انسانی زندگی میں خواب کا ہونا عین فطرت ہے۔خواب دیکھنا ضروری اس لئے بھی ہے کہ بغیر خواب دیکھے اس کی تعبیر نہیں ہوسکتی۔پہلا مرحلہ خواب دیکھنا ہی ہوتا ہے۔خواب زندگی کے رگوں میں بہنے والا خون ہے یہ رک جائے تو زندگی رک جائے۔خواب دیکھنا تو آپ نے سنا ہوگا خواب بیچنا یقیناً ایک انوکھا احساس ہے ایسے ہی ایک انوکھے احساس کا شاعر نذر محمد راشد کی شخصیت ہے جس نےاپنے خوابوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور جیسا دیکھا ویسا پیش کردیا بغیر اس کی پرواہ کئے کہ لوگ روایت شکن کہیں گے۔روایتی طرز اظہار سے الگ ایک منفرد طریقہ اظہار پیش کیا جو انکے افکار کی طرح بالکل نیا تھا۔عرض خدمت ہے کہ شاعر کسی مخصوص قاعدے میں مقید نہیں ہوتا نہ ہی وہ کسی مخصوص نظرئے کا ادب پیش کرتا ہے،شاعر بس ایک شاعر ہوتا ہے اور اسے اور کچھ ہونے کے قبل ایک شاعر ہونا ہوتا ہے۔ن م راشد منفرد لہجے کے جدید نظم گو شاعر ہیں انہوں نے اپنی شاعری میں پیام دینے سے ذیادہ اس بات پر زور دیا کہ لوگ سوچیں ویسا جیسا وہ سوچتا ہے ایک بار اس کے کیمرے سے لی گئی ان تصویروں کو دیکھے۔ان کے اسی کیمرے کی ایک تصویر ان کی نظم” اندھا کباڑی” ہے۔
اندھا کباڑی شب و روز شہر میں بکھرے خوابوں کو اکٹھا کرتا ہے یہ وہ خواب ہیں جن سے شہر کے لوگ نا آشنا ہیں وہ ان خوابوں کو اپنے دل کی بھٹی میں تپانا چاہتا ہے تاکہ اس پر جمے گرد صاف ہو جائیں اور وہ انہیں دولہوں کی طرح سنوارنا چاہتا ہے تاکہ وہ جاذب نظر اور پر کشش ہو سکیں اور لوگوں کا دھیان اپنی طرف متوجہ کر سکیں۔ان بکھرے ہوئے اور بھٹکتے خوابوں کو پھر ان کا صحیح سمت مل سکے ان کا نامکمل وجود مکمل ہوجائے۔
معمول کے مطابق وہ ان خوابوں کو لے جاکر بزار میں بیچتا ہے مگر لوگ ان خوابوں کی جراحی شروع کر دیتے ہیں اور ان خوابوں کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔انہیں اصلی اور نقلی کی بڑی تمیز ہوتی ہے شاعر کا لہجہ یہاں طنزیہ ہے سچ ہے کہ عام لوگ خواب کو نہیں سمجھ پاتیں،شاعر اس زمرے میں خود کو بھی رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ بھی ان خوابوں سے بہ خوبی واقف نہیں ہے،وہ خواب گر نہیں مگر صورت گر ثانی ضرور ہے ۔ان خوابوں کے سہارے ہی اس کے زیست کی گاڑی رواں دواں ہے۔اصلی خواب نقلی خواب کی بحث سے حاصل کچھ نہیں ہوتا مگر شام ہو جاتی ہے اور شام ہوتے ہی کباڑی کا تیور بدل جاتا ہے وہ جمع شدہ پا شکستہ سر بریدہ خوابوں جسے وہ سونے کے خواب سے تعبیر دیتا ہے، مفت میں دینے کی صدا لگاتا ہے پر ہائے رے قسمت ! اس بار لوگ اور ذیادہ محتاط نظر آتے ہیں انہیں محسوس ہوتا ہے کہ اس مفاد پرست دنیا میں کوئی مفت میں درد کے سوا کچھ نہیں دے سکتا ہے تو یہ شخص مفت میں ان خوابوں کو کیوں دے رہا ہے؟انہیں اس بات کا بھی خوف ستاتا ہے کہ کہیں کوئی دھوکہ نہ ہو کہیں یہ خواب گھر جاکر ٹوٹ نہ جائیں،کہیں برف کی مانند یہ خواب پگھل نہ جائے کہیں وہ اس کباڑی کی سحر کا شکار نہ ہو جائیں لہذا وہ اس نابینا (جس کی آنکھیں وہ دیکھ پاتی ہیں جو آنکھ والوں کو دکھائی نہیں دیتی) کے خواب کو بے کار چیز سمجھ کر اسے لینے سے کتراتے ہیں اور وہاں سے چلے جاتے ہیں۔کباڑی اپنے بکھرے خوابوں کی دکان سمیٹتا ہے اور گھر مایوسی ہاتھ لئے آتا ہے پر اس کے خواب بیچنے کا جنون اب بھی متحرک ہے وہ خواب کو اب بھی بیچنے پر آمادہ دکھائی دیتا ہے اس بار وہ ان خوابوں کی قیمت بھی دینے کو تیار ہے اور رات کو یہی بڑ اڑاتا رہتا ہے ۔”خواب لے لو، خواب/میرے خواب/خواب میرے خواب/خواب/ان کے دام بھی۔
کباڑی نابینا ہوتے ہوئے وہ ان خوابوں کو دیکھتا ہے اس کے پاس گہری بصیرت ہے مگر آنکھ والے نہ معلوم کس فلسفے کی پٹی اپنے آنکھوں پر چڑھائے ہوئے ہیں۔
انگریزی مصنف Ruskin Bond نے اپنی کہانی The Eyes Have It میں لکھا ہے
"it often happens that people with good eyesight fail to see what is right in front of them. They have too much to take in, I suppose. Whereas people who cannot see (or see very little) have to take in only the essentials, whatever registers tellingly on their remaining senses. "
ن م راشد کی اس نظم کے مخاطبین وہی آنکھ والے لوگ ہیں جو اس کے خواب کو نہیں دیکھ پاتیں۔شاعر کی بے بسی اس وقت انتہا کو پہنچ جاتی ہے جب وہ اپنے خوابوں کو مفت دینے کی صدا لگاتا ہے پھر اس کے بعد ایک شکست خوردہ احساس اس وقت دکھائی دیتا ہے جب شاعر ان خوابوں کے دام تک خود ادا کرنے کو تیار ہوجاتا ہے۔اس نظم میں ایک شکستگی کا احساس ہوتا ہے۔پہلے شاعر کا شہروں کے خواب بٹورنا،چوک پر صدا لگا کر بیچنا پھر مفت بیچنا اور پھر خواب خریدنے کے لئے خود ہی پیسے بھی دینا،شاعر کی بے بسی و ناچاری کو بھی پیش کرتا ہے پر رات کو خواب لےلو ،خواب لے لو بڑ بڑانا اس کے غیر مفتوح جذبے کو بھی پیش کرتا ہے کہ شاعر کسی صورت خوابوں کی سوداگری کو ترک نہیں کرسکتا،اکثر نیند میں لوگ وہی بڑ بڑاتے ہیں جس قسم کی مصروفیات میں وہ مشغول رہتے ہیں۔
شاعر زمانے کی روایت کی پاسداری بہت کم ہی کرتا ہے،وہ بھی تو ایک کھلونے والا ہوتا ہے جس کے تھیلے میں مختلف قسم کے کھلونے ہوتے ہیں جن کو وہ اپنے ہاتھوں سے بناتا ہے اپنے مطابق اس کے رنگ و روپ دیتا ہے یہ کھلونے وہ اپنے تجربے اور جذبات کی مٹی سے بناتا ہے ،اس کے تھیلے میں ایک جہاں بستا ہے کچھ لوگ اس کے ہاتھوں کے کھلونے کو ہاتھوں ہاتھ لیتےہیں تو کوئی اس کے کھلونے کو ٹھوکر بھی لگا دیتا ہے پھر بھی وہ نہ کھلونے بنانا بند کرتا ہے اور نہ کھلونے بیچنا کیونکہ کھلونے بنانا اور بیچنا اس کی معیشت سے ذیادہ جنون ہوتا ہے۔
ن م راشد کی نظموں میں تشبیہات و استعارات کا استعمال بہت ملتا ہے مگر ان تشبیہات و استعارات کو روایتی طریقے سے نہیں بلکہ اپنی تخلیقی ذہن سے منفرد طریقے سے استعمال کرتے ہیں اس لئے ان کی نظموں میں بات آسانی سے نہیں کھلتی،ذہنی مشقت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس نظم میں خوابوں کاpersonification
بھی ملتا ہے جو نظم کی دلکشی کو مذید بڑھا دیتا ہے۔
کہ ان کو جمع کرلوں
دل کی بھٹی میں تپاؤں
جس سے چھٹ جائے پرانا میل
ان کے دست و پا بھر سے ابھر آئیں
چمک اٹھیں لب و رخسار و گردن
جیسے نو آراستہ دولہوں کی دل کی حسرتیں
پھر سے ان خوابوں کو سمت راہ ملے!
ن م راشد کی نمائندہ نظموں میں یہ نظم "اندھا کباڑی”ان کا قاری سے نہایت ہی خوبصورت تعارف کراتا ہے۔
نسیم اشک
ہولڈنگ نمبر10/9گلی نمبر3
جگتدل 24 پرگنہ مغربی بنگال
فون۔9339966398
e-mail : nasimashk78@gmail.com
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
| ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page


1 comment
بہت عمدہ۔۔۔۔بہت خُوب۔۔۔۔ماشاء اللّٰہ آپکو مزید لکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔۔۔