کہا جاتا ہے کہ انسانی زندگی جس شکست وریخت، پیچ وخم اور انقلاب سے دوچار رہتی ہے اس کے اظہار کا سب سے بہتر وسیلہ بننے کی صلاحیت اگر کسی صنف میں ہے تو وہ صرف ناول میں ہے، کیونکہ ناول معاشرہ، فرد اور ذات کے نہ صرف خارجی عوامل وعناصر کو پیش کرتا ہے بلکہ داخلی تضادو تصادم اور اس کے محرکات کو بھی اپنی گرفت میں لیتا ہے۔ زندگی اور معاشرے سے گہرے تعلق کے باوجود ناول کو اپنے وجود اور اہمیت کے لئے ہر جگہ اور ہر دور میں سنگھرش کرنا پڑا ہے۔ پریم چند کے گئودان تک ناول کو بڑی مشکل سے تیسرا درجہ دیا گیا تھا۔ (اس سے پہلے کے دو مقام شاعری اور افسانے کے لئے مخصوص تھے) ترقی پسند تحریک اور تقسیم ہند کے زیر اثر لکھنے والوں نے اردو ناول نگاری کو موضوع اور اظہار دونوں سطحوں پر نئے موڑ اور نئی جہتوں سے آشنا کیا۔ ان لوگوں کے ذریعہ ناول میں پہلی مرتبہ نئی کہانی، اس کے کہنے کا فن، وقت اور اس کا انسانی زندگی میں عمل دخل، نفسیاتی، سماجی اور طبقاتی الجھنیں، اظہار کی نئی صورتیں سب کچھ نئے مسالوں کے ساتھ نئے ڈھنگ سے پیش ہوئے۔ انہیں تمام صورتوں نے ناول کے لئے ایک راستہ ہموار کیا اور ناول محض اصلاحِ مذاق، دل بہلاؤ اور مثالی زندگی کی تلاش سے نکل کر حقیقی اور عملی زندگی کی طرف متوجہ ہوا۔ زندگی اور سماج سے بڑھتے ہوئے تعلق نے اس کی مقبولیت میں بھی اضافہ کیا اور ناول جو اصناف ادب میں تیسرے درجے پر متمکن تھا اسے دوسرا مقام مل گیا۔ پہلا مقام حاصل کرنے کے لئے بہرحال اسے سنگھرش کرتے رہنا تھا کیونکہ ۱۹۷۰ء کے بعد تک جب نئی نسل کی آمد کی اطلاع اور بحث زوروں پر تھی فکشن میں اس کا ذکر صرف افسانوں کے حوالے سے ہوتا تھا۔ ناول کی سمت ورفتار قرۃالعین حیدر (گردش رنگ چمن)سے جوگیندرپال (نادید) تک آکر رک سی گئی تھی۔ اور یہ اندیشہ ظاہر کیا جانے لگا کہ ناول کے لئے ایک خاص قسم کے تجربے، مشاہدے اور عمر کی ضرورت ہوا کرتی ہے اور یہ سب نئی نسل کے پاس نہیں اس لئے یہ مشکل اور بڑا کام نئی نسل کے بس کا نہیں۔ گویا ۱۹۷۰ء کے بعد ہمارے نقادوں کے ذریعہ ناول کے سفر پر فُل اسٹاپ لگانے کی کوشش کی جانے لگی تھی۔ کرائسس سے بھرے اس عہد اور ماحول میں تین اہم افسانہ نگاروں عبدالصمد، غضنفر اور پیغام آفاقی کے بالترتیب تین ناولوں دوگز زمین، پانی اور مکان نے افسانوی ادب میں ہلچل مچا دیا۔اس ہلچل کی دو وجہیں اور تھیں ایک تو یہ کہ خلاف توقع یہ ناول نئی نسل، نئی ذہن کی پیداوار تھے، دوسری وجہ ان کا رویّہ برتاؤ اور اسلوب قطعی طور پر اپنے پیش روؤں سے مختلف تھے۔ یہ ناول سبھی کو چونکا گئے۔ ان ناولوں کی کامیابی نے اردو کے اہم افسانہ نگاروں کو بھی متوجہ کیا چنانچہ یکے بعد دیگرے متعدد ناول منظر عام پر آتے گئے،اور یہ سلسلہ اکیسویں صدی میں بھی جاری ہے ۔جوگندر پال،علی امام نقوی ،صلاح الدین پرویز،عشرت ظفر،مظہر الزماں خان، حسین الحق،عبدالصمد،غضنفر،شموئل احمد،مشرف عالم ذوقی ،الیاس احمد گدّی،گیان سنگھ شاطر،اقبال مجید،سید محمد اشرف،ساجدہ زیدی،جتندر بلو،یعقوب یاور،شفق،ترنم ریاض ،محمد علیم ، شمس الرحمان فاروقی،انیس ناگی،نور الحسنین ،کوثر مظہری ،شاہد اختر،آچاریہ شوکت خلیل ،احمد صغیر،علی امجد،ظفر عدیم،اور شبر امام وغیرہ ایسے نام ہیں جن کا سب سے بڑا Contribution یہ ہے کہ ادب کی دنیا میں انہوں نے ناول کو پہلے پائدان پر پہنچا دیا اور آج نقادوںکو مجبور کردیا یہ اعلان کرنے پر کہ اکیسویں صدی اردو فکشن بالخصوص اردو ناول کی صدی ہے۔
میں اگر اپنی گفتگو کو صرف اکیسویں صدی تک محدود کروں تو اس نئی صدی میں اردو کے جو ناول منظر عام پر آئے ان میںمجھے میر کہتے ہیں صاحبو(حبیب حق)پارپرے(جوگندرپال) دھمک ،بکھرے اوراق،شکست کی آواز،اجالوں کی سیاہی(عبد الصمد)مہاماری،ائے دل آوارہ(شموئل احمد) وش منتھن،شوراب،مانجھی(غضنفر) دی وار جرنلس(صلاح الدین پرویز) پلیتہ(پیغام آفاقی) چراغ تہ داماں( اقبال مجید)جنگ جاری ہے،دروازہ بند ہے،ایک بوند اجالا(احمد صغیر)پوکے مان کی دنیا،پروفیسر ایس کی عجیب داستان،آتش رفتہ کے سراغ،نالۂ شب گیر(مشرف عالم ذوقی)بادل ،کابوس(شفق) کئی چاند تھے سر آسماں(شمس الرحمان فاروقی )برف آشنا پرندے (ترنم ریاض)وشواس گھات (جتندر بلو) اندھیرا پگ (ثروت خان )موت کی کتاب (خالد جاوید)نادیدہ بہاروں کے نشاں،صدائے عندلیب بر شاخ شب( شائستہ فاخری )میرے نالوں کی گمشدہ آواز(محمد علیم)نخلستان کی تلاش، ایک ممنوعہ محبت کی کہانی،خدا کے سائے میں آنکھ مچولی (رحمان عباس )ایوانوں کے خوابیدہ چراغ (نورالحسنین )اگنی پریکشا(کشمیری لال ذاکر)کہانی کوئی سنائو متاشا(صادقہ نواب سحر)اگر تم لوٹ آتے(آچاریہ شوکت خلیل)دھند میں کھوئی ہوئی روشنی(افسانہ خاتون)ایک اور کوسی(نسرین ترنم)دھند میں اُگا پیڑ(آشا پربھات)انجو شوفر(ظفر عدیم)شاہین ،جب گائوں جاگے(شبر امام)کالی ماٹی (علی امجد)سیاہ کاری ڈور میں ایلین(جاوید حسن)زوال آدم خاکی (غیاث الدین )دکھیاری (انیس اشفاق )اور لیمینیٹڈ گرل(اختر آزاد) وغیرہ قابل ذکرہیں۔بلا شبہ یہ تما م ناول غیر معمولی اور اہم نہیں ہیںمگر دھمک،مہاماری،مانجھی،جنگ جاری ہے،لے سانس بھی آہستہ،بادل،اندھیرا پگ،کئی چاند تھے سر آسماں،برف آشنا پرندے،پلیتہ،صدائے عندلیب بر شاخ شب،خدا کے سائے میں آنکھ مچولی ،کہانی کوئی سنائو متاشا،چراغ تہ داماں اور لیمینیٹڈ گرل جیسے کچھ ناول ایسے ضرور ہیں جو اردو ناول کی تاریخ کا حصہ بنیں گے۔ یہ ناول اہم بھی ہیں اور اچھے بھی کیونکہ ان میں جیتے جاگتے تازہ ترین مسائل، دور حاضر کی سماجی اور معاشی گتھیاں، زندگی کی نئی الجھنیں، انسان کی نفسیاتی کمزوریاں، نئے اور منفرد انداز میں درآئی ہیں۔ میڈیا کا پھیلتا جال، بھرشٹاچار کا کھل کر کھیل، فرقہ وارانہ فسادات،نیا عریاں کلچر، نوجوانوں کا بڑھتا ہوا فرسٹریشن، تعصب، ہماری گمشدہ تہذیب،ہندستان کی مخصوص سیاست اور اس کا بحران، اقدار کی پامالی اور ہوس کی اجارہ داری ایسے مختلف موضوعات ان ناولوں میں زندگی کی پوشیدہ تلخ اور کھردری حقیقتوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔زندگی کے انتشار اور اس کے احساس نے کبھی کبھی پلاٹ سے بھی لکھنے والوں کی دلچسپی کم کردی۔ انسان کے باطنی کرب اور زندگی کی بے سمتی کا اظہار بھی ان ناولوں میں ہوا اور اسی مناسبت سے زبان واسلوب بھی اختیار کئے گئے اس لیے ان ناولوں میں لسانی تازہ کاری کو بڑی آسانی سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہاں مسائل کا حقیقی عرفان وادراک، تبدیل شدہ اقدار وافکار کا حقیقت پسندانہ وفنکارانہ اظہار وابلاغ اپنے آپ میں گہری بصیرت اور جمالیاتی کیف رکھتا ہے۔ اس لئے یہ ناول اپنی گوناں گوں خصوصیات کے ساتھ ساتھ ایسے مختلف جدید رویے اور نئی جہتیں پیش کرتے ہیں جن سے اردو ناول کا دامن وسیع ہوتا ہے اور گفتگو کے نئے دروازے کھلتے ہیں۔
اکیسویں صدی میں جن لوگوں نے تسلسل کے ساتھ ہمیں ناول دیے ہیں اُن میں عبد الصمد ،ذوقی،غضنفررحمان عباس اور احمد صغیر سب سے پہلے متوجہ کرتے ہیں۔عبدالصمد اپنی سیاسی فکر اور واضح بیانیہ اسلوب کے سبب پہلے سے ہی شناخت قائم کرچکے تھے ،نئی صدی میں انہوں نے دھمک ،بکھرے اوراق اورشکست کی آوازجیسے ناولوں میں اپنے موضوعاتی اور اسلوبی تنوع کے سبب قارئین کو چونکایا۔’دھمک‘ میں انہوں نے بدعنوان سیاست کی پیچیدگیوں، اقتدار کے کھیلوں اور استحصال کے بھیانک رنگوں کو تفصیل سے پیش کرنے کی کوشش کی ۔انہوں نے اپنے صوبے بہارکے سیاسی گلیاروں اور اس کے شب وروز کا گہرا مشاہدہ کیا اور اس کے اندھیروں اجالوں کو بڑی سادگی وبے تکلفی سے پڑھنے والوں تک پہنچادیا۔سیاست اور سماج عبدالصمد کا پسندیدہ موضوع رہا ہے اس لئے انہوں نے ناول میں بہار کے سیاسی کھیل ،کرپشن اور شرمناک سرگرمیوں کے مختلف رنگوں کو کئی زاویوں سے پوری فنکاری کے ساتھ اجاگر کیاہے۔چونکہ عبد الصمد کے تمام ناول ایک تخصیص لیے ہوئے پس منظر اور اسلوب کے حامل ہوتے ہیں اس لیے ’بکھرے اواراق‘ اور ’شکست کی آواز‘ نے قارئین کو اسلوب اور موضوع کی ندرت کی وجہ سے حیران کردیا۔’بکھرے اوراق ‘ موضوع کے اعتبار سے تو وہی سیاسی اور معاشرتی کرپشن پیش کرتا ہے جس کے لیے عبدالصمدمشہور ہیں ۔اس میں بھی انہوں نے خوف و دہشت کے موجودہ ماحول کو ہمہ جہت رنگ میں دیکھنے دکھانے کی کوشش کی ہے مگر یہاں ان کا اسلوب استعاراتی اور علامتی ہے۔عبدالصمد شروع میں اپنے استعاراتی اور علامتی افسانوں کے لیے خاصے مشہور رہے ہیںمگر ناول میں انہوں نے یہ انداز پہلی مرتبہ اختیار کیا ہے۔یہ اسلوب ناول میں بہت کامیاب تو نہیں ہو سکامگر اس کے ذ ریعہ انہوں نے ناول کو ہماری موجودہ زندگی کا آئینہ خانہ بنا نے میں کامیابی ضرور حاصل کی ہے۔’شکست کی آواز ‘ اسلوب کے بجائے موضوع کے سبب حیران کرتاہے کہ اس میں عبدالصمد پہلی بار سیاسی اور سماجی گلیاروں سے نکل کر انسان کے نفسیاتی اور جنسی مطالعے کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔انہوں نے ندیم نام کے ایک Introvert نوجوان کی شخصیت میں پوشیدہ جنسی شعور کی پیچیدگیوں کو وقوعوں کے ذریعہ تدریجی طور پر کامیابی سے دکھایاہے۔ندیم چونکہ فطری طور پر دروں بیں(Introvert) ہے، وہ لڑکیوں سے گھبراتاہے۔طبعیاتی تقاضے کے تحت جنسی جذبے کی فزوں تر ی ندیم کی شخصیت میں ایک کشاکش پیدا کرتی ہے۔وہ نوری کو نیم عریاں انداز میں دیکھتا بھی ہے مگر جب وہ اپنا جسم دکھانے لگتی ہے تو گھبرا بھی جاتاہے۔ناظمہ قریب آنے لگتی ہے تو خود فاصلہ قائم کر لیتا ہے۔مگر یہی جذبہ اس وقت بیباکی محسوس کرتاہے جب وہ نوری کو ماسٹر کے کمرے سے نکلتے ہوئے دیکھ لیتاہے۔جب یہ باندھ ٹوٹتا ہے تو وہ اپنے اندر ہمت بٹور لیتا ہے کہ عورت کو مختلف روپ میں دیکھ سکے۔اختری کا آنا،بچے کو دودھ پلانا،پھر غسل خانہ میں نہانا،یہ ساری تصویریں ندیم کی شخصیت میں پوشیدہ برف کی سِل کو پگھلا تے رہتی ہیں اور تصورات اور حقیقت کا ٹکرائو اُسے آگہی کی نئے جہتوں سے آشنا کرتاہے۔عبدالصمد نے ندیم کی آہستہ خرام تبدیلیوں کو متعدد چھوٹے چھوٹے خارجی واقعات کے ذریعہ فطری انداز میں پیش کیاہے۔شخصیت اور اس کی دروں بینی کی نفسیات کا گہرا مطالعہ اِس ناول کا اہم ترین وصف ہے جو عبدالصمد کی ناول نگاری کی ایک نئی مگر دلچسپ جہت سے روشناس کراتاہے۔زیر نظر شمارے میں اس ناول کا خوبصورت تجزیہ مشرف عالم ذوقی کے قلم سے ملاحظہ کیجیے۔
بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں سیاست اور اس کے نتیجے میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسا دات اور مسلمانوں کو ٹارگٹ کرنے کا مسئلہ بھی اپنے وطن کے بڑے مسائل میں شمار ہوتا رہا ہے۔اب تہذیبوں کا ٹکرائو آمنے سامنے ہے،اس لیے معمولی معمولی باتوں پر فرقہ وارانہ تنائو ہو جاتاہے۔غلط فہمیوں اور سیاسی مفادات سے نفرت کی آگ کو ہوا ملتی ہے اور ایک مخصوص طبقے کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر پوری قوم پر خوف وہراس کی فضا مسلط کردی جاتی ہے۔مشرف عالم ذوقی کے ’آتش رفتہ کا سراغ‘ پیغام آفاقی کے ’پلیتہ‘ احمد صغیر کے ’دروازہ ابھی بندہے‘شموئل احمد کے ’مہاماری‘ شفق کے ’بادل‘کابوس‘ اور محمد علیم کے ’میرے نالوں کی گمشدہ آواز ‘ میں خوف ودہشت کی وہ فضا بہ آسانی دیکھی جا سکتی ہے جو ناانصافیوں کی کوکھ سے پیدا ہوئی ہے۔
مہاماری،پلیتہ ،میرے نالوں کی گمشدہ آواز کا موضوع بنیادی طور پر ملک کی موقع پرست اور قابل مذمت سیاست ہی ہے۔وہ سیاست جس نے دفتر شاہی ،بدعنوان پولس اور انتظامیہ سے ہاتھ ملا کر ایک ایسا سسٹم پیدا کردیاہے جس سے نکلنا کسی ایماندار فرد کے لیے محال ہے۔ان ناولوں کے کردار ایک طرف مفادپرست لیڈروں کی آئینہ داری کرتے ہیںتو دوسری طرف یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ ہماری مشترکہ تہذیب نیم جاں ہو چکی ہے اور سیاست اور مذہب کا گٹھ جوڑ اِس تہذیب کی پروردہ ایک پوری نسل کو بے ضمیر بنانے پر آمادہ ہے۔فرقہ واریت سیاست کو کیسے طاقتور بناتی ہے،تحریک کیسے گھٹنے ٹیک دیتی ہے،ہتھیلیاں کیسے عزائم خریدتی ہیں اور جنسی استحصال کس طرح سرور بخشتاہے،ان سب کو شموئل احمد نے بڑی سچائی اور بے باکی سے’مہاماری‘ میں پیش کیاہے تو فیمنزم ،مارکیٹ اکانومی،گلوبلائزیشن،کرپشن ،کارپوریٹ کلچر، پولرائزیشن، لاقانونیت،بدامنی اور ذہنی دیوالیہ پن کی واضح تصویر یں پیغام آفاقی نے ’پلیتہ ‘ میں پیش کی ہیں۔’میرے نالوں کی گمشدہ آواز‘میں بھی انہیں حقائق پر نظر ڈالی گئی ہے مگر بہار کے ایک چھوٹے سے شہر کے حوالے سے جو آہستہ آہستہ پھیل کر پورے ملک کی کہانی بن جاتی ہے۔ (یہ بھی پڑھیں منٹو کا ناول’بغیر عنوان کے‘ ایک تنقیدی محاسبہ- ڈاکٹر امتیاز احمد علیمی)
اس دور کی پیچیدہ سیاست اور نئی صدی میں مسلمانوں کی صورت حال پر قدرے وسیع کینوس کے ساتھ مشرف عالم ذوقی اور شفق نے بھی لکھاہے۔شفق نے ’بادل ‘ میں موجودہ عہد کے مسلمانوں کی بے چینی اور عالمی سطح پر جنگ اور فساد کے بڑھتے ہوئے رجحان سے پیدا شدہ مسائل و نتائج پر روشنی ڈالی ہے۔ناول ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر ہوئے حملہ سے شروع ہوتاہے اور اس ہیبت ناک حادثے کی تفصیل ٹی وی پر دیکھتے ہوئے لوگوں کے مختلف خیالات پر نظر ڈالتا،ہندستانی مسلمانوں کی زندگی اور ان کے موجودہ رویے کو ٹٹولتا آگے بڑھتاہے۔اِس حادثے نے مسلمانوں کو جس فکر اور اندیشے میں مبتلا کردیا اور جن سوالات سے انہیں جوجھنا پڑا ،ناول ان کا جائزہ بڑے مدلل اندا زمیں لیتاہے اور حملے کے بعد مسلمانوں کو درپیش مسائل کو بڑے کرب اور دکھے دل سے پیش کرتاہے۔یہ موضوع ایسا تھا کہ ناول خبروں کا پلندہ بن جاتامگر مصنف نے شعور کی پختگی اور فنکاری سے کام لے کر اسے ناول ہی بنائے رکھنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔
’’دی وار جرنلس‘‘ میں صلاح الدین پرویز نے بھی امنِ عالم کو درپیش خطرات کو موضوع بنایا ہے۔ناول کا تانا بانا عراق،افغانستان، اور پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں رونما ہونے والے مختلف حادثات و واقعات سے بُنا گیا ہے۔اس میں اس دور کی مختلف سیاسی شخصیات مثلاًجارج ڈبلیو بش،ٹونی بلیئر،پرویز مشرف،صدام حسین،اسامہ بن لادن اور ملا عمرکو کردار کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔داستانوی اسلوب میں لکھے گئے اس ناول کا ایک اہم کردار شہرزاد ہے جو موجودہ حالات پر نہایت بے باک اور بے خوف تبصرہ کرتی ہے۔اس ناول میں بھی گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ کا ورلڈٹریڈ سنٹر پر حملہ کا ذکر ہے مگر ساتھ ساتھ گجرات فسادات اور پارلیمنٹ پر دہشت گردانہ حملہ وغیرہ مختلف واقعات موضوع بنے ہیں۔
مشرف عالم ذوقی کو موضوعاتی ناول لکھنے میں مہارت حاصل ہے۔وہ بے باکی اور نڈرتا سے دیش ،سماج ،معاشرے ، تہذیب وتمدن اور انسانیت کے بنتے بگڑتے نقوش کو نہ صرف اپنی تیز آنکھوں سے دیکھتے ہیں،بلکہ اس کرب کو دل میں اتار لیتے ہیں ،اور پھر ان کا قلم اپنے موضوع کے ساتھ بھر پور طریقے سے انصاف کرتا ہے،اسی لیے ذوقی کے یہاں موضوعاتی تنوع بہ آسانی محسوس کیا جا سکتاہے۔گذشتہ صدی میں بیان،شہر چپ ہے اور ذبح جیسے ناول پیش کرنے کے بعد نئی صدی میں بھی وہ پو کے مان کی دنیا،پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی،لے سانس بھی آہستہ ،آتش رفتہ کے سراغ اور نالۂ شب گیر جیسے کئی ناول ہمیں دے چکے ہیں۔’پوکے مان کی دنیا‘ نئی نسلوں اور نئی تہذیب کی افسوسناک تصویر یں پیش کرتا ہے،جہاں فلم،ٹی وی،کمپیوٹر اور کارٹون بچوں کی زندگی کا حصہ بن گئے ہیں اور ایک نئی صارفیت زدہ ،ہوس کی اجارہ دار ی کرنے والی تہذیب پیدا کررہے ہیں۔ناول میں ذوقی کا اصل Concern بچے ہیں ،جو فنتاسی اور رئیلیٹی کے بیچ پھنس کر ریپ جیسے حادثے انجام دے رہے ہیں۔پوکے مان کارڈز،کارٹون اور ویب سائٹس بچوں سے ان کا بچپن چھین رہے ہیں۔فنتاسی کے غلط استعمال پر ذوقی کا غصہ آتش فشاں بن جاتاہے اور وہ اپنا سارا زورقلم اپنی تہذیب اور بچوں کی معصومیت کو بچانے میں صرف کردیتے ہیں۔’پروفیسر ایس کی عجیب داستان ‘(۲۰۰۵ء) میں بھی ذوقی نے موجودہ عہد کی سماجی ،سیاسی ،مذہبی اور فکری نا انصافیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیاہے ،مگر اس کا ذمہ دار’وقت‘ کو بنایا ہے،جو بھیانک طوفان سونامی کی طرح ہماری قدروں ،تہذیبوں ،ثقافتوں اور ایمانداریوں کو بہا لے جارہا ہے۔’لے سانس بھی آہستہ‘ تہذیب کے ٹوٹنے ،بکھرنے کی ایک اور داستان پیش کرتاہے ،جس میں تین نسلوں کے سفر نے تین تہذیبوں کا راستہ طئے کیاہے۔عبدالرحمٰن کا ردار ،اس کے آبائو اجداد اور اس کے بعد کی نئی نسل۔تہذیب کے زوال سے سماج کا چہرہ کس حد تک کریہہ ہو سکتاہے اس کی بھیانک تصویر مصنف نے ’لے سانس بھی آہستہ‘ میں پیش کی ہے۔
’آتش رفتہ کا سراغ‘آزادی کے بعد ہندستان میں مسلمانوں کی آپ بیتی یا سرسٹھ سالہ درد ناک تاریخ ہے۔اس
میں شروع سے آخر تک ذوقی نے اپنے سینے میں جلنے والے درد و کرب کی اس آگ کو انڈیلا ہے جو انہیں جلا رہی تھی۔۷۲۰ صفحات پر مشتمل یہ ضخیم ناول تین حصوں میں منقسم ہے۔پہلے حصے میں ۲۰۰۸ء تک کے وہ واقعات ہیں جن میں مسلمانوں کو اس انداز سے دہشت زدہ کیا گیا کہ وہ اپنے ہی ملک میں خود کو غریب الوطن سمجھنے لگے۔ بٹلہ ہائوس انکائونٹر اس کی سب سے بڑی مثال تھی۔مسلمانوں کا مذہبی لباس ،داڑھی ،ٹوپی ،اُن کے دہشت گرد ہونے کی علامت بنا کر انہیں بدنام کیا جانے لگا۔ناول کا دوسرا حصہ اس زمانے کو پیش کرتاہے، جب بابری مسجد رام مندر ایودھیاکی تحریک چل رہی تھی اور فرقہ پرست عناصر مسلمانوں کے درمیان نفرت کی تخم ریزی کر رہے تھے،جبکہ تیسرا حصہ ۲۰۱۰ء کے بعد کے مسلسل واقعات کو ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ذوقی کے یہ تمام ناول اس بات کے شاہد ہیں کہ ان کے یہاں احتجاج کا ایک ایسا انداز ملتاہے جو دور حاضر کے بہت کم ناول نگاروں کے یہاں دکھائی دیتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے خود انہوں نے کوئی حرف شکایت بھی زبان پر نہیں لایا بلکہ آئینہ دکھاکر ایک سوالیہ نشان ہمارے سامنے کھڑا کر دیا۔اب یہ ہمارا کام ہے کہ جھنجھلا ئیں،غصہ کریں،خاموش رہ جائیں یا سرگرم عمل ہو جائیں۔تقسیم ہند سے لے کر آج تک سیاست کے سبب ہماری زندگی اور تہذیب پہ نشیب و فراز آتے رہے ہیں اور بجلیوں کی زد پہ ہمارا آشیانہ مسلسل رہا ہے اس لیے صدائے احتجاج بلند ہونا ایک فطری امرہے۔مگر یہ تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ذوقی کی صدائے احتجاج دوسروں کی آواز سے قطعی مختلف اورزیادہ موثر ہے۔
جوگندر پال نے بھی اپنے ناول’’ پار پرے ‘‘میں ہندوستانی تاریخ و تہذیب اور سیاسی منظرنامے کو نہایت خوبی سے سمیٹا تھا مگر ایک مخصوص عہد اور مخصوص ماحول کے تناظر میں۔ اس میں کالا پانی کے نام سے مشہور انڈمان نیکو بار کے سیلولر جیل کے قیدی رہائی کے بعد بھی اپنی محبت،انسان دوستی اور بھائی چارے کے رشتے کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی بقیہ زندگی بھی وہیں ایک ساتھ گزارنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ان کی بنائی اس دنیا میں نفرت،عداوت اور تعصب کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ لیکن اچانک قومی سیاست میں فرقہ واریت کے بڑھتے طوفان کے اثرات وہاں کے لوگوں کی پرسکون زندگی پر بھی پڑتے ہیں۔بعض فرقہ پرست عناصر انھیں مذہب کے نام پر بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہو پاتی۔یہ مثالی معاشرہ ان لوگوں کا بنایا ہوا ہے جو دنیا کی نظروں میں مجرم ہیں ۔یہ ہمارے مہذب معاشرے پر ایک بلیغ طنز ہے۔ ساجدہ زیدی کے ناول ’’مٹی کے حرم‘‘میںبھی کسی قدر فنکاری کے ساتھ تقسیم کے سانحے،یاد ماضی،خواب اور شکست ِ خواب،زندگی کی تلخ حقیقتوں،وقت کے جبر اور بے بسی و محرومی کو موضوع بنایا گیا ہے۔
اکیسویں صدی میں تسلسل کے ساتھ ہمیں ناول دینے والے ایک اہم ناول نگار غضنفر بھی ہیں۔انہوں نے وش منتھن ، شوراب اور مانجھی کی صورت میں موضوعاتی اور اسلوبیاتی دونوں سطحوں پر ناولوں میں تنوع پیدا کیا ہے۔غضنفر کا آزمودہ اسلوب اور مخصوص طریق کار استعاراتی ،علامتی اور تمثیلی رہا ہے۔’وش منتھن‘ میں انہوں نے ہند ومسلم تعلقات ،اختلافات اور تصادمات کو اپنے آز مودہ استعاراتی ،تمثیلی اور شعری اسلوب ہی میں برتاہے۔جبکہ ’شوراب‘ حیرت انگیز طور پر واضح بیانیہ اسلوب میں لکھا گیاہے۔اس کے بعد ’مانجھی‘ میں پھر وہ اپنے استعاراتی اور علامتی طرز اظہار کی طرف واپس لوٹ گئے ہیں۔’مانجھی‘ کا ہیرو وی۔این رائے اپنے رشتے کے بھائی کے گھر الٰہ آباد آتاہے۔دونوں بھائی کے نظریات و خیالات میں تضاد ہے۔وی ۔این رائے سنگم کی سیر کے لیے جس نائو کا انتخاب کرتاہے اس کے مانجھی کا نام ویاس ہے۔یہ ناول وی ۔این رائے اور مانجھی ویاس کے مکالموں پر مبنی ہے۔ان دونوں کی گفتگو میں آج کی دنیا کے حالات ،مذہب ،سیاست،ہندو صنمیات اور مختلف معاشرتی مسائل بھی آتے ہیں۔اس ناول میں واقعات قصے کی شکل میں نہیں آتے بلکہ سارے واقعات ،مشاہدات یا تصورات کی شکل میں آتے ہیں۔غضنفر تجربہ پسند ذہن رکھتے ہیں ،انہوں نے سابقہ ناولوں کی طرح اس میں بھی اشاراتی اسلوب کا تجربہ کامیابی کے ساتھ بر ت کر فن کاری کا مظاہرہ کیاہے۔’شوراب‘ مانجھی سے قبل شایع ہوا مگر مانجھی سے زیادہ مقبول ہوا۔اول تو اپنے واضح بیانیہ اسلوب کی وجہ سے اور دوم موضوع کی ندرت کے سبب۔’شوراب‘ کے حوالے سے مصنف نے تلاش رزق میں دربدری یا ہجرت کو موضوع بنایاہے۔اپنے ملک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے با وجود نوکری حاصل کرنے میں ناکام رہنے والے نوجوان خلیجی ممالک کا رخ کرتے ہیں اوروطن سے دوری ،نت نئے مسائل کو جنم دیتی ہے۔وہ زندگی بھر اپنے کرب کی آگ میں تنہا جلتے ہیں اور خوبصورت تحفے عزیزوں یا دوستوں کی نذر کرتے ہوئے یہ تمنا ہی کرتے رہ جاتے ہیں کہ ان کے ہاتھوں کے چھالے بھی کوئی دیکھ لیتا۔جیسا کہ میں نے عرض کیا غضنفر ،اپنے استعاراتی ا ورعلامتی طرز بیان کے لیے مشہور ہیں مگر حیرت انگیز طور پر انہوں نے یہ ناول پوری طرح بیانیہ میںلکھاہے۔یہ الگ بات ہے کہ اپنی افتاد طبع سے مجبور ہو کر غیر ضروری طور پر بعض تمثیلی قصوں کو بھی کہانی کا حصہ بنانے کی کوشش کی ہے۔اس ناول میں ایک اور چیز بار بار نگاہوں میں چبھتی ہے ،وہ ہے جنسییت کا غلبہ۔کئی مقام پر سستی جذباتیت،بیانیہ کی عریانیت اورجزئیات نگاری غیر ضروری طور پر در آئی ہیں۔اسی موضوع پر احمد صغیر کا ناو ل ’ایک بوند اجالا‘ بھی قابل قدرہے جس میں مصنف نے تخلیقی سطح پہ کمال کی بنت اور فنکاری سے کام لیتے ہوئے اس عورت کی بغاوت کا نفسیاتی تجزیہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے ،جس کا شوہر اسے چھوڑ کر عرب ملک میں روزی کمانے گیا ہوا ہے۔کسی کمزور لڑ کی کے لیے اس اذیت کو سہ جانا شاید آسان ہوتا ہو،لیکن عام طور پر پڑھی لکھی لڑکیوں میں تکلیف دہ تنہائی ،جسمانی و روحانی اذیت اور گھٹن سے گھبرا کر بغاوت کا مادہ سر اٹھانے لگتاہے،اور یہی اس ناول کی ہیروئن کے ساتھ ہوتاہے ،وہ اُس ایک بوند اجالے کے لیے بغاوت کر تی ہے۔ناول میں مذہب بھی ہے اور نئی تہذیب بھی۔اور انسانی فطرت کے حوالہ سے بغاوت کا منظر نامہ بھی۔مصنف نے بڑی خوبصورتی سے اس نازک موضوع کو برتاہے اس لیے انسانی نفسیات کی مختلف پرتیں ہمیں ایک منجھے ہوئے فنکار کی طرح دکھانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔احمد صغیر ’جنگ جاری ہے‘ اور ’دروازہ بندہے‘ میں اکیسویں صدی کے ہندستان اور مسلمانوں کی لرزہ خیز داستان سنا کر قارئین کے دلوں میں جگہ بنا چکے تھے،اِس ناول کے ذریعہ انہوں نے موضوع بدل کر ہمیں اپنی فنکاری سے روشناس کرایاہے۔
آخر میں تین ،چار ناولوں کا اور ذکر کرنا چاہتا ہوں ،جن میں نئی صدی اور نئی تہذیب میں عورتوں کی پوزیشن ،ان کے استحصال اور پدرانہ نظام معاشرت کے جبر کا بیان ہے۔پہلا ناول اختر آزاد کا ’’لیمینیٹڈ گرل‘‘ ہے جو سب سے پہلے ہمیں اپنے نئے موضوع کی وجہ سے متوجہ کرتاہے۔اکیسویں صدی کی حد سے زیادہ بڑھی ہوئی صارفیت نے ہر شئے کو بازار کا سامان بنا دیاہے۔یہاں تک کہ ’عورت ‘ بھی اب گوشت پوست کے بجائے پلاسٹک کو ڈیڈ چمچماتی ہوئی چیز بن کر رہ گئی ہے۔عورت کو اس مقام تک لانے میں جہاں اس کی اپنی بے راہ روی ،فیشن اور دولت کی فراوانی کا ہاتھ رہا ہے وہیں فلموں اور ٹی وی پروگراموں نے بھی اہم کردار ادا کیاہے۔اختر آزاد نے بڑی فنکاری سے اِس ناول میں ایک ماں کو اپنی بیٹی کو ٹی ۔وی کے رئیلیٹی شو ز کے لیے تیار کرتے ہوئے دکھایاہے۔شوبھا اپنی بیٹی کو ٹریننگ سے سلیکشن اور پھر کامیاب T.V.Face بنانے کے لیے ہر جائز و ناجائز امتحان سے گزرتی ہے۔یہی نہیں وہ بیٹی کے ذہن میں بھی سرایت کر دیتی ہے کہ شہرت، دولت اور سماجی status کے لیے ہر کام جائز ہے۔ماں بیٹی شہرت کی بلندیاں تو پالیتی ہیں مگر بالآخر وہی ہوتاہے جو ایسے حالات میں ہوا کرتاہے۔اس کے باپ ڈاکٹر کپل کی مثبت فکر بہر حال فتح حاصل کرتی ہے۔مصنف نے اپنی فنی مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے ناول کا اختتام کیاہے جس سے قاری کے ذہن پر واضح تاثر قائم ہو تا ہے کہ ایسے رئیلیٹی شوز معاشرے میں متعدد برائیوں کو جنم دینے کا سبب بن رہے ہیں۔
اکیسویں صدی میں خواتین کے تین ناول برف آشنا پرندے،کہانی کوئی سنائو متاشا او رعندلیب بر شاخ شب قارئین کی سنجیدہ توجہ کا مرکز بنے۔ترنم ریاض کا ایک ناول ’مورتی ‘ کے عنوان سے شایع ہو چکا تھا،جس میں انہوں نے ازدواجی زندگی کے مسائل اور ناکام ازدواجی زندگی کے اسباب کو موضوع بنایا تھا ۔ یہ ناول پیش کش کے سپاٹ پن کی وجہ سے بہت زیادہ مقبول نہیں ہو سکا۔مگر۲۰۰۹ ء میں شایع ہونے والا ان کا ضخیم ناول ’’برف آشنا پرندے‘‘ نسبتاً زیادہ پسند کیا گیا۔اس ناول کی سب سے بڑی خوبی کشمیر کی معاشرتی ،سماجی اور تہذیبی پیش کش ہے جس کی تفصیل اور باریک جزئیات کشمیر سے ناواقف قاری کو نہ صرف متحیر کرتی ہے بلکہ ایک نئی دنیا اور نئی ثقافت سے متعارف کراتی ہے۔ طرز رہائش سے دسترخوان کی تفصیلات تک ہر گوشے کو بڑی وضاحت اور سچائی سے پیش کیاگیاہے۔وہاں کی سیاست اور مسائل پر گفتگو کم کم ہے ،تہذیبی تاریخ کی پیش کش پر زیادہ زور ہے۔
صادقہ نواب سحر کے ناول ’’کہانی کوئی سنائو متاشا ‘‘ نے مقبولیت کی سرخیاں خوب بٹوریں۔اس ناو ل کا موضوع عورت کا استحصال ہے۔موضوع کوئی نیا نہیں مگر خود عورت کی زبانی عورت کے استحصال کی طویل داستان جس باریک بینی،تفصیل اور دردمندی سے بیان کی گئی ہے وہ اسے Readable بنادیتی ہے۔ ناول کامرکزی کردار متاشا پورے ناول پر چھائی ہوئی ہے ،اور چونکہ کہانی اسی کے ارد گرد گھومتی رہتی ہے اس لیے وہ قاری کے دل و دماغ میں بھی گردش کرتی رہتی ہے۔مصنفہ نے ایک عورت کے کرب والم اور اس کی بے بسی کو ایسی پراثر زبان میں پیش کیا ہے کہ اس کی مظلومیت قاری کے دل کو اپنی مٹھیوں میں جکڑ لیتی ہے اور قاری ناول ختم کرنے کے بعد بھی اس کے درد کو بہت دیر تک اپنے سینے میں محسوس کرتاہے۔ یہی مصنفہ کی کامیابی ہے۔
شائستہ فاخری کا پہلا ناول ’’نادیدہ بہاروں کے نشاں‘‘ کتابی صورت میں شایع ہونے سے پہلے ہی مقبول ہو چکا تھا۔اس میں بھی عورت کی مظلومیت اور بے بسی کو ہی موضوع بنایا گیاہے جو مرد کی خودغرضی، انانیت اور بے دردی کا نتیجہ ہے۔مصنفہ نے ایک نازک مسئلے (حلالہ) کو بڑی بے باکی اور سچائی کے ساتھ اس ناول میں برتاہے۔یہ ناول نہ صرف عورت کی ناقدری،مظلومی اور اس کے جذبۂ ایثار کو پیش کرتاہے بلکہ مردو ں کو ان کے جابرانہ رویے کے تعلق سے دعوت احتساب بھی دیتاہے۔ناول کے مرکزی کردار علیزہ کا درد یہ ہے کہ اس نے دومردوں کے آگے خود کو برہنہ کیا ،دونوں مرد اس کے اپنے تھے اور وہ دونوں بھی عریاں تھے۔علیزہ اپنے شوہرکے شک اور تنک مزاجی سے اپنی ذات میں محصور ہو جاتی ہے اور ایک دن تقدیر اسے اپنے دیور کے ساتھ حلالہ کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔اس کا دماغ دو حصوں میں منقسم ہے ،ناف کے اوپر کے حصے پر دماغ کی حکمرانی ہے تو ناف کے نیچے بھوگ کی ۔تکمیلیت کہیں نہیں ہے۔ناول ایک بڑا سوال اٹھاتاہے کہ اگر خطاکار مرد ہے تو سزا عورت کیوں جھیلے؟ ہمارے معاشرے کا یہ مسئلہ بہت نازک تھا مگر شائستہ فاخری نے اسے بڑی سنجیدگی سے برتاہے۔مذہبی احکامات کے نرغے سے نکلنے کے بعد علیزہ جو فیصلہ لیتی ہے وہ عورت کی آزادی کا اعلامیہ ہے۔ناول کی زبان اور پیش کش پہلے ہی ناول سے مصنفہ کی فنکاری اور فن پر دسترس کا اعلان کر دیتی ہے۔شائستہ نے دوسرا ناول ’’صدائے عندلیب بر شاخ شب ‘‘ لکھ کراہل فن سے اپنی فنکاری پر مہر تصدیق بھی ثبت کروا لی۔سترہ ابواب پر مشتمل یہ ناول نادیدہ بہاروں کے نشاںکے مقابلے میں وسیع کینوس،کثیر کردار اور اجتماعی شعور و لاشعور کے ڈھیر سارے رنگ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔موضوع عورت ہے کہ نازنیں سے ستارہ تک زیادہ تر کردار جو کہانی میں اہم رول ادا کرتے ہیں عورت ہی ہیں۔ایک طر ف خوش حال اور امیر طبقہ ہے تو دوسری طر ف جھونپڑی میں رہنے والا مفلوک الحال طبقہ ۔مصنفہ کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے دونوں طبقات کی زندگی اور درد والم جیسی کیفیات کو سلیقے سے پیش کیاہے۔زندگی کی رفتار اور اس میں انسان کے مختلف رنگ کو ناول اس طرح پیش کرتاہے کہ ایک طرف تجسس جاسوسی ناولوں جیسی دلچسپی پیدا کرتاہے تو دوسری طرف زندگی کے المیہ اور طربیہ رنگوں کی تفصیلات ہمیں فلسفیانہ حقائق سے آشنا کراتی ہیں۔بحیثیت مجمو عی یہ ناول کئی افراد ،کئی طبقات کی زندگی،اور زندگی کا تجربہ پیش کرنے میںکامیاب ہے اور جہاں کہیں مصنفہ کا تجربہ فلسفہ بن جاتاہے ناول ایک نئی بلندی حاصل کرلیتا ہے۔مسرت کی بات یہ ہے کہ ناول میں یہ مقامات کثرت سے آئے ہیں۔چنانچہ موضوع،پیش کش ،کردانگاری،فلسفہ ،حقیقت نگاری اور زبان کی تخلیقیت کے اعتبار سے اردو کے نئے ناولوں میںصدائے عندلیب بر شاخ شب کو ایک عمدہ ،معنی خیز اور فکر انگیزاضافہ قرار دیا جاسکتاہے۔
مذکورہ تینوں ناولوں سے قبل ثروت خان کا ناول اندھیرا پگ‘‘ شایع ہو کر مقبول ہو چکا تھا اور ثروت خان اپنے پہلے ناول سے ہی ہم عصر اردو ناول میں اپنی شناخت مستحکم کر چکی تھیں،مگر اس کا موضوع اور پس منظر قدرے مختلف ہے۔ اندھیراپگ کا موضوع بیوہ عورت کی زندگی ہے جو ظاہر ہے نیا نہیں ہے اور نہ پہلی مرتبہ کسی ناو ل میں برتا گیاہے مگر اسے جس خاص راجستھانی پس منظر میں برتا گیا ہے وہ پس منظر اسے اہم بنادیتاہے۔جو حقائق یہاں پیش کیے گئے ہیں وہ حقائق اسے اہم بناتے ہیں اور ہماری نظروں سے اوجھل جس تہذیب ،کلچر اور نظام کو نہایت کھلے بندھے انداز میں دکھایا گیاہے وہ نظام اور کلچر اس ناول کو معتبر اور منفرد بناتاہے۔ناول میں مختلف قسم کے کردار ہیں۔ہر کردار کے دامن میں کھونے،لٹ جانے ،مرنے ،مٹنے کی ان گنت داستانیں ہیں۔سب خوں آشام،ہر چہرہ الجھا ہوا،ہر کردار کا جگر چھلنی۔یہ سب مل کر ہمیں راجستھان کے مختلف کلچرز کی ان گنت زمینی حقیقتوں سے رو برو کراتے ہیں۔یہاں واقعات جس قدر زیادہ ہیں اشارات ان سے بھی زیادہ۔پورا ناول جذباتی اور ذہنی کشمکش کی بھٹی میں کھولتا رہتا ہے۔بکھرائو اور تعمیر،ظلم اور احتجاج دو نوں مرحلوں میں یہ بھٹی کبھی بجھتی نہیں ۔اس لیے قاری ایک بے چین روح کی طرح ناول نگار کے اشارے پر جیتا مرتا رہتاہے۔یہ اضطراب ،بے چینی،خواب ،حقیقت کا گھماسان،آسمان میں اڑنے کی چاہت اور پنجرے میں قید ہونے کی مجبوری۔یہی اس ناول کا اصل کرب ہے اور المناک حقیقت۔مصنفہ اس حقیقت کی تصویریں ایک فوٹو گرافر کی طرح اتارتی ہیں اور قاری تک پہنچا تی ہیں۔اس تصویر کشی میں ان کے اندر کا فنکار تمام واقعے،حادثے اور المیے پر بہت خاموشی کے ساتھ اپنا احتجاج درج کراتا رہتاہے۔یہ احتجاج ہی ’’اندھیرا پگ ‘‘کا مرکزی نقطہ ہے جو ناول کی رگ رگ میں سمایا ہواہے۔
طالب علموں کی زندگی اور موجودہ مسابقتی دور کے حالات پر خواتین کے دو ناول منظر عام پر آئے ،جن میں ایکنسترن احسن فتیحیکا ’’لفٹ‘‘ اور دوسرا نیلوفر کا ’’ اوٹرم لین ‘‘ ہے۔’’لفٹ‘‘ میں ایک نہایت اہم مسئلے کی جانب توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔آج کے مسابقتی دور میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہر آدمی چور دروازے کی تلاش میں ہے۔چنانچہ نوکری حاصل کرنی ہویا کسی دفتر میں کوئی کام کراناہو،ہر جگہ اسی کو اختیا رکیا جا رہا ہے۔نتیجتاًمستحقین کی حق تلفی ہوتی ہے اور غیر مستحق افراد ان مقامات یا عہدوں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں جن کے وہ اہل نہیں ہوتے۔ناول میں ’لفٹ‘ کو اسی شارٹ کٹ کے استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔اس ناول کا مرکزی کردار اجے ورما جہاں اپنی محنت اور لگن سے کامیابی حاصل کرتا ہے وہیں نیک رام شارٹ کٹ کے ذریعے ایک کلرک سے یونیورسٹی کے اعلیٰ عہدے تک پہنچ جاتاہے۔یہ ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ باصلاحیت افراد در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور غیر مستحق لوگ اعلیٰ عہدوں اور منصبوں پر فائز ہو رہے ہیں۔
اپنے موضوع کی ندرت کے سبب نیلوفر کا پہلا ناول ’اوٹرم لین‘ بھی ہمیں متوجہ کرتا ہے جس میں مصنفہ نے یوپی ایس سی کی تیاری کرنے والے طلبہ کے جد وجہد ،کوچنگ انسٹی چیوشنز کی لوٹ کھسوٹ ،اور ناکامی کے بعد پیدا ہونے والے فرسٹریشن کو بیانیہ انداز میں پیش کیاہے۔اگرچہ یہ ناول فنی طور پر ادب میں جگہ بنانے میں ناکام رہا مگر قدروں کی پامالی اور تہذیب کے زوال سے الگ نئی صدی میںلکھنے والے نئے موضوعات کی طرف جس طرح راغب ہو رہے ہیں اس کا اشاریہ ضرورہے۔مجھے عورتوں کے ناول اور عورت کے مسئلے بات کرتے ہوئے دو ناول اور یاد آرہے ہیں۔آشا پربھات کا ’’دھند میں اُگا پیڑ‘‘ اور افسانہ خاتون کا ’’دھند میں کھوئی ہوئی روشنی‘‘ ۔گرچہ ان دونوں کے موضوعات براہ راست تانیثیت کی تحریک سے تعلق نہیں رکھتے مگر عورتوں کے استحصال ،معاشرتی جبر اور عورتوں کے ا ضطراب سے ان کا تعلق ضرورہے۔عورت کے اندرپھوٹنے والے سب سے خوبصورت جذبے پر خود عورت کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔اس کا ضمیر تو محبت کی مٹی سے گندھا ہوتاہے مگر پدرانہ سماج میں عورت کو ہی مجرم قرار دیا جاتا ہے۔’’دھند میں اگا پیڑ‘‘ ایک شادی شدہ عورت کی داستان ہے جس میں اس کا خود غرض ،شاطر اور منصوبہ بندی کے ساتھ جرم کرنے والا شوہر نہ صر ف پیش قدمی کرتاہے بلکہ کامیاب بھی ہو جاتاہے۔لیکن ہر حال میں عورت ہی مورد الزام ٹھہرائی جاتی ہے۔آشا پربھات نے شادی شدہ عورت کے عشق اور مردو عورت کے رشتوں پر سادگی کے ساتھ عمدہ کہانی بیان کی ہے۔جبکہ افسانہ خاتون نے اپنے ناول میں شالینی ،سنتوش اور سمیر سے جوتکون تیار کیاہے،اس کے ذریعہ ازدواجی رشتے کے کھوکھلے پن اور تشنگی کے درمیان عورت کی ذہنی و جذباتی کشمکش کو بخوبی بیان کرکے اپنی شناخت بنانے کی کوشش کی ہے،مگر ناول کے آخری حصے میں کلائمکس اور اینٹی کلائمکس کے مابین عجلت پسندی نے فنی سا لمیت کو نقصان پہنچایاہے۔عورتوں کے ایسے ہی چند ناولوں کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر اعجاز علی ارشدنے ایک سوال اٹھایا تھا کہ ’’عورتوں کا ا ضطراب فطری ہے مگر ہمیں آج بھی اردو ناول میں اس نسوانی کردار کی تلاش ہے جو مردو کی صرف شکایت نہ
کرے بلکہ ان کے سامنے سوالیہ نشان کی صورت میں ابھرے‘‘۔میرا خیال ہے کہ مشرف عالم ذوقی کا نیا ناول ’’نالۂ شب گیر‘‘ نہ صر ف اُن کے سوال کا جواب ہے بلکہ اُس نسوانی کردار کو بھی پیش کرتاہے جس کی تلاش اردو ناول کے ناقدوں کو رہی ہے۔ناہید اس ناول کا وہ کردارہے جس نے نہ صرف ظلم سہنے سے انکار کیا بلکہ برسوں کی تذلیل کا بدلہ لینے کی بھی ٹھان لی ۔جو نہ صرف اپنی سوچ بدل لیتی ہے بلکہ اِس نئی صدی کو بدل دیتی ہے۔اردو ناول نے آج تک ممتا ،قربانی اور محبت کے جذبوں سے بھرپور عورت کو ہی دکھایا تھا،ذوقی نے ہمیں وہ عورت دکھایا ہے جس کے اندر ہر غلط نگاہ کو نوچ لینے کی ہمت ہے۔ذوقی نے ایک نئی عورت کا تصور پیش کیاہے جو مردوں سے کسی طرح کمتر نہیں۔بلکہ جس نے کمال ہشیاری سے مردوں کو ہی عورت بنا دیاہے۔بلا شبہ یہ ناول فیمنزم کے حوالے سے نہ صرف ایک نئی سوچ کے ساتھ فکر و احساس کے نئے دریچے وا کرتاہے بلکہ ذوقی کی ناول نگاری کی نئی اور کامیاب جہت سے آشنا کراتاہے۔
شمس الرحمان فاروقی کے ضخیم ناول ــــــــــ ’’کئی چاند تھے سر آسماں‘‘کا مطالعہ کئی جہتوں سے کیا گیا۔کسی نے اسے تاریخی،کسی نے نیم تاریخی،کسی نے تہذیبی اور کسی نے غیرناولانہ تحریر کا نام دیا ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ خواہ کسی نقطۂ نظر سے اس کا مطالعہ کریں اس کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتے۔میں اسے تہذیبی ناول سمجھتا ہوں،جس میں مصنف نے انیسویں صدی کی ہند اسلامی تہذیب ،معاشرت ،ادب اور ثقافت کی بھر پور مرقع کشی کی ہے۔اکیسویں صدی میں جب ہماری دنیا تہذیبی اور معاشرتی سطح پر بالکل بدل چکی ہے ،انیسویں صدی کی تہذیب دیکھ کر حیرت انگیز خوشی او ر استعجاب کی کیفیت میںمبتلا ہوتے ہیں۔ناول کی طوالت عام قاری کو گراں گزر سکتی ہے ،مگر مصنف نے وزیر خانم کے خاندان کی کڑیاں ملانے کے لیے جو تفصیلات پیش کی ہیں،تاریخی مآخذات سے جس طرح استفادہ کیاہے،اور تہذیبی زندگی کی پیش کش میں جیسی جزئیات نگاری کی ہے ،یہ ناول کو نہ صر ف مطالعیت سے بھر پور بناتی ہے بلکہ مصنف کی انیسویں صدی کی زبان وتہذیب سے واقفیت کا اعتراف بھی کرواتی ہے۔اس ناول کی ادبی اہمیت کا اعتراف کیا جائے یا انکار کیا جائے ،اتنا تو طئے ہے کہ اردو ناول کی تاریخ اس کے بغیر مکمل نہیں ہو سکے گی۔
رحمان عباس ہم عصر ناول کی دنیا میں اپنے دستخط سے معتبر ہو چکے ہیں۔ان کے تین ناول نخلستان کی تلاش،ایک ممنوعہ محبت کی کہانی اور خداکے سائے میں آنکھ مچولی عوامی اور ادبی دونوں حلقوں میں مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔نخلستان کی تلاش کشمیر کے شورش زدہ حالات اور ہندستانی سماج میں بڑھتی ہوئی فسطائیت کا احاطہ کرتا ہے ۔اس میں نئی نسل اور نوجوان طبقے کو خصوصی طور پر نگاہ میں رکھا گیاہے جن کے ذہن و دماغ پر ایسے حالات اورسیاسی جبر کا نفسیاتی اثر سب سے زیادہ پڑ رہاہے۔ناول اپنے گٹھے ہوئے پلاٹ اور تخلیقی بیانیہ کے سبب قاری کو پوری طرح اپنی گرفت میں رکھتاہے۔رحمان عباس کا دوسرا ناول ’ایک ممنوعہ محبت کی کہانی‘ محبت کے ایک پرلطف ،پرسوز اور دلچسپ قصے پر محیط ہے ،جس کے حوالے سے مذہبی شدت پسندی،مسلکی منافرت اور ہندستانی مسلمانوں میں تفریق وذہنی پسماندگی کو نشانہ بنایا گیاہے۔کونکنی تہذیب و معاشرت کا پس منظر بھی اس کہانی کو نیاپن اور دلچسپی عطا کرتاہے۔تیسرا ناول ’خدا کے سائے میں آنکھ مچولی‘ انسانی نفسیات اور انسانی سرشت کے مطالعے کا خوبصورت اظہار ہے ۔اس کا مرکزی کردار عبدالسلام اپنی آوارہ مزاجی ،آشفتہ حالی اور پراگندہ خیالی کے باوجود اپنی قربانی کے سبب قاری کی ہمدردی حاصل کر لیتاہے۔اس میں مصنف نے تکنیک اور اسلوب کے تجربات بھی کئے ہیں،اس لیے اسلوب و اظہار کی سطح پر یہ ناول ماقبل ناولو ں سے زیادہ متوجہ کرتاہے۔رحمان عباس کا قلمی سفر ابھی تیزی سے جاری ہے ۔’’روحزن ‘‘کے عنوان سے ابھی ابھی ایک ناول آیاہے،جس پر گفتگو ہو رہی ہے۔اُ ردو دنیا کو توقع ہے کہ جلد ہی وہ ایسا شہکار بھی پیش کریں گے جس پر ہمیں ناز ہوگا۔
اس گفتگو کو ختم کرنے سے پہلے میں چاہتاہوں کہ اُن ناولوں کا بھی کچھ ذکر کردوں جو ابھی ابھی زیر مطالعہ رہے ہیں۔ان میں سب سے پہلاناول معروف فکشن نگار حسین الحق کاہے۔طویل گیپ کے بعد حسین الحق کا نیا ناول ’’اماوس میں خواب ‘‘ (۲۰۱۷)آیا جو ایک بڑے کینوس پر لکھا گیاہے ۔اس میں آزادی کے بعد کی سیاسی ،سماجی صورت حال بھی ہے اور مسلمانوں کی زندگی میں پیش آئے تغیرات و انقلابات بھی۔تعلیم کی کسادبازاری بھی ہے اور سیاست کی عیاری بھی۔اس میں بھیونڈی،مالیگائوں،بھاگلپور،بابری مسجد ،گجرات،لو جہاد،گئو رکچھا سب کچھ موجود ہے اور ان سب کو خوبصورتی سے قارئین تک پہنچانے کے لئے اسماعیل،قیدار،نائلہ اور رمیش جیسے مضبوط کردار بھی تراشے گئے ہیں۔آزادی کے بعد سے اب تک کی ہندستانی تاریخ کو ایک سیکولر اور غیر جانبدار نقطہ نگاہ سے دکھانے کے لئے ایک بڑے کینوس اور ہزاروں صفحات کی ضرورت تھی مگر حسین الحق نے ایک ماہر فنکار کی طرح استعارے ،تمثیل اور علامت کی زبان دے کر بڑی خوبی سے ۳۴۷صفحات میں سمیٹ دیا ہے۔یہاں ماضی اور اس کی قدریں ،اسلاف کی تہذیب،مشترکہ ثقافت خواب کی صور ت جلوہ گر ہوتی ہیں جسے تعبیر کی صورت میں اسماعیل سے نائلہ تک تین نسلیں پانا چاہتی ہیں ،مگر کیا کیجے کہ ملک نے اپنے اوپر نفرت ،سیاست اور دشمنی کے اماوس کی وہ چادر تان رکھی ہے کہ تعبیر کا چاند نکل ہی نہیں پاتا۔حسین الحق نے اس ناول میں بیانیہ کا خوبصور ت استعمال کیاہے۔ اس کا ڈکشن استعارے اور تمثیل کو نئی جہتیں دیتاہے اور بیانیہ کو دلچسپ بنادیتاہے۔بیانیہ کی صرف ایک مثال دیکھئے
’’وہ آرہی ہیں ۔۔۔ایک وہم ساہوا ۔۔۔کہیں نظر نہیں آرہی تھیں مگر ایسا لگ رہا تھاکہ وہ آرہی ہیں۔برف یا روئی کے گالے سے تیار کی ہوئی فضا میں سنہرے گل بوٹے ٹکے ہوئے تھے اور جگنؤوں کو حکم دیا گیا تھا کہ تم سارے میں جگمگاتے پھرو اور چاندنے منادی کی تھی کہ ابد الآباد تک میں اس فضا پر چاندنی بکھیروں گا اور غیب الغیب سے ایک فرمان جاری ہوا تھا کہ سورج اپنی تپش کو اس جلسے سے دور رکھے۔الٰہی یہ جلسہ کہاں ہو رہا ہے،جہاں حوران بہشتی کا مجمع دف پر گاتا تھا۔۔۔چوں پردہ بر افتد۔۔۔چوں پردہ بر افتد۔۔۔۔اور پردہ ابھی اٹھا نہیں تھا۔حریری پردوں کی نرم سرسراہٹ نرم بھی تھی اور ریشم جیسی کومل بھی،پردے ساکن نہیں تھے،مگر اُٹھ بھی نہیں جارہے تھے۔اہتما م یہ تھا کہ کچھ چھپا بھی رہے ،کچھ جھلملاتا بھی رہے،ایسے ستر پردوں کے پرے وہ ساعد سیمیں ایک مستانہ سی بوجھل اور سرشار کیفیت میں مکیّف ہوئیں کہ ماتھے پر ان کے شکنیں صف تشنگاں تھیں اوربھویں طلب کی آگ میں جل کر زلف زلیخا کی مانند سیاہ او ر آنکھوں کی پتلی میں سیاہی تھی،سفیدی تھی،شفق تھی،ابر باراں تھا۔‘‘(ص۔۳۱)
دوسرا ناول معروف افسانہ نگار صغیررحمانی کے زور قلم کا نتیجہ ہے ’’تخم خوں‘‘،جو مکمل طور پر دلت ڈسکورس اور نکسل موومنٹ کو پیش نظر رکھ کر لکھاگیاہے۔اسے پڑھ کرکے ایک نتیجہ تو فوراً اخذ کیا جا سکتاہے کہ دلت مسائل پر یہ اردو کا پہلا مکمل ناول ہے۔دلت طبقہ کو پیش نظر رکھ کر ’’دویہ بانی‘‘ بھی لکھا گیا تھا مگر وہاں پس منظر تاریخی اور اسلوب شاعرانہ تھا۔یہاں عہد حاضر کے سلگتے مسائل ہیں اور اسلوب و اظہار حد رجہ حقیقت پسندانہ۔ایسا لگتا ہے صغیر رحمانی نے الیاس احمد گدی کی طرح وہی سب لکھا ہے جو انہوں نے بچپن سے دیکھا اور بھوگا ہے۔اس کا ہر صفحہ ان کے مشاہدے کا عکاس ہے۔انہوں نے دلت مسائل کو صرف اخباروں سے نہیں جانا ہے بلکہ دلت کرداروں کے ساتھ جی کر ان کی سائیکی میں اترنے کی کوشش کی ہے۔۱۹۹۰ ء کے آس پاس بہار میں حق کے لئے آواز اٹھانے والی آوازیں دلتوں،پسماندوں اور غریبوں کی تھیں ،ان آوازوں نے کئی تحریکوں اور آندلنوں کی بنیاد رکھی تھی۔صغیر رحمانی نے بڑی باریکی اور گہرائی سے ان تحریکوں کے بطن میں اتر کر نتائج اخذ کیے ہیں اور ناول کے تانے بانے میں اس طرح پرویا ہے کہ وہ سارے حالات زندہ صورت میں ہماری نگاہوں کے سامنے پھر جاتے ہیں۔یہ وہ معاشرہ جسے خود بہار والوں نے بھی بہت قریب سے نہیں دیکھا ہوگا کہ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر سماجی اور سیاسی مسائل پر فکشن لکھنے اور ان مسائل کو بھوگ کر فکشن تخلیق کرنے میں بڑا فرق ہے۔صغیر رحمانی نے بہت صحیح لکھا ہے کہ اردو ادب میں دلت مسائل کو دیکھنے کی کوشش ٹھیک ویسی ہے جیسے ٹرین کی کھڑکی سے بھاگتے ہوئے گائوں کو دیکھنے کی۔صغیر رحمانی نے ایسا بالکل نہیں کیاہے اس لیے اس میں قاری کو بہار کا وہ چہرہ دکھائی دیتاہے جو شاید ہی کسی نے دکھایا ہو۔سامنت واد اور برہمن واد کا مسئلہ شاید ہندستان کے بہت سارے علاقوں میں ہو مگر بہار میں اس مسئلہ کی جڑیں زمینی تنازعہ کے ذریعہ بہت اندرون تک سمائی ہوئی ہیںاور مختلف تحریکوں کے باوجودآج تک صورتیں بدل بدل کر سیاست کے کام آرہی ہیں۔
تخم خوں صر ف موضوعی اعتبار سے نہیں ،فنی ٹریٹمنٹ اور برتاؤ کے لحاظ سے بھی قابل توجہ ناول ہے۔پلاٹ کا گٹھاؤ ایسا ہے کہ ناول اپنے آغاز سے ہی قاری کو پوری طرح گرفت میںلے لیتاہے اور کردارنگاری ایسی کہ بلائتی قاری کی فکر کا حصہ بن جاتی ہے۔وہ استحصال کی ہی علامت نہیں مزاحمت کا شعلہ بھی بنتی ہے اور اپنے ہر روپ میں مکمل نظر آتی ہے۔مرد کرداروں میں ٹینگر ،مانجھی،اگھورن،جھگرو،بھیکھناسب کے سب ایک ہی درد کا شکار ہیں اور اس سامنتی کلچر کو جھیل رہے ہیں جہاں ان کے نام کی طرح ہی کام بھی کوئی دلکشی نہیں رکھتا۔ان کے ساتھ ہونے والے سلوک سے انسانیت کراہتی ہے اور آسمان شرمندہ ہوتا ہے ۔مگر کوئی چہرہ ایسا سامنے نہیں آتا جو ان کی کراہ پر مضطرب ہو یا ان کے ہاتھوں کو تھام کر صاف ستھری زندگی کا راہی بنادے۔اس کے لئے انہیں کے درمیان سے کسی کو اٹھنا ہو گا ۔صغیر رحمانی نے دکھایا ہے کہ اب آندولنوں اور تحریکوں کے ذریعہ اس کی شروعات ہو چکی ہے اور وہ دن دور نہیں جب بلائتی یا ٹینگر کی مزاحمت رنگ لائے گی اور وہ اپنا حق اسی سامنت وادی طبقہ سے چھین کر اپنے گھروں کو روشن کریں گے۔چنانچہ ناول کا خاتمہ جس منظر کے ساتھ ہوتاہے وہ منظر دلت مسائل کے خاتمے کی جھلک اور ان کے روشن مستقبل کا اشاریہ پیش کرتاہے۔آپ بھی دیکھئے
’’نور کا تڑکا پھیل چکاتھا۔آسمان کا جنوبی کنارہ سرخی مائل ہونے لگا تھا۔سورج کے طلوع ہونے میں محض چند ساعتوں کی تاخیر تھی۔عین اسی وقت بلائتی نے کیسر ملے دودھ کی مانند سرخ اور روئی کے پھاہے جیسے نرم بچے کو جنم دیا۔ادھر بچے کے پیر زمین پر پڑے ،ادھر سورج نے اپنی شعاعیں بکھیر دیں۔ٹینگر گویا پاگل ہو اٹھا ۔زور زور سے پیتل کی تھالی پیٹنے
لگا۔سورج نکل چکاتھا۔(ص۔۳۵۱)
میرا خیال ہے دلت مسائل پر تخم خوں ایک سچا اور بڑا ناول ہے،جو اپنے فنی اور فکری پہلوئوں پر تفصیلی گفتگو کا تقاضا کرتاہے۔
ادھر تازہ واردان بساط ادب بھی فکشن کی دنیا میں بادنسیم کے جھونکوں کی طرح آئے ہیں ۔ان پر گفتگو ضرور ہونی چاہیے کہ تنقید و تحقیق کی نسبتا ً آسان دنیا میں آسانی سے بڑی تعداد میں لوگ داخل ہوتے ہیں ،مگر تخلیق کا میدان خالی خالی رہتاہے۔جب کہ ادب کے فروغ کے لیے نئی نسل کا تخلیق میں دلچسپی لینا اور آگے بڑھنا زیادہ ضروری ہے۔ایسے میں دو ریسرچ اسکالرز سلمان عبدالصمد اور سفینہ بیگم کے ناول اور شہناز رحمان اور شارقہ شفتین کے افسانوی مجموعے مجھے موصول ہوئے تو از حد خوشی ہوئی کہ ہمیں اردو ادب کے مستقبل سے مایوس ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ۔تخلیق کی شمع جلائے یہ لوگ اردو فکشن کی روشنی اور تابناکی ضرور قائم رکھیں گے۔
سلمان عبدالصمد کا ناول ’’لفظوں کا لہو‘‘ اپنے موضوع کے اعتبار سے جدت لئے ہوئے ہے کہ فکشن میں ہم عصر اردو صحافت کو مرکز مطالعہ شاید اب تک نہیں بنایا گیا تھا۔یوں تو اس ناول میں مصنف نے موجودہ معاشرہ کے مختلف مسائل کی جانب ہمیں متوجہ کیاہے مثلاًشہری زندگی کا کرب،گاؤں کی تکلیفیں ،کم عمر کی شادی،بیویوں کو چھوڑکر غیر ممالک میں بسنے والے شوہروں کے ازدواجی رشتے اور اس کے مسائل،ہندستانی معیشت اور طبابت کی کمزوریاں وغیرہ ۔مگر مرکزی توجہ صحافت اور عورتوں کی زندگی پر رہی ہے،اور پورا ناول انہی دونوں موضوعات کے ارد گرد گھومتا رہتا ہے۔سلمان جہاں ایک طرف صحافت اور عورت کی طاقت کا احساس دلاتے ہیں وہیں ان دونوں کے زوال کی نشاندہی بھی کرتے ہیں۔انہوں نے بار بار صحافیوں کو زوال پذیر صحافت کے خلاف کھڑے ہونے کی تلقین کرتے ہوئے ان کو حق گوئی وراست بازی کی جانب متوجہ کیاہے تو عورت کو بھی اپنے حق کی بازیافت کے لئے للکاراہے۔وہ چونکہ خود صحافی ہیں اس لئے انہوں نے زرد صحافت ،استحصال کی بنیاد پر ٹکی صحافت اور اس کے نشیب و فراز کو قریب سے محسوس کیاہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ صحافت کے بعض ایسے گوشوں اور ایسے حقائق سے ہمیں روشناس کراتے ہیں جہاں ہماری نگاہ جاہی نہیںسکتی اور جاتی بھی ہے تو ہم اس کا احساس نہیں کرسکتے۔اسی لئے وہ صحافت جیسے پاکیزہ پیشے سے وابستہ افراد کے ساتھ ہر قاری کو اس کا احساس کرانا چاہتے ہیں۔اگر وہ ایک طرف صحافیوں سے کہتے ہیں کہ
’’ صرف حق کا مطالبہ ہی نہیں،حق پیدا کرنا اور حق کی پرورش کرنا بھی میرے لحاظ سے صحافیوں کا فریضہ ہے۔جو ہورہاہے اسے دکھانے کی ضرورت ہی کیا،وہ تو خود ہی دکھ رہاہے۔انہیں وہ بھی دکھاناہے جو ہو سکتاہے‘‘
تو دوسری طرف قاری سے کہتے ہیں
’’دنیا میں پیدا ہونے والا ہر فرد صحافی ہے۔حق کا مطالبہ کرنا ہر ایک کا بنیادی حق ہے ‘‘
آج جب صحافت پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا دونوں کے ذریعہ ایک کمرشیل اور تجارتی شعبے کے طور پر اپنی جگہ بنا چکی ہے،جہاں اصول،آدرش اور طریقۂ کار کتابوں تک سمٹ چکے ہیں،سلمان بہت گہرائی سے اس کا تجزیہ کرتے ہیں اور قاری کو سیاہ اور سفید کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ کر دکھاتے ہیں۔
تکنیکی طور پر یہ ناول دو خوبیاں رکھتاہے ۔اول یہ کہ سلمان کا مشاہدہ عمیق ہے اس لیے وہ جزئیات نگاری کا کمال دکھاتے ہیں۔جزئیات سے محاکات کا حسن پیدا ہوتاہے اور ناول کی پکڑ قاری پر مضبوط ہوتی ہے۔سلمان کی جزئیات نگاری قابل توجہ ہے۔ایک چھوٹا سا منظر ناول کے آغاز سے ہی دیکھئے
’’ نیند میں نائلہ کا بایاں ہاتھ قریب پھیلے اخبار کے صفحات پر جا پہنچا تھا۔دوسرے ہاتھ کی بند الٹی مٹھی ماتھے پر تھی اور دونوں گھٹنے کھڑے تھے۔اس کی ساڑی کی گولائی کا نچلا سرا بستر کی چادر سے ملاتھا اور اوپر کا،پنڈلیوں سے ذرا اوپر بلکہ گھٹنوں کے قریب آ گیاتھا۔زنیرا کے دل میں آیا کہ اسے کھینچ کر سیدھی کردے۔‘‘(ص۔۲۲)
ناول کی دوسری خوبی اس کا مربوط پلاٹ ہے جو چھوٹے چھوٹے کئی افسانوں سے بنا گیاہے۔یہ ایک نئی تکنیک بھی ہو سکتی ہے کہ مصنف نے اپنے موضوع کے مختلف شیڈش دکھانے کے لئے بجائے سپاٹ بیان کے ہر موضوع پر ایک کہانی لکھ ڈالی اور اسے نہایت خوبصورتی سے ایک لڑی میں پروکر ناول کا حصہ بنادیا۔وہ بھی اس طرح کہ وہ افسانے ناول کے اجزائے لاینفک بن گئے ہیں۔صوفیہ،شبنم،فیضی،ثانیہ،عاطف،اسلم اور انیقہ،شوذیب وغیرہ کی کہانیوںکو اسی تکنیکی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
سلمان ابھی طالب علم ہیں اور کم عمر بھی ۔اس لیے بہت سی جگہوں پر جلد بازی کا شکار بھی ہو گئے ہیں۔خاص طور پر زبان کے تعلق سے ابھی انہیں مزید محنت کی ضرورت ہے۔وہ الفاظ کا ذخیرہ رکھتے ہیں اور تخلیقی اسلوب برتنے کا ہنر بھی ،بس تھوڑا سا صبر اور توجہ چاہیے۔کرافٹ مین شپ کی ایک ہلکی سی کمی کے باوجود چونکہ یہ ناول ایک اچھے ناول نگار کی بشارت دے رہا ہے اس لیے فکشن کی دنیا میں سلمان عبدالصمد کا استقبال گرمجوشی سے ہونا چاہیے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالرسفینہ بیگم کا ناول’’خلش‘‘ بھی زیر مطالعہ رہا۔۱۴۰ صفحات پر مشتمل اس مختصر ناول میں انہوں نے چار لڑکیوں کی کہانیاں پیش کی ہیں اور انہیں آپس میں مربوط کرکے ناول کی شکل دی ہے۔رامپور کی طوبیٰ،لکھنئو کی ماہم،لکھیم پور کی زہرہ اور دہلی کی عالیہ ۔یہ چاروں الگ الگ طبقات سے تعلق رکھتی ہیں او ر سب کے مسائل الگ الگ ہیں۔لیکن ایک جذبۂ محبت ایسا ہے جو چاروں کی شخصیت کو متاثر کرتاہے۔یہ وہ جذبہ ہے جس کے بغیر عورت کا وجود بے معنی ہے۔لہذا یہ جذبہ انہیں نہ صرف ذہنی اور نفسیاتی کشمکش میں مبتلا رکھتاہے بلکہ ہمیشہ کے لیے ایک قسم کی خلش سے بھی دو چار کرتاہے۔سفینہ نے ہاسٹل کی زندگی میں مختلف قسم کی لڑکیاں دیکھی ہیں اس لیے چار الگ الگ کرداروں کی تعمیر میں ان کے مشاہدے کی گہرائی کا انداز ہ ہوتاہے۔تانیثیت کے اس عہد میں نسائی آزادی اور تانیثی استحکام کی آواز اٹھائی جاتی ہے مگر عورت کے دل کے نہاں خانوں میں جھانکنے کی کوشش کوئی نہیں کرتا ،جہاں ایک مختلف دنیا آباد ہوتی ہے۔سفینہ نے اسی دنیا سے قارئین کو رو برو کرانے کی کوشش کی ہے۔ساتھ ساتھ یہ بھی باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ عورت خواہ کتنی آزادی کی بات کرلے اس کی تقدیر مرد کے ساتھ ہی وابستہ ہے۔ان لڑکیوں میں بھی بعض اپنی منزل کو حاصل کرلیتی ہیں تو بعض منزل کی تلاش میں استحصال کابھی شکار ہو جاتی ہیں۔استحصال اور تشدد عورتوں کا ایک بڑا مسئلہ ہے ،جس کے خلاف سفینہ نے احتجاج کرکے اخلاقی جرأ ت کا مظاہر ہ کیاہے۔ناول کا پلاٹ تھوڑا ڈھیلا ہے مگر چاروں لڑکیوں کی کہانیاں قاری کو اپنی طرف متوجہ رکھنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔ایسا محسوس ہوتاہے کہ ناول نگار بہت جلدی جلدی سب کچھ بیان کردینا چاہتی ہیں۔اس لیے وہ تکنیک اور ٹریٹمنٹ کے بجائے موضوع پر زیادہ توجہ دے رہی ہیں۔موضوع اہم ہوتا ہے مگر ناول میں اس کی پیش کش اور طریقۂ کار بھی کم اہم نہیں۔شاید اسی لیے ناول’’خلش‘‘ خود کو پڑھوا تو لیتا ہے مگر اس سے کسی ہمرازو ہم جلیس کی طرح سرگوشیوں کی صورت پیدا نہیں ہو پاتی۔اس کے باجود اس ناول کا استقبال میںنے خوش دلی کے ساتھ اس لیے کیا کہ یہ ایک سوچنے والی لڑکی اور باخبر ریسرچ اسکالر کی ادبی کاوش ہے ۔مجھے یقین ہے کہ وہ اسی طرح لکھتی رہیں تو ہمیں فنی طور پر زیادہ بہتر فن پارہ ضرور اورجلد دیں گی۔
مجھے احساس ہے کہ اکیسویں صدی میں ناولوں کایہ تذکرہ مزید چند ناولوں کے تفصیلی ذکر کا متقاضی ہے مثلاً اگر تم لوٹ آتے ( آچا ریہ شوکت خلیل)وشواس گھات (جتندر بلو)موت کی کتاب (خالد جاوید) اہنکار،ایوانوں کے خوابیدہ چراغ،چاند ہم سے باتیں کرتا ہے(نورالحسنین )چراغ تہ داما ں(اقبال مجید) زوال آدم خاکی (غیاث الدین )ایک اور کوسی (نسرین بانو)انجو ،شوفر(ظفر عدیم) شاہین،جب گاؤں جاگے(شبر امام)کالی ماٹی (علی امجد)سیاہ کاری ڈور میں ایلین(جاوید حسن)آنکھ جو سوچتی ہے(کوثر مظہری) کابوس(شفق) خورشید انورادیب(یادوں کے سائے) دکھیاری،خواب سراب (انیس اشفاق )آخری سواریاں(سید محمد اشرف )اور شموئل احمد(ائے دل آوارہ،گرداب)جس دن سے (صادقہ نواب سحر)اجالوں کی سیاہی،جہاں تیرا ہے یا میرا (عبد الصمد)،گئودان کے بعد(سید ضامن علی )،جسی (بشیر مالیر کوٹلوی ) مرے ہونے میں کیا برائی ہے (رینو بہل )قبض زماں(شمس الرحمان فاروقی )قطرے کو گہر ہونے تک (غزالہ قمر اعجاز) زباں بریدہ (آصف زہری) کمرہ نمبر ۲۵۹ (عمران عاکف خاں) وغیرہ۔ ان تمام ناولوں کے مطالعے سے ایک بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ ہمارے ناول نگاروں نے بیسویں صدی کے اواخر میں اردو ناول کی طرف جو پیش قدمی کی تھی وہ اکیسویں صدی میں بھی قائم رہی ہے۔اکیسویں صدی میں ہندستان کا اردو ادب مجموعی طورپر ناول کی طرف زیادہ سنجیدگی سے متوجہ ہوا ہے ۔ہمارے ناول نگاروں نے اکیسویں صدی کی موجودہ زندگی کو اس طرح سمیٹ لیا ہے کہ شاید ہی عوام وخواص کی زندگی کی کوئی صورت ان کی گرفت اور اظہاریت سے چھوٹی ہو۔ آج کی رنگارنگ زندگی، معاشرے پر مغربی دباؤ اور اثرات، معاشی صورتیں، نفسیاتی پیچیدگیاں، جنسی اور سیکسی رویّے، سیاست کے داؤں پیچ، استحصال کے نئے نئے روپ اور ہر پل نئے تجربات سے دو چار ہوتا سماج بیان کے کھلے اور ڈھکے چھپے دونوں طریقے سے ان ناولوں میں موجود ہے۔ طریق کار کے پرانے فریم واراک ٹوٹ چکے ہیں اور ناول نگار پیچیدہ کیفیات پیش کرنے کے لئے الفاظ اور زبان کے سراب آمیز میدانوں سے گزررہے ہیں۔ ان کے بیانیہ میں واقعے کی صرف اوپری سطح اہم نہیں واقعے کے اندرون میں برپا تلاطم، کرداروں کی زندگی اور کارکردگی میں ہلچل اور کشمکش اور ان پر گزرتی ہوئی لمحاتی اور دوررس کسک چھپی ہوئی ہے جس کے محاسبے اور واقعیت کے بغیر نئی تنقیدان کی روح تک نہیں پہنچ سکتی ۔اس صدی میں اردو ناول کی سمت و رفتار آگے چل کر کیا ہوگی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر ایک بات ہمیں مطمئن کرتی ہے کہ اکیسویں صدی کا یہ پندرہ سالہ عرصہ ناول کی تخلیق کے لحاظ سے اتنا بھرپور رہا ہے کہ ہم تہی دامنی کی شکایت نہیں کر سکتے ۔ہاں میرا یہ احساس اپنی جگہ پر کہ نئی صدی کے اردوناولوں میںموضوعات کے تنوع کے باوجود آفاقیت سے ہمکنار کرنے کے لیے یا عالمی ادب کا ہم پلہ قرار دینے کے لیے اس کے اسالیب اور افکار میں جن تجربات اور عمومی تنوع کی ضرورت ہے ،شاید ابھی اردو ناول ان سے دور ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
اسلام علیکم !درج
محترم آپ نے حوالہ جات درج نہیں کیے ۔
ممکن ہو اگر تو درج کر دیجئے ۔ شکریہ