اردو کے ترقی پسند شاعروں میں ایک اہم نام ن۔م راشد کا ہے۔جن کی ایک نظم ’’شاعر درماندہ‘‘ کا تنقیدی جائزہ پیش ہے۔
ن م راشد کا اصلی نام نذر محمد راشد تھا۔ وہ9 نومبر1910 ئ کو آکال گڑھ ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم آکال گڑھ اور اعلٰی تعلیم گورنمنٹ کالج لاہور سے حاصل کی- انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے1930ئ میں بی اے آنرز اور1932ئ میں معاشیات سے ایم اے کیا۔ چوتھی جماعت سے ایم اے تک انگریزی زبان میں تعلیم حاصل کی۔ اردو اور فارسی سے محبت انہیں اپنے والد اور دادا سے وراثت میں ملی- غالب، اقبال، حافظ شیرازی اور سعدی سے راشد کا تعارف انکے والد فضل الٰہی چشتی کے ہی طفیل ہوا- گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم کے دوران راشد مشہور ادبی رسالہ ” راوی” کے اڈیٹر مقرّر ہوئے، بعد میں کچھ وقت کے لئے وہ تاجور نجیب آبادی کے رسالے ’’شاہکار‘‘ کی بھی ادارت کرتے رہے- کچھ عرصہ ملتان میں کمشنر آفس میں سرکاری ملازمت بھی کی اور اسی دوران راشد نے اپنی پہلی آزاد نظم "جرائ ت پرواز” لکھی جو کہ انکے پہلے مجموعے "ماورائ ” میں شامل ہے – 1939 میں راشد آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہو گئے اور کچھ عرصے بعد انہیں پروگرام ڈائریکٹر بنا دیا گیا ۔ تقسیم کے بعد ریڈیو پاکستان میں وہ ریجنل ڈائریکٹر کے عہدے پر کام کرتے رہے- کچھ عرصہ انہیں پاکستان کی طرف سے اقوام ِمتحدّہ کے صدر دفتر نیویارک میں بھی خدمات انجام دینے کا موقعہ ملا – وظیفہ پر سبکدوشی کے بعد انہوں نے انگلستان میں مستقل سکونت اختیار کر لی اور9 اکتوبر ، 1975 کولندن میں ان کا انتقال ہوا –
ن م راشد کے چار شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔
1- ماورا
2- ایران میں اجنبی
3- لا=انسان
4- گماں کا ممکن
اس کے علاوہ ان کی جدید فارسی شاعری کے تراجم بھی شائع ہوئے۔
ن م راشد کی شاعری کی خصوصیات:
بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی میں اردو شاعری میں باغیانہ روش کے ذریعے جو شعرا مشہور ہوئے ان میں ن م راشد اور میراجی اہم ہیں۔ترقی پسند تحریک جب اپنے عروج پر تھی ،اسی زمانے (1939ئ ) میں حلقہ ارباب ذوق کا قیام عمل میں آیا۔اس دور کی اردو نظم میں موضوعاتی تنوع پیدا ہوگیا۔ جیسے تنہائی ،خوف،جنس، معاشرتی جبر، طبقاتی ناہمواری، بے سکونی،بے حسی ،حساسیت، اخلاقی روایات اور قدروں کی شکست ،ہیئتی تجربات،عشق کا مختلف تصور،فرد کی تنہائی اور جدید مکینکی دور میں انسان کی ناقدری کا نوحہ جیسے موضوعات زیر بحث آئے ۔ اس دور میں مغربی نظموں کے تراجم بھی کافی ہوئے۔اس دور کی نظم گوئی کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں مقصدیت کو خیر باد کہہ دیا گیا۔ اب جنس اور مذہب جیسے حساس موضوعات پر بھی نظمیں کہی جا سکتی تھیں۔اس دور کے شعرا نے آزاد نظم کو اظہار کا ذریعہ بنایا اور ہئیت ‘رنگ و آہنگ اور اسلوب ہر طرح سے شاعری میں نیا رنگ پیش کیا۔ جو اس وقت کے قارئین اور ناقدین کے لیے بالکل نیا انداز تھا۔ان شعرا پر الزام عائد کیا گیا کہ ان کی شاعری میں ابہام ہے ۔ ابہام میں ہوتا یہ ہے کہ کہی ہوئی بات کے معنی واضح نہیں ہوتے۔ بات کو چھپا کر پیش کیا جاتا ہے۔ شاعر کیا کہنا چاہتا ہے اس سے قاری کو الجھن ہوتی ہے۔ اس طرز کی شاعری میں آگے رہنے والے شعرا میں میرا جی اور ن م راشد اہم ہیں۔
ن م راشد نے اردو نظم کے Diction سے بغاوت کردی۔ یعنی راشد نے اردو شاعری کے مروجہ الفاظ سے بہت حد تک انحراف کیا۔ اور اپنے لیے نئے لفظوں کا انتخاب کیا۔ ان کے تخلیقی ذہن نے اردو نظم کے مروجہ سانچوں کو قبول نہیں کیا اور انھیں توڑپھوڑ کے رکھ دیا۔ ان کا طرزِ احساس ،ان کی نظموں کی ہیئت اور تکنیک اردو قاری کے لیے ایک نئی اور انوکھی چیز تھی اور اس کا گرفت میں لینا آسان نہیں تھا۔ راشد چونکہ مغربی نظم نگاروں سے متاثر تھے ‘اس لیے ان کی نظموں میں افسانوی اور ڈرامائی انداز نظر آتے ہیں۔ فرنگی سامراج سے دشمنی ،جنسیات اور اساطیری حوالے راشد کے خاص موضوع ہیں۔ راشد پر عریانی ‘فحاشی اور الحاد کو فروغ دینے کا الزام بھی عائد کیا گیا۔اور حقیقت یہی تھی کہ راشد کی نظموں کو بہت عرصے تک قارئین اور ناقدین سمجھ نہیں سکے۔ کیوں کہ ان نظموں کا انداز علامتی تھا۔ اور ان کی شاعری کے علامتی انداز کو سمجھنے کے لیے ہمارے ناقدین کو کئی برس لگ گئے۔ علامت سے مراد شاعر اپنی نظم میں کسی لفظ یا خیال کو بہ طور علامت پیش کرتا ہے اور اس سے وسیع تر گہرے مفہوم کی طرف اشارہ کرتاہے۔ ہمارے ہاں شاعری کو سمجھنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے طریقے عمومی اور سطحی ہیں۔ اور ایسے سخن فہم کم ملیں گے جو شعر کے تخلیقی عمل کی نزاکتوں سے واقف ہوں اور اپنی شعری روایات سے گہری وابستگی رکھتے ہوں۔ راشد کے شعری مجموعے ماورا سے لے کر لا انسان کی نظموں کو غور سے پڑھا جائے تو ان کی شاعری کا جو کردار تشکیل پاتاہے وہ دانشوری کی وہ روایت ہے جو مشرق میں رومی سے لے کر اقبال تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس میں روایت سے بغاوت بھی ہے اور نئے تجربے بھی ہیں۔ ماورا کی نظموں کے کردار انفعالیت اور زوال پذیرمعاشرے کا استعارہ ہیں ۔ دراصل مشرق میں اس وقت اپنی ذات کو پہچاننے اور اپنی قدر کرانے کا فقدان تھا۔ اوراہل مشرق کا اصل مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنے آپ سے بے خبر حالات کا شکار ہو گئے تھے۔
ن م راشد نے مغرب کے شعرا بالخصوص انگلستان اور فرانس کے شعرا سے متاثر ہوکر نظم نگاری کے فن کو نئے طریقوں سے برتنے کی کوشش کی۔انہوں نے نظم کہنے کے انداز میں نئے تجربے کئے۔ پابند نظم کے بجائے آزاد نظم کو فروغ دیا۔ جس میں مصرعے چھوٹے بڑے ہوں ۔ارکان کی تعداد گھٹتی بڑھتی رہے لیکن کوئی مصرعہ وزن سے باہر نہ ہو۔راشد نے اپنے شاعر ہونے کا پتہ اپنے زمانہ طالب علمی کے دور میں ہی دے دیا تھا، تب وہ ردیف اور قافیہ کے پابند تھے- بعد میں انہوں نے ردیف اور قافیہ سے بے نیاز ہو کر جو شاعری کی وہ انہی کا خاصہ بن کر رہ گئی۔ ان سے پہلے اور ان کے بعد ایسی آزاد شاعری کی اردو ادب میں مثال نہیں ملتی – اس ضمن میں ایک واقعہ جو کہ ان کے آل انڈیا ریڈیو کے زمانے کا ہے، قابل ذکر ہے – راشد نے اس وقت کے ایک بہت بڑے شاعر یاس یگانہ چنگیزی کو انٹرویو کے لیے بلایا تو کچھ دوست احباب شاعری پر گفتگو کر رہے تھے اور یاس یگانہ چنگیزی صاحب چونکہ آزادنظم کے سخت خلاف تھے اس لیے آزاد نظم کی مخالفت میں کافی لے دے کر رہے تھے کہ یکایک کسی نے ان سے کہا کہ راشد بھی آزاد نظم کہتے ہیں آپ ان سے ان کی نظم سنیں – راشد نے اپنی نظم سنائی تو یگانہ نے اٹھ کر انہیں گلے سے لگا لیا اور کہا کہ اگر یہ آزاد نظم ہے تو صرف تمہیں ہی آزاد نظم کہنے کا حق حاصل ہے – اس واقعے کی ایک خاص اہمیت ہے اور وہ یہ کہ راشد کی طرز کی آزاد نظم نہ تو کسی نے ان سے پہلے کہی اور نہ ہی بعد میں- یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ راشد کا ہر مصرع وزن میں ہے اور پورے کلام میں ایک بھی ایسا مصرع نہیں جو وزن سے خارج ہو – جبکہ آج کل کی آزاد نظم کو مادر پدر آزاد سمجھا جاتا ہے اور اس میں وزن کا کوئی خاص خیال نہیں رکھا جاتا –
راشد کے ہاں فکری گہرائی کے ساتھ ساتھ اسلوب کی رعنائی بھی ہے۔راشد کی شاعری میں بغاوت کی سب سے اہم اور مثبت سطح سیاسی بغاوت کی ہے۔ راشد کے عہد میں ایشیائی ممالک پر غیر ملکی طاقتوں کا قبضہ تھا اور راشد بھی دوسری غلام قوموں کے باشندوں کی طرح اس غلبے کو ناپسند کرتے تھے۔ چنانچہ اس غلبے کے خلاف احتجاج کا رنگ راشد کے عہد کے دوسرے شعرا کے ہاں بھی نظر آتا ہے مگر راشد نے اس بغاوت کو استعاروں کی مدد سے یوں پیش کیا کہ وہ آفاقیت کی حامل ہوگئی۔ راشد کے ہاں جو استعارے اور تلمیحات استعمال ھوئی ھیں وہ نامانوس اور غیر روائیتی ہیں اسی لیے اکثر، عام قاری کے لیے انکا کلام نا فہم بھی ھو جاتا ہے – راشد کی شاعری اپنی ہم عصر فرانسیسی اور انگریزی شاعری سے متاثر ہے لیکن سب سے زیادہ انکی شاعری اپنی ہم عصر فارسی شاعری سے متاثر ہے- ان کی تلمیحات اور استعارات کی جڑیں براہ راست انکی ہم عصر فارسی شاعری سے جڑی ہوئی نظر آ تی ہیں – اس لیے انکی شاعری کو سمجھنے کے لیے انکی ہم عصر فارسی شاعری کا مطالعہ کرنا مدد گار ثابت ہوگا – دنیا میں ہر دور میں غیر ملکی قبضے کی صورت میں وہ نظمیں جاندار اور متحرک محسوس ہوتی ہیں۔ یہ رجحان ماورا کی چند آخری نظموں سے شروع ہوا اور راشد کے دوسرے مجموعے ایران میں اجنبی میں شدت اختیار کرگیا۔ ماورا کی نظموں میں خاص طورپر ’’انتقام ‘‘، ’’شاعرِ درماندہ‘‘،’’ شرابی‘‘، ’’بیکراں رات کے سناٹے میں ‘‘اور ’’زنجیر‘‘ اس بغاوت کی مثالیں ہیں۔
نظم’’شاعر درماندہ‘‘ کا تنقیدی جائزہ
ن م راشد کی شاعری کی خصوصیات پر نظر ڈالنے کے بعد آئیے ان کے پہلے شعری مجموعے میں شامل ان کی ایک اہم نظم ’’ شاعر درماندہ‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ کرتے ہیں۔ن م راشد کی نظم ’’ شاعرِ درماندہ‘‘ اس طرح ہے۔
زندگی تیرے لیے بسترِ سنجاب و سمور
اور میرے لیے افرنگ کی دریوزہ گری
عافیت کوشیِ آبا کے طفیل،
میں ہوں درماندہ و بے چارہ ادیب
خستہ ئ فکرِ معاش!
پارہ ئ نانِ جویں کے لیے محتاج ہیں ہم
میں، مرے دوست، مرے سینکڑوں اربابِ وطن
یعنی افرنگ کے گلزاروں کے پھول!
تجھے اک شاعرِ درماندہ کی امید نہ تھی
مجھ سے جس روز ستارہ ترا وابستہ ہوا
تۡو سمجھتی تھی کہ اک روز مرا ذہنِ رسا
اور مرے علم و ہنر
بحر و بر سے تری زینت کو گہر لائیں گے!
میرے رستے میں جو حائل ہوں مرے تیرہ نصیب
کیوں دعائیں تری بے کار نہ جائیں
تیرے راتوں کے سجود اور نیاز
(اس کا باعث مرا الحاد بھی ہے!)
اے مری شمعِ شبستانِ وفا،
بھول جا میرے لیے
زندگی خواب کی آسودہ فراموشی ہے!
تجھے معلوم ہے مشرق کا خدا کوئی نہیں
اور اگر ہے، تو سراپردہ نسیان میں ہے
تۡو "مسرت” ہے مری، تو مری "بیداری” ہے
مجھے آغوش میں لے
دو "انا” مل کے جہاں سوز بنیں
اور جس عہد کی ہے تجھ کو دعاؤں میں تلاش
آپ ہی آپ ہویدا ہو جائے!
ن ۔م راشد کی یہ آزاد نظم اپنے الفاظ کے ساتھ انسانوں کے درد و کرب کو بیان کرتی ہے۔ نظم کے تجریے سے قبل ہمیں یہ یاد رکھنا ہے کہ راشد کا دور حیات ہندوستان کی جد و جہد آزادی کے عروج کا دور تھا۔ اور بیسویں صدی میں سیاست دانوں کے ساتھ شاعر اور ادیب بھی اپنے قلم کے ذریعے انگریزوں کے خلاف جدوجہد آزادی میں شریک تھے۔ اور سونے کی چڑیا سمجھے جانے والے ہندوستان کی شاندار عظمت رفتہ کو بحال کرنے کی ہر ہندوستانی کی خواہش تھی۔ راشد کی نظم ’’شاعر درماندہ ‘‘ان کی ذات اور برطانوی سامراج سے متعلق ہے۔ نظم میں دو مورچوں پر جنگ ہے۔ ایک تو برطانوی سامراج کے خلاف دوسرے اپنی ذات کے خلاف۔ دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں جب ملک میں آزادی کی جدو جہد جاری تھی تو راشد برطانوی فوج میں ملازم تھے اور انہوں نے ہندوستانی دستے کے ساتھ ایران کا سفر کیا تھا۔ راشد کے لیے یہ کشمکش ناقابل برداشت حد تک پہنچ جاتی ہے اور یہ احساس اسے بھلائے نہیں بھولتا کہ آزادی کی لگن کے باوجود وہ افرنگ کی تہذیب کی چھپکلی بن کر رہ گئے ہیں۔ یہی وجہہ ہے کہ وہ نظم کے آغاز کے ساتھ ہی جو منظر بیان کرنا شروع کردیتے ہیں وہ ان کے اور سارے ہندوستانیوں کے سامنے سوالیہ نشان بنا تھا۔ راشد کہتے ہیں:
زندگی تیرے لیے بسترِ سنجاب و سمور
اور میرے لیے افرنگ کی دریوزہ گری
ان دو مصرعوں میں شاعر نے حاکم اور محکوم کے طرز زندگی کی تصویر پیش کردی۔ راشد کہتے ہیں کہ ان کے محکومین ہندوستان کی دولت اور وسائل استعمال کر رہے ہیں۔ وہ خود تو جہازوں میں پھرتے ہیں سنجاب و سمور کی طرح قیمتی آرام دہ بستروں پر محلوں میں زندگی بسر کرتے ہیں لیکن ان کے محکوم عوام ہندوستانی بیسویں صدی کے دور غلامی میں انگریزوں سے بھیک مانگنے پر مجبور تھے۔ غلام قوموں میں کچھ حساس ذہن کے لوگ ہوتے ہیں جو غلامی کے درد و کرب کو محسوس کرتے ہیں اور اگر یہ حساس لوگ شاعر ہوں تو ان کا درد و کرب لفظوں میں ڈھل کر کانوں میں شیشہ گھولتاہے۔ ن م راشد کے بارے میں کہا گیا کہ انہوں نے استعاروں کو بہ خوبی استعمال کیا ہے۔ یہاں سنجاب و سمور کے استعارے کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے ہندوستان کے اس شاندار ماضی کی طرف اشارہ کیا جب کہ ہندوستان پر چھ سات سو سال تک مسلمانوں نے حکمرانی کی تھی اور لوگوں کے دلوں کو جیت کر نہ صرف وہ خود محلوں میں رہے تھے بلکہ اپنی رعایا کے راحت و سکوں کا سامان کیا تھا لیکن وہ افرنگ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے دو قوموں کا تضاد پیش کرتے ہیں۔ ایک ہندوستانی حکمران تھے جو رعایا پرور تھے دوسرے انگریز تھے جنہوں نے ہندوستان کے وسائل کو لوٹا اور یہاں کے لوگوں کو دو صدیوں تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھا۔ اس طرح شاعر درماندہ کے آغاز میں شاعر اپنی غربت و افلاس کے بیان کے ساتھ اس وقت کے سارے غلام ہندوستانیوں کے دکھ درد کو بیان کرتاجاتا ہے۔
اب نظم اپنے طور پر آگے بڑھتی ہے۔ غربت و افلاس کا مارا شاعر آگے اپنی اور اپنے اہل وطن کی کیفیت یوں بیان کرتا ہے۔
عافیت کوشیِ آبا کے طفیل،
میں ہوں درماندہ و بے چارہ ادیب
خستہ ئ فکرِ معاش!
پارہ ئ نانِ جویں کے لیے محتاج ہیں ہم
میں، مرے دوست، مرے سینکڑوں اربابِ وطن
یعنی افرنگ کے گلزاروں کے پھول!
شاعر نظم کے ان مصرعوں میں اشارہ کرتا ہے کہ اس کے آبا ئ و اجداد نے اپنے اقتدار کے آخری زمانے میں رقص وسرور کی محفلیں سجائی تھیں۔ ان کا کام تھا اپنے زور بازو سے اقتدار کی حفاظت کرتے لیکن اپنی تلواروں کو زنگ آلود کرتے ہوئے وہ دولت کے نشے میں چور رقص و شباب کی محفلیں سجانے میں لگ گئے۔ شائد یہ ان کی بے عملی اور تن آسانی تھی جس کے سبب ان کا اقتدار جاتا رہا اور یہی وجہہ ہے کہ ہندستانیوں کو انگریزوں کی غلامی سہنا پڑی اور اب اس ملک میں شاعر اور ادیب ہی درماندہ مفلس اور غریب نہیں بلکہ سارے ہندوستانی مفلوک الحال ہوگئے ہیں۔ اور انہیں دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھانا پڑ رہا ہے۔ہمیں انگریزوں کی غلامی کو سہنا اور ان کی ملازمت کرنا پڑ رہا ہے۔یہاں ن م راشد نے ایک مرتبہ پھر فکر معاش کہتے ہوئے ہندوستان کے اس شاندار ماضی کی یاد دلائی جب کہ جاگیردارانہ نظام رائج تھا۔ اور جاگیر دار اور ان کے زیر نگیں رعایا کو کسی قسم کی فکر معاش نہیں تھی۔ لوگ خوشحال رہا کرتے تھے اور طرح طرح کے تہوار اور عید برات منا کر زندگی ہنسی خوشی گذاراکرتے تھے لیکن جب سے برطانوی سامراج آیا جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ہوا اور لوگوں کو ملازمت اور غلامی کرنا پڑا اور رزق کی جو فراوانی ماضی میں ہوا کرتی تھی وہ بے برکتی میں بدل گئی اور جیسا کہ شاعر آگے کہتا ہے۔ پارہ ئ نانِ جویں کے لیے محتاج ہیں ہم ۔ یعنی دو وقت کی روٹی بھی ہمیں چین سے نصیب نہیں ہوتی۔ شاعر درماندہ اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے نظم میں آگے کہتا ہے کہ برطانوی سامراج میں دو وقت کی روٹی کے لیے نہ صرف وہ ہی محتاج نہیں بلکہ اس کے دوست احباب اور سارے ابنائے وطن کا یہی حال ہے۔۔ افرنگ کے گلزاروں کے پھول کہتے ہوئے ن م راشد نے انگریز سامراج کے اس رویے کی طرف اشارہ کیا جس کے تحت اس نے اپنی عقل و فہم اور صنعتی ترقی سے ہندوستانیوں کو استعمال تو کیا لیکن انہیں بھوک اور پیاس کے سوا کچھ نہ دیا۔ انگریز کے لیے ہندوستانی پھول تھے لیکن یہ وہ پھول تھے جو اندر سے مرجھا گئے تھے۔
نظم کے آغاز میں غلام ہندوستان کی تصویر پیش کرنے کے بعد شاعر اپنے خیالات کا سلسلہ یوں آگے بڑھاتے ہیں۔
تجھے اک شاعرِ درماندہ کی امید نہ تھی
مجھ سے جس روز ستارہ ترا وابستہ ہوا
تۡو سمجھتی تھی کہ اک روز مرا ذہنِ رسا
اور مرے علم و ہنر
بحر و بر سے تری زینت کو گہر لائیں گے!
ن م راشد نے نظم کے حصے میں تجھے کہاہے اور آگے تو سمجھتی تھی کہا ہے ۔ شاعر کے اس انداز تخاطب سے اندازہ ہوتاہے کہ یہ شاعر کی محبوبہ ہے جو اس کی بیوی ہے ۔ یہ فطری بات ہے کہ عورت اپنے محبوب یا شوہر سے امید رکھتی ہے کہ وہ اس کے لیے خوشیوں کی سوغات لائے گا۔ اس مفہوم میں دیکھتے ہیں تو شاعر درماندہ جو برطانوی سامراج کا غلام ہے ۔ اپنی غلامی کو محسوس کرنے کے باجود اس قدر مجبور ہے کہ وہ اپنے چاہنے والوں کی زندگی کی آرزوئیں پوری نہیں کرسکتا۔ جب شاعر درماندہ سے ان کا رشتہ وابستہ ہوگیا اور دونوں مل کر رہنے لگے تو گھر والوں کو یہ امید ہوئی کہ شاعر درماندہ جس کی شہرت کے چاروں طرف چرچے ہیں۔جس کے کلام کو لوگ زبان زد کر لیتے ہیں مشاعروں میں اس کی واہ واہ ہوتی ہے وہ اپنے ہنر سے کچھ ہیرے موتی کما کر لائے گا۔ اور اس کے قلم کے جادو سے ان کی زندگی میں خوشحالی آئے گی۔ شاعر درماندہ اپنے علم و ہنر سے ہیرے جواہرات کمار کر لانے کی باتیں کرتے ہوئے اپنے اس شاندار ماضی کی طرف اشارہ کرتا ہے جب کہ شاہی دور میں دربار میں شعرا کی عزت ہوا کرتی تھی۔ اسے ملک الشعرا کا خطاب ملتا تھا۔ مال و منصب ملتا تھا۔ عزت و جاہ ملتی تھی۔ جاگیریں ملتی تھیں۔ اور وہ ایک قصیدہ یا نظم دربار میں سنا دے تو بادشاہ خوش ہوکر اس کی جھولی ہیرے موتیوں سے بھر دیتا ہے۔ اب وہ دورنہیں اور نہ ہی شعرا اور قلم کاروں کی وہ عزت و اکرام ۔ اب قلم کی آبر و بھی نہیں رہی۔ اس لیے اس فرنگی دور میں شاعر کو احساس ہے کہ اب اس کے لفظوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ اس لیے اس سے رشتہ قائم کرنے والے عزیز و اقارب کوجان لینا چاہئے کہ وہ ایک شاعر درماندہ غربت کا مارا ہے۔اس کا ذہن بہت دور کی سوچتا ہے لیکن اس کی فکر رسا کی اب کوئی قدر نہیں۔ آگے شاعر اپنی بدنصیبی کا بیان جاری رکھتے ہوئے کہتاہے۔
میرے رستے میں جو حائل ہوں مرے تیرہ نصیب
کیوں دعائیں تری بے کار نہ جائیں
ہوسکتا ہے کہ یہ تقدیر کا معاملہ ہو یا اعمال کی سزاہو کہ جس وقت خدا نے دولت اور عزت دی تھی ہم نے عیش کوشی میں وقت برباد کردیا اور ہمیں اپنے اعمال بد کی سزا مل رہی ہو۔ اور ہمارے نصیب بد بخت ہوگئے ہوں۔ شاعر کہتا ہے
تیرے راتوں کے سجود اور نیاز
(اس کا باعث مرا الحاد بھی ہے!)
اے مری شمعِ شبستانِ وفا،
بھول جا میرے لیے
زندگی خواب کی آسودہ فراموشی ہے!
تجھے معلوم ہے مشرق کا خدا کوئی نہیں
اور اگر ہے، تو سراپردہ نسیان میں ہے
شاعر کواحساس ہے کہ اس سے وابستہ اس کی بیوی ‘اس کی محبوبہ اس کی شریک حیات اس کے بہتر مستقبل کے لئے راتوں میں اٹھ کر خدا کے حضور دعا گو رہتی ہے۔ یعنی جب مشکل وقت میں سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں تب شاعر کے اپنے ہی اس کی امید بڑھاتے ہیں۔ یہ شمع شبستان وفا شاعر کی امید بھی ہوسکتی ہے جو مشکل وقت میں اس کا ساتھ دیتی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ شائد یہ مرے الحاد کی سزا ہے کہ میں نے اپنے پالنے والے رب سے توجہ ہٹالی۔ اور غلامی دینے والے افرنگ سے امیدیں باندھ لیں۔ الحاد کی بات کرتے ہوئے بھی شاعر کو احساس ہے کہ اس کے لیے راتوں کو اٹھ کر اس کی محبوبہ رب کے حضور دعائیں کرتی ہے وہی رب اس کے مسائل کا حل کرنے والا ہے اور حقیقی سکون دینے والا ہے۔ شاعر اپنے رفیق سے کہتا ہے کہ مشرق کا خدا کوئی نہیں۔ یہاں شاعر کاتضاد کھل کر سامنے آتا ہے کہ ایک طرف وہ سجود و نیاز پر بھی یقین رکھتاہے اور دوسرے طرف یہ بھی کہتا ہے کہ مشرق کا خداکوئی نہیں اور اگر ہے بھی تو وہ چپ ہے پوشیدہ ہے حالات کا نظارہ کر رہا ہے۔ یہ انسان کی فطرت ہوتی ہے کہ خوشی میں وہ خدا کو اپنے ساتھ محسوس کرتا ہے اور غم میں تنہا محسوس کرتا ہے کہ اس کی غربت دیکھنے والا خدا کیوں چپ ہے اور کیوں اس کی مدد کو سامنے نہیں آتا۔ مشرق کا خدا اپنے وسیع تر مفہوم کے ساتھ ہمیں اس عہد کے درد و غم کی داستان سناتا ہے۔ اسی لیے شاعر اپنی درماندگی سے مایوس ہونے کے باوجود اپنے لیے دعا کرنے والی سے کہتا ہے۔
تۡو "مسرت” ہے مری، تو مری "بیداری” ہے
مجھے آغوش میں لے
دو "انا” مل کے جہاں سوز بنیں
اور جس عہد کی ہے تجھ کو دعاؤں میں تلاش
آپ ہی آپ ہویدا ہو جائے!
یہ باتیں کہتے ہوئے شاعر مسائل سے گھرے ان انسانوں کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے کہ جب ہر طرف سے مایوسی ملتی ہے تو دل کے نہاں خانوں میں امید کا ایک چراغ جلتا ہے۔ شاعر کو امید ہے اسی لیے وہ کہتا ہے کہ تو مسرت ہے مری بیداری ہے۔ مسائل کے اندھیروں میں زندگی کی امنگ ‘حوصلہ ہے جسے شاعر تو سے خطاب کرتا ہے جو اس کے لیے مسرت اور بیداری لگتی ہے۔ بیداری کے مفہوم میں ہندوستان کی جدوجہد آزادی کی وہ ساری تحریک ہے جسے ہندوستانیوں نے سیاسی‘سماجی ‘ادبی اور تہذیبی محاذ پر لڑی تھی۔ جس کے بدولت بیدار ہندوستانیوں کو برطانوی سامراج سے آزادی ملی تھی۔ اور جیسے اس وقت کے ہندوستانیوں کو احساس تھا کہ ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔اسی لیے شاعر اپنی امید کو کہتا ہے کہ اسے اپنی آغوش میں لے۔ آزادی کے حصول کے جذبے کی امید اور شاعر درماندہ جیسے لاکھوں مظلوم ہندوستانی جب جام انا پئیں گے توایسا سوز پیدا ہوگا جس کی گرمی سے لوہا بھی پگھل جائے گا۔ اور شاعر کی امید اس کی شبستان وفا جس روشن صبح آزادی کی منتظر تھی وہ ایک نہ ایک دن ضرور اپنی روشنی بکھیرے گی۔ ن م راشد نے یہ نظم اس دور میں کہی جب سارے ہندوستان میں حصول آزادی کے جذبے پروان چڑھ رہے تھے۔ اور آزادی ایک امید کی کرن بن کر انہیں برطانوی سامراج سے لڑنے کا حوصلہ دے رہی تھی۔ اس طرح ن م راشد نے اپنی نظم شاعر درماندہ میں ایک فرد کی داستان الم بیان کرتے ہوئے بیسویں صدی کے ابتدائی نصف کے سارے ہندوستان کی داستان الم بیان کردی اور نظم کے آخر میں امید افزا اختتام کرتے ہوئے انہوں نے اپنے کردار کی مضبوطی کا ثبوت دیا۔
نظم میں شاعر کی لفظیات اہم ہیں۔ اورانہوں نے شاعر درماندہ‘سنجاب و سمور‘خستہ معاش‘افرنگ‘دریوزہ گری‘ نان جویں وغیرہ الفاظ اور اشارے استعمال کرتے ہوئے وسیع تر مفہوم کوبیان کیا ہے۔ نظم میں روانی ہے اور شاعر کے داخلی جذبات کی بھر پور عکاسی اس نظم سے ہوتی ہے۔ اس طرح ہم نے دیکھا کہ ن م راشد کی نظم شاعر درماندہ ان کی ایک شاہکار نظم کے طور پر ہمارے سامنے پیش ہوتی ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو نظم شاعر درماندہ بیسویں صدی کے غلام ہندوستان اور اس وقت کے مسائل سے دوچار ہندوستانیوں کی تصویر کی عکاسی کرتی ہے اور وہ اس امید میں کہ ایک نہ ایک دن ان کی غلامی کی تاریکی دور ہوگی اور آزادی کی روشنی عام ہوگی جدوجہد آزادی میں لگ جاتے ہیں۔نظم کا آغاز شاعر کی درماندگی کے ساتھ ہوتا ہے لیکن نظم کے آخر میں حوصلہ افزا امید کے سہارے نظم کا اختتام ہوتا ہے جو شاعر کے منفی اور مثبت رویوں کو پیش کرتی ہے۔
کتابیات اور انٹرنیٹ ویب سائٹس
کتابیں:
کلیات ن م راشد
مقالات ن م راشد
نیا دور ن م راشد نمبر
شعر و حکمت ن م راشد نمبر
ما ورا
لا انسان
ایران میں اجنبی
ویب سائٹس
اردو مجلس ویب سائٹ۔http://www.urdumajlis.net/thread/5188
فیس بک پیج ۔https://www.facebook.com/Poet.Rashed
https://sukhansara.com
http://urdutehqiq.blogspot.in/2009/11/blog-post.html
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج ظہیر آباد
تلنگانہ
ای میل:draslamfaroqui@gmail.com
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page