Adbi Miras
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      ستمبر 29, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تراجم

      مکتی/ منو بھنڈاری – ترجمہ: ڈاکٹرفیضان حسن ضیائی

      جنوری 21, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خبر نامہ

      مارچ 15, 2025

      خبر نامہ

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

      خصوصی مضامین

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      متفرقات

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
مقبول ترین
تدوین متن کا معروضی جائزہ – نثار علی...
ترجمہ کا فن :اہمیت اور مسائل – سیدہ...
تحقیق: معنی و مفہوم ۔ شاذیہ بتول
سر سید کی  ادبی خدمات – ڈاکٹر احمد...
حالیؔ کی حالات زندگی اور ان کی خدمات...
ثقافت اور اس کے تشکیلی عناصر – نثار...
تحقیق کیا ہے؟ – صائمہ پروین
منٹو کی افسانہ نگاری- ڈاکٹر نوشاد عالم
منیرؔنیازی کی شاعری کے بنیادی فکری وفنی مباحث...
آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری (سلور کنگ...
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      ستمبر 29, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تراجم

      مکتی/ منو بھنڈاری – ترجمہ: ڈاکٹرفیضان حسن ضیائی

      جنوری 21, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خبر نامہ

      مارچ 15, 2025

      خبر نامہ

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

      خصوصی مضامین

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جولائی 12, 2025

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      متفرقات

      گلوبلائزیشن اور اردو اَدب – ڈاکٹر نسیم احمد نسیم

      جولائی 26, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      جولائی 12, 2025

      متفرقات

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
Adbi Miras
فکر و عمل

کلامِ اقبال کا مصدرِ اول – ڈاکٹر یوسف رامپوری

by adbimiras نومبر 9, 2020
by adbimiras نومبر 9, 2020 1 comment

اقبال ؔکی شاعری کی نغمگی نے گذشتہ ایک صدی کے دوران مشرق ومغرب کے بے شمار انسانوں کو مسحور کیاہے اور جوں جوں وقت بڑھتاجاتاہے ، اقبال کی شاعری کا یہ سحر اور گہرا ہوتا جاتا ہے۔کیوں کہ آج بھی اقبالؔ کے اشعارخطباکے وعظوں میں، صوفیا کی نصیحتوں میں، علماواساتذہ کی تقریروں میں، فلاسفہ وحکما کے فلسفوں میں اور ادبا وقلمکاروں کے مقالوں میں کبھی زینت تو کبھی دلیل بن کر سامنے آتے ہیں۔جن لوگوں نے اقبال کی شاعری کو سمجھا وہ تو متاثر ہوئے ہی مگر جن کی نگاہیں اقبال کی شاعری کے متون سے آگے بین السطور تک نہ جاسکیں ، گنگنائے بغیر وہ بھی نہ رہ سکے۔کیوںکہ اقبال ؔکا اندرون جتنا روشن ہے، بیرون بھی اتنا ہی منورہے۔ بقول ڈاکٹر حاتم رامپوری:

’’ اقبال کے اظہار میں چٹکیاں لیتی ہوئی شوخی ہے، جوش وولولہ ہے، موسیقیت ہے، توانائی کی گھن گرج ہے، عشق کی مستی ہے، عرفانی ترنم ہے، وجدانی اور الہامی تجربے ہیں ، حرکت وتمازت ،توانائی ،روشنی ، لہر، تابناکی ، فرحناکی اور احساس مسرت ہے، ڈرامائیت ہے، تصویریت ہے، ارتقاپذیر علامتیں ہیں۔صدیوں پر محیط تلمیحاتی دائرے ہیں ۔ الغرض وہ سب کچھ ہے جو ذوق جمال کی تسکین کا باعث ہوسکے‘‘  (اقبال آشنائی ، ص: 86)

اقبال ؔکی شاعری میں گہرائی وگیرائی ، فکروفلسفہ ، وجدان والہام،کائنات کے اسرارورموز ، امتدادِ زمانہ کی الجھی ہوئی گتھیاں،مظاہرِ فطرت کے حسین نظارے اور ان سب کے پیچھے تڑپتی بلکتی انسانیت کے لئے منزل کے نشانات پر مشتمل وسیع خیالات کا سمندر کتنا گہراہے، اس کا اندازہ خود اقبال کے اس شعرسے کیاجاسکتا ہے  :

میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا

گہراہے مرے بحرِخیالات کا پانی

اقبال بھی اقبالؔ سے آگاہ نہیں ہے

کچھ اس میں تمسخر نہیں، واللہ نہیں ہے

مگر اس کے باوجود اقبالؔ کی شاعری کے بحر میں جس نے بھی غوطہ زنی کی ، اسے کوئی نہ کوئی موتی ضرور ہاتھ لگا ۔یہ الگ بات ہے کہ وہ لوگ زیادہ خوش قسمت رہے جنہوں نے کلام اقبال کی حسین وجمیل صورت سے تسکینِ نگاہ حاصل کی اور باکمال سیرت سے بھی روحانی وقلبی فیض اٹھایا، لیکن جو اقبال کی شاعری کے اندرون میں نہ جھانک پائے اور بیرون پر ہی قانع رہے ،زندگی کے نایاب وکمیاب جواہر ان کے حصے میں کم آئے۔

اقبال کی شاعری کو اس کے لفظوں کے لغوی واصطلاحی معانی اور تفاسیر وشروحات سے ایک حد تک تو سمجھا جاسکتا ہے مگر اس کے اندر موجود تہہ درتہہ معانی کی روانی ،پیغامات ومقاصد اور تمثیلات وعلامات کے تسلسل سے اس وقت تک کماحقہ ہم آہنگی نہیں ہوسکتی ، جب تک کہ اقبال کے نظریات ، مطالعات اور اس کی روح میں برپاان خیالات کے تلاطم سے انسیت نہ پیدا کرلی جائے جن سے اقبالؔ کے فن کے نمود ہوئی۔

اقبال کی شاعری کی تفہیم کے لئے یہ بھی پیش نظررکھنا ضروری ہے کہ اقبال کی شاعری کی حیثیت شاعری سے زیادہ ایک فکر ، ایک فن اور ایک فلسفہ کی  ہوگئی ہے یا اقبال نے شاعری کی زبان میں فکر وفلسفہ کو پیش کیا ہے ،اس لئے وہ تفریحِ طبع کی نہیں ، بنی نوع انساں کے شعور و ضمیر کی تحریک اور لازوال کامیابی کی ضامن بن گئی اور ’’اقبالیات‘‘  کے قالب میں ڈھل کر سامنے آئی جس میں بلا کاتنوع اور تعمّق ہے۔کیوںکہ’’ اقبالیات ‘‘ فکر و نظر،تصوف وفلسفہ، تلقین وتبلیغ، تاریخ  و مشاہدہ ، تمدن ومعاشرت،خودی،قدیم وجدید کے تصور ، مشرقیت و مغربیت کی کشمکش، حق وباطل کی معرکہ آرائی، طبقاتی ونسلی تصادم اور انسانی مسائل کے اسباب وتدارک کی ایک جامع دستاویز ہے، چنانچہ اس کی تفہیم کے لئے اقبال کے نظریات وافکار کے مصادر وماٰخذ تک رسائی لازمی ہے۔یقینا اقبال فلسفی ہے ، مفکر ہے ، مبلغ ہے، انقلاب کاحامی ہے مگر اس کے فلسفہ کی بنیاد اوراس کی فکر کا منبع کیا ہے، اس کے کشمکشِ انقلاب اور تلقین وخودی کے جذبہ کے پیچھے کون سے محرکات ہیں؟ درحقیقت ان تک رسائی ہی تفہیمِ اقبالیات کی اساس ہے۔

اقبالیات کے مصادرکی جستجو کے دوران سب سے پہلی جو چیز سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اقبالیات کی پہلی بنیاد قرآن کریم ہے۔خلیل الرحمن راز اقبال کی فکر کا سب سے بڑا ماٰخذ قرآن کو بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اقبالیات کا ایک دلچسپ موضوع یہ بھی ہے کہ اقبال نے کن مفکرین،فلاسفہ،شعرا،ادبا، علما اور صوفیاسے استفادہ کیا ، کون سے علوم اور موضوعات ان کے پیش نظررہے اور ان کے افکار ومطالعہ کے مصادر وماٰخذ کیا ہیں ۔اس بارے میں دیگر بہت سے ادبا ومحققین کی طرح راقم کی بھی دوٹوک رائے یہی ہے کہ ان کے افکار کا سب سے بڑا اور اہم ماٰخذ قرآن کریم ہے‘‘   (رازِ اقبال: ص: ۹)

اگرچہ اقبال نے قدیم وجدید فلسفوں، نظریوں، شخصیتوں، تہذیبوں اور کتابوں کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا اور متعدد مفکرین وفلاسفہ میں انہوں نے دلچسپی بھی لی مگر کوئی انہیں اتنا متاثر نہیں کرسکا جتنا کہ قرآن نے کیا۔قرآن پوری طرح ان کی فکر پر چھاگیاتھا ۔اس بابت نورالحسن نقوی لکھتے ہیں :

’’قرآن کریم کی اساس پر انہوں نے اپنی فکر کا ایوان تعمیر کیااور اسی کی تعلیمات کی روشنی میں ملت اسلامیہ اور اس کے ذریعہ تمام مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی ۔بلاشبہ بعض مفکرین نے اپنی طرف متوجہ کیا لیکن صرف اس حد تک جہاں تک ان کے افکار اور قرآنی تعلیمات میں مطابقت پائی جاتی تھی۔لہذا اقبال کی فکر کو بجا طور پر اسلامی فکر یا قرآنی فکر کانام دیا جاسکتاہے۔یہی فکر تھی جو شاعری کے لباس میں اقبال کا پیغام بن کر عوام کے سامنے آئی۔ان کا پیغام درحقیقت قرآن ہی کا پیغام ہے ، ان کا دعوی ہے کہ ان کے کلام کا ایک حرف بھی قرآن سے باہر نہیں‘‘۔   (اقبال شاعر و مفکر، ص:۸۲)

جیسے جیسے اقبال کی زندگی کا سفر آگے بڑھتا گیا ، ان کا تعلق قرآن کے ساتھ بتدریج مضبوط اور گہرا ہوتا گیا ۔یہاں تک کہ اقبال کی زندگی میںایک وقت ایسابھی آیا کہ جب وہ دل کی گہرائیوں سے قرآن کریم کی تلاوت کرتے اور اس کی آیات میں غور و فکر کرتے کرتے رو پڑتے۔پروفیسر سلیم رقمطراز ہیں:

’’ اس زمانہ میں حضرت علامہ کی زندگی کا جو حال ہم تک پہنچا ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرحوم تہجد کی نماز کے بعد قرآن حکیم کی تلاوت کیاکرتے تھے اور اس کی آیات میں تدبراور تفکر کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ کتابِ مقدس کے اوراق ان کے آنسوؤں سے تر ہوجاتے تھے۔چنانچہ مرحوم کا وفادار خادم علی بخش ہر روز اس کے اوراق کو دھوپ میں سکھایاکرتا تھا‘‘۔

قرآن میں حد درجہ غور و فکر نے اقبال ؔکی دنیا ہی کو بدل کر رکھ دیا تھا، وہ عظیم فلسفی ہونے کے باوجود فلسفیانہ موشگافیوں میں کم دلچسپی لیتے تھے اور مقبول شاعرہونے کے باوجود شاعری کے تقاضوں پر کم دھیان دیتے تھے، بس وہ تو قرآن کی ہی بات کرتے ہوئے نظرآتے تھے۔یہ شعر ان کی اس کیفیت کی ترجمانی کرتا ہے:

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب

گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشاف

اس شعر میں اقبالؔ نے رازی اورصاحبِ کشاف کا جس پس منظرمیں تذکرہ کیا ہے ، اس سے یہ اندازہ کرلینا کچھ مشکل نہیں کہ اقبال ؔنے رازی اور صاحب کشاف کی تفسیروں کا بہ غائر مطالعہ کیاتھا اور انہی کا نہیں، بلکہ دوسرے بلند پایہ مفسرین کی تفاسیر بھی ان کی نگاہوں سے گزری تھیں ۔اقبالؔ خود بھی عربی داں تھے جس سے انہیں قرآن کو براہِ راست سمجھنے میں مدد ملی ۔حق تو یہ ہے کہ قرآن مجید کے گہرے مطالعے اور اس کی آیات والفاظ میں غوروفکر کے بعد بہت سے راز ہائے سربستہ ان کے سامنے منکشف ہوگئے ، کائنات کے کتنے ہی اسرار و رموز سے انہیں آگاہی ہوئی ، دنیا کی بے ثباتی ان کے سامنے روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی ،قوموں کے عروج وزوال کی داستانیں ان کے لیے عبرت بن گئیں ، احکاماتِ الہی سے انہوں نے سبق لیا،مناظرِ فطرت اور حیات بعد الممات کو محسوس کیا ،نیز انسانی زندگی کے کرب و اضطراب اور مسائل کوقریب سے دیکھا، جس کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ قرآن رشد و ہدایات اورعلوم ومعلومات کا خزینہ ہی نہیں ، سرچشمہ ہے اور حیات انسان کے لئے جامع دستورکہ اس کو جتنی مضبوطی سے تھاما جائے گا، اسی قدرکامرانی کی منزلیں طے ہوں گی۔یہ مصرع ان کی اسی کیفیت کی ترجمانی کرتا ہے :

تقدیر ِامم دیدم پنہاں بہ کتاب اندر

’’میں نے اس کتاب میں امتوں کی تقدیر کو پنہاں دیکھاہے‘‘

یوں تو قرآن میں پوری انسانیت کی کامیابی کا رازمضمر ہے،لیکن اقبالؔ نے خاص طورسے مسلمانوں کو قرآن سے قریب ہونے کی تلقین کی ہے ۔اس لئے کہ انہوں نے دیکھاکہ مسلمان کامیابی کی ڈگر سے ہٹ کر ناکامی اور محرومی کے راستے پر چل پڑے ہیں ،انہوں نے قرآن کی آیات میں غور کرنا چھوڑدیا ہے اور اسے طاقوں کی زینت بناکر یا صرف اس کے متن کی تلاوت پر اکتفاکرکے اس کے مفاہیم ومعانی اوراحکامات و نواہی سے بے زاری اختیارکرلی ہے جس کے باعث وہ ذلت ورسوائی ،ناکامی و محرومی اور اضطراب وبے چینی کے عمیق غاروں میں جاپڑے ہیں۔اقبال اس کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچتے ہیں:

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر

اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر

ایسے حالات میں امت مسلمہ کے سامنے اس کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں کہ وہ قرآن کو پھر مضبوطی سے تھامے اور اپنی عظمت رفتہ کی جستجو کرے۔ اقبال اس شعرمیں اسی کا درس دیتے ہیں:

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں

اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار

اقبال ؔ نے قرآن کو صرف چومنے یا آنکھوں سے لگانے کی چیز نہیں سمجھا بلکہ اسے وردِ زبان کیااور دل کی گہرائیوں میں اتاراکہ :

’’(اے رسول ؐخدا) اگر میرے دل اور زبان پر قرآن کے علاوہ کچھ اور چھایا ہواہو تو روز قیامت آپ مجھے اپنی شفاعت وزیارت سے محروم کردیں‘‘۔

یہ اقبالؔ کی لفاظی نہیں ، ان کے دل کی آواز ہے۔کیوں کہ جس ہستی سے وہ مخاطب ہیں اس سے انہیں والہانہ محبت اور غایت درجہ کی عقیدت ہے۔اسی لئے ان کی شاعری میں اس عظیم ہستی کا ذکر بار بار آتا ہے اور جہاں آتا ہے وہاں بہ صد ہزار شوق اور نہایت احترام کے ساتھ آتا ہے۔اقبال کے نزدیک سرور کونین کا کیا مقام ہے ، ان کے درج ذیل شعر سے اندازہ لگایا جاسکتاہے:

وہ دانائے سبل، ختم الرسل، مولائے کل جس نے

غبارِ ِراہ کو بخشا فروغِ وادیٔ سینا

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر

وہی قرآں ، وہی فرقاں ، وہی یٰسیں وہی طہٰ

غور کرنے کا مقام ہے کہ اقبال کے نزدیک جس ہستی کا اتنا عظیم مقام ہے، وہ اس کے دیدار کے مشتاق اور شفاعت کے کتنے آرزو مند  ہوںگے ۔لہذاقرآن مجید کی بابت ا ن کا یہ کہنا کہ ’’اگر میرے دل اور زبان پرقرآن کے علاوہ کچھ اور چھایا ہوا ہو تو آپ ؐروز قیامت مجھے اپنی شفاعت اور زیارت سے محروم کردیں ‘‘ اس بات کا غماز ہے کہ واقعی قرآن ان کے دل پر حاوی تھا ۔ظاہر سی بات ہے کہ جو چیز دل اور فکر میں رچی بسی ہوتی ہے وہی قلم کی نوک پر بھی آتی ہے ،وہی شاعری میں بھی ڈھلتی ہے اور وہی مصورکے نقش میں بھی نمایاں ہوتی ہے۔

بات صرف ان کے دل یا فکر پر قرآن کے چھاجانے کی نہیں بلکہ ان کے عشق، ان کے فن ، ان کے فلسفہ ، ان کی خودی اور ان کی زندگی پر بھی قرآن کا پرتو نظرآتاہے ، اس لئے اقبالیات کے مطالعہ یا اقبالیات کی تفہیم کے لئے قرآن فہمی ایک تمہید کی حیثیت رکھتی ہے ، لہذاقرآن کی تعلیمات واحکامات اور قرآن کے مطالعہ سے جو جس قدر قریب ہوگا ،اسے اسی قدر اقبالیات کی تفہیم کا قرب حاصل ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے قرآن کی روشنی میں اقبالیات کا مطالعہ کیا، انہوں نے اقبال کی شاعری سے نہایت قیمتی موتی دریافت کئے جن کی چمک دمک اور اثر نے ان کے ذہن ،فکر اور عملی زندگی پرگہرے نقوش ثبت کئے مگر جن ناقدین نے اقبال کی فکر اور ان کی شاعری کوقرآن کے بغیر سمجھنے کی کوشش کی ، وہ نہ تو اقبال کی شاعری کو کماحقہ سمجھ پائے اور نہ ہی اقبال کے صحیح مقام کا تعین کرسکے۔

اقبالیات کی تفہیم کے لئے قرآن کی تفہیم وسمجھ کا یہ مطلب ہر گزنہیں کہ قرآن فہمی صرف معانی ومفاہیم کی حد تک ہو بلکہ ان کے دل میں قرآن سے عقیدت بھی ہونی چاہئے تاکہ قرآن کی روح کی بھی تفہیم ہوسکے۔یہ اقبال ؔکی خوش قسمتی تھی کہ وہ قرآن کے معانی ومفاہیم کے ساتھ اس کی روح کوبھی سمجھتے تھے جب کہ کتنے قرآن کی لغت کے ماہرین اور کتنے ہی قرآن کے مفسرین قرآن کی روح میں نہ اترسکے ۔ یہ قرآن کی روح سے ان کی دوری ہی کا نتیجہ تھاکہ انہوں نے قرآن کی تفسیر کی عمارت تاویلات پر کھڑی کرکے نئی شریعتیں بناڈالیں ۔اقبال ؔ کی زبانی سنیے:

قرآن کو بازیچۂ تاویل بناکر

چاہے تو خود اِک تازہ شریعت کرے ایجاد

(ضرب کلیم: آزادی)

اقبال قرآن میں تاویل کو اس لئے ناپسندکرتے ہیں کہ وہ قرآن کی روح کے منافی ہے۔قرآن کتاب مبین ہے جو اس بات کی متقاضی ہے کہ اسے عملی زندگی میں لایاجائے اور اس کے پیغامات کو عام کیاجائے ،یہ نہیں کہ اس کو تاویلات کادفتر بنادیا جائے۔قرآن کی تاویلات مسلمانوں کے حق میں کتنی مضرہیں،اقبالؔ اُسے ابلیس کی زبان سے اس طرح اداکراتے ہیں کہ :

ہے یہی بہتر اِلٰہیات میں الجھا رہے

یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے

(ارمغان حجاز:  ابلیس )

روحِ قرآن کی تفہیم نے اقبال ؔکوقرآن کے اصل معانی اور مفاہیم کے ادراک سے قریب تر کردیا، اسی لئے انہوں نے قرآنی آیات کے غلط مطالب ومعانی بیان کرنے والو ں کی فوری گرفت کی اور بے باکی کے ساتھ انہیں طنزکا نشانہ بنایا۔اقبال کہتے ہیں:

خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں

ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق

ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب

کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق

(ضربِ کلیم:  اِجتہاد)

قلب وروح کی گہرائی میں اترکر جب قرآن ورد ِزبان ہوتا ہے تو اس کی تاثیر اور نغمگی کی کیفیت کیا ہوتی ہے اورقاری کیسا نظر آتاہے ؟اقبال کا یہ شعر ملاحظہ کریں:

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ لیکن

قاری نظرآتا ہے حقیقت میں قرآن

اقبال نے اُس احساس کو شعرِمذکور کے حسین پیکر میں ڈھال دیا ہے جوقرآن کے ضمیر پر نازل ہونے کے وقت ہوتا ہے یا اس وقت جب قرآن روح کی گہرائیوں سے نکل کر زبان پر جاری ہوتا ہے۔ایسا شعر وہی کہہ سکتا ہے جس نے اس حالت کو خود محسوس کیاہو۔سچ یہ ہے کہ اقبالؔ کے نزدیک روح ِقرآنی بیش بہادولت ہے بلکہ ایسی دولت جس کا کوئی بدل نہیں ۔روحِ قرآنی جس کو حاصل ہو، اس کا مقام شاہان وسلاطین سے برتر ہے۔اقبال کے الفاظ میں:

کسے خبر ہے کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے

وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روح قرآنی

اقبال چاہے تعلیم کی بات کریں یامعاشرت ومعاش کی، مساوات یاروادی کی، خودی یا اسرارِخودی کی ،کامیابی یا آزادی کی ،تصوف یا جوانوں کی بیداری کی ،اس کے پیچھے قرآن کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔

اقبال ؔتعلیم کو انسانوں کی فلاح وبہبود اورکامرانی کے لئے بہت ضروری سمجھتے تھے ، انہوںنے خود بھی اعلی تعلیم حاصل کی اور تعلیم کے فائدے بتاکر دوسروں کو بھی اس کے حصول کی ترغیب دی، ان کایہ شعردیکھئے:

اس دور میں تعلیم ہے امراضِ ملت کی دوا

ہے خونِ فاسد کے لئے تعلیم مثلِ نیشتر

لیکن اقبال اس تعلیم کے قائل نہیں جو نسلوں کو بے راہ روی کی شکاراور خدا کا باغی بنادیتی ہے۔ اسی لئے موجودہ طریقۂ تعلیم کے نتائج پر انہوں نے بے اطمینانی کا اظہارکیا اور گہری چوٹ کرتے یوں گویا ہوئے :

خوش تو ہیں ہم جوانوں کی ترقی سے مگر

لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریادبھی ساتھ

ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم

کیا خبر تھی کہ چلاآئے گا الحاد بھی ساتھ

اقبال کی نگاہ میں علومِ جدید ہ عقائد پرکاری ضرب لگاتے ہیں اور ایمان کو کمزور کرنے کا باعث بنتے ہیں۔درج ذیل اشعارمیں اقبالؔ نہایت جامعیت کے ساتھ اس پر روشنی ڈالتے ہیں:

جب پیرِ فلک نے ورق ایام کا الٹا

آئی یہ صدا پاؤگے تعلیم سے اعزاز

آیا ہے مگر اس سے عقیدوں میں تزلزل

دنیا تو ملی ، طائرِدیں کر گیا پرواز

یورپ میں بہت روشنیٔ علم و ہنر ہے

حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہیں یہ ظلمات

موجودہ نظام تعلیم اورعلوم ِعصریہ کے تعلق سے اقبال کی یہ بے چینی دراصل قرآن ہی کی وجہ سے ہے۔کیوں کہ قرآن کی متعدد آیات میں علم حاصل کرنے کی تعلیم دی گئی ہے مگر انسانیت کے نفع اور اسے مولائے حقیقی سے قریب کرنے کے لئے ۔ قرآن کی پہلی آیت ’’اقرأ باسم ربک الذی خلق‘‘  میں پڑھنے کا حکم ہے مگر رب کے نام کے ساتھ ۔یعنی تعلیم حقیقی معنوں میں وہی ہے جس کے ذریعہ انسان کو حقیقی منفعت اورخدا کی معرفت حاصل ہو۔اپنے اسی نظریہ کے سبب اقبال نے کھلے لفظوں میں مغربی تعلیم کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ ( یہ بھی پڑھیں اقبال کے فکری اور تخلیقی سر چشمے -حفظ الرحمن قاسمی )

اقبالؔ نے مخلوط نظام تعلیم کے خلاف زور دار آواز بلندکی ۔اس لئے کہ ان کی دوررس نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ آگے چل کر یہ تعلیم کا مخلوط نظام عورت کے ناموس کے لئے خطرہ بن جائے گااور اس کے وجود کے لئے بھی۔ اقبال ؔ نے کہا:

جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نا زن

کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظرموت

اقبال کے اس نظریہ کے پیچھے قرآن کے وہ احکامات ہیں جن میں عورت کو باپردہ رہنے کا حکم دیاگیا ہے ۔

اقبال مغربی تہذیب و معاشرت سے بھی اسی لئے نالاں ہیں کہ وہ قرآن کی تعلیم اور اس کے پیغام کے منافی ہے ۔قرآن تقوی ، سادگی اور حلم وبرباری کی تعلیم دیتا ہے مگر تہذیب ِ نو تصنع ، بناوٹ اور فیشن کی داعی و علمبرار ہے جو انسانیت کے حق میں مفید کم، مضر زیادہ ہے۔ اقبال نے مغربی تہذیب ومعاشرت کا نقشہ اس انداز سے کھینچا ہے:

نظرکو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی

یہ صناعی مگر جھوٹے نگوںکی ریزہ کاری ہے

وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندانِ مغرب کو

ہوس کے پنجہ ٔ  خونیں میں  تیغِ کارزاری ہے

اقبالؔ جدید تہذیب کے دعویٔ آزادی کو مسترد کرتے ہیں اور کہتے ہیںکہ تہذیبِ نوکے علمبردار جس آزادی کی بات کرتے ہیں وہ دراصل آزادی نہیں بلکہ ایسی غلامی ہے جو انسان کے اندرون کواپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ اقبال ؔکہتے ہیں:

مجھے تہذیبِ حاضر نے عطاکی ہے وہ آزادی

کہ ظاہر میں تو آزادی ہے، باطن میں گرفتاری

نئی تہذیب ومعاشرت نے آزادیٔ نسواں کا نعرہ بلند کرتے ہوئے عورت کی بایں معنی خود مختاری کی وکالت وحمایت کی کہ وہ گھرکی چہاردیواری سے باہر آکریا کسی کی بھی سرپرستی ونگرانی سے آزاد ہوکر جو چاہے کرسکتی ہے، وہ بے حجابانہ غیرمردوں کے دوش بدوش کام بھی کرسکتی ہے،غیر مردوں کے ساتھ گھوم پھربھی سکتی ہے،رسم وروایت سے اوپر اٹھ کرلوگوں کے ساتھ بے تکلفانہ دوستیاں بھی کرسکتی ہے اور بلاقید وپابندی اپنی مرضی سے کسی کے ساتھ جنسی تعلق بھی قائم کر سکتی ہے ۔گویا نئی تہذیب ومعاشرت میں عورت سب کچھ کرنے کے لئے آزادہے، مگر اقبالؔ نے آزادی و خودمختاری کے اس پُرفریب فلسفہ کورد کرتے ہوئے ،عورت کے تحفظ اور اس کی عظمت کے لئے مرد کی نگہبانی کو ضروری قراردیاہے ۔اقبال کے یہ اشعار پڑھئے:

اِک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور

کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہوسرد

نے پردہ ، نہ تعلیم ، نئی  ہو کہ پرانی

نسوانیتِ زن کا نگہباں ہے فقط مرد

اقبال کا یہ شعر یایہ نظریہ قرآن کی آیت’’ الرجال قوامون علی النسا‘‘ سے ماخوذ ہے۔

اقبال کی شاعری میں مساوات ،محبت اور اخوت کی بھی تعلیم ہے کیوں کہ قرآن نے متعدد مقامات پر تمام انسانوں کو مخاطب کیا اور انہیں کامیابی کے طریقے بتائے ۔اقبال کے اشعار دیکھئے:

ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے نوع انساں کو

اخوت کا بیاں ہوجا،محبت کی زباں ہوجا

ابھی تک آدمی صیدِ زبونِ شہر یاری ہے

قیامت ہے کہ انساں نوعِ انساں کا شکاری ہے

اقبال مساوات کے ُاس نظریے سے برہم ہیں جس کی آڑلے کر موقع پرست انسان دشمن عناصر وگروہ بنی نوع انساں کے سینہ میں خنجر اتاردینا چاہتاہے ۔اقبال بلا لگی لپٹی کے اس حقیقت کو یوں آشکارا کرتے ہیں:

یہ علم یہ حکمت یہ تدبر یہ حکومت

پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات

جہاں تک مسلمانوں کے درمیان مساوات ومحبت کے قیام کی بات ہے تواس راہ میں اقبال نے الگ الگ ڈھنگ سے ملت اسلامیہ کے افراد کو مخاطب کیا ہے۔ انہوں نے قرآن کے ان الفاظ ’’انماالمؤمنون اخوۃ‘‘ سے جذبہ پاکر نہ صرف یہ کہ ملتِ اسلامیہ کے بکھرے ہوئے افراد کو اتحاد واجتماعیت کی لڑی میں پرونے کی سعی کی بلکہ ان کے درمیان سے برادری، مسلک،علاقائیت اورمنصب کے بتوں کوپاش پاش کرنے کے لیے وہ سربکف ہوکر میدان میں بھی آگئے  :

یہی مقصودِ فطرت ہے، یہی رمز مسلمانی

اخوت کی جہانگیری، محبت کی فراوانی

بتان رنگ و خوں کو توڑکر ملت میں گم ہوجا

نہ تورانی رہے باقی ، نہ ایرانی ، نہ افغانی

منفعت ایک ہے اس قوم کی ،نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبی ،دین بھی ، ایمان بھی ایک

حرم پاک بھی ، اللہ بھی ، قرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانہ میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

معاشی اعتبار سے اقبال جس فکر کے حامی ہیں ،اس پر بھی قرآن کی گہری چھاپ ہے۔مثلاً اقبال کی نگاہ میں سرمایہ دارانہ نظام انسانی معیشت وحیات کے لئے تباہ کن ہے ،بالخصوص غریب و مزدور طبقات پر یہ زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔اقبال اس کی حقیقت کو واشگاف کرتے ہیں اورشدت سے اس کے خاتمہ کے آرزومند ہوتے ہیں:

بندۂ مزدور کو جاکر مرا پیغام دے

خضر کا پیغام کیا، ہے یہ پیام کائنات

اے کہ تجھ کو کھاگیا سرمایہ دار حیلہ گر

شاخِ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات

تو قادر وعادل ہے ،مگر تیرے جہاں میں

ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات

کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ

دنیا ہے تری منتظر روزِ مکافات

اقبال چاہتے ہیں کہ جو جتنی محنت کرے ،اس کو اتنا پھل ملے ۔ایسا نہ ہو کہ سرمایہ دار مزدوروں کی محنت کا پھل کھا جائیں اورمزدور نہایت جانفشانی کے باوجود دانہ دانہ سے محتاج اور مسائل کی بھنور میں ہچکولے کھاتے رہیں ۔اقبال کی یہ فکر کارل مارکس یا لینن کے نظریات وافکار سے مستعار نہیں بلکہ قرآن کی آیت سے ماخوذ ہے ۔درج ذیل شعراس کا بین ثبوت ہے:

حکمِ حق ہے  لیس   للانسان  الا ما سعی

کھائے کیوں مزدور کی محنت کا پھل سرمایہ دار

اقبال کے مندرجہ ذیل اشعار سے یہ گمان ہوتا ہے کہ اقبال اشتراکیت سے متاثر ہیں اور اپنے مساوات یا معاشیات کے نظریہ کی بنیاد اشتراکیت پر رکھتے ہیں:

قوموں کی روش سے مجھے ہوتا ہے یہ معلوم

بے سود نہیں روس کی یہ گرمیٔ گفتار

اندیشہ ہوا شوخیٔ افکار پہ مجبور

فرسودہ طریقوں سے زمانہ ہوا بیزار

انساں کی ہوس نے جنہیں رکھا تھا چھپاکر

کھلتے نظر آتے ہیں بتدریج وہ اسرار

لیکن اسی نظم کے اگلے اشعار میں وہ قرآن میں غوطہ زن ہونے کی بات کرکے یہ پیغام دے دیتے ہیں کہ معاش یا مساوات کے بارے میں قرآن نے جو کہا ہے ،وہی اصل ہے اور وہی مسئلہ کا حل ۔اگلے اشعار دیکھئے:

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد ِمسلماں

اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار

جو حرف قل العفو میں پوشیدہ ہے اب تک

اس دورمیں شاید وہ حقیقت ہو نمودار

سوداور سودی نظام کوبھی اقبال نے اسی لئے ناپسند کیاکہ یہ فی الواقع اقتصادیات کی بنیادوں کے لئے خطرناک اور خلقِ خداکے لئے موت ہے۔تاریخ اور موجودہ حالات شاہد ہیں کہ سود نے بے شمار زندگیوں کو نہایت بے دردی کے ساتھ ختم کیا اور مروت ،معاونت اورانسانی ہمدردی کاگلا گھونٹ دیا:

ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں  جواہے

سود ایک کا لاکھوں کے لئے مرگ مفاجات

اقبال نے سود اور سودی نظام کے خلاف اعلانِ جنگ اس لئے کیا کہ قرآن نے ’’لاتاکلوالربا‘‘(سودمت کھائو)کہہ کر سود کھانے کی قطعی ممانعت کردی۔

اقبال کی شاعری کے اہم موضوعات میں سے ایک ’خودی‘ ہے جس کو اقبال نے پوری توانائی کے ساتھ اٹھایا ہے تا کہ اس کے اہم گوشے عوام الناس کے سامنے اُجاگرہوجائیں ۔خودی سے کیا مراد ہے؟خودی کا دائرہ اثرکیا ہے ؟ کس طرح ’خودی‘ کے ذریعہ کامیابی وترقی کی اعلی منزلوں کو طے کیاجاسکتا ہے؟اقبال نے ایسے تمام سوالوں کا اپنے نظریات وافکار کی روشنی میں مفصل ومدلل جواب دیا ہے اورموضوع کے ہر اہم پہلو سے سیر حاصل بحث کی ہے۔’خودی‘ کی حقیقت اور اس کی تاثیر کو بیان کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں:

یہ موجِ نفس کیا ہے؟ تلوار ہے

خودی کیا ہے؟ تلوار کی دھار ہے

خودی کیا ہے ؟ رازِ درونِ حیات

خودی کیا ہے؟ بیداریٔ کائنات

دراصل اقبال کی نگاہ میں انسان خودی میں ڈوب کر ہی اپنی زندگی کا حقیقی سراغ پاسکتا ہے ، عروج کے زینے چڑھ سکتا ہے حتی کہ دنیا کو بھی اپنی مٹھی میں کرسکتا ہے ۔ شعردیکھئے:

خودی کے زور سے دنیا پہ چھاجا

مقامِ رنگ و بو کا راز پاجا

برنگِ بحرِ ساحل آشنا رہ

کفِ ساحل سے دامن کھینچتا جا

نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے

جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے

رہے گا راوی ونیل فرات میں کب تک

تراسفینہ کہ ہے بحربیکراں کے لیے

اقبالؔ کا خیال ہے کہ انسان ’خودی‘ کی وساطت سے خدا کی ترجمانی کا بھی فریضہ انجام دے سکتاہے جو اس کے عروج کی ایک اور منزل ہے ۔ اسی لئے اقبال ؔ خوبصورت پیرائے میں بنی نوع انساں کو ’خودی ‘ کا ہمراز بن جانے کا درس دیتے ہیں:

تو رازِ کُن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہوجا

خودی کا راز داں ہوجا ، خدا کا ترجماں ہوجا

اس سے بھی ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے اقبالؔ خودی کی بلندی ، اس کی گہرائی ، اس کی عظمت ،اس کی شوکت اور اس کی وسعت کی پیمائش کے بیان کی کوشش میں یوں گویا ہوئے  :

خودی کی جلوتوں میں مصطفائی

خودی کی خلوتوں میں کبریائی

زمین و آسمان کرسی و عرش

خودی کی زد میں ہے ساری خدائی

خودی جلوہ بدمست و خلوت پسند

سمندر ہے اِک بوند پانی میں بند

اَزل اس کے پیچھے اَبد سامنے

نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے

اقبالؔ کا کمال یہ ہے کہ ایک طرف وہ ’خود ی‘ کی عظمت وشوکت کو شاعری کے حجاب میں محجوب کرتے ہیںاور دوسری طرف اس کی حقیقت وماہیت سے پردہ بھی اٹھاتے جاتے ہیں تاکہ انسان خودی کی جمالیات کا مشاہدہ کرکے بہ صد ہزارشوق اس کا قرب حاصل کرنے کا آرزو مند ہوجائے اور اس میں اپنی ہستی کو فنا کردے ۔کہتے ہیں:

کھلے جاتے ہیں اَسرارِ نَہانی

گیا دورِ حدیثِ لَن ترانی

ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار

وہی مہدی وہی آخر زمانی

اقبالؔ کے خیال میں’خودی‘ کا صحیح علم انسانی زندگی کو انقلاب سے ہم آہنگ کرسکتا ہے ۔کیوں کہ اس کے بعدانسان کو اپنی حقیقت اورخدا کی معرفت کا اِدراک ہوجاتاہے اور اگر خودی عشق کے بحر بیکراں سے ہمکنار ہوجائے توپھر اس کی تاثیر کیا ٹھکانہ:

خودی ہو علم سے محکم ، تو غیرتِ جبریل

اگر ہوعشق سے محکم ، تو صورِ اِسرافیل

اقبال ؔ نے ’خودی‘ کے وجود،اہمیت اور اس کی تاثیر کے اثبات میں فارسی و اُردومیں ہزاروں اَشعار کہے ہیں جو اس بات کے غمّاز ہیں کہ اقبال کے نزدیک ’خودی ‘وہ شے ہے جو انسانی زندگی کے لئے صرف عارضی افادیت کی حامل نہیں بلکہ اس کی ابدی سرخروئی کی ضمانت ہے اور جس کے بغیر حقیقی کامیابی کا تصور سامنے نہیں آتا۔کیونکہ انسان اپنی معرفت کے بعد ہی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس چند روزہ زندگی کے آگے بھی بہت کچھ اس کے لئے موجود ہے ۔ درج ذیل اشعار میں اقبال نے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے:

قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بوپر

چمن اور بھی، آشیاں اور بھی ہیں

اگر کھوگیا اک نشیمن تو کیا غم

مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا

ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

اسی روز و شب میں الجھ کر نہ جا

کہ تیرے زمان ومکاں اور بھی ہیں

اگر اقبالؔ اپنے کلام میں دوسرے موضوعات کو شامل نہ کرتے اور اپنی شاعری کو ’ فلسفۂ خودی ‘ تک محدود رہنے دیتے تو بھی بامقصد شاعری کرنے والے شعرا کی فہرست میں ان کا نام جلی حروف میں مرقوم ہوتا۔اقبالؔ نے فارسی میں ’اسرارخودی‘ اور ’رموز بے خودی‘ ،نیز اردو میں سینکڑوں اشعار کے توسط سے پوری انسانیت کو یہ پیغام دیا ہے کہ ’خودی ‘ کے بغیر نہ انسان اپنے آپ کو پہچان سکتا ہے ، نہ اپنے خالق کی معرفت حاصل کرسکتا ہے اور نہ کائنات کے اسرار کی دریافت میں کامیاب ہوسکتا ہے۔مثلاً :

خودی میں گم ہے خدائی، تلاش کر غافل

یہی ہے تیرے لئے اب صلاح کی راہ

’خودی ‘جس نے اقبال کے ذہن وقلب پر سکہ جماکر ان کی فکر کو اپنا اسیر بنالیا اور ان کی شاعری وفن پر چھاگئی، وہ کہاں سے آئی؟ کس نے اقبالؔ کو خودی کی طرف متوجہ کیا؟ اس کا جواب ایک ہی ہے اور وہ ہے ’’قرآن‘‘۔اقبال نے خود اس کا اعتراف ’اسرار خودی ‘ میں اس طرح کیا ہے:

گر دلم آئینۂ بے جوہر ست

در بحر فم غیرِ قرآن مضمر است

روز محشر خوار و رسوا کن مرا

بے نصیب از بوسۂ پا کن مرا

جب اقبال سے یہ معلوم کیا گیا کہ آپ کے فلسفۂ خودی کی قرآنی بنیاد کیا ہے تو انہوںنے فرمایاکہ ۱۹۱۱ء جب میں نے قرآن کی اس آیت میں تدبر کیا: یا ایہا الذین آمنوا علیکم انفسکم لا یضرکم ۔۔۔۔تو یہ حقیقت مجھ پر آشکارا ہوگئی کہ ہر مسلمان پر اپنی خودی کا استحکام فرض ہے، پس میں نے اس آیت شریفہ کو اپنے فلسفۂ خودی کا سنگ بنیاد بنایا‘‘۔( اسرارخودی، مولف : سلیم چشتی ، ص: ۱۳۱۔۱۳۲)

اقبال کے’ فلسفہ خودی‘ کے گہرے مطالعہ سے ہی یہ بات سامنے آتی ہے کہ اقبال کے نزدیک خودی کے معنی کیا ہیں اور اس سے ان کی کیا مراد ہے ؟اقبال کے نزدیک خودی سے مراد تکبر، غرور،خود پسندی نہیں بلکہ ’عرفان نفس‘ یعنی اپنے آپ کو پہچاننا ہے۔ انسان خود کس مقام پر فائز ہے۔خالق نے کیسی کیسی صلاحیتیں اس کو ودیعت کی ہیں، اپنا خلیفہ ونائب اور اشرف المخلوقات بناکرکس طرح اسے دیگر تمام مخلوقات کے مقابلے میں ممتاز کردیاہے۔اگر انسان یہ جان لے کہ وہ زمین میں اپنے رب کی خلافت وترجمانی کے لئے پیدا کیاگیا ہے تو شیطانی قوتیں اس کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گی، وہ کسی ایسے عمل کا مرتکب نہ ہوگا جو مقام انسانیت اور نیابتِ الہی کے منصب کے خلاف ہو۔سچائی یہ ہے کہ جب بھی انسان اقدار کا مخالف ،بداعمالیوں کا مرتکب اور نفسانی خواہشات کا پیروکار ہوا تو اس کی بنیادی وجہ یہ رہی کہ اس کا اصل مقام اس کے سامنے نہ تھا۔ ایسے ہی جب بھی انسان نے اپنے معبود حقیقی کے خلاف علم بغاوت بلندکیا اور اس کے احکامات کی کھلے یا چھپے نا فرمانی کی تو وہ بھی اس لئے کہ اس کی اپنی ذات اور اس کی اپنی حقیقت پردۂ اخفامیں تھی۔اسی لئے اقبال نے پوری طاقت کے ساتھ خوی کے ذریعہ بنی نوع انساں کو اپنی معرفت کا سبق پڑھایاہے تاکہ وہ طاغوتی طاقتوںکو مات دے دے اور ہر امتحان میں ثابت قدم وکامیاب ہوکر مردمومن بن جائے۔اس پورے درس کا سرچشمہ قرآن کی آیات ہیں جن میں ایک یہ ہے ’’واذ قال ربک للملئکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ’’جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ یقینا میں زمین میں (اپنا) نائب بنانے والا ہوں‘‘(سورہ بقرہ)

مقام ِفکر ہے کہ انسان کا کتنا عظیم مرتبہ متعین کیا گیا کہ بے شمار مخلوقات میں بنی نوع انساں کے علاوہ کسی اور مخلوق کو اتنا اہم منصب نہیں دیا گیا۔یہاں تک کہ ان فرشتوں کو بھی نہیں جو ہمہ وقت اطاعتِ الہی کے سمندرمیں غرق رہتے ہیں اور مرضیٔ مولا کے خلاف کچھ بھی نہیں کرتے لیکن کیا انسان اللہ کی نیابت کے فرائض انجام دے رہا ہے؟کیا اس کا عمل، اس کا کردار ایسا ہے جو ساری کائنات کے مالک وبادشاہ کی خلافت کے منصب کی ترجمانی کرتاہو؟انسان اپنے مقام سے بیزارکیوں ہے؟دراصل معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنے مقام سے واقف ہی نہیں۔ لہذااقبالؔ ’خودی‘ کے ذریعہ انسان کو خوداُسی سے متعارف کراتے ہیں کہ انسان خودی کی جتنی منزلیں طے کرتا چلا جائے گا، اسی قدر اس کے مرتبے بلند ہوتے جائیں گے:

سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے

دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے

ناپید ترے بحرِ تخیل کے کنارے

پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے

تعمیرِ خودی کر، اثر، آہِ رسا دیکھ

یہ عالم ، یہ بت خانۂ چشم و گوش

جہاں زندگی ہے فقط خورد و نوش

تری آگ اس خاکداں سے نہیں

جہاں تجھ سے ہے تو جہاں سے نہیں

بڑھے جا یہ کوہِ گراں توڑ کر

طلسمِ زمان و مکاں توڑ کر

جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود

کہ خالی نہیں ہے ضمیرِ وجود

ہر اک منتظر تیری یلغار کا

تری شوخیٔ فکر و کردار کا

یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار

کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار

خودی سے اللہ راضی ہوتا ہے اور اس کے مقام کو بلند کردیتا ہے ، پھر وہ جو چاہتا ہے ،عطاکرتا ہے،اسی کو اقبال ؔلطیف اندازمیں کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں:

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے ،بتا تیری رضا کیا ہے

رضائے الہی اور معرفت ِخداوندی کے حصول کے بعدایک طرف انسان عشق حقیقی میںڈوب جاتا ہے اور دوسری طرف اس پر خشیت ِالہی طاری ہوجاتی ہے۔جب یہ کیفیت ابھر کر سامنے آتی ہے تو وہ اپنے رب کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کرنا چاہتا کہ کہیں ا س کا رب ناراض نہ ہوجائے ۔مذکورہ بالاشعر اسی حقیقت کی تشریح ہے اور اس کو قرآن میں یوں بیان کیا گیاہے : ’’رضی اللہ عنہم ورضواعنہ ۔۔۔۔‘‘اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے اور یہ نعمت اس شخص کو حاصل ہوسکتی ہے جو اپنے رب سے ڈرتا ہے۔(سورہ نمبر۹۸، آیت نمبر: ۸)

اقبال نے اپنے کلام میں ’تصوف‘ کابھی جامع انداز میں احاطہ کیا ہے۔انہوں نے کبھی تصوف کی وکالت کی ہے تو کبھی مخالفت۔ کبھی تصوف کو انسان کی کامیابی کے لئے اہم قرار دیا ہے تو کبھی اسے گمراہی کا ذریعہ بتایا ہے ۔اقبال کے نزدیک’ تصوف‘ کی وقعت وعظمت کو جاننے کے لئے پہلے یہ اشعار ملاحظہ کیجئے :

صحبتِ پیرِ روم سے مجھ پہ ہوا یہ راز فاش

لاکھ حکیم سر بحبیب ایک کلیم سربکف

مقامِ ذکرِ کمالات رومی و عطار

مقامِ فکر ، مقالاتِ بوعلی سینا

اقبال کے خیال میں صوفی کا مقام حکیم وفلسفی سے بلند ہے۔کیوں کہ تصوف کا تعلق دل سے ہے اور حکمت وفلسفہ کی بنیاد عقل وخرد پر ہے ۔اقبال نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ عقل ودل کے معرکہ کا حاصل پیش کردیا:

نے مہرہ باقی نے مہرہ بازی

جیتا ہے رومی ؔ، ہارا ہے رازیؔ

تصوف سے اقبال کے لگاؤ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ رومی کے بعد ان جیسا صوفی پیدا نہ ہونے کااقبال کوبڑا قلق رہا، یہ شعر اس بات کی غمازی کرتا ہے:

نہ اٹھاپھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے

وہی آب وگلِ ایراں وہی تبریز ہے ساقی

تصوف سے والہانہ محبت کی وجہ سے ہی اقبال ؔاپنی شاعری کے ذریعہ تصوف کی منزلوں کو طے کرنے کا درس دیتے ہیں۔مثلاً وہ اس راہ میں آگے بڑھنے کے لئے مرشد کی صحبت کو بنیادی طورپر دیکھتے ہیں:

دیں مجو اندر کتب اے بے خبر

علم وحکمت از کتب ، دیں از نظر

دل ز دیں ، سرمایۂ ہر قوت است

دیں ہمہ از معجزاتِ صحبت است

یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی

سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی

اقبالؔ کا خیال ہے کہ کامیابی کی منزل تک رسائی مرشد کے بغیر دشوار ہے۔ اس لئے پیر ومرشدِکامل نہ ملنے کی صورت میں وہ مولانا رومی کی مثنوی کو ہی مرشد بنانے کی ترغیب دے ڈالتے ہیں۔کہتے ہیں:

گر نیابی صحبتِ مردِ خبیر

از اَب وجَد آنچہ من دارم بگیر

پیر رومی را رفیقِ راہ ساز

تا خدا بخشد ترا سوز  و  گداز

یعنی اگر تجھے کسی مرد کامل کی صحبت نہ مل سکے تو بزرگوں نے جو نصیحت کی ہے وہی میں تجھے کرتا ہوں کہ تو رومی کی مثنوی کو اپنی راہ کا رفیق بنالے تاکہ خدا تیرے دل میں سوز وگداز پیدا کردے۔بزرگی وتصوف میں رومی کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہی تھی کہ رومی کو ایک روشن ضمیر مرشد ومربی حاصل ہوگیا تھا جسے تاریخ شمس تبریز کے نام سے جانتی ہے۔اقبال کہتے ہیں :

پیر رومی ، مرشدِ روشن ضمیر

کاروانِ عشق و مستی را امیر

اقبالؔ نے مرشدینِ کامل اور بزگارنِ دین کی صحبت کو اختیارکرنے کی پُرزور تلقین اس لئے کی کہ قرآن خود نیکوکاروں کی صحبت کا  حکم دیتاہے ۔ قرآن میں ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا:کونوا مع الصادقین (اے مومنو!)صادقین کی صحبت اختیارکرو۔صادقین سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ پر ایمان لائے اور اللہ کے لئے انہوں نے اپنا مال جان سب کچھ قربان کردیا۔مردِ کامل کی صحبت کی اہمیت قرآن کی اس آیت سے بھی ثابت ہوتی ہے جس میں اللہ رب العزت نے اپنے رسولؐ سے فرمایا: واصبر نفسک مع الذین یرہون ربہم ۔۔۔۔۔ ’’آپ صحبت اختیار کیجئے ان لوگوں کی جو اپنے رب کوصبح وشام(ہر وقت) پکارتے ہیں اور اس کی خشنودی کے طالب رہتے ہیں اور ایسا نہ ہو کہ آپ کی توجہ ان سے ہٹ جائے‘‘(سورہ نمبر۱۸، آیت نمبر۲۸)یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا ہے کہ وہ اللہ کی رضاکے طالبوں کو اپنی صحبت فراہم کریں کیوںکہ آپ کی صحبت ان کے لئے بہت ضروری ہے۔

اقبالؔ نے تصوف کی حمایت کی ہے کیونکہ اقبال کے نزدیک تزکیہ ٔ نفس کی اپنی جگہ اہمیت ہے ،پھراقبال کے خود صوفی ہونے کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیاجاسکتا۔ اس کااندازہ ان کے ایسے اشعارسے ہوتاہے جو تصوف کے رموز واقاف کو بیان کرتے ہیں اورجن سے تصوف کے راز منکشف ہوکرسامنے آتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ ایسا وہی شخص کرسکتا ہے جو خود اس راہ سے گزرا ہو۔اقبال تصوف کی اہمیت وافادیت سے اس لئے بھی منہ نہیں موڑ سکتے کہ تصوف میں تزکیہ پر زور ہوتا ہے اورخود قرآن حکیم تزکیہ نفس پر زوردیتا ہے۔ ارشاد باری ہے: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا ’’جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کرلیا وہ فلاحیاب ہوگیا‘‘اور  مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰی فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَاویٰ’’جو اس بات سے ڈرتا ہے کہ ایک دن مجھے اپنے رب کے سامنے حاضر ہوکر اپنے اعمال کا جواب دینا ہوگا اور اس لئے وہ اپنے نفس کو نفسانی خواہشات سے روکتا ہے تو اس کا ٹھکانہ جنت ہے‘‘ ۔

تصوف کی اہمیت کے قائل ہونے کے باوجود اقبال تصوف کے خلاف بھی کھڑے نظرآتے ہیں اور صوفیا کو خوب کھری کھوٹی سناتے ہیں۔اشعار دیکھئے:

حکیم و عارف و صوفی تمام مست ظہور

کسے خبر کہ تجلی ہے عین مستوری

رہا نہ حلقۂ صوفی میں سوزِ مشتاقی

فسانہ ہائے کرامات رہ گئے باقی

وہ صوفی کہ تھا خدمتِ حق میں مرد

محبت میں یکتا محبت میں فرد

عجم کے خیالات میں کھوگیا

یہ سالک مقامات میں کھوگیا

اقبال کے نشانے پر وہ تصوف نہیں جو اسلامی ہے بلکہ وہ تصوف ہے جو غیر اسلامی ہے اور جس کی راہوں میں بہت سے مسلم صوفیا بھی چل پڑے۔’عجم کے خیالات میں کھوگیا‘ سے مراد یہی ہے کہ دیگر مذاہب کے بہت سے فلاسفہ کے غیر اسلامی تصوف میں ہمارے صوفیا نے بھی اپنے آپ کو گم کردیا ۔

اقبال نے اس تصوف کی عمارت پر بھی ضرب لگائی ہے جو’ فلسفہ وحدت الوجود‘ کی بنیادپر کھڑی کی گئی ۔اسی طرح جومسلم صوفیا وحدت الوجودکے فلسفے سے متاثر ہوئے، اقبالؔ نے ان کی زبردست خبر لی ہے۔اگرچہ’ وحدت الوجود‘ سے متاثر اپنے بہت سے بزرگوں کے رجحانات کو خارج کردینے کے لئے انہیں بڑا مجاہدہ کرنا پڑا ۔جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں:

’’میرا فطری اور آبائی میلان تصوف کی طرف ہے اور یورپ کا فلسفہ پڑھنے سے یہ میلان اور بھی تیز ہوگیا ۔کیونکہ یورپین فلسفہ بحیثیت مجموعی وحدت الوجود کی طرف رخ کرتا ہے مگر قرآن حکیم میں تدبر کرنے اور تاریخ اسلام کا بغور مطالعہ کرنے سے مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور میں نے محض قرآن حکیم کی خاطر اپنے قدیم خیال کو ترک کردیا اور اس مقصد کے لئے مجھے اپنے فطری اور آبائی رجحانات سے ایک خوفناک دماغی اور علمی جہاد کرنا پڑا‘‘ (اسرارِخودی ، از یوسف سلیم چشتی، ص: 36)

 

 

 

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

 

 

 

ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com  پر بھیجنے کی زحمت کریں۔

 

 

 

ادبی میراثاقبالاقبال کی فکرشاعری
1 comment
0
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail
adbimiras

پچھلی پوسٹ
ٹیگور اور اقبال- پروفیسر کوثر مظہری
اگلی پوسٹ
ابوالکلام قاسمی کا تنقیدی اختصاص – ڈاکٹر امام اعظم  

یہ بھی پڑھیں

حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –...

جنوری 20, 2025

کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

اکتوبر 8, 2024

حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی...

اکتوبر 7, 2024

نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام...

جولائی 23, 2024

مفتی عزیز الرحمن شاہدؔ چمپارنیؒ (یادوں کے چراغ)...

مئی 30, 2024

توقیتِ  علامہ محمد اقبال – پروفیسر محسن خالد...

مئی 29, 2024

تو نے اے خیر البشرؐ انساں کو انساں...

ستمبر 26, 2023

اور سایہ دار درخت کٹ گیا – منہاج الدین...

فروری 22, 2022

ابّو جان (شیخ الحدیث مولانا محمد الیاس بارہ...

فروری 22, 2022

 مولانا عتیق الرحمن سنبھلی – مفتی محمد ثناء الہدیٰ...

فروری 15, 2022

1 comment

عورت..... اقبال کی نظر میں - تسنیم فرزانہ - Adbi Miras نومبر 10, 2020 - 5:54 شام

[…] فکر و عمل […]

Reply

تبصرہ کریں Cancel Reply

اپنا نام، ای میل اور ویبسائٹ اگلے تبصرہ کے لئے اس براؤزر میں محفوظ کریں

زمرہ جات

  • آج کا شعر (59)
  • اداریہ (6)
  • اسلامیات (182)
    • قرآن مجید (آڈیو) (3)
  • اشتہار (2)
  • پسندیدہ شعر (1)
  • تاریخِ تہذیب و ثقافت (12)
  • تحقیق و تنقید (117)
  • تخلیقی ادب (592)
    • افسانچہ (29)
    • افسانہ (200)
    • انشائیہ (18)
    • خاکہ (35)
    • رباعی (1)
    • غزل (141)
    • قصیدہ (3)
    • گلہائے عقیدت (28)
    • مرثیہ (6)
    • نظم (127)
  • تربیت (32)
  • تنقیدات (1,038)
    • ڈرامہ (14)
    • شاعری (532)
      • تجزیے (13)
      • شاعری کے مختلف رنگ (217)
      • غزل شناسی (204)
      • مثنوی کی تفہیم (7)
      • مرثیہ تنقید (7)
      • نظم فہمی (88)
    • صحافت (46)
    • طب (18)
    • فکشن (401)
      • افسانچے (3)
      • افسانہ کی تفہیم (213)
      • فکشن تنقید (13)
      • فکشن کے رنگ (24)
      • ناول شناسی (148)
    • قصیدہ کی تفہیم (15)
  • جامعاتی نصاب (12)
    • پی ڈی ایف (PDF) (6)
      • کتابیں (3)
    • ویڈیو (5)
  • روبرو (انٹرویو) (46)
  • کتاب کی بات (474)
  • گوشہ خواتین و اطفال (97)
    • پکوان (2)
  • متفرقات (2,127)
    • ادب کا مستقبل (112)
    • ادبی میراث کے بارے میں (9)
    • ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف (21)
    • تحفظ مادری زبان (24)
    • تراجم (32)
    • تعلیم (33)
    • خبر نامہ (894)
    • خصوصی مضامین (126)
    • سماجی اور سیاسی مضامین (228)
    • فکر و عمل (119)
    • نوشاد منظر Naushad Manzar (68)
  • مقابلہ جاتی امتحان (1)
  • نصابی مواد (256)
    • ویڈیو تدریس (7)

ہمیں فالو کریں

Facebook

ہمیں فالو کریں

Facebook

Follow Me

Facebook
Speed up your social site in 15 minutes, Free website transfer and script installation
  • Facebook
  • Twitter
  • Instagram
  • Youtube
  • Email
  • سر ورق
  • ہمارے بارے میں
  • ہم سے رابطہ

All Right Reserved. Designed and Developed by The Web Haat


اوپر جائیں