ہندوستان کی معاصر اردو شاعرات میں سلمیٰ شاہین نے اپنے نرم و غنائی لہجے اور مانوس و خوش آہنگ الفاظ کے امتزاج سے اثر انگیز پہچان قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ان کا شعری رویہ ان کے مزاج کی سنجیدگی اور شائستگی سے جلاپاتا ہے ۔ اس ہم مزاجی اور ہم آہنگی نے ان کے اشعارمیںدلنشینی اور خلوص کی جوت جگا دی ہے۔ وہ مترنم شاعرہ ہیں جس طرح خود ان کے مزاج اور اشعار کے مزاج میں فطری مناسبت ہے اسی طرح ان کے ترنم اور آواز میں بھی گہری مطابقت ہے۔ جب وہ اہل ذوق کی محفل میں غزل سرا ہوتی ہیں تو نہ صرف یہ کہ ایک سماں بندھ جاتا ہے بلکہ ان کے اشعار کے معنی بھی مزید روشن ہو جاتے ہیں ۔ وہ اردوکی ان معدودے چند شاعرات میں سے ہیں جو مشاعروں کے اسٹیج پر ترنم سے غزل پڑھتی ہیں تو نہ ان کے ترنم سے باذوق سامعین کے حسن سماعت کو صدمہ پہنچتا اور نہ ان کے اشعار ہنگامہ پروری کے مر تکب ہوتے فکر ہو یا فن ہر دو صورت میں وہ دھیمی آنچ کی شاعرہ ہیں ۔ اسی آنچ میں تب کر ان کے اشعار میں وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جسے سوز و گداز کا نام دیا جاتا ہے۔ ان کے موضوعات جن جذبوں سے تشکیل پاتے ہیں ۔ ان میں جذبۂ عشق سب پر حاوی ہے جو فطری بھی ہے اور دائم بھی یہی جذبہ غزل کی قدیم روایت کا جزو لا نیفک ہے اس کی تہہ سے بے شمار موضوعات کے سوتے پھوٹتے ہیں اور اس کا دامن ، دامنِ قیامت سے بندھا ہے۔ انسانی وجود میں اس کا مرکز دل ہے، دل جو ہر سینے میں دھڑکتا ہے۔ سلمیٰ شاہین نے اسی دل اور متعلقاتِ دل کے قصے سنائے ہیں :
دولت دل جو لٹانا ہے تو بازی کھیلو
عشق کے کھیل میں ہوتے ہیں خسارے کتنے
تیرے کوچے سے نکلنے کا طریقہ کیا ہے
پاؤں اٹھتے نہیں گو پاؤں میں زنجیر نہیں
مقام ترک تعلق سے کیسے گزریں ہم
تمھیں بتاؤ، تمھیں پر یہ فیصلہ چھوڑا
ہر آئینہ خانے میں دستور یہ رائج ہے
حیران جو آتے ہیں حیران نکلتے ہیں
دل کی راہوں کا مقدر ہے سرابوں کا سفر
جو بھی آئے گا یہاں خاک بسر آئے گا
تمنا ایک مرقعے ہزار ہیں شاہین
ہمارے دل کو بھی رکھ دو کسی نمائش میں
دل کے ساتھ سلمیٰ شاہین دنیا کو بھی سمجھے بیٹھی ہیں اور اہل دنیا کو بھی مگرجیسا کہ ہوتا آیا ہے کہ دنیا ’’بعد ازخرابیِ بسیار‘‘ سمجھ میں آتی ہے۔ اور جب سمجھ میں آتی ہے تو عام شعرا کا رد عمل شدید ہوتا ہے۔سلمیٰ شاہین کا یہ مزاج نہیں ان کی شکا یتوں میں بھی وہی نرمی اور ملائمت ہے جو عنا یتوں کے شکرانے میں ہوتی ہے۔ کہتی ہیں:
خیر خواہوں کا بھرم شکر خدا ٹوٹ گیا
اب نہ بہلائے کوئی دل کو یہ احسان کرے
سلمیٰ شاہین کی شاعری میں ماضی زیادہ اور حال و مستقبل کم ہے۔سچی شاعری میں ماضی ہی زیادہ ہوتا ہے اسی کے تجربات سے حال کی تعمیر اور مستقبل کی راہیں روشن کی جاتی ہیں ۔ مگر یہی ماضی جب کسک بن جاتا ہے تو نوک خار کی طرح کھٹکتا ہے۔ ہر شاعر نے درود کسک کے سرمائے کو ہزار رنگ سے اپنی شاعری میں خرچ کیا ہے۔سلمیٰ شاہین بھی ان سے الگ نہیں۔ ان کے شعر ہیں :
ہر ایک چپّے سے وابستہ ان کی یادیں ہیں
اب اس مکان میں رہنا عذاب ہو جیسے
آمد فصلِ بہاراں ہے مگر اے شاہین
دست گلچیں کی ’عنایات‘ سے ڈر لگتا ہے
یہ ڈر بھی ماضی کے کسی تلخ تجربے کا زائیدہ ہے جو عنایتوں سے بھی خوفزدہ کیے دیتا ہے۔ یہاں لفظ ’عنایات‘ طنز بلیغ بن گیا ہے جو شعر کی جان ہے ۔ طنزواقعی شعر کی جان ہوتا ہے مگر اس کے استعمال میںہنر مندی شرط ہے۔ اس فن پر دسترس رکھنے والے ہی طنزِ بلیغ تک رسائی رکھتے ہیں ۔ اچھا طنزتیر بہ ہدف نسخہ ہے مگر یہ ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ۔ سلمیٰ شاہین نے بھی طنزیہ اشعار کہے ہیں اور خوب کہے ہیں ۔ مثلاً وہ کہتی ہیں :
دنیا کی بات بات پہ اس کی نظر تو ہے
شاید مرے عزیز کو میری خبر نہیں
اس شعر میں طنز ہے مگر اس قدر احتیاط کے ساتھ کہ یقینی بے خبری کو شاید کے ذریعے شک کے دائرے میں لا کر شکایت کی شدت میں کمی کر دی گئی ہے ۔ یہ شائستگی اور فیاضی سلمیٰ کے سارے کلام میں پائی جاتی ہے ۔ اشعار ملا حظہ کیجیے:
لاکھ شانہ کشی کرو پھر بھی
زلفِ دوراں میں خم ہی ملتے ہیں
تھی یہ امید کہ وہ لوٹ کے گھر آئے گا
کیا خبر تھی کہ بہ اندازِ دگر آئے گا
نہیں ہے معتبر جو اپنا وصف خود بیان کرے
اے جانِ اعتبار اس پہ تیرا شک بھی خوب ہے
دھوپ پیچھا نہیں چھوڑے گی یہ سوچا بھی نہیں
ہم وہاں ہیں جاں دیوار کا سایہ بھی نہیں
ان اشعار میں خواب و خیال کی نرم آنچ ہے جو شاعرہ کو کبھی سلگاتی ہے کبھی جھلساتی ہے اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ تصورات کی دنیا میں یادوں کے دریچے کھلتے ہیں اور چاہتوں کی خوشبو مشامِ جاں کو مہکانے اور پھر اداس کرنے چلی آتی ہے جہاں شاعرہ کے لب تبسم ریزہیں پسِ تبسم وہاں بھی درد چھپا ہوا محسوس ہوتا ہے۔اک خوف کا سایہ اس کا پہرے دار ہے جو ہمہ وقت در پر ایستادہ نظر آتا ہے ۔ شاعرہ حوصلے سے مدد مانگتی ہے:
اے عزم میرے، تیری مدد چاہیے مجھ کو
سائے کی طرح خوف مرے در پہ کھڑا ہے
کبھی یوں بھی ہوتاہے کہ چاند کو چھونے کی ایک ،معصوم سی تمنا خطا بن جاتی ہے:
سلمیٰ کی تمنا ہے کہ میں چاند کو چھو لوں
اس خواب میں الجھی ہے یہی اس کی خطا ہے
خواب دیکھنا بھی گناہ ہوجاتا ہے اور خواب دیکھ بھی لیے جائیں تو ان کی تعبیر نہیں ملتی:
مری قسمت کو وہی خواب ملے ہیں شاہین
خواب بھی ایسے کہ جن کی کوئی تعبیر نہیں
آخر تھک ہار کر پچھلے پہر کے چاند سے کہ وہ بھی اپنے ہی جیسا تنہا اور اداس ہے،باتیں کرنے کو جی چاہتا ہے مگر سر گوشی میں کہ خوف کاسایہ مسلط ہے:
بھیگا بھیگا چاند ہے پچھلے پہر کتنا اداس
آؤ سرگوشی میں اس دلگیر سے باتیں کریں
پچھلے پہر کے چاند سے باتیں کرنا ساری رات جاگتے رہنے کی جانب معنی خیز اشارہ ہے، انھیں سر دو گرم چشیدہ تجربات سے کشید کیے ہوئے تصورات کے شعری اظہار کا نام سلمیٰ شاہین کی غزل ہے۔سلمیٰ شاہین جو خود دار ہیں۔ عزت نفس کاسودانہیں کرتیں اَنا پسند ہیں اور اپنی اَنا کے نتائج سے با خبر بھی ہیں مگر اپنی اَنا پر قائم اور مطمئن ہیں چنانچہ پورے عزم و حوصلے اور اعتما د کے ساتھ دنیا کو اور خود کو یہ جتانا بھی ضروری سمجھتی ہیں:
شاہینؔ یہ انا ہی تو زنجیر پا بھی ہے
پھرنا تو ہے ضرور مگر در بدر نہیں
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |