حضرت مولانا محمد محفوظ الرحمن نامی نور اللہ مرقدہ [۱۹۱۱ء-۱۹۶۳ء] دوقومی نظریے کے مخالف اور متحدہ قومیت کے حامی تھے، وہ جمعیت علمائےہند اور کانگریس سےوابستہ تھے۔ مگر آزادی وطن کے موقع پرمسلم لیگ کی سیاستِ بدکےنتیجہ میں ملک تقسیم ہوا, بعد میں جب ملک کی تقسیم کی قباحتیں آشکارا ہوئیں،تو اس کےنتیجہ میں ہندستان میں مسلم حقیراقلیت ہوکررہ گئے, چنانچہ اکثریت کارویہ اقلیت کےساتھ جوہوتاہےوہ بدلتے ہوئے حالات میں دیکھاگیا ایسے حالات میں مولانانامیؒ حکومت کی پالیسیوں سے واقف ہوئے تو فکرمند اور بے چین ہو گئے، انھوں نے یہ بات شدت سے محسوس کی کہ ملک جس رخ پر جا رہا ہے وہ انتہائی خطرناک ہے ، اگر بر وقت مداوا نہ کیا گیا اور مسلمان خواب غفلت میں سوتے رہے تو یہ آئندہ نسلیں کےلیےاچھانہ ہوگا۔
تقسیم ملک کے بعد کے پیدا ہونے والے حالات کی سنگینی نے ان کی نیند اڑا دیں اور انھوں نے مسلمانوں کے دین و ایمان کے تحفظ ، ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ اور بحیثیت مسلمان فلاح و بہبود کے لیے ایک سہ نکاتی پروگرام کا خاکہ ملت کے سامنے پیش کیا ، اور بعض کے عملی تجربات بھی کیے ، مگر افسوس کہ وقت نے انھیں زیادہ مہلت نہ دی اور ان کے تجربات کا تسلسل قائم نہ رہ سکا ، مولانا پر افکار و اشغال کا ہجوم اور اخیر عمر میں فالج کے حملہ کی شدت اور طوالت کے سبب وہ یکسوئی کے ساتھ دیر تک اس کو جاری نہ رکھ سکے ، کاش ان تجربات کا امتداد قائم رہتا تو بدلے ہوئے بھارت میں مسلمانوں کی فلاح کے لیے ایک نیا نظام متعارف ہوتا۔اور مسلمانوں کے حالات آج سے بالکل مختلف ہوتے۔
اپنے سہ نکاتی پروگرام کے سلسلہ میں مولانانامیؒ فرماتے ہیں’’دین کے خلاف جتنے طوفان اٹھ رہے ہیں، ان کا شکوہ لا حاصل ہے، کیوں کہ انقلابی اور لا دینی اسٹیٹ میںیہی سب کچھ ہوتا ہے، ہم کو اگر دین عزیز ہے تو اس کی بقا اور ترقی کے لیے ہم کو خود اٹھنا پڑے گا، خدا کے لیے اٹھیے اور اولین فرصت میں ان تین کاموں کو شروع کر دیجیے‘‘۔[1]
۱۔ تعلیم قرآن مجید
تعلیم قرآن مجید کے متعلق مولانانامیؒفرماتے ہیں’’اپنی اپنی بستی اور بستی کی ہر مسجد میں مرکز تعلیم قرآن قائم کیجیے ، جس میں بچوں اور بالغوں کو قرآن پاک کی تعلیم اس طرح دی جائے کہ وہ قرآن سمجھنے کے قابل ہو جائیں‘‘۔[2]
مولانا نامیؒ نے ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کے لیے پہلے نمبر پر تعلیم قرآن مجید پر زور دینے کی بات کی ہے ، تعلیم قرآن مجید کی جو تجویزمولانا نامیؒ نے پیش کی وہ کیوں پیش کی اس کے جاننے سے پہلے یہ جاننا انتہائی ضروری ہے کہ مولانا نامیؒ نے تعلیم قرآن کا جو تخیل پیش کیا تھا وہ کوئی نیا تخیل نہیں تھا ، بلکہ یہ وہی تخیل ہے جس کے مطابق قرن اوّل میں قرآن پڑھنے اور پڑھانے کا رواج تھا ، قرن اوّل میں قرآن بغیر سمجھے نہیں ہڑھا پڑھایا جاتا تھا ، بلکہ اس کے لیے فہم و تدبر ضروری تھا ، اسی لیے صحابہ کرام ، ایمان و اخلاق ، اخلاق و عمل میں انفرادی اور جماعتی طور پر قرآن پاک کے سانچے میں ڈھل گئے تھے ، اس کے برعکس آج کل ہمارے یہاں محض الفاظ کے پڑھا دینے کو تعلیم قرآن کا نام دیا جاتا ہے ، اور اس کے سمجھنے کو ضروری نہیں قرار دیا جاتا ، جس کا نتیجہیہ ہوا کہ امت مسلمہ سے اسلام کی اصولی زندگی بالکل اوجھل گئی اور وہ امت جو عالم انسانیت کی فلاح کے لیے پیدا کی گئی تھی ، آج خود اپنی فلاح کے لیے اس کے نہ ہییہ مرکزی اصول ہیں اور نہ ہی اسوہ نبوی۔[3]
رہا یہ سوال کہ تعلیم قرآن مجید کی تجویز کیوں پیش کی تو اس کا جواب یہ ہے کہ مولانا نامی نے تعلیم قرآن مجید کی تجویز حکومت کے ’’لازمی تعلیم‘‘ اسکیم کی سمیت کو ختم کرنے کے لیے پیش کی تھی۔مولانا نامیؒ لکھتے ہیں’’ یہ سبھی کو معلوم ہے کہ ہماری حکومت ، جمہوری ہے۔ اور اس کا فرض ہے کہ ہر باشندہ ملک کو خواندہ بنائے اور اسی لیے حکومت کی طرف سے کم از کم ابتدائی تعلیم تو لازمی ہو جاتی ہے ، جس کے رو سے ۶سے ۱۱ برس تک کےبچوں اور بچیوں کا تعلیم پانا ضروری ہوتا ہے ، یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص اپنے بچے کو پڑھنے سے روک لے ، اگر کوئی اپنے بچہ کو نہیں پڑھائے گا تو اسے لازمی تعلیم کے قانون توڑنے کی سزا بھگتنی پڑے گی…اب دوسری طرف اس کے اثرات پر نظر ڈالیے ،تعلیم کا ماحول سراسر غیر اسلامی ہے ، عموماً معلمین یا تو غیر مسلم ہیںیا ایسے مسلم جن کی وضع قطع ، گفتار و کردار سے ان کو مسلمان سمجھنا بھی دشوار ہے ، زبان تو بدل ہی دی گئی ہے ، مضامین بھی چھانٹ چھانٹ کے ایسے رکھے گئے ہیں ، کہ بچوں کے دل و دماغ پر غیر اسلامی رنگ چھا جائے ، ادھر بچے سادہ طبیعت ہیں ، جو نقش ابھی ان کی طبیعت پر بٹھلایا جائے گا وہی پختہ ہو جائے گا ، اور آگے چل کر وہی ان کا عقیدہ بن جائے گا ، لہذا ہماری موجودہ جمہوری تعلیم سے صرف یہ اندیشہ نہیں ہے کہ ہمارے بچوں کی صرف زبان بدل جائے گی۔ان کی ظاہری شکل و صورت کچھ اور ہو جائے گی ، ان کے اخلاق و عادات پر موجودہ زمانے کا رنگ چڑھ جائے گا ، بلکہ اصل خطرہ یہ ہے کہ ان کا ایمان بدل جائے گا ، ان کے اسلامی عقائد بدل جائیں گے۔ توحید ، خدا تعالی کی بندگی ، ایمان بالاخرت ، اتباع رسول ، ان کے نزدیک سب بے معنی ہو جائیں گے ، یہ ہیں اس غیر مذہبی تعلیم کے یقینی اثرات‘‘ ۔[4]
غیر مذہبی تعلیم کے پھیلاؤ اور اس کے زہریلے اثرات کو ختم کرنے کے لیے وہی نظام کامیاب ہو سکتا تھا ، جو ایک طرف اپنی کشش اور مقبولیت کی بنا پر غیر مذہبی تعلیم کی طرح عام ہو سکے ، دوسری طرف اپنی فطری تاثیر کی وجہ سے دل و دماغ پر نہایت گہرے اثر ڈال سکے ۔ (یہ بھی پڑھیں تخلیق کائنات کی حقیقت سائنس اور مذہب کے تناظر میں – ڈاکٹر انیس الرحمن)
ظاہر ہے کہ نظام تعلیم قرآن مجید ہی وہ نظام تعلیم ہے جو ان دونوں خصوصیات کا حامل ہے ، چنانچہ مولانا نامیؒ تحریر کرتے ہیں’’ایک طرف تو عموماً مسلمانوں میں اس کی تعلیم کا شوق باقی ہے ۔شہری ہو یا دیہاتی ، امیر ہو یا غریب ہر مقام اور ہر طبقہ کا مسلمان یہ چاہتا ہے کہ اس کا بچہ کم سے کم قرآن شریف پڑھ لے بغیر کسی خاص نظام کے آج بھی قرآن پاک پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ ہر مسلم آبادی میں جاری ہے، لہذا اسی ذوق کی وجہ سے قرآن کے نام پر ہمہ گیر تعلیمی نظام قائم ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف مسلمان کا ایمان ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے ، اور اس کی ہر بات بالکل سچی ہے ۔لہذا قرآن کا جتنا حصہ بھی سمجھ کر پڑھے گا ، قدرتی طور پر ذہن و دماغ اس کا اثر قبول کرے گا ، اگر صرف توحید خدا، اطاعت رسول اور اوامر و نواہی کی آیات کا ہی ترجمہ ذہن نشین ہو جائے گا ، تو دین کی بنیادی باتوں سے ایک خاص لگاؤ پیدا ہو جائے گا ۔ اس کے بعد غیر مذہبی کتابوں میں اگر ایسی باتوں کی تعلیم دی بھی جائے گی ، جو توحید و رسالت اوامر و نواہی کے خلاف ہوں گی تو انھیں ذہن قبول نہ کرے گا۔کیوں کہ یہ ایک فطری امر ہے کہ انسان اپنے عقیدہ کے خلاف باتوں کو نہیں مانتا ہے۔ لیکن جو شخص خالی الذہن ہے غلط نظریات اور باطل عقائد اس کے دل و دماغ میں بٹھائے جا سکتے ہیں۔ بہر حال قرآن ہی سے غیر مذہبی تعلیم کے زہروں کا تریاق مہیا ہو سکتا ہے‘‘۔[5]
واضح رہے کہ ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ اور فلاح و بہبود کے لیے فہم قرآن کے ساتھ تعلیم قرآن ضروری اور لابدی تو ہے، مگر اسی پر اکتفا نہیں کیا جاسکتا ، اسی کو کافی سمجھنا ایک صریح غلطی ہوگی ، بلکہ تعلیم قرآن کو سر عنوان بنا کر اس کے ساتھ ساتھ سیرت ، تفقہ فی الدین کے تمام علوم ، اس سے آگے بڑھ کر علوم حاضرہ بھی انتہائی ضروری ہے۔مولانا نامیؒ لکھے ہیں’’لیکن اس مقام پر یہ سمجھنا کہ بس اتنی ہی تعلیم مکمل ملی تعلیم ہے ، نہیں یہ تو ہماری نظری تعلیم کی بنیاد ہے۔اس کے علاوہ سیرت مبارکہ کی تعلیم ، معارف دین اور تفقہ فی الدین کے لیے جو علوم ہمارے مدارس میں میں پڑھائے جاتے ہیں ان کی ضرورت اپنی جگہ مسلم ہے۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر علوم حاضرہ کی ضرورت کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں بھی اپنے نظام تعلیم کا ایک اہم حصہ قرار دینا چاہیے ، تاکہ ہم اپنے اداروں میں ایسی جامع سیرت ملی کی تعمیر کر سکیں جو ایک طرف موجودہ دنیا کے الجھے ہوئے مسائل میں پوری بصیرت و حکت کے ساتھ رہنمائی کر سکے ، تو دوسری طرف دین انسانی ، اسلام کو عالم گیر کرنے میں غزالی و رازی کی نیابت کر سکے‘‘۔[6]
۲۔ اقامت صلوۃ
اقامت صلوۃ کے سلسلہ میں مولانا نامی فرماتے ہیں’’اپنی بستی میں تحریک اقامت صلوۃ پوری قوت سے چلائیے کہ سات برس کے بچوں سے لے کر بوڑھوں تک پابند نماز ہو جائیں اور مسلمانوں کی زندگی کا مرکز مسجد بن جائیں‘‘۔ [7]
اقامت صلوۃ کے حوالے سے مولانا نامیؒ نے دو باتیں ذکر کی ہیں ، ایکیہ کہ سات برس کے بچے سے لے کر بوڑھوں تک کو پابند نماز بنانے کی فکر کی جائے، اس کے ذریعے مولانا نامی ملت اسلامیہ کو اجتماعیت کے ساتھ زندگی گزارنے کا مشورہ دے رہے ہیں، کیوں کہ اقامت صلوۃ کا مطلب جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا ہے، اور جماعت کا ایک اصول یہ ہے کہ وہ بغیر امام کے معتبر نہیں اور امامت کا معیاریہ ہے کہ امام علم فہم اور تقوی میں ممتاز ہو، جماعت کا یہ اصول عمومی زندگی کے انضباط اور ارتباط کا مطالبہ کرتا ہے اور ایک متحدہ جماعتی زندگی میں گزارنے کا محرک بن جاتا ہے ، ارشاد ربانی ہے۔ترجمہ :نماز قائم کرو اور ان مشرکوں میں سے نہ ہو جاؤ جنہوں نے اپنا اپنا دین الگ بنا لیا ہے اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں ( روم ، آیت نمبر ، 32) پانچ نمازوں کے علاوہ ایک نماز جمعہ ہے ، یہ ہفتہ کی عید ہے ، اسی لیےکسی مسجد میں ادا کی جاتی ہے ، یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہر چھوٹی اجتماعیت بڑی اجتماعیت کا حصہ اور اس سے ہم رشتہ ہوتی ہے، جمعہ کی نماز سے پہلے امام خطبہ دیتا ہے جس میں دینی احکام، حالات کے پیش نظر مسلمانوں کی ذمہ داریوں اور مسائل و مشکلات پر قرآن و سنت سے روشنی لی جاتی ہے ، گویا نماز اجتماعی زندگی کو مستقیم نہج عطا کرتی ہے ۔
دوسرے یہ کہ اقامت صلوۃ کے ذریعے مولانا نامی مسجد کی مرکزیت کو برقرار رکھنے کی نہ صرف دعوت دے رہے ہیں بلکہ چیخ چیخ کر بزبان حال یہ کہ رہے ہیں کہ ملت اسلامیہ کی سالمیت اور فلاح کے لیے مسجد کو مرکز بنا کر مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل مسجد سے تلاش کرنا انتہائی ناگزیر ہے ۔
در اصل ہمارے معاشرے میں مسجد کا استعمال صرف اور صرف نماز کی ادائیگی کے لیے ہوتا ہے ، حالانکہ رسول اللہ کے زمانے میں مسجد صرف نماز ادا کرنے کے لیے نہیں تھی بلکہ وہیں رسول اللہ کی مجلس شوری کا اجلاس بھی ہوتا تھا ، وہاں ایک طرف تو مجاہدین اسلام جنگی مشقیںیعنی فوجی پریڈ کرتے تھے ، تو دوسری طرف جنگی قیدیوں کو وہاں لاکر باندھا بھی جاتا تھا ، وہاں سے میدان جنگ پر جانے والوں کو ہدایت بھی دی جاتی تھی اور حاکموں اور عمال کے نام فرامین بھی جاری ہوتے تھے ، وہاں مال غنیمت کی تقسیم اور احتساب کا عمل بھی ہوتا تھا ، حتی کہ خلفائے راشدین کے دور میں دوسرے ملکوں سے آنے والے سرکاری وفود کا استقبال بھی مسجد میں کیا جاتا تھا۔
مولانا نامیؒ کی خواہش یہی ہے کہ مسجد کو مسلمانوں کا مرکز بنا دیا جائے، ہر مسلمان کا اس سے براہ راست تعلق پیدا کر دیا جائے ، اور پھر اسی مسجد سے ان کے تعلیمی ،مذہبی ،فکری،سماجی ،معاشرتی ،معاشی ، اقتصادی اور سیاسی ہر طرح کے مسائل حل کیے جا سکیں۔
۳۔بیت المال
بیت المال کے قیام کے سلسلے میں مولانا نامیؒ فرماتے ہیں’’اپنی بستی میں بیت المال ضرور قائم کیجیے ، جس کے لیے مستقل اور ہنگامی چندے کیجیے ، بقدر ضرورت مسلمان صدقات و زکوۃ کی رقمیں اس میں جمع کریں ، محلہ کے ہر گھر میں ہانڈیاں رکھ دی جائیں ، تاکہ کھانا پکاتے وقت اس میں ایک چٹکی غلہ اس میں ڈال دیا جائے اسے ہفتہ وار اکٹھا کر لیا جائے ، اور فروخت کرکے اس کی رقم بھی بیت المال میں جع کر دی جائے ، دوکانوں پر ڈبے رکھوا دیے جائیں کہ دوکاندار روزانہ ایک پیسہ اس میں ڈال دیں، بیت المال ہی کے ذریعے آپ اپنی مذہبی تعلیم اور دین کے تمام کاموں کا انتظام کر سکتے ہیں‘‘۔ [8]
اسلام کے معاشی نظام کی اساس ’’بیت المال‘‘ پر ہے جس کا بنیادی تصور یہ ہے کہ معاشرہ کے نادار، معذور، مستحق اور ضرورت مند افراد کی کفالت کا ریاستی سطح پر اہتمام کیا جائے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اس کا دائرہ یہ تھا کہ زکٰوۃ، عشر، خراج اور جزیہ وغیرہ کی رقوم آنحضرتؐ کے پاس جمع ہوتی تھیں اور آپؐ ان سے ضرورت مندوں، ناداروں اور بے سہارا لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ مجاہدین اور بیت المال کے لیے کام کرنے والوں کو بھی وظیفے دیتے تھے۔ قرآن کریم نے اس سلسلہ میں اصولی ہدایات اور طریق کار کا ذکر کیا ہے لیکن آنحضرتؐ چونکہ خود بحیثیت ’’رسول اللہ‘‘ اتھارٹی تھے اس لیے آپؐ کا فیصلہ اور عمل ہی حتمی ہوتا تھا اور بیت المال کے لیے تفصیلی قواعد و ضوابط طے کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی۔ بیت المال کو باقاعدہ ایک ادارہ کی شکل دینے اور اس کے قواعد و ضوابط طے کرنے کی نوبت حضرت عمرؓ کے دور میں آئی جبکہ حضرت ابوبکرؓ کا دور خلافت اس سلسلہ میں ایک ارتقائی مرحلہ تھا۔
چونکہ مولانا نامیؒ کے اس سہ نکاتی پروگرام کا لب لباب مسلمانوں کے اندر عقائد کی پختگی بنیادی دینی علم حاصل کرنا نیز اجتماعیت اور اتحاد و تنظیم کے ساتھ زندگی بسر کرنے پر زور دینا ہے ، اس لیے انھوں نے بھی بیت المال کے قیام پر زور دیا ، گو کہ اس بیت المال کی حیثیت وہ نہیں ہوگی جو دارالاسلام کے بیت المال کی ہوگی۔
اجتماعیت اور اتحاد و تنظیم کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے بیت المال کا قیام انتہائی ناگزیر ہے ، اس کے مولانا نامی نے مذہبی تعلیم ، دین و ملت کے تمام دینی و ملی کاموں کے لیے ہیدا ہونے والے معاشی مسئلہ کا حل پیش کیا ہے ، اس کے ذریعے جہاں مدارس و مکاتب کے اخراجات دیے جا سکیں گے وہیں بیواؤں ، یتیموں ، مسکینوں اور غریبوں کی مالی مدد کی جا سکے گی ، اسی طرح ملت کی فلاح و بہبود کے لیے ہر تحریک و ادارے کا قیام بآسانی عمل میں آ سکے گا ۔
موجودہ زمانے میں مذکورہ پروگرام کی اہمیت:۔
مولانا نامیؒ نے جن حالات کے پیش نظر ، مذکورہ تجویز پیش کی تھی ، آج کے حالات اس سے کئی گنا زیادہ خطرناک ہو گئے ہیں ، چنانچہ لازمی تعلیم پایسی کا جو خدشہ مولانا نامیؒ نے ظاہر کیا تھا وہ اب جگ ظاہر ہو چکا ہے ، مسلمانوں کی نئی نس کو دین و ایمان سے دور کرنے کے لیے مسلسل سازشیں ہو رہی ہیں ، نئی نئی تعلیمی پالیسیاں لاگو ہو رہی ہیں ، سرمایہ ایمان سے محروم کرنے کے لیے ترغیب و ترہیب دونوں کا استعمال کیا جا رہا ہے ، اسی طرح ملت کی شیرازہ بندی اور اس کی اتحاد و تنظیم کا مسئلہ پہلے سے زیادہ اہم تر ہو گیا ، لہذا مولانا نامیؒ کے اس سہ نکاتی پروگرام ( تعلیم قرآن ، اقامت صلوۃ اور قیام بیت المال ) پر عمل درآمد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ، یہ تین نکات واقعی اتنے جامع ہیں کہ اگر ان پر عمل کیا جائے تو ان شاء اللہ وہ ثمرات اور اثرات مرتب ہوں گے، جن کی عام حالات میں توقع نہیں کی جا سکتی ۔
1۔ معلم القرآن / اکلیل پرنٹنگ پریس بہرائچ / 1951ء /سرورق کا دوسراصفہ
2۔ معلم القرآن / اکلیل پرنٹنگ پریس بہرائچ / 1951ء /سرورق کا دوسراصفہ
3۔معلم القرآن / مکتبہ معہد الشریعہ،لکھنؤ / 2019ء / صفحہ: 113
4۔ دینی تعلیم کا مسئلہ اور اس کا صحیح و کامیاب ترین حل / مکتبہ معہد الشریعہ، لکھنؤ /2019 ء/ ص:19،20
5۔ معلم القرآن / مکتبہ معہد الشریعہ ,لکھنؤ / 2019ء/ ص :114
6۔ معلم القرآن / اکلیل پرنٹنگ پریس بہرائچ / 1951ء/ سرورق کا دوسرا صفحہ
7۔ معلم القرآن / اکلیل پریس بہرائچ /1951/ سرورق کا دوسرا صفحہ
8۔ معلم القرآن / اکلیل پریس بہرائچ /1951/ سرورق کا دوسرا صفحہ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |