گھنیرے پیپل کی چھاؤں میں بوڑھا آبِ جوکے کنارے بیٹھ کرپانی کے بہاؤکو بڑے غور سے دیکھ رہا ہے اور من ہی من میں سوچ رہا ہے۔ اِس دریا میں نہ جانے کتنے گیلن پانی بہہ گیالیکن وہ اِس گھنیرے پیڑ کے سائے میں ابھی تک بیٹھاہے ۔ اِس دوران مشرق وسطیٰ میں یاسمین انقلاب نے سامراجیوں کے پیر اُکھاڑ دیئے ۔ سبز انقلاب کی آہٹ سنائی دی ۔ سرخ سورج رفتہ رفتہ مغربی اُفق میں ڈوب گیالیکن میری زندگی میں کوئی بدلاؤ نہیں آیا۔!!!آئے بھی کیسے ،زخم تو اتنے گہرے ہیں کہ میں جی رہاہوں یہی کافی ہے۔!! اُس نے پلٹ کر دیکھا۔اشجار کے سبز پتے زرد ہوگئے ہیں۔!!اُس نے بیڑی سلگائی اور پلاس کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے ایک لمبی کش لے کردھواں کے مرغولے کو آسمان کی طرف پھینکا۔ دھواں کے مرغولے کو دیکھ کرپلاس پربیٹھے کوئل نے کبوتر سے کہا۔
’’میں ابھی ابھی جس جگہ سے اُڑکر آرہا ہوں۔وہاں ماں کے خوابوں کی کرچیاں ہر طرف بکھری پڑی ہیں۔ دل دہلادینے والی اُس کی سسکی اب بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔یہ سسکی اُس ماں کی ہے جس نے نہ جانے کتنے سنہری خواب اپنی اکلوتی بیٹی کے لیے سنجوئے تھی لیکن صحرا کے بگولوں نے خوابوں کے تمام در ایک بہ یک بند کردیئے ۔!!! ‘‘
اتنے میں بوڑھے کی سماعت سے نیم پاگل بیٹے کی آواز ٹکرائی ۔!!
’’اُس نے مجھے دہشت گرد کیوں کہا۔؟‘‘
’’دنیا کے تمام ہتھیار ہمارے ہاتھوں میں آجانا چاہئے۔!!‘‘
’’ پپا پپا یہاں ہماری حکومت کب قائم ہوگی ۔؟‘‘
بوڑھے نے بیٹے کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
’’بیٹابہت جلد….!!‘‘
وہ ہنسے لگا۔ پھر سنجیدہ ہوکر پوچھا۔
’’سچ پپا….! ‘‘
قریب بیٹھے ایک شخص نے بوڑھے سے کہا ۔اِسے حاجی علی کے مزار پر لے جائو۔اِس پر کوئی بڑا آسیب ہے۔بوڑھے نے ذہن کو جھٹک دیا۔ دریاکا پانی اب بھی بہہ رہا ہے۔ اُس نے اپنی نظر کو وہاں سے اُٹھا کر سامنے ہوڑہ برج پر مرکوز کیا۔لوگوں کی بے ہنگم بھیڑ بھاگ رہی ہے۔جیسے صدیوں بعد اُس کے پیروں سے بیڑیاں کا ٹ دی گئی ہوں۔ ہوڑہ بریج کی منڈیر پر ایک سہماہواکبوتر کا جوڑا بیٹھا ہے۔وہ اُن کو بغور دیکھنے لگا کہ اتنے میں ایک باز نے مادہ کبوتر کواپنے چنگل میں دبوچ کر اُڑگیا ۔ نر کبوتر کی آنکھوں میں سرخ ڈورے اُبھرآئے اور سورج ڈوب گیا ۔!!چاندسرِفلک آیا۔! چاندکی دودھیاروشنی میں کبوتر نے باز کا پیچھا کیا۔ تھوڑی دوری پر اُس کی نظرجاکر ٹھہرگئی ۔ مادہ کبوتر لہولہان سڑک کے کنارے نیم مردہ پڑی ہے ۔!اُس کی لاش پر چاندنی اور سرد کہرے کی بارش ہورہی ہے ۔! !منظر دیکھ کر اُس کی آنکھوں میں لہو اُتر آیا۔!!بھیگی پلکوں کے ساتھ بوڑھا آبِ جو کے کنارے سے اُٹھ کر اپنے کمرے میں واپس آیا۔ مورٹین کے کوئل کو جلایا۔ ایک بھینی بھینی خوشبو پھیلی ۔!!پھر وہ نیندکی آغوش میں چلا گیا ۔اُس نے خواب دیکھا۔ایک وسیع و عریض میدان ۔!سیکڑوں لوگ سفید کپڑے میں ملبوس اِدھر اُدھر دوڑ بھاگ کررہے ہیں۔اُس نے ایک شخص سے پوچھا ۔
’’یہ ماجرا کیا ہے۔؟‘‘
اُس نے کہا ۔
’’یہ حشر کا میدان ہے۔!!!‘‘
بوڑھے کی نیند ٹوٹ گئی۔اُس کو بریج کی بے ہنگم بھیڑ کی یاد ساری رات ستاتی رہی۔ساتھ ہی ساتھ وہ اِس وسوسے میں بھی مبتلا رہا کہ لڑکا نیم پاگل کیسے ہوگیا۔؟نیم پاگل بیٹے پرجب جنونی دورے شّدت سے پڑنے لگے تو اپنوں کے مشورے پر اُس نے اُس کوحاجی علی کے مزار پر لے گیااور گِڑگِڑاتے ہوئے کہا۔
’’بابا اِس کے آسیب کو ہٹائو۔!‘‘
جواب ملا۔
’’مریخ پر کمندیں ڈال چکے ہو آسیب کا پیچھا کرتے ہو۔!!‘‘
’’لیکن قرآن میں جن کا ذکر تو ہے بابا۔!!‘‘
بابانے عصا کوپیٹتے ہوئے کہا۔
’’ اب جن بھی اپنی جنت کوچھوڑ کر دنیا کے جہنم میں آنا پسند نہیں کرتے۔!!‘‘
بوڑھے نے رونی صورت بنا کر پوچھا۔
’’تو پھر اِس کا دماغی توازن بگڑا کیسے بابا ….؟‘‘
باریش بزرگ نے حجرے کا دروازہ بند کرتے ہوئے کہا۔
’’اِجداد کی روایت کو ماضی کا فرسودہ باب سمجھنے والے اپنے اعمال کوٹھیک کرو….!! ‘‘
بوڑھا کچھ پریشان ہوگیا۔ چہرے پر کرب کی لکیریں اُبھر آئیں۔
’’ اب کیا ہوگا ۔؟بابا نے تو دروازہ بند کرلیا۔!‘‘
تب تک حاجی علی کے مزار کی چاروں طرف نظریں گھوما کر پاگل بیٹے نے پھر سوال داغا۔
’’پپا پپا یہ کالے کالے پتھر کیا ہیں۔؟‘‘
بوڑھے نے کہا ۔بیٹے کبھی یہاں ایک جھیل تھی۔ اِس جھیل میں پریاں غسل کیا کرتی تھیں۔ ایک دن ایک پاپی نے فاسد خون کے لتھڑے کو جھیل میں ڈال دیاپھر ایسا ہوا کہ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ پریاں اُڑ اُڑ کر جھیل سے بھاگنے لگیں ۔جو پری اُس وقت جھیل سے باہر نکلنے کی حالت میں نہیں تھی وہ اپنی جگہ پتھر بن گئی کیونکہ جھیل کاکنچن پانی ناپاک ہوگیا تھا۔!بوڑھے باپ کی بغل میں ایک باریش قلندر بیٹھا تھا۔ وہ اِن سب باتوں کو غور سے سن رہا تھا۔اُس نے بوڑھے کے نیم پاگل بیٹے کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’بیٹے….! پانچ برس قبل کملی والے کی سر زمین پر جب میں نے پہلی بار قدم رکھاتو میرے منہ سے بے ساختہ یہ جملہ نکلا تھاکہ یہ میرے محبوب کی سرزمین ہے ۔!جہاز سے باہر آیا۔ گرم ہوا کے تھپیڑے منہ پر لگے ۔ قدم ڈگمگا گئے ۔پھرسوچا یہاں گرم ہوا برداشت نہیں تو غلط اعمال پر جہنم میں کیا ہوگا۔؟ گفتگو کے سلسلے کو دراز کرتے ہوئے اُس نے کہا۔میں بائیس سال کملی والے کی سرزمین پر رہا ،اِس دوران ایک قاتل کی گردن اُڑتے،ایک زانی کو سنگسار ہوتے اور ایک چور کا ہاتھ کٹتے دیکھا۔ !پھر اُس نے کہنا شروع کیا ۔ بیٹے دنیا میں اپنے اعمال کو ٹھیک رکھناکیونکہ قبر کی تاریکی میں پانچ اشخاص نمودار ہوں گے۔ اُن میں سے ایک قبر میں آنے والے سے کہے گا ۔میں تمہارا نیک اعمال ہوں۔تم نے دنیا میں میر ے دامن کون ہیں چھوڑا،اِس لیے میں بھی تم کوحشرمیں نہیں بھو لوں گا۔پھر وہ شخص عرش اعظم پر جائے گا۔ اپنے ساتھ ایک مصلّہ اور ایک قندیل لے کر آئے گا ۔ قندیل روشن کرے گا۔مصلّہ بچھائے گا۔تھوڑی دیر بعدایک حسین و جمیل حور آئے گی۔ اُس کی خوبصورتی کا یہ عالم ہوگا کہ وہ اپنی ایک اُنگلی اگر قبر سے باہر نکال دے تو سورج کی روشنی ماند پڑجائے گی ۔چاند شرما جائے گا۔پھر ایک فرشتہ آئے گا ۔اُس کے ہاتھ میں تشبیح ہوگی ۔اہل قبر اور حور کے درمیان تشبیح کے لیے چھینا جھپٹی ہوگی۔اتنے میں تشبیح ٹوٹ جا ئے گی اور موتی کے دانے قبرکی فرش پر بکھر جا ئیں گے۔ پھر دونوں اِس دانے کو چننے میں مشغول ہوجائیں گے۔ موتی کے اِن دانوں کو چنتے چنتے حشرکے میدان میں نیکی اور بدی کا میزان قائم ہو جائے گا …..!!!‘‘
باریش قلندرکی نصیحت آمیزبات سن کر نیم پاگل لڑکے نے چاک سے فرش پر آڑی ترچھی لکیروں سے تصویربنانا شروع کیا۔!شلوار قمیص پہنے ایک نوجوان لڑکی کی سربریدہ لاش سڑک کے کنارے پڑی ہے۔ اِدھر اُدھر بکھری کانچ کی چوڑیوں کی کرچیاں۔!!دوپٹہ داہنے کندھے کے پاس۔!! چاروںطرف خون کے چھینٹے۔ !! کچھ دوری پر نئے چپل کا جوڑا اوندھے پڑا ہے۔لڑکی کے تن پرسیاہ نقاب لیکن سرغائب ۔! چیت پڑی سربریدہ لاش کے دونوں ہاتھ اوپر اُٹھے ہوئے ۔آرٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نیم پاگل بیٹے نے کہا ۔
’’پپا پپامارسل لائی لگا ہوا ہے ۔!! ‘‘
بوڑھے نے ڈبڈبائی آنکھوں سے کہا۔
’’ہاں بیٹے بے لگام جذبے پاک رشتے کے منتظر نہیں ہوتے۔!!‘‘
جی بہلانے کے لیے بوڑھا پاگل بیٹے کو لے کر مزار کے صحن سے باہر نکل آیا۔ باہرکچھ دوری پر ایک لائٹ پوسٹ کے نیچے جوان لڑکے اور لڑکیاں ہاتھوں میں شمع لیکرقطار میں کھڑے ہیں۔ املتاس کے نیچے ایک میزپر نیلا مخمل بچھا ہے۔ اِس پر سفید اور لال گلاب رکھا ہوا ہے۔ ایک نم دیدہ لڑکا سبز موم بتی رو شن کرنے میں مشغول ہے۔بغل میں اجنتا ایلورا کی مورت جیسی ایک نوجوان لڑکی نیلے جاکٹ اورنیروجینس میں ملبوس اگر بتی جلارہی ہے۔ اگر بتی سے دھواں کے مرغولے اُٹھ رہے ہیں۔ عقیدت مند آتے ہیں اور سیاہ تختی کے پاس شمع جلاکر اپنی منزل کی طرف چل دیتے ہیں۔!!! بھیڑ میں شامل معصوم بچیوں نے ہاتھوں میں بینر اُٹھارکھا ہے۔!
’’اخلاقی دہشت گردی بند کرو ۔!!!‘‘
"we want justice”
’’وہ تمام شیوالے بند کردو جہاں عورتوں کی پوجا ہوتی ہے۔!!‘‘
نیم پاگل بیٹے نے سوال اُچھالا۔
’’پپا پپا یہ کیا تماشہ ہورہا ہے۔!!‘‘
بوڑھے باپ نے کہنا شروع کیا۔ بیٹا کل راجدھانی میں مونیکا بس اسٹاپ سے ایک نوخیز دوشیزہ اور اُس کاساتھی وائٹ لائن بس پر سوار ہوئے تھے۔چند گز کی دوری طے کرنے کے بعد ڈرائیور اور چھ عملوں کے اندر درندگی جاگی اور پوری قوم شرمسار ہوگئی۔اُسے وینٹی لیٹر پر رکھا گیا ہے ۔ہوس و حواس ختم ہوگیا ہے۔ پورے ملک میں احتجاج کی لہرشباب پر ہے ۔سلائن چل رہا ہے۔لڑکی خون سے لت پت بیڈ پر پڑی ہے۔ آنکھیں بند ہیں۔ لب خاموش ہے۔چہرہ نیلا ہوگیا ہے۔جسم پرجہاں تہاں خراش پڑگیا ہے۔چھاتیوں پر دانت کے گہرے نشان ہیں۔اِن سے خون رس رہا ہے۔ درندوں نے اُس کی عصمت کو تار تار کردیا ہے۔ اِس لیے ا نفکشن کا خطرہ ہے۔ تازہ خبرملنے تک ڈاکٹر کمپاونڈ میں آگئے ہیں۔واش کی تیاری چل رہی ہے۔پاگل بیٹے نے بے ساختہ کہا ۔
’’ پپاجھیل گندی ہوگئی ہے۔؟‘‘
بوڑھا خاموش ہوگیالیکن اُس کا نیم پاگل بیٹا آسمان کی طرف دیکھ کرزور زورچیخنے لگا۔
’’میزان قائم کرو …..!میزان قائم کرو……!!میزان قائم کرو۔!!!‘‘ اور فرش پر گرِکر بے ہوش ہوگیا۔
بھیڑ سے آواز آئی۔
’’اِسے حاجی علی کے مزار پر لے جاؤ۔اِس پر کوئی بڑاآسیب ہے۔!!‘‘
٭٭٭
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page