسند نظم ہے۔ اس نظم کو مکالماتی نظم کہا جاسکتا ہے۔ اس نظم میں سرمایہ سار اور مزدور کے درمیان گفتگو کو اختر الایمان نے نہایت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ایک بند دیکھیں جس میں سرمایہ دار، مزدور سے مخاطب ہوکر کہتا ہے:

دنیا کی سیاست مرے قدموں کی پجارن

تہذیب و شرافت مری ہستی کا ہے پرتو

ہوں صاحب املاک، جہاں دست نگر ہے

میں مصلح و رہبر ہوں مری قوم غلط رو

سرمایہ دار اپنی اہمیت اور اپنی طاقت کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ دنیا کی سیاست میری پجارن ہے، یہی نہیں بلکہ دنیا کی تہذیب و شرافت کی پہچان بھی میری وجہ سے ہے۔یہ سچ ہے کہ دنیا میں سرمایہ داری کی اپنی ایک اہمیت ہے،مگر جس زمانے میں یہ نظم لکھی گئی اس وقت بھی اور بڑی حد تک آج بھی سرمایہ دار طبقے کے ذریعے غریبوں، مظلوموں اور کسانوں کا جس طرح استحصال ہو ا ہے اس کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ترقی پسند تحریک کی بنیاد کی ایک بڑی وجہ بھی یہی عدم مساوات تھی۔سرمایہ دار  کا جواب دیتے ہوئے مزدور کہتا ہے:

تو قوم کا غدار ہے تہذیب کا دشمن

لعنت ہے تری زیست مری پاک زمیں پر

تو قصر میں رہتا ہے حسینوں کے جلو میں

دھبے ہیں سیاہی کے ذرا دیکھ جبیں پر

ظاہر ہے مزدور جو محنت اور مشقت کرنے کے باوجود استحصال ذدہ اور غربت سے بھری زندگی جینے کو مجبور ہے وہ بھلا سرمایہ دار کی بات کو کیسے قبول کرلیتا وہ سرمایہ دار طبقے کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ دراصل تو قوم و ملت اور تہذیب کا دشمن  اور بدخواہ ہے کیونکہ تجھے ملک و قوم اور عوام سے زیادہ اپنی عیاشی اور خود پسندی چاہیے۔سرمایہ دار اور مزدور کے درمیان یہ مکالمہ آگے بڑھتا ہے ۔ سرمایہ دار کا خیال ہے کہ وہ اللہ کا بھیجا ہوا قاصد ہے اور مزدور کی تقدیر ہی نہیں ملک کی تقدیر بھی اس کے ہاتھوں میں ہے۔اس نظم کا آخری بند ملاحظہ کریں جس میں میں مزدور اپنی اہمیت کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔

رنگینیٔ عالم ہے مرے خون کی سرخی

یہ میری تباہی نہیں دنیا کا زیاں ہے

میں راز ہوں قدرت کا کہاں اوج ثریا

دنیا کا تغیر مری ٹھوکر میں نہاں ہے

انسانی زندگی کی ارتقا میں کسان اور مزدور کا جو کردار رہا ہے اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا،کھیتوں میں اناج کی پیداوار کا معاملہ ہو یا بڑی اور تاریخی عمارتوں کی تعمیر کا مسئلہ ہو ہر جگہ اس کی اہمیت مسلم ہے۔ مگر اس سچائی سے بھی منہ نہیں موڑا جاسکتا کہ اس  طبقے کے ساتھ سب سے زیادہ ظلم اور ناانصافی ہوئی ہے۔کسان کی زبانی جن باتوں کی طرف اس بند میں اشارہ کیا گیا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا یہ نظم خالص ترقی پسند فکر کی نمائندگی کرتا ہے۔اس نظم کا موضوع کوئی نیا بھی نہیں ہے مگر اختر الایمان نے اس نظم کو نئے اانداز میں پیش کیا ہے۔ بیشتر ترقی پسند نظموں میں کسان کی غریبی ،ناداری اور قابل افسوس زندگی کو پیش کیا گیا ہے مگر اختر الایمان کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے مکالمے کے ذریعے کسان کو زبان دی کہ وہ ان سرمایہ دار طبقے کوآئینہ دکھا سکے۔

’’باقیات اختر الایمان‘‘ میں ایک نظم ’ بغاوت‘ کے عنوان سے شامل ہے۔اس نظم کے متعلق بیدار بخت نے لکھا ہے کہ ’ نظم بغاوت پہلی بار اینگلو عربک کالج، دہلی کے میگزین کے مارچ ۱۹۳۹ کے شمارے میں چھپی تھی، جس میں شاعر کا نام محمد اختر الایمان لکھا ہوا تھا‘(ص ۱۲۰)۔ نظم کی ابتدا ان مصرعوں سے ہوتی ہے۔

بغاوت عہد حاضر کی نئی فرقہ پرستی ہے

بغاوت زر پرستی سے، بغاوت تنگ دستی سے

بغاوت مکر کو کامل کہنے سیاست کہنے والوں سے

بغاوت رہزنی کو ایک حفاظت کہنے والوں سے

نظم ’ بغاوت‘کا متکلم ناسازگار حالت سے تنگ آکر بغاوت کی آواز بلند کرتے ہوئے ہر اس چیز سے بغاوت کا اعلان کردیتا ہے جس سے انسانی زندگی متاثر ہے۔ فرقہ پرستہ، غریبی، سرمائی داری، چھوٹے سیاست دانوں  اور گندی سیاست جو انسانیت کے خلاف بھی ہے کے خلاف ایک جنگ چاہتا ہے۔ متکلم کا خیال ہے کہلوگ زندگی کو تبدیل کرنے کے بجائے تماشا کہتے ہیں، ظلم و استبداد، رنج و صدا، ظال اور ان کے ظلم سے، قاتل اور رہزن کے خلاف بغاوت ضروری ہے یہاں تک کہ وہ ایسی شرافت جو دولت و شہرت کی وجہ سے اختیار کی جائے یا ایسی حکومت جو انسانیت پر غالب ہو جائے اس پورے ماحول کے خلاف متکلم بغاوت کا علم بلند کرنا چاہتا ہے۔ظاہر ہے یہ تمام چیزیں کسی ایک عہد کا مسئلہ نہیں ہیں۔ آج بھی ان میں سے بیشتر چیزیں ایسی ہیں جن سے انسانیت آج بھی دوچار ہے۔متکلم نے ان نکات کی طرف بھی اشارہ کی ہے جس کی وجہ سے اس کے اندر ان نا ہمواریوں سے لڑنے کا حوصلہ ملتا ہے۔

بغاوت کا سبق سیکھا ہے میں نے ان چٹانوں سے

لڑا کرتی ہے جو اکثر ابھر کر آسمانوں سے

بغاوت کا سبق سیکھا ہے میں نے موج و ساحل سے

بغاوت کا سبق سیکھا ہے میں نے عشق کامل سے

متکلم اپنے اور عوام کے دلوں میں ظلم و ستم  کے کلاف متحد ہونے اور بغاوت کرنے پر آمادہ کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے کہ جس طرح پہاڑ کے چٹان  ساحل پر موجوں سے مقابلہ کرتی ہیں اسی طرح ہمیں بھی ان ناہمواریوں کے خلاف متحد ہونے اور جدہوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔نظم کا اختتام اس شعر کے ساتھ ہوتا ہے :

بغاوت ایک نغمہ ہے جو آزادی کا حاصل ہے

بغاوت راز سر بستہ ہے، مرد حر کی منزل

اختر الایمان کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اس پور ماحول کے خلاف غم و غصہ کا اظہار تو کیا ہے بلکہ اس کے خلاف بغاوت کرنے کی خواہش بھی رکھتے ہیں مگر کہیں بھی خون ریزی یا ظلم کا جواب ظلم سے دینے کی بات نہیں کرتے، یہ ایک ایسی خوبی ہے جو انہیں دوسرے ترقی پسندوں سے ممتاز بھی کرتی ہے۔

باقیات اختر الایمان میں ایک نظم ’ حمیدہ کے نام ‘ ہے۔ اس نظم کے نیچے ’’جس کی سادگی اور لا ابالی پن مجھے پسند ہے‘‘ درج ہے۔ حمیدہ عارف اور اختر الایمان کالج کے زمانے میں دوست تھے بلکہ اختر الایمان کی ڈائری کے مطالعہ سے اس جانب اشارہ بھی ملتا ہے کہ اختر الایمان ان کی محبت میں گرفتار بھی تھے۔ یہ نظم پہلی مرتبہ اینگلو عربک کالج دہلی کے رسالہ میں مارچ ۱۹۴۱ کے شمارہ میں شائع ہوئی تھی۔ اس نظم کی پوری فضا محبت و عشق کی ایک خاص جذبات و احساسات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

طلوع سحر جب دنیا کا دامن تھام لیتی ہے

عروس زندگی ہاتھوں میں رنگیں جام لیتی ہے

حسین امید جب آہوں سے اپنا کام لیتی ہے

سہانے خواب میں کوئی کسی کا نام لیتی ہے

بہت چپکے سے جب کلیوں کو بھنور چوم لیتے ہیں

مجھے اس وقت کچھ بھولے فسانے یاد آتے ہیں

محبوب اور عاشق ہماری شاعری کے دو نہایت اہم کردار ہیں۔ مذکورہ نظم میں متکلم اپنے  عشق اور محبوب کے ساتھ گزارے ان پلوں کو یاد کرتا ہے۔ متکلم کا خیال ہے کہ جب سورج طلوع ہوتا اور کلیوں پر بھنور بیٹھتا ہے اس وقت کی دلکشی اسے اپنے محبوب کی یاد تازہ کردیتی ہے۔متکلم کہتا ہے کہ جب خزاں کے بعد پیڑوں پر نئے اور خوبصورت پتے آتے ہیں یا کھیتوں میں سرسوں کے پودے لہلہاتے ہیں اس وقت محبوب کی یاد شدت سے آتی ہے۔اختر الایمان نے اس نظم کے ذریعے محبوب کے انتظار کو ایک نئے رنگ میں پیش کیا ہے۔ باقیات اختر الایمان میں ایک نظم ’’ کالج کے راستے میں ‘‘ ہے۔ اس نظم کا مرکزی خیال ایک ایسے شخص کا ہے جو کالج کی زندگی، آزادی اور لڑکے لڑکوں کی دوستی کو اچھا نہیں سمجھتا ، مگر جب وہ کالج پہنچتا ہے وہ کالج کی انہی نکات پر سوچتا ہوا آگے بڑھتا ہے تو اس کی ملاقات ایک حسینہ سے ہوجاتی ہے۔شاید یہ حسینہ حمیدہ عارف ہی تھیں جن کی محبت میں اختر الایمان گرفتار ہوگئے تھے۔نظم ’’ کالج کے راستے میں‘‘ اور ’’ حمیدہ کی یاد میں‘‘ دونوں کا مطالعہ ایک ساتھ کرنے سیایک خاص قسم کی لذت اور محبوب کی خوبصورت شبیہ ابھرتی ہے۔

’’باقیات اختر الایمان‘‘ میں چار تنقیدی مضامیں بھی شامل ہیں۔ان مضامین کے مطالعے سے اختر الایمان کی تنقیدی بصیرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ عموما تخلیق کار کی تنقیدی آرا کو اس نظر سے نہیں دیکھا جاتا یا اتنی اہمیت نہیں دی جاتی جتنی خالص ناقد کو دی جاتی ہے، حالانکہ تخلیق کار کی تنقید دو معنوں میں اہم ہوتی ہیں اول تو تنقیدی آرا اور دوئم کسی فن پارے کے وجود میں آنے کے اسباب، اس لحاظ سے تخلیق کار کی تنقید زیادہ بامعنی ہوجاتی ہیں۔اس ضمن میں اختر الایمان کی باقیات میں شامل  مضامین کی اپنی ایک اہمیت ہے۔باقیات میں شامل ایک مضمون ’’ ادب اور ماحول‘‘ ہے۔بنیادی طور یہ مضمون’ ادب برائے ادب ‘ اور’ ادب برائے زندگی‘ کے مباحث کو پیش کرتا ہے۔یہ مباحث آج بھلے نئے نہ ہوں مگر جس زمانے میں (۱۹۴۲، رسالہ ’ ایشیا‘ مدیر ساغر نظامی)یہ مضمون شائع ہوا تھا اس کی بہت اہمیت تھی بلکہ یہ مضمون موضوع کے اعتبار سے نیا بھی تھا۔اختر الایمان ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کے مباحث پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ ادب ماحول کا پر تو اور زندگی کی ایک گہری تنقید ہے یہ پرتو اور تنقید زندگی پر غیر محسوس افادی شان سے منعکس ہوتی ہے ورنہ ادب کی اور کیا قیمت ہے؟ مانا کہ لطیف جذبات کی عکس کشی بھی ضروری ہے پر کیا حسین مجسموں کو ہمیشہ دیکھا جاسکتا ہے کیا ان سے ہمیشہ دل بہلایا جاسکتا اور اگر بہلایا بھی جاسکتا ہے تو یہ دل بہلاوا اس طبقہ تک محدود ہے جو لذتیت کا قائل ہے،جس کا مقولہ زندگی میں محض عیش و عشرت کی تلاش ہے اور بس۔‘‘

( باقیات اختر الایمان۔ بیدار بخت، ص ۲۱۳)

ادب اور زندگی کے درمیان ایک گہر ارشتہ ہوتا ہے ۔ سی بھی فن پارے کے وجود میں آنے کے جو اسباب ہوسکتے ہیں ان میں سے تقریبا سبھی کا تعلق انسانی زندگی سے ہوتا ہے۔ اختر الایمان کا خیال بڑی حد تک صحیح ہے کہ انسان کی بعض خصلتوں میں سے ایک خصلت یہ بھی ہے کہ وہ اچھی چیزوں سے بھی جلد ہی اکتا سا جاتا ہے۔اس لحاظ سے اگر ادب کا جائزہ لیا جائے توجس طرح تبدیلی انسانی زندگی کی بقا کے لیے ضروری اور اہم ہے ویسے ہی کسی بھی فن کے لیے تبدیلی اہم ہے۔اختر الایمان نے یہاں ایک اہم بات کی جانب اشارہ کیا ہے کہ ادب ماحول کا پرتو ہے۔ کیا ان کے خیال سے اتفاق کیا جاسکتا ہے؟ ہاں بالکل کیا جانا چاہیے۔ آج کی جدیدیت بھلے ی اس بات کو بچکانہ کہے مگر یہ سچ ہے کہ ادب کی ہر صنف  دراصل انسانی جذبات و احساسات کے ساتھ انسانی زندگی سے وابستہ  اور اس کی ترجمان ہے۔مگر اختر الایمان نے جس جانب اشاری کیا ہے کہ اچھی اور خوبصورت چیزیں بھی اپنی دلکشی کھو دیتی ہیں اسی طرح جب ترقی پسند ادب کے نام پر اجتماعی زندگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے فن پارے تحریر کئے گئے جس کا اثر یہ ہوا کہ شروع شروع میں اس قدم کی خوب تعریف ہوئی اسے سراہا بھی گیا مگر جلد ہی بعض لوگ اس سے اکتا گئے اور ادب میں  نئے مسائل کے ساتھ انسان کے داخلی کیفیت اور انفرادی جذبات کو پیش کرنے پر زور دیا جانے لگا۔ مگر وہ جذبات و احساست اور واقعات کا تعلق خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی مجموعی طور پر وہ انسانی زندگی کی ترجمان ہی ہوتی ہے۔

اختر الایمان نے ادب میں جنسی مسائل کے بڑھتے رجحانات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے وہ لکھتے ہیں:

’’ … ہم دیکھتے ہیں کہ افسانہ نگاری میںدن بدن عریانی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ کچھ لوگ ایسے افسانے محض فیشن کے طور پر لکھ رہے ہوں لیکن جو ادیب محض فیشن کے طور پر لکھتے ہیں ان کا دنیائے ادب میں کوئی مقام نہیں، لیکن وہ لوگ جو اس میدان میں کامیاب سمجھے جاتے ہیں ان کی دیانتدداری  کو برائی پر محمول کرنا زیادتی ہے۔‘‘

(باقیات اختر الایمان ۔ بیدار بخت۔ ص ۲۱۴)

جنس ہی نہیں کسی بھی موضوع پر قلم اٹھانے سے پہلے اس کے دائرہ اور اس کے لوازمات کو سمجھنا بے حد ضروری ہے ورنہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ تخلیق کار کے ہاتھوں سے وہ موضوع نکل جاتا ہے۔ جہاں تک افسانے میں جنس کو پیش کرنے کا ہے تو اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ ترقی پسند عہد میں اس طرح کے بعض تخلیق کار سامنے آئے جنہوں نے ا دب کو پروپیگنڈا بنانے کا کام کیا مگر جہاں تک جنسی موضوع کی بہتر طور پر پیش کش کا تعلق ہے تو ممتاز مفتی ،منٹو اورعصمت چغتائی جیسے باکمال افسانہ نگاروں نے اس موضوع کو ایسے پیش کیا کہ جنس اور عریانیت کا کوئی تصور باقی ہی نہیں رہا، حالانکہ منٹو کے بعض افسانوں پر ایک زمانے میں بڑا اعتراض بھی ہوا مگر منٹو کی گنتی کے ایک دو افسانے کے علاوہ بیشتر افسانوں میں جنسی مسائل تو ہیں مگر عریانیت کہیں نظر نہیں آتی۔

اختر الایمان کے نزدیک جنسی تعلیم کا مسئلہ اخلاقی تعلیم ہی کی طرح بے حد ضروری اور اہم ہے۔کیونکہ جنسی تعلیمات سے لا علمی کئی قسم کے مسائل پیدا کردیتا ہے۔اختر الایمان جنسی موضوع پر افسانہ لکھنے والے نئے قلمکاروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گرچہ ان کے افسانوں میں تلذذ کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے مگر اچھی بات یہ ہے کہ یہ لوگ نئے زاویے سے چیزوں کو دیکھ اور سمجھ رہے ہیں اور اس پر گفتگو بھی کر رہے ہیں۔اختر الایمان نے ناقدین کی ذمہ داریوں کی  طرف بھی اشارہ کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ کسی نقاد کا فرض محض اصلاح سخن نہیں ہوتا بلکہ جو کچھ کہا گیا ہے اسے جانچنے اور پرکھنے کی ذمہ داری بھی ناقدین کی ہے۔اختر الایمان کا خیال ہے کہ ادب کا تعلق زندگی سے ہے وہ زندگی کے اثرات بھی قبول کرتا ہے اور اس پر اثر انداز بھی ہوتا ہے۔بہر کیف یہ ایک ایسا مضمون ہے جو بحث کی دعوت دیتا ہے۔

’’باقیات اختر الایمان ‘‘میںدس افسانے بھی شامل ہیں۔ ان افسانوں میں زندگی کی سچائی، محبت، غریبی، آپسی میل جول وغیرہ کو سیدھے سادے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ باقیات میں شامل ایک افسانہ ’’ ماں کی محبت‘‘ ہے۔ مصنف نے افسانے کا پس منظر اس انداز سے پیش کیا ہے کہ اس عہد کی تصویر ہمارے سامنے ابھر آتی ہے۔سردی کی ایک شام کا وقت تھا سورج غروب ہوچکا تھا اور رات کی تاریکی دن کے اجالے پر اپنی گرفت آہستہ آہستہ مضبوط کررہی تھی۔ ایک مسافر اپنی منزل سے دور، راستے سے بے خبر حیران و پریشان اس شش و پنج میں کہ اگر رات ہوگئی تو اس کی جان کے لالے پڑ جائیں گے۔ وہ اسی کشمکش میں مبتلا ادھر ادھر نظر دوڑاتا ہے کہ کاش کسی بھی صورت کوئی انسان یا کوئی گاؤں نظر آجائے مگر دور تک اسے نہ کوئی انسان نظر آرہا تھا اور نہ ہی کوئی گاؤں۔ وہ تیز تیز قدموں سے آگے بڑھتا جارہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک کسان پر پڑی جو شاید اپنے کھیت سے لوٹ رہا تھا۔مسافر کی کچھ امید بڑھی  اور کسان کے قریب آتے ہی اس نے اس نے اپنی تکلیف بتائی، کسان نہایت شریف تھا اس نے کہا کہ آپ آج کی رات میرے گھر قیام کریں۔ رات میں کھانے پینے کے بعد دونوں کے درمیان بات چیت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے کسان اپنی دکھ تکلیف بتاتا ہے کہ کیسے اناج کی پیداوار کم ہونے سے وہ اور اس جیسے کسان پریشان رہتے ہیں۔ اس افسانے میں ایک ماں کی محبت کو دکھایا گیا ہے کہ جب گاؤں میں سیلاب آتا ہے ،ہر طرف افراتفری بڑھ جاتی ہے، کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہیں سب اپنی جان بچانے میں لگ جاتا ہے مگر ماں تو بہر صورت ماں ہوتی ہے وہ اپنے بیٹے کو بچانے کے لیے پانی میں کود جاتی ہے مگر افسوس دونوں ہی ماں بیٹے اس سیلاب میں ڈوب جاتے ہیں۔اس افسانے میں افسانہ نگار نے ماں کی محبت کو مرکزی کردار بناکر پیش کیا ہے حالانکہ جب وہ کسان اپنی کھیتی ، اناج کی پیداوار اور سرمایہ داروں کے ظلم و ستم کی طرف اشارہ کرتا ہے تو سماج کی بے حسی بھی ہمارے نظروں کے سامنے آجاتی ہے۔

باقیات اخترالایمان میں شامل ایک افسانے کا عنوان ’’ دل کی قیمت‘‘ ہے۔ یہ ایسے دو دوست کی کہانی ہے جس میں ایک کا زندگی کے تعلق سے بہت عام سا رویہ ہے ، وہ زندگی اور اس کے تمام محرکات پر سنجیدگی سے گفتگو تو دور اس کے بارے میں سوچنا بھی وقت کا زیاں سمجھتا ہے۔وہیں اس کا دوسرا دوست ہر وقت سنجیدہ نظر آتا ہے زندگی کے تعلق سے اس کی سنجیدگی کی وجہ سے سارے دوست اسے غمگین کے نام سے چھیڑتے، اسے دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا گویا وہ زندگی کی تمام رعنائیوں سے دور، غمگین اور اداس رہنے والا شخص ہے۔مگر حقیقت میں ایسا نہیں ۔وہ اپنے دل میں ایک نامکمل خواب کو اپنے دل میں بسائے ہوا ہے۔ یہ دراصل ایک نامکمل عشق کی کہانی ہے۔

باقیات اختر الایمان میں شامل بیشتر افسانوں کا موضوع عشق اور محبت کی کہانی ہے۔ اختر الایمان کی نظموں کے مقابلے یہ افسانے بے حد کمزور ہیں۔

اس کتاب کا اہم حصہ وہ اقتباسات ہیں جو اختر الایمان کی ڈائری سے لیے گئے ہیں۔ان اقتباسات کے مطالعہ سے اختر الایمان کی زندگی کے ان پہلوؤں پر بھی روشنی پڑتی ہے جو عموما ابھی تک مخفی تھے۔ڈائری دراصل ذاتی قسم کی تحریر ہوتی ہے۔ ڈائری لکھنے کے کئی مقاصد ہوسکتے ہیں۔ ڈائری نویسی لکھنے کا مقصد ڈائری نویس کی پسند اور دلچسپی پر بھی منحصر کرتا ہے۔ عموما ڈائری میں روز کی مصروفیت اور یاداشت کو قلمبند کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے تجربات بھی لکھے جاتے ہیں۔ڈائری نویس کے لیے سب سے اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ وہ واقعات بیان کرتے ہوئے سچائی کا سہارا لے۔ڈائری لکھنا خود کے لیے رسوائی کا سامان مہیا کرانا بھی ہوسکتا ہے،اس لیے کہ یہ تحریر چونکہ نہایت ذاتی ہوتی ہے اگر کسی دوسرے  کو پڑھنے کا موقعہ مل جائے تو وہ ڈائری نویس کی زندگی کی ان سچائیوں سے بھی واقف ہوجاتا ہے جو انسان پوشیدہ رکھنا چاہتا ہے۔اختر الایمان نے خود ایک جگہ اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔۱۱ ؍مئی ۱۹۴۶ کے اقتباس میں وہ لکھتے ہیں:

’’اگر ڈائری اپنے آپ سے سچ بولنے کا نام ہے تو کیا ضروری ہے کہ اپنا ننگا پن دنیا کو دکھایا جائے۔ آخر کار کسی دن یہ کسی کے ہاتھ لگ جائے گی، اور وہ سب کچھ پڑھ ڈالے گا۔‘‘      (باقیات اختر الایمان۔ بیدار بخت۔ ص ۲۷۶)

اخترالایمان کی ڈائری سے جن اقتباسات کو پیش کیا گیا ہے ان میں دو چیزیں کثرت سے ملتی ہیں۔اول یہ کہ اختر الایمان شراب کثرت سے پیتے تھے اور دوسری بات یہ کہ وہ عورتوں کے معاملے میں بہت کمزور تھے اور ان کے ارد گرد کی بیشتر عورتوں سے وہ جنسی رشتہ قائم کرنا چاہتے تھے۔ اب بیدار بخت نے ایسے اقتباسات کا انتخاب کیوں کیا اس کا جواب تو وہی دے سکتے ہیں۔جمیل الدین عالی نے بھی اس جانب اشارہ کیا ہے۔ جمیل الدین عالی لکھتے ہیں:

’’شاید یہ شادی کے معنی کچھ دیر کسی عورت کے ساتھ وقت گزارنے کے لیتا ہے، اور ہر معقول نظر آنے والی لڑکی کو دیکھ کر کاش کے پہلو میں سوچ لیتا ہے، مگر یہ شادی کا اہل نہیں۔ایسے ذہن کبھی زیادہ دیر تک کسی کے دوش بدوش نہیں چل سکتے۔ــ‘‘      (باقیات اخترالایمان۔بیداربخت۔ص۲۶۵)

جمیل الدین عالی نے جس طرف اشارہ کیا ہے اس کا ذکر ڈائری میں بھی نظر آتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ جمیل الدین عالی ، اختر الایمان کے دوستوں میں سے تھے ۔اب ڈائری کے اقتباسات ملاحظہ کریں:

’’جب میں عورت کی تلاش میں کبھی کبھی رات کو نکلتا ہوں تو دلال کیسے کیسے شریف گھروں کے سامنے لے جاکر ٹیکسی یا تانگا روکتا ہے۔ اگر میں کبھی دن میں ادھر سے گزروں تو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہ ہو۔‘‘

(۱۵مارچ ، ۱۹۴۶۔باقیات اختر الایمان۔ بیدار بخت۔ ص ۲۷۱)

اختر الایمان کی ذاتی زندگی جنسی بے راہ روی کا شکار معلوم ہوتی ہے۔اختر الایمان نے اپنی منکوحہ سلمیٰ کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے گویا وہ ایک بدچلن عورت ہو اور اس کی بے وفائی نے انہیں دوسری عورتوں کی طرف متوجہ کیا ہو۔ حالانکہ انہوں نے اس بات کا ذکر اپنی ایک تحریر ( ۱۲؍ جولائی ۱۹۴۶ ) میں کیا ہے۔اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ شادی کے  چند دنوں بعد جب وہ سسرال گئے  تو انہوں نے اپنی سالی علیمہ کے ساتھ جنسی رشتہ قائم کیا، حالانکہ انہوں نے لکھا ہے کہ یہ سب علیمہ کے اصرار پر ہوا تھا۔ اختر الایمان کو اس واقعے پر کوئی افسوس نہیں بلکہ ان کی تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی سالی سے رشتہ رکھنا چاہتے تھے مگر شاید علیمہ نے یہ سب ایک بچے کی چاہ میں کیا تھا اور جیسے ہی وہ حاملہ ہوئی اس نے ان سے علیحدگی اختیار کرلی۔۱۲ جولائی ۱۹۴۶ کی ایک تحریر میں اس کا تفصیلی ذکر بھی موجود ہے۔

’’میری نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ میں اپنی سسرال میں تھا۔ اتفاق سے اس رات میرے خسر اور خوشدامن دونوں کیں باہر گئے ہوئے تھے۔ میں تنہا کمرے میں سو رہا تھا کہ علیمہ آئی۔ رات کے کوئی دو بج رہے ہوں گے۔ میں اٹھ کر اس کے ساتھ اسی گھر میں گھاس پر جا بیٹھا جہاں ان کی بکریاں بندھی تھی۔ سخت سردیوں کی رات تھی۔ میں وہاں بیٹھا اسے کئی گھنٹے تک پیار کرتا رہا۔ اس نے خود ہی کہا تھا کہ اسے مجھ سے محبت ہے اور میرا اس کا عشق کا سلسلہ مدت تک چلتا رہا۔ لیکن جب وہ حاملہ ہوگئی اور ایک بچے کی ماں بننے والی تھی اس وقت یک لخت بدل گئی اور مجھے محسوس ہوا کہ اسے اسی کی ضرورت تھی۔ اب سوچتا ہوں کہ کیا نطشے سچ کہتا تھا کہ عورتیں صرف حمل چاہتی ہیں۔‘‘

( باقیات اختر الایمان۔ بیدار بخت۔ ص ۲۸۰)

اخترالایمان نے اپنی ڈائری میں اپنے معاصرین کا ذکر بار بارکیا ہے۔اختر الایمان نے  اپنے معاصرین کی تخلیقی بصیرت اور ان کی ذاتی زندگی دونوں کا ذکر اپنی تحریروں میں کیاہے۔جوش کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ جوش شراب پی کر ہوش کھو دیتے تھے۔ ۴ نومبر ۱۹۴۶ کی تحریر دیکھئے:

’’اقبال کا دن منانے سے دو روز پیشتر چونکہ میراجی آئے ہوئے تھے ایک شام جوش کو بھی شراب پر مدعو کرلیا۔انہوں نے پی کر بیہودگی شروع کردی۔ ان کا خیال ہے، بلکہ غلط فہمی ہے، کہ ان کی شاعری کو کوئی نہیں سمجھتا حالانکہ ان کی شاعری میں سمجھنے کی کوئی بات نہیں ہے۔میں انہیں رباعیوں کی حد تک شاعر مانتا ہوں۔ اس کے علاوہ باقی سب نعرے بازی ہے اور بس۔پی کر اپنے اس complex کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ـ‘‘

(باقیات اختر الایمان۔ بیدار بخت۔ ص ۲۸۳)

اختر الایمان نے جوش ملیح آبادی کے تعلق سے دو باتیں کہیں ہیں ، ایک کا تعلق ان کی ذاتی زندگی سے ہے، ظاہر ہے جوش کی شراب نوشی کا ذکر تو بار بار آتا ہی ہے مگر جہاں تک ان کی شاعری کا تعلق ہے تو اختر الایمان نے نہایت سرسری بات کہی ہے۔ جوش اکی شاعری کو ایک لفظ سے رد نہیں کیا جاسکتا اور تنقید میں ذاتی پسند کی بھی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی۔ جوش ملیح آبادی کی شاعری میں مناظر فطرت کا جو خاص رنگ ہے وہ اہم ہے۔ جہاں تک جوش کی انقلابی شاعری کا تعلق ہے تو ایسا ہرگز نہیں کہ جوش کی انقلابی شاعری کی کوئی اہمیت نہیں اور نہ ہی اسے نعرہ بازی کہہ کر رد کیا جاسکتا ہے۔ جوش کی شناخت اسی انقلابی شاعری کی وجہ سے ہے حالانکہ ان کی رباعیوں کا جہاں تک تعلق ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہ اعلی درجے کی ہیں۔

اختر الایمان نے میراجی کا ذکر بھی اپنی ڈائری میں کیا ہے۔ وہ میرا جی کی شاعری اور تنقید دونوں سے متاثر معلوم ہوتے ہیں۔اختر الایمان نے میراجی کی ادبی زندگی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ کالج کے دنوں سے میراجی کی شاعری اور تنقید کے معتقد رہے ہیں۔ان کاخیال ہے کہ میراجی کی زندگی سادگی کا نمونہ ہے مگر وہ نہایت جذباتی قسم کے انسان ہیں۔۲۱؍جنوری ۱۹۴۷ کی ایک تحریر میں وہ لکھتے ہیں:

’’میراجی عام زندگی میں کھلے اور صاف دل کے معلوم ہوتے ہیں، بلکہ ہیں بھی لیکن جسے مروت کہتے ہیں وہ ان میں نہیں۔ ایک آدمی زندگی بھر ان کی بہتری کی کوشش کرتا رہے لیکن اس کی ذات سے انھیں ایک بار بھی تکلیف پہنچ گئی تو اس کی پچھلی کار گزاریوں پر پانی پھیر دیں گے۔ پچھلے دو تین مہینوں سے میرے ساتھ ہیں لیکن جب بھی میری ذات سے انھیں ذرا تکلیف پہنچی انھوں نے غصہ کا اظہارکیا ۔ ایک چیز میں نے اور بھی محسوس کی ہے کہ ان میں ایثار کا مادہ نہیں، یوں لا اُبالی آدمی ہیں۔ان کی زندگی میں ایک ایسا تصنع ہے جسے کم لوگ محسوس کرسکتے ہیں۔اکثر ہاتھ میں گولے رکھتے ہیں اور گلے میں مالا۔ پوچھاکیوں تو جواب میں کوئی نفسیاتی وجہ بتائیں گے۔‘‘

(باقیات اختر الایمان۔ بیدار بخت۔ ص ۲۸۳)

میراجی کا مزاج باغی تھا لہذا ان کی شاعری میں بھی یہ باغیانہ پن نظر آجاتا ہے۔ انہوں نے اردو شاعری کی روایت سے بڑی حد تک انحراف بھی کیا ہے۔ ان کی شاعری کا مطالعہ موضوع اور تکنیک دونوں لحاظ سے ایک نئی راہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اخترالایمان نے میراجی کی ذاتی زندگی کے متعلق جن خیا لات کا اظہار کیا ہے اس سے بھی ان کے باغیانہ پن کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ ان کے مزاج میں حق گوئی تھی یہی وجہ ہے کہ وہ ایسے شخص کی باتوں سے بھی نااتفاقی کا اظہار کردیتے جن کے احسانات کا بوجھ ان پر ہوتا ۔اختر الایمان نے میراجی کی مذہبی مزاج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کے مزاج میں تصنع تھا وہ مسلم ہوکر بھی خود کو وشنو کا اوتارمانتے تھے۔پہلی بات تو یہ کہ میراجی کی شناخت ایک عالم اسلام کی نہیں اور نہ ہی انہوں نے کہیں اس کا اظہار کیا ہے۔دوسری اہم بات جس مسلمان نے اسلام کی بنیادی اصولوں سے انحراف کرلیا یعنی اللہ کا ثانی خود کو یا کسی کو بنادیا وہ اسلام سے خارج ہوگیا، ایسے میں اس شخص سے یہ امید کرنا کہ وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی بسر کرے مناسب نہیں۔ انسان اپنے کاموں سے پہچانا جاتا ہے اگر ہاتھ میں گولہ لینا اختر الایمان کو اتنا ناگوار لگا تو انہیں اس نکتے پر بھی غور کرنا چاہیے کہ شراب پیناا ور اپنی بیوی کے علاوہ کسی عورت سے جسمانی رشتہ بنانے کے تعلق سے اسلام کا نظریہ کیا ہے؟میراجی اور ااختر الایمان پر گفتگو ان کی نگارشات کے پیش نظر ہونا چاہیے ذاتی زندگی میں کوئی شخص اچھا اور کوئی خراب ہوسکتا ہے۔

اختر الایمان کی رومانی شاعر کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔کلیات اختر الایمان میں ایسی کئی خوبصورت نظمیں موجود ہیں جن میں رومان اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔اختر الایمان کے متعلق شکیل الرحمن کا خیال درست معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی نظموں سے پوری نئی نسل کو متاثر کیا ہے۔ شکیل الرحمن کا کؤخیال ہے کہ اختر الایمان جدید اردو شاعری کے ایک منفرد رومانی شاعر ہیں۔کسی بھی فن پارے کے وجود میں آنے کا کوئی نہ کوئی محرک ہوتا ہے، اور جب بات رومانیت کی ہو تو اس کا محرک یقینا کوئی انسانی خدوخال کا محبوب ہی ہوتا ہے۔حالانکہ اختر الایمان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ حسن و عشق کے ذکر کو بہت زیادہ پسند بھی نہیں کرتے تھے مگر انسان اپنی روایت سے بھلا کس طرح کنارہ کشی اختیار کرسکتا ہے۔جو چیزین انسان نکے سرشت کا حصہ بن گئی ہو اس سے کوئی کتنا بھی بچنا چاہے خوفؤد کو محفوط نہیں رکھ سکتا۔ اپنی رومانی شاعری کے متعلق اختر الایمان لکھتے ہیں:

’’میری اکثر نظمیں جن میں رومان کی جھلک ہوتی ہے، ان سب کے پس منظر میں اکثر حمیدہ ہوتی  ہے۔ اگرچہ ایک دو کے پس منظر میں ایک دو اور عورت بھی ہیں، جیسے عباسی(قیصر) اور سلطانہ۔‘‘

(باقیات اختر الایمان۔ بیدار بخت۔ ص ۲۹۱۔۲۹۲)

اختر الایمان اور حمیدہ کی دوستی کالج کے زمانے سے تھی اور یہ وہی حمیدہ ہیں جن کے نام اختر الایمان نے ایک نظم ’حمیدہ کے نام ‘‘بھی کہی تھی۔اختر الایمان کی یہ ڈائری ان کی شاعری اورزندگی دونوں کی عمدہ تصویر پیش کرتا ہے۔ ڈائری میں چونکہ ڈائری نویس خود سے مخاطب ہوتا ہے اس لیے جھوٹ کی گنجائش کم ہوجاتی ہے۔ یہی خوبی اختر الایمان کی ڈائری میں بھی نظر آتی ہے۔اس ڈائری کے مطالعے سے کہیں کہیں قاری کے دل میں اختر الایمان کے متعلق نفرت کے عناصر نمایاں ہوجاتے ہیں تو کہیں ان کی سادگی پر پیار آتا ہے۔

بیدار بخت نے ’’ باقیات اخترالایمان‘‘ کو شائع کر اختر الایمان کے قارئین کو ایک ایسا علمی تحفہ دیا ہو جس کے مطالعے سے ایک شاعر اور ادیب کی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ ادب کے متعلق نظریات کی نشاندہی ہوتی ہے۔

 

 

 

ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com  پر بھیجنے کی زحمت کریں۔

 

اخترالایمانادبی میراثباقیات
2 comments
2
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail
adbimiras

پچھلی پوسٹ
مجتبیٰ حسین کے خاکوں میں انفرادی رنگ- ڈاکٹر قسیم اختر
اگلی پوسٹ
ناول "میرے نالوں کی گمشدہ آواز” کا تعارفی جائزہ – محمد ریحان

یہ بھی پڑھیں

جولائی 12, 2025

جولائی 12, 2025

میں پٹاخے سے ہی مر جاؤں گا بم...

دسمبر 14, 2024

شبلی کا مشن اور یوم شبلی کی معنویت – محمد...

نومبر 24, 2024

تھوک بھی ایک نعمت ہے!! – عبدالودود انصاری

نومبر 19, 2024

اردو میں غیر زبانوں کے الفاظ  – شمس...

نومبر 9, 2024

غربت  و معاشی پسماندگی کا علاج اسلامی نقطہ...

مئی 6, 2024

رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

دسمبر 30, 2023

اقبال ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

نومبر 7, 2023

طائر بامِ فکر و فن : ڈاکٹر دبیر...

نومبر 3, 2023

2 comments

صوفی، ادیب: خواجہ حسن ثانی نظامی - ڈاکٹر عزیز احمد خان - Adbi Miras اکتوبر 27, 2020 - 8:17 شام

[…] متفرقات […]

Reply
Md Hamid Raza Khan جولائی 7, 2021 - 1:17 صبح

ماشاء اللہ
الف مبروک
بہت علمی و معلوماتی مضمون ہے.

Reply

تبصرہ کریں Cancel Reply

اپنا نام، ای میل اور ویبسائٹ اگلے تبصرہ کے لئے اس براؤزر میں محفوظ کریں

زمرہ جات

  • آج کا شعر (59)
  • اداریہ (6)
  • اسلامیات (182)
    • قرآن مجید (آڈیو) (3)
  • اشتہار (2)
  • پسندیدہ شعر (1)
  • تاریخِ تہذیب و ثقافت (12)
  • تحقیق و تنقید (117)
  • تخلیقی ادب (592)
    • افسانچہ (29)
    • افسانہ (200)
    • انشائیہ (18)
    • خاکہ (35)
    • رباعی (1)
    • غزل (141)
    • قصیدہ (3)
    • گلہائے عقیدت (28)
    • مرثیہ (6)
    • نظم (127)
  • تربیت (32)
  • تنقیدات (1,038)
    • ڈرامہ (14)
    • شاعری (532)
      • تجزیے (13)
      • شاعری کے مختلف رنگ (217)
      • غزل شناسی (204)
      • مثنوی کی تفہیم (7)
      • مرثیہ تنقید (7)
      • نظم فہمی (88)
    • صحافت (46)
    • طب (18)
    • فکشن (401)
      • افسانچے (3)
      • افسانہ کی تفہیم (213)
      • فکشن تنقید (13)
      • فکشن کے رنگ (24)
      • ناول شناسی (148)
    • قصیدہ کی تفہیم (15)
  • جامعاتی نصاب (12)
    • پی ڈی ایف (PDF) (6)
      • کتابیں (3)
    • ویڈیو (5)
  • روبرو (انٹرویو) (46)
  • کتاب کی بات (474)
  • گوشہ خواتین و اطفال (97)
    • پکوان (2)
  • متفرقات (2,127)
    • ادب کا مستقبل (112)
    • ادبی میراث کے بارے میں (9)
    • ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف (21)
    • تحفظ مادری زبان (24)
    • تراجم (32)
    • تعلیم (33)
    • خبر نامہ (894)
    • خصوصی مضامین (126)
    • سماجی اور سیاسی مضامین (228)
    • فکر و عمل (119)
    • نوشاد منظر Naushad Manzar (68)
  • مقابلہ جاتی امتحان (1)
  • نصابی مواد (256)
    • ویڈیو تدریس (7)

ہمیں فالو کریں

Facebook

ہمیں فالو کریں

Facebook

Follow Me

Facebook
Speed up your social site in 15 minutes, Free website transfer and script installation
  • Facebook
  • Twitter
  • Instagram
  • Youtube
  • Email
  • سر ورق
  • ہمارے بارے میں
  • ہم سے رابطہ

All Right Reserved. Designed and Developed by The Web Haat


اوپر جائیں