غضنفر ایک ہمہ جہت شخصیت کا نام ہے۔ کبھی کبھی تو یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ کسی ایک شخص میں اتنی ساری خوبیاں کہاں سے سما گئی ہیں۔ وہ بیک وقت افسانہ نگار،ناول نگار ،مضمون نگار،محقق، غزل گو،نظم گو اورخاکہ نگار تو ہیں ہی ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اپنی خود نوشت’’ دیکھ لی دنیا ہم نے‘‘ بھی تحریر کی ہے جس نے ادبی دنیا میں ہلچل مچا رکھی ہے۔غضنفر نے اب تک کل نو ناول لکھے ہیں:
(۱)پانی،(۲)کینچولی،(۳)کہانی انکل،(۴)دویہ بانی،(۵)فسوں،(۶)وِش منتھن،(۷)مم،(۸)شوراب،(۹)مانجھی۔ان تمام ناولوں میں غضنفر نے کسی نہ کسی نوعیت کا تجربہ ضرور کیا جس سے ان کی زبردست تخلیقیت اور قوت اختراع کی غمازی ہوتی ہے۔
فکشن کے متعلق غضنفر نے اپنی تحریروں میں جا بجا اظہار خیال کیا ہے جس سے ان کے نقطۂ نظر کی وضاحت ہوتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔
’’ فکشن
ف ک ش ن
وہ فن ہے
جو فہم و فکر
کرب و کشف
اور شوق و شعور
سے تخلیق پاتا ہے
اور نقد و نظر
سے نکھر کر مرکز نگاہ بنتا ہے
زندگی جو فکشن کی جان ہے اور فہم و فکر کا محور ہے ،کے بگاڑ کی تفہیم اور اس کے بناؤ کی فکرآسان نہیں۔اس کے لیے تہ در تہ زندگی کی پرتوں کو سلیقے سے چھیلنا، ایک ایک پرت میں پڑی آڑی،ترچھی،موٹی،پتلی،گاڑھی اور مدھم لکیروں سے ہو کر زندگی کے پْل صراط پر چلنا ،راستے کے نشیب و فراز اور خار و خاشاک سے گزرنا،کرب اور کشف کی اذیت کو جھیلنا حیات و کائنات کے دباؤ،اس دباؤ سے پیدا ہونے والے تناؤ،اس تناؤ سے اْبھرنے والے درد اور اس درد سے اْٹھنے والی ٹیس کو سہنا پڑتا ہے۔‘‘ (ناول’’شوراب‘‘مشمولہ ’’آبیاژہ‘‘صفحہ نمبر۔۲۹۶)
بیشک ’’ناول‘‘زندگی کو جیتی جاگتی شکل میں بیان کرنے کا نام ہیاور زندگی کا کوئی ایک رنگ نہیں۔زندگی کے کئی رنگ ہیں۔ناول نگار اپنے ناول میں زندگی کے صرف ایک رنگ کو بھی بیان کر سکتا ہے اور اس میں کئی رنگوں کی آمیزش بھی کر سکتا ہے۔ لیکن ناول یک رنگ ہو یا بہو رنگ اس میں زندگی کی رنگارنگی،چمک،دمک اور دھمک موجود ہونی چاہیے۔ غضنفر کے ناولوں میں یہ رنگا رنگی ،یہ چمک دمک ،یہ دھمک شدت کے ساتھ محسوس ہوتی ہے اور ناول نگاری کے متعلق انھوں نے اپنا جو نقطہء نظرپیش کیا ہے اس پر بھی وہ پورے اترتے ہیں۔
جیسا کہ اوپر بیان ہواغضنفر نے اب تک کل نو ناول لکھے ہیں اور اگر اس میں ا ن کے سوانحی ناول’’دیکھ لی دنیا ہم نے‘‘ کو بھی شامل کر لیا جائے تو ان کی تعداد دس ہو جاتی ہے۔یہ ناول زیادہ طویل نہیں ہیں۔کچھ ناولوں کی ضخامت تو سو صفحات سے بھی کم ہے۔اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ غضنفر دوسرے ناول نگاروں کی طرح صفحات کی تعداد پر دھیان نہیں دیتے بلکہ وہ اپنی بات کو نہایت فنکاری کے ساتھ compact انداز میں کہنے کا فن جانتے ہیں۔ وہ مْلا وجہی کے اس شعر پر عمل پیرا نظر آتے ہیں :
جو بے ربط بولے تو بتیاں پچیس
بھلا ہے جو اک بیت بولے سلیس
جس طرح جگنوؤں کو مٹھی میں بند نہیں کیا جا سکتا ،خوشبوؤں کو قید نہیں کیا جا سکتا ،ہواؤں کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا اسی طرح غضنفر کی تحریروں کو معنیٰ کی زنجیریں نہیں پہنائی جا سکتیں کیونکہ غضنفر کی نگارشات کسی لچکیلی شے کی طرح ہاتھوں سے پھسلی جاتی ہیں۔ ان کی تحریروں میں تہہ داری اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ جب بھی ان کی تہہ تک پہنچیے تو ایک نیا معنی ہاتھ آ جاتا ہے۔
حالیہ برسوں میں جتنے بھی ناول نگارآسمان ادب پر ابھرے ہیں ان میں سب سے زیادہ رنگا رنگ اور متنوع ناول غضنفر کے قلم سے نکلے ہیں۔دیگر افسانہ نگاروں کی طرح انہیں کسی ایک فریم میں فٹ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے ناول ضخامت کے اعتبار سے اگرچہ مختصر ہوتے ہیں مگر ان کا باطنی کینوس بہت بڑا ہوتا ہے۔اور اس کینوس پر رنگوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ان کے یہاں سیاست کی بازی گری کی تصویریں بھی ہیں اور حالات حاضرہ کی تفسیریں بھی۔رومان کا رنگ بھی ہے اور نفسیات انسانی کی گرہ کھولنے کی کوشش بھی۔تشنگی بھی ہے اور سیرابی بھی۔ان کے نو ناولوں میں یہ مختلف رنگ اپنے مختلف شیڈس کے ساتھ جا بجا بکھرے ہوئے ہیں۔
مختلف علوم و فنون اور زبانوں پر دسترس ہونے کی وجہ سے غضنفر کی تحریروں میں ایسی رنگا رنگی ،دلکشی اور جاذبیت پیدا ہو گئی ہے کہ قاری جب پڑھنا شروع کرتا ہے تو بنا رکے اور بنا سوچے پڑھتا چلا جاتا ہے تحریر کی اسی کشش اور خوبی کا نام readability ہے جس کی مثال کم از کم اردو ادب میں کہیں اور نہیں ملتی ہے۔ان کا اسلوب گنجلک یا ناقابل فہم نہیں ہے بلکہ اس میں ایک ایسا فنی رچائو پایا جاتا ہے جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔اور یہ گرفت اتنی مضبوط ہوتی ہے قاری کا اس سے آزاد ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی با شعور قاری اس کی گرفت سے آزاد ہونا چاہتا بھی نہیں۔
ایک مثال ملاحظہ فرمایئے:
’’تعلیم کا سیدھا سفر یہ ہے کہ وہ راہ میں روشنی بکھیرے۔اندھیروں کو سمیٹے۔آندھیوں کا رخ موڑے۔پتھروں کو ہٹائے۔کانٹوں کو کند کرے۔گڈھوں کو بھرے۔زمین کو ہموار بنائے۔اخلاق کا علم اُٹھائے۔کردار کا پرچم لہرائے۔اقدار کی تبلیغ کرے۔دل و دماغ کا معالج بنے۔آنکھوں میں نور بھرے،چہرے کو چمکائے۔روح کو بالیدگی بخشے۔ادراک کو صیقل کرے۔احساس کو برمائے۔تخیل کے پر کھولے۔جذبات کو جگائے۔تخلیقیت کے کلوں کو اکسائے اور ایک صاف ستھری،صحت مند،تخلیقی اور کامیاب زندگی کی ضمانت دے۔لیکن آج اس نے الٹا سفر شروع کر دیا ہے۔تعلیم اب تیرگی،بے ایمانی،اخلاق سوزی،کردار کشی اور جسمانی ،ذہنی و روحانی علالت کی علامت بن گئی ہے۔‘‘(ناول’’فسوں‘‘ مشمولہ’’آبیاژہ‘‘صفحہ نمبر۔۵۲۴)
(پانی)
کہتے ہیں کہ ’’جل ہی جیون ہے‘‘ غضنفر اس راز کو جان گئے ہیں۔ان کی تحریروں میں جا بجا ’’پانی‘‘ کی اہمیت اُجاگر کی گئی ہے۔اور جس طرح پانی جانداروں کو زندگی بخشتا ہے اسی طرح اس پانی نے بھی غضنفر کی نگارشات کو حیات دوام بخش دیا ہے۔اپنے پہلے ناول ’’پانی‘‘ میں انہوں نے پانی اور زندگی کے اٹوٹ رشتے کو اجاگر کیا ہے۔’’پانی‘‘ کے چند اقتباسات ملاحظہ فرمایئے:
’’بے نظیر انوکھی اشیا کی جاذبیت اور عجیب الہیئت ہستیوں کی محویت میں منہمک تھا کہ اسے اپنی پشت پر انگلیوں کی ہلکی سی تھپتھپاہٹ محسوس ہوئی۔نگاہیں پیچھے پلٹ آئیں۔ویسی ہی ایک عجیب الہیئت ہستی سامنے کھڑی اسے گھور رہی تھی۔
’’تم کون ہو اور یہاں کس طرح اور کس لیے آئے ہو؟‘‘
’’میں ایک پیاسا ہوں۔پانی کی تلاش میں بھٹکتا ہوا ادھرآ نکلا ہوں۔آپ کون ہیں؟بیابان میں یہ عمارت کیسی ہے ؟اور یہاں کیا ہو رہا ہے؟‘‘
’’میں ایک محقق ہوں او یہ عمارت دار التحقیقات ہے۔یہاں موجودات کا مطالعہ ہوتا ہے۔غیر موجودات کی کھوج ہوتی ہے۔اشیاء کی ماہیت معلوم کی جاتی ہے۔کائنات کے اندر ہونے والے تغیرات کے اسباب و علل کا پتا لگایا جاتا ہے۔اس جہانِ بے کنار میں امکاناتِ حیات پر غور و خوض کیا جاتا ہے۔نئے نئے حقائق دریافت ہوتے ہیں اور ایجاد و انکشافات سے دنیا کوروشناس کیا جاتا ہے۔‘‘
’’لگتا ہے ،میں مناسب مقام پر آ پہنچا ہوں۔شاید اب میری مشکل آسان ہو جائے۔‘‘
’’تمھاری مشکل کیا ہے اجنبی؟ کون سا پیچیدہ مسئلہ ہے جس کی عقدہ کشائی چاہتے ہو؟‘‘
’’جناب!میری بس ایک ہی مشکل ہے اور وہ ہے میری پیاس…یہ پیاس۔‘‘
آواز رک گئی اور زبان خشک ہونٹوں پر پھرنے لگی۔
’’واقعی تم بہت پیاسے لگتے ہو۔میں ابھی آیا۔‘‘وہ ایک میز کے پاس سے ایک ڈبہ اٹھا لایا۔
’’لو،اسے چوسو!یہ ’’آبیاژہ‘‘ ہے۔اس سے تمھاری پیاس بجھ جائے گی۔‘‘اس نے اس میں سے ایک سفید چوکور ٹکیا نکالی اور بے نظیر کی طرف بڑھا دی۔
’’کیا سچ مچ اس سے پیاس بجھ جائے گی؟‘‘بے نظیر نے ٹکیا اپنے ہاتھ میں لے کر نگاہیں اس پر مرکوز کر دیں۔
’’چوس کر تو دیکھو!تمھیں خود ہی اندازہ ہو جائے گا۔‘‘(’پانی ‘مشمولہ ’آبیاژہ‘ صفحہ نمبر۱۵۔۲۵)
ایک اور اقتباس ملاحظہ فرمایئے۔
’’مجھے ایک ایسے راستے کی جستجو ہے جو کسی سر چشمے تک جاتا ہو۔جہاں پہنچ کر پیاس بجھتی ہو،تشنگی مٹتی ہو۔‘‘
’’تمھیں میں بتا سکتا ہوں ایسے راستے کا پتا۔‘‘
’’کیا سچ مچ ٓپ ایسے راستے کو جانتے ہیں؟‘‘
’’میں صرف جانتا ہی نہیں بلکہ اس راستے پر چل کر چشمے تک جا بھی چکا ہوں۔میں تمھیں بھی اس چشمے تک پہنچا سکتا ہوں جس کا پانی پی کرتم ابد تک کے لیے اپنی پیاس سے نجات پا سکتے ہو۔‘‘
’’کیا ایسا بھی کوئی چشمہ ہے؟‘‘
’’ہاں،ہے اور کوئی بہت دور بھی نہیں ہے وہ اسی بیابان میں ہے۔
’’کیا وہ واقعی اسی بیابان میں ہے؟‘‘
’’ہاں،یہاں سے کچھ فاصلے پر ظلمات ہے۔اس ظلمات میں ایک چشمہ ہے۔نام جس کا چشمہ? حیواں ہے۔اس چشمے کا پانی آب حیات کہلاتا ہے۔
آب حیات وہ آب ہے
جو پیاس سے بیتاب ذی روحوں کی بیتابی
ہمیشہ ہمیش کے لیے دور کر دیتا ہے
جسے پی کر انسان امرہو جاتا ہے
حیاتِ جاوید پا لیتا ہے۔
’’آب حیات! نام تو سنا ہے۔لیکن کیا واقعی ایسا کوئی آب ہے؟‘‘
’’بے شک ایسا آب ہے۔شاید تمھیں یقین نہیں آرہا ہے۔لیکن چند گھنٹوں بعد اسے تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھو گے اور لبوں سے لگائو گے تو تمھارا یہ شک تمھارے ذہن و دل سے جاتا رہے گا اور تم بے اختیار آمنّا و صدّقنا بول پڑو گے۔‘‘
’’لیکن مجھے آب حیات نہیں پانی چاہیے…صرف پانی۔میں امر ہونا نہیں چاہتا۔میں تو بس زندہ رہنا چاہتا ہو…صرف زندہ…‘‘ (ناول’’پانی‘‘مشمولہ’آبیاژہ‘صفحہ نمبر۔۶۸)
غضنفر دراصل یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انسان کی زندگی کے لیے صرف پانی چاہیے آب حیات نہیں۔اس ناول کی پوری فضا طلسمی اور داستانی ہے۔ کرداروں کے نام اور مقام بھی داستانوں سے مستعار لیے گئے ہیں۔غضنفر کے اس پانی میں پیاس اور پانی کے جس ازلی مسئلے کو علامتی پیرائے میں جس خوبی سے بیان کیا گیا ہے اس کی دور دور تک کہیں مثال نہیں ملتی۔یہی وجہ ہے کہ’’ پانی‘‘ آج بھی زورو شور کے ساتھ رواں دواں ہے۔
(کینچولی)
’’کینچولی‘‘ زن و شوہر کے نازک ترین رشتوں پر مبنی ایک دلگداز ناول ہے۔ ایک خوش و خرم جوڑا اچانک پریشانیوں کے دلدل میں پھنس جاتا ہے۔ شوہر دانش فالج کا شکار ہو کر گھر تک محدود ہو جاتا ہے۔اس کی نوکری ختم ہو جاتی ہے اوروہ لوگ جسمانی اور ذہنی اذیت سے دو چار ہو جاتے ہیں۔ دانش کی بیوی مینا کو ہر طرف سے یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ دانش سے طلاق لے کر دوسری شادی کر لے لیکن مینا کے پائے استقامت میں ذرا بھی لغزش نہ ہوئی اور وہ دانش کا ساتھ نبھاتی رہی۔ آخر میں دانش کو اس کی بے لوث قربانی سے متاثر ہو کر یہ کہنا پڑا کہ مینا صرف اس کی بیوی نہیں ہے بلکہ اس سے بڑھ کر ہے۔
’’مینا دانش کی طرف آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے لگی۔
’مینا! میں پچھلے چند مہینوں میں کس بوجھ کے ساتھ زندہ رہا ہوں،شاید اس کا تم اندازہ نہیں کر سکتیں۔‘
’دانش! مجھے تمہارے دکھ کا اندازہ ہے۔اپنے کرب کا احساس بیوی کو نہ ہو گا تو اور کسے ہو گا؟‘
’تم بیوی نہیں ہو مینا۔‘دانش نے اپنی نگاہیں مینا کے چہرے پر جما دیں۔‘
’کیا کہا،میں بیوی نہیں ہوں؟‘
’ہاں مینا! تم بیوی نہیں ہو…ہمارے درمیان سے میاں بیوی کا رشتہ تو کب کا ختم ہو چکا ہے…‘
’دانش! میں بیوی نہیں ہوں تو پھر کیا ہوں؟‘
’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اس رشتے کو کیا نام دوں؟ مگر ہاں ،یہ ضرورسمجھ میں آ گیا ہے کہ یہ رشتہ سب سے الگ ہے،سب سے جدا ہے ،اوپر ہے…‘
مینا کو لگا کہ دانش کے کے ساتھ ساتھ اس کے دل و دماغ سے بھی کینچلی اتر چکی ہے۔‘‘(ناول’کینچلی‘ مشمولہ’آبیاژہ‘ صفحہ نمبر۸۶۱۔۹۶۱)
(کہانی انکل)
’’کہانی انکل‘‘ دراصل غضنفر کی ان کہانیوں کا مجموعہ ہے جو مختلف رسائل و جرائد میں شایع ہو کر قبول عام کی سند پا چکی تھیں۔غضنفر نے ان کہانیوں میں رد و بدل کر کے انہیں فنکارانہ انداز میں ایک لڑی میں پروکر پیش کر دیا ہے۔ ان کہانیوں میں زندگی کے مختلف رنگ بکھرے ہوئے ہیں اور ہر رنگ اپنے آپ میں منفرد ہے۔غضنفر کے اس تجرباتی ناول سے تحریک پا کر شوکت حیات نے بھی اپنے کئی افسانوں کو یکجا کر کے’’سرپٹ گھوڑا‘‘ کے نام سے پیش کیا ہے۔ غضنفر نے کہانی انکل میں در اصل کہانی کی قوت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ایک مقام پر انھوں نے صاف صاف لکھا بھی ہے:
’’کہانی راکھ سے چنگاری کرید لیتی ہے
سرد الاؤ میں گرمی پھونک دیتی ہے
رات کو دن بنا دیتی ہے
کہانی رامائن کہتی ہے
الف لیلہ سناتی ہے
شاہنامہ بیان گرتی ہے
مہا بھارت چھیڑتی ہے
کہانی وہ بھی کہتی ہے جو کہا نہیں گیا
وہ بھی سناتی ہے جو سنا نہیں کیا
وہ بھی دکھاتی ہے جو دکھائی نہیں دیتا
وہ بھی سناتی ہے جو سنائی نہیں دیتا ‘‘
(دویہ بانی)
’’دویہ بانی‘‘ اردو کا پہلا دلت ناول ہے۔’’دویہ بانی‘‘ یعنی بھگوان کی آواز۔اس ناول کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ تقریباً پورا ناول سنسکرت ا ٓمیز زبان میں لکھا گیا ہے۔یہ غضنفر کی زباندانی کا منھ بولتا ثبوت ہے۔اس ناول پر مشاہیر ادب کی گرانقدر آراء ملاحظہ فرمایئے:
’’ اس ناول کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ یہ اردو میں دلت ادب کا پہلا اور تادمِ تحریر کا اکلوتا نمونہ ہے۔‘‘
( حسین الحق )
’’ غضنفر نے’ دویہ بانی‘ لکھ کر اردو ناول نگاری میں ایک نئے اور اچھوتے موضوع کا اضافہ کیا ہے۔لہٰذا’ دویہ بانی‘ کو اگر اردو کا پہلا باقاعدہ دلت ناول کہا جا ئے تو بے جا نہ ہو گا۔‘‘
( پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ )
’’ وہ(دویہ بانی ) دلت نظام پر لکھا گیا اردو کا پہلا ناول ہے جس میں باقاعدہ صرف زبان ہی نہیں، کردار ہی نہیں مکمل نظام اور اس نظام سے نہ جانے کتنے اٹھے ہوئے سوال اور استحصال جنم لے رہے ہیں۔‘‘
( پروفیسر علی احمد فاطمی )
’’ دویہ بانی‘‘ میں آج کے ایک گلوبل ڈسکورس کو اردو میں پہلی بار پیش کیا گیا ہے جسے ہم دلت ڈسکورس کے نام سے جانتے ہیں۔‘‘
( ڈاکٹر مولا بخش )
(فسوں)
’’فسوں‘‘ کی پوری کہانی علی گڈھ کے ارد گرد گھومتی ہے۔علی گڈھ صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں ہے بلکہ ایک جادو ہے ،ایک فسوں ہے۔جو یہاں ایک بار آ جاتا ہے وہ تا زندگی اس کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہو کر رہ جاتا ہے۔آپ علی گڈھ کے ہوسٹلز کے کمروں کے دروازے پر یہ چسپاں یہ شعر دیکھ سکتے ہیں:
سینچا ہے اسے خون سے ہم تشنہ لبوں نے
تب جاکے اس انداز کا میخانہ بنا ہے
یہ وہ میخانہ ہے جہاں آب حیات تقسیم ہوتا ہے۔اس آب حیات کے اثر سے ذہن و دل کو جو جِلا ملتی ہے اس سے یہاں کے فارخین کو زندگی گزارنے کا سلیقہ اور طریقہ حاصل ہوتا ہے۔یہاں آنے والے طالب علم دنیا کے مختلف خطوں سے آتے ہیں لیکن یہاں آکر سب کے سب علیگ بن جاتے ہیں۔یہاں کے نوجوانوں نے ایک بوم کلب بنائی تھی جس کی بیٹھک رات بھر چلتی رہتی تھی۔ جس کا مقصد راتوں میں جاگ کر کشف کے عمل سے گزرنا تھا تاکہ اندھیرے میں وہ دنیا کو قریب سے دیکھ سکیں اور ظلمت سے لڑنے کے لیے کوئی روشنی تلاش کر سکیں مگر وہ روشنی ڈھونڈتے ڈھونڈتے خود گم ہو جاتے ہیں وہ لڑکے اپنا مشن پورا نہیں کر پاتے مگر وہ ’’آخرشب کے ہمسفر ” ریحان دا کی طرح اسٹیبلشمنٹ کا حصہ نہیں بن جاتے بلکہ مہیب اندھیروں کی فوج سے جیت نہیں پاتے۔ اپنی دنیا کو بچانے کی فکر میں اپنے مشن میں کمزور پڑ جاتے ہیں۔ان کے عمل اور جدوجہد پر شہریار کا یہ شعر صادق آ جاتا ہے :
پہلے کب شام و سحر ذکر تھا یوں دنیا کا
چل گیا مجھ پہ آخر کو فسوں دنیا کا
(وش منتھن)
’’وش منتھن‘‘ اس ملک کی کہانی ہے جہاں ہندو مسلمان صدیوں سے ایک ساتھ رہتے آئے ہیں۔ان کے دکھ سکھ ،شادی غمی،تیج تیوہار سب سانجھے ہوتے ہیں لیکن کچھ شر پسندوں کو یہ بھائی چارہ،یہ یگانگت ایک آنکھ نہیں بھاتی اور وہ کسی نہ کسی بہانے سے اس امن و آشتی کے چمن کو اجاڑنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔انہوں نے جھوٹی تواریخ گھڑرکھی ہے اور اس سے ملک کی فضاء کو مسموم کرتے رہتے ہیں۔ ناول کی ابتداء کالج کے دو فرقوں کے طالب علموں کے درمیان ایک معمولی سے جھگڑے سے شروع ہوتی ہے جس نے بعد میں سنگین شکل اختیار کر لی۔لیکن اس اندھیرے میں بھی کبھی کبھی روشنی کی ایک کرن نظر آجاتی ہے۔ نئی نسل اب پرانی ہسٹری پر آنکھ بند کر کے یقین نہیں کر لیتی بلکہ خود سے سوال کر کے اس کے جواب ڈھونڈتی ہے۔
(مم)
’’مم‘‘ دراصل ان کے پہلے ناول’’پانی‘‘ کی توسیع ہے۔ بہت چھوٹے بچے کی زبان میں پانی کو ’’مم‘‘ کہا جاتا ہے۔بچہ جو لفظ سب سے پہلے سیکھتا ہے وہ ’’ماں‘‘ یا ’’مم‘‘ ہے اور چونکہ ماں بچے کو زندگی بخشتی ہے لہٰذا وہ ہر اس شے کو ماں سے منسوب کر دیتا ہے جس میں ممتا ہوتی ہے۔ یہ دراصل ایک منظوم ناول ہے اور اس سے غضنفر کی قادر الکلامی بھی ثابت ہوتی ہے۔ناول’’مم‘‘ کا ایک اقتباس دیکھئے۔
’’دیکھ!
فطرت میں گوتمی بدّھی
دیکھ!
کہ صرف آبیاژہ تھا
جان کر آب جس کو چوسا تھا
تشنگی اور جس سے بھڑکی تھی
جہد جس کے بھنور میں ڈوبی تھی
دیکھ!
کہ راہبوں کی راہ تھی کیا
دیکھ!
کہ ترے تئیں چاہ تھی کیا؟
دیکھ!
جنت جو تو نے دیکھی تھی وہ حقیقی تھی یا کہ فرضی تھی
دیکھ!
وہ ریگِ رواں تھا جس کے
تھے تعاقب میں ترے پا ؤں بڑھے
دیکھ!
کہ ریت اور پانی کا
کس قدر پْر فریب رشتہ تھا
دیکھ !
کہ دیوتاؤں کا ڈھنگ کیا تھا
دیکھ!
کہ اس کے رْخ کا رنگ تھا کیا
‘‘(ناول’’مم‘‘ مشمولہ ’’آبیاژہ‘‘ صفحہ نمبر۔۱۴۶)
’’مم‘‘ میں غضنفر نے صرف تین لفظوں ’’ دیکھ ،سوچ اور سمجھ‘‘سے جہان معانی پیدا کر دیا ہے اور یہ راز بھی بتا دیا ہے کہ اگر موجودات کو غور سے دیکھا گیا سنجیدگی سے اس پر سوچا گیا اور ٹھیک سے اسے سمجھا گیا تو ناممکن کو بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے جیسا کہ بے نظیر ان لفظوں پر عمل کرکے مگر مچھوں کے پیروں کے نیچے سے پانی کھسکا لیتا ہے۔میں زبیر رضوی کی اس بات سے پوری طرح متفق ہوں :
’’پانی ‘‘اور’’ کہانی انکل‘‘ کے بعد غضنفر نے پھر ایک بارطاقت ور لہجے میں زندگی کے جبر اور انسانی ہمتوں کے ہاتھوں اس کے زیر ہونے کی کہانی رقم کی ہے.پانی اور پیاس کا استعارہ اردو نظم اور فکشن کا مانوس استعارہ ہے لیکن غضنفر نے’مم‘ کے اختتام تک آتے آتے اس میں کئی جہت اور معنی کھوج لیے ہیں۔‘‘
(شوراب)
’’شوراب‘‘ اس عنوان میں بھی آب شامل ہے۔لیکن یہ پانی حیات بخش نہیں بلکہ کھارا ہے۔یہ ناول موجودہ تعلیمی نظام کے کھوکھلے پن کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ تعلیم انسان کے ذہن کو تو روشن کر سکتی ہے مگر اس کے گھر کا چولہا نہیں جلا سکتی۔شاداب نے علی گڈھ مسلم یونیورسیٹی سے اردو میں ایم اور پی ایچ ڈی کی ڈگری لے رکھی تھی لیکن و ہ ایک خلیجی ملک کی ایک فیکٹری میں آٹا گوندھنے کا کام کرنے لگا کیونکہ وطن عزیز میں کہیں پیسہ چلتا ہے اور کہیں پیروی اور کہیں فرقہ واریت۔اسی طرح شیبا جیسی اعلیٰ تعلیم یافتہ ،مہذب اور ادب نواز شخصیت کی شادی محض پیسوں کی خاطر ایک گنوار اور اْجڈ شخص سے کر دی جاتی ہے۔سسرال میں اس کا دم گھٹتا ہے کیونکہ وہاں اس کی زبان سمجھنے والا کوئی نہیں ہے۔صرف زبان ہی نہیں بلکہ اس کے جذبات و احساسات کی قدر کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے مثل جوئے آب کے مصداق اس کی زندگی بھی گھٹ کر رہ جاتی ہے۔ آخر کار وہ سیاست کے جال میں پھنس کر اپنا سب کچھ کھو بیٹھتی ہے۔اس کے سارے احساسات و جذبات مردہ ہو جاتے ہیں اور وہ ایک زندہ لاش بن کر رہ جاتی ہے۔ پیٹرو ڈالرز نے انسانی احساسات و جذبات میں جو شوراب ڈالا ہے اور اس سے انسانیت کے درودیوار جس طرح گلنے اور ادھڑنے لگا ہے اس کی بہترین عکاسی بھی اس ناول میں دکھائی دیتی ہے۔
غضنفر اپنے ناول ’’مانجھی‘‘ میں یہ سوال کرتے ہیں کہ:
’’…مرد کے احساس برتری نے عورت کی سمجھ داری کو تسلیم کرنے ہی نہیں دیا۔
مرد عورت کے اس وصف کو تسلیم کیوں نہیں کرتا
کیوں وہ عورت کے اندر صرف ایک جسم کو دیکھتا ہے ؟
عورت میں جسم کے علاوہ اسے کوئی اور چیز کیوں نہیں دکھائی دیتی؟…اشتہاروں میں عورت کے جسم کو ہی کیوں دکھایا جاتا ہے ؟کہیں کسی اشتہار میں عورت کا دماغ کیوں نہیں نظر آتا؟
اس سوال نے وی۔ین۔رائے کے ذہن کو ماضی میں دور تک پہنچا دیاجہاں دنیا کے پہلے آدمی کی تنہائی کو دور کرنے کے لیے اور اس کا دل بہلانے کے لیے ایک عورت کو پیدا کیا گیا تھا۔
تو کیا عورت صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اپنے تشکیلی دور میں ہے ؟کیا آگے بھی یہ اسی روپ میں رہے گی؟یا اس میں کوئی تبدیلی آئے گی؟‘‘(ناول’’شوراب‘‘مشمولہ’آبیاژہ‘‘ صفحہ نمبر۔۸۳۸۔۹۳۸)
(مانجھی)
’’مانجھی‘‘ کا تعلق بھی پانی سے ہی ہے۔کیونکہ وہ پانی پر کشتی چلاتا ہے۔ اس ناول میں ہندوستان کی پوری تاریخ رقم کر دی گئی ہے۔ ایک دہریہ گنگا درشن کو جاتا ہے۔جب وہ گنگا گھاٹ پر پہنچتا ہے تو کئی کشتی راں اسے اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں لیکن وہ ایک ایسی کشتی پر بیٹھتا ہے جس کا کرایہ سب سے زیادہ ہے۔ اس کشتی کا مانجھی کوئی عام انسان نہیں ہے بلکہ ایک جہاں دیدہ اور عقیل و فہیم شخص ہے۔وہ اس دہریے کو نہ صرف گنگا اور جمنا کی سیر کراتا ہے بلکہ ایک نادیدہ ندی سرسوتی کے درشن بھی کرا دیتا ہے۔وہ ہندو مائیتھولوجی کے ایسے قصے سناتا ہے جس سے مسافر کے ذہن و دل کو نئی روشنی ملتی ہے۔یہ ایک نہایت ہی دلچسپ ناول ہے۔اس کو پڑھتے وقت قاری کسی اور ہی دنیا میں جا پہنچتا ہے۔
غضنفر نے اپنے ناولوں میں زندگی کے تمام رنگوں کو ایک ساتھ سمو دیا ہے۔ دنیا میں جتنے بھی علوم و فنون ہیں ،سب کا رس اس میں موجود ہے۔مذہب،سیاست،ادب،تواریخ ،فلسفہ،منطق،عمرانیات ،لسانیات اور سائنس کے تمام مظاہر اس میں نظر آتے ہیں۔
غضنفر کا اسلوب دوسرے تمام قلم کاروں سے یکسر جدا ہے۔ وہ ہزاروں کی بھیڑ میں بھی پہچانے جا سکتے ہیں۔ان کے جملے تہ دار اور معنی دار ہوتے ہیں۔وہ ایک جملے میں معنی کی کئی تہیں بٹھا دیتے ہیں۔پڑھتے وقت پرت پر پرت پڑی دکھائی دیتی ہے۔ انہیں دریا کو کوزے میں سمونے کا فن آتا ہے۔ وہ ماضی ،حال اور مستقبل پر یکساں نظر رکھتے ہیں۔وہ ایک وسیع المشرب انسان ہیں۔ان کے دل میں انسانیت کا درد چھپا ہوا ہے۔وہ محبتوں کے امین ہیں اور زندگی کے ہر شعبے میں اس کی جلوہ گری دیکھنے کے مشتاق ہیں۔غضنفر جیسا صاحب قلم کبھی کبھی پیدا ہوتاہے۔
٭٭٭
اقبال حسن آزاد
مدیر اعزازی سہ ماہی ’’ثالث‘‘
8210498674
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page