مُنیربھائی کو حیدآباد سے بہت مُحبّت تھی لیکن وہ پاکستان چلے گئے۔ یہ ۱۹۵۸ کی بات ہے۔ اُنہیں حیدآباد کی ہر چیز سے پیار تھا۔ گُلابی جاڑوں سے جو ایک ہلکے سے سویٹر اور مفلر سے بہل جاتے تھے۔ گرماکی شاموں اور راتوں سے۔ گرما میں شام کے وقت آنگن میں ہونے والے چھڑکاؤ سے۔ چار پائیوں پر تھنڈی سفید چادریں اور ان پر بکھیرے ہوئے موتیا کی پھولوں کی مہک سے۔ پہلی پہلی بارش میں زمین سے نِکلنے والی سوندھی سوندھی خُوشبو سے۔ اِن سب سے اُنہیں بہت پیار تھا ۔ آرام کی نوکری تھی۔ صبح صبح کھچڑی‘ پاپڑ چٹنی کا پرسکون ناشتہ کیا اور دِن کے ساڑھے دس بجے تک دفتر پہونچ گئے اور ساڑھے پانچ تک گھر لوٹ آئے۔ پھر دوست احباب تھے۔ جن میں کئی شاعر تھے خودمُنیر بھائی بھی شاعر تھے شررؔ تخلص تھا‘شب باشیاں تھیںِ‘ رتجگے تھے ’’فیِ البدیہہ‘‘ مشاعرے تھے۔ جہاں چار آٹھ دوست جمع ہوگئے ایک مشاعرہ برپا کردیا۔ سب میں بڑی بات حیدآباد میں ایک سکون تھا بے فِکری تھی اِن وجوہات سے وہ جانے کے بارے میں تذبذب کا شکار تھے۔ پچھلے چار سال سے وہ فیصلہ کو ٹال رہے تھے۔ لیکن بھابی جان اِن کی جان کے پیچھے پڑی تھیں۔ اِنکا خیال تھا کہ اپنی تو جیسی تیسی گُزر جائیگی مگر بچوں کا ہندوستان میں کوئ مُستقبل نہیں ہے۔ اُن کے لئے پاکستان جانا ضروری ہے۔
اِن کے فیصلوں میں روڑے اٹکانے والوں میں‘ مَیں بھی شامل تھی ‘مَیں ان کی چھوٹی بہن۔ مَیں کہا کرتی تھی کہ آپ چلے گئے تو مَیں حیدرآباد میں اکیلی رہ جاؤنگی۔ کیونکہ مجھے اندازہ تھا کہ بڑے بھائی ضرور پاکستان چلے جائنگے‘ چھوٹے بھائی تو آزادی سے پہلے ہی انگلستان جا بسے تھے۔ پڑھنے گئے تو پھر لوٹ کر ہی نہیں آئے۔ مُنیر بھائی اس بہانے کی آڑ لے کر کہتے کہ چھوٹی یہاں اکیلی رہ جائیگی۔ بھابی جان کہتیں وہ بھی ساتھ چلی چلے ’’ لو بھلا وہ کیوں جائیگی۔ اسکے میاں کی یہاں بہترین پریکٹس ہے شہر کے بہترین ڈاکٹروں میں اُنکا شُمار ہے۔ پھر گاؤں میں بہت سی آبائی جائیداد ہے‘ کھیت ہیں ‘ کھلیان ہیں‘‘۔ بھابی جان بِھنّا کر کہتی ’’پھر ایسا کرو اپنے بچوں کو بھی ان ہاں نوکر رکھا دو۔ کوئی کمپاڈنڈر بن جائے گا‘ کوئی کھیت مزدور بن جائیگا۔‘‘
پھر ۱۹۵۶ میں سارا ہندوستان لسانی طور پر ریاستوں میں تقسیم کردیا گیا۔ سب کچھ تہس نہس ہوگیا۔ ریاست حیدرآباد کے تین تکڑے ہوگئے۔ ایک تکڑا آندھراپردیش میں شامل کردیا گیا جس میں حیدرآباد بھی تھا۔گُلبرگہ‘ بیدر‘ ظہیرآباد وغیرہ کرناٹک میں شامل کردیئے گئے۔ اورنگ آباد ‘ عثمان آباد وغیرہ مہاراشٹرا میں شامل کردیئے گئے۔ حیدرآباد آندھراپردیش کی راجدھانی بن گیا۔ ساحلی آندھرا کے ضلعوں سے کئی لوگ تبادلہ ہوکر حیدرآباد آگئے۔ حیدرآباد کے لوگوں کے تبادلے مہاراشٹرا اور کرناٹک میں کردیئے گئے۔ حیدرآباد کے پرانے لوگوں کا زور ٹُوٹ گیا۔ اِقتدار نئے لوگوں کے ہاتھوں میں چلا گیا‘بڑے بھائی کا تبادلہ کرناٹک کے ایک چھوٹے سے ضلع میں کردیا گیا۔ انہوں نے وہاں جانے سے بیشتر یہ سمجھا کہ پاکستان چلے جائیں ‘ لہذا وہ ۱۹۵۶ میں کراچی چلے گئے۔
مُنیربھائی کا تبادلہ بمبئی میں ہوگیا۔ اُنہوں نے اپنے خاندان کو حیدرآباد میں چھوڑکر بمبئی نوکری کے لئے چلے گئے۔ لیکن چھ مہینے بعد ہی نوکری چھوڑ کر واپس آگئے۔ اُن کا کہنا تھا کہ بمبئی رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ شہر بستے ہیں اِنسانوں کو زندہ رکھنے کیلئے۔ بمبئی میں لوگ بستے ہیں شہر کو زندہ رکھنے کیلئے۔ آخری لوکل ٹرین ۲ بجے رات کوجاتی ہے اور پہلی ٹرین صبح تین بجے چلنے لگتی ہے۔ شہر بس ایک ڈیڑھ گھنٹے کیلئے اُونگھتا ہے۔ پانی بھرنے کیلئے رات تین بجے اٹھنا پڑتا ہے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مُنیر بھائی کی سرکاری نوکری بھی ہاتھ سے چلی گئی۔ بھائی نے حیدرآباد آکر ایک اخبار میں نوکری کرلی۔ پھر وہی رتجگے تھے اور وہی مُنیر بھائی۔ بھابی کا دباؤ بڑھتا جارہا تھا۔ ایک دِن انکے بھائی نے بھی پاکستان جانے کا ارادہ کرلیا۔ بھابی کا صبر کا پیمانہ ٹُوٹ گیا۔ اُنہوں نے دھمکی دیدی کہ وہ بچوں کو لے کر اپنے بھائی کے ساتھ پاکستان چلے جائنگی۔اب آنا نہ آنا منجھلے بھائی کی مرضی!
(۲)
آخر کار منجھلے بھائی بھی ۱۹۵۸ ء میں پاکستان چلے گئے۔ پُہنچکرکر انھوں نے ابھی سانس بھی نہ لی ہوگی یہاں اخباروں میں خبریں چھپنے لگیں کہ پاکستان میں مارشل لاء لگ گیا۔ بھائی کا خط آیا کہ وہ خیریت سے ہیں ۔ کراچی پہونچنے کے بعد بھائی ابراھیم جلیس سے مُلاقات ہوئی۔ اُنہوں نے ایک اخبار کے ادارہ میں بھائی کو اکاونٹنٹ کی نوکری دِلادی ہے۔ دِن کا کام ہے۔ اب نہ راتوں کے رتجگے ہیں ‘نہ محفلیں‘ نہ مُشاعرے۔ میں نے خود ہی یہ راستہ ترک کردیا ہے۔ اب صبح دفتر جاتا ہو اور سرِ شام گھر لوٹ آتا ہوں۔ اب ساری توجّہ میں بچوں کی پڑھائی پر لگا رہا ہوں۔ کیونکہ یہی ہمارا سرمایہ ہے‘ تمہاری بھابی کو بھی لڑکیوں کے ایک سرکاری مدرسہ میں پڑھانے کی نوکری مِل گئی ہے۔ میرے اوپر اُب توجّہ کم ہوگئی ہے ہاں روزانہ شام کو آکر میری سیکل کو تالا ڈالنا نہیں بُھولتیں۔
کراچی کے بارے میں انہوں نے لِکھا یہ شہر بھی بمبئی جیسا ہے۔ پر کیا کریں اب یہیں رہنا ہے۔ مجبوری ہے۔ یہاں پنجاب میں پنجابی بستے ہیں۔ سندھ میں سندھی بلوچستان میں بلوچی اور پیشاور میں پٹھان۔ صرف کراچی کے دل میں مہاجروں کیلئے جگہ ہے۔ بمبئی کے وقت طبیعت میں لااُبالی تھی اور لوٹنے کیلئے حیدرآباد تھا اب آنکھیں کُھل گئیں ہیں۔ دماغ ٹھکانے آگیا ہے۔ یہاں سے لوٹنے کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اِس سے آگے کہیں جابھی نہیں سکتے کہ آگے سمندر ہے۔ اکثر مہاجر یہیں رہتے ہیں۔ یہاں مہاجر تو بہت ہیں‘ مگر انصار نہیں ہیں ۔ ٹھوکریں کھاکر راستہ ڈُھونڈنا پڑتا ہے۔ ویسے یہا ں کھانے پینے کی فراغت ہے۔ ہاں دہن صرف کھانے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ ویسے لفّاظی تو بہت ہوتی ہے۔ لیکن ہمیں بہت احتیاط کرنی پڑتی ہے ورنہ غدّاری کا ٹھپّہ لگ جاتا ہے ۔ ویسے ہی مہاجر کا ٹھپّہ لگا ہوا ہے۔
پھر کچھ دن بعد مُنیر بھائی کو حبیب بنک میں نوکری مِل گئی‘ قدم اور جم گئے۔ پِھر زندگی کئی مرحلوں سے گذری ۱۹۶۵ کی جنگ ہوئی۔ سارے رابطے ٹوٹ گئے۔ نہ خط‘ نہ فون۔ بھائی کے خط کبھی کبھار براہ امریکہ آجاتے‘ وہ امریکہ میں مقیم ہماری تایا زاد بہن کو خط بھیج دیتے اور وہ اس خط کو ہمارے پاس بھیج دیتیں۔ ہم لوگ بھی جواب اسی طرح بھیج دیتے کبھی بہن کا فون آجاتا کہ وہاں سب خیریت سے ہیں۔ ہم اپنی خیریت بتادیتے۔ دو تین سال بعد راستے کُھلے۔ بھائی نے ویزے کیلئے درخواست دی۔ پتہ نہیں کیوں ان کی درخواست نا منظور کردی گئی۔ یہاں سے جانے والوں میں بھی کمی آگئی۔ کبھی کبھار سُننے میں آتا کہ فلاں خاندان پاکستان ہجرت کرگیا۔
۱۹۷۱ کی جنگ ہوئی۔ پاکستان کے دوتُکڑے ہوگئے۔ دو قومی نظریہ کی اساس ہی ٹُوٹ گئی۔ پھر خط و کتابت کا اور خیر خیریت کا وہی حربہ چل پڑا۔ خطوط براہ امریکہ آنے جانے لگے۔ بھائی نے ایک خط میں لکھا تُمہارا ملک تو پاکستان کو توڑ کر بہت خُوش ہے۔ میں کیا کہتی ہمارے دُکھ تو اپنی جگہ تھے۔ ہندوستان کے مسلمان تو ابھی تک پاکستان بننے کی قیمت چکارہے تھے۔ بات بات پر طعنہ دیا جاتا کہ تُم لوگ پاکستانی ہو پاکستان چلے جاؤ۔ اوپر سے یہ نیا غم۔ پاکستان کی ہار کی قیمت بھی ہندوستان کے مسلمانوں کوچُکانی پڑی۔ پھر کئی سال تک رابطہ ٹوٹے رہے۔ اب یہاں کے لوگوں کی پاکستان میں دلچسپی بالکل ہی ختم ہوگئی۔ اب پاکستان جانے کا نہ ہی کوئی نام لیتا‘ نہ ہی کوئی ارادہ کرتا۔ پاکستان کی حالت اب ایک فالج زدہ دوست جیسی رہ گئی تھی۔ دونوں طرف کے بچّے بڑے ہوگئے تھے۔ بھائی کے بچّے امریکہ سِدھار گئے میرے بچّے مشرقی وسطیٰ چلے گئے۔ نہ کوئی ہندوستان کا رہا نہ کوئی پاکستان کا رہا۔
پھر شادیاں ہوئیں۔ نہ کوئی اُدھر سے آسکا نہ کوئی اِدھر سے جاسکا۔ بھائی نے ایک بار پھر ویزے کی درخواست دی۔ وہ بھی نا منظور کردی گئی۔
(۳)
۱۹۸۲ ء میں بنک سے وظیفہ پر سبکدوش ہونے پر بھائی بھی امریکہ چلے گئے۔ بڑے بھائی تو پہلے ہی اپنے بچوں کے پاس امریکہ جاچکے تھے۔ پاکستان سے اب رابطہ کی ضرورت ہی نہیں رہی۔
کبھی بھائی سے فون پر بات ہوجاتی ۔ اور خُطوط بھی آتے رہتے۔ بھائی کو تفصیلی خُطوط لِکھنے کی عادت تھی۔ جب تک وہ ا،میگرنٹ تھے تب تک وہ پاکستانی پاسپورٹ پر تھے۔ اِس لئے ہندوستان آنے کی اِجازت کا وہی رونا تھا۔ پہلی دفعہ کی نہ ہا ں میں نہیں بدل سکی۔ امریکی شہریت اور پاسپورٹ کے حاصل کرنے کے بعد بھی ہندوستان کا ویزا مِلنااِتنا آسان نہ تھا کیونکہ سابقہ شہریت کے بارے میں سوال اٹھتا تھا۔ یہ ایک طرفہ معاملہ نہیں تھا۔ دونوں ملکوں کا یہیں رویّہ تھا۔ جب بھی بھائی ویزے کیلئے درخواست دیتے حیدرآباد میں ہمارے پاس پولیس آکر پوچھ تاچھ کرکے جاتی اِس کی رپورٹ کی بُنیاد پر فیصلہ ہوتا۔ اس دفعہ بھائی نے شِکاگو کی ہندوستانی قونسل میں جان پہچان نکال کر کسی طرح دس سال کا ملٹیپل ویزا حاصل کرہی لیا۔ اِس طرح بھائی پہلی دفعہ ۱۹۹۸ میں حیدرآباد آسکے۔ چالیس سال بعد کی ملاقات ‘گویا زِندگیاں گُزر چُکی تھی‘ مَیں بھائی سے لپٹ کر بہت روئی۔ جب بھائی گئے تھے تو جوان تھے اب لوٹے تو بُوڑھے ہوچلے تھے۔ بالوں میں سفیدی آچُکی تھی۔ بھائی نے کہا ’’روتی کیوں ہوں‘ آئینہ دیکھو تُم بھی بُوڑھی ہوچکی ہو‘ اپنی زِندگی کے گُزرنے کا اِحساس نہیں ہوتا‘‘ ۔ پہلے تین چار دِن تو بے تحاشہ باتیں ہوئی۔ عُمرِ رفتہ کے قِصّےِ چھڑے۔ بچپن کی باتیں ہوئی۔ وقت نے کس کے ساتھ کیا سُلوک کِیا اِس کے تذکرے ہوئے۔ بھائی کو پتہ چلا کہ ان کے کئی ساتھی اِس دنیا سے رُخصت ہوچکے ہیں۔ مخدوم محی الدین‘ خورشید احمد جامی‘ سعید شہیدی وغیرہ اِس دنیا سے گُزر چُکے ہیں۔ جو نہیں گُزرے وہ بھائی کی طرح بُوڑھے ہوگئے ہیں۔ اب اِن میں بھی نہ شب باشیوں کی سکت رہی نہ فیِ البدیہہ مشاعروں کی۔ بھائی کو یہ جان کر افسوس ہوا کہُ اردو کی دو نسلوں نے خُود کشی کرلی ہے۔ اب جو نسل ہے وہ اُردو بول تو سکتی ہے لیکن لِکھ پڑھ نہیں سکتی۔ حُکومتیں اُوپر سے پیڑوں کو پانی دیتے رہے اور اندر سے جڑوں کو کاٹتے رہے۔ کئی ریاستوں نے اردو اکیڈیمیاں قائم کردیں اُردو کی کِتابیں چھاپنے کیلئے جُزوی اِمداد بھی دینے لگے اور سالانہِ انعامات بھی بانٹنے لگے تاکہ شاعر و ادیب ایک دُوسرے سے دست و گریباں رہے کہ کون کتنا بڑا شاعر ہے۔ اُردو کی کتابوں کے خریدار بہت کم رہ گئے تھے کُچھ کِتابیں بِک جاتی‘ باقی کِتابیں شاعراور ادیب حضرات آپس میں بانٹ کر خُوش ہولیتے ہیں۔ اسکولوں اور مدراس سے اُردو اٹھالی گئی۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ جب پُرانی نسل ختم ہوجائیگی تو اُردو سے ناآشنا نسل نہ اُردو کیلئے رویگی نہ اپنے ورثہ کے لُٹ جانے کا غم ہی کریگی۔ اُردو والوں کو اِتنا ہوش بھی نہ تھا کہ گھروں ہی میں بچوں کو اُردو سِکھا دیتے۔ معاشی تگ و دو نے اتنی فرصت ہی نہیں دی کہ اس طرف توجہ دیں۔ دُور اندیشی سے تو اکثر لوگ عاری ہی تھے ۔ بھائی نے کہا کہ یہ دم بھی غنیمت ہے امریکہ کے بچے تو اردو بول بھی نہیں سکتے۔ سوائے چند گھرانوں کے باقی سب جگہ انگریزی چلتی ہے۔
(۴)
مُنیر بھائی نے بھی جیسا کہ ان کی عادت ہے تفصیل سے شِکاگو کے حالات بیان کئے۔ کس طرح دکن کے لوگوں نے مل کر محفلِ اربابِ دکن نام کی مجلس قائم کی جِسمیں سابقہ دکن کے رہنے والے ممبر بن سکتے ہیں۔ لیکن پُرانے چراغ ایک ایک کرکے بُجھتے جارہے ہیں۔ چِراغ سے چِراغ جلانے والا کوئی نہیں ہے۔ نئی نسل کی آنکھیں ویسے ہی وہاں کی چکا چوند سے چُندھیائی ہوئی ہے۔ اور بیچ کی نسل کو معاشی مصروفیات سانس لینے نہیں دیتی۔ کوئی دو دو جاب کررہا ہے تو کوئی اوور ٹائم کے چکر میں پھنسا ہوا دس‘ بارہ گھنٹے کام کرہا ہے۔ محفلِ اربابِ دکن کے علاوہ شامبرگ لائبریری میں اُردواِنسٹیٹیُوٹ کے زیرِ اِنتظام مہینہ کے چوتھے ہفتے میں ایک ادبی محفل مُنعقد کی جاتی ہے۔ جس میں شعراء اور ادیب اپنی تخلیقات پیش کرتے ہیں۔ اِس طرح کی ایک ادبی محفل شہر کے دوسرے حصہ میں ہر مہینے کے پہلے اتوار کو مُنعقد کی جاتی ہے۔ لیکن نئی نسل یہاں بھی عنقا ہے۔ شِرکت کرنے والوں میں زیادہ تر بُوڑھے ہیں اُردو کے بارے میں اُنہیں اِتنا فِکر مند دیکھ کرمَیں نے دِل رکھنے کیلئے کہاکہ آپ اِتنی فکر نہ کیجئے آپ کو یاد ہے ہم اپنے زمانے میں فارسی پڑھا کرتے تھے۔ اب یہاں فارسی کوئی نہیں جانتا۔ لیکن فارسی آج بھی اِیران میں زندہ ہے۔ اِسی طرح اُردو بھی پاکستان میں زِندہ رہیگی۔اس پر اُنھوں نے کہا کہ ایک خوش آئند بات ہے کہ شِکاگو کی ایک جامعہ کے شبعہ لِسانیات کے تحت اُردو اور فارسی پڑھائی جاتی ہے۔ وہاں پڑھنے والے انگریز ہیں مولانا رومی ‘ جامی‘ اور اقبال پر اچھا کام ہورہا ہے لیکن اُس طرف بھی اپنے لوگوں کی توجّہ کم ہے۔
بھائی تین مہینے حیدرآباد میں رہے ۔ بہت سر گرمیاں رہیں مہمانوں کا آنا جانا رہا۔ وہ رشتہ دار جن سے بہت دن سے ملاقات نہیں ہوئی تھی ان سے بھی بھائی کی وجہہ سے ملاقات ہوگئی۔ویزا کی پابندی کی وجہہ سے بھائی حیدرآباد سے باہر نہیں جاسکتے تھے اس لئے کچھ رشتہ دار گلبرگہ اور اورنگ آباد سے بھی آکر ملے۔ کچھ ادبی محفلیں دوپہروں میں منعقد ہوئیں۔ شہر کی کچھ ادبی محفلوں میں بھی بھائی نے شِرکت کی۔ بڑی آپا بھی میرے پاس آگئیں تھیں آفاق بھائی کو دنیا سے گُزرے تقریباً دس برس ہوگئے تھے۔ چوتھی نسل کا ذِکر بھی نِکلا جو ابھی پاؤں پاؤں چل رہی تھی۔ اِنھیں ہم اُردو سِکھاینگے ۔ بھائی کہتے لیکن پڑھائے گا کون۔ اِن کے ماں باپ کو ہی اُردو لِکھنا پڑھنا نہیں آتا۔ وہ کیسے سِکھایں گے۔ پھر وہی بات‘ چلیں کچھ اور بات کرتے ہیں۔ بھائی نے کہا یہ بھی غنیمت ہیکہ یہ بچے اردو بولنا تو سیکھ ہی جائنگے۔ وہاں تو ماں باپ عادتاً اپنے بچوں سے انگریزی میں بات کرتے ہیں۔ پِھر Day Care Centers اورPre school میں سے تو بچے انگریزی میں دُھل دُھلا کر نِکلتے ہیں اُردو تو بولنا بھی نہیں آتا۔
تین مہینے بعدمُنیربھائ واپس چلے گئے۔ پُر نم آنکھوں سے رُخصت ہوئے۔ بہت سے لوگ چھوڑنے آئے۔ جہاز اُڑا اور کُچھ لمحوں میں اُفق میں کھوگیا۔ اُنکے جانے کے بعد‘ شروع شروع میں گرما کے لانبے دِن کاٹ کھانے آتے۔ شام بھی اُداسی میں لِپٹی آتی۔ پِھر رفتہ رفتہ زِندگی اپنی ڈگر پر واپس آگئی۔
(۵)
چار پانچ سال کے وقفہ سے بھائی دوبار اور حیدرآباد آکر گئے۔ کہتے اس سے جلد جلد نہیں آسکتا‘ بچے سب اپنے گھر بار کے ہوگئے۔اِنکی اپنی زِندگیاں ہیں اپنے اپنے اخراجات ہیں۔ اپنے وظیفہ میں سے پیسے بچا بچا کر ہی آسکتا ہوں میں حیدرآباد میں ہی واپس بس جانا چاہتا ہوں لیکن رہ نہیں سکتا کِتنی عجیب بات ہے اب تُم دونوں کو بھی فرصت ہے لیکن تُم لوگ وہاں نہیں آسکتے۔ میں یہاں نہیں رہ سکتا۔ یہا ں کتنی آسانیاں ہیں۔ گھر سے نکلے آٹو پکڑا جہاں جی چاہا چلے گئے۔ وہاں ٹیکسیاں اِتنی مہنگی ہیں کہ اپنے بس سے باہر ہیں۔ کہیں جانا ہوتو کسی نہ کسی کی مِنّت سماجت کرنی پڑتی ہے۔ ہر کوئی مصروف۔ کسی کو وقت مِل گیا تو لانے لیجانے کا احسان کرہی دیتا ہے۔ اگر کوئی نہیں مِلا تو گھر پر پڑے تنہائی کا عذاب سہتے رہیے۔ سڑک پر پیدل نِکل نہیں سکتے وہاں سڑک پر کوئی چلتا ہی نہیں یہاں کی طرح نہیں کہ سڑک پر پچاسوں افراد چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ جب میں سِیما کے ہاں رہتا ہوں تو بچیاں نانا جان ‘ نانا جان کہہ کر آگے پیچھے پھرتی رہتی ہے۔ مگر انہیں گاڑی زیادہ چلانے کی اِجازت نہیں ہے۔ حمید میاں کو پسند نہیں۔
پھر ایک دن سِیما کا فون آیا کہ بابا جان کی طبیعت خراب ہے۔ آئی سی یو ں میں ہیں پھیپھڑوں میں ورم اور انفیکشن ہوگیاہے۔ہماری وحشتوں میں اِضافہ ہوگیا۔ فون کی گھنٹی عذاب بن گئی پھر اِطلاع ملی کہ گُردے بھی برابر کام نہیں کر رہے ہیں۔ کوما میں چلے گئے ہیں۔ عیادت کرنے والوں کو بھی قریب آنے نہیں دیا جارہا ہے بھائی موت سے لڑرہے ہیں۔ دو تین ہفتہ یونہی ہی گُزر گئے پھر خبریں آنے لگیں کہ بتدرِیج طبیعت ٹھیک ہورہی ہے۔ ہوش آگیا ہے۔ انفیکشن اور ورم بھی ٹھیک ہوگیا ہے۔ گُردے بھی رفتہ رفتہ کام کرنے لگے ہیں‘ اب ہفتہ میں ایک دن ڈائلسس دینا پڑ رہا ہے۔ غرض مُنیربھائی اپنی قُوّت اِرادی اور اللہ کے کرم سے شِفایاب ہوکر گھر آگئے۔ لیکن مُکّمِل شِفایاب ہونے میں آٹھ نو مہینے لگ گئے۔ جُو نہی شِفایاب ہوگئے پھر حیدرآباد کی یاد ستانے لگی۔ فون پر کہتے ایک بار حیدرآباد آنا چاہتا ہوں جِتنی جلدی ہوسکے بہتر ہے۔ پتہ نہیں پھر زِندگی مُہلت دے یا نہیں۔ کوئی حیدرآباد آنے والے کی تلاش ہیں جو مجھے ساتھ لے آسکے۔ اب اکیلے آنے کی ہِمّت نہیں ہے۔
(۶)
یہ ۲۰۱۴ء ہے حسبِ وعدہ بھائی چار دِن پہلے طالب بھائی کے ہمرا ہ حیدرآباد آئے۔ ایرپورٹ سے طالب بھائی اپنے بیٹے کے گھر چلے گئے اور ہم لوگ اپنے گھر چلے آئے۔ کھانے وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد باتوں کا دور چلا۔ دوپہر شام میں اور شام رات میں ڈھل گئی۔ باتیں چلتی رہی۔ رات کے بارہ بجے میں نے بھائی سے کہا کہ اب سوجائیں۔ بھائی صبح کو فجر کو اُٹھانے کیلئے کہہ کر سونے چلے گئے۔ صبح فجر کیلئے اُٹھ کر ضروریات سے فارِغ ہوکر بھائی نے وضو کیا۔ جیسا ہی حمّام سے نِکلے اُن کا پیر پِھسل گیا اور وہ چاروں شانے چِت فرش پر گِرپڑے۔ چوٹ کی شِدّت سے بے ہوش ہوگئے ایمبولینس بُلائی گئی۔ لیکن دواخانہ پہونچنے سے پہلے بغیر کسی مزاحمت کے بھائی انتقال کرگئے۔ آج وہ دودھ باؤلی کے قبرستان میں آرام کی نِیند سو رہے ہیں۔ اب نہ کوئی اُنھیں حیدرآباد آنے سے روک سکتا ہے نہ یہاں سے جانے کیلئے کہہ سکتا ہے۔
قیوّم خالد (شکاگو ، امریکہ )
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page