کچھ باتیں: ’کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی ‘ کے بارے میں/ پروفیسر ابن کنول مضمون نگار: ذاکر فیضی
بہت کم کتابیں ایسی ہوتی ہیں کہ قاری ہاتھ میں لے اور پڑھتا چلا جائے۔ورنہ اکثر کتابو ں میں کہیں نہ کہیں اُکتاہٹ محسوس ہونے لگتی ہے۔کسی کتاب کی ابتدا دلچسپ ہوتی ہے تو درمیان میں کتاب کا تسلسل گڑبڑا جاتا ہے اور قاری کی کتاب پڑھنے میں دلچسپی کم ہونے لگتی ہے۔کیوں کہ بے ربط جملے اور بے وجہ کی خیال آرائیاں قاری کو کتاب سے دور کر دیتی ہیں۔ کہیں ایسا ہوتا ہے کہ کتاب درمیاں تک قائدے اور قرینے چلتی رہتی ہے مگر اختتام تک بے مزہ ہوجاتی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ کمی رہ گئی ہے۔
ایسی کُتب جس میں اوّل تا آخر دلچسپی بنی رہے اور قاری کو کہیں اکتاہٹ یا بوریت کا احساس نہ ہو، بہت کم ہوتی ہیں۔ آج کے مصنف کی کوئی کتاب اپنے آپ کو شروع سے لے کر آخری صفحہ تک پڑھوالے اور لطف کا تسلسل برقرار رہے تو میں کتاب کی یا مصنف کی بہت بڑی خوبی تسلیم کروں گا۔
گذشتہ دنوں میں ایسی ہی ایک کتاب سے روبرو ہوا۔جس کی زبان شگفتہ، رواں اور دلچسپ ہے۔ یہ خاکوں کی کتاب ہے، جس کا نام ہے ”کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی“ اس کتا ب کو تحریر کیا ہے پروفیسر ابنِ کنول نے۔ مذکورہ کتاب میں ابنِ کنول نے اپنے دوستو، بزرگو اور اساتذہ کی شخصیت اور ان کے کارناموں کونہایت دلچسپ اور شگفتہ انداز میں پیش کیا ہے۔
راقم پروفیسر ا بنِ کنول کو بہترین افسانہ نگار مانتا ہے مگر نہیں پتہ تھا کہ ان میں شاندار انشائیہ نگار، خاکہ نگار اور مزاح نگار بھی موجود ہے۔
راقم کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ خاکہ کسی شخصیت کے علاوہ کسی ادارے پر بھی لکھا جا سکتا ہے۔ علی گڑھ کے’منٹو سرکل‘کو کون نہیں جانتا۔ ابنِ کنول نے اس پر خاکہ لکھ کر اُس کی اہمیت وافادیت میں اور بھی اضافہ کر دیا ہے۔
جب میں خاکہ ’داستان گو قاضی عبدالستّار‘ پڑھ رہا تھا تو میرے ذہن میں قاضی صاحب کے تعلق سے یہ بات گونج رہی تھی کہ وہ شہنشاہِ اسلوب تھے۔ الفاظ ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے اورکہتے تھے کہ’جہاں پناہ کو یہ اختیار ہے کہ وہ ان کا استعمال جیسے اور جہاں چاہیں کر سکتے ہیں۔ ابنِ کنول نے داستان گو کی داستان بیان کرتے ہوئے یہ ثابت کر دیا کہ ابن کنول لفظوں کے جادوگر قاضی عبدالستار کے شاگردِ عزیز ہی ہیں۔
آپ جب ان خاکوں سے روبرو ہوں گے تو پائیں گے کہ ابن کنول بھی لفظوں سے کھیلنا جانتے ہیں۔وہ لفظوں کو برتنا جانتے ہیں۔ اس شعر کے مصداق:
کہا دل نے میرے دیکھی جو وہ مانگ
کہ ہے یہ رات کچھ دعا مانگ
مذکورہ بالا شعر میں جس طرح صنعتِ تجنیس کا استعمال ہوا ہے۔ لفظ’مانگ‘ سے شاعر نے دونوں مصروں میں الگ الگ معنی اخذ کیے ہیں۔ابن کنول بھی اس کتاب میں لفظوں کے ہیر پھیر سے قاری کے چہرے پر بہت سنجیدگی کے ساتھ شگفتگی لانے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔
تنویر احمد علوی کی شخصیت پر لکھا خاکہ ’حکیم الادب: تنویر احمد علوی‘ میں وہ رقم طراز ہیں:
”۔۔۔۔شوق اور عشق تو قید و بند ہو یا دیوبندکسی کی پرواہ نہیں کرتا۔دیواریں پھاند جاتا ہے، پہاڑوں میں نہریں نکلالتا ہے۔“
ان خاکوں میں آپ کو کہیں کہیں بہت ہی نفاست و شائستگی کے ساتھ طنز کے نشتر ملیں گے جو کئی سنجیدہ مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور آُ پ کے چہرے ہر شگفتگی پھیل جاتی ہے:
” وہ (تنویر احمد علوی) ہر طالب علم کی مدد کرتے تھے، خواہ وہ ان کی نگرانی میں ہے یا نہیں۔ انھیں علم تقسیم کرنے کا شوق تھا، یہ وہ کرتا ہے جس کے پاس یہ دولت ہوتی ہے۔“
ساتھ ہی اس جملے پر بھی غور فرمائیں:
”ڈاکٹر تنویر احمد علوی کو(والد صاحب نے) دیوبند بھیج دیا تھا، لیکن وہاں کا دیو علوی صاحب کو بند نہ کر سکا۔“
اسی طرح مصنف نے اپنی شگفتہ بیانی سے کام لیتے ہوئے نہایت سلیقے اور خوبصورتی کے ساتھ گوپی چند نارنگ جیسی شخصیت کو بھی نشانہ بنا لیا ہے۔ لکھتے ہیں:
”نارنگ صاحب علی سردار ی جعفری اور خورشیدالاسلام کی طرح تقریر بہت اچھی کرتے ہیں اور بہت طویل بھی کرتے ہیں۔
انھیں سننے کے بعد لوگ کسی اور کو نہیں سنتے یا سننے لائق نہیں رہتے۔‘‘
ابن کنول کی شخصیت اور مزاج حقیقت پسند اور صاف گو ہیں۔ جو بات بھی ان کوصحیح لگتی ہے، زبان پر آجاتی ہے۔ اسی وجہ سے ان خاکوں میں آپ کو ایمانداری، سچائی اور صاف گوئی کی جھلک نظر آئے گی۔گوپی چند نارنگ کی شخصیت پر لکھے گیے خاکے میں ان کی شخصیت کے تعلق سے فرماتے ہیں:
”پسند نا پسند ہر شخص کی ہوتی ہے۔ ہم بھی اگر اس عہدے پر ہوتے تو اپنی مرضی کے کنوینر بناتے اور اپنے چاہنے والوں
کو ایوارڈ سے نوازتے۔ یہ تو انسانی فطرت ہے۔ اس کی شکایت غیر انسانی ہے۔“
ایسے ہی نجانے کتنے جملے اور خیالات آپ کو اس کتاب میں ملیں گے۔ملاحظہ فرمائیں:
”کبھی کبھی بڑا تخلیق کار یونیورسٹیوں میں آکر مر بھی جاتا ہے۔سچی تخلیق نوکری جیسی پابندی میں رہ کر مشکل سے
ہی سے ہوپاتی ہے۔اچھا ہوا غالب نے دلّی کالج میں نوکری نہیں کی۔“
پروفیسر خواجہ اکرام کے تعلق سے فرماتے ہیں:
”خواجہ اکرام الدین کے شوق اور جوش کو دیکھ کر اوپر والے نے اور نیچے والی سرکار نے قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان
کی ڈائریکٹر شپ عطا کر دی۔“
ابنِ کنول ایک خاکے میں اردو والوں کے آپسی جھگڑوں اور غیبت کے تعلق سے لکھتے ہیں:
”اب کم عمر اساتذہ کو ہی ہم عمر سمجھ کر تھوڑا بہت مذاق اور تھوٖڑی بہت غیبت کرنی پڑتی ہے۔دونوں چیزیں صحت کے لیے بہت ضروری ہیں۔غیبت کے لیے ضروری ہے کہ آدمی بھروسے مند ہو اب تو ایسا وقت آ گیا ہے کہ غیبت کے لیے قابلِ اعتبار لوگ موجود نہیں ہیں۔“
مجموعی طور پر یہ کتاب نہایت دلچسپ ہے۔ قاری کو بھر پور لطف فراہم کرتی ہے۔ ایسا نہیں لگتا کہ قاری کا وقت خراب ہوا ہے یا اسے ٹھگا گیا ہے۔
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |