Adbi Miras
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      ستمبر 9, 2023

      کتاب کی بات

      اگست 30, 2023

      کتاب کی بات

      اگست 21, 2023

      کتاب کی بات

      جولائی 25, 2023

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2023

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      شخصیت شکن ناقد و محقق : سید شاہ…

      ستمبر 18, 2023

      تحقیق و تنقید

      عہد غالب میں شہر آرہ کا ادبی و…

      ستمبر 3, 2023

      تحقیق و تنقید

      غالب کی اردو نثر – پروفیسر شمیم حنفی

      جولائی 8, 2023

      تحقیق و تنقید

      میر اور غالب – پروفیسر شمیم حنفی

      جولائی 8, 2023

      تحقیق و تنقید

      مقدمہ شعر و شاعری پر چند باتیں –…

      جون 10, 2023

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      حجاب: ایک امر شرعی : فرحان بارہ بنکوی

      جون 27, 2023

      اسلامیات

      پیغام عید قرباں : عصر حاضر کے تناظر…

      جون 27, 2023

      اسلامیات

      روزے کی طبی وسماجی جہتیں – مفتی محمد…

      اپریل 15, 2023

      اسلامیات

      تقسیم زکوٰۃ :چند گذارشات – مفتی محمد ثناء الہدیٰ…

      اپریل 11, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل All
      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادب کا مستقبل

      نئی صبح – شیبا کوثر 

      جنوری 1, 2023

      ادب کا مستقبل

      غزل – دلشاد دل سکندر پوری

      دسمبر 26, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث اور نوشاد منظر- ڈاکٹر عمیر منظر

      ستمبر 10, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      1934کے نیوریمبرگ میں ایک جوان ہوتی ہوئی لڑکی…

      مارچ 28, 2023

      تراجم

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      تراجم

       یو م آزادی/ راجندر یادو – مترجم: سید کاشف 

      اگست 15, 2022

      تراجم

      مسئلہ،تُم ہو !/( چارلس بکؤسکی ) – نُودان…

      جولائی 25, 2022

      تعلیم

      ڈیجیٹل تعلیم کا تعارف اور طلباء کے لیے…

      جون 6, 2023

      تعلیم

      چیٹ جی پی ٹی (Chat GPT) اور تعلیم…

      اپریل 5, 2023

      تعلیم

      قومی یوم تعلیم اورمولانا ابوالکلام آزاد (جدید تعلیم…

      نومبر 11, 2022

      تعلیم

      فن لینڈ کا تعلیمی نظام (تعلیمی لحاظ سے…

      اگست 29, 2022

      خبر نامہ

      بزمِ صدف کی جانب سے انھیں مبارک باد…

      ستمبر 17, 2023

      خبر نامہ

      خواتین فنکاروں کی پیشکش کے ساتھ ایم پی…

      ستمبر 13, 2023

      خبر نامہ

      معروف افسانہ نگار فخرالدین عارفی کے اعزاز میں…

      ستمبر 10, 2023

      خبر نامہ

      جی ۔۲۰؍سربراہی اجلاس کی کامیاب انعقاد سے ملک…

      ستمبر 10, 2023

      خصوصی مضامین

      استاد کی سماجی ذمہ داری  اور اس کی…

      ستمبر 7, 2023

      خصوصی مضامین

      میری آپ بیتی کا ایک باب۔ریڈیو کی دنیا…

      ستمبر 5, 2023

      خصوصی مضامین

      یوم اساتذہ: یوم احتساب- کامران غنی صبا

      ستمبر 5, 2023

      خصوصی مضامین

      آج کے دور میں اردو زبان کی اہمیت…

      اگست 29, 2023

      سماجی اور سیاسی مضامین

      سوال اچھا ہے، جواب نہیں – محمد ریحان

      اگست 7, 2023

      سماجی اور سیاسی مضامین

      آپ ہر انسان کو خوش نہیں کر سکتے…

      جولائی 19, 2023

      سماجی اور سیاسی مضامین

      شہر اور گاؤں میں سیلاب: انسان کی اپنی…

      جولائی 16, 2023

      سماجی اور سیاسی مضامین

      آپ مطلق آزاد نہیں ہیں – محمد ریحان

      جولائی 16, 2023

      فکر و عمل

      اور سایہ دار درخت کٹ گیا – منہاج الدین…

      فروری 22, 2022

      فکر و عمل

      ابّو جان (شیخ الحدیث مولانا محمد الیاس بارہ…

      فروری 22, 2022

      فکر و عمل

       مولانا عتیق الرحمن سنبھلی – مفتی محمد ثناء الہدیٰ…

      فروری 15, 2022

      فکر و عمل

      ابوذر غفاری ؓ- الطاف جمیل آفاقی

      جنوری 19, 2022

      متفرقات

      بزمِ صدف کی جانب سے انھیں مبارک باد…

      ستمبر 17, 2023

      متفرقات

      خواتین فنکاروں کی پیشکش کے ساتھ ایم پی…

      ستمبر 13, 2023

      متفرقات

      معروف افسانہ نگار فخرالدین عارفی کے اعزاز میں…

      ستمبر 10, 2023

      متفرقات

      جی ۔۲۰؍سربراہی اجلاس کی کامیاب انعقاد سے ملک…

      ستمبر 10, 2023

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
مقبول ترین
ترجمہ کا فن :اہمیت اور مسائل – سیدہ...
تحقیق: معنی و مفہوم ۔ شاذیہ بتول
سر سید کی  ادبی خدمات – ڈاکٹر احمد...
حالیؔ کی حالات زندگی اور ان کی خدمات...
آخر شب کے ہم سفر میں منعکس مشترکہ...
تحقیق کیا ہے؟ – صائمہ پروین
منیرؔنیازی کی شاعری کے بنیادی فکری وفنی مباحث...
اردو ادب میں نعت گوئی – ڈاکٹر داؤد...
آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری (سلور کنگ...
تحقیقی خاکہ نگاری – نثار علی بھٹی
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      ستمبر 9, 2023

      کتاب کی بات

      اگست 30, 2023

      کتاب کی بات

      اگست 21, 2023

      کتاب کی بات

      جولائی 25, 2023

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2023

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      شخصیت شکن ناقد و محقق : سید شاہ…

      ستمبر 18, 2023

      تحقیق و تنقید

      عہد غالب میں شہر آرہ کا ادبی و…

      ستمبر 3, 2023

      تحقیق و تنقید

      غالب کی اردو نثر – پروفیسر شمیم حنفی

      جولائی 8, 2023

      تحقیق و تنقید

      میر اور غالب – پروفیسر شمیم حنفی

      جولائی 8, 2023

      تحقیق و تنقید

      مقدمہ شعر و شاعری پر چند باتیں –…

      جون 10, 2023

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      حجاب: ایک امر شرعی : فرحان بارہ بنکوی

      جون 27, 2023

      اسلامیات

      پیغام عید قرباں : عصر حاضر کے تناظر…

      جون 27, 2023

      اسلامیات

      روزے کی طبی وسماجی جہتیں – مفتی محمد…

      اپریل 15, 2023

      اسلامیات

      تقسیم زکوٰۃ :چند گذارشات – مفتی محمد ثناء الہدیٰ…

      اپریل 11, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل All
      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادب کا مستقبل

      نئی صبح – شیبا کوثر 

      جنوری 1, 2023

      ادب کا مستقبل

      غزل – دلشاد دل سکندر پوری

      دسمبر 26, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث اور نوشاد منظر- ڈاکٹر عمیر منظر

      ستمبر 10, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      1934کے نیوریمبرگ میں ایک جوان ہوتی ہوئی لڑکی…

      مارچ 28, 2023

      تراجم

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      تراجم

       یو م آزادی/ راجندر یادو – مترجم: سید کاشف 

      اگست 15, 2022

      تراجم

      مسئلہ،تُم ہو !/( چارلس بکؤسکی ) – نُودان…

      جولائی 25, 2022

      تعلیم

      ڈیجیٹل تعلیم کا تعارف اور طلباء کے لیے…

      جون 6, 2023

      تعلیم

      چیٹ جی پی ٹی (Chat GPT) اور تعلیم…

      اپریل 5, 2023

      تعلیم

      قومی یوم تعلیم اورمولانا ابوالکلام آزاد (جدید تعلیم…

      نومبر 11, 2022

      تعلیم

      فن لینڈ کا تعلیمی نظام (تعلیمی لحاظ سے…

      اگست 29, 2022

      خبر نامہ

      بزمِ صدف کی جانب سے انھیں مبارک باد…

      ستمبر 17, 2023

      خبر نامہ

      خواتین فنکاروں کی پیشکش کے ساتھ ایم پی…

      ستمبر 13, 2023

      خبر نامہ

      معروف افسانہ نگار فخرالدین عارفی کے اعزاز میں…

      ستمبر 10, 2023

      خبر نامہ

      جی ۔۲۰؍سربراہی اجلاس کی کامیاب انعقاد سے ملک…

      ستمبر 10, 2023

      خصوصی مضامین

      استاد کی سماجی ذمہ داری  اور اس کی…

      ستمبر 7, 2023

      خصوصی مضامین

      میری آپ بیتی کا ایک باب۔ریڈیو کی دنیا…

      ستمبر 5, 2023

      خصوصی مضامین

      یوم اساتذہ: یوم احتساب- کامران غنی صبا

      ستمبر 5, 2023

      خصوصی مضامین

      آج کے دور میں اردو زبان کی اہمیت…

      اگست 29, 2023

      سماجی اور سیاسی مضامین

      سوال اچھا ہے، جواب نہیں – محمد ریحان

      اگست 7, 2023

      سماجی اور سیاسی مضامین

      آپ ہر انسان کو خوش نہیں کر سکتے…

      جولائی 19, 2023

      سماجی اور سیاسی مضامین

      شہر اور گاؤں میں سیلاب: انسان کی اپنی…

      جولائی 16, 2023

      سماجی اور سیاسی مضامین

      آپ مطلق آزاد نہیں ہیں – محمد ریحان

      جولائی 16, 2023

      فکر و عمل

      اور سایہ دار درخت کٹ گیا – منہاج الدین…

      فروری 22, 2022

      فکر و عمل

      ابّو جان (شیخ الحدیث مولانا محمد الیاس بارہ…

      فروری 22, 2022

      فکر و عمل

       مولانا عتیق الرحمن سنبھلی – مفتی محمد ثناء الہدیٰ…

      فروری 15, 2022

      فکر و عمل

      ابوذر غفاری ؓ- الطاف جمیل آفاقی

      جنوری 19, 2022

      متفرقات

      بزمِ صدف کی جانب سے انھیں مبارک باد…

      ستمبر 17, 2023

      متفرقات

      خواتین فنکاروں کی پیشکش کے ساتھ ایم پی…

      ستمبر 13, 2023

      متفرقات

      معروف افسانہ نگار فخرالدین عارفی کے اعزاز میں…

      ستمبر 10, 2023

      متفرقات

      جی ۔۲۰؍سربراہی اجلاس کی کامیاب انعقاد سے ملک…

      ستمبر 10, 2023

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
Adbi Miras
افسانہ

حیدرآباد سے حیدآباد تک – قیوّم خالد

by adbimiras جولائی 19, 2022
by adbimiras جولائی 19, 2022 0 comment

مُنیربھائی کو حیدآباد سے بہت مُحبّت تھی لیکن وہ پاکستان چلے گئے۔ یہ ۱۹۵۸  کی بات ہے۔ اُنہیں حیدآباد کی ہر چیز سے پیار تھا۔ گُلابی جاڑوں سے جو ایک ہلکے سے سویٹر اور مفلر سے بہل جاتے تھے۔ گرماکی شاموں اور راتوں سے۔ گرما میں شام کے وقت آنگن میں ہونے والے چھڑکاؤ سے۔ چار پائیوں پر تھنڈی سفید چادریں اور ان پر بکھیرے ہوئے موتیا کی پھولوں کی مہک سے۔ پہلی پہلی بارش میں زمین سے نِکلنے والی سوندھی سوندھی خُوشبو سے۔ اِن سب سے اُنہیں بہت پیار تھا ۔ آرام کی نوکری تھی۔ صبح صبح کھچڑی‘ پاپڑ چٹنی کا پرسکون ناشتہ کیا اور دِن کے ساڑھے دس بجے تک دفتر پہونچ گئے اور ساڑھے پانچ تک گھر لوٹ آئے۔ پھر دوست احباب تھے۔ جن میں کئی شاعر تھے خودمُنیر بھائی بھی شاعر تھے شررؔ تخلص تھا‘شب باشیاں تھیںِ‘ رتجگے تھے ’’فیِ البدیہہ‘‘  مشاعرے تھے۔ جہاں چار آٹھ دوست جمع ہوگئے ایک مشاعرہ برپا کردیا۔ سب میں بڑی بات حیدآباد میں ایک سکون تھا بے فِکری تھی اِن وجوہات سے وہ جانے کے بارے میں تذبذب کا شکار تھے۔ پچھلے چار سال سے وہ فیصلہ کو ٹال رہے تھے۔ لیکن بھابی جان اِن کی جان کے پیچھے پڑی تھیں۔ اِنکا خیال تھا کہ اپنی تو جیسی تیسی گُزر جائیگی مگر بچوں کا ہندوستان میں کوئ مُستقبل نہیں ہے۔ اُن کے لئے پاکستان جانا ضروری ہے۔

اِن کے فیصلوں میں روڑے اٹکانے والوں میں‘ مَیں بھی شامل تھی ‘مَیں ان کی چھوٹی بہن۔ مَیں کہا کرتی تھی کہ آپ چلے گئے تو مَیں حیدرآباد میں اکیلی رہ جاؤنگی۔ کیونکہ مجھے اندازہ تھا کہ بڑے بھائی ضرور پاکستان چلے جائنگے‘ چھوٹے بھائی تو آزادی سے پہلے ہی انگلستان جا بسے تھے۔ پڑھنے گئے تو پھر لوٹ کر ہی نہیں آئے۔ مُنیر بھائی اس بہانے کی آڑ لے کر کہتے کہ چھوٹی یہاں اکیلی رہ جائیگی۔ بھابی جان کہتیں وہ بھی ساتھ چلی چلے ’’ لو بھلا وہ کیوں جائیگی۔ اسکے میاں کی یہاں بہترین پریکٹس ہے شہر کے بہترین ڈاکٹروں میں اُنکا شُمار ہے۔ پھر گاؤں میں بہت سی آبائی جائیداد ہے‘ کھیت ہیں ‘ کھلیان ہیں‘‘۔ بھابی جان بِھنّا کر کہتی ’’پھر ایسا کرو اپنے بچوں کو بھی ان ہاں نوکر رکھا دو۔ کوئی کمپاڈنڈر بن جائے گا‘ کوئی کھیت مزدور بن جائیگا۔‘‘

پھر ۱۹۵۶  میں سارا ہندوستان لسانی طور پر ریاستوں میں تقسیم کردیا گیا۔ سب کچھ تہس نہس ہوگیا۔ ریاست حیدرآباد کے تین تکڑے ہوگئے۔ ایک تکڑا آندھراپردیش میں شامل کردیا گیا جس میں حیدرآباد بھی تھا۔گُلبرگہ‘ بیدر‘ ظہیرآباد وغیرہ کرناٹک میں شامل کردیئے گئے۔ اورنگ آباد ‘ عثمان آباد وغیرہ مہاراشٹرا میں شامل کردیئے گئے۔ حیدرآباد آندھراپردیش کی راجدھانی بن گیا۔ ساحلی آندھرا کے ضلعوں سے کئی لوگ تبادلہ ہوکر حیدرآباد آگئے۔ حیدرآباد کے لوگوں کے تبادلے مہاراشٹرا اور کرناٹک میں کردیئے گئے۔ حیدرآباد کے پرانے لوگوں کا زور ٹُوٹ گیا۔ اِقتدار نئے لوگوں کے ہاتھوں میں چلا گیا‘بڑے بھائی کا تبادلہ کرناٹک کے ایک چھوٹے سے ضلع میں کردیا گیا۔ انہوں نے وہاں جانے سے بیشتر یہ سمجھا کہ پاکستان چلے جائیں ‘ لہذا وہ ۱۹۵۶ میں کراچی چلے گئے۔

مُنیربھائی کا تبادلہ بمبئی میں ہوگیا۔ اُنہوں نے اپنے خاندان کو حیدرآباد میں چھوڑکر بمبئی نوکری کے لئے چلے گئے۔ لیکن چھ مہینے بعد ہی نوکری چھوڑ کر واپس آگئے۔ اُن کا کہنا تھا کہ بمبئی رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ شہر بستے ہیں اِنسانوں کو زندہ رکھنے کیلئے۔ بمبئی میں لوگ بستے ہیں شہر کو زندہ رکھنے کیلئے۔ آخری لوکل ٹرین ۲ بجے رات کوجاتی ہے اور پہلی ٹرین صبح تین بجے چلنے لگتی ہے۔ شہر بس ایک ڈیڑھ گھنٹے کیلئے اُونگھتا ہے۔ پانی بھرنے کیلئے رات تین بجے اٹھنا پڑتا ہے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مُنیر بھائی کی سرکاری نوکری بھی ہاتھ سے چلی گئی۔ بھائی نے حیدرآباد آکر ایک اخبار میں نوکری کرلی۔ پھر وہی رتجگے تھے اور وہی مُنیر بھائی۔ بھابی کا دباؤ بڑھتا جارہا تھا۔ ایک دِن انکے بھائی نے بھی پاکستان جانے کا ارادہ کرلیا۔ بھابی کا صبر کا پیمانہ ٹُوٹ گیا۔ اُنہوں نے دھمکی دیدی کہ وہ بچوں کو لے کر اپنے بھائی کے ساتھ پاکستان چلے جائنگی۔اب آنا نہ آنا منجھلے بھائی کی مرضی!

(۲)

آخر کار منجھلے بھائی بھی ۱۹۵۸ ؁ء میں پاکستان چلے گئے۔ پُہنچکرکر انھوں نے ابھی سانس بھی نہ لی ہوگی یہاں اخباروں میں خبریں چھپنے لگیں کہ پاکستان میں مارشل لاء لگ گیا۔ بھائی کا خط آیا کہ وہ خیریت سے ہیں ۔ کراچی پہونچنے کے بعد بھائی ابراھیم جلیس سے مُلاقات ہوئی۔ اُنہوں نے ایک اخبار کے ادارہ میں بھائی کو اکاونٹنٹ کی نوکری دِلادی ہے۔ دِن کا کام ہے۔ اب نہ راتوں کے رتجگے ہیں ‘نہ محفلیں‘ نہ مُشاعرے۔ میں نے خود ہی یہ راستہ ترک کردیا ہے۔ اب صبح دفتر جاتا ہو اور سرِ شام گھر لوٹ آتا ہوں۔ اب ساری توجّہ میں بچوں کی پڑھائی پر لگا رہا ہوں۔ کیونکہ یہی ہمارا سرمایہ ہے‘ تمہاری بھابی کو بھی لڑکیوں کے ایک سرکاری مدرسہ میں پڑھانے کی نوکری مِل گئی ہے۔ میرے اوپر اُب توجّہ کم ہوگئی ہے ہاں روزانہ شام کو آکر میری سیکل کو تالا ڈالنا نہیں بُھولتیں۔

کراچی کے بارے میں انہوں نے لِکھا یہ شہر بھی بمبئی جیسا ہے۔ پر کیا کریں اب یہیں رہنا ہے۔ مجبوری ہے۔ یہاں پنجاب میں پنجابی بستے ہیں۔ سندھ میں سندھی بلوچستان میں بلوچی اور پیشاور میں پٹھان۔ صرف کراچی کے دل میں مہاجروں کیلئے جگہ ہے۔ بمبئی کے وقت طبیعت میں لااُبالی تھی اور لوٹنے کیلئے حیدرآباد تھا اب آنکھیں کُھل گئیں ہیں۔ دماغ ٹھکانے آگیا ہے۔ یہاں سے لوٹنے کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اِس سے آگے کہیں جابھی نہیں سکتے کہ آگے سمندر ہے۔ اکثر مہاجر یہیں رہتے ہیں۔ یہاں مہاجر تو بہت ہیں‘ مگر انصار نہیں ہیں ۔ ٹھوکریں کھاکر راستہ ڈُھونڈنا پڑتا ہے۔ ویسے یہا ں کھانے پینے کی فراغت ہے۔ ہاں دہن صرف کھانے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ ویسے لفّاظی تو بہت ہوتی ہے۔ لیکن ہمیں بہت احتیاط کرنی پڑتی ہے ورنہ غدّاری کا ٹھپّہ لگ جاتا ہے ۔ ویسے ہی مہاجر کا ٹھپّہ لگا ہوا ہے۔

پھر کچھ دن بعد مُنیر بھائی کو حبیب بنک میں نوکری مِل گئی‘ قدم اور جم گئے۔ پِھر زندگی کئی مرحلوں سے گذری ۱۹۶۵ کی جنگ ہوئی۔ سارے رابطے ٹوٹ گئے۔ نہ خط‘ نہ فون۔ بھائی کے خط کبھی کبھار براہ امریکہ آجاتے‘ وہ امریکہ میں مقیم ہماری تایا زاد بہن کو خط بھیج دیتے اور وہ اس خط کو ہمارے پاس بھیج دیتیں۔ ہم لوگ بھی جواب اسی طرح بھیج دیتے کبھی بہن کا فون آجاتا کہ وہاں سب خیریت سے ہیں۔ ہم اپنی خیریت بتادیتے۔ دو تین سال بعد راستے کُھلے۔ بھائی نے ویزے کیلئے درخواست دی۔ پتہ نہیں کیوں ان کی درخواست نا منظور کردی گئی۔ یہاں سے جانے والوں میں بھی کمی آگئی۔ کبھی کبھار سُننے میں آتا کہ فلاں خاندان پاکستان ہجرت کرگیا۔

۱۹۷۱  کی جنگ ہوئی۔ پاکستان کے دوتُکڑے ہوگئے۔ دو قومی نظریہ کی اساس ہی ٹُوٹ گئی۔ پھر خط و کتابت کا اور خیر خیریت کا وہی حربہ چل پڑا۔ خطوط براہ امریکہ آنے جانے لگے۔ بھائی نے ایک خط میں لکھا تُمہارا ملک تو پاکستان کو توڑ کر بہت خُوش ہے۔ میں کیا کہتی ہمارے دُکھ تو اپنی جگہ تھے۔ ہندوستان کے مسلمان تو ابھی تک پاکستان بننے کی قیمت چکارہے تھے۔ بات بات پر طعنہ دیا جاتا کہ تُم لوگ پاکستانی ہو پاکستان چلے جاؤ۔ اوپر سے یہ نیا غم۔ پاکستان کی ہار کی قیمت بھی ہندوستان کے مسلمانوں کوچُکانی پڑی۔ پھر کئی سال تک رابطہ ٹوٹے رہے۔ اب یہاں کے لوگوں کی پاکستان میں دلچسپی بالکل ہی ختم ہوگئی۔ اب پاکستان جانے کا نہ ہی کوئی نام لیتا‘ نہ ہی کوئی ارادہ کرتا۔ پاکستان کی حالت اب ایک فالج زدہ دوست جیسی رہ گئی تھی۔ دونوں طرف کے بچّے بڑے ہوگئے تھے۔ بھائی کے بچّے امریکہ سِدھار گئے میرے بچّے مشرقی وسطیٰ چلے گئے۔ نہ کوئی ہندوستان کا رہا نہ کوئی پاکستان کا رہا۔

پھر شادیاں ہوئیں۔ نہ کوئی اُدھر سے آسکا نہ کوئی اِدھر سے جاسکا۔ بھائی نے ایک بار پھر ویزے کی درخواست دی۔ وہ بھی نا منظور کردی گئی۔

(۳)

۱۹۸۲ ؁ء میں بنک سے وظیفہ پر سبکدوش ہونے پر بھائی بھی امریکہ چلے گئے۔ بڑے بھائی تو پہلے ہی اپنے بچوں کے پاس امریکہ جاچکے تھے۔ پاکستان سے اب رابطہ کی ضرورت ہی نہیں رہی۔

کبھی بھائی سے فون پر بات ہوجاتی ۔ اور خُطوط بھی آتے رہتے۔ بھائی کو تفصیلی خُطوط لِکھنے کی عادت تھی۔ جب تک وہ ا،میگرنٹ تھے تب تک وہ پاکستانی پاسپورٹ پر تھے۔ اِس لئے ہندوستان آنے کی اِجازت کا وہی رونا تھا۔ پہلی دفعہ کی نہ ہا ں میں نہیں بدل سکی۔ امریکی شہریت اور پاسپورٹ کے حاصل کرنے کے بعد بھی ہندوستان کا ویزا مِلنااِتنا آسان نہ تھا کیونکہ سابقہ شہریت کے بارے میں سوال اٹھتا تھا۔ یہ ایک طرفہ معاملہ نہیں تھا۔ دونوں ملکوں کا یہیں رویّہ تھا۔ جب بھی بھائی ویزے کیلئے درخواست دیتے حیدرآباد میں ہمارے پاس پولیس آکر پوچھ تاچھ کرکے جاتی اِس کی رپورٹ کی بُنیاد پر فیصلہ ہوتا۔ اس دفعہ بھائی نے شِکاگو کی ہندوستانی قونسل میں جان پہچان نکال کر کسی طرح دس سال کا ملٹیپل ویزا حاصل کرہی لیا۔ اِس طرح بھائی پہلی دفعہ ۱۹۹۸  میں حیدرآباد آسکے۔ چالیس سال بعد کی ملاقات ‘گویا زِندگیاں گُزر چُکی تھی‘ مَیں بھائی سے لپٹ کر بہت روئی۔ جب بھائی گئے تھے تو جوان تھے اب لوٹے تو بُوڑھے ہوچلے تھے۔ بالوں میں سفیدی آچُکی تھی۔ بھائی نے کہا ’’روتی کیوں ہوں‘ آئینہ دیکھو تُم بھی بُوڑھی ہوچکی ہو‘ اپنی زِندگی کے گُزرنے کا اِحساس نہیں ہوتا‘‘ ۔ پہلے تین چار دِن تو بے تحاشہ باتیں ہوئی۔ عُمرِ رفتہ کے قِصّےِ چھڑے۔ بچپن کی باتیں ہوئی۔ وقت نے کس کے ساتھ کیا سُلوک کِیا اِس کے تذکرے ہوئے۔ بھائی کو پتہ چلا کہ ان کے کئی ساتھی اِس دنیا سے رُخصت ہوچکے ہیں۔ مخدوم محی الدین‘ خورشید احمد جامی‘ سعید شہیدی وغیرہ اِس دنیا سے گُزر چُکے ہیں۔ جو نہیں گُزرے وہ بھائی کی طرح بُوڑھے ہوگئے ہیں۔ اب اِن میں بھی نہ شب باشیوں کی سکت رہی نہ فیِ البدیہہ مشاعروں کی۔ بھائی کو یہ جان کر افسوس ہوا کہُ اردو کی دو نسلوں نے خُود کشی کرلی ہے۔ اب جو نسل ہے وہ اُردو بول تو سکتی ہے لیکن لِکھ پڑھ نہیں سکتی۔ حُکومتیں اُوپر سے پیڑوں کو پانی دیتے رہے اور اندر سے جڑوں کو کاٹتے رہے۔ کئی ریاستوں نے اردو اکیڈیمیاں قائم کردیں اُردو کی کِتابیں چھاپنے کیلئے جُزوی اِمداد بھی دینے لگے اور سالانہِ انعامات بھی بانٹنے لگے تاکہ شاعر و ادیب ایک دُوسرے سے دست و گریباں رہے کہ کون کتنا بڑا شاعر ہے۔ اُردو کی کتابوں کے خریدار بہت کم رہ گئے تھے کُچھ کِتابیں بِک جاتی‘ باقی کِتابیں شاعراور ادیب حضرات آپس میں بانٹ کر خُوش ہولیتے ہیں۔ اسکولوں اور مدراس سے اُردو اٹھالی گئی۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ جب پُرانی نسل ختم ہوجائیگی تو اُردو سے ناآشنا نسل نہ اُردو کیلئے رویگی نہ اپنے ورثہ کے لُٹ جانے کا غم ہی کریگی۔ اُردو والوں کو اِتنا ہوش بھی نہ تھا کہ گھروں ہی میں بچوں کو اُردو سِکھا دیتے۔ معاشی تگ و دو نے اتنی فرصت ہی نہیں دی کہ اس طرف توجہ دیں۔ دُور اندیشی سے تو اکثر لوگ عاری ہی تھے ۔ بھائی نے کہا کہ یہ دم بھی غنیمت ہے امریکہ کے بچے تو اردو بول بھی نہیں سکتے۔ سوائے چند گھرانوں کے باقی سب جگہ انگریزی چلتی ہے۔

(۴)

مُنیر بھائی نے بھی جیسا کہ ان کی عادت ہے تفصیل سے شِکاگو کے حالات بیان کئے۔ کس طرح دکن کے لوگوں نے مل کر محفلِ اربابِ دکن نام کی مجلس قائم کی جِسمیں سابقہ دکن کے رہنے والے ممبر بن سکتے ہیں۔ لیکن پُرانے چراغ ایک ایک کرکے بُجھتے جارہے ہیں۔ چِراغ سے چِراغ جلانے والا کوئی نہیں ہے۔ نئی نسل کی آنکھیں ویسے ہی وہاں کی چکا چوند سے چُندھیائی ہوئی ہے۔ اور بیچ کی نسل کو معاشی مصروفیات سانس لینے نہیں دیتی۔ کوئی دو دو جاب کررہا ہے تو کوئی اوور ٹائم کے چکر میں پھنسا ہوا دس‘ بارہ گھنٹے کام کرہا ہے۔ محفلِ اربابِ دکن کے علاوہ شامبرگ لائبریری میں اُردواِنسٹیٹیُوٹ کے زیرِ اِنتظام مہینہ کے چوتھے ہفتے میں ایک ادبی محفل مُنعقد کی جاتی ہے۔ جس میں شعراء اور ادیب اپنی تخلیقات پیش کرتے ہیں۔ اِس طرح کی ایک ادبی محفل شہر کے دوسرے حصہ میں ہر مہینے کے پہلے اتوار کو مُنعقد کی جاتی ہے۔ لیکن نئی نسل یہاں بھی عنقا ہے۔ شِرکت کرنے والوں میں زیادہ تر بُوڑھے ہیں اُردو کے بارے میں اُنہیں اِتنا فِکر مند دیکھ کرمَیں نے دِل رکھنے کیلئے کہاکہ آپ اِتنی فکر نہ کیجئے آپ کو یاد ہے ہم اپنے زمانے میں فارسی پڑھا کرتے تھے۔ اب یہاں فارسی کوئی نہیں جانتا۔ لیکن فارسی آج بھی اِیران میں زندہ ہے۔ اِسی طرح اُردو بھی پاکستان میں زِندہ رہیگی۔اس پر اُنھوں نے کہا کہ ایک خوش آئند بات ہے کہ شِکاگو کی ایک جامعہ کے شبعہ لِسانیات کے تحت اُردو اور فارسی پڑھائی جاتی ہے۔ وہاں پڑھنے والے انگریز ہیں مولانا رومی ‘ جامی‘ اور اقبال پر اچھا کام ہورہا ہے لیکن اُس طرف بھی اپنے لوگوں کی توجّہ کم ہے۔

بھائی تین مہینے حیدرآباد میں رہے ۔ بہت سر گرمیاں رہیں مہمانوں کا آنا جانا رہا۔ وہ رشتہ دار جن سے بہت دن سے ملاقات نہیں ہوئی تھی ان سے بھی بھائی کی وجہہ سے ملاقات ہوگئی۔ویزا کی پابندی کی وجہہ سے بھائی حیدرآباد سے باہر نہیں جاسکتے تھے اس لئے کچھ رشتہ دار گلبرگہ اور اورنگ آباد سے بھی آکر ملے۔ کچھ ادبی محفلیں دوپہروں میں منعقد ہوئیں۔ شہر کی کچھ ادبی محفلوں میں بھی بھائی نے شِرکت کی۔ بڑی آپا بھی میرے پاس آگئیں تھیں آفاق بھائی کو دنیا سے گُزرے تقریباً دس برس ہوگئے تھے۔ چوتھی نسل کا ذِکر بھی نِکلا جو ابھی پاؤں پاؤں چل رہی تھی۔ اِنھیں ہم اُردو سِکھاینگے ۔ بھائی کہتے لیکن پڑھائے گا کون۔ اِن کے ماں باپ کو ہی اُردو لِکھنا پڑھنا نہیں آتا۔ وہ کیسے سِکھایں گے۔ پھر وہی بات‘ چلیں کچھ اور بات کرتے ہیں۔ بھائی نے کہا یہ بھی غنیمت ہیکہ یہ بچے اردو بولنا تو سیکھ ہی جائنگے۔ وہاں تو ماں باپ عادتاً اپنے بچوں سے انگریزی میں بات کرتے ہیں۔ پِھر Day Care Centers اورPre school میں سے تو بچے انگریزی میں دُھل دُھلا کر نِکلتے ہیں اُردو تو بولنا بھی نہیں آتا۔

تین مہینے بعدمُنیربھائ واپس چلے گئے۔ پُر نم آنکھوں سے رُخصت ہوئے۔ بہت سے لوگ چھوڑنے آئے۔ جہاز اُڑا اور کُچھ لمحوں میں اُفق میں کھوگیا۔ اُنکے جانے کے بعد‘ شروع شروع میں گرما کے لانبے دِن کاٹ کھانے آتے۔ شام بھی اُداسی میں لِپٹی آتی۔ پِھر رفتہ رفتہ زِندگی اپنی ڈگر پر واپس آگئی۔

(۵)

چار پانچ سال کے وقفہ سے بھائی دوبار اور حیدرآباد آکر گئے۔ کہتے اس سے جلد جلد نہیں آسکتا‘ بچے سب اپنے گھر بار کے ہوگئے۔اِنکی اپنی زِندگیاں ہیں اپنے اپنے اخراجات ہیں۔ اپنے وظیفہ میں سے پیسے بچا بچا کر ہی آسکتا ہوں میں حیدرآباد میں ہی واپس بس جانا چاہتا ہوں لیکن رہ نہیں سکتا کِتنی عجیب بات ہے اب تُم دونوں کو بھی فرصت ہے لیکن تُم لوگ وہاں نہیں آسکتے۔ میں یہاں نہیں رہ سکتا۔ یہا ں کتنی آسانیاں ہیں۔ گھر سے نکلے آٹو پکڑا جہاں جی چاہا چلے گئے۔ وہاں ٹیکسیاں اِتنی مہنگی ہیں کہ اپنے بس سے باہر ہیں۔ کہیں جانا ہوتو کسی نہ کسی کی مِنّت سماجت کرنی پڑتی ہے۔ ہر کوئی مصروف۔ کسی کو وقت مِل گیا تو لانے لیجانے کا احسان کرہی دیتا ہے۔ اگر کوئی نہیں مِلا تو گھر پر پڑے تنہائی کا عذاب سہتے رہیے۔ سڑک پر پیدل نِکل نہیں سکتے وہاں سڑک پر کوئی چلتا ہی نہیں یہاں کی طرح نہیں کہ سڑک پر پچاسوں افراد چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ جب میں سِیما کے ہاں رہتا ہوں تو بچیاں نانا جان ‘ نانا جان کہہ کر آگے پیچھے پھرتی رہتی ہے۔ مگر انہیں گاڑی زیادہ چلانے کی اِجازت نہیں ہے۔ حمید میاں کو پسند نہیں۔

پھر ایک دن سِیما کا فون آیا کہ بابا جان کی طبیعت خراب ہے۔ آئی سی یو ں میں ہیں پھیپھڑوں میں ورم اور انفیکشن ہوگیاہے۔ہماری وحشتوں میں اِضافہ ہوگیا۔ فون کی گھنٹی عذاب بن گئی پھر اِطلاع ملی کہ گُردے بھی برابر کام نہیں کر رہے ہیں۔ کوما میں چلے گئے ہیں۔ عیادت کرنے والوں کو بھی قریب آنے نہیں دیا جارہا ہے بھائی موت سے لڑرہے ہیں۔ دو تین ہفتہ یونہی ہی گُزر گئے پھر خبریں آنے لگیں کہ بتدرِیج طبیعت ٹھیک ہورہی ہے۔ ہوش آگیا ہے۔ انفیکشن اور ورم بھی ٹھیک ہوگیا ہے۔ گُردے بھی رفتہ رفتہ کام کرنے لگے ہیں‘ اب ہفتہ میں ایک دن ڈائلسس دینا پڑ رہا ہے۔ غرض مُنیربھائی اپنی قُوّت اِرادی اور اللہ کے کرم سے شِفایاب ہوکر گھر آگئے۔ لیکن مُکّمِل شِفایاب ہونے میں آٹھ نو مہینے لگ گئے۔ جُو نہی شِفایاب ہوگئے پھر حیدرآباد کی یاد ستانے لگی۔ فون پر کہتے ایک بار حیدرآباد آنا چاہتا ہوں جِتنی جلدی ہوسکے بہتر ہے۔ پتہ نہیں پھر زِندگی مُہلت دے یا نہیں۔ کوئی حیدرآباد آنے والے کی تلاش ہیں جو مجھے ساتھ لے آسکے۔ اب اکیلے آنے کی ہِمّت نہیں ہے۔

(۶)

یہ ۲۰۱۴ء ہے حسبِ وعدہ بھائی چار دِن پہلے طالب بھائی کے ہمرا ہ حیدرآباد آئے۔ ایرپورٹ سے طالب بھائی اپنے بیٹے کے گھر چلے گئے اور ہم لوگ اپنے گھر چلے آئے۔ کھانے وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد باتوں کا دور چلا۔ دوپہر شام میں اور شام رات میں ڈھل گئی۔ باتیں چلتی رہی۔ رات کے بارہ بجے میں نے بھائی سے کہا کہ اب سوجائیں۔ بھائی صبح کو فجر کو اُٹھانے کیلئے کہہ کر سونے چلے گئے۔ صبح فجر کیلئے اُٹھ کر ضروریات سے فارِغ ہوکر بھائی نے وضو کیا۔ جیسا ہی حمّام سے نِکلے اُن کا پیر پِھسل گیا اور وہ چاروں شانے چِت فرش پر گِرپڑے۔ چوٹ کی شِدّت سے بے ہوش ہوگئے ایمبولینس بُلائی گئی۔ لیکن دواخانہ پہونچنے سے پہلے بغیر کسی مزاحمت کے بھائی انتقال کرگئے۔ آج وہ دودھ باؤلی کے قبرستان میں آرام کی نِیند سو رہے ہیں۔ اب نہ کوئی اُنھیں حیدرآباد آنے سے روک سکتا ہے نہ یہاں سے جانے کیلئے کہہ سکتا ہے۔

 

قیوّم خالد (شکاگو ، امریکہ )

 

 

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

 

 

 

ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com  پر بھیجنے کی زحمت کریں۔

 

Home Page

 

0 comment
0
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail
adbimiras

پچھلی پوسٹ
ڈاکٹر ہما یعقوب مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی۔لکھنؤ کیمپس کی انچارج مقرر
اگلی پوسٹ
ترنم ریاض کی افسانوی ریاضت وانفرادیت – ڈاکٹرقسیم اختر

یہ بھی پڑھیں

آسمان – اسلم سلازار

ستمبر 9, 2023

پندرہ منٹ – ارم رحمن

ستمبر 3, 2023

اذیت – تاج الدین محمد

اگست 31, 2023

رکا ہوا موسم – اسلم سلازار

اگست 26, 2023

نوراں – ارم رحمٰن

جون 17, 2023

برف کی چادروں میں سانپ – قسیم اظہر

مئی 22, 2023

دو کوڑی کا آدمی – تاج الدین محمد

اپریل 29, 2023

1934کے نیوریمبرگ میں ایک جوان ہوتی ہوئی لڑکی...

مارچ 28, 2023

موت پری – عافیہ حمید

دسمبر 27, 2022

بیڑی کا کارخانہ – عقبہ حمید

دسمبر 9, 2022

تبصرہ کریں Cancel Reply

اپنا نام، ای میل اور ویبسائٹ اگلے تبصرہ کے لئے اس براؤزر میں محفوظ کریں

زمرہ جات

  • آج کا شعر (59)
  • اداریہ (6)
  • اسلامیات (178)
    • قرآن مجید (آڈیو) (3)
  • اشتہار (2)
  • پسندیدہ شعر (1)
  • تاریخِ تہذیب و ثقافت (12)
  • تحقیق و تنقید (105)
  • تخلیقی ادب (555)
    • افسانچہ (28)
    • افسانہ (181)
    • انشائیہ (16)
    • خاکہ (34)
    • رباعی (1)
    • غزل (135)
    • قصیدہ (3)
    • گلہائے عقیدت (25)
    • مرثیہ (6)
    • نظم (122)
  • تربیت (32)
  • تنقیدات (954)
    • ڈرامہ (14)
    • شاعری (488)
      • تجزیے (12)
      • شاعری کے مختلف رنگ (208)
      • غزل شناسی (179)
      • مثنوی کی تفہیم (7)
      • مرثیہ تنقید (8)
      • نظم فہمی (78)
    • صحافت (43)
    • طب (13)
    • فکشن (370)
      • افسانچے (3)
      • افسانہ کی تفہیم (194)
      • فکشن تنقید (12)
      • فکشن کے رنگ (23)
      • ناول شناسی (138)
    • قصیدہ کی تفہیم (14)
  • جامعاتی نصاب (12)
    • پی ڈی ایف (PDF) (6)
      • کتابیں (3)
    • ویڈیو (5)
  • روبرو (انٹرویو) (38)
  • کتاب کی بات (421)
  • گوشہ خواتین و اطفال (93)
    • پکوان (2)
  • متفرقات (1,832)
    • ادب کا مستقبل (110)
    • ادبی میراث کے بارے میں (8)
    • ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف (21)
    • تحفظ مادری زبان (24)
    • تراجم (27)
    • تعلیم (28)
    • خبر نامہ (729)
    • خصوصی مضامین (97)
    • سماجی اور سیاسی مضامین (215)
    • فکر و عمل (112)
  • مقابلہ جاتی امتحان (1)
  • نصابی مواد (258)
    • ویڈیو تدریس (7)

ہمیں فالو کریں

Facebook

ہمیں فالو کریں

Facebook

Follow Me

Facebook
Speed up your social site in 15 minutes, Free website transfer and script installation
  • Facebook
  • Twitter
  • Instagram
  • Youtube
  • Email
  • سر ورق
  • ہمارے بارے میں
  • ہم سے رابطہ

All Right Reserved. Designed and Developed by The Web Haat


اوپر جائیں