میں ، میری یادیں ، میرے سفر / کندن لال کندن -صبا انجم
یہ کتاب ڈاکٹر کندن لال کندن کی یادوں سے تحریر کی ہوئی خود نوشت ہے جس میں انہوں نے بٹوارہ سے قبل کا ہندوستان اور بٹوارہ کے بعد کا نیاہندوستان کا آنکھوں دیکھا حال قلم بند کیا ہے ۔ اسی لئے انہوں نے اپنی اس کاوش کا انتساب شہیدوں کے نام کیا ہے ۔ کتاب کانام’’ میں ، میری یادیں ، میرے سفر‘‘ انہوںنے جس انداز سے رکھا ہے اسے تین حصوں میں رکھا جاسکتا ہے ’’ میں ‘‘ یعنی وہ اپنے بارے میں بتانا چاہتے ہیں ۔ ’’ میری یادیں‘‘ اس میں وہ اپنے گزرے ہوئے لمحات کو محفوظ کرناچاہتے ہیںکہ ان کا بچپن کہاں اور کیسے گزراہے اور ’’ میرے سفر‘‘ جس میں وہ اپنے اسفار کو قلم بند کرنا چاہتے ہیں ۔ دو صفحے پر مبنی ایک طویل نظم کے ذریعہ انہوں نے عہد طفلی سے لے کر جوانی کی چھیڑ خوانی اور فرصت کے لمحات میں بیت و بازی و شعر خوانی نیز ہند کی آزاد ہونے کی کہانی اور سر پر آپڑی بلائے آسمانی و خون کی ندیوں کا تفصیلی ذکر کیا ہے ۔ ذیل میں دو اشعار جو کتاب کاوجہ تسمیہ بھی بن سکتا ہے ،دیکھیں :
جستہ جستہ ان کا اب کرتا بیاں ہوں میں یہاں
پر سکوں ہوجائے ہر دل لبھانی یاد ہے
لکھ رہاہوں مختص احوال کندن اب یہاں
حق پہ مبنی اب تلک جو کچھ زبانی یاد ہے
انہوں نے بعنوان ’’ پر کھوں کے وطن کے بارے میں اجمالی ذکر ‘‘کے تحت پاکستان کا اس وقت کا نقشہ کیا تھا اور کون کون سے لوگ یعنی کون کون سے قبیلے آباد تھے جیسے کھتران قبیلہ ، قیصرانی قبیلہ ، لنڈ قبیلہ ، کھو سا قبیلہ ، لغاری قبیلہ ، گرچانی قبیلہ ، دریشک قبیلہ ، مزاری قبیلہ ، بزدار قبیلہ ، نتکانی قبیلہ وغیرہ کا مختصر تعار ف کرایا ہے جو پرانے لوگوں کی دستاویز کی اہمیت رکھتی ہے ۔ ( یہ بھی پڑھیں مختار شمیم :حیات اور ادبی کارنامے/ ڈاکٹر محمد ناظم حسین -ڈاکٹر ابراہیم افسر )
عام طور پر لوگ خود نوشت میں ایام طفلی کے حالات لکھتے ہوئے اپنی شیخی بگھارتے ہیں لیکن کندن لال جی کو یہ کہنے میں بھی کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی کہ میں بچپن میں شرارتی تھا ۔وہ لکھتے ہیں کہ ’’میں بچپن میں شرارتی تو تھا ہی مگر اسکول کی کھیل کود میں بھی سب سے آگے رہتا تھا ‘‘ ص 27۔ لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ جو لوگ شرارتی ہوتے ہیں وہ ذہین بھی ہوتے ہیں۔جیسا کہ انہوں نے اپنے بچپن کے زمانے کے اسکول کے لڑکوں کی دلچسپی اور خالی وقت میں اپنی مشغولیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ اسکولوں میں اکثر طالب علم فرصت کے وقت بیت بازی کا مقابلہ کرتے تھے‘‘ص 34 ۔ان بچوں کی ادبی دلچسپی اس حد تک تھی کہ ’’ جب کسی رشتے دار یا پڑوس میںکسی کی شادی ہوتی اور برات آس پاس کے دوسرے گائوں میں جاتی تھی تو براتی اونٹوں پر کجائوں میں بیٹھ جاتے تھے ۔ اونٹ بڑی لمبی قطار میںچلتے تھے آگے پیچھے والے اونٹ پر بیٹھے بچے بیت بازی کا مقابلہ شروع کر دیتے تھے ۔ہچکولے کھاتے بیت بازی کرتے سفر بھی کٹ جاتا تھا ۔ ذہنی تشفی ہوجاتی تھی اس طرح ادبی کتابوں کے بہت سے اشعار بھی ازبر ہوجاتے تھے‘‘ص 35 ۔
ڈاکٹر کندن نے اپنی خود نوشت میں بٹوارے کے وقت کے حالات کو قلم بند کیا ہے اور اس کے لئے ’’ کوٹ قیصرانی اور بلوچستان کو خیرباد ‘‘ کا عنوان دیا ہے ۔اس معنی کر یہ کتاب اہم ہوجاتی ہے کہ اس کے مصنف چشم دید گواہ ہیں اور آنکھوں دیکھا حال انہوں نے اپنی اس کتاب میں بیان کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ بٹوارہ تو زمین جائدا دکا ہوتا ہے آبادیوں کا بٹوارہ میں نے کسی اپنے بزرگ سے بھی نہیں سنا ۔ سیاسی لیڈروںکا عقل کہاں گھاس چرنے گئی تھی کہ ہندوستان کا بٹوارہ تسلیم کرلیا ۔ انہوں نے یہ کیوں نہیں سوچ کہ آبادیوں کے بٹوارہ سے عوام کو کتنی پریشانی ہوں گی ۔ مہاتما گاندھی جو ہمیشہ یہ کہا کرے تھے کہ ہندوستان میری لاشوں پر بٹے گا لیکن موصوف نے اپنے جیے جی بٹواہ ہی نہیں آبادیوں کا بٹوارہ کرادیا ۔وہ اس بات کو کیوں نہیں سمجھ سکے کہ ان کی پل بھر کی غلطی سے لاکھوں انسانوں کو سزا بھگتنی پڑے گی ۔ اس آمد و رفت میں کم و بیش 10 لاکھ آدیومیوں کو اپنی جان گنوانی پڑے گی۔ انہوں نے اپنی کتاب میں سوال کھڑاکیا کہ سبھاش چندر بوس کا صحیح پتہ اب تک کیوں نہیں لگ پایا ہے ؟ ہوئی حادثہ کا شکار ہونے کی تصدیق اب تک کیوں نہیںہوپائی ہے ؟ کن لوگوں کا ہاتھ اس کے پیچھے کار فرماتھے ؟ اس کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ جواہرلال نہرو اور گاندھی جی بین الاقوامی سطح کے رہنما تھے ۔ وہ چاہتے تو ان کا سراغ لگاسکتے تھے لیکن وہ ہر گز نہیں چاہتے تھے کہ سبھاش چندر بوس واپس ہندوستان آئے کیوں کہ ان کو یہ ڈر ستا رہاتھا کہ اگر سبھاش ہندوستان آگئے تو ان کا وزیر اعظم بننے کا خواب پورا نہیں ہوسکے گا ۔ جبکہ ہندوستان آزاد کرانے میں سبھاش چندر بوس کا بہت اہم کردار رہاہے ان کا یہ نعرہ جوکافی مشہور ہوا ہے کہ ’’ تم مجھے خو ن دو،میں تمہیں آزادی دلائوںگا ‘‘ فوجیوںکے دلوں میں جوش بھر دیا تھا۔ مذکورہ عنوان میں موصوف نے نہ صرف ہندوستان کا بٹوارہ بلکہ نہرو خاندان کا کچا چٹھہ کھول کر رکھ دیا ہے ۔مصنف نے 1940سے لے کر 1991 تک کے حالات قلم بند کئے ہیں۔
ایک عنوان’’1948 سے 31 مارچ 1994 کے حالات ‘‘ ہے، اس میں انہوں نے اپنی نوکری ، شادی او ر مکان کے حالات کو خوب اسلوبی سے بیان کیا ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے ایک عنوان یہ بنایا’’ 1959 سے 31مارچ 1994 کے حالات ‘‘ اس میں دوبارہ پڑھائی شروع کرنے کے اسباب اور ادیب سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک کا سفر بالتفصیل بیان کیا ہے ۔موصوف نے دہلی کالج اجمیری گیٹ میں B.A میں داخلہ لے کر PhD کی ڈگری حاصل کی ۔اپنے زمانہ طالب علمی میںدہلی کالج کے تعلیمی سرگرمیوں او ر اپنے اساتذہ و غیرہ کے اسما کاذکر کیا ہے ۔ اس ضمن میں ایک بات ضرور عرض کرنی ہے کہ عام طور پر لوگ نوکری حاصل کرنے کے لئے پڑھائی جاری رکھتے ہیں لیکن انہوں نے نوکری حاصل کرنے کے بعد نہ صرف اپنی پڑھائی شروع کی بلکہ اختتام کو پہنچایا ۔
’’جامع مسجد پوسٹ آفس میں کچھ عجیب و غریب ملاقاتیں ‘‘مصنف جامع مسجد دہلی پوسٹ آفس میں بحیثیت پوسٹ ماسٹر تھے ۔انہوںنے اس عنوان میں ایک شخص جس کی ماں تقسیم ہند کے وقت اپنے خاندان سے بچھڑ گئی تھی ۔ اس کی دیرینہ خواہش پوری کرنے میں انہوں نے کافی مدد کی اور اس کے لئے پورے ہندوستان میں اشتہار دیا ۔ تلاش بسیار کے بعد معلوم ہوا کہ اس کی ایک فیملی اسی کے محلے میں رہتی ہے ۔اس واقعہ کو پڑھ کر مجھے یہ شعر یاد آتا ہے:
جنہیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں
وہ نکلے میرے ظلمت خانئہ دل کے مکینوں میں
اس کے بعد انہوں نے ’’ پاکستان کا پہلا یادگاری سفر ‘‘ پھر پاکستان کا دوسرا سفر اسی طرح تیسرا اور پھر چوتھا سفر ،چاروں کے چاروں پاکستان کا ہی سفر کا ذکر کیا ہے۔اس کے بعد ’’ ہندوستان کے طول وعرض کی سیر وسیاحت کا اجمالی ذکر ‘‘ کا عنوان دے کر جمو کشمیر ، گوا ،اوٹی وغیرہ کے دیگر مقامات کا مختصر روداد سیاحت بیان کیا ہے ۔ آ خر میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی طرف سے منعقد ’’ پانچویں عالمی اردو کانفرنس(24ْْمارچ تا26 مارچ2018 )‘‘ میں پڑھے گئے مقالہ بعنوان ’رباعیات میں عالمی مسائل ‘ کو شامل کیا ہے جوکافی اہم مضمون ہے ۔
میں اس کتاب کو نہ صرف خود نوشت کی حیثیت سے دیکھ رہاہوں بلکہ ایک تاریخی دستاویز کی نگاہ سے بھی دیکھ رہاہوں جس کی تائید مصنف کے قول ’’ تاکہ آنے والی نسلوںکے مئورخوں کو اس عہد کی تاریخ مرتب کرنے میں کچھ سہولت و مدد مل سکے اور حقیقت پر مبنی حالات کی روشنی میں اس عہد کی صحیح تصویر ابھر کر سامنے آئے ‘‘ ص 9۔
آخر میں یہ کہناکافی ہوگا کہ موصوف نہ صرف اس کے کتاب کے مصنف ہیںبلکہ ان کی کئی کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں ۔ جس میں چند نام مندرجہ ذیل ہیں : ارمغان کندن ، رباعیات اختر ، جنوبی و شمالی ہند کی تاریخی مثنویاں ، ارمغان عروض ، چون آہنگوں میں رباعیات کندن ، رباعیات وماہیے اور ماہیے کی ہیئت ، معراج فن ، کندن پارے وغیرہ۔