راشدہ پروین۔
پی ایچ ڈی،اسکالر اُردو
سماجی ماحولیات اور ادب دو ایسے شعبے ہیں جو مختلف طریقوں سے ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ سماجی ماحولیات کا تعلق انسانوں اور ان کے ماحول کے درمیان تعلقات کو سمجھنے سے ہے، جبکہ ادب سماجی اور ثقافتی اقدار کا اظہار کرنے والے تحریری کاموں کے تجزیہ اور تخلیق سے متعلق ہے۔ دونوں شعبے معاشرے اور ماحول کی تفہیم میں حصہ ڈالتے ہیں
سماجی ماحولیات ایک ایسا فلسفہ ہے جو سماجی، اقتصادی اور ماحولیاتی مسائل کے باہم مربوط ہونے پر زور دیتا ہے۔ اس کا استدلال ہے کہ کسی بھی کمیونٹی کی پائیداری ان طریقوں پر منحصر ہے جن میں ان مسائل کو حل کیا جاتا ہے۔ یہ فلسفہ خاص طور پر موسمیاتی تبدیلی، سماجی انصاف، اور سیاسی بدامنی کے بارے میں عصری مباحث سے متعلق ہے۔
دوسری طرف اردو ناول ادب کی ایک شکل ہے جس کی جنوبی ایشیائی ثقافت میں ایک بھرپور تاریخ ہے۔ اردو ایک ایسی زبان ہے جو ۱۳ویں صدی کے دوران برصغیر پاک و ہند میں تیار ہوئی اور تب سے ادب، شاعری اور اظہار کی دیگر شکلوں میں استعمال ہوتی رہی ہے۔ یہ ایک ایسی زبان ہے جس کی جڑیں جنوبی ایشیائی ثقافت میں گڑی ہوئی ہیں، اور اردو ناول اکثر محبت، سیاست اور سماجی مسائل کو موضوع بناتا ہے۔۔۔۔
ان کے واضح اختلافات کے باوجود، سماجی ماحولیات اور اردو ناول ایک اہم ربط کا اشتراک کرتے ہیں۔ ، ان کے موضوعات اور بیانیے سماجی انصاف، سیاسی ہلچل، اور ماحولیاتی انحطاط کے مسائل کے گرد مرکوز ہیں۔ یہ کہانیاں زبردست اور دلفریب ہیں، اور ان میں رائے عامہ کو تشکیل دینے اور سرگرمی کو تحریک دینے کی طاقت اس کی قابل ذِکر مثال قرۃ العین حیدر کا اردو کے مشہور ناولوں میں سے ایک اہم ناول، "آگ کا دریا” صدیوں اور براعظموں پر محیط ایک وسیع کام ہے۔ یہ مختلف ثقافتوں کے باہمی ربط اور برصغیر پاک و ہند پر استعمار کے اثرات کی کہانی ہے۔ یہ ایک طاقتور بیانیہ ہے جو ثقافتی شناخت، سیاسی جبر، اور ماحولیاتی عدم توازن کے مسائل پر بات کرتا ہےاُردو اس کے علاوہ قرۃالعین حیدر نے آخری شب کے ہمسفر میں سندر بن کے جو مناظر قلم بند کئے فطرت کے ساتھ ان کی جڑت کی عکاسی کرتے ہیں۔
انتظار حسین کا نام بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں انتظار حسین نے اپنے ناول "بستی” میں انسانوں اور ماحول کے درمیان تعلق کو اس انداز میں تلاش کیا ہے جو شاعرانہ بھی ہے اور مترنم بھی۔ کہانی پاکستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ترتیب دی گئی ہے، اور اس خطے کے بدلتے ہوئے منظر نامے کو کرداروں کے بدلتے ہوئے رویوں اور عقائد کی عکاسی کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ جیسے جیسے گاؤں تیزی سے جدیدیت اور ترقی سے گزر رہا ہے، قدرتی دنیا کم ہونا شروع ہو جاتی ہے، اور کردار اپنے اعمال کے نتائج کا سامنا کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں. اسی طرح شوکت صدیقی نے ناول جانگلوس میں منفرد انداز میں خطوں کی منظر نگاری میں فطری دُنیا کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔
مندرجہ بالا مصنفین نے باقاعدہ طور پر ماحولیات کے موضوع پر تو نہیں لکھا مگر ان کا تخیل فطرت کے سحر سےآزاد نہیں ۔۔۔۔ اگر عصرِ حاضر کی بات کی جائے تو بیشمار مصنفین نے باقاعدہ طور پر ناول میں ماحولیات کو موضوع بنایا ۔جن میں سرفہرست عصرِ حاضر کے نامور ادیب مستنصر حسین تارڑ ہیں۔
مستنصر حسین تارڑ ایک معروف پاکستانی مصنف، اداکار، اور ٹیلی ویژن میزبان ہیں۔ انہوں نے 50 سے زائد کتابیں لکھیں جن میں ناول، سفرنامے اور یادداشتیں شامل ہیں۔ ان کے ناولوں میں اکثر فطرت کی خوبصورتی اور انسانی نفسیات میں فطرت کی کمزوری کو دکھایا گیا ہے۔ تارڑ کا تحریری انداز سادہ لیکن طاقتور ہے، اور ان کی کہانیاں اکثر اپنے ماحول کے حوالے سے انسانی تجربات کے گرد مرکوز ہوتی ہیں۔ ان کے ناول نہ صرف تفریحی ہیں بلکہ تعلیمی بھی ہیں، جو جنگلات کی کٹائی، آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی جیسے ماحولیاتی مسائل کے بارے میں بیداری پیدا کرتے ہیں۔
تارڑ کے ناولوں میں ماحولیاتی تناظر میں اہم ناول، "بہاؤ” (موجودہ) ایک دریا کی کہانی ہے جو آلودگی اور انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے آہستہ آہستہ مر رہا ہے۔ اس ناول میں مقامی کمیونٹی کے لیے دریا کی اہمیت اور ان کی زندگیوں پر اس کے زوال کے تباہ کن اثرات کو دکھایا گیا ہے۔ اس ناول میں تارڑ کا پیغام واضح ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ قارئین صاف پانی کی اہمیت اور ہمارے دریاؤں اور دیگر آبی ذخائر کو آلودگی سے بچانے کی ضرورت کو سمجھیں۔
۔۔۔ماحولیاتی موضوع پر ایک اہم عصری ناول. ارشد چہال کا "بیاڑ گلی” ہے ۔۔جس میں کہانی کے مرکزی کردار سلمان کو فطرت اور قدرتی ماحول کا دیوانہ دیکھایا گیا ہے ۔۔۔پورے ناول میں وہ بیاڑ گلی کے جنگلات کو بچانے کی کوشش کرتا ہے مگر محکمہ جنگلات والے اپنی من مانی کرتے ہوئے جنگلات کی کٹائی کروا دیتے ہیں ۔۔۔اس ناول میں فطری دُنیا کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے بھیانک نتائج دکھائے گئے ہیں ۔۔۔۔
ماحولیاتی حوالے سے ایک اہم ناول” کوہ گراں ” ہے جسے خالد فتح محمد نے تخلیق کیا ۔اس ناول میں پانی اور زندگی کے ازلی رشتے کو ایک نئے پیرائے میں بیان کیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آمنہ مفتی کا ناول” پانی مر رہا ہے”میں قدرتی ماحول ،غیر فطری اور مصنوعی ماحول کو موضوع بنایا گیا ہے ۔جس میں انسانی اور غیر انسانی مخلوق کی فطرت کے ساتھ ایک پرسرار داستان بیان کی گئی ہے۔اس کے علاوہ وحید احمدِ کے ناول جاگے ہیں خواب میں اور جندر میں فطری اور غیر فطری ماحول کی چھیڑ چھاڑ کے ساتھ نتائج پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔
حال ہی میں اُردو کی نامور مصنفہ طاہرہ اقبال نے ماحولیاتی تانیثیت ،تاریخیت ،اور مارکسیت جیسے موضوعات پر ناول لکھ کر سماجی ماحولیات کے دائرے کی وسعت میں اضافہ کیا ہے۔ ۔۔
سماجی ماحولیات اور اردو ناول شاید ایک غیر متوقع جوڑی کی طرح لگتے ہیں، لیکن وہ انسانی برادریوں اور قدرتی ماحول کی فلاح و بہبود کے لیے مشترکہ فکر سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہ دونوں ان طریقوں کے بارے میں اہم بصیرت پیش کرتے ہیں جن میں سماجی، اقتصادی اور ماحولیاتی مسائل آپس میں ملتے ہیں، اور ان دونوں کے پاس لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بھلائی کے لیے اقدامات کرنے کی ترغیب دینے کی طاقت ہے۔ جب ہم 21ویں صدی کے پیچیدہ چیلنجوں کا سامنا کر رہے ہیں تو ہم رہنمائی اور تحریک کے لیے سماجی ماحولیات اور اردو ناولوں کی حکمت اور دانائی کی طرف دیکھ سکتے ہیں۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
مھاراشڑکے اکیسویں صدی کے ناول
نگار اور انکے ناول