خواجہ حسن ثانی نظامی15 مئی 1931 ء کو شمس العلماء خواجہ حسن نظامی اور خواجہ محمودہ بانو نظامی کے یہاں پیدا ہوئے۔ وہ نجیب الطرفین تھے۔ ان کا سلسلہ نسب حضرت امام حسین ؓ سے ہوتا ہوا رسالت مآب ﷺ سے جا ملتا ہے اور نانہالی سلسلہ حضرت فریدالدین گنج شکر تک پہنچتا ہے۔ خواجہ حسن ثانی نظامی کی شخصیت کا احاطہ لفظوں میں نہیں کیا جاسکتا۔ وہ لامحدود صفات کے حامل تھے۔ وہ ایک مدبّر تھے، مبصّر تھے، مفکر تھے اور ایک عظیم درویش بھی تھے، ایک بہترین ادیب اور خطیب بھی تھے۔
خواجہ حسن ثانی نظامی ایسی خصوصیات کے حامل تھے جنھیں ان کے زمانے کے لوگ تو محسوس کریں گے ہی لیکن آنے والی نسلوں کواس بات کی کسک رہے گی کہ انھوںنے اس شخص کا دیدار نہیں کیا۔ خواجہ صاحب کی شخصیت کے مختلف پہلوہیں۔سچ بات یہ ہے کہ خواجہ حسن ثانی نظامی اپنے والد بزرگوار خواجہ حسن نظامی کا پرتو تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ خلقِ خدا کی علمی، دینی وروحانی خدمات میں گزارا۔ انھوں نے خود کوخدمت خلق میں اتنا محو کردیا کہ اپنی ذاتی زندگی بھی تنہائی میں گزاری۔ انھوں نے جس سادہ روی کے ساتھ زندگی گزاری وہ ان کے معاصرین اور آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
خواجہ حسن ثانی نظامیؒ نے ابتدائی تعلیم اپنے والدین سے حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ابتدائی درجوں سے لے کر اسلامیات میں بی۔اے تک کی تعلیم حاصل کی۔ ان کے والد ایک جید عالم اور صاحب طرز ادیب تھے اور والدہ ایک باکمال خاتون تھیں، جس کا اثر ان کی زندگی پر بہت گہرا پڑا اور انھیں بچپن ہی سے ادبی، ثقافتی اور روحانی فضا میں زندگی گزارنے کا موقع ملا۔ نتیجتاً انھیں بچپن ہی سے دہلی کی ادبی، تہذیبی، ثقافتی، روحانی، مذہبی رواداری اور قومی یکجہتی کی روایات سے ایسی محبت ہوئی کہ زندگی کی آخری سانس تک اس کے سچے امین رہے۔
وہ دو سال ذیابطیس اور امراض قلب کی تکالیف میں شدت سے مبتلا رہے اور اخیر میں دو مہینہ سخت علیل رہنے کے بعد 15 مارچ 2015 ء کو صبح سوا تین بجے اپنے گھر واقع بستی حضر ت خواجہ نظام الدین اولیاء میں ہمیسہ ہمیش کے لیے اپنے مالک حقیقی سے جا ملے اور خواجہ ہال میں واقع ان کے والد خواجہ حسن نظامی کے پہلو میں تدفین عمل میں آئی۔ان کے پسماندگان میں بھتیجے اور بھتیجیاں شامل ہیں۔ انھوں نے حضر ت خواجہ نظام الدین اولیاء کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شادی نہیں کی تھی۔ان کے انتقال سے دبستان دہلی کی قدیم رویت کا خاتمہ ہوگیا۔
خواجہ حسن ثانی نظامی ایک عظیم اہل قلم تھے۔ انھوں نے اپنی کتاب ’تصوف۔ رسم اور حقیقت‘ میں جس خوبی سے تصوف کے متعلق بحث کی ہے اس کی مثال ملنا ناممکن ہے۔ انھوں نے حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کے ملفوظات کے مجموعے ’فوائدالفواد‘ کا جیسا ترجمہ کیا ، یہ کسی عام آدمی کا کام نہیں، اس لیے کہ جو تصوف میں ڈوبا ہوا ہو وہی اس کی ترجمانی ایک زبان سے دوسری زبان میں کرسکتا ہے۔ فوائدالفواد کا ترجمہ پہلی بار انھوں نے کیا تو ان کی عمر محض اکیس سال تھی۔ پھر انھوں نے اس پر نظر ثانی کی اور تصحیح متن کا بھی خاص اہتمام کیا۔
خواجہ صاحب نے تصنیف وتالیف کی طرف شاید اتنی توجہ نہیں دی ورنہ آج ہمارے سامنے ایک بڑا سرمایہ ہوتا، پھر بھی انھوں نے جو کچھ بھی لکھا وہ کتابی علم نہیں بلکہ بزرگوں کی صحبت کا نتیجہ ہے اور انھیں ورثے میں ملا ہے۔ ان تمام خوبیوں کو انھوں نے اپنی سلیس رواں ، خوبصورت اور پر اثر زبان میں ہم تک پہنچایا ۔ خواجہ حسن ثانی نظامی کی ادب سے دلچسپی کی ایک بڑی مثال عرس کی محفلوں کو سیمینار میں تبدیل کرنا ہے۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کا عرس ہو یا حضرت امیر خسرو ؒ کا انھوں نے علمی روایات کو پروان چڑھایا ہے۔ خواجہ حسن ثانی نظامیؒ نے انگریزوں کی علم دوستی کا نقشہ بہت خوبی کے ساتھ کھینچتے ہوئے برّ صغیر خاص طور پر ہند و پاک میں جس طرح علم اور کتب کی ناقدری ہے اس کا ذکر اس طرح کرتے ہیں:
’’۔۔۔ کچھ کتابیں اپنی کچھ باپ داداکی لکھی ہوئی موجود تھیں۔ میں نے سوچا ان پر تو کسٹم دینا ہی پڑے گا۔ اس لیے گرین چینل کے بجائے ریڈ چینل کی طرف گیا۔ ۔۔۔۔۔۔ ہندوستان میں دھرا ہی کیا ہے جو ساتھ لائے۔ اس طرح کی نیت تو کالے لوگ گورے ملکوں سے اپنے وطن پہنچنے پر کیا کرتے ہیں۔ جب میں بالکل قریب پہنچ گیا تو کسٹم والوں کا استعجاب زبان حال سے جیسے گویا بھی ہوگیا۔ ’’ویل جنٹلمین! کیا راستہ بھول گئے؟ یہ سوال صرف میرے دماغ اور تخیل کا پیداوار تھا۔ کسٹم والوں کے تو ہونٹ تک نہ ہلے تھے مگر خبر نہیں کیوں میں نے اس ’غیر موجود ‘ سوال کا جواب ’موجود‘ سوال کی طرح دے ڈالا: ’’کتابیں جو ہیں! کسٹم کیسے نہیں لگے گا! میں ڈبہّ کھلتا ہوں۔ آپ حساب لگائیے!‘‘ ان بے چاروں کو میری سادہ لوحی پر ہنسی آگئی۔ ’’بولے ہمارے ہاں کتابوں پر اور علم پر کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ جائیے! گرین چینل سے باہر جائیے۔‘‘ حضرت خواجہ حسن ثانی نظامی :شخصیت اور کارنامے، جلد دوم، صفحہ394
خواجہ حسن ثانی نظامی کے اکثر سفرناموں میں چھوٹی چھوٹی باتوں کا ذکر مل جاتا ہے۔ وہ ہر اس چیز کو بہت غور سے دیکھتے ہیں اور مشاہدہ کرتے ہیں جسے عام آدمی نظر انداز کردیتا ہے۔
خواجہ حسن ثانی نظامیؒ کی ایک ادیب کی حیثیت سے سب سے بڑا کارنامہ اپنے والد خواجہ حسن نظامی ؒکی اکثر کتابوں کوپھر سے شائع کرنا اور عوام الناس کو ان کی ادبی خدمات سے نہ صرف روشناس کرانا بلکہ مستفید ہونے کا موقع فراہم کرانا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو والد کی طرف سے ورثہ میں ملے ہوئے شاہکار ہماری نظروں سے اوجھل ہوتا۔ اگر ان کی کچھ نگارشات دستیاب بھی تھے تو وہ نہایت ہی برے ترجمے کے ساتھ دیو ناگری میں تھے۔
خواجہ حسن ثانی نظامی نے ’تصوف، رسم اور حقیقت‘ جیسی اہم کتاب تصوف کے حوالے سے لکھ کر تصوف کے متعلق لوگوں میں جو ایک ناپسندیدگی تھی اسے دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ تصوف سے متعلق بہت سے اہم مضامین بھی تحریر فرمائے۔’تصوف اور انسان دوستی‘مضمون میں انھوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ تصوف کے ذریعہ انسان خدمت خلق اور انسان دوستی کے تئیں زیادہ ذمہ دار ہوجاتا ہے۔خواجہ حسن ثانی نظامی اس مضمون میں لکھتے ہیں:
’’حضرت امیر خورد کرمانیؒ نے محبوب الہی ؒ کی زبانی یہ حدیث شریف بھی نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر دو آدمیوں میں محض اللہ تعالی کے لیے محبت ہو، ان میں سے ایک مشرق میں رہتا ہو اور دوسرا مغرب میں تو قیامت کے دن اللہ تعالی ان دونوں کو یکجا کرے گا اور اور فرمائے گا کہ تم دونوں کی یہ ملاقات اس محبت کی بنا پر ہے جو تم ایک دوسرے سے رکھتے تھے۔ اب تم ملاقات کرو کہ تمھاری یہ محبت ہماری وجہ سے تھی۔ صوفیا نے انسان کو کبھی حقیر اور غیر نہ جانا۔ ان کے سرگردہ حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ فرماتے تھے کہ ’’اے انسان تو اپنے آپ کو حقیر سمجھتا ہے؟ حالانکہ تجھ میں سب سے بڑا عالم پوشیدہ ہے۔ تو ہی وہ کتاب مبین ہے جس کے حروف سے اسرار ظاہر ہوتے ہیں۔ تو ہی عین وجود ہے اور جو کچھ تجھ میں ہے اس کا حصر نہیں کیا جاسکتا!‘‘ (منادی، جلد ۵۶،شمارہ ۱۲)
اس طرح خواجہ حسن ثانی نظامی نے اس مضمون میں انسان کی عظمت کا بخوبی ذکر کیا ہے۔ اسی مضمون میں انھوں نے حضرت بایزید بسطامی ؒ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک ایک شخص نے ان سے معرفت کا سبق چاہا۔ تو حضرت نے اسے لمبی چوڑی تقریر اور نصیحت کرنے کے بجائے کھانا کھلادیا۔اسی طرح دوسرے اور تیسرے دن بھی اس کی درخواست پر اس کے سامنے کھانا رکھ دیا جاتا۔ آخر تنگ آکر اس نے حضرت سے شکایت کی کہ میں معرفت چاہتا ہوں، اور آپ کھانا کھلاتے ہیں! آخر آپ معرفت سکھانے میں بخل کیوں کررہے ہیں؟حضرت نے مسکراکر جواب دیا کہ میاں! معرفت یہی ہے کہ خداکے بندوں کے سامنے کچھ رکھو اور ان کی دلداری کرو!
اسی طرح ان کے مضامین ’’عالم اور صوفی کی تفریق‘‘، ’’ہمارا تصوف‘‘، ’’تہذیب پر صوفی تحریک کا اثر‘‘، ’’تصوف اور روزہ‘‘، ہندوستانی مسلمانوں کے رسم ورواج پر تصوف اور بھکتی کے اثرات‘‘، اور’’ میرا مذہب‘‘ تصوف کو سمجھنے میں لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ( یہ بھی پڑھیں باقیات اختر الایمان: ایک جائزہ – ڈاکٹر نوشاد منظر)
خواجہ حسن ثانی نظامی اپنے مضمون ’’عالم اور صوفی کی تفریق‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’آج کل عام لوگ ہی نہیں بلکہ پڑھے لکھے خواص تک صوفی اور عالم میں تفریق کرتے ہیں بلکہ ایک دوسری کی ضد خیال کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے شریعت اور طریقت کے علیحدہ علیحدہ تصورات بھی پیدا ہوگئے ہیں حالانکہ بقول مفتی عتیق الرحمن صاحب وہ شخص عالم ہوہی نہیں سکتا جو صوفی نہ ہو اور اس شخص کو صوفی نہیں کہا ہی نہیں جاسکتا جو علم سے محروم ہو۔ اسی طرح شریعت اور طریقت بھی علیحدہ چیزیں نہیں بلکہ ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں۔‘‘ (منادی، جلد ۳۷، شمارہ ۴)
خواجہ حسن ثانی نظامی کے جانشین اور محبوب الہی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کی درگاہ کے سجادہ نشین خواجہ سید محمد نظامی کی زیر سرپرستی ’حضرت خواجہ حسن ثانی نظامی :شخصیت اور کارنامے‘‘ کے عنوان سے دو جلدوں میں کتاب مرتب کی گئی ہے۔ کتاب کی دوسری جلد میں ’نقوش دہلی‘ کے عنوان سے ایک باب ہے۔ اس باب میں ’’دلّی شاہجہاں آباد‘‘، ’’لال قلعے کی کہانی‘‘، دلّی کا چاندنی چوک‘‘، ’’دہلی کے دروازے‘‘، ’’دلی کے سات روپ‘‘، دہلی کے باغات‘‘، دلی۔ تصویر کے دونوں رخ‘‘، ’’غالب کے زمانے کی بستی حضرت نظام الدین‘‘، دہلی کے گاؤں‘‘، ’’میری دلی، نئی دہلی‘‘ جیسے نادر عنوانات کو شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے ریڈیائی تقاریر بھی ہیں جن میں انھوں نے دہلی میں پہلے روزے کے موقع پر کیسے دھوم دھام ہوا کرتی تھی اس کو ’’وہ روزے یاد آتے ہیں‘‘ کے عنوان سے ریڈیو پر تقریر پیش کی ۔ اسی طرح مختلف مذہبی موضوع پر انھوں نے تقاریر پیش کیے جس سے قدیم دہلی کی روایت کو جدید دہلی والوں کو روشناش ہونے کا موقع فراہم کیا۔
’’دلی شاہجہاں آباد‘‘ میں دلی سے لوگوں کا لگاؤ اور الفت کا ذکر بہت بہتر انداز میں کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’۱۸۵۷ء میں یہ شہر ویران ہوا تو بچے کھچے لوگ برسوں اس کا ذکر شہر آبادی کے نام سے کرتے رہے۔ اہلِ فن اور بڑے بڑے لوگ تو غدر کے بھاگڑ میں ہی نکل گئے تھے۔ رہے سہے دلی والے پیٹ کی خاطر مجبور ہو ئے کہ تلاش معاش میں باہر جائیں مگر یہ باہر جانے والے پلٹ پلٹ کر واپس بھی آتے رہے۔ ان میں سے کتنے ہی تھے جنھوں نے پیٹ پر پتھر باندھنا منظور کیا۔ شاہجہاں آباد کو چھوڑنا منظور نہ کیا۔ کہتے ہیں ایک دھوبی جس کو شاہجہاں آباد کی علمی ادبی فضا نے شاعر بنا دیا تھااپنی گٹھری مٹھری بیل گاڑی پر رکھ دکن کو چلا تو دلی دروازے سے باہر نکلتے ہی اس کا دل بھر آیا اور اس نے فی البدیہہ دلی کی تعریف میں کچھ شعر پڑھے اور آخر میں کہا:
اور گاڑی اپنی تو بھی میاں گاڑی بان پھیر
اب بھی پھرے نہ یاں سے تو قسمت کا جان پھیر
دلی سا شہر چھوڑ دکن کو نہ جائیں گے
پوری یہاں نہ کھائیں گے آدھی ہی کھائیں گے
چنانچہ شاہجہاںآباد والے آج تک آدھی روٹی کھاتے ہیں اور پیاری دلی کو آباد رکھتے ہیں۔‘‘ حضرت خواجہ حسن ثانی نظامی :شخصیت اور کارنامے، جلد دوم، صفحہ424
ایک مختصر سے مضمون میں جس طرح دہلی اور دہلی والوں کی چلتی پھرتی تصویر ہمارے سامنے پیش کردی ہے اس کی مثال ڈھونڈھنے سے شاید ملے۔ شاہجہاں کے زمانے میں دلی جس خوبی کے ساتھ بسائی گئی تھی اور تما ضروریات کو پورا کرتے ہوئے ماحولیات کو مڈنظر رکھا گیا تھاوہ شاہجہان کی دوراندیشی کا نتیجہ تھا۔اس کے متعلق لکھتے ہیں:
’’شاہجہاں کے زمانے میں ٹاؤن پلاننگ کی ڈگری تو شاید کسی مدرسے سے نہ ملتی ہوگی لیکن غور کیجیے تو ٹاؤن پلاننگ کا شاید کوئی اصول ایسا نہیں جس کا لحاظ اس شہر کی آبادی کے وقت نہ رکھا گیا ہو۔ چاروں طرف دور دور تک باغات تھے۔ بادشاہ نے پابندی لگائی تھی کہ کوئی عمارت دو منزل سے اونچی نہ بنے۔ صنعت وحرفت کو راجدھانی کے لیے غیر ضروری سمجھا گیا تھا۔اس کے لیے گائوں دیہات اور دلی سے باہر کے قصبے کافی تھے۔‘‘ حضرت خواجہ حسن ثانی نظامی :شخصیت اور کارنامے، جلد دوم، صفحہ426
’’لال قلعے کی کہانی‘‘ میں لال قلعہ کی شان وشوکت، شاہجہاں کے زمانے میں وہاں منائے جانے والے جشن کا ذکر بہت خوبی کے ساتھ کرتے ہیں اور لال قلعے میں محمد شاہ رنگیلے کے ذریعے ایک ان پڑھ گوییّ کو کسی صوبے کا گورنر نامزد کرنے پر وزیراعظم کا پریشان ہونا اورراس کے ذریعہ احتجاج کی صورت میں کئی سو سارنگیاں اور طبلے بنانے کاحکم دینے کا ذکر کرتے ہیں۔ اور آخر میں لال قلعے کی بے بسی کا ذکر کچھ اس طرح کرتے ہیں:
’’لال قلعہ کٹھ پتلی بادشاہوں کو تخت پر بیٹھتے اور اترتے دیکھتا رہا۔ شعر ونغمہ کی محفلیں اس کے سامنے سجیں۔ شراب وکباب کے دور اس کے درو دیوار کے روبرو چلے، سازشوں کی سرگوشیاں، بغاوتوں کے خفیہ مشورے،عشق ومحبت کے راز و نیاز، دربار کے ادب آداب ہر ایک کی بے شمار کہانیاں اس کے ایوانوں میں گونج رہی ہیں۔ لیکن جو کہانی لال قلعے میں سب سے زیادہ سنی جاتی ہے جس کا ہر وقت تذکرہ ہے، وہ ۱۸۵۷ء کی کہانی ہے۔ ۔۔۔۔ وہ دیکھیے بوڑھا بہادر شاہ گرفتار کرکے دوبارہ قلعے میں لایا جارہا ہے۔ اس کے سامنے مقتول شہزادوں کے سر خوان میں رکھ کر پیش کیے جارہے ہیں کہ یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا نذرانہ ہے جو بند ہوگیا تھا اور جس کے لیے آپ کوشاں تھے! اس کے جواب میں بوڑھا بادشاہ صرف یہ کہہ رہا ہے ’’تیمور کی اولاد باپ کے سامنے ہمیشہ سرخرو آتی ہے۔‘‘سننے والوں نے صرف بہادر شاہ ظفر کی آواز سنی ورنہ اس وقت قلعہ کی دیواریں یہ بھی پکار رہیں تھیں کہ شاعر اور اس کی اولاد نے صرف سرخ پتھر ہی سے نہیں بلکہ اپنے خون سے بھی اس قلعے کو اسم بامسمّٰی بنا دیاہے۔‘‘حضرت خواجہ حسن ثانی نظامی :شخصیت اور کارنامے، جلد دوم، صفحہ428
موجودہ دور میں دہلی کی جو صورت حال ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ آج دہلی میں ہوائی آلودگی جس سطح پرہے اس سے لوگوں کا جینا محال ہوگیاہے۔پہلے دہلی عالم میں ایک انتخاب جو تھی اس کی وجہ یہاں کی آب وہوا تھی جو کے یہاں کے باغات کے دم سے تھی۔ خواجہ حسن ثانی نظامی نے ’دہلی کے باغات‘ میں دہلی کے اکثر باغات کا ذکر کیا ہے۔ دہلی میں باغات کی کثرت کا ذکرخلیق احمد نظامی کے اس قول سے کرتے ہیں ’’فیروز شاہ تغلق کی باغوں سے خاص توجہ تھی۔ مشہور مورخ سراج عفیف کا بیان ہے کہ فیروز شاہ نے خود بارہ سو باغ دہلی کے قرب وجوار میں لگائے تھے اور ان باغات میں گل لعل وگل گل صدبرگ و گل کرنہ وسیوتی بھی ہوتے اور آم، انار، انگور، سیب، ترنج، انجیر اور لیموں بھی۔‘‘
’’غالب کے زمانے کی بستی حضرت نظام الدین اولیاءؒ‘‘ اس مضمون میں خواجہ حسن ثانی نظامی نے بستی حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی پوری تاریخ کو بہت خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ چونکہ ان کا تعلق اسی علاقے سے ہے لہٰذا اس مضمون کو بہت تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔اس باب کے آخر میں موجودہ دلی کو موضوع گفتگو بنایا ہے۔ ’’میری دلی۔ نئی دہلی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’دہلی ایک شہر نہیں بلکہ ایک دیوی ہے ۔ ان گنت اس کے پجاری، بے شمار اس کے پرستار! جس نے اس کا دیدار کیا ، درشن پاائے بس اسی کا ہوکر رہ گیا۔‘‘ اس کے بعد قدیم دہلوی روایت،لوگوں کی سادگی،شرافت اورچاندنی کا فرش،دسترخوان وغیرہ کے خاتمے پر افسوس کرتے ہوئے نئی دہلی یعنی موجودہ دہلی کانقشہ کچھ اس طرح کھینچتے ہیں:
’’چاندنی کے فرش، دسترخوان اور تھالی پیتل اب پرانے گھروں میں بھی خال خال ہیں۔ سب کی جگہ میز کرسی نے لے لی ہے۔ گھر چھوٹے اور آدمیوں کی وہ ریل پیل کی االلہ دے اور بندہ لے۔ سمائیں تو کہاں سمائیں۔ قبرستان اور مقبرے تک بے مصرف نہیں رہے ہیں۔منھ اندھیرے جاکر دیکھیے تو مردہ نیچے اور زندہ اوپر سوتا ہوا ملے گا۔ ضرورت کی ماں نے دعوتوں میں بفے سسٹم کو جنم دیا ہے اور بقول سید محمد جعفری مرحوم دلی والے اس کھڑے ڈنر کو غریب الدیار بنے ادھار کی طرح کھاتے ہیں۔ بفے کا طریقہ رائج تو ہو گیا ہے لیکن اکثریت اس کے آداب سے ناواقف ہے۔‘‘ حضرت خواجہ حسن ثانی نظامی :شخصیت اور کارنامے، جلد دوم، صفحہ462
خواجہ حسن ثانی نظامی دہلوی بلاشبہ دہلوی تہذیب کے آخری کھیپ میں سے تھے۔ ایک صوٖفی کی حیثیت سے جو ان کی معتبریت تھی اس کی مثال ہندوستان کی مختلف یونیورسٹیوں میںاور بین الاقوامی سطح ہر ان کی تصوف کے موضوع پر دی گئی تقاریر ہیں۔ دہلوی تہذیب اور کھانوں کے معاملے میں ان کی دسترس اور جانکاری کی ایک اہم مثال یہ ہے کہ اکثر اداروں کی طرف سے ہوٹل مینجمنٹ کے طلباء کی تربیت اور رہنمائی کے لیے دہلوی دسترخوان اور نشست وبرخاست کے موضوع پر لیکچرز کرائے گئے ہیں۔ خواجہ صاحب مذہبی رواداری اور قومی یکجہتی کے زبردست حامی تھے۔ ہندوستان میں سب سے مضر بیماری فرقہ واریت کو مٹانے کی جدوجہد میں نامور آریہ سماجی رہنما سوامی اگنی ویش اور دوسرے اہم ہندو رہنماؤں کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگ آپ سے عقیدت رکھتے تھے۔ آپ کی ہمہ گیر قومی وسماجی خدمات کے اعتراف میں حکومت دہلی نے دہلی گورو(فخردہلی) کے اعزاز سے نوازا۔ اس طرح خواجہ صاحب میں ایک ادیب، صوفی،دہلوی تہذیب کے نمائندے کی تمام خوبیاں موجود تھیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |