چورے لمبے لمبے قدموں سے ڈھابے کی طرف بڑھ رہا تھا رامو چائے کے بھگونے میں چائے ابال رہا تھا صبح کے سات بج رہے تھے گاؤں کی آدھی آبادی کام پر لگ گئی تھی کہیں دوار صاف ستھرا نظر آ رہا تھا تو کہیں کھرکھر کی آواز اور دھول اڑ رہی تھی کوئی کنویں پر نہا رہا تھا تو کوئی تالاب کے کنارے رکھے پتھروں پر کپڑے پٹخ پٹخ کر دھل رہا تھا عورتیں رنگ برنگے کپڑوں میں کھیتوں میں نظر آ رہی تھی مانو ہرے میدان میں رنگ برنگی تتلیاں بیٹھی ہوں۔ کسی نے کہا وا دیکھت ہے چوروا آئی گوا۔ سامنے بیٹھ کے اب عور تن کے نہاری کسی دن ایکا سبق سکھائے کے پڑی۔ ہاں بہنی ہمئو ای سوچتھئی ایکر چائے کے چسکی لیئ بن کرائی کے پڑی۔
چورے لمبا چوڑا نو جوان تھا جسکے پیشے کو نام دیا گیا تھا چورے کا اصل نام نہ جانے کیا تھا۔ سارا گاؤں چورے کو بخوبی جانتا تھا۔ چورے کے دو بچہ تھے دوسری بیوی سے کہتے ہیں پہلی بیوی سہاگ رات کے دن ہی بھاگ گئی تھی اپنے معشوق کے ساتھ۔ چورے نے جلد ہی دوسری شادی کر لی تھی۔
چورے بیٹھا چائے کی چسکیا لے رہا تھا آج چورے کا لباس ایسے لگ رہا تھا مانو کالے پتھر پر کسی نے سفید چادر ڈال دی ہو۔ اوپر کچھ حصہ کھلا رہ گیا ہو۔ کیا بات ہے چورے آج بہت دیر کرکے آئے۔ نہیں تو چھیئی بجے ڈھبوا پے آئی جات ہو۔ ہاں بھیا رامو کا بتائی آج بٹیا کے رات بھر بخار رہا نکلے میں تھوڑی دیر ہوئی گئی۔
اب چلے رامو بھیا ویسے بھی بہت دیر ہوئی گئی۔ کاہےدوئی چائے پیا ویسے تو چار پانچ ہونئی جات ہیں ارے حسابو تو کر با، چورے نے ہنس کر کہا ہاں۔ چورے بھیا پیٹ کے لیے کرے پڑت ہے۔
شام ہو گئی چورے گھر واپس آ رہا تھا چورے بہت اداس تھا لمبے لمبے قدم بڑھا رہا تھا ہر قدم پر اسکی بیٹی اسے یاد آ رہی تھی جسکی دوا بھی تو نہ لا پایا تھا یہ سوچ کر چورے کا دل کرتا تھا کہ ان آم اور مہوا کے پیڑوں سے چپک چپک کر خوب روئے اور سر تب تک پٹختا رہے جب تک کہ سارے خیال مٹ نہ جائیں۔جو اسکے دماغ میں چیخ رہے تھے۔ ابا تم نکمے ہو میری دوا بھی نہ لا سکے۔ مجھے درد میں چھوڑ کر تم کیسے جی رہے ہو۔ تمہیں جینے کا کوئی حق نہیں تم اچھے ابا نہیں اچھے ابا نہیں اچھے انسان نہیں۔
تبھی چورے کی نظر ایک بزرگ پر پڑی جو جلدی جلدی چلے جا رہے تھے۔ مانو کسی نے پیچھا کیا ہو چورے نے اپنے برسوں کے تجربے کو آزمانے کی ٹھان لی، بزرگ کے قریب پہنچنے کے لیے چورے کھیتوں کو بیچ سے پار کرنے لگا۔ آخرکار اسکے برابر آ رہا بزرگ نہ جانے کس خیال میں تھا کہ اسے کچھ بھی احساس نہ ہوا چورے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔
چورے کو لگ رہا تھا مانو کوئی بڑی جنگ جیت لیا ہو آج پہلی بار اسے اپنے ہنر پر فخر ہو رہا تھا۔ گھر پہنچ کر اسے اپنی کامیابی کا قصہ بیوی کو سنانا تھا اور صبح ہونے کا انتظار کرنا تھا جب وہ اپنی بچی کی دوائیں لے آئیگا۔
بھور ہوتے ہی چورے نکل پڑا، میڑوں کو پار کرتے ہوئے چورے کچی سڑک کی اُور بڑھا ہی تھا کہ کچھ شور سنائی پڑا آگے بڑھتے ہی چورے کو ایک گھر میں کچھ بھیڑ نظر آئی۔ کا بات ہے بھیا۔ کاہے اتنا منئ جٹا ہین، چورے حیرانی سے پوچھا، ارے کا بتائی چورے بھیا۔ رفیقوا کے بٹیا کے کئی دن سے بخار آوت رہا آج اللہ کو پیاری ہوئی گئی (بیچاری) کا کہت ہیا بھیا ای تو بہت برا ہوا ۔چورے جلدی سے اندر گھس گیا آنگن میں پہنچ کر چورے ایک کونے میں بیٹھ گیا عورتوں کے پیچھے جہاں وہ ماتم کر رہی تھی۔
رفیق کے پریاگ راج کے نینی میں رہنے والے بڑے بھائی شفیق ترنت ہی پہنچے تھے ای سب کیسے ہوا۔ چھوٹے کا بتائی بھیا کئی دن سے منی بیمار پڑی رہی۔ دوائی کل رات میں ابا سے منگواوا تو پتہ نہیں کون شیطان ابا کے پرس مار لیہس۔ ابا دوائی بھی نہیں لائی پائن۔ نہیں تو شاید ہمار بٹیا …… بڑے بھائی کو گلے لگ کے بے تحاشا رو رہا تھا۔
چورے آج پہلی بار آنسوؤں سے رو رہا تھا۔ رفیق کی باتیں سن کر اسے چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا من کر رہا تھا۔ چورے نے اپنی جیب سے کچھ نکال کر رفیق کے پاس رکھتے ہوئے باہر نکل پڑا ۔کچھ دور چلنے کے بعد نیم کے پیڑ کے نیچے بیٹھ گیا اور اپنے آپ میں بڑ بڑاتا رہا ۔دھتکار ہے تم پر قاتل ہے تو، تجھے شرم نہ آئی ایسی ذلیل حرکت کرنے میں ۔اوپر سے اپنے ہنر پہ خوش ہوتا ہے فخر کرتا ہے انسان نہیں شیطان ہے تو۔ شیطان ہے تو۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page