ہوا ، پانی ، روشنی، مٹی، انسان کی بنیادی ضرورتیں ہیں۔ سائنسی نظریہ کے مطابق ہوا مختلف عناصر کا مکسچر ہے ،آمیزش ہے جس می مختلف گیس ہیں جیسے نائٹروجن (N2)۷۰فیصد ، آکسیجن (O2)،کاربن ڈائی آکسائیڈ(CO2)، آبی بخارات اور انرٹ گیس جیسے Helium، Argon، Neon، Krypton، Xenon اور Redon شامل ہیں۔ مٹی میں بہت سارے عناصر ہیں۔ پانی جس کا فارمولا ہے H2Oیعنی دو مولیکیول ہائیڈروجن اور ایک مولیکیول آکسیجن سے پانی کا ایک مولیکیول بنتا ہے۔ روشنی ایک قسم کی توانائی ہے۔ جو ہمیں دیکھنے کی قوت عطا کرتی ہے یہ تمام resources ہیں زندہ رہنے کے لیے۔ ان میں اگر کوئی بھی ایک resourceنہ ہو تو اس دھرتی پر زندگی گذرنا ممکن نہیں۔ پانی دراصل سمندر، تالاب، ندیوں، کنوؤں اور جھرنوں سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ تمام natural یعنی قدرتی ہیں اور قدرت کا انمول عطیہ ہیں۔ کائنات کے سبھی سیاروں میں صرف کرہّ ارض کو یہ شرف حاصل ہے کہ یہاں انسانی مخلوق آباد ہے ۔ خدا نے اس دنیا میں ہمیں اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا ہے۔ ہمارا یہ فرض ہے کہ بلا تفریق مذہب و ملت ہم ان تمام ذرائع کو سنبھال کر رکھیں پانی کا غلط استعمال نہ کریں۔ بھارت کی سب سے بڑی ندی گنگا ندی ہے جو ہمالیہ پہاڑ کے گنگوتری گلیشیر سے نکلتی ہے اور شمالی ہند کو سیراب کرتی ہوئی خلیج بنگال میں گرتی ہے۔ بنگال میں آنے کے بعد اس کی دو شاخیں ہوجاتی ہیں۔ دریائے ہگلی اور دریائے پدما۔ پدما جو بنگلہ دیش کو جاتی ہے۔ اپنے شہر کولکاتا میں پلتا واٹر ورکس ہے جو کولکاتا سے 25 کیلومیٹر دور بارکپور میں ہے۔ یہاں گنگا کا پانی پمپ سے لیا جاتا ہے۔ پھر اسے filtration tankمیں ڈال کر فلٹر کیا جاتا ہے۔ Purification اور پھر chlorination کے بعد اسے ٹالا ٹینک میں بھیج دیا جاتا ہے۔ وہاں سے پورے شہر میں پانی سپلائی ہوتا ہے ۔ گنگا ندی جہاں سے نکلتی ہے وہ صاف اور شفاف ہے۔ جس کا نام گنگوتری گلیشیر ہے لیکن بنگال تک پہنچتے پہنچتے اس کا پانی آلودہ ہوجاتا ہے۔ کل کارخانے سے نکلنے والے bye products، کوڑے کے انبار، ندیوں میں نہانے دھونے سے پانی آلودہ ہوتا ہے۔ ہمارے غیر حساس ذہنیت کو یہ سمجھ میں آنا چاہئے کہ پانی کتنا اہم ہے۔ ماضی میں دریائے گنگا کی شان میں کتنے قصیدے لکھ دئے گئے۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؔ یوں رقم طراز ہیں ؎
اے دلفریب گنگا ! اے دخترِ ہمالہ !
رونق فزائے وادی روشن گر ہمالہ !
آباد بستیاں ہیں فیض کرم سے تیرے
ہیں بیشمار جانیں وابستہ دم سے تیرے
عکسِ شفق کے بر میں پہنے قبائے زریں
اُف یہ جمال زیبا اس پر یہ حسین تزئین
موجوں کی گھونگٹھوں کو رخشاں جبین سیمیں
دل چھین لے نہ ظالم تیرا حجاب رنگین
قربان اس ادا کے صدقے ستم گری کے
کس نے تجھے سکھائے اندازِ دلبری کے
دامن میں اپنے لے لے تجھ سے جدا نہ ہوں گے
ہنگامۂ جہاں سے پھر آشنا نہ ہوں گے
یہ عظمت ہے گنگا ندی کی جس کی شان ہندوستان تو کیا پوری دنیا میں نرالی ہے۔ گنگا ندی کا اپنا وقار ہے اپنی اہمیت ہے۔ گنگا ندی کے کنارے بیشتر شہر آباد ہیں ۔ کانپور ہندوستان کا ایک اہم صنعتی شہرہے جو دریائے گنگا کے کنارے آباد ہے۔ یہ شہر چمڑے کی صنعت کے لیے ساری دنیا میں مشہور ہے۔ یہاں چمڑے کی بڑی بڑی ٹینریاں ہیں۔ ان ٹینریوں سے نکلنے والے Bye products سے گنگا کا پانی آلودہ ہوجاتا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں – مظفر نازنین)
ہوا زندہ رہنے کے لیے ایک لازمی چیزہے۔ آج کارخانے سے نکلنے والے دھوؤں سے یہ ہوا آلودہ ہوتا ہے جن میں CO کاربن مونو آکسائیڈ بہت زہریلی گیس ہوا کے تناظر سے شاعر نے کہا تھا ؎
ہر چیز کو جہاں میں قدرت نے دلبری دی
سایہ دیا شجر کو پرواز دی ہوا کو
پانی کو دی روانی
موجوں کو بے کلی دی
صبح کی تازہ ہوا (نسیمِ سحر) صحت کے لیے مفید ہے۔ لیکن اب شہروں میں تازہ ہوا نہیں ملتی ۔ ہو اتو آلودہ ہے۔ گاڑیوں کی آمدورفت بہت زیادہ خصوصاً میٹروپولیٹن شہروں میں شہروں میں گاڑیوں سے نکلنے والی گیس CO(کاربن مونو آکسائیڈ) ائیر کنڈیشنڈ، فریج یا ریفریجریٹر سے نکلنے والی گیس کلوروفلورو کاربن (CFC)ہے جس سے ہوا آلودہ اور زہریلی ہوجاتی ہے۔ بظاہر ائیر کنڈیشنڈ سے ایک خاص طبقے کو راحت تو ضرور ملتی ہے۔ لیکن دوسرے پسماندہ طبقے ان high profile لوگوں کی آرام اور آسائش کی نذر ہوجاتے ہیں۔ میٹروپولیٹن شہروں میں اونچی عمارتیں تیار کی جارہی ہیں۔ اور اس کے لیے ہرے بھرے سبزہ زار، پھلوں سے لدے درختوں کوکاٹ دیا جارہا ہے۔ دوسری طرف شان بان سے لکھا جاتا ہے۔ Green Kolkata ، Clean Kolkata اور پھر Stop Pollution ، Plant Trees یہ سب عوام کو بیوقوف بنانے کے سوا اور کچھ نہیں۔ سال میں ایک دنVanaMahaUtsav کے دن شجر کاری کرکے۔ اور اسکولی بچوں کو شجر کاری کی اہمیت بتا کر کیا حاصل ۔ جہاں greenaryتھی وہاں شجر کو کاٹ کر flyover بنائے جارہے ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے شہر کولکاتا کے اسپلانیڈ سے برلا پلانٹیریم تک بہت سارے شجر کاٹ دئے گئے۔ دونوں جانب سبزہ کہلاتے تھے اور ٹرام چلتی تھی۔ اب وہان فلائی اوور ہے۔ یہ بالکل جدید ٹکنالوجی ہے۔ میں اس کی حمایت کرتی ہوں۔ لیکن ساتھ ہی ارباب حل و عقد سے مؤدبانہ درخواست کرتی ہوں کہ ماحولیات کے تحفظ کہ تعلق سے بیداری لائی جائے۔ ورنہ اس شہر کی شان قصۂ پارینہ ہوکر رہ جائے گی۔ آج سے پہلے موبائل کی ایجاد نہیں تھی۔ ابھی ہر علاقے موبائل ٹاور ہیں۔ کولکاتا کا شمار وائی فائی میٹرو سٹی میں ہوتا ہے جس میں بے شک ہمیں ناز ہے اور ہمیں ہونا بھی چاہئے۔ لیکن آسمان میں پرندے نظر نہیں آتے۔ گلوبل وارمنگ کا بہت زیادہ اثر اس شہر پر ہے۔ جس پر خاطر خواہ توجہ دینے ضرورت ہے۔ ایڈوانس ٹکنالوجی کی وجہ سے ecological balanceڈسٹرب ہورہا ہے۔ جہاں دھیان دینا عصرِ حاضر کا تقاضا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں ہندوستان کے پہلے نوبل انعام یافتہ گرودیب رابی ٹھاکر – مظفر نازنین )
اپنے اس شہر کے لیے غالب ؔ نے کیا خوب کہا تھا ؎
کلکتے کا جو ذکر کیا تو نے اے ہم نشیں
اک تیر میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے
کووڈ-۱۹ کی وجہ سے لاشوں کو ندیوں اور سمندروں میں ڈالا جارہا ہے۔ جس سے آبی زندگی(Aquatic life or Marine life) بہت زیادہ متاثر ہورہی ہے اور سمندری غذائیں کھانے کے قابل نہیں رہیں۔ ان تمام ماحولیات کا ڈسٹرب ہونا یقینا ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ اس کے لیے متبادل انتظام کرنا بے حد ضروری ہے ۔
ہمالیہ دنیا کا سب سے اونچا ہندوستان کی شان ہے۔ شاعر مشرق نے کیا خوب کہا ہے ؎
اے ہمالہ ! اے فصیل کشور ہندوستان
جو متا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں
تو جواں ہے گردش شام و سحر کے درمیاں
ہمالہ پہاڑ ہندوستا ن کی شان ہے جو ہماری پاسبانی کرتا ہے۔ گنگا ندی کا پانی بلا تفریق مذہب و ملت سبھی استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے یہ گلشن وطنِ عزیز ہندوستان جنت نشاں ہے۔ شاعر یوں رقم طراز ہیں ؎
اے آبرودِ گنگا وہ دن ہیں یاد تجھ کو
اترا تیرے کنارے جب کارواں ہمارا
پربت وہ سب سے اونچا ہمسایہ آسماں کا
وہ سنتری ہمارا وہ پاسباں ہمارا
گودی میں کھیلتی ہیں اس کی ہزاروں ندیاں
گلشن میں جن کے دم سے رشکِ جہاں ہمارا
مختصر یہ کہ ماحولیات کا تحفظ لازمی ہے۔ یہی عصرِ حاضر کا تقاضا ہے۔ جس کے لیے مل کر بلا تفریق مذہب و ملت لائحہ عمل کرنے کی ضرور ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |