۱
بارش میں بھیگے سیاہ دن کا لندن کی ایک سرد شام میں ڈوب جانا او ر لندن کی رفتار سے مضطرب یرقان زدہ روشنیوں کا دھند میں تحلیل ہو جانا فضا کو بوجھل کر رہا تھا ۔اپنے خیالوں میںگم وہ آہستہ خرامی سے پیدل چلی جا رہی تھیں ۔ان کے قدم شایدان کی منزل سے خوب خوب واقف تھے ۔بلند عمارت عوام کے لیے بند ہو چکی تھی ۔وہ عمارت کے صدر دروازے پر آکر ٹھہر گئیں۔بوچھاریں گر رہی تھیں ۔ وہ کچھ دیر تک کچھ سوچتی رہیں اور پھر بغیر کسی روک ٹوک کے عمارت میں داخل ہو گئیں ۔رسیپشن پر موجود نائٹ سکیورٹی انچارج نے نظر اٹھا کرانہیں دیکھا اور پھر مسکرا کر بولا ’’گڈ اونینگ ڈاکٹر مارین ،ہمیشہ کی طرح آج بھی مرُدوں کو ستانے چلی آئیں آپ ‘‘
ڈاکٹر مارین ہولے سے مسکرا دیں ’’ گد اونینگ جو ‘‘ ڈاکٹر مارین اپنا ہیٹ اور برساتی اوور کوٹ اتارتے ہوئے جو سے مخاطب ہوئیں ،
’’نو نو جو ،مرُدوں کو ستانے کا ہرگز میرا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔میں تو بس ان کی زندگی کی بند کتاب کے چند اوراک پلٹنا چاہتی ہوں ‘‘۔
بہت زیادہ سگریٹ نوشی کی وجہ سے ہلکا سا بھاری پن لیے ان کی آواز کی پختگی ان کے لہجے کو ایک پر زور اعتماد بخش رہی تھی ۔
ڈاکٹر مارین کی یہ حیرت انگیزدلیل جو کو شاید کچھ خاص پسند نہیں آئی ۔وہ پل بھر خاموش رہا اور پھر ذرا طنزیہ لہجے میں بولا
’’ویل ،مجھے امید ہے کہ آپ کو ا پنے اس وحشت ناک کام میں مزہ آرہا ہوگا ‘‘
یہ کہہ کر اس نے اپنے کندھے اچکائے اور پھر اپنے موبائل سے الجھنے لگا ۔
ڈاکٹر مارین بھی مردہ عجائب گھر کی چوتھی منزل پر جانے کے لیے لفٹ کی طرف چل دیں ۔
پہلی نظر میں ان کو دیکھ کر خوبصورت کہنا مشکل تھا ۔لیکن آیووری رنگت والی ان کی شخصیت میں ایک علمی شائستگی کی کشش نہاں تھی ۔تاریخ کی دراروں میں پوشیدہ راج کھوجتے کھوجتے وہ اپنے آپ میں اتنا گم ہو چکی تھیں کہ ان کے چشمے کے پیچھے سے جھانکتی کالی کالی گہری آنکھیوں میں تنہائی کے بادل تیرتے رہتے تھے ۔اکہرا بدن ،ناک نقش میں کوئی غیر معمولی بات بظاہر نہ تھی ۔سر پر بے ترتیب بکھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے کالے بال تھے ۔ انہوںنے نیلی جینس اور ایک ڈھیلا ڈ ھالاسلیٹی سویٹر پہن رکھا تھا ۔
ان کے ذہن میں ماضی کے خون کا ایک دریا طوفانوں کی زد میں تھا اور تحقیق کے بھنور میں وہ غوطے لگا رہی تھیں ۔مسلسل تلاش اور ناممکن کی جستجو نے انہیں بے چین کر رکھا تھا ۔بے اطمینانی کی کیفیت میں ان کی نند ان کی بیری ہو چلی تھی ۔شراب اور سیگرٹ کے ضرورت سے زیادہ استعمال کی وجہ سے ان پر بے خودی سی چھائی رہتی تھی ۔
لفٹ میں ان کو سگریٹ کی طلب محسوس ہوئی مگر میوزیم میں سگریٹ نوشی پر پابندی تھی ۔انہوں نے اپنا بیگ کھولا اور دو یا چار دوا کی سفید گولیاں منھ میں ڈال لی ۔ان کے چہرے پر تناؤ تھا اور جیسے ہی لفٹ چوتھی منزل پر پہنچی ،ان کے جسم میں ایک سرہن سی دوڑ گئی ۔ (یہ بھی پڑھیں فلسفہ – راجیو پرکاش ساحر)
ہال میں سکوت طاری تھا ۔مدھم مدھم روشنی میںظلم وجبر اور فریب کی شکار ایک تہذیب کی نشانیاں بیحد قرینے سے سجی ہوئی تھیں ۔اس بے حس نمائش میں وہ شے ایک نیم تاریک کونے میں اپنے شیشے کے قفس میںقید شاید ڈاکٹر مارین کا ہی انتظار کر رہی تھی ۔
۲
ڈاکٹر مارین کے اضطراب کی کل وجہ وہ شے ہی تھی ۔ڈاکٹر مارین شدید کشمکش کی کیفیت میںمبتلا،جیسے یقین اور ووہم کے درمیان چلتے ہوئے اس پر اسرار شے کے رو بروآکر کھڑی ہو گئیں۔
وہ خوف ناک بدرنگ شے اپنے شیشے کے قفس میں ایک شیشم کی کالی چوکی پر(جو کی ایک سرخ لال رنگ کے چھوٹے سے مخملی غالیچے پر رکھی ہوئی تھی )قریب قریب ایک سو پچاس سال سے بغیر کوئی حرکت کئے ہوئے براجمان تھی ۔
’’السلام علیکم‘‘۔
ایک لمبی مسافت طے کر تے ہوئے جیسے کوئی صداآکر ان کی سماعت میںسما گئی ۔
ایک گہری سانس لیتے ہوئے ڈاکٹر مارین نے سلام قبول کیا
’’وعلیکم سلام ‘‘۔
’’ کیسے ہو میرے مردہ دوست ‘‘۔ڈاکٹر مارین کی خیریت طلبی میں کچھ اداسی سی تھی ۔
شے(ایک سرد آہ)’’محترمہ ٹھیک اسی حال میں ہوں ،جس حال میں آپ مجھے چھوڑ گئیں تھی ‘‘۔شے کا مرداناپراثر لہجہ حال میں بازگشت کر نے لگا ۔
ڈاکٹر مارین ۔۔’’بہت خوب ،بہر حال ،حال بے حال کے دائیروں سے آزاد ہوئے تو جناب کو ایک سو پچاس سال سے زیادہ ہو چکے ہیں‘‘۔
شے ہنس پڑی ،ایک درد بھری ہنسی ’’ہستی اپنی حباب کی سی ہے ‘‘
’’یہ نمائش سراب کی سی ہے ‘‘
’’ڈاکٹر صاحبہ ،جب میں ہوں ہی نہیں ،تو پھر آپ نے مجھے اپنے سوالوں کا مرکز کیوں بنایا ہوا ہے ‘‘۔
ڈاکٹر مارین ۔۔’’ تاریخ میرے دوست تاریخ ،آپ ہسٹری ہیں اس لیے مسٹری ہیں ۔آپ مجھے تاریخ کے ان تاریک نہاں خانوں میں لے کر جائوگے ،جہاں کئی خوف ناک داستانیں دفن ہیںویسے میرتقی میر کا یہ مطلع ہے بہت لا جواب ‘‘۔
شے ’’واہ بہت خوب ڈاکٹر صاحبہ ،آپ کی اردو میں خوب دلچسپی ہے‘‘۔
ڈاکٹر مارین ۔۔’’ مجھے اردو بے حد پسند ہے ‘‘۔
شے ’’کیوں نہ ہوگی ،اردو ہے ہی ایسی ،کسی کو بھی دیوانہ بنا سکتی ہے ’’اردو ہے جس کا نام ہمی جانتے ہے داغ ‘‘
’’سارے جہاں میںدھوم ہماری زباں کی ہے‘‘
۳
ڈاکٹر مارین ۔۔’’ سارے جہاں ، نہیں ہندوستاں ہے شعر میں‘‘۔
شے ’۔۔’’ایک ہی بات ہے میم صاحب ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘۔
ڈاکٹرمارین ۔۔’’اقبال آپ کے زمانے میں نہیں تھے جناب ‘‘۔
شے ۔۔’’مرنے کے بعد زمانے کی کیا بات محترمہ،سارا عالم ہی اپنا ہو جاتا ہے ‘‘۔
ڈاکٹر مارین کچھ جھینپتے ہوئے’’اجی یہ شاعری واعری چھوڑئے جناب ،چلئے اب ماضی کی طرف لوٹ چلتے ہیں‘‘۔
شے جیسے کسی دکھ بھری سرنگ کی گہرائیوں میںہے ۔’’جانے بھی دیجئے ڈاکٹر صاحبہ ،پرانے قصوں کو یاد کرنے سے کیا فائدہ،خیر یہ بتائیں باہر موسم کیسا ہے ‘‘؟
ڈاکٹر مارین ۔۔’’باہر موسم بیحد سرد ہے ،مگر آپ کی بلا سے کیونکہ آپ تو یہاںگرم ماحول میںآرام سے ہیں ‘‘۔
شے ۔۔’’میری چھوڑئے محترمہ میںتو سرد گرم سے پرے ہوں ،بہرحال آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ ٹھنڈا ملک ٹھنڈے لوگ ۔آپ کیا جانے گرمی کیا ہوتی ہے ۔۱۸۵۷کی مئی میں گرمی تو ہمارے ملک میں تھی ۔آسمان سے شعلے برس رہے تھے ،چہار سوآگ لگی ہوئی تھی اور زمیں پر خون لاوا بن کر بہہ رہا تھا‘‘۔
ڈاکٹر مارین کو یکایک جھٹکا سا لگا ۔چشمے کے پیچھے سے ان کی آنکھوں میںانگارے دہکنے لگے ۔وہ غصے سے چیخیں’’یو بلڈی راسکل ،تم وحشی قاتل ہو ۔مئی کی اس جھلستی گرمی میں تم کالے ہندوستانیوں نے گوروپر بڑے مظالم کیے تھے ۔بے گناہ ،معصوم گوری عورتوں اور گورے بچوں کو بھی نہیں بخشا تھا ۔انہیں بھی بے دردی سے قتل کر ڈالا تھا ‘‘۔ڈاکٹر مارین ہانپ رہی تھیں ۔
شے۔۔’’ذرا دم لیجئے ڈاکٹر صاحبہ ،تاریخ گواہ ہے استحصال کا شکار بھی بے گناہ ہوتے ہیںاور جنگ کی سزا بھی بے گناہ ہی بھگتیّ ہیں تاریخ کوجذباتی نظریہ سے دیکھنامناسب نہیں۔
ڈاکٹر مارین(ناگوار لہجہ) ۔۔’’خاموش صفائی دینے کی ضرور ت نہیں ہے ۵۶ رجمنٹ ،بنگال انفینٹری کے سپاہی عالم بیگ ،تم گوری فوج کے سپاہی تھے ۔تمہاری وفاداری اپنی فوج کے ساتھ ہونی چاہئے تھی ۔گورو کی حفاظت تمہاری ذمہ داری تھی ۔تمہاری جرات کیوں کر ہوئی گوروپر تلوار اُٹھانے کی ۔تمہاری اوقات ہی کیا تھی ؟تم تھے ہی کیا ؟
عالم بیگ شائستہ لہجہ میں ’’ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے ‘‘
’’تمھیںکہو کہ یہ انداز گفتگو کیاہے ‘‘
’’شانت ہوجائیے محترمہ ،آپ ایک تاریخ ساز ہیں۔اتنا جلال آپ کو زیب نہیں دیتا ۔حقیقت سے آپ بخوبی واقف ہیں ۔تاریخ کی کتابوں میں بھوک پیاس ،لوٹ پاٹ،زخم اور قتل وغارت کے نا جانے کتنے کرب انگیز افسانے درج ہیں ‘‘۔
ڈاکٹر مارین ۔۔’’فساد کسی بھی صورت میں جائزنہیں‘‘۔
۴
عالم بیگ ۔۔’’جائز ناجائز کا حوالہ آپ نا ہی دیںتو بہتر ہوگا۔گوری قوم تجارت کے لیے آئی تھی اور بن بیٹھی آقا۔ہماری تہذیب کوجس طرح سے تہس نہس کیا گیا وہ عالمی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے ۔ہماری معاشیات کو تباہ کر ڈالا گیا ۔ہمارے مذہب کی توہین کی گئی ۔ہمیں آپس میں لڑوایا گیا ۔ساری حدیں پار ہو چکی تھیں ۔کوئی امید نظر نہیں آتی تھی ۔ (یہ بھی پڑھیں راجیو پرکاش ساحرؔ کا افسانوی مجموعہ ”احتیاط“ – توصیف بریلوی )
’’ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے ‘‘
’’ایک شمع ہے دلیل سحر سو خاموش ہے ‘‘
ڈاکٹر مارین ۔۔’’تم ہندوستانی غیر مہذب اور پچھڑے ہوئے لوگ تھے ۔ہم نئی دنیا کی روشنی لے کر آئے تھے ‘‘۔
عالم بیگ ۔۔’’آپ غلامی کا اندھیرا لے کر آئیں تھی میم صاحب ‘‘۔
ڈاکٹر مارین ۔۔(ناگوار لہجہ)’’پھر بھی تم نے بغاوت کی تھی عالم بیگ ،تم باغی تھے ،غدارتھے ‘‘۔
عالم بیگ (جوش بھرے لہجہ میں)۔۔’’یہ تو اپنی اپنی سوچ ہے ڈاکٹر صاحبہ ۔کسی کی نظر میں جو باغی ہے وہ کسی کی نظر میں مجاہد آزادی ہے ‘‘۔ (یہ بھی پڑھیں راجیو پرکاش ساحرؔ کا افسانوی مجموعہ ”احتیاط“ – توصیف بریلوی )
ڈاکٹر مارین تھوڑا نرم پڑتے ہوئے ۔۔’’میاں عالم بیگ صاحب آپ کو غدر سے سوائے خون خرابے کے اور کیا ملا ؟۔آپ کو توپ کے دہانے سے باندھ کر اُڑا دیا گیا تھا۔آپ کی کھوپڑی بطور فتح کی علامت ہمارے عجائب گھر میں روز حشر تک قید ہے ‘‘۔
عالم بیگ (غم زدہ لہجہ میں) ’’ انگریزوں نے اس پہلی جنگ آزادی کو کیسے کیسے رنگوں میں رنگا تھا‘‘۔
’’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ‘‘
’’دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھُلا‘‘
ڈاکٹرمارین۔۔ ’’جناب آزادی نے آپ کے ملک کو فسادوں کے علاوہ اور کیا دیا ؟ منگل پانڈے اور آپ کی نسلیں تو آج فرق پرستی میں گرفتار ہیں‘‘۔
عالم بیگ۔۔’’ فرش سے عرش اور عرش سے فرش یہ سیاست کے موسم تو بدلتے رہتے ہیں ۔انسان ہے تو انسانیت بھی ہے ‘‘۔
ڈاکٹر مارین ۔۔آپ کے یہاں ’’کون کہاں کا ہے‘‘؟ اسے لے کر تماشے بہت ہیں ‘‘۔
عالم بیگ(جوش بھرے لہجے میں) ۔۔’’ہم سب کی ہے زمیں ہماری ‘‘،ہر ادا تماشے کی ہم سے ہاری ‘‘
’’بازیچئہ اطفال ہے دنیا میرے آگے ‘‘
’’ ہوتا ہے شب وروز نماشا میرے آگے‘‘
ڈاکٹر مارین ۔۔’’آپ جناب بے حد مشکل معمہ ہیں‘‘۔
عالم بیگ ۔۔’’ غالب نے کہا تھا ’’میں عند لیب گلشن ناافریدہ ہوں‘‘۔
۵
ڈاکٹر مارین۔۔’’حضور غالب شناس معلوم ہوتے ہیں‘‘۔
عالم بیگ ۔۔’’بے شک،مگر افسوس اب تو غالب شناسی عجائب گھر کی شے بن کر رہ گئی ہے ۔البتہ اب دور فیشن اے غالب کا ضرور ہے ۔ جس پر دیکھئے غالب ہی غالب ہے ۔چے گریوا کی ٹی شرٹس اور ٹوپیوں کی طرح اگر غالب ٹی شرٹس اور ٹوپیاں بھی عام ہو چلیں تو کچھ حیرت نا ہوگی‘‘۔
ڈاکٹر مارین حیرت سے ’’جناب ایک طویل مدت سے عجائب گھر میں بند ہیں،لیکن پھر بھی دنیا جہان کی خبر رکھتے ہیں۔واقع یہ بیحد حیرت کا مقام ہیں‘‘۔
عالم بیگ ۔۔’’میم صاحب ،یہ انٹر نیٹ کا زمانہ ہے ۔سگنلس بند دروازے کے اندر بھی آجاتے ہیں‘‘۔
اب تو ڈاکٹر مارین کی حیرت میں مزیداضافہ ہوجاتا ہے ’’کمال ہے عالم بیگ ساحب ،آپ ایک بد رنگ بد صورت کھوکھلی کھوپڑی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔نا آنکھ نا کان نا منہ،پھر یہ ذہانت کیو ں کر ممکن ہے ‘‘ ۔
عالم بیگ (لہجے میں ایک ہلکی سی ہنسی )’’ میں تو مذاق کر رہا تھا ڈاکٹر مارئن۔در اصل آپ کو ایک روح کی غیبی طاقت پر شک نہیں کرنا چاہئے‘‘۔
ڈاکٹر مارین کچھ دیر سوچ میں پڑجاتی ہیںاور پھر کہتی ہیں ۔۔’’عالم بیگ صاحب کیا آپ فلسفی تھے ؟
عالم بیگ ۔۔’’ نا میں فلسفی تھا اور نا ہی کوئی زاہد ۔میں تو بس ایک معمولی دنیادارانسان تھا جسے پیٹ کی آگ نے سپاہی بنا دیا اور پھر جنگ نے نہ جانے کیا کیا بنا دیا ‘‘۔
ڈاکٹر مارین کچھ دیر خاموش رہتی ہیںاور پھر یکایک بیحد پریشان سی ہو جاتی ہیں’’میں ان دل دہلا دینے والے دستاویزوں سے خوف زدہ ہوں ۔میں اپنی تحقیق سے بھی عاجز آچکی ہوں ۔ہر تصویر مبہم سی ہے ۔میری مدد کریں عالم بیگ‘‘۔
عالم بیگ(والہانہ انداز میں )
’’ نقش فریادی ہے کس کی شوخئی تحریر کا‘‘
’’کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا‘‘
ڈاکٹر مارین بیحد مضطرب ہیں ’’آخر کار گنگا کا پانی لال رنگ کا ہوا ہی کیوں تھا ‘‘؟
عالم بیگ سحر انگیز لہجے میں۔۔’’دریا یہ کہہ رہا تھا تنہا ہے بھنور ،ذرا آکے مل ۔جو نظر میںہے وہ نظر نہیں ،جو نہیں نظروہ نظر میں ہے ۔یہ کشمکش یہ سراب ہے ،رنگ کیا بے رنگ کیاہر ایک رنگ میں وہی رنگ ہے ۔کے وہ رنگ دے اے رنگ ریز رے ،کے سکوت میں تجھے سن سکوں،کے تنہائی میں تیرا بن سکوں‘‘۔
چراغ اب بجھنے لگے تھے ۔مایوس ڈاکٹر مارین اداس اور تھکے قدموںسے چلتے ہوئے عجائب گھر سے باہر آگئیںاور پھر سرد د ھند میں گم ہو گئیں۔
راجیو پرکاش ساحر
20/84 Ring Road Indra Nagar Lucknow
mob..9839463095
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |