صادقہ نواب سحرایوانِ ادب میں مابعد جدید عہد کے تناظر میں ایک اہم اور فعال تخلیق کار ہیں ،اب تک ان کے کئی شعری اور افسانوی مجموعے ،طبع زاد ڈراموں کا ایک مجموعہ او ر تین ناول شائع ہوچکے ہیں ۔ اس کے علاوہ بچوں کی نظموں پر مشتمل ایک کتاب ’’ پھول سے پیارے جگنو‘‘ بھی ۲۰۰۳ میں شائع ہوچکی ہے ۔یہی نہیں ان کی متعدد کتابیں دیوناگری لپی میں بھی منتقل ہوکر ہندی قارئین کے ایک وسیع حلقے تک رسائی حاصل کر چکی ہیں ۔ اس طرح دیکھیں تو صادقہ نواب سحرکی ادبی اور تخلیقی شناخت کئی جہتوں میں منعکس ہوتی ہے۔ ان کی ادبی اور تخلیقی خدمات کے اعتراف میں انہیں متعدد انعامات سے بھی سرفراز کیا جا چکا ہے ۔ اس کے علاوہ مہاراشٹر کی درسی کتابوں کے نصاب میں بھی ان کی کئی تخلیقات کو شامل کیا گیا ہے ۔
اب تک صادقہ نواب سحر کے تین ناول شائع ہو چکے ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ ان کے پہلے ناول ’’ کہانی کوئی سناؤ متاشا‘‘پر ادب کے سنجیدہ حلقوں میں خاصی گفتگو ہوئی تھی جس کی بازگشت اب بھی سنائی دیتی ہے ۔ مرد اساس معاشرے میں عورت پر ہونے والے ظلم واستبداد، اس کی زبوں حالی اور نفسیاتی و معاشرتی مسائل نیز جنسی استحصال کو مرکز میں رکھ کراس ناول کی بافت کی گئی ہے ۔ان کا دوسرا ناول ’’ جس دن سے ‘‘ سماجی مسائل و مصائب اور انسانی رشتوں کے مختلف شیڈس اور معاشرتی نشیب و فراز کو موضوع بنا کر لکھا گیا ناول ہے ۔ اس ناول کو بھی ادبی حلقوں میں خاطر خواہ پیرائی حاصل ہوئی تھی ۔
’’ راجدیو کی امرائی‘‘صادقہ نواب سحر کا تیسرا ناول ہے جو ۲۰۱۹ میں شائع ہوا ہے ۔ یہ ناول بھی ان کے گزشتہ ناولوں کی طرح اپنے پلاٹ ،مرکزی خیال، کرداروں اور ٹریٹمنٹ کے اعتبار سے خاصا منفردہے اور مصنفہ کے پہلے دو ناولوں کے مقابلے زیادہ توجہ طلب ہے ۔ یہ ناول خاندانی رشتوں کے درمیان کشمکش،خودغرضی اور تشکیک کی دھند کے درمیان اپنا سفر طے کرتا ہے ۔ناول کی کہانی چپلون کے ایک چھوٹے سے گاؤں شیتر پرشو رام کے پنڈت رام داس جوشی کے گھاس پھونس کے ایک معمولی اور چھوٹے سے گھر سے شروع ہوتی ہے جوپنڈتائی کا کام کرکے تنگدستی اور مفلسی میں کسی طرح اپنے بال بچوں کی پرورش کرتے ہیں ۔ان کا بیٹا لکشمن معمولی سی تعلیم حاصل کر کے بڑی جد وجہد کے بعد کلکتے میں ریلوے میں کلرک کی نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے مگرمحکمے میں ترقی کرتے کرتے مغربی ریلوے کا چیف بن جاتا ہے ۔اس طرح مالی آسودگی اورزندگی میں آسانیوں کے درمیان لکشمن اپنے بڑے بیٹے راگھو کو ایم بی بی ایس تک تعلیم دلواتا ہے جب کہ چھوٹا بیٹا بھاویش اپنی لا ابالی طبیعت اور غیر سنجیدہ مزاج کے سبب زیادہ تعلیم حاصل نہیں کر پاتا۔لکشمن اپنی مرضی سے ملازمت سے ریٹائرمنٹ لے کر واپس اپنے گاؤں میں بس جاتا ہے اور بڑے بیٹے ڈاکٹر راگھو کے لئے چپلون میں ایک ڈسپنسری اور چھوٹے بیٹے بھاویش کے لئے کیمسٹ کی ایک دوکان کھلوا دیتا ہے، اس طرح دونوں بھائیوں کی زندگی آرام سے گزرنے لگتی ہے ۔یہاں سے لکشمن اور اس کے دونوں بیٹوں کی زندگیوں میں آسانیوں کا دور شروع ہوتا ہے ۔
ناول کی کہانی بظاہر ایک بے حد عام سے متوسط خاندان کے افراد کی جدو جہد اور ان کی زندگیوں کے نشیب و فراز کے ارد گرد گھومتی ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس کہانی میں کئی بار ایسے موڑ بھی آتے ہیں جہاں اس کے کردار آپس میں گہری قربت کے باوجود ایک دوسرے پر عدم اعتماد ، خود غرضی اور تشکیک کے مرض میں مبتلا نظر آتے ہیں ۔ یہ کہانی تقسیمِ وطن کے آس پاس شروع ہوتی ہے اور کئی نسلوں تک سفر کرتی ہے اور اپنی جڑوں اور مٹی سے وابستگی کا احساس دلاتی ہے ۔ محدود کرداروں کے باوجود، چار نسلوں کے دورانیے پر مشتمل یہ ناول اپنے مؤثر بیانیہ، جیات نگاری اور ذیلی عنوانات کی شمولیت کے سبب قارئین پر نہ صرف آسانی سے کھلتی چلی جاتی ہے بلکہ ایک بہت بڑے کینوس پر زندگی کے مختلف رنگوں اور موسموں سے نئی عبارت تحریر کرتی نظر آتی ہے ۔اس کہانی میںعورت اور مرد اور نسلوں کی سوچوں اور وژن کے درمیان موجود فرق کو نہایت خوش اسلوبی سے بیان کیا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر نوکری سے اپنی مرضی سے سبکدوش ہو کر لکشمن، اپنی مٹی سے جذباتی اور ذہنی وابستگی کے سبب اپنے آبائی گائوں شیتر پرشو رام واپس لوٹ آتا ہے مگر اس کی بیوی گھاس پھونس کے چھپر کی جگہ ٹین کا چھت ڈالنے کی خواہش کرتی ہے جب کہ لکشمن کے بچپن کی تمام کھٹی میٹھی یادیں اپنے اجداد کے اسی گھر سے وابستہ ہیں ۔ گھر میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کرنے میں اس کا دل تڑپ جاتا ہے مگر وہ بیوی کی خوشی کے لئے اس کی خواہش پوری کر دیتا ہے ۔اس طرح لکشمن کو ناول میں ایک رحم دل اور خدا ترس کردار کے طور پر نہایت عمدگی سے تراشا گیا ہے ۔اس کی یہی عادات و خصلت اس کے دونوں بچوں یعنی ڈاکٹرراگھو اور بھاویش میں بھی نظر آتی ہیں ، جو سب کی مدد کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ذیابیطس جیسے موذی مرض کے نتیجے میں لکشمن کا ایک ہاتھ کاٹنا پڑتا ہے۔ اپنے بیٹے بھاویش کی لاابالی پن، لاپرواہی اور غیر سنجیدہ طبیعت کے سبب لکشمن اپنی موت کے وقت بڑے بیٹے ڈاکٹر راگھو سے وعدہ لیتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے چھوٹے بھائی بھاویش کا ہر طرح سے خیال رکھے گا ۔ناول کی کہانی کے مطابق باپ کو دیے گئے وچن کو راگھو ساری زندگی نبھاتا ہے ۔
بھاویش کی مقامی سیاست میں دلچسپی، حد سے زیادہ شراب اور سگرٹ نوشی اور دوکان کے نوکروں پر غیر ضروری بھروسے کی وجہ سے وہ کاروبار کی طرف سے لاپرواہ ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں اسے بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور بھاویش ایک بار پھر تنگ دستی اور مفلوک الحالی کے غار میںجا گرتا ہے ۔ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے اور ان کے تعلیم کے اخراجات پورے کرنے کے لئے وہ ٹیوشن کر لیتا ہے اور آخر کار ایک دن اپنے دونوںمعصوم بچوں اور بیوی سرسوتی کو چھوڑ کر پر لوک سدھار جاتا ہے۔انتم سنسکار کے بعد ڈاکٹر راگھو، بھاویش کی پتنی اور تینوں نابالغ بچوں کی پرورش اور ان کی تعلیم کے لئے اپنے بنگلے پر لے جاتا ہے ۔اس طرح اپنے والد لکشمن کو دیے گئے وچن کی پاس داری کرنے میں کامیاب ٹہرتا ہے ۔
ناول ’’راجدیو کی امرائی‘‘ اپنے شاندار بیانیہ اور مربوط واقعات کے سبب ہماری تہذیبی اور معاشرتی شعور وفکر اور انسانی رشتوں کی کشمکش کے المیے کو بیان کرنے میں پوری طرح کامیاب ہے ،جس کے لئے صادقہ نواب سحر قابلِ مبارکباد ہیں ۔اپنے گزشتہ دونوں ناولوں سے الک ایک نیا فکری کینوس اور ٹریٹمنٹ اس ناول کو قابلِ مطالعہ اورلائقِ ِ توجہ بناتاہے ۔ناول کی کہانی اپنے مرکزی کردار راجدیو کی جدوجہد ِ زندگی سے لے کر آسانیوں اور آسائشوں تک کے سفر میں کئی نشیب و فراز سے گزرتی ہے ۔اپنے والد کی موت کے بعدتینوں بیٹے اپنی ماں سرسوتی کے ساتھ ڈکٹر راگھو کے بنگلے میں شفٹ ہو جاتے ہیں اور پھر شروع ہوتا ہے راجدیو کی جدو جہد کا سفر۔وہ بی ایس سی کرتا ہے، گلاس بلوئنگ کے کورس میں ڈپلوما حاصل کرتا ہے اس کے بعد ایم ایس سی کی ڈگری بھی لیتا ہے اوراپنے بڑے پاپا یعنی ڈاکٹر راگھو کے پونہ میں خریدے گئے پلاٹ پر بنے گیراج کو ورکشاپ بناکر چھوٹا موٹا کام کرتا ہے اس کے ساتھ ہی گروارے کالج میں کیمسٹری کے لیب اٹینڈنٹ کی پوسٹ پر نوکری بھی کرتا ہے ، اس کے علاوہ انجمن خیرالاسلام سوسائٹی کے زیرِ انتظام چلنے والے آرٹس اینڈ کامرس کالج میں جغرافیہ کے استاد کے طور پر بھی اپنی خدمات انجام دیتا ۔اس طرح راجدیو صبح سے شام تک اپنی ماں اور بھائیوں کی آسودگی کی خاطر مسلسل مصروفِ عمل رہتا ہے ۔حالانکہ اس کے بڑے پاپا تینوںبھائیوں کا بڑا خیال رکھتے ہیںان کی تعلیم و تربیت کے تمام اخراجات بھی برداشت کرتے ہیںمگر راجدیو جلد سے جلد اپنے طور پر دن رات محنت کر کے اپنے پیروں پر کھڑا ہوناچاہتا ہے ۔
اسی دوران راجدیو کے کالج میں تعلیم حاصل کرنے والی معمولی شکل و صورت والی ایک طالبہ اونتیکا سے راجدیو کی قربت ہو جاتی ہے اور پھر شادی بھی طے ہو جاتی ہے ۔شادی سے پہلے ڈاکٹر راگھو کو لقو ہ مار جاتا ہے پھر وہ کوما میں چلے جاتے ہیں اور پھر وہ پر لوک سدھار جاتے ہیں ۔ڈاکٹر راگھو کی پتنی یعنی کاکی اپنے پتی کی موت کے بعد طے شدہ تاریخ پر ہی راجدیو کی شادی بڑی سادگی سے کرنیکا فیصلہ کرتی ہے ۔اس طرح راجدیو کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوگیا ۔اس نے اونتیکا کا داخلہ گھر کے کئی افرادکے نہ چاہنے کے باوجود بی ایس سی میں کروادیا۔ راجدیو کسی بھی قیمت پر اپنی فیملی کے مستقبل کو تبناک دیکھنا چاہتا تھا ۔اس ناول میں کاکی یعنی ڈاکٹر راگھو کی بیوی کے کردار کو ایک تیز طرار اور مظبوط ارادے والی عورت کے روپ میں تراشا گیا ہے۔ وہ بچوں کے ساتھ کیرم اور رمی کھیلتی،بڑے گھرانوں کی عورتوں کی پارٹیوں میں شامل ہوتی،گھر کے سارے افراد بشمول سرسوتی پر پورا کنٹرول رکھتی اور گھر کے سارے فیصلے خودلیتی ہے جسے گھر کے سارے افراد کو قبول کرنا پڑتا۔شادی کے تھوڑے دنوں بعد ہی کاکی نے فیصلہ صادر کر دیا کہ راجدیو اپنی فیملی کو لے ہمارے ساتھ نہیں بلکہ علاحدہ گھر میں رہے گا ۔دراصل کاکی راجدیو کو خود پر منحصر رکھنا نہیں چاہتی تھیںبلکہ ان کی خواہش تھی کہ راجدیو جلد سے جلد خود کفیل ہو جائے،جس کا ثبوت ناول میں ا ن کا یہ مکالمہ ہے کہ ’’ گھنے پیڑ کے سائے میں رہے گا تو پودا آکاش کیسے دیکھے گا۔ اس کے بعد راجدیو کروے روڈ پر گروارے کالج کے سامنے ایک چھوٹے سے کرائے کے گھر میں اونتیکا کے ساتھ منتقل ہو جاتا ہے ۔
اونتیکا کے ساتھ راجدیو کی زندگی کے شب و روز گزرنے لگے ۔اس کا بھائی کرن بھائو ایم بی بی ایس ڈاکٹر بن گیا ،ویر بھائو نے ڈینٹل کالج میں داخلہ لے لیا ۔راجدیو نے نوکری چھوڑ کر اپنا بزنس کرنے کا فیصلہ کیا ،بھوسری کے ایک دوست کے شیڈ میں ساڑھے تین سو فٹ کی جگہ میں کیمیکل فیکٹری کے لئے گلاس کی چیزیں بنانے کا کام شروع کیا ۔رفتہ رفتہ اسے بہت کام ملنا شروع ہو گیا اور اس کا گلاس بلوئنگ کا کام چل نکلا۔اب وہ پونے کے باہر کا کام بھی لینے لگاجس کے نتیجے میں راجدیو مالی طور پر آسودہ اور خوش حال ہو گیا۔اس نے اپنے گائوں شیتر پرشو رام میں تین ایکڑ ززمین پر مشتمل آموں کا ایک باغ خرید لیا اس طرح راجدیو کا اپنے آبائی گائوں سے رشتہ اور مظبوط ہوگیا ۔اونتیکا نے گھر جنت کی تعمیر میں اہم رول ادا کیا ، اس نے امبرائیڈری اور فوٹو گرافی کا کورس کر ڈالا اس کے بعد اکائونٹس کا بھی کورس کر لیا اس طرح وہ راجدیو کے بزنس اور انکم ٹیکس وغیرہ کے معاملات کو دیکھنے لگی اور بڑی خود اعتمادی کے ساتھ گھر کو گھر بنانے میں لگ گئی ۔اونتیکا اور راجدیو کے دونوں بیٹے اعلٰی تعلیم یافتہ ہو گئے ، بڑا بیٹا کشل ایم بی بی ایس ڈاکٹر بن گیا جب کہ چھوٹا بیٹا موہت آرکیٹکٹ بن گیا ۔اب کسی بھی متوسط طبقے کے ایک فرد کو زندگی میں اس سے زیادہ اور کیا حاصل ہو سکتا ہے ۔ اب اس کا منجھلا بھائی کرن بھی ایم ایس تک کی تعلیم حاصل کر کے آپریشن کرنے لگا تھا۔راجدیو کا بزنس بھی اب رفتار پکڑ گیا تھا ۔مالی آسودگی اور خوش حالی کے سبب راجدیو نے اپنے اور اونتیکا کے نام کئی جائیدادیں خرید لیں ۔منجھلے بھائی کرن اور چھوٹے بھائی ویر کی شادیاں ہوگئیں اور انہوںنے اپنے علاحدہ مکان خرید لئے ، ماںسرسوتی کبھی کرن کے ساتھ رہتی کبھی ویر کے ساتھ ۔ راجدیو نے اپنے دونوں بھائیوں کو سیٹل کرنے میں اخلاقی اور مالی ہر اعتبار سے مدد کی اور اس طرح باپ کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا۔ ( یہ بھی پڑھیں کہانی کوئی سناؤ، متاشا :صادقہ نواب سحر کا ایک مونولاگ ناول – ڈاکٹر سلمان فیصل )
ناول کے کرداروں کو تراشتے وقت صادقہ نواب سحر نے انسان کی فطرت اس کی عادات و خصلت اور بشری کمزوریوں کا پورا خیال رکھا ہے جسکا ثبوت یہ ہے کہ کاکی یعنی ڈاکٹر راگھو کی پتنی کا کردار بظاہر سخت نظر آتا ہے مگر وہ اندر سے نرم دل ، خدا ترس اور انسانوں سے محبت کرنیوالی خاتون تھیں کیونکہ ان کی موت کے بعد جب ان کی وصیت پڑھی گئی تو کالج کھولنے کے لئے مالی مدد اور ذہنی مریضوں کے اسپتال کے لئے چندے کے علاوہ راجدیو ، کرن اور ویر کے لئے ان کی پراپرٹی میں سے کچھ نہ کچھ حصہ رکھا گیا تھا ، جس سے کاکی کی نرم مزاجی کا انداہ لگایا جاسکتا ہے ۔
ادھر اونتیکا کے مزاج میں بھی تبدیلی کی آہٹ محسوس کی جانے لگی ، تنگ دستی کے دنوں میں راجدیو کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر چلنے والی اس کی دھرم پتنی اب خوش حالی اور آسودگی کے دنوں میں تبدیلی کے عمل سے گزر رہی تھی ،دراصل یہیں سے ناول میں ایک نیا موڑ آتا ہے ۔ گائوں میں اپنے کاموں کے لئے راجدیو کو تلسا اور کانو تلاٹھی پر انحصار کرنا پڑتااور کئی بار اسے تلسا کے ساتھ اکیلے میں وقت گزارنا پڑتاجس کے سبب تلسا سے راجدیوکی قربت بڑھنے لگتی ہے ۔تلسا اور کانو اس کے دونوں بیٹوں کی شادی میں بھی رشتہ داروں کی طرح شریک ہوتے ہیں ۔ اونتیکا آموں کے موسم میں بھی شیتر پرشو رام نہ جانے کے بہانے تراشنے لگی تھی ۔وہ گائوں کی زندگی سے بیزار نظر آنے لگی تھی ،گائوں کی گرمی ، بجلی نہ ہونے اور گائوں میں سہولتوں کے فقدان کا بہانہ کر کے راجدیو کے ساتھ گائوں نہیں جاتی تھی ۔یہی نہیں وہ راجدیو سے شیتر پرشو رام کے آموں کی امرائی اور دیگر جائیداد کو فروخت کر دینے کا بھی اصرار کرتی ۔راجدیو کے دونوں بیٹوں کی شادیاں ہو گئی تھیں اور وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے اور راجدیو اپنے بڑے فلیٹ میں پنے پریوار کے ساتھ رہائش پزیر تھا مگر اب راجدیو کی زندگی میں رفتہ رفتہ گرہن لگنا شروع ہو رہا تھا ۔جس کی کچھ مثالیں حسبِ ذیل ہیں
٭ اونتیکانے کہا کہ راجدیو کا کانو کی بیوی تلسا کے ساتھ کچھ لفڑا ہے ،یعنی ناجائز تعلقاتس
٭ راجدیو کو دل کا دورہ پڑا ، آپریشن کے لئے تین لاکھ روپیوں کی فوری ضرورت پڑی ،جس کے لئے راجدیو کو شو روم بیچنا پڑا
٭ اونتیکا آئوٹ ہائوس میں رہنے لگتی ہے ، آپریشن کے بعد راجدیو کو دیکھنے تک نہیں جاتی
٭ سانے واڑی میں ایک فلیٹ پنے ڈاکٹر بیٹے کشل اور اس کی بیوی کے نام پر لون کرواکر دیا، ڈائون پے منٹ خود کیا
ٍ ٭ کروے روڈ کے بڑے فلیٹ کو بیچنے کا مشورہ اونتیکانے دیا
٭ گائوں کی امرائی بھی بک گئی
٭ اونتیکا اور راجدیو کے درمیان بات چیت صرف ضرورت کے وقت ہی ہوتی تھی
٭ راجدیو کی ماں کی آنکھ کاآپریشن بڑی بہو نے کیا مگر لینس کے دس ہزار روپے مانگ لئے
٭ چپلون کی چالیس ایکڑ زمین بھی بیچ دی جس سے اونتیکا ناراض ہوئی ۔بیٹے کشل نے اسپتال کے رینوویشن کے لئے پچیس
لاکھ رروپے مانگ لئے ۔راجدیو نے پانچ لاکھ روپے دینے کی بات کی اور یاد دلایا کہ ہسپتال بناتے وقت سترہ لاکھ دیے،فلیٹ لیتے وقت ۱۰ لاکھ اور میڈیکل میں داخلے کے وقت ساڑھے تین لاکھ ڈونیشن دیے۔
٭ ایک دن اونتیکا راجدیو کو گھر میں آنے سے منع کر دیتی ہے اور دبائو بناتی ہے کہ کشل کو ہاسپٹل رینوویٹ کرنے کے لئے پیسے دو ، وہ راجدیو سے بات چیت بند کردیتی ہے ۔راجدیو کوفلیٹ چھوڑ کر گیراج میں بنے ورک شاپ میں شفٹ ہو نے پر مجبور ہونا پڑتاہے ۔
اس کے علاوہ بھی اور بہت ساری وجوہات اور بیوی بچوں کی خود غرضیاںتھیں جن کے سبب راجدیو اور بیوی بچوں کے رشتوں میں عدم اعتمادی ، تلخی اور دوری آنے لگی تھی ، اسی دوران راجدیو کی ماں بھی پرلوک سدھار گئیں ۔
پھر ایک دن بیٹے کشل نے پولس میں شکایت کردی کہ راجدیو اپنی بیوی کو ستاتا ہے اس کے بعد اونتیکا نے بھی کورٹ میں طلاق کے لئے کیس داخل کر دیا،بیٹے کشل نے بھی ماں کی طرف سے جھوٹی گواہی دی اور یہ ثابت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی کہ اس کا باپ غلط ہے اور ماں کی ہر بات سچ ہے۔اونتیکا نے بھی کورٹ میں بہت غلط بیانی کی اور کیس چلنے تک راجدیو کو ہر مہینہ سات ہزار روپے خرچ دینے کا آرڈر پاس کرا لیا اور آخر کار حتمی طور پر یہ بھتہ دس ہزار روپیے طے ہوا ۔اس طرح راجدیوا ور اونتیکا کے رشتوں کے نشیب و فراز اور عدم اعتمادکے درمیان سفر کرتی ہوئی یہ کہانی ناول کے اختتام تک بر قرار رہتی ہے ، حالانکہ ان کے درمیان صلح صفائی کی بھی بہت کوششیں ہوتی ہیں مگر سب بے سودثابت ہوتی ہیں۔ خود غرضیوں کی بنیاد پر قائم رشتوں میں استحکام کی تلاش کرنا ٹھیک نہیں ۔
ناول میں راجدیو کا کردار ایثار ور قربانی کے جذبے سے بھر ا ہوا ہے جو پنے والد کی موت کے بعد اپنے بھائیوں اور بچوں کی زندگی سنوارنے کے لئے دن رات محنت کرتا ہے انہیں اخلاقی اور مالی طور پر سپورٹ کرتا ہے مگر عمر کے آخری حصے میں اسے تنہائی ، بے یقینی اور رشتوں میں عدم اعتماد کی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ایک دن راجدیو پونہ چھوڑ کر چپلون شفٹ ہو جاتا ہے اس کی شگر بھی کنٹرول سے باہر ہو جاتی ہے یہاں تک کہ اس کا پیر کاٹنے کی بھی نوبت آجاتی ہے، مگر بھائی اور بیٹے کشل کی لاپرواہی اور لاتعلقی سے اسے گہرا دکھ پہنچتا ہے ۔اس کہانی کی جزیات نگاری سے ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ راجدیو کے پاس موجود دولت کو حاصل کرنے میں ناکام رہنے کے بعد اس کے بچے اور بیوی اس سے لاتعلق ہو جاتے ہیں ۔یہاں تک کہ اس کی بیوی اونتیکا بھی ذہنی اور جسمانی طور پر اس سے دور چلی جاتی ہے ۔اس کا وہ گھروندہ ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے جسے راجدیو نے تنکا تنکا جوڑ کر اور دن رات محنت کر کے تعمیر کیا تھا ۔زندگی کے ایک بڑے حصے میں زندگی سے جدو جہد ، پریشانیوں اور قربانیوں کے باوجود رشتوں کی ناقدری کرنے والی نئی نسل کی خود غرضی کو اس ناول میں بڑے سلیقے سے مصور کیا گیا ہے ۔ یہی شاید سائبر عہد میں ہمارے معاشرے کی اصل حقیقت اور المیہ ہے ۔جس نے تہذیب و تمدن کے جسم پر خراشیں ڈال دی ہیں ۔جسے بیان کرنے میں ناول نگار پوری طرح کامیاب ہے ۔ ( یہ بھی پڑھیں ’’راجدیو کی امرائی ‘‘ میں صادقہ کی سحر کاری – ڈاکٹر قسیم اختر )
اس ناول میں ایک اور بات جو بہت متاثر کرتی ہے کہ صادقہ نواب سحر نے چھوٹے چھوٹے واقعات اور جزیات کوبھی نہایت مربوط طریقے سے پیش کیا ہے اورکمالِ ہنر مندی سے کہانی کا حصہ بنا دیا ہے جس کے لئے وہ یقینی طور پر قابلِ مبارک باد ہیں ۔
saleem ansari
HIG-3 anand nagar
adhartal jabalpur9M.P) 482004
mob- 7070135643
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |