خدائے پاک رب العزت نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اس دنیا میں بھیجا ہے۔ خدا کی پیدا کی ہوئی تمام مخلوقات اور انسان میں فرق صرف اتنی ہے کہ خدا نے انسان کو سوجھ بوجھ، عقل و فہم، ذہن و فراست عطا کیے ہیں جو دوسرے مخلوق کو حاصل نہیں۔ اس لیے انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے۔ جانوروں اور انسان کو جو خوبی ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے وہ ہے تعلیم۔
نوجوانانِ وطن کے ذہن میں جب جذبہ علم پیدا ہوتا ہے۔ تشنگیئ علم کے لیے دوردراز کا سفر پیدل طے کرنا پڑتا ہے۔ تو پیدل چلنے میں تکلیف تو ضرور ہوتی ہے۔ لیکن پیدل چلنے والا ہر قدم ذہن و دماغ پر ایک ہیجان برپا کردیتا ہے۔ ایسی کیفیت طاری کرتا ہے کہ منزل کی طرف بڑھتے ہوئے ہر ہر قدم ایک خیالات کا طوفان اٹھتا ہے جو خلیج بنگال سے اٹھنے والے طوفان ”فنی“، آئیلا“، ”بلبل“،”امفان“، ”کال بیساکھی“ یا کسی بھی devastating cyclone سے کم نہیں۔ اور اس خیالات کی بر ق رفتاری کسی طوفان کی رفتار سے کم نہیں۔
حوصلے کی گرمیوں سے فاصلے پگھلتے ہیں
اور ذہن میں وہ جذبہ ہوتا ہے جس میں کچھ کر گذرنے کی تمنا ہوتی ہے۔ تعلیم کی اہمیت ہر زمانے میں رہی ہے اور آج بھی اپنی جگہ مسلّم ہے۔بنگلہ زبان میں کہتے ہیں۔ ”پوڑا، سنا، دھرمو“یعنی پڑھنا لکھنا دھرم ہے۔ قرآن جو ہماری مقدس کتاب ہے۔ اس کی سب سے پہلی وحی جو نازل ہوئی اس کا نام ’اقراء‘ ہے جس کے معنی ’پڑھ‘ ہے۔ قرآن میں ہی ہے’طلب العلماء فریضا‘ یعنی علم حاصل کرنا فرض ہے اور اسی طرح علم کی زیادتی اورا ضافے کے لیے کہا جاتا ہے۔ ’رب زدنیِ علماء‘ کا ورد کرنا چاہیے۔ (یہ بھی پڑھیں ہندوستان کے پہلے نوبل انعام یافتہ گرودیب رابی ٹھاکر – مظفر نازنین )
مولانا ابو الکلام آزادجو آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم تھے۔ انہوں نے علم کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا تھا ”علم حاصل کرو گود سے گور تک“ (Learn from the cradle to the grave)۔ سر سید احمد خان جو عظیم مصلح تھے۔ جو اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ وہ گوناگوں دلچسپیوں کے مالک تھے۔ انہوں نے آج سے دو سو سال قبل کہا تھا کہ وطن عزیز ہندوستان ایک خوبصورت دلہن کی مانند ہے اور ہندو اور مسلمان ایک خوبصورت دلہن کی دو خوبصورت آنکھیں ہیں اور علم کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے سر سید نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی بنیاد ڈالی تھی جو بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے ساری دنیا میں مشہور ہوا۔ سر سید نے spiritual education کے ساتھ modern education کی اہمیت کو بتایا۔ انہوں نے کہا تھا کہ آج ایسے تعلیم کی ضرورت ہے جیسے کے ایک ہاتھ میں دینی علوم کا علم ہو تو دوسرے ہاتھ میں دنیاوی علوم کا پرچم۔ بنگال میں بہت سارے مشہور مصلح پیدا ہوئے جن میں راجا رام موہن رائے، ایشور چندر ودیا ساگر، رام کرشن پرم ہنس وغیرہم۔ رام کرشن پرم ہنس کے نام پر بیشتر ادارے، education institute بنگال کے مختلف علاقے جیسے نریندرپور، راھرا میں آج بھی قائم ہیں۔ اس ضمن میں رقیہ بیگم کی علمی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے جو سر زمین بنگال کی مسلم طالبات کے لیے سب سے پہلی پیش رو تھیں۔ ان کا قائم کردہ اسکول سخاوت میموریل گورنمنٹ گرلس ہائی اسکول آج بھی کولکاتا کے لارڈ سنہا روڈ پر واقع ہے۔ کل ملا کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ
Education is the first and foremost need of life.
ایک بچہ جب رحم مادر میں پرورش پاتا ہے یعنی interauterine life میں بچہ خارجی محرک یعنی external stimulus کے دباؤ میں رہتا ہے۔ یعنی conception کے بعد interauterine life میں چلنے والا foetus مکمل خارجی دباؤ (external pressure) کے تحت ہی رہتا ہے۔ اس critical period میں حاملہ عورت کو کسی بھی طرح کا tension یا anxiety نہیں ہونی چاہیے بلکہ مکمل طور پر خوش رہنا چاہیے اور during pregnancyیہ planning کرتے رہنا چاہیے کہ رحم مادر میں پرورش پانے والا بچہ جب آغوشِ مادر میں آئے تو کس طرح اس کی nurturing کرنی ہے۔ بچہ کے اندر کون کون سی quality ہونی چاہیے؟ کس طرح بچے کا IQ Level بہت high ہو۔ اس کیا کھلانا چاہیے تاکہ اس کے اندر high level کی brilliancy, intelligency اور intellect ذہانت develop ہو سکے۔ ( یہ بھی پڑھیں اقبال کی نثر – محمد شہاب الدین قاسمی )
بچہ کا وجود میں آنے کے بعد ہمارا یعنی والدین کا نصب العین کیا ہونا چاہیے۔ ہمارا مقصد کیا ہونا چاہیے اور ضرورت پڑنے پر child psychologist سے بھی رجوع کرنا چاہیے۔ لیکن ساتھ ہی یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بڑے سے بڑا دانشور بھی کوئی بہترین مشورہ نہیں دے سکتاہے۔ ہدایت اور مشورہ بلا شبہ منجانب اللہ ہے۔ اس لیے دورانِ حمل خدا وندہ لاشریک کے دربار میں نفل نمازیں پڑھ کر خدا ئے پاک رب العزت سے دعا کرنی چاہئے کہ بچہ جو عالم ارواح سے عالم فانی میں وجود میں آئے مثالی ہو۔ قوم و ملت کا انمول اثاثہ ہو۔ جس بچے کے پیدائش، اس کے وجود کے لیے خدائے پاک ذات واحد سے دعا کی گئی بقول شاعر ؎
جبیں سجدے میں گھس کر عمر بھر میں نے دعا کی تھی
چراغِ سحر میں تب روشنی تو نے عطا کی تھی
بچے کے وجود میں آنے کے بعد 0-5 کی عمر تک اس کا most important learning period ہوتا ہے۔ جس طرح سے گیلی مٹی کو جس سانچے میں ڈھال دیا جائے وہ اس سانچے میں ڈھل جائے گا۔ بچے کورے کاغذ کی مانند ہیں جو چاہیں لکھ ڈالیں۔ اس عمر میں یعنی 0 سے 5 سال کی عمر میں بچہ جو کچھ بھی سیکھتا ہے وہ audio visual learning کے تحت ہی سیکھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایک امریکن بچہ ہندی نہیں بول سکتا ہے۔ وہ امریکن english ہی بولتا ہے۔ ایک بچہ جو لندن میں پیدا ہوتا ہے وہ انگریزی زبان ہی بول سکتا ہے۔ وہ اردو یا بنگلہ نہیں بول سکتا ہے۔ ایک بنگالی کا بچہ بنگلہ ہی بول سکتا ہے۔ ایک چینی بچہ chinese بول سکتا ہے۔ ایک فرانسیسی بچہ french اور ایک جرمن بچہ german language ہی بول سکتا ہے۔ اسی طرح سے ایک بچہ جسے google guru جو محض 2 سال کا ہے۔ دنیا کے 200 ممالک کا نام ان کی راجدھانی بتا سکتا ہے۔ ہر مملک کے قومی پرچم(national flag) کو identify کر سکتا ہے۔ یا5 سال کا ایک بچہ جو ہریانہ کا ہے جسے Kautaliya Pandit کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جسے boy google کہتے ہیں۔ جغرافیہ تو کیا IAS Exam level کے سوالات کے جوابات بھی tip of tongue پر ہوتے ہیں۔ اسی طرح ایک بچہ جو صرف 5 سال کا ہے۔ اور مکمل دینی گھرانے سے اس کا تعلق ہے۔ بخوبی جانتا ہے کہ قرآن میں کتنی آیتیں ہیں۔ کتنی سورتیں ہیں۔ کتنی سورتیں مکی ہیں؟ کتنی سورتیں مدنی ہیں؟ قرآن میں کتنے رکوع ہیں۔ ان تمام سوالات کے جوابات بچے کے زبان پر ہیں۔ یہ سب کچھ تب ہو سکتا ہے جب بچے کی IQ Level بہت زیادہ ہو اور اسے مکمل تراشا جائے۔ یعنی proper nurturing کی ضرورت ہے۔ Google Guru کے ماں اور باپ بذات خود IAS aspirantہیں۔اور ان کے ماں باپ IAS level کے question solve کرتے ہیں۔ نتیجتاً بچہ یعنی guru لاشعوری طور پر unintentionally سب کچھ سیکھ لیتا ہے۔ وہ اس کے لیے محنت نہیں کرتا۔ بلکہ غیر شعوری طور پر 2سال کا بچہ IAS level کے سوالات کے جوابات دیتا ہے۔ یا Kautaliya Pandit کو ہر لمحہ ترانشے کے لیے اس کے ساتھ دادا،ماں اور باپ ہیں جو سبھی بہترین استاد ہیں اور بچہ اپنے ماں، باپ کی نگرانی میں رہتا ہے۔بچہ جو کچھ بھی سیکھتا ہے وہ audio-visual learning اور by playway method of learning کے تحت ہی سیکھتا ہے۔ عموماً normally بچوں کا IQ level 90سے100 کے درمیان ہوتا ہے لیکن ان غیر معمولی صلاحیت کے حامل بچوں کا IQ level 130 ہوتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کے وطنِ عزیز ہندوستان میں ہر روز talented پیدا ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ ذہانت شاندار محلوں میں، apartmentمیں رہنے والے ر ئیسوں کی اولاد میں ہوتی ہے تو ذہانت اور فطانت کٹیا میں بھی ہوتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بچے کو مکمل طور پر تراشا جائے۔ زبان، ادب، تہذیب، سلیقہ اور شعار پیدا کیا جائے۔ انہیں knowledgious personبنایا جا سکے۔ ان کے talent کو arouse کیا جائے۔ ان کی خفیہ صلاحیتوں کو اجاگر کیا جائے اور ان بچوں کے اندر ایک ایسی قوت پیدا ی جائے۔ ان کے اندر عقابی روح پیدا ہو جو انہیں تعلیم کی بلندیوں پر پہنچائے اور وہ عظیم تعلیم کا مظاہرہ کریں۔ کامیابی کی بلندیوں پر پہنچے اور ان بچوں کے talent سے وطن عزیز ہندوستان کا شمار دنیا کے عظیم ترقی یافتہ ممالک میں ہو۔ لیکن یہ سب کچھ تب ممکن ہے جب ننھے معصوم ذہن میں کامیابی سے ہمکنار ہونے کا جذبہ بدرجہ ئ اتم موجزن ہو۔ بقول شاعر ؎
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
مظفر نازنین، کولکاتا
Mobile + Whatsapp: 9088470916
E-mail: muzaffarnaznin93@gmail.com
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |