آ ج کی مادہ پرست دنیا میں جہاں ہرشئے کی قدروقیمت مادی لحاظ سے طے کی جاتی ہے۔وہاں یہ سوال پیداہوتا ہے کہ شعر و ادب اورشاعر وادیب کی سماج ومعاشرہ میں کیاضرورت ہے اور سماج کی ترقی میں ان کا رول کیا ہے؟اس کاجواب مادہ پرستوں کے نزدیک یہ ہے کہ سائنس کے علاوہ تمام سماجی علوم اورادب بالخصوص بیکارہے۔ان علوم کوحاصل کرنا تفریح طبع اورتضیع اوقات کے سواکچھ بھی نہیں ہے۔یہ حقیقت ہے کہ شعر و ادب اورادیب وشاعرسے مادی ترقی میں بظاہر کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے ۔اسی لیے ادب کی اہمیت و افادیت مادہ پرستوں کی سمجھ سے باہرہے لیکن جب آپ مادی دنیاسے نکل کرروحانی و حقیقی زندگی میں قدم رکھیں گے اور اپنے سماج ومعاشرہ کامطالعہ ومشاہدہ کریں گے یا اپنے اسلاف اورماضی کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں گے توآپ حیران وششدررہ جائیں گے کہ شعرو ادب اورادیب وشاعر ہمارے لیے کتنے اہم ہیں ۔دراصل سائنسدانوں نے مشینوں کو ترقی دے کر انسان نما چلتا پھرتا ربوٹ تو بنا لیا لیکن اس چکر میں وہ خود ربوٹ بن گئے۔اچھاادب و شعر او راچھاادیب وشاعراس ربوٹ نماانسان میں جذبات واحساسات کو ازسرے نوبیدار کرتاہے اور اسے دوبارہ انسانی زندگی عطاکرتاہے۔ادیب و شاعر اپنے عہد وسماج کے مسائل اور زندگی کے حقائق کونظم ونثرکے پیرائے میںاپنے منفراوردلچسپ اسلوب میں اس اندازسے پیش کرتاہے کہ ان کی باتیں ہمارے دل میں گھر کرلیتی ہیں اورہم ایک صحت مند سماج کی تلاش میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ نیازجیراج پوری کا شمار ایسے ہی شاعروں میں ہوتا ہے۔بشیربدرکایہ شعران کی شاعری پرپوری طرح صادق آتاہے۔
اس نے چھوکرمجھے پتھرسے پھرانسان کیا
مدتوں بعدمری آنکھ میں آنسوآئے
نیازجیراج پوری کاتعلق ایک ایسی سرزمین سے ہے جوعلم وفن کاگہوارہ ہے۔ یہاںکے دیہات وقصبات میں علم وادب کے ایسے چشمے ابلتے ہیں جس سے تشنگان علم وادب آج بھی سیراب ہورہے ہیں۔علامہ شبلی نعمانی، مولاناامین احسن اصلاحی، مولانا اسلم جیراج پوری ، حمید الدین فراہی ،مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی ،مولاناوحیدالدین خان ،سرشا ہ سلیمان ، معین احسن جذبی، اقبال سہیل ،راہل سنس کِرتاین ، کیفی اعظمی ،رحمت الٰہی برق ،ؔ علی جواد زیدی ،خلیل الرحمٰن اعظمی ، پروفیسر سید احتشام حسین ،فضا ابن فیضی ،اثر انصاری ۔لکشمی نرائن مشرا ، ایودھیا سنگھ اُپادھیائے ہری اودھ ،یحیٰ اعظمی ،شمیم کرہانی ، قاضی اطہر مبارکپوری ،صفی الرحمٰن مبارکپوری ،امجد غزنوی ،احسان بیگ، شاہدماہلی اور شمس الرحمن فاروقی آسمان علم وفن کے ایسے آفتاب ومہتاب ہیں کہ جن کی ضوفشانی سے پوری علمی و ادبی کائنات آج بھی روشن ودرخشاں ہے اورنیاز جیراج پوری اس تابناک علمی وادبی روایت کے امین وپاسدارہیں ۔ ان کی نظم نگاری میں ان علمائ ،ادبائ اور شعرائ کی پوری ادبی روایت سمٹتی نظرآتی ہے۔حمد ’’اللہ‘‘اور’’اللہ اکبر‘‘ علامہ حمیدالدین فراہی اورمولاناامین احسن اصلاحی کی قرآنی بصیرت سے منور اور نعت ’’لولاک ‘‘ سیرت النبی اورالرحیق المختوم کی خوشبوسے معطر ہے۔انھیں نہ صرف ان ادبائ وشعرائ سے بلکہ اپنے خطے کی ہرشئے سے بے پناہ عقیدت ومحبت ہے اور وہ اس کابرملااظہاربھی کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اس خطے کی علمی وادبی عظمت ورفعت کا شہرہ چہاردانگ عالم میں ہے اوراس کی عظمت کامیں ہی نہیں بلکہ زمانہ قائل ہے۔ اپنی نظم ’’اعظم گڈھ‘‘ میںوہ اسی سچائی کوپیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ (یہ بھی پڑھیں کشور ناہید کی تحریروں میں تا نیثی رحجان- عبد العزیز ملک )
ہے یہ اعظم گڑھ دیارِ علم و فَن
جاوداں شعر و ادب کی انجُمن
میں نہیں کہتا زمانہ کہتا ہے
شمعِ عِلم و فَن یہاں ہے ضو فگن
شہرہ اِس کا ہر جگہ ہے ہر طرف
ذِکر اِس کا انجمن در انجمن
نیازجیراج پوری کواردوزبان سے قلبی لگائوہے۔اس کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ انھوں نے حمد ونعت کے معاًبعد مسلسل چارنظمیں اردوزبان سے متعلق نظم کی ہیںجو اس بات کابین ثبوت ہے کہ خداورسول کے بعد نیازجیراج پوری کے نزدیک سب سے مقدس ومحترم مقام اردوزبان کاہے۔’’اردوزبان‘‘،’’اردو اور اردو والے ‘‘،’’میں اردوہوں‘‘ اور ’’ترانۂ اردو‘‘میں انھوں نے اردوزبان سے منسلک ان مسائل و حقائق کوپیش کرنے کی کوشش کی ہے جسے ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے ۔ اردوزبان نے جنگ آزادی ، قومی یکجہتی ،وطن پرستی ،اخوت ومحبت اورآپسی میل جول کوفروغ دینے میں جونمایاں کرداراداکیاہے اسے تعصب ،تنگ نظری، سیاسی مفادپرستی اوربھیدبھائوکے تحت کبھی تسلیم نہیں کیاگیا۔اردوزبان کی ان خدمات کاصلہ ان کے اپنوں نے یہ دیاکہ اس کے وجودکو مٹانے کی سازشیں رچنے لگے۔شاید سازشی کواس کاعلم نہیں تھاکہ اردوزبان کاخمیرایسی مٹی سے تیارکیاگیاہے کہ اسے جتنامٹانے کی کوشش کی جائے گی وہ اتناہی پھلے پھولے اورپروان چڑھے گی اورجولوگ اس کومٹانے کاخواب دیکھ رہے ہیں ان کاخواب کبھی بھی شرمندہ تعبیرنہیں ہو گا۔ شاعرنے اردوکی زبانی ان سازشیوں کواسی حقیقت سے آگاہ کیاہے کہ میں تمہاری سازشوں سے کبھی نہیں مرسکتی بلکہ تمہاری سازشیں مجھے عالمی وآفاقی شہرت وقبولیت عطاکر رہی ہیں۔
مَیں اُردو ہُوں وہی اُردو کے جِس کے بارے میں سچ ہی
کہا تھا داغؔ نے سارے جہاں مَیں دُھوم ہے میری
کِسی شاداب گُلشن کو جلانا چاہتے ہو تُم
کِسی شمعِ فروزاں کو بُجھانا چاہتے ہو تُم
تمدُّن مسخ کرنے کا بہانا چاہتے ہو تُم
مَیں اِک تہذیب ہُوں مُجھ کو مِٹانا چاہتے ہو تُم
مَیں اُردو ہُوں تُمہاری سازشوں سے ڈر نہیں سکتی
تُمہیں معلوم ہونا چاہِئے مَیں مَر نہیں سکتی
( میں اردوہوں)
اسی طرح اردوزبان کی شیرینی،دلکشی اوراوصاف حمیدہ کونظم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اردوزبان شہدسے زیادہ میٹھی شبنم سے زیادہ پاک وبارداورشہنائی سے زیادہ فرحت وانبساط بخشنے والی ہے۔یہ روح افزا،جاں فزا،دلکش ودلنشیں ہے۔اس میں قوس قزاح کے سات رنگوں کاحسین امتزاج پایاجاتاہے یہی وجہ ہے کہ جہاں اردوہے وہاںزیبائی ،رعنائی اور رونق ہی رونق ہے۔
شہد ہے شبنم ہے اور شہنائی ہے اُردو زباں
شیریں ہے شفّاف ہے سُکھ دائی ہے اُردو زباں
دیکھئے عینک ہٹا کر بُغض و نفرت کی جناب
چھا رہی ہے چھائے گی اور چھائی ہے اُردو زباں
ذہن ودِل میں خیمہ زن بَن کر بہاروں کی سفیر
رُوح افزا جاں فزا پُروائی ہے اُردو زباں
ہے دھنک کے سات رنگوں کا نُمایاں اِمتزاج
دِل کشی ہے ، حُسن ہے ، رعنائی ہے اُردو زباں
ہے جہاں اُردو وہاں رونق ہی رونق ہے نیازؔ
زیب ہے ، زیبا ہے اور زیبائی ہے اُردو زباں
(اردوزبان)
نیازجیراج پوری کو اردوزبان سے عشق ہے۔وہ اپنے عشق کااعتراف کرتے ہوئے علی الاعلان کہتے ہیں کہ لوگو!کان کھول کر سن لو کہ میراجینا،میرامرنا،میری جان ، میری پہچان ،میری ماں اورمیری شان سب کچھ اردوزبان ہے۔ اردوزبان سے ان کے والہانہ لگائو کا اندازہ ان اشعارسے بخوبی لگایاجاسکتاہے ۔
جَیراج پُوری نیاز احمد یُوں
اِن سے اُن سے سب سے کہہ دوں
میرا جِینا مَرنا اُردو
اُردو میں ہے میری جان
پیاری اُردو میری جان
(ترانۂ اردو)
ماں کی ممتا سے تو مَیں بچپن سے ہی محروم ہُوں
اب تو لگتا ہے کہ میری مائی ہے اُردو زباں
(اردوزبان)
نیازجیراج پوری اپنے عہد کے سیاسی ،سماجی ،معاشی ،معاشرتی ،قومی اوربین الاقوامی مسائل سے بخوبی واقف ہیں۔ ان کی نظمیں اکیسویں صدی کے انسانوں بالخصوص ہندستانی عوام کی ذہنی ونفسیاتی تصادم کی داستان ہیں۔نیازجیراج پوری کاکمال یہ ہے کہ انھوں نے قومی وبین الاقوامی سطح پرانسانیت کے درپیش مسائل کوالفاظ کے خوبصورت جامے میں ملبوس کرکے اپنی نظموں میں کچھ اس طرح سے پیش کیاہے کہ اکیسویں صدی اپنی تمام ترخوبیوں اورخرابیوں کے ساتھ ہماری نظروں کے سامنے رقص کناں نظرآتی ہے۔ جب وقت کامورخ اکیسویں صدی کی تاریخ لکھنے کے لیے قلم وقرطاس اٹھائے گاتویہ نظمیں اس کے لیے تاریخی دستاویز کی حیثیت سے ایک گراں قدرتحفہ ثابت ہوں گی۔انھوں نے’’اشارہ‘‘، ’’چاروں اور‘‘،’’جنگ ‘‘،’’جنگ سے نفرت ہے ہم کو‘‘،’’سزا‘‘، ’’جمہوریت کی لاش‘‘،’’چراغ ‘‘،’’ماحول ‘‘ ، ’’انتباہ‘‘،’’انتخابی جنگ‘‘،’’لوجہاد‘‘،’’یہاں نفرت نہ پھیلاؤ‘‘، ’’آہ !فلسطین ‘‘، ’’آہ !پشاور‘‘، ’’آہ !برما‘‘، ’’آہ ! پلوامہ ‘‘اور ’’آہ !نیوزی لینڈ‘‘ میں عہد حاضرکے دلشکن حالات ومسائل کی جولفظی مرقع کشی کی ہے وہ ان کی وسعت نظراورفنی مہارت کی دلیل ہے۔ (یہ بھی پڑھیں 1980کے بعدکی نظموں کا تہذیبی تناظر: اخترالایمان، آنند نرائن ملا ،اور احمد فراز کے حوالے سے – بلا ل احمد بٹ )
اُف !چراغ زندگی یوں بھی بجھائے جاتے ہیں
عورتیں بچے جواں بوڑھے جلائے جاتے ہیں
(برما)
آزادی کے بعد ہندستان میں فرقہ ورانہ فساد ات کاایک ایساسلسلہ شروع ہواجوختم ہونے کانام ہی نہیں لے رہاہے۔فسادات سے اب تک بیشمارجانی ومالی نقصان ہوئے ہیں ۔اس نے جانے کتنے شادوآبادعلاقوں کو بنجر و ویران کردیا نہ جانے کتنے لوگوں کو موت کی ابدی نیند سلادیاپھربھی انسان اس سے سبق لینے کے بجائے اسے مزیدہوادے رہاہے۔سیاسی رہنمااس کے بھیانک نتائج سے واقف ہونے کے باوجوداس کوسیاسی آلہ کے طورپراستعمال کرتے ہیں اورشیطانی جال میں مسلسل پھنستے اورالجھتے جارہے ہیں۔ یہ لوگ وقتی فائدے کے عوض دائمی تباہی وبربادی کاسوداکررہے ہیں۔عوام ان کی شطرنجی چال میں ایسی گھری ہوئی ہے کہ اس سے نکلنے کی اسے کوئی سبیل نظرنہیں آرہی ہے۔ نیازجیراج پوری نے اس پورے سیاسی کھیل اور اس کے مضراثرات کوعوام کی ذہنی ونفسیاتی کیفیات کے توسط سے اپنی کئی نظموں مثلاً،ان دنوں ،سلسلہ ،گجرات ،تخاطب ،آخری خط،کالی یادیں،ماب لنچنگ ،ہے رام جی !،میںبڑی فنی چابکدستی سے پیش کیاہے ۔ انھوں نے خونی فسادات کوایساشعری پیکرعطاکیاہے کہ واقعات کی سنگینی مزیدتہہ دار ہوگئی ہے ۔ان نظموں میں بھی ان کے اشعار حالات سے بیزاری کے بجائے سلیقے اوربرداشت کی ایک صورت لیے ہوئے ہیں ۔یہی دراصل نیازجیراج پوری کی نظم نگاری کاسب سے نمایاں ترین وصف ہے جو انھیں اپنے عہد کے دیگرشعرائ سے ممیز وممتازبناتاہے۔
نیازجیراج پوری کوفطری مناظراوردہقانی تہذیب وتمدن سے ایک خاص تعلق ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں قدرتی مناظر، کھیت کھلیان ،عوامی زندگی ،ہندستانی رسم ورواج ،تیج تیوہاراوردہقانی معاشرہ پوری آب وتاب کے ساتھ رواں دواں ،چمکتا دمکتا، اچھلتاکودتا،مچلتا او ر لہراتانظرآتاہے۔گاؤں میں ،گاؤں آئے ہوتو،کچے مکان والے،دیوالی ،عید کے دن ،ہولی،تحفۂ عید ،رنگ ہولی کے ، ہولی کے بعد اور دیپاولی میں دیہاتی تہذیب ومعاشرت ،رسم ورواج ،تیج تیوہاراورمیلوں ٹھیلوں کابیان اپنے منفرداورمخصوص اسلوب میں بڑے ہی پرلطف اوردلچسپ اندازمیںکیاہے۔نیازجیراج پوری کی یہ نظمیں نظیراکبرآبادی کی نظموں کی یاد ہ تازہ کرادیتی ہیں ۔وہی انداز،وہی رنگ لیکن اسلوب جداگانہ ہے۔
نیازجیراج پوری کی نظموں میں موضوعات کی رنگارنگی دیکھنے کوملتی ہے۔انھوں نے اکیسویں صدی کے ان تمام چھوٹے بڑے موضوعات ومسائل کو اپنی نظموں میں پیش کیاہے جس سے آج کاانسان نبرد آزماہ ے۔کورونا وائرس کی عالمی وبائی بیماری نے قومی وبین الاقوامی سطح پرانسانی زندگی کے ہرشعبہ کوجس شدت کے ساتھ متأ ثرکیاہے اس کی مثال اس سے قبل کی صدی میں ملنا مشکل ہے۔اس سے معاشی بدحالی،سیاسی افراتفری ،سماجی اوراخلاقی انحطاط کاایک ایسادورشروع ہواجس نے انسانوں کے اندر لاچاری ،مجبوری ،مایوسی اورتنہائی کے رویے کوجنم دیالیکن نیازجیراج پوری کاکمال یہ ہے کہ وہ ہجوم یاس میں بھی گردش مدام سے دل برداشتہ نہ ہوئے بلکہ ایک اولوالعزم،حساس،باہمت ،باذوق اورصابروشاکرشاعرکی حیثیت سے ان تمام مسائل اورانسان کی داخلی وخارجی اورذہنی ونفسیاتی کیفیات کونظم کے پیرائے میں جس خوش اسلوبی سے پیش کیاہے وہ ہماری تہذیب وثقافت اورادب کااعلیٰ نمونہ ہے۔
ڈاکٹرابراراحمد
اسسٹنٹ پروفیسر،شعبۂ اردو،عربی وفارسی
پوناکالج آف آرٹس ،سائنس اینڈ کامرس،پونے
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
| ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ | 

