تاریخ گوئی ایک مشکل ترین فن ہے کیونکہ اس میں اوزان اور ردیف کی پابندی کے ساتھ حروف کے مقررہ اعداد کی پابندی بھی لازم ہے ۔ تاریخی قطعات کہنا اور فنِ شاعری کے معیار کو برقرار رکھنا کوئی سہل کام نہیں ہے ۔ یہ عام شاعری سے کچھ جدا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ زیادہ تر شعراء اس میں دلچسپی نہیں لیتے ۔ قدیم شعراء میں کچھ استاد شعراء گاہے گاہے تاریخی قطعات کہتے تھے لیکن اب تو تاریخی قطعات کہنے والے گنتی کے شعراء رہ گئے ہیں ۔ اس فن کا سب سے اہم مقصد رونما ہونے والے اہم واقعات کے سال کو محفوظ رکھنا ہے ۔ ولادت، شادی، وفات، کتابوں کی تصنیف ، بادشاہوں کی تخت نشینی اور فتوحات وغیرہ اس کے خاص موضوعات میں شامل ہیں ۔
فنِ تاریخ گوئی ( Chornogram) میں کسی خاص واقعے کے سال یا تاریخ کو حروفِ ابجد کے حساب سے نظم کرنے کی روایت ہے ۔ جس مصرعے، فقرے یا ترکیب سے کوئی سال معلوم ہوتا ہے اسے مادۂ تاریخ کہتے ہیں ۔ اس کی بھی دو شکلیں ہیں ، صوری و معنوی ۔ صوری تاریخ میں الفاظ سال کی نشاندہی کرتے ہیں اور معنوی تاریخ میں ابجد کے حساب سے اعداد ظاہر ہوتے ہیں ۔ اگر اعداد پورے کرنے کے لیے کچھ الفاظ یا حروف بڑھانے پڑیں تو اس عمل کو تعمیہ اور الفاظ و حروف گھٹانے پڑیں تو اسے تخرجہ کہا جاتا ہے ۔ مغربی مفکرین کی رائے میں یہ ایک جملہ یا نوشتہ ہےجس میں مخصوص حروف ہوتے ہیں جنھیں ہندسوں سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اسے دوبارہ ترتیب دے کر ایک خاص تاریخ کو اجاگر کرنا ہوتا ہے ۔
یوں تو شعرائے قدیم سے لے کر آج کے شعراء بھی گاہے گاہے تاریخی قطعات کہے ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے اس صنف سخن پر بہت کم کتابیں دستیاب ہیں ۔ میری نظروں سے جن کتابوں کا ذکر گزرا ہے ، وہ ذیل میں درج ہیں ۔
1.قطعاتِ تاریخ تاجِ سخن (1910)
دیوانِ اول ، جلیل مانکپوری
- رباعیاتِ شاد مع قطعات و قطعاتِ تاریخ ( 1915)
مہاراجہ سرکشن پرشاد شاد
3.قطعات تاریخ تاجِ سخن ( 1931) جلیل مانکپوری
- جامع التاریخ (1937)
مولانا سید دلدار حسین اظہر الہ آبادی
- مجمع التواریخ (1983)
فضل نقوی
6.قطعات تاریخ بر وفات اہلِ قلم و متعلقینِ اہلِ قلم (1985)
شان الحق حقی
7.قصائد و قطعات تاریخ (1995) جلیل مانکپوری
مرتب : ڈاکٹر علی احمد جلیلی
- مجموعہ گل ہائے تاریخ ( 1441ھ)
مظہر محمود شیرانی
مذکورہ کتابوں کی فہرست سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جلیل مانکپوری ماہرِ تاریخ گو تھے اور یہ کہ ان کا دیوان بھی ہے ۔
مغربی بنگال کے شعر و ادب کے منظرنامے پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بھی تاریخی قطعات کہنے والے شعراء گزرے ہیں جن میں علامہ رضا علی وحشت، ناطق لکھنوی،سمیع اللہ اسد، اقبال کرشن، کیف الاثر، حامی گورکھپوری، علقمہ شبلی، شکیل نبی نگری اور خالد قمر اہم ہیں۔ موجودہ دور میں تاریخی قطعات لکھنے والے شعراء میں سفیرالدین کمال، عیسیٰ رشک، مظفر مینائی اور مجسم ہاشمی ہیں ۔
مغربی بنگال کے لیے یہ خبر باعث فخر ہے کہ پہلی بار تاریخی قطعات کی ایک کتاب منظرِ عام پر آئی ہے اور وہ بھی دیوان کی شکل میں ۔ اس کا سہرا عیسیٰ رشک کے سر جاتا ہے۔ وہ نہ صرف ایک اچھے شاعر ہیں بلکہ عروض پر ان کی گرفت قابلِ رشک ہے ۔ ان کی کتاب ” دیوانِ رشک میں تقریباً 165قطعات ہیں ۔ ان میں کثیر تعداد وفات کے قطعاتِ تاریخ ہیں جن کی تعداد تقریباً 72 ہیں ۔ تقریباً 20 قطعات کتابوں کی رونمائی سے متعلق ہیں ۔ مزید قطعات ولادت، شادی خانہ آبادی، استقبال یا ایوارڈ سے متعلق ہیں ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ تاریخی قطعات عیسیٰ رشک کی شاعرانہ صلاحیتوں کے عمدہ عکاس ہیں ۔ مذکورہ کتاب کے مطالعے سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف نے اس کتاب کو منصۂ شہود پر لانے کےلیےکڑی محنت اور ریاضت کی ہے ۔ تاریخی قطعات کا یہ مجموعہ ان کی فنکاری کی دلیل ہے ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ انھوں نے اس دیوان کو مکمل کرنے میں کچھ موضوعات کو دہرایا ہے لیکن جہاں تک فن کی بات ہے تو انھوں نے اپنی گرفت کو کہیں ڈھیل نہیں دی ہے ۔ یہ ہنرمندی شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے ۔ تاریخی قطعات کی نفسیات اور داخلی کیفیات سے وہ مکمل طور سے بہرہ ور ہیں اور انھوں نے مذکورہ دیوان میں روایت کی پاسداری کے ساتھ دورِ جدید کے بدلتے رویوں ، فنی پابندیوں اور زبان و بیان کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا ہے جو کہ ایک دشوار کام ہے ۔ یہ کہنا غالباً مبالغہ نہ ہوگا کہ انھوں نے اپنے تجربے اور مشاہدے کو بروئے کار لاکر قابلِ رشک تاریخی قطعات کہے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ یہ دیوان اردو زبان و ادب میں ایک قیمتی اضافہ ہوگا ۔ عیسیٰ رشک نے اکابرین کی دنیا سے رخصتی پر جو تاریخی قطعات کہے ہیں وہ فنی اعتبار سے معیاری ہیں ۔ ثبوت کے طور پر چند قطعات بر وفات احسن شفیق، حشم الرمضان، خواجہ جاوید اختر اور بیکل اتساہی ملاحظہ فرمائیں ۔
قطعہ تاریخ عیسوی
احسن شفیق چل بسے، تھے شاعر و ادیب
احسن پہ رب کرو کرم و لطف بے حساب
چودہ تھی دسویں ماہ کی منگل کا رشک دن
” بخشش کرو شفیق کی اللہ” تم شتاب
2014 ء
قطعہ تاریخ عیسوی
سخن میں شاعر، صفت میں صوفی
چلا جہاں سے ترے کرم پر
ہے التجا رشک کی خدایا
ہو ” ابر بخشش کرم چشم ” پر
2013 ء
قطعہ تاریخ ہجری
میری نظر ڈھونڈتی ہے رشک ان کو
رہتا تھا جن کے لب پہ تبسم
اب تو ہیں خواجہ جاوید اختر
” چرخِ اردو کے منور انجم ”
1434 ھ
قطعہ تاریخ ہجری
گیا جہاں سے جو بیکل ، اجڑ گیا ہے چمن
اندھیری ہوگئی محفل ، جو رہتی تھی روشن
بروز شنبہ مہ نور تین تھی اے رشک
ہو رحمتیں اس پر تھا ” نصیب شعر و سخن ”
1438ھ
عیسیٰ رشک نے کتابوں کی رسمِ رونمائی پر تقریبا 20 تاریخی قطعات کہے ہیں وہ بھی خوب ہیں ۔ ان میں سے دس قطعات ان کے شاگرد رشید ممتاز انور کی کتابوں پر ہیں، جو بہت ہی فعال شاعر و ادیب ہیں ۔ یہ دیکھ کر اچھا لگتا ہے کہ استاد و شاگرد کا رشتہ آج بھی مستحکم ہے ۔ رسمِ رونمائی سے متعلق عیسیٰ رشک کے یہ دو قطعات ملاحظہ فرمائیں
رہی ہے جستجو کاشانۂ اردو کی جب ساری
کیا ہے پار پربت کی یا جنگل کی ہر اک ریکھا
تمھیں کہتے پھروگے رشک جب بھی یاد لوٹے گی
” کبھی آوارہ موسم کا پتہ غزلوں میں ” ہے دیکھا
2017ء
چھبیس ماہِ غوث سنیچر ہے وقتِ شام
خوش بخت ہم ہیں خوشیوں کے لڈو ہیں ہاتھ میں
جادو بیانی دیکھئے ساحر کی دوستو
” بارش لیے ہوئے ہے ” بلاغت جو ساتھ میں
ممتاز انور کی کتاب ” آوارہ موسم کا پتہ ” اور فصیح احمد ساحر کی کتاب ” بارش” پر یہ قطعات برجستگی کے عمدہ نمونے ہیں ۔
عیسیٰ رشک نے اور بھی موضوعات پر تاریخی قطعات کہے ہیں لیکن مضمون کی طوالت کی وجہ سے میں ڈاکٹر سر محمد اقبال کے تاریخ ولادت باسعادت سے متعلق قطعہ پر ہی اکتفا کرتا ہوں ۔
یہ ماہ نومبر کی ہے نو سب کو مبارک
اقبال بلند ہوا ، سر پر رکھا تاج
پیدائشی تاریخ کہی رشک نے بس یوں
غنچے ” کھلے باغوں” میں، ” ہر اک سمت ہے بو آج ”
1877=753+0+1124
مجموعی طور پر عیسیٰ رشک کا مذکورہ دیوان نہ صرف مغربی بنگال کے لیے بلکہ پوری اردو دنیا کے لیے اہم ہے ۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ یہ اردو زبان وا ادب کے لیے ایک بیش قیمت سرمایہ ہے ۔ اس کتاب کی آمد سے ان شعراء کو تحریک ملے گی جو کبھی کبھار اس فن میں طبع آزمائی کرتے ہیں ۔ مجھے امید ہے کہ ادبی حلقوں میں ” دیوانِ رشک” کی کافی پذیرائی ہوگی ۔ میں عیسیٰ رشک کو اس شاندار کاوش کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اپنی گفتگو کا اختتام معروف شاعر شمیم انجم کی اس رباعی سے کرنا چاہوں گا ۔
دنیائے ادب کے ہیں مناظر عیسیٰ
الفاظ کے ہیں باطن و ظاہر عیسیٰ
ہر ایک سخنور کے زباں پر ہے یہی
ہیں قطعۂ تاریخ کے ماہر عیسیٰ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page