ڈاکٹر عظیم اللہ ہاشمی(جگتدل)
اس دن ساری رات فضیلت النساء کوافطار کے وقت بچوں کاشور۔۔۔”لال بتی ّ جل گئی۔!!“ کی بازگشت سنائی دیتی رہی اوراس کے وجود پرذِلّت کی گھنگھور گھٹا چھائی رہی۔!!
عصر کا سورج نیچے اُترتا جارہا تھا۔چند گھنٹوں میں 26 واں رمضان المبارک الوداع کہنے والا تھااور آنے والی رات شبِ قدر کی رات تھی۔ آنگن میں املتاس کے نیچے چار پائی پر بیٹھ کر وہ نیل گوں آسمان کو بڑے غور سے دیکھ رہی تھی۔گویا خدا سے پوچھ رہی ہو۔!!
”مالکِ کا ئنات میرا کیا قصور تھا کہ تونے میرے اِجداد کو محلوں کا مالک بنایا اور مجھے اِس گھرکی نوکرانی بنا دیا۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ جو میرے پرُکھوں پر حرام تھا وہ مجھ پر حلال ہوگیا۔!!آج دیکھ اِس سامنے والی بلڈنگ میں افطار کی دعوت ہے۔انواع و اقسام کے دستر خوان چننے جائیں گے اور میرا چولہا سرد پڑا ہے اور میرے معصوم بچے آج پانچ دنوں سے روزہ پر روزہ رکھے جارہے ہیں۔!“
جب سورج ڈوبنے کے کگار پر پہنچا تو اُس نے مالکِ مکان کے تمام کام وکاج کو نپٹاکرتھکی تھکی بوجھل قدموں سے گھر واپس آئی۔بیٹے فیصل اور بیٹی حمیرا کو آوازدیتے ہوئے کہا۔
”کہاں چلے گئے۔؟اِدھر آؤ۔چلو گھر میں چلو۔!!“
اوروہ مرغی کی طرح اپنے چوزوں کو سمیٹے ہوئے گھر میں چلی آئی۔لیکن گھر میں آکر وہ کرے تو کیا کرے پکانے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا۔اور ستم یہ کہ آج کسی کے یہاں سے کوئی فیض بھی نہیں پہنچاتھا۔!!کسمپرسی کے ان دنوں میں اکثر رات کی درازی کو کاٹنے کے لئے فضیلت النساء جانماز کا سہارا لیتی اور دعا کے لئے ہاتھ ایسے اُٹھتے کہ سورج کے اُجالے اُفق پر پھیل گئے لیکن مقدّر کی گلیاں ویسے کے ویسے اندھیرے میں ڈوبی رہیں۔خوابوں کے خیمے جلتے رہے۔! اِس دوران اسکو کبھی کبھی یاد آتی اُن دنوں کی بات جب اکلوتے بڑے بھائی دلاور مرزا کی بے وقت موت سے والد بالکل ٹوٹ گئے اوراسکی جدائی کے غم کو سہتے سہتے ایک دن وہ بھی دلاور مرزا کے پاس جاکر لیٹ گئے۔ابھی ان کی برسی کی رسم پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ ماں کی فاتحہ خوانی کا بھی اہتمام کرنا پڑا۔اس وقت زندگی کے انیسویں پادان پر قدم رکھی تھی۔ایک دن شام کے دُھندلکے اُفق میں ڈوب رہے تھے اور بنارسی دوپٹے کے گوٹے دار آنچل کو سنبھالے طوطا شاہ کی سن رسیدہ والدہ زیب النساء دروازے پر دستک دے کر اندر آنے کی اجازت مانگ رہی تھیں۔ موسم کی اِس تبدیلی پر کچھ حیرت ہوئی تھی۔جلدی جلدی کلائی سے فیروزہ آبادی ریشمی چوڑی نکال کر سنگار دان پر رکھتے ہوئے اُنہیں اندر آنے کی اجازت دی۔وہ سامنے طاؤس نما بیت کی کرسی پر بیٹھ گیں۔میں نے اپنے اجداد کی مہمان نوازی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے گلاس میں گلاب کے چند قطرے ڈال کر کنویں کا ٹھنڈاپانی پیش کرتے ہوئے پوچھا۔
”حضور آج شمس کی کرنیں اِس کنیز کی اندھری کوٹھری تک کیسے آئی۔؟“اُنہوں نے خالی گلاس کو میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
”فضیلت النساء یہ طلوع نہیں بلکہ غروب آفتا ب کی کرنیں ہیں جو ہمارے اِجدادی اُفق کو ابھی بھی اپنی سرخی سے منّور کر رکھی ہیں۔ تم تو سب کچھ جانتی ہو کہ ہمارے اِجداد کامقدّر بام عروض پر پہنچ کر اب روبہ زوال ہے۔ اُس وقت میں نئی نویلی دلہن بن کر اِس محل میں اُتری تھی جب سرمئی اُجالے میں اِسی جمنا کے کنارے ہمارے پرُکھوں نے اپنے تاج کو فاتح کے قدموں میں رکھ دیئے تو پھر سورج کا غروب ہونا لازمی تھا۔!!جس کے اثرات یہ ہوئے کہ پہلے پہل صدر دروازے پر ریشمی پردے کی جگہ ٹاٹ نے لی۔ پھرجازمین ہٹیں۔جب دھیرے دھیرے تنور سرد ہونے لگے تب محل سے شہزادے اور شہزادیوں کے قدم باہر نکلنے لگے۔جو بگھی پر چڑھتے تھے وہ بگھی چلانے لگے۔جن کے پرُکھوں نے دوسروں کے فیصلے کئے اب اُن کے فیصلے کئے جانے لگے۔روزانہ اہل صبح حمام خانے میں عرق گلاب سے غسل کرنے والی شہزادیوں نے کھلے عام سڑک کے کنارے نلکیوں پر غسل کیا۔کتنوں کی نگاہیں حیا سے نیچے جھکیں تو بہتوں نے ٹکٹکی باندھے ان کے پُرشباب جسموں کو دیکھا۔شان و شوکت اور عزّت کی بکھرتی دھجیوں کودیکھ کر قلق سے بزرگوں کی روحیں بھی پرواز ہوئیں۔اس میں تمہارے دادا اور میرا اکلوتا بھائی دلفگار مرزا بھی شامل تھا۔بڑے بزرگوں کا قول ہے کہ جب غربت کے سائے لہراتے ہیں تو اِن کے دامن میں سیکڑوں گناہ بھی پنپنے لگتے ہیں۔ایسا ہی گناہ شہزادے اور شہزادیوں سے بھی سر زد ہونے لگے۔میری خوش دامن اکثر کہاکرتی تھیں۔ جوانی دیوانی ہوتی ہے۔اُسے صرف آسودگی چاہئے۔اِس کے لئے نہ تو وہ اپنے مرتبے کا خیال رکھتی ہے نہ اِجداد ی عظمت کی پاسداری۔!!شہزادوں نے تھوڑی بہت اِجداد کی عظمت کا پاس رکھا لیکن عورتیں ناقص العقل ہوتی ہیں اس لئے زوال کے ان لمحوں میں محل کی پریوں جیسی شاہزادیاں جسکے ہتھے چڑھیں گڈّی کی طرح لوٹ لی گیں۔!اب نوبت ہمارے بھی شہزادے اورشہزادیوں کی ناموس اورعصمت تک آپہنچی ہے۔اورتمہار اشمار محل کی حسین ترین شہزادیوں میں ہوتا ہے۔ شہر کی گلیوں میں سنپولے کنڈلی مارے بیٹھے رہتے ہیں۔کون کس کو کب ڈس لے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ ہم سے تمہارا خونی رشتہ ضرور ہے لیکن ایسا نہیں کہ شرعی اعتبارسے تم شاہ زیب مرزا کے نکاح میں نہ آسکو۔ خدا نخواستہ اگر کچھ اونچ نیچ ہوگیاتو یہ شہر منافق ناک پر دم کردے گااور یہ ذِلت محل کے باقی بچے بڑے بزرگ برداشت نہیں کر پائیں گے کہ وہ بھی اُسی بجھے چراغ سے اُٹھتے ہوئے دھوئیں کی لکیر کا ایک ناقابلِ گریز حصہ ہیں۔!!“
زیب النساء کی پیش کش سے مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے خزاں کے موسم میں بھی میرے اندر کی زرخیز مٹی پر اُگے شاخ گلاب کی مرجھائی سیکڑوں کلیاں یک بہ یک کھِل اُٹھی ہوں اور بادِ بہار کے جھونکے قدآدم کھڑکی سے اندر آنے لگے ہوں۔!بہت دیر تک کمرے میں خاموشی چھائی رہی۔!پھر میں اُٹھ کر دوسرے کمرے میں گئی۔جانماز بچھا کر بارگاہے خداوندی میں فیصلے طلب کی۔!ایک نداآئی۔!میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے۔!جانماز پر بیٹھے بیٹھے مرحوم والدین کی روح سے باتیں کی۔!آنکھیں بھیگ گئیں۔!!
اللہ اکبر کہہ کر جانماز کو سمیٹ کرمحرابی طاق پر رکھا۔مرادآبادی پاندان سے ایک عدد میٹھے پان کی گلوری پر چاندی کے ورق لگاکر اُس کمرے میں واپس آئی جہاں برّاق کی طرح سفید،اونچی پیشانی،ہونٹوں پر پان کی سرخی،کانوں میں چاندی کی بڑی بڑی بالیاں اورپائنچے دار شلوارجمپرپہنے مصری تشبّح کے دانے سے کھیلتی ہوئی بید کی طاؤس نما کرسی پر زیب النساء ہمارے فیصلے کی منتظر تھیں۔رسمی طور پر خیر خیریت پوچھنے کے بعد سفّاف نیل گوں آسمان سے ساون کے پھواروں کی طرح جھر جھربرستی چاندنی میں انکو دروازے پر پان دے کررخصت کرتے ہوئے بس اتنا ہی کہا۔
”اِجداد کی ناموس کی پاسداری کے لئے یہ کنیز آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔!!“پان کی گلوری کو منہ میں دباتے ہوے انہوں نے کہا۔
”ابھی بھی ہمارے خون میں بڑے بزرگوں کا احترام باقی ہے۔!!“
دس دنوں تک ماہ محرّم کی حالت میں رہنے کے بعدعاشورہ کے دن قاسم مہ پارے کی مہندی کی رسم پوری ہوگئی اور بی بی زینب کا ڈولا امام بارگاہ کے صدر دروازے سے رخصت کر کے زینب النساء کی خواہش کے مطابق مجھے شگن کی چوکی پر بیٹھنا پڑا۔پھر ایسا ہوا کہ شگن کے تیل سے دیئے کی لو ذرا اونچی ہوگئی اورشاہ زیب مرزاکا دامن ایسے تھاما کہ اسکے قبر ستان جانے کے بعد ہی ہاتھ سے چھُٹا۔ساٹھ سالہ اس سفر کے دوران چاندنی دھیرے دھیرے جھیل میں ڈوب گئی۔ستارے ایک ایک کرکے دم توڑدیئے۔باغ کا پتہّ پتہّ شاخوں سے رشتے منقطع کرلئے۔ریشمی لباس رفتہ رفتہ بدن سے اُترنے لگے۔خوابوں کے خیمے کی سبھی طنابیں ایک ایک کر کے ٹوٹ گئیں۔کلائیوں سے سونے کے کنگن کی کھنک بھی روٹھ گئیں۔نسِب وفرازاور مصیبت کی اِس گھڑی میں ایک شام جمناکے کنارے دھیان سنگھ کی جلتی چِتا پرچندن کی شاخ رکھتے ہوئے زیب النساء پھوٹ پھوٹ کر یہ کہتے ہوئے رو پڑی تھیں کہ ہمارے محل کا آخری وفادار سپہ سالاربھی آج دغا دے گیا۔!اُس دن رات کو میں نے دیکھا محل کاہر فردزیب النساء کے ساتھ محل کے آنگن میں اُداس اسی طرح بیٹھے رہے جیسے اچانک طوفان میں تناور درخت گرِجانے کے بعد اُس کی شاخوں پر بسیرا کرنے والے پرندے ساری رات زمین پر سر جھکائے کاٹ دیتے ہیں۔!اِس کے بعد اِس صدمے سے اِس قدر نڈھال ہوئیں کہ ایک دن سفید دوشالہ اوڑھے ڈولی پر سوار ہوکر زیب النساء بھی چلی گئیں۔اُن کی رخصتی کے بعدبہاروں کے پرندے نہ جانے کب ہجرت کر گئے کہ پتہ ہی نہیں چلا۔جب زیب النساء کی پازیب کے گھنگھرو ں کی آواز سے محل کا سائبان محروم ہوگیاتو شاہ زیب مرزا نے ایک ڈوبتی شام کو غمگین ہوکر کہا۔
”بیگم اب اِس کھنڈر نما محل کی خاموشیاں مجھے دن رات ڈستی رہتی ہیں۔!!“
اتنے میں طوفان کا شدّیدجھونکا مغرب سے آیا اور محل کے سائبان کا فانوس جھماکے کے ساتھ فر ش پر گر کر چکنا چور ہوگیا۔!شاہ زیب مرزا نے اپنے پرُکھوں کی وراثت کے بکھر ے کرچیوں کو دیکھ کر ڈب ڈبائی آنکھوں سے اتنا ہی کہا۔
”آج طوفان کے تھپیڑوں سے میرے پرُکھوں کی آخری نشانی بھی ہمیشہ کے لئے مٹ گئی۔!“
جب تنگدستی کی گرفت بڑھی تونوبت فاقہ کشی تک جاپہنچی۔پھروقت کے ان تھپیڑوں نے شاہ زیب مرزا کوشاہ زیب مرزا سے طوطاشاہ بنا دیا۔ایک دن دوپہر کا وقت تھا۔ دھوپ اپنے شباب پر تھی۔طوطا شاہ خالی کشکول اور چہرے پر ملال لئے گھر میں داخل ہوا۔اُس نے خالی کشکول کودیوارپر ٹانگ کر وضو کے لئے پانی مانگا۔صحن میں مصلّے کو بچھا یا۔ عطر فروش کی دکان سے لائے عطر کو قمیص میں لگایا اور چار رکعت نماز کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اوپر اُٹھا۔ُاُس کی رقعت آمیزی دیکھ کر ا یسا لگا جیسے خالق کائنات آسمان توڑ کر اُس کے مصلےّ پر اُتر آئے گا۔اُس کا نورانی چہرہ آنسوؤں سے تر ہوگیا۔اُس کی رقعت آمیزی مجھ سے دیکھی نہیں گئی۔تب میں نے اُٹھ کر گلاس میں پانی دیتے ہوئے کہا۔
”طوطا شاہ لو کبھی اِس گلاس میں تمہارے اِجداد فتح و کامرانی کے بعد فخر کا جام پیا کرتے تھے۔ آج تم صبر کا جام پی لو۔!!“
اس کے اندر کا اجدادی خون نے جوش مارا۔بدن پسینے پسینے ہوگیا۔چہرہ ایسے دمک اُٹھا جیسے اُس پرکوئی گاڑھے دودھ میں سیندور ملا کر مل دیا ہو۔چہرے کو اپنے آستین سے صاف کیا اور ڈبڈبائی آنکھوں سے گلاس کو منہ سے لگا یا۔پھر اُس دن کے بعد تا مرگ میں نے اُس کے چہرے پر زرّہ برابر ملال کی پرچھائیوں کو لہراتے نہیں دیکھا۔لیکن آنکھوں کی نمی ویسے ہی برقرار رہی جیسے اُس کے دل کے قریب کوئی دریا بہہ رہا ہو۔! ایسے میں بھی اُس نے اپنی خودار طبعیت کی شاخوں کوبادِ مخالف میں خم ہونے نہیں دیا بلکہ اپنے پرُکھوں کے جاہ و جلال کے غازہ کواپنے چہرے پر ملتا رہاکہ اتنے میں اُس کی نو سالہ بیٹی حمیرا نے اُس کے خیالوں کے تسلسل کو یہ کہتے ہوئے توڑ دیا۔!
”امّی جان کب تک ہم لوگ روزہ پر روزہ رکھیں گے۔؟اب برداشت نہیں ہورہا ہے۔ کیا وقت کے دھارے یوں ہی چلتے رہیں گے، اسکو بدلا نہیں جاسکتا ہے امّی جان؟“فضیلت النساء نے جانماز کو فرش پربچھاتے ہوئے کہا ۔
”بیٹی حوصلے بلند ہوں تو وقت کے دھارے کیا صدیوں کے رُخ کوبھی موڑا جاسکتا ہے۔!!“
”لیکن کیسے امّی جان۔؟“اُس نے کہا۔
”حوصلے اور صبرکے مستول کو نیچے مت جھکنے دو۔!“کیا تم کو معلوم ہے کہ تمہارے اِجداد کون تھے۔؟
اُس نے حیرت سے ماں کا منہ دیکھا۔اُس کوماں کی باتوں سے لگا جیسے وہ محل میں کھڑی ہے۔ چاروں طرف گلاب اورمونگرے کی کھیتی لہلہاتی نظر آرہی ہے۔تا حد نگاہ سر سبز وادیاں،جھیل میں تیرتے راج ہنس اُس سے کہہ رہے ہوں۔شہزادی آیئے آج کی شام آپ کے نام کرتے ہیں۔آپ ہماری کرتب بازیوں سے محفوظ ہوتے جایئے۔!! جھیل کی نرم نرم لہروں پر وہ اپنے شکارے کو پتوار سے آگے کی طرف بڑھاتی جارہی ہے اور کوئل،پپیہے کی کوک سے پوری فضا گونج رہی ہے۔!!جب وہ اِس سحر سے باہر نکلی تو اُس نے محسوس کیا کہ اُس کی ماں کہہ رہی ہے۔
”جب میں تم لوگوں کی عمر میں تھی اُس وقت رمضان کامہینہ بڑا روح پرور ہوتاتھا۔سحری کے وقت روزہ داروں کو نیند سے بیدار کرنے کے لئے فقیرصدا لگاتے۔”تانبے کا سکہّ جڑی کا رومال اُٹھو مائی بابا سوالی شاہ کا سوال۔!!“قافلے نکلتے۔ ”اُٹھو روزے دارو سحر ہورہی ہے۔!“افطار کے وقت شاہی نگاڑے ڈم ڈم بجتے۔دیسی گھی میں چھنی جلیبیاں، باقر خوانی اور دودھ کے ساتھ میدے کی پوری،اخروٹ کا حلوہ اور گلاب جامن سے سحری کیا جاتا اور افطار میں عرق گلاب کے ساتھ بادام کا شربت،ماوے کا لڈّو،زعفرانی فالودہ اور عراقی کھجور نہ ہوتی تو بس سب کے چہرے لٹک جاتے۔جس دن تیس روزے پورے ہوجاتے سوالی شاہ کا دامن اشرفیوں سے بھر جاتا۔اب تو یہ سب کے سب قصہ پارینہ ہوگئے،جیسے ایساکبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو۔!بیٹی گھبراؤ مت یہ برکتوں والا مہینہ ہے۔اللہ کوئی نہ کوئی سبیل پیدا کرہی دے گا۔!“ اتنا کہہ کر وہ قرآن کی تلاوت میں محو ہوگئی۔
مغرب کی اذان ہونے میں صرف پانچ منٹ باقی رہ گئے۔ فضیلت النساء اور اسکی دو دو اولادیں دن بھر روزہ رکھ کر ابھی تک منتظر ہیں کہ اللہ کوئی نہ کوئی سبیل پیداکر دے گا۔!گھر میں تیل تک نہیں ہے کہ مغرب کے وقت گھر میں چراغ جل سکے۔اُدھر دیوان صاحب کے مکان پر دعوتِ افطار کی تیاری بڑے زور و شور سے اپنے آخری مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔انواع واقسام کے خوش ذائقہ پکوان سفید سفید طشتریوں میں رکھ دی گئی ہیں۔ گلاس میں روح افزاح اور بادام کے شربت قرینے سے سجا دیئے گئے ہیں کہ اتنے میں مسجد کے میناروں سے فضا گونج اُٹھی۔
اللہ اکبر ۔۔اللہ اکبر۔۔!!
اللہ کے نیک بندوں نے افطار سے فارغ ہوکرتین رکعت نمازکے لئے صف بندی کردی۔سر بسجود ہوئے۔اپنے رب کی کبریائی کی تعریف کی اور شکریہ ادا کیا۔واپسی پر دیوان صاحب نے ہر مدعوین کو ایک عطردان اورخوشبو کے پھاہے سے رخصت کیا۔رخصتی کے وقت
گذرگاہ ایسے معطر ہوا ُٹھی جیسے اللہ کے فرشتے گذررہے ہوں۔ دیکھتے ہی دیکھتے گذرگاہ خالی ہوگئی۔پھر حکم صادر ہوا کہ جوٹھے طشتریوں کو سامنے میونسپل کے کوڑے دان میں پھینک دیا جائے۔کارندوں نے حکم کی تعمیل کی۔ اتنے میں فضیلت النساء کی نو سالہ بیٹی حمیرا کی نگاہ اُس پر پڑی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھی اورزنگ آلودتام چین کی مرادآباد ی طشتری لے کر کوڑے دان کی طرف دوڑ تے ہوئے آواز لگائی۔!!
”امّی جان رمضان برکتوں والا مہنہ ہے۔پرور دِگار نے سبیل پیدا کردی۔!!!
٭٭٭
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page