مولانا امتیاز علی خاں عرشی اردو ادب میں ایک مایہ ناز محقق کی حیثیت سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ لیکن انھوں نے دشت غزل کی بھی سیر کی ہے، یہ الگ بات ہے کہ یہ گوشہ گفتگو اور تنقیدی نظر سے اب بھی پاک ہے۔ ان کا کوئی شعری مجموعہ یا انتخاب ان کی زندگی میں نہیں چھپا بلکہ اس مضمون کے ضبط تحریر میں آنے تک بھی نہیں چھُپا۔ یہ تو ڈاکٹر اسلم جمشید پوری کا لطف خاص ہے کہ انھوں نے عرشی صاحب کی چند غزلیں مجھے فراہم کردیں وگرنہ میں یہ مضمون بھلا کیسے لکھ پاتا۔
امتیاز علی عرشی کو بچپن ہی سے شعری ذوق تھا بلکہ یوں کہیں کہ فطری طور پر وہ ایک شاعر کا مزاج اور مادہ لے کر پیدا ہوئے تھے۔ بقول مالک رام انھوں نے ۱۱،۱۲ برس کی عمر میں رام پور کے مشہور ڈاکو بھین خاں پر ایک مضمون یا خاکہ تحریر کیا تھا جس میں ان کے کچھ اشعار بھی تھے ایک شعر یہاں ملتا ہے جو اس طرح ہے:
چھوڑ دو لہو لعب، مشغول ہو علم و ادب
علم کے تم یہ مزے، اے صاحبو، پاؤ گے سب
ظاہر ہے کہ اس شعر میں کوئی بات نہیں اور اگر بات ہے تو شعریت نہیں۔ مگر اس کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ عرشی میں شعر گوئی کا مادہ ضرور تھا۔ ان کے اس ذوق کو مدرسہ مطلع العلوم میں جلا ملنے کے بجائے دبایا بھی گیا اور انھیں مولانا ہزاروی کی چشم نمائی کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ لیکن یہ مادہ باہر آکر تاجؔ تخلص کے ساتھ پروان چڑھا۔ شعرگوئی میں انھیں اپنے ماموں احمد جان خان اثرؔ سے حوصلہ افزائی ملی۔ اثرؔ صاحب پیشے سے وکیل تھے اور عرشی کی اس صلاحیت کو پروان چڑھانا چاہتے تھے۔ لاہور میں انھیں عندلیب شادانی کا ساتھ بھی ملا جس کے سبب ان کا شعری ذوق مزید بالیدہ ہوا۔ امتیاز علی تاج کی شہرت اس زمانے میں عام ہوچکی تھی اس لیے انھو ںنے اپنا تخلص تاجؔ سے بدل کر عرشی کرلیا جو سکۂ رائج الوقت کی طرح آج بھی ادب کے ہر ایک طالب علم کی زبان پر جاری و ساری ہے۔ ( یہ بھی پڑھیں شمس الرحمن فاروقی کا مضمون ’کیا نظریاتی تنقیدممکن ہے؟‘- پروفیسر کوثر مظہری )
عرشی کی جتنی غزلیں میں نے دیکھی اور پڑھی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے افکار اور اسلوب پر مرزا غالب بہت حد تک اثرانداز رہے ہیں۔ چوں کہ انھوں نے مرزا غالب کے شعری اسالیب اور فنی جہات کو اپنے مطالعے کا حصہ بنا لیا تھا اس لیے نامعلوم طور پر عرشی کے افکار و اسالیب غالب سے ہم آہنگ ہوتے چلے گئے۔ آئیے غالب ہی کی زمین میں کہی گئی غزل (۲۲؍دسمبر ۱۹۵۶ء) کے تین شعر دیکھتے ہیں:
رات دن پھرتے رہے ہیں تنِ تنہا برسوں
پوچھیے ہم سے بیاباں کا بیاباں ہونا
لوحش اللہ مرے دست جنوں کی تدبیر
کتنا پُرکیف ہے دامن کا گریباں ہونا
شدت درد کا خوگر ہوں میں عرشیؔ مجھ کو
کچھ بھی دشوار نہیں غرقِ نمکداں ہونا
غالب کے اشعار ہمارے سامنے ہیں۔ رنج کا خوگر یا درد کا خوگر عرشی کی شاعری میں وہیں سے آیا ہے۔ یہاں تک کہ غالب کی ترکیب ’غرق نمکداں‘ بھی استعمال ہوئی ہے۔ توحش اللہ، بھی وہیں سے مستعار ہے۔ غالب کا شعر ہے:
عشرت پارۂ دل، زخم تمنا کھانا
لذتِ ریش جگر، غرقِ نمکداں ہونا
دامن کا گریباں ہونا بھی غالب کے عملِ جنوں رنگ کا نتیجہ ہے۔ البتہ عرشی صاحب کا شعر اول:
رات دن پھرتے رہے ہیں تنِ تنہا برسوں
پوچھیے ہم سے بیاباں کا بیاباں ہونا
دل چسپ اور لائق توجہ ہے۔ ’بیاباں کا بیاباں ہونا‘ شدت احساس کا اشاریہ ہے۔ اگر تساہل سے کام لیں تو بیاباں کا بیاباں ہونا محض ایک Statement ہے اور اگر اس کی قرأت ذرا ٹھہرکر کی جائے یا یوں کہیں کہ Close reading کی جائے تو معانی کی پرتیں کھلتی چلی جائیں گی۔ ( یہ بھی پڑھیں محمد حسن کا مضمون ’سچی جدیدیت، نئی ترقی پسندی‘ بازدید- پروفیسر کوثر مظہری )
عرشی کی غزلوں میں جابجا ایسے رموز پنہاں ہیں جن تک رسائی حاصل کرنے کے لیے بصیرت کی ضرورت ہے۔ کہیں کہیں تلمیحاتی و استعاراتی نکات سے ان کی تخلیق بلندیٔ فن پر نظر آتی ہے۔ یہ اشعار دیکھیے:
پھر اوج پر ہے طالعِ منصور ان دنوں
پھر ہورہا ہے عشق سرا فراز دیکھنا
تلاشِ آہوے رم خوردہ، اے خوشالذت!
جو آپ دام میں آجائے وہ شکار ہی کیا
کوہکن کے بعد بس ہم نے بہائی جوئے خوں
لوگ سمجھے تھے کہ یہ فنِ شریفانہ گیا
طالعِ منصور کی سرفرازی اور کوہکن کے بعد عرشی کا جوئے خوں بہانا اور اسے فن شریفانہ سے موسوم کرنا تلمیح اور شدید طنز اور فزونی عشق کو ظاہر کرتا ہے۔ کوہکن نے جوئے شیر نکالی تھی لیکن جناب عرشی نے غالب سے الگ ہٹ کر جوئے خوں کی بات کی۔ غالب نے کہا تھا:
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
غالب کے نزدیک جوئے شیر لانا ہی انتہائی عشق کا غماز ہے۔ جب کہ عرشی نے اس سے دو قدم آگے بڑھ کر جوئے خوں کی بات کی ہے اور اس میں ایک طرح کا وقار عشق بھی ہے۔ عرشی نے سستا شعر نہیں کہا ہے۔ ’فن شریفانہ‘ میں جو طنزیہ حس مزاح ہے وہ فنی چابکدستی پر دال ہے۔ ایک بات اور صاف ہوجاتی ہے کہ شاعر بھی آدم زادہ ہے اور وہ خواہ ذات شریف ہی کیوں نہ ہو غزل اسے اپنی گرفت میں لے کر جذباتِ انسانی سے ہم آمیز کرہی دیتی ہے۔ تہذیبی قیود سے آزاد ہوکر غزل کی تہذیب تشکیل پاتی ہے۔ یہی تہذیب غزل عرشی کے یہاں دیکھنے کو ملتی ہے جو سچے جذبات کی سچی عکاسی کرتی ہے۔ تمام تر تہذیبی عوامل کو سمیٹ کر غزل کے فن میں سمو دینے کا کام اردو شاعری میں غالب کے یہاں انجام پذیر ہوا۔ عرشی اسی غالب کے خوشہ چیں ہیں۔ اس لیے ان کی غزلوں میں بھی انسانی جذبات اور تہذیبی عوامل کے موتی چمکتے نظر آتے ہیں۔ دیکھیے یہ اشعار:
یاد ہے مجھ کو ابھی تک کسی در پر گرنا
وہ بھی اک بار نہیں بلکہ برابر گرنا
تمکینِ عز و ناز سے اٹھتی نہیں نگاہ
اللہ رے نزاکتِ حسن و جمالِ دوست
ہم سے احسان مسیحا نہیں اٹھتا عرشی
آج تو درد ہی کچھ درد کا درماں ہوتا
گردش دہر نے مہلت ہی نہ دی مجھ کو کبھی
ورنہ یاروں کے لیے میں بھی گلستاں ہوتا
عشق ہماری جبلت سے تعلق رکھنے والی کیفیت کا نام ہے۔ پورے وجود میں عشق کی موسیقی سے ہلچل سی پیدا ہوجاتی ہے۔ عشق سے ہی تہذیب زندگی کی بساط تیار ہوتی ہے۔ عرشی اگر ایک طرف عشق کو بربادی کا موجب قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف محبوب کے چلے جانے سے پیدا ہونے والے خالی پن کا اظہار بھی وہ شدت سے کرتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جیسے کائنات ہی سونے پن کا شکار ہوگئی ہے:
بزمِ مے سے اس کے اٹھتے ہی نظر آنے لگا
جیسے اُس کے ساتھ میخانے کا میخانہ گیا
عرشی نے اپنی غزلوں میں جگہ جگہ سوز دل سے اپنے احساس کو گرمی پہنچائی ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ سوز کے بغیر شاعری میں جذبات کی سچی عکاسی نہیں ہوسکتی اور اگر عکاسی ہوگی بھی تو اس میں اثرانگیزی کے بجائے پھیکے پن کا پہلو نمایاں ہوگا۔ ان کے سامنے غالباً علامہ اقبال کا یہ نظریہ بھی ہو کہ:
حق اگر سوزے ندارد حکمت است
شعر می گردد چو سوز از دل گرفت
یا پھر علامہ اقبال ہی کا یہ نظریہ فن کہ:
معجزۂ فن کی ہے خون جگر سے نمود
خون جگر جہاں پیکر خلق کرنے میں معاون ہوتا ہے سوز انسانی جذب و کیف کو اثرخیزی کی صفت سے مزین و معمور کرنے کا کام کرتا ہے۔ عرشی کی غزلوں میں محض تجربے کے طور پر مضامین نہیں آئے ہیں بلکہ ان میں خون جگر اور سوز دونوں موجود ہیں۔ یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:
نگاہ ناز نے تعلیم ضبط کی کتنی
مگر مریضِ غمِ عشق آہ کرکے رہا
میں نے مانا کہ ہے تو بستۂ زنجیر قضا
راستہ ڈھونڈ مگر پھر بھی نکل جانے کا
تار باقی ہیں جو دوچار گریباں میں مرے
ٹوٹ جائیں نہ کہیں تارِ رگِ جاں کی طرح
جاگا جو اس کو بھول کے وہ خواب میں رہا
سویا کیا جو یاد میں، بیدار ہوگیا
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ عرشی نے محض ظواہر اور خارجی عوامل کو برتنے کے لیے غزلیں نہیں کہی ہیں بلکہ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ان کی فکری بنیادیں محض تخیل آسمانی کا زائیدہ نہیں ہوسکتیں۔ اگر ایسا ہوتا تو غالب یا مومن کے اسلوب اور انداز بیان کی پیروی میں ان کی شاعری صرف نقالی ہوکر رہ جاتی، جب کہ ایسا نہیں ہے۔ مضامین اور اسالیب یا لفظیات کا مستعار لینا بھی کوئی عیب نہیں، اصل چیز یہ ہے کہ شاعر اس کے باوجود تنوع اور جدت کس حد تک پیدا کرپاتا ہے۔ عرشی نے غالب اور طرزِ غالب یا پھر مومنؔ اور فانیؔ وغیرہ سے استفادہ کیا۔ غالب نے بھی بیدل اور میر سے استفادہ کیا تھا، میر نے بھی بیدل، سعدی، نظیری، حافظ، محسن، فانی کاشمیری وغیرہ سے استفادہ کیا۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس عمل سے غالب یا میر کی تخلیقی قوت ماند نہیں پڑی بلکہ مزید صیقل ہوئی۔
عرشی کی غزلوں میں کلاسیکی اور روایتی رنگ غالب ہے۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ شعورِ انسانی جب اپنی روایات اور اپنے تہذیبی سرمائے سے منہ موڑلیتا ہے تو گمرہی اس کے قدموں کو اسیر کرلیتی ہے۔ عرشی صاحب کی تنقید و تحقیق سے قطع نظر ان کی غزلوں کو بھی سچی تنقیدی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ اشعار دیکھیں اور سوچیں کہ ان کا رشتہ ہماری زندگی اور ہمارے جذبات سے ہے یا نہیں؟ کیا یہ اشعار تہذیبی کُرے سے ہم آہنگ ہیں؟
شبابِ عمر دو روزہ کا اعتبار ہی کیا
چمک کے ساتھ جو بجھ جائے وہ شرار ہی کیا
جم کو بھی آج ناز ہے جامِ سفال پر
عرشیؔ، نیاز فقر کا اعزاز دیکھنا
غم جاناں جو نہیں ہے، غم دوراں ہوتا
کاش یہ دل کس صورت سے پریشاں ہوتا
دیتے نہیں جواب تو ہم سے کریں سوال
کچھ کم جواب سے نہیں ہم کو سوالِ دوست
مذکورہ بالا اشعار میں جو فکری ابعاد ہیں اور عشق بتاں اور جمال محبوب، فقر و غنا اور غم جاناں و غمِ دوراں کا جس طرح ذکر ہوا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عرشی تہذیب غزل سے اپنی افتاد طبع کو ہم آہنگ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو شاید ان کی شاعری صرف منہ کا مزا بدلنے کے مصداق حوالے کے طور پر تاریخ شعر و ادب کا حصہ بن جاتی۔ حالاں کہ ان کی شاعری کے حوالے سے اب تک کی یہی صورت حال ہے۔ اس میں خود ان کا بھی قصور ہے۔ میں اس قصور کو کسر نفسی پر محمول کرتا ہوں۔ ان کا ماننا تھا کہ:
’’اساتذہ کا کلام پڑھ پڑھ کر ذوق شعری کچھ ایسا بلند ہوگیا ہے کہ مجھ میں ویسا کلام کہنے کی صلاحیت نہیں اور چوں کہ خود اُس درجے کا شعر کہہ نہیں سکتا، پھر اِس کلام کی اشاعت سے کیوں اپنے آپ کو بدنام کروں۔‘‘ ۱؎
عرشی نے وارداتِ قلبی اور اپنے تجربات میں ایک طرح کا خوب صورت تطابق و تناسب برقرار رکھا ہے جس کے سبب ان کی غزلوں میں انتشار کے بجائے اسلوب و افکار کی موزونی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اپنی بات اصغر گونڈوی کے اس شعر پر ختم کرتا ہوں:
اصغرؔ غزل میں چاہیے وہ موج رندگی
جو حسن ہے بتوں میں جو مستی شراب میں
(عرشی میموریل سمینار، ۲۵، ۲۶فروری ۲۰۰۵ء، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |