قصہ کہنا ،سننا،لکھنا اور پڑھنا انسان کی سرشت میںداخل ہے۔ہر عمر کے انسان کو کسی نہ کسی شکل میں قصے کہانیوں سے دلچسپی ہوتی ہے۔قصہ کو انسانی زندگی میں بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔انسان کو نشونما میں اس نے نمایاں رول ادا کیا۔انسان کو فرحت و سکون کے لمحات دئیے،اس کی تلخ و ناگوار زندگی کو خوش گوار بنایا۔افسانے کی بنیادی غرض اگر چہ دل بہلانا اور مسرت و اِنبساط کا سامان فراہم کرنا ہے۔بقولِ مجنون گورکھپوری:
ـ’’افسانہ،افسانہ ہے۔اور اس کی غایت جی بہلانا اور تھکان دور کرنا ہے۔ ‘‘ ؎ ۱
( بحوالہ : افسانہ اور اس کی غایت ۔مجنون گورکھپوری،ص :۴)
مگر افسانے کی دیگر خصوصیات بھی کم اہمیت کی حامل نہیں۔انسانی زندگی کے سیاسی ،سماجی،معاشرتی،انفرادی اور اجتماعی پہلو کو سمجھنے کی کوشش اور دنیا سے قریبی تعلق پیدا کر کے زندگی کو سمجھنے اور اس کو بہتر طور سے گزارنے کا ہنر جس طور سے افسانوی ادب میں ملتا ہے کوئی دوسری صنف اس خصوصیت کی متحمل نہیں ہو سکتی۔اخلاقی نقطہ نظر سے ان قصوں کی اہمیت کم نہیں۔ایک فلسفی کا قول ہے۔کہ دنیا نے آج تک جتنے بھی اخلاقی سبق سیکھے ہیں وہ قصے،کہانیوں،حکایت اور تمثیل کے پیرائے میں سیکھتے ہیں۔کیوں کہ براہ راست نصیحت کی باتیں سیکھنے سے انسان قاصر رہتا ہے۔
افسانہ کی تعریف کے حوالے سے مختلف آرائ سامنے آرہی ہیں۔اس لیے اس کی جامع تعریف مشکل ہے۔تا ہم،ہم کہ سکتے ہیں،کہ افسانہ ایک خاص پسِ منظر میں کسی خاص یا عام واقعات یا تصورِ زندگی کے کسی پہلو کو فنکارنہ انداز میں پیش کرنے کا نام ہے۔افسانہ اختصار کا متقاضی ہوتا ہے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس میں قصہ ،پلاٹ،کردار نگاری،وحدت تاثر اور اسلوب کی چاشنی بھی از حد ضروری ہے۔انِ سب اصول وضوانط کے باوجود افسانے کا فن جامد ساکن نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ اردو افسانے کے لیے نئے بدلتے تصورات کا مرہونِ منتّ ہے۔یہ لازمی نہیں کہ ایک افسانہ نگار انہی قواعد وضوانط کو افسانہ لکھتے وقت پیش ِ نظر رکھے بلکہ وہ خود بھی محسوس کر سکتا ہے۔ان محسوسات کا دارمدار افسانہ نگار کی ذہنی صلاحیتوں پر ہے کہ وہ کسی صورت کی تخلیق پیش کرتا ہے۔ ( یہ بھی پڑھیں منٹو کا تخلیقی جہان – امتیاز سرمد )
اُردو افسانے کے آغاز کے حوالے سے اگر چہ سجاد حیدرؔیلدرم،نیاز فتح ؔپوری،علامہ راشدؔالخیری اور خواجہ حسن ؔنظامی کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔لیکن اردو افسانے کی ابتدائ کا سہرا حقیقتاً منشی پریم چند ہی کے سر بندھتا ہے۔وجہ یہ ہے کہ انہوںنے نہ صرف تواثر سے افسانے لکھے ،بلکہ اس کے ارتقائی سفر میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔یہ انہی کا دم ہے تا کہ اردوافسانہ نئی تخلیق فضا اور ماحول سے آشنا ہوا۔ڈاکٹر انور سید لکھتے ہیں:کہ
’’یہ پریم چند ہی ہیں۔جو اردو افسانے کو داستانی ماحول سے الگ کر کے زندگی کے قریب لائے۔
ان کے ہاں ہندوستانی معاشرہ اپنے حقیقی روپ میں نظر آتا ہے۔ ‘‘ ؎ ۲
بحوالہ: اردو ادب کی تحریکیں۔ڈاکٹرؔ انور سید، ص :۵۰۷)
ہر عہد اپنے ساتھ نئے مسائل اور نئے موضوعات لے کر آتا ہے۔جب جب زمانے نے کروٹ لی ہے موضوعات میںبھی تبدیلی آئی ہے۔۔۔کچھ روایت پرست ادیب نئے موضوعات کو بہ آسانی قبول نہیں کرتے ہیں۔لیکن عام طور پر ادیب ،چونکہ زمانے کا نبض شناس اور عوام کی بہ نسبت کہیں زیادہ حساس اور باریک بین ہوتا ہے۔اس لیے سماج کے دوسرے افراد کے مقابلے میں بہت جلد بدلتے ہوئے حالات کو سمجھ لیتا ہے۔اور نت نئے پیدا ہونے والے مسائل سے موضوعات کا انتخاب کر لیتا ہے۔اردو افسانے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔۔۔پریم چند نے اپنے عہد کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے یلدرم کی رومانی فضا کو بدلا۔اور دیہات ،کسان،مزدور،نچلے طبقے کے مسائل ،حکومت سے بیزاری ،ظلم و استحصال کے خلاف صدائے احتجاج اور غربت و افلاس سے پیدا ہونے والی ہے۔حسی جیسے موضوعات پر طبع آزمائی کی۔۔۔ اس کے بعد ترقی پسندتحریک کا آغازہوا۔اور ایک بار پھر زمانے کے ساتھ ساتھ مسائل میں تغیر پیدا ہوا۔جس کے نتیجے میں افسانوں کے موضوعات بھی بدل گیے۔
موضوعات کی تبدیلی سے مراد یہ نہیں کہ زمانہ بدلتے ہی آسمان سے کچھ نئے مسائل ٹپک پڑے اور ایک دم نئے موضوعات پر افسانے لکھے جانے لگے۔اور زمانہ بدلنے سے یہ مراد نہیں ،کہ کسی خاص وقت،خاص تاریخ یا خاص سنِ میں اچانک زمانہ بدل گیا۔۔۔یہ ظاہر ہے ہر چیز میں تغیر بتدریج ہی ہوتا ہے۔اور جس وقت تغیر کا یہ عمل جاری رہتا ہے اور جب تک کوئی واضع تبدیلی سامنے نہ آ جائے۔۔نیز کہ اختصار کے ساتھ یہ کہ،مسائل میںجب بھی تبدیلی آتی ہے،افسانہ نگار کا نظریہ بھی بدل جاتا ہے۔اور وہ ایک نئے زاویہ نگاہ سے زمانے کو دیکھنے لگتا ہے۔ان بدلتے ہوئے موضوعات کے سلسلے میں رشید ا مجد کچھ اس طرح لکھتے ہیں:کہ
’’ گزشتہ دس بارہ سالوں میں سماجی،سیاسی اور فکری سطح پر جو تبدیلیاں آئی ہیں۔انہوں نے زندگی کا سارا
ڈانچہ بدل دیا ہے۔ہم نئے نئے مسائل سے دو چار ہوئے ہیں۔ان مسائل کا حل پرانوں میں ہے۔نہ،
ان کے اصول اس سلسلے میں ہماری کوئی مدد کر سکتے ہیں۔مثال ے طور پر مدرس ایک قابلِ احترام شخصیت
ہے۔مدرس پرانے معاشرے میں بھی تھا۔لیکن اس دور میں حالات اور معاشرے کے پیٹرن کی وجہ سے
ا س کی شخصیت کا گناہ آلود ہونا بہت مشکل تھا۔ چنانچہ پرانے ادب میں مدرس قابلِ احترام شخصیت بن
کر وارد ہوتا ہے ۔لیکن نئے معاشرے نے جہاں بہت سی بیماریاں پھیلائی ہیں۔ان میں سب سے بڑا
المیہ یہ ہے کہ ہماری مکتب بھی منافقت کی اس لعنت سے محفوظ نہیںرہ سکے،چناچہ مکتب کی ان لعنتوں
کا سراغ لگانا اور مدرس کی بد دیانتی کو بے نقاب کرنا نیا موضوع ہے۔‘‘ ؎۳
( بحوالہ : افسانے کے نئے موضوعات ۔رشید ا مجد، ص :۷۸۲)
اگر اس موضوع پر کوئی افسانہ نگار افسانہ لکھے اور یہ کہا جائے کہ یہ موضوع بہت پرانا ہے،اس پر بہت سے افسانے لکھے جا چکے ہیں،تو یہ کہنا درست نہ ہو گا کیوں کہ فی زمانہ مدرس کے تئیں رئویہ بدلہ ہے،نقطہ نظر بدلہ ہے،۔۔لہذا یہ موضوع ہر چند کہ پرانا ہے۔مگر نیا ہی کہلانے کا مستحق ہے۔ پریم چند کے یہاں عورت کا جو تصوّر تھا،ترقی پسند تحریک کے دور میں بدل گیا۔۔ پریم چند عورت کو دیوی کے روپ مین پیش کرتے تھے۔اس زمانے کا یہی تقاضہ تھا ۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس دور میں ہر شخص عورت کو دیوی ہی سمجھتا تھا یا اس کا استحصال نہیں ہوتا تھا۔۔ عورت پر مظالم بھی ہوتے تھے ،عورت کو سستی ہونا پڑتا تھا ،بیوہ ہو جانے کے بعد اس کی زندگی جہنم کا نمونہ بن جاتی تھی،اسی غیر انسانی طرزِ عمل کا ختم کرنے کے لیے پریم چند نے عورت کے تقدّس کو ابھارا اور نتیجتاً ان کے ناول اور افسانوں میں عورت دیوی کی شکل میں نمودار ہوئی۔جب کہ ترقی پسند مصنفین نے عورت کا ایک فعال کردار خلق کیا۔۔جب اردو افسانہ نگاری کا آغاز ہواتو شروع میں حقیقت پسندی ،اصلاح پسندی اور رومانیت گو یا تین رجحانوں کو برتا جا رہا تھا ۔اس کے بعد ۱۹۳۶ئ میں ترقی پسند تحریک کے آغاز نے ہمارے افسانہ نگاروں کو تخیل کی فضا سے باہر نکال کر بہت سارے سماجی،سیاسی اور نفسیاتی موضوعات کے قریب لا کھڑا کیا ۔لیکن اردو افسانے کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے،کہ رومانی اور اصلاحی پہلو کے ساتھ ساتھ اردو افسانے کے ارتقائ میں فکری اعتبار سے بعض بڑے رجحانات نے بھی اپنا رول ادا کیا۔
ترقی پسند تحریک کا آغاز آزادی سے تقریباً ایک دہائی پہلے ۱۹۳۶ئ میں شروع ہوئی۔لیکن اس تحریک کے اثرات آزاد کے بعد بھی دکھائی دیتے ہیں۔اس لیے کہ آزادی کے بعد سے پہلے کے مسائلکو یکسر ختم نہیںکر دیتا۔ترقی پسند تحریک سے متاثر وہ افسانہ نگار کو آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد بھی اردو افسانے کی آبیاریکرتے رہے۔ان میں حیات اللہ انصاری،سعادت حسن منٹو،کرشن چندر،راجندر سنگھ بیدی،عصمت چغتائی،اوپندر ناتھ اشک،اختر اورینوی،اخترانصاری،احمدندیم قاسمی،خواجہ احمد عباس،دیوندر ستیارتھی،بلونت سنگھ،ہاجرہ مسرور،اور خدیجہ مستور کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔ان ترقی پسند افسانہ نگاروںنے اپنے افسانوں میں جہاں ایک طرف کارل مارکس کے نظریات پر مبنی ترقی پسند تصّورات کی آبیاری کی وہیں دوسری طرف اردو افسانے کے ذخیرے میں بھی قابلِ قدر اضافہ کیا۔حالاں کہ کارل مارکس کے نظریات کا تعلق براہ راست ادب سے نہیں تھا۔لیکن ترقی پسند ادب نے فرد سے ہٹ کر جماعت سے اپنا رشتہ استوار کیا۔اور شعوری طور پر کسان اور مزدور کی محرومیوں کی ترجمانی کی اور اپنے مقصد اور نظریات کی بنیاد کارل مارکسکے جدلیاتی مادیت کے اصولوں پر رکھی۔اس طرح ترقی پسند تحریک کے دوران ایک عام انسان ادو افسانے کا کردار بنا اور اس کے مسائل کی ترجمانی بڑی چابک دستی کے ساتھ کی گئی۔ (یہ بھی پڑھیں نیا اردو افسانہ:علامت سے حقیقت تک (حصہ 2)- ڈاکٹر محمد غالب نشتر )
٭۔ اردو افسانہ میں ترقی پسند تحریک کے مقاصد:۔
٭ترقی پسند تحریک نے اپنے منشور کے ذریعے جن مقاصد کا بیان کیا وہ کچھ یوں ہیں۔کہ اس تحریک کا مقصد۔
۱۔آرٹ اور ادب کو رجعت پرستوں کے چنگل سے نجات دلانا اور فنوں لطیفہ کو عوام کے قریب لانا ہے۔
۲۔ادب میں بھوک،افلاس،غربت،سماجی پستی اور سیاسی غلامی سے بحث کرنا۔
۳۔واقعیت اور حقیقت نگاری پر زور دینا۔بے مقصد روحانیت اور بے روح تصّوف پرستی سے پرہیز کرنا۔
۴۔ایسی ادب تنقید کو رواج دینا جو ترقی پسند اور سائیٹیفک رجحانات کو فروغ دے۔
۵۔ماضی کو اقدار اور روایات کو ازسر نو جائزہ لے کر صرف ان اقدار اور روایتوں کو اپنانا جو صحت مند ہوں اور زندگی کی تعمیر میں کام آسکتی ہوں۔
۶۔بیمار فرسودہ روایات جو سماج و ادب کی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔ان کو ترک کرنا وغیرہ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس تحریک نے جن مقاصد اور موضوعات کا تعین کیا تھا۔ان کے حصول میں یہ لوگ ادبی سطح پر کس حد تک کامیاب ہوئے۔اور حصول مقاصد کی کوشش میںفن کے تقاضے کہاں تک ملحوظ رکھے۔اس نقطہ نظر سے جب ہم جائزہ لیتے ہیں۔تو احساس ہوتا ہے کہ اس تحریک نے جو بلند بانگ دعوے کیے تھے،ان کے مقابلے میں ان لوگوں نے جو ادبی سرمایہ پیش کیا۔وہ مایوس کن ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس تحریک میں دو قسم کے لوگ شامل تھے۔ایک وہ لوگ جو تحریک کے آغاز سے پہلے بھی اچھے فنکار تھے اور اس کے خاتمے کے بعد بھی فنکار رہے۔۔۔
لیکن ،اس میں بھی کوئی شک نہیں ۔کہ ترقی پسند تحریک نے اردو کو بہت کچھ دیا۔شاعری،افسانے،ناول،ڈرامے اور تنقید پر بڑے اثرات مرتب ہوئے۔
٭ ۔ ترقی پسند افسانہ اور افسانہ نگار:۔
پریم چند:۔ترقی پسند افسانے کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر انور سید لکھتے ہیں۔کہ ترقی پسند افسانے کی روایت کا رشتہ براہ راست پریم چند کی حقیقت نگاری سے وابستہ ہے۔پریم چند گو کہ اردو کے پہلے افسانہ نگار نہیں ہیں۔لیکن افسانہ نگاری میں اس اعتبار سے ان کو ایک بلند مقام اور مرتبہ حاصل ہے۔کہ انہوں نے اردو افسانے کو داستانوی ماحول سے نکال کر اس کا رشتہ زندگی سے قائم کیا۔پریم چند کے افسانوں میں ہندوستانی معاشرہ اپنے حقیقی روپ میں نظر آتا ہے۔ہندوستانی معاشرے کی حقیقی تصویر پیش کر نے کے ساتھ ساتھ پریم چند نے انسانی عظمت اور محنت کو بھی بلند مقام عطا کرنے کی سعی کی۔ان کے مشہور افسانوں میں سوا سیر گیہوں،کفن،زیور کا ڈبہ،وغیرہ شامل ہیں۔
کرشن چندر کی ابتدائی شہرت اور مقبولیت کا سبب ان کا رومانی طرزِ نگارش ہے۔وہ طبعاً رومانی فنکار تھے۔لیکن ان کا کمال یہ ہے کہ وہ زیادہ دیر تک اس رومانی فضائ میں کھوئے نہیں رہے۔اور جلد ہی اس فضا سے نکل کر حقائق کی دنیا کی طرف گامزن ہو گئے۔چنانچہ ــــ’’طلسمِ خیال‘‘کے بعد ان کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ’’نظارے‘‘کے نام سے شائع ہوا۔تو اس مجموعے کے افسانوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے زاویہ نظر میں بڑی سرعت کے ساتھ تبدیلی آرہی تھی۔اور’’ان داتا‘‘میں تو کرشن چندر رومان پرست کے بجائے تلخ حقیقت نگار اور انقلاب پسند کی حیثیت سے جلوہ گر ہیں۔۔۔ (یہ بھی پڑھیں مرزا حامد بیگ کے افسانوں میں روایت کی بازیافت – ڈاکٹر شہناز رحمن )
اس کے بعد بہت سارے افسانہ نگاروں نے اپنے فن کا اظہار بڑے دلچسپ انداز میں کیا ہیں۔جس کی وجہ سے اردو افسانہ نگاری میں ایک نئی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔اور معاملہ بندی اور عبارت آرائی کو ترک کرنا پڑا۔جنہوں نے اس صنف میں بڑھ چڑھ کر کام کیا ہے۔ان کا نام کچھ یوں ہیں:۔سعادت حسن ؔمنٹو،عصمت چغتائیؔ،راجندر سنگھ بیدیؔ،احمد علیؔ،رشید جہاںؔ،اختر حسین رائے پوریؔ، خواجہ احمدعباسؔ،احمد ندیم قاسمیؔ،عزیز احمدؔ،حیات اللہ انصاریؔ۔بلونت ؔسنگھ وغیرہ کا نام قابلِ فخر ہیں۔
ان تمام افسانہ نگاروں نے عمدہ افسانے تخلیق کیے۔اردو افسانے کی ترقی میں ترقی پسندتحریک کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔اس تحریک کے زیر اثر اردو افسانہ ترقی کی نئی منزلوں تک پہنچا۔اس طرح دیکھا جائے تو اس تحریک کا دور اردو افسانے کا عہدِ زرین تھا۔
Bilal Ahmad Bhat
Research Scholar
Mobile no:-7006412793
Email Adress:- bhatbilala@gmail.com
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |