اپنا شہر – شہر نشاط کولکاتا(City of Joy) کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ شہر نشاط کولکاتا اپنی نوعیت میں انوکھا اور بے مثال ہے۔ اس شہر کی خوبی ہندوستان کو کیا پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ غالبؔ، دہلوی، یہاں آئے اور وہ بھی اس شہر سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ رہ سکے اور سنہرے ماضی میں یوں لکھ ڈالا:
کلکتے کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں
اک تیر میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے
وہ سبزہ زار ہائے مطرہ کہ ہے غضب
وہ نازنین بتاں خود آرا کہ ہائے ہائے
یہ توتابناک ماضی کی داستان ہے۔ آج بھی اپنے شہر کی شان بان ویسی ہے ہے جیسے درخشاں ماضی میں تھی۔ ولا جمال العلیس مصر کے قاہرہ میں ہیں۔ اور گذشتہ سال کولکاتا آئیں تو بلا شبہ یہاں کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ موصوفہ یوں رقم طراز ہیں:
یوں بھی اچھا لگا ہے کلکتہ
ہند کا قاہرہ ہے کلکتہ
دور بیٹھی ہوں مصر میں لیکن
دل مرا دیکھتا ہے کلکتہ
شہر کولکاتا علم و فن کا گہوارہ ہے۔ تعلیم و تہذیب کا مرکز ہے۔ یہ ٹیگور، نذرل اور وحشت کی زمین ہے۔ یہ شہر بنگلہ، انگریزی، اردو تہذیب کا منارہ نور ہے۔ اس سر زمین میں بڑے بڑے دانشور، سائنس داں، کرکٹر، ادباء، شعراء نے جنم لیا۔ شہر کولکاتا کی زمین ادب کے لیے بہت زرخیز ہے۔ یہ ہمارہ خوش نصیبی ہے کہ ہمارے اس شہر سے تقریباً تمام Indian Noble Laureate کا تعلق ہے۔ رابندر ناتھ ٹیگور، مدر ٹریسا، رونالڈ روس، سی – وی رمن، اچاریہ جگدیش چندر بوس، ستیہ جیت رے، امرتیہ سین، ابھیجت ونایک بنرجی کا تعلق کہیں نہ کہیں بنگال سے ہے۔ اپنے شہر کا culture کے لیے ہم بلا شبہ کہتے ہیں:
Kolkata is the capital of West Bengal. Kolkata has cosmopolitan environment. People of different culture, language liver here still our Kolkata shows the best example of ‘Unity in the midst of diversity’.
یہاں مختلف زبان اور تہذیب کے لوگ رہتے ہیں۔ اس کے باوجود یہاں ”کثرت میں وحدت“ ہے۔ ”اخلاقت میں اتحاد“ ہے۔ جو دوسرے شہروں سے اپنے اس شہر کو جدا کرتا ہے۔ رابندر ناتھ ٹیگور، اپیندرناتھ ٹیگور،سرت چندر چٹرجی، مدھو سدن دتہ، قاضی نذر الاسلام کو ہم فراموش نہیں کرسکتے۔ طوطی بنگالہئ علامہ رضاعلی وحشت کلکتوی، شکر کلکتوی، عبد الغفور نساخ اور پرویز شاہدی کو۔ اور ایسے ہزاروں نام ہیں جن سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔ اور جن کے نام تاریخ کے اوراق میں آپ زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ (یہ بھی پڑھیں ماحولیات کا تحفظ عصرِ حاضر کا تقاضا – مظفر نازنین )
یہ تمام ماضی کی داستان ہیں۔ ہمارے اس شہر کے ناکلڈانگہ سے ایک مایہ ناز ہستی نے 26 / جنوری 1945 ء کو جنم لیا۔ آج وہ عالمی شہر یافتہ ہیں۔ دنیا انہیں عالمی شہرت یافتہ شاعر، عالمی مقبولیت کے حامل، استاد الشعراء، صاحب دیوان شاعرالحاج حلیم صابر صاحب کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ موصوف کے لیے کچھ لکھنا یا کچھ کہنا تو گویا سورج کو چراغ دکھانا ہے۔ اور ان کی ادبی شخصیت کا تعین کرنا مجھ جیسے حقیر قلم کار سے ممکن بھی نہیں۔ بس جو کچھ علم ہے وہ باذوق قارئین کی نذر کر رہی ہوں۔
الحاج حلیم صابر کنیہ مشق، مستند، صاحب ِ دیوان شاعر ہیں۔ بلکہ انہیں استاد الشعراء کہتے ہیں۔ عمر کا ایک طویل حصہ شہر کولکاتا کے نارکلڈانگہ میں گذرا ہے۔ جس کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب ”شہر نگاراں“ میں کیا ہے۔
”شہر نگاراں“ الحاج حلیم صابر کا شعری مجموعہ ہے۔ جس کے پڑھنے سے اپنے شہر کا منظر بالکل آنکھوں کے سامنے عیاں ہو جاتا ہے۔ ’پہلا رُخ‘ بھر ’دوسرا رُخ‘ اور ’مشترکہ رُخ‘ کے بعد سائنٹ اور ہائیکو بھی ہے۔ اس خوبصورت انداز سے شعر کہی ہے جیسے کہ پورے شہر کی بستی کا منظر سامنے آتا ہے۔ اور آنے والی نسلوں کو شہر کولکاتا کا منظر اور یہاں کی تاریخ سمجھنے میں مدد ملے گی۔
چند اشعار قارئین کے فن شناس نظروں کی نذر کرتی ہوں:
محل میں رہ کے ایسے شعر کہہ پاتے نہ ہم صابرؔ
کہے جو بیٹھ کر اشعار کلکتے کی بستی میں
نذر، نیاز اور فاتحہ خوانی کے موسم میں
ہے ملاؤں کی جے جے کار کلکتے کی بستی میں
سمجھتے ہیں خود کو میرؔ غالبؔ سے بڑا شاعر
ملیں گے ایسے ایسے غازیئ گفتار کلکتے کی بستی میں
بچے دوڑتے نظر آئے
پھوٹا جو مطلع انوار کلکتے کی بستی میں
الحاج حلیم صابر کی ’شہر نگاراں‘ بہت نایاب اور شاہکار تخلیق ہے جو اپنے شہر کولکاتا کی مکمل تاریخ ہے۔ ان کی ادبی خدمات 50 سالوں پر محیط ہے۔ بچپن سے ہی مطالعہ کا گہرا ذوق رہا ہے اور اس ذوق نے سخن گستری کی طرف مائل کیا۔ اور پھر رضا مظہریؔ سے شرفِ تلمذ حاصل کیا ہے۔ موصوف نے ہر صنف سخن پر طبع آزمائی کی ہے۔ لیکن غزل ان کا محبوب صنف سخن ہے۔ ………… اشعار کا پیکر عطا کیا ہے جو معنویت کی بلندی تک پہنچ جاتی ہے۔ اور نئے شعرا کرام کے لیے شمع راہ بن جاتی ہے۔ ان کے اشعار ان کے وسیع النظر اور پختہ ذہنی کا بہترین ثبوت دیتے ہیں۔ ان کے شاگردوں کی طویل فہرست ہے۔ کچھ سن رسیدہ شعرا ہیں جوان سے اصلاح لیتے ہیں۔ کچھ ایسے شعرا ہیں جو شہود عالم آفاقی، شاکر کلکتوی سے شرف تلمذ حاصل کیا ہے اور اب ان سے اصلاح لیتے ہیں۔ کچھ ایسے ڈگری ہولڈر اور صاحب کتاب شاعر بھی ہیں جو پردے کے پیچھے سے آپ سے منسلک ہیں۔ بلاشہ الحاج حلیم صاحب کی شخصیت بہت عظیم ہے۔ اور ان کی فردیت میں اردو زباں کی بھر پور آبیاری ہو رہی ہے۔ اور کئی نسلیں فیضیاب ہو رہی ہیں۔ موصوف صرف بنگال یا ہندوستان کے ہی استاد شاعری نہیں بلکہ پوری اردو دنیا کے استاد الشعراء ہیں۔ مختلف الجہات شخصیت کے مالک ہیں۔ اردو ادب پر موصوف کا بڑا احسان ہے۔ ان کی گراں قدر اردو خدمات ہی جو رہتی اردو دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔ (یہ بھی پڑھیں عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں – مظفر نازنین )
علامہ رضا علی وحشت کلکتوی، طوطیئ بنگالہ سے لیکر حلیم صابر تک بہت سے شعرا کو سر زمین بنگال نے جنم دیا۔ لیکن دیوان شاعر بہت کم ہیں۔ جن میں 1910 ء میں ”دیوانِ وحشت“ منظر عام پر آیا۔ پھر عبد الغفور نساخ اور شمس کلکتوی اور 2011 ء میں حلیم صابر کا دیوان ”اخلاصِ سخن“ منصہ شہود پر آیا۔
الحاج حلیم صابر کی شخصیت نابغہئ روز گار شخصیت ہے۔ ایک اچھے شاعر کے ساتھ ایک بہترین انسان بھی ہیں۔ قدرت نے انہیں ان کی فطرت میں عاجزی، انکساری عطا کی ہے۔ کوئی بھی اصلاح لینے جائے یا مشورہ لے۔ کبھی انکار نہیں کرتے۔ شخصیت ایسی کہ ہر ایک سے بڑے ہی گر مجوشی کے ساتھ ملتے۔ جس سے ملتے ان کا پرتپاک خیر مقدم کرتے۔ ان کا والہانہ استقبال کرتے۔ یہ تمام اوصاف ایک شخص میں موجود ہوں بلاشبہ ہم اہل کلکتہ اپنے اس عظیم، معتبر، مستند استاد الشعراء الحاج حلیم صابر پر جتنا ناز کریں کم ہیں۔ اور تب حکیم الامت شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کا یہ مشہور شعر ان پر صادق آتا ہے:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہئ ور پیدا
تصنع اور ملمع سے کوسوں دور، جیسا ظاہر ویسی باطن۔ اندر اور باہر سے ایک خانقاہی نظر اور قلندرانہ شخصیت کا نام حلیم صابر ہے۔ انسان کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملنا۔ ان کی خیریت دریافت کرنا۔ ان کے فطرت کا اہم پہلو ہے۔ چند اشعار قارئین کے فن شناس نظروں کی نذر کر رہی ہوں۔ ان کے گوہر افکار کی بلندی کا اظہار ہوتا ہے:
مجرموں کے مشورے سے کارواں سازی ہوئی
رہزنوں کی بستیوں سے رہنما لائے گئے
اہل دل اہل نظر تو بعد میں پہنچے وہاں
سب سے پہلے دار پر اہل وفا لائے گئے
آج شہر نشاط تو کیا اپنے شہر سے باہر بھی اردو والے ان سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔ اور ان کے شاگرد اندرونِ ہند میں ہیں تو بیرون ہند میں بھی کثیر تعداد ہے۔ گذشتہ دنوں 29/ جنوری 2021 کو صوفی جمیل اختر لٹریری سوسائٹی کی جانب سے اپنے شہر کے عظیم، معتبر اور مستند شاعر کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ ہم اس طرح کے عظیم شاعر کا نعم البدل تو نہیں لا سکتے۔ لیکن انہیں خراج تحسین تو پیش کر سکتے ہیں۔ ان کی علمیت، ان کی عظیم شخصیت کا اقرار تو کر سکتے ہیں۔ صوفی جمیل اختر لٹریری سوسائٹی کے سر پرست فہیم اختر بھائی لندن والے کے ہم اہل کلکتہ شکر گذار ہیں کہ انہوں نے اس عظیم شاعر کے اعزاز میں خوبصورت محفل سجائی اور انہیں خراج تحسین پیش کیا جو بلاشہ اردو والوں کا فرض ہے۔ اور مستند شاعر کا احسان بھی ہے اردو والوں پر۔ (یہ بھی پڑھیں ہندوستان کے پہلے نوبل انعام یافتہ گرودیب رابی ٹھاکر – مظفر نازنین )
الحاج حلیم صابر کے بیشتر شاگرد ہیں جن کا ذکر میں نے مضمون کے شروع میں کیا ہے۔ ان کے ایک شاگر جناب سید انظار البشر بارکپوری ہیں۔ جو بے حد لائق اور فائق ہیں۔ موصوف نے ایک ادبی تنظیم کی بنیاد ڈالی ہے جس کا نام ”بزم ِ صابری“ ہے۔ ”بزم ِ صابری“ وہ بزم ہے جو حلیم صابر کے نام سے منسوب اور عالمی شہرت یافتہ ہے۔
حلیم صابر کی 18 عدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ اس کے علاوہ تنقیدی مضامین بھی منصہ شہود پر آئے ہیں۔ اور نثر نگاری میں بھی ان کا قلم یکساں کمال دکھاتا ہے۔ ان کی کتابوں کی تفصیل یوں ہے:
۱- اخلاص سخن (دیوان غزل)
۲- مترنگ (ایک ہزار ہائیکو کا مجموعہ)
۳- حرف آشنا (مجموعہئ غزل)
۴- سکھی سہیلی (…………)
۵- سوغات (دو ہا غزل دیوان)
۶- پر مزاح شکوے (مزاحیہ نظمیں)
۷- ساز اور آواز (غزلیں)
۸- شہر نگاراں کلکتہ (مثنوی وغیرہ)
۹- روپ رنگ (دوہا گیت)
۰۱- دور کی چھاؤ (…………)
۱۱- خاموشی کی چیخ (…………)
۲۱- سناٹوں کا شور (بااشتراک مناظر عاشق ہرگانوی)
۳۱- شعرائے مقدمین (مضامین)
۴۱- شعرائے متوسطین (مضامیں)
۵۱- شعرائے متاخرین (مضامین)
۶۱- مشاہیر ادب (مضامین)
۷۱- دو غزالہ دیوان (غزلیات)
خدا ئے پاک رب العزت کی دربار میں سربسجود ہو کر دعا کرتی ہوں کہ فخر بنگال، استاد الشعراء الحاج حلیم صابر کو خدا صحت کے ساتھ طویل عمر دے۔ اور تا دیر ان کا سایہ ہم پر قائم رہے۔ آمین ثم آمین۔
Mobile + Whatsapp: 9088470916
E-mail: muzaffarnaznin93@gmail.com
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |